بسم اللہ و الصلاۃ و السلام علی من لا نبی بعدہ ُمنافق اور منافقت کی نشانیاں
(((((أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ::: چار (خصلتیں ) جس میں ہو وہ خالص منافق ہے ، اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اُس میں نفاق کی خصلت ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے ، (۱) جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت کرے (۲) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۳)جب وعدہ کرے تو وعدہ خِلافی کرے(۴)جب جھگڑا کرے تو پھٹ پڑے (یعنی بے حیائی پر اتر آئے) )))))متفقٌ علیہ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا
اور اِرشاد فرمایا(((((ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ فَهُوَ مُنَافِقٌ، وَإِنْ صَامَ وَصَلَّى وَ حَجَ وَ أعتمَرَ وَقَالَ إني مُسْلِمٌ: مَنْ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ:::
،جس میں تین (خصلتیں) ہوں وہ منافق ہے خواہ نماز پڑھتا ہواور روزہ رکھتا ہواورحج کرتا ہواور عمرہ کرتا ہواور کہتا ہو کہ میں مسلمان ہوں ،(یہ منافق وہ ہے) جو (۱)بات کرے تو جھوٹ بولے (۲)وعدہ کرے تو وعدہ خِلافی کرے (۳)جب اسے امانت داربنایا جائے تو خیانت کرے))))) صحیح الجامع الصغیر /حدیث 3043
اور اِرشاد فرمایا (((((إِنَّ الْحَيَاءَ وَالْعَفَافَ وَالْعِيَّ عن اللِّسَانِ لا عِيَّ الْقَلْبِ،وَالْعَمَلَ مِنَ الإِيمَانِ، وَإِنَّهُنَّ يَزِدْنَ فِي الآخِرَةِ،وَيُنْقِصْنَ مِنَ الدُّنْيَا، وَمَا يَزِدْنَ فِي الآخِرَةِ أَكْثَرُ مِمَّا يُنْقِصْنَ فِي الدُّنْيَا ؛ وَإِنَّ الشُّحَّ والفُحشَ وَالْبَذَاءَ مِنَ النِّفَاقِ، وَإِنَّهُنَّ يَزِدْنَ فِي الدُّنْيَا، وَيُنْقِصْنَ مِنَ الآخِرَةِ، وَمَا يُنْقِصْنَ فِي الآخِرَةِ أَكْثَرُ مِمَّا يَزِدْنَ فِي الدُّنْيَا:::
::::::: صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال میں سے :::::::بے شک حیاء اورعفت اور ز ُبان کی کم علمی نہ کہ دل کی کم علمی، اور (اس کے مطابق)عمل اِیمان میں سے ہیں ، اور بے شک یہ سب آخرت (کی خیر)میں اضافہ کرتے ہیں ، اور دُنیا (کے شر )میں کمی کرتے ہیں، اور جو کچھ یہ آخرت میں اضافہ کرتے ہیں وہ دُنیا میں کمی سے زیادہ ہے ، اور بے شک لالچ ، اور بے حیائی،اور بے ہودہ گفتگو نفاق میں سے ہیں اور یہ سب دُنیا (کے شر)میں اضافہ کرتے ہیں اور آخرت (کی خیر)میں کمی کرتے ہیں اور جو کچھ یہ آخرت (کی خیر)میں سے کم کرتے ہیں وہ اس سے زیادہ ہے جو یہ دُنیا میں سے بڑھاتے ہیں ))))) سلسلہ الاحادیث الصحیحہ/حدیث3381،
دوسرے بلا فصل خلیفہ امیر المومنین عمرابن الخطاب رضی اللہ عنہما سےکا کہنا ہے کہ میں نے اپنی انگلیوں کی تعداد سے زیادہ دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ (((((إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ الْمُنَافِقَ الْعَلِيمَ ::: میں اس اُمت پر صاحبء علم منافقوں کے بارے میں بہت ڈر رتا ہوں )))))
پوچھا گیا ، منافق صاحبء علم کیسے ہو سکتا ہے ؟
ارشاد فرمایا (((((عَالِمُ اللِّسَانِ، جَاهِلُ الْقَلْبِ وَالْعَملِ ::: ز ُبان کا عِالم لیکن دل اور عمل سے جاھل )))))الاحادیث المختارہ /حدیث 236/ روایۃ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ُ /ابو عثمان عبدالرحمٰن بن مل النھدی عن عمر رضی اللہ عنہ ُ ،
صاحبء کتاب امام محمد بن عبدالواحد المقدسی کا کہنا ہے کہ اسے مخلتف اسناد سے روایت کیا گیا ہے ، جن میں مرفوع بھی ہیں اور موقوف بھی ہیں اور زیادہ درست یہ ہے کہ یہ موقوف ہے ، یعنی عمر رضی اللہ عنہ ُ کافرمان ہے ،
حذیفہ ابن الیمان رضی اللہ عنہ ُ سے پوچھا گیا کہ """ منافق کون ہے ؟ """
فرمایا """ الَّذِي يَصِفُ الْإِسْلَامَ وَلَا يَعْمَلُ بِهِ::: وہ جو اسلام کا دعوی دار ہو لیکن اس پر عمل نہ کرتا ہو"""
::::::: عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ """ ہم حکمرانوں اور سرداروں کے پاس جاتے ہیں تو کچھ اور بات (یعنی ان کی تعریف ہی)کرتے ہیں اور جب وہاں سے نکلتے ہیں تو اس بات کے خلاف بات کرتے ہیں """ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا (((((كُنَّا نَعُدُّهَا نِفَاقًا::: ہم اسے منافقت میں گنا کرتے تھے))))) صحیح البخاری /کتاب الاحکام/باب 27،
لنکمختلف الفاظ میں یہ اثر بہت سی کتابوں میں صحیح اسناد کے ساتھ مروی ہے ، مثلاً سنن ابن ماجہ/حدیث 3975 /کتاب الفتن /باب 12،مسند احمد /حدیث 5829 ، وغیرھا۔
ان نشانیوں کی روشنی میں ہم سب ذرا اپنے بارے میں سوچیں تو کہ ہم کونسی سی نشانیاں پائی جاتی ہیں ، اور ہمارے اَرد گِرد کس کس میں کیا کیا نشانی پائی جاتی ہے ، اللہ ہم سب کو منافقت اور منافقین سے محفوظ رکھے، و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔