• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منهج سلف صالحين اور اس سے انحراف

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ایک کتاب کا آج سرسری مطالعہ کیا اس موضوع پر اچھی قابل قدر تحقیق ہے
http://waqfeya.com/book.php?bid=6903
  • زوابع في وجه السنة قديماً وحديثاً
  • صلاح الدين مقبول أحمد
  • مجمع البحوث العلمية الإسلامية - الهند
منھج سلف پر ایک تحقیقی اور عصری کیفیات پر مشتمل کتاب ہے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بلکل جناب! امام ابو حنیفہ اہل الرائے کے امام و فقیہ ہیں، ہم نے اس کا انکار نہیں کرتے، امام ذہبی نے بھی امام ابو حنیفہ کے امام اہل الرائے ہونے کی تصریح کی ہے، اس بات کا تو کسی کو انکار ہی نہیں:

شکر ہے اتنی بات کا تو انکار نہیں کرتے۔ ورنہ ممکن تھا۔۔۔۔۔۔۔


امام ذہبی کے امام ابو حنیفہ کو فقیہ کہنے پر ہی اگر امام ابو حنیفہ کی فہم و فقہ معتبر قرار پاتی ہے،تو پھر محمد بن ادریس بن احمد العجلی الحلی رافضی کی فہم وفقہ کا معتبر ہونا بھی آپ کو ہی مبارک ہو، کیونکہ امام ذہبی نے اس رافضی کو بھی علم فقہ میں عدیم النظیر قرار دیا ہے۔
مُحَمَّد بْن إدريس بْن أَحْمَد بْن إدريس، الشيخ أبو عبد الله العجلي الحلي، فقيه الشيعة وعالم الرافضة في عصره. [المتوفى: 597 هـ]
كان عديم النّظير فِي عِلم الفِقه، صنَّف كتاب الحاوي لتحرير الفتاوي، ولقّبه بكتاب السّرائر، وهو كتاب مشكور بين الشّيعة، وله كتاب خلاصة الاستدلال، وله منتخب كتاب التبيان فقه، وله مناسك الحجّ، وغير ذلك فِي الأُصول والفروع، قرأ على الفقيه راشد بْن إِبْرَاهِيم، والشّريف شرف شاه.
وكان بالحِلَّة، وله أصحاب وتلامذة، ولم يكن للشّيعة فِي وقته مثله، ولبعضهم فِيهِ قصيدة يفضّله فيها على مُحَمَّد بْن إدريس الشّافعيّ رَضِيَ اللَّه عَنْهُ، وما بينهما أفعل التفضيل.
محمد بن ادریس بن احمد بن ادریس، الشیخ ابو عبد اللہ العجلی، الحلی، فقیہ شیعہ اور اپنے وقت کا رافضیوں کا عالم۔
علم الفقہ میں عدیم النظیر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1120 جلد 12 تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الغرب الإسلامي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 314 جلد 42 تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتاب العربي، بيروت

ویسے جناب استدلالات بہت عمدہ فرمانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ابن داود صاحب! لکھنے سے پہلے کسی استاد کی خدمت میں جا کر اپنی بات کی اصلاح کروا لیا کریں۔ ذہبی کہتے ہیں کہ فقہ کی امامت ان پر مسلم ہے۔ اور آپ کہتے ہیں کہ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کی فہم و فقہ معتبر بھی ہے۔
یعنی آپ کا مطلب یہ ہوا کہ امام ابو حنیفہ فقہ کے ایسے امام ہیں جن کی فقہ میں امامت مسلم ہے لیکن فقہ معتبر نہیں۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ تو پھر ذہبی کے نزدیک امامت مسلم کس لیے ہے؟ اپنی کتب بھرنے کے لیے؟


ہاں ہو سکتا ہے آپ یہ کہیں کہ "آپ کلام کو سمجھے نہیں" (جو کہ آپ کا تکیہ کلام ہوتا جا رہا ہے) میری مراد یہ ہے کہ ان کے اور دیگر ائمہ کے اختلاف میں علامہ ذہبیؒ امام شافعیؒ کی فہم و فقہ پر عمل کرتے ہیں، اگر ان کی رائے معتبر ہوتی تو ان کی رائے کو اختیار کرتے۔
اگر آپ نے یہ ارشاد فرمایا تو ہم بھی عرض کریں گے کہ یہ بات آپ کی جہالت پر مبنی ہے۔ آپ لوگوں نے مسئلہ رفع یدین میں عبد اللہ بن مسعود رض کی فقہ کو اختیار نہیں کیا تو اس کا کیا آپ لوگ یہ مطلب لیتے ہیں کہ ان کی فقہ ہی غیر معتبر ہے؟ صحابہ میں جن مسائل میں اختلاف چلا آ رہا ہے ان میں امام شافعی اور امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ نے اگر کسی ایک صحابی کی رائے کو اختیار کیا ہے تو اس کا مطلب کیا آپ کے نزدیک یہ ہوگا کہ ان ائمہ کے نزدیک دیگر صحابہ کرام کی فہم ہی معتبر نہیں تھی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہاں یہ کیوں ہوگا؟؟؟
ابن داود صاحب! بھلا یہ قانون کس نے بنایا ہے کہ کسی کے نزدیک دوسرے کی فقہ کا اعتبار اسی وقت سمجھا جائے گا جب وہ اپنے منہ سے کہے کہ اس فلاں کی فقہ میرے نزدیک معتبر ہے؟؟؟ کہیں یہ آپ کے اس نئے علم حدیث کا کوئی نیا قاعدہ تو نہیں؟
ابن داود صاحب! آپ کس امام کی فقہ کو معتبر مانتے ہیں؟؟؟ کیا آپ ذہبی کے الفاظ میں مجھے دکھا سکتے ہیں کہ انہوں نے صراحتا کہا ہو کہ ان کی فقہ معتبر ہے؟؟؟
ارے ہاں! آپ کے نزدیک تو اہل الحدیث کی فقہ (ہی) معتبر ہے نا؟؟ کتنے ائمہ سے اس جملے کو ثابت کر سکتے ہیں؟؟؟ اگر نہیں کر سکیں نا تو پھر سمجھ لیجیے گا کہ کھوٹ آپ کی اپنی عقل میں ہے اور ذہبی کے ان الفاظ سے فقہ کا معتبر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ہاں کسی مسئلہ میں مرجوح ہو، یہ الگ بات ہے۔


اور یہ جو آپ نے حوالہ دیا ہے شیعہ عالم کا، یہ نہ ہی دیتے تو اچھا تھا۔ آپ کی کم فہمی اور انتشار ذہنی کا ثبوت دیتا ہے۔ ارے ابن داود بھائی! کیا یہ بھی بھول گئے کہ فقہ اور عقیدہ میں فرق ہوتا ہے؟؟ بیشک ابتدائی زمانہ میں یہ فرق نہیں کیا جاتا تھا لیکن ذہبیؒ کے زمانے سے بہت پہلے فقہ اور عقیدہ الگ الگ موضوعات قرار پا گئے تھے اور الگ الگ کتب لکھی جاتی تھیں۔ اور شیعیت کا مسئلہ عقیدہ کا مسئلہ ہے فقہ کا نہیں۔ فقہ میں ان کی فقہ کی اگر ذہبی نے تعریف کی ہے تو یقینا ان کے نزدیک معتبر قرار پائے گی، البتہ مرجوح ہوگی۔
امام ابن تیمیہ ؒ نے مجموع الفتاوی میں شیعہ کا قول ابن عباس رض کے قول کے ساتھ ذکر کیا ہے:
والتمتع جائز باتفاق أهل العلم. وإنما كان طائفة من بني أمية وغيرهم يكرهونه. وقد قيل: إن الذين كرهوا ذلك إنما كرهوا فسخ الحج إلى التمتع فإن الناس يقدمون من الآفاق فيحرمون بالحج فمن جوز الفسخ جوز لهم المتعة ومن منع من ذلك منعهم منه. والفسخ فيه ثلاثة أقوال معروفة: قيل هو واجب كقول ابن عباس وأتباعه وأهل الظاهر والشيعة. وقيل: هو محرم كقول معاوية وابن الزبير ومن اتبعهما كأبي حنيفة ومالك والشافعي. وقيل: هو جائز مستحب وهو مذهب فقهاء الحديث أحمد وغيره
مجموع الفتاوی، 26۔49، ط: مجمع الملک فہد
اگر شیعہ کی فقہ غیر معتبر تھی تو ابن تیمیہؒ کو ان کے قول کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کہیں عیسائیوں یا یہودیوں کے اقوال نقل کیے ہیں؟؟ اس لیے عرض ہے کہ شیعہ کی فقہ معتبر ہے لیکن مرجوح ہے۔ اور عقیدہ کا مسئلہ الگ ہے فقہ کا الگ۔
آگے اس جگہ تو اہل الحدیث کے ایک گروہ کے ساتھ بھی ذکر کیا ہے:
وإيجاب المتعة هو قول طائفة من أهل الحديث والظاهرية: كابن حزم وغيره وهو مذهب الشيعة أيضا
26۔51
یعنی ان کی فقہ بھی ذکر کی جاتی ہے۔ فلیتدبر


ایک تو آپ پہلے ہم پر غلط بات منسوب کرتے ہو، پھر ضد کی تہمت بھی دھرتے ہو!
امام ابوحنیفہ کو فقیہ ماننے کا ہم کب انکار کیا ہے؟
امام ذہبی نے بھی انہیں فقیہ کہا ہے اور یہ ہم تسلیم کرتے ہیں!
آپ خواہ مخواہ ہم پر غلط باتیں کیوں منسوب کرتے ہو!
کیا جھوٹ بولنے کو شیعہ کی طرح عبادت سمجھ بیٹھے ہو!
ہم بھی امام ابو حنیفہ کو اہل الرائے کا امام و فقیہ مانتے ہیں او امام ذہبی بھی امام ابو حنیفہ کو اہل الرائے کا امام وفقیہ قرار دیتے ہیں ۔
فقیہ تو مانتے ہیں لیکن فقہ معتبر نہیں۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
بالکل ایسے ہی جیسے کوئی کہے کہ ابن داود صاحب مرد تو ہیں لیکن ان کی مردانگی معتبر نہیں۔


ہاں ذرا سی گڑبڑ کر گئے جناب!
امام ذہبی بھی امام ابو حنیفہ کو اہل الرائے کا امام وفقیہ قرار دیتے ہیں ۔
علامہ ذہبی نے جب امام صاحب کی فقاہت مسلم ہونے کا ذکر کیا ہے تو وہاں ایسی کوئی قید نہیں لگائی۔
قُلْتُ: الإِمَامَةُ فِي الفِقْهِ وَدَقَائِقِه مُسَلَّمَةٌ إِلَى هَذَا الإِمَامِ، وَهَذَا أَمرٌ لاَ شَكَّ فِيْهِ.
وَلَيْسَ يَصِحُّ فِي الأَذْهَانِ شَيْءٌ ... إِذَا احْتَاجَ النَّهَارُ إِلَى دَلِيْلِ
سیر اعلام النبلاء، 6۔403، ط: الرسالۃ

بلکہ علامہ ذہبی نے امام ابو حنیفہؒ کو پوری ملت (یعنی ملت اسلامیہ) کا فقیہ قرار دیا ہے:
أَبُو حَنِيْفَةَ النُّعْمَانُ بنُ ثَابِتِ التَّيْمِيُّ
الإِمَامُ، فَقِيْهُ المِلَّةِ، عَالِمُ العِرَاقِ،
سیر اعلام النبلاء، 6۔390، الرسالہ


اور اپنے زمانے کے علماء کا فقہ میں سردار کہا ہے:
وَسَادَ أَهْلَ زَمَانِهِ فِي التَّفَقُّهِ وَتَفْرِيعِ الْمَسَائِلِ
تاریخ الاسلام، 3۔990، دار الغرب
"اور تفقہ اور مسائل کی تفریع میں اپنے زمانہ والوں کے سردار بن گئے۔"


اور رہ گیا مسئلہ امام اہل الرائے کہنے کا۔ تو اگرچہ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہ اہل الرائے و اہل الحدیث دونوں کے امام ہیں (وہ آپ کے والے اہل الحدیث نہیں جن کا علم حدیث نیا ہے، حقیقی اہل الحدیث کی بات کر رہا ہوں۔)
لیکن اس میں بھی آپ نے اس کتاب کا حوالہ دیا ہے جس میں امام ابو حنیفہؒ کا ترجمہ ہونے نہ ہونے میں ہی اختلاف ہے۔ یعنی میزان الاعتدال کا۔ بشار عواد معروف اور عبد الفتاح ابو غده كے اقوال تو آپ سے پوشیده نہیں ہوں گے۔ حافظ ابن حجرؒ کو بھی یہ ترجمہ نہیں ملا۔


اس کے علاوہ جن کتب میں ذہبیؒ نے امام کا ذکر کیا ہے ان میں یوں ذکر کیا ہے:
الإِمَامُ، فَقِيْهُ المِلَّةِ، عَالِمُ العِرَاقِ،
سیر اعلام النبلاء، 6۔390، الرسالہ


النُّعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ بْنُ زَوْطِيٍّ، الإِمَامُ الْعَلَمُ، أَبُو حَنِيفَةَ الْكُوفِيُّ، الْفَقِيهُ،
تاریخ الاسلام، 3۔990، دار الغرب


أبو حنيفة الإمام الأعظم فقيه العراق النعمان بن ثابت
تذكرۃ الحفاظ، 1۔126، العلمیۃ


ان میں امام اهل الرائے نہیں کہا بلکہ مطلقا الامام یا الامام الاعظم کہا ہے۔ اور اتنا تو آپ کو پتا ہوگا ہی کہ مطلق کو اس کے اطلاق پر رکھا جاتا ہے۔

ابن داود صاحب! عوام کی آنکھوں میں آپ شاید دھول جھونک سکتے ہوں لیکن ہماری نہیں۔

کیوں میاں! شیعہ روافض کے عقیدہ امامت کی طرح اپنے امام اعظم کے معصوم عن الخطاء کا عقیدہ اختیار کر کے اسلام کو خیر آباد تو نہیں کہہ دیا!
یہ ہوتا ہے عقیدت کا غلو!
امام ذہبی نے تو یہ بات نہیں کہی!
آنکھیں کی جگہ بٹن تو نہیں لگے ہوئے؟ میں نے کب کہا ہے کہ ذہبیؒ نے یہ بات کہی ہے؟ یہ بات میں نے حفص بن غیاث کے قول کے حوالے سے کہی تھی۔ سمجھ نہ آیا کرے تو پوچھ لیا کریں۔


ہاں ! ابن ابی العز نے آپ جیسی فکر رکھنے والے حنفیوں سے متعلق کہا ہے:
وَقد إنحرف فِي شَأْن أبي حنيفَة رَحمَه الله طَائِفَتَانِ: فطائفة قد غلبت فِي تَقْلِيده فَلم تتْرك لَهُ قولا وأنزلوه منزلَة الرَّسُول صلى الله عَلَيْهِ وَسلم.
اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی شان میں دو گروہوں نے انحراف کیا ہے۔ ایک گروہ وہ ہے جس نے ان کی تقلید میں غلو کیا، اور ان کے قول کو نہیں چھوڑا ، اور امام ابو حنفیہ کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بٹھا دیاہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 30 الاتباع - ابن أبي العز الحنفي - عالم الكتب بيروت

ابن ابی العز آپ کے نزدیک "معتبر رائے والے" "اہل الحدیث" سے ہیں؟ اگر نہیں تو غیر معتبر بات کیوں ذکر کرتے ہیں؟ اور اگر ہاں تو پھر میں آگے کلام کرتا ہوں۔


میاں! امام صاحب کی فہم پر شک کیا ! اسے مردود قرار دیا گیا ہے، امام بخاری اور امام شافعی کا حوالہ پیش کیا جا چکا ہے، اور بھی مزید قطار میں ہیں!
ارے رے! گھاس تو نہیں کھا گئے؟؟ امام بخاری نے صرف یہ کہا ہے کہ "وہ ان سے اور ان كی رائے اور حدیث سے خاموش ہو گئے ہیں۔"

کون خاموش ہو گئے ہیں؟ کس کی جرح نقل کی ہے؟ امام بخاری کی مراد اگر محدثین ہیں تو ان کا کسی کی رائے کے بارے میں خاموش ہونے یا جرح کرنے سے کیا تعلق؟ ان کا کام حدیث اور اس سے متعلق چیزوں پر جرح کرنا ہے آراء پر نہیں۔ پھر محدثین میں بھی امام بخاری نعیم بن حماد جیسے حضرات کی صحبت میں رہے ہیں:
وقال العبّاس بن مصعب: وضع كتبا في الرد على أبي حنيفة.
قال الأزديّ: كان يضع الحديث في تقوية السّنّة وحكايات مزوّرة في ثلب أبي حنيفة، كلها كذب، وكان من أعلم الناس بالفرائض. انتهى ملخصا.
شذرات الذہب، 3۔134، دار ابن کثیر
"عباس بن مصعب کہتے ہیں: (نعیم نے) ابو حنیفہ کے رد میں کتابیں گھڑی ہیں۔
ازدی نے کہا: وہ سنت کو مضبوط کرنے کے لیے حدیث گھڑتا تھا اور ابو حنیفہ کی برائی میں جھوٹی حکایات، جو سب کی سب جھوٹی ہیں۔ اور وہ لوگوں میں فرائض کا سب سے زیادہ جاننے والا تھا۔"

اب اس پر آپ بحث کر سکتے ہیں کہ ابو الفتح ازدی نے بشر بن حماد كا قول نقل كیا ہے وغیرہ۔ لیکن اس پر کوئی دلیل نہیں ہے سوائے الفاظ کے ایک جیسا ہونے کے۔ اس کے علاوہ عباس بن مصعب کا ذکر قاسم بن قطلوبغاؒ نے الثقات میں کیا ہے اور انہوں نے بھی نعیم بن حماد کے بارے میں یہ بات ذکر کی ہے۔ امام بخاری کی سکتوا عنہ سے اگر اس طرح کے لوگ ہیں تو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ اس قول میں کتنی مضبوطی ہے۔
اور اگر ان کی مراد کوئی اور ہیں تو اس کوئی اور کی وضاحت آپ کے ذمے!


اور امام شافعیؒ والے حوالوں کا حال ابھی گزرا ہے۔

اور تو اور، امام صاحب کے اپنے شاگردوں نے بھی امام صاحب کی فہم وفقہ کو رد کیا ہے!
إنّهم أدرجوا أبا يوسف ومحمّد في طبقة مجتهدي المذهب، الذين لا يخالفون إمامه في الأصول، وليس كذلك، فإنّ مخالفتَهما لإمامهما في الأصول غير قليلة، حتى قال الإمامُ الغَزاليُّ في كتابه ((المنخول)): إنّهما خالفا أبا حنيفةَ في ثُلُثي مذهبه. انتهى.
۔۔ ۔ قاضی ابو یوسف اور محمد بن حسن شیبانی کو طبقہ مجتہد فی المذہب میں لکھا ہے، جو اپنے امام کی اصول میں مخالفت نہیں کرتے؛لیکن ایسا نہیں ہے، دونوں شاگردوں کی اپنے امام، (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ) سے اصول میں بھی کچھ کم مخالفت نہیں، حتی کہ امام غزالی نے اپنی کتاب ''المخول'' میں کہا کہ انہوں نے اپنے استاذ کے مذہب سے دو تہائی مسائل میں اختلاف کیا ہے۔''
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 08 عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية - أبو الحسنات محمد عبد الحي اللكنوي (المتوفى: 1304هـ) – مير محمد كتب خانه، کراتشي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 08 عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية - أبو الحسنات محمد عبد الحي اللكنوي (المتوفى: 1304هـ) - المطبع اليوسفي، لكنؤ – الهند
تو جناب! آپ کے مطابق تو امام ابوحنیفہ کی فہم و فقہ پر شک سے بڑھ کر اس کو رد کرنے پر قاضی ابو یوسف اور محمد بن حسن الشیبانی کو جاہل قرار یقیناً جاہل قرار پائیں گے!

کیوں اپنی علمیت کا پردہ چاک کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ ابن داود صاحب! کسی کی فہم پر شک کرنا الگ ہوتا ہے اور اس کی فقہ کو مرجوح سمجھنا الگ ہوتا ہے۔ امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ نے جس جگہ ابو حنیفہؒ کی فقہ کو مرجوح سمجھا اس جگہ بالکل اسی طرح چھوڑ دیا جیسے آپ لوگوں نے حضرت ابن مسعود رض کی فقہ کو مسئلہ رفع الیدین میں چھوڑا ہے۔


اور ہاں! امام غزالی سے یاد آیا کہ امام غزالی تو آپ کے امام اعظم کو مجتہد ماننے سے ہی انکارکرتے ہیں! اور یہاں تک کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کو لغت کی معرفت نہیں بھی نہیں تھی اور نہ ہی علم الحدیث کی معرفت تھی، اور درحقیقت فقیہ بھی نہیں تھے۔
مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ یہ پڑھ کر امام صاحب کی عقیدت کے بت کی پوجا کرنے والوں کو دل کا دورہ ہی نہ پڑھ جائے!
وأما أبو حنيفة فلم يكن مجتهدا لأنه كان لا يعرف اللغة وعليه يدل قوله ولو رماه بأبو قبيس وكان لا يعرف الأحاديث ولهذا ضري بقبول الأحاديث الضعيفة ورد الصحيح منها ولم يكن فقيه النفس بل كان يتكايس لا في محله على مناقضة مآخذ الأصول
ابوحنیفہ مجتہد نہیں تھے،کیونکہ انہیں عربی لغت کی معرفت نہیں تھی، جس پر ان کا قول ''بأبو قبيس'' دلالت کرتا ہے، اور نہ ہی وہ احادیث کی معرفت رکھتے تھے، اس وجہ سے وہ ان میں ضعیف احادیث قبول کر لیتے اور صحیح احادیث رد کردیتے تھے، وہ ( فقیہ النفس )حقیقی فقیہ نہ تھے ، بس بے موقع اپنی خلاف اصول دانائی کا اظہار فرماتے رہتے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 471 المنخول من تعليقات الأصول - أبو حامد محمد بن محمد الغزالي (المتوفى: 505هـ) - دار الفكر، دمشق
پھر کیا فرماتے ہیں حضرت! امام غزالی کے بارے میں! امام غزالی کو بھی صرف جاہل کہنے پر اکتفاء کیجئے گا یا اس سے بڑھ کر حکم صادر فرمایا جائے گا! اگر کہا جائے کہ بعد میں امام غزالی نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا، تو بہر حال اس وقت تک امام غزالی کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں!

ابن داود صاحب! امام غزالی سے تو غلطی ہو گئی ہوگی، ذہول ہو گیا ہوگا، نسیان ہو گیا ہوگا۔ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ وہ بڑے عالم ہیں۔ انہیں نحو کے اس چھوٹے سے اختلاف کا یقینا علم ہوگا جسے میں ابھی ذکر کر رہا ہوں۔ لیکن آپ کیوں اپنی "علمیت" ظاہر کر رہے ہیں اس عبارت کو نقل کر کے؟؟؟
ابن داود صاحب! امام غزالی کی غلطی پر تو یہ بھی دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے امام ابو حنیفہؒ کا قول ہی غلط نقل کر دیا ہے ولو رماہ بابو قبیس۔ نیچے محقق نے اس پر تعلیق بھی کی ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کا قول ولو رماہ بابا قبیس کا ہے۔ اور یہ باقاعدہ ایک لغت ہے:
مسألة: [الاختلاف في إعراب الأسماء الستة]
ذهب الكوفيّون إلى أن الأسماء الستة المعتلّة وهي: أبُوكَ، وأخُوكَ وحَمُوكَ، وهَنُوكَ، وفُوكَ، وذو مال مُعْرَبَة من مكانين. وذهب البصريون إلى أنها معربة من مكان واحد، والواو والألف والياء هي حروف الإعراب. وإليه ذهب أبو الحسن الأخفش في أحد القولين. وذهب في القول الثاني إلى أنها ليست بحروف إعراب، ولكنها دلائلُ الإعرابِ، كالواو والألف والياء في التثنية والجمع، وليست بلام الفعل. وذهب علي بن عيسي الرَّبَعِي إلى أنها إذا كانت مرفوعة ففيها نقل بلا قلب، وإذا كانت منصوبة ففيها قلب بلا نقل، وإذا كانت مجرورة ففيها نقل وقلب. وذهب أبو عثمان المازني إلى أن الباء2 حرف الإعراب، وإنما الواو والألف والياء نشأت عن إشباع الحركات.
وقد يحكى عن بعض العرب أنهم يقولون: هذا أَبُك، ورأيت أَبَك، ومررت بِأَبِك -من غير واو ولا ألف ولا ياء- كما يقولون في حالة الإفراد من غير إضافة3.
وقد يحكى أيضًا عن بعض العرب أنهم يقولون: هذا أَبَاك، ورأيت أبَاكَ، ومررت بأبَاكَ -بالألف في حالة الرفع والنصب والجر- فيجعلونه اسمًا مقصورًا، قال الشاعر:
إن أَبَاهَا وأَبَا أَبَاهَا ... قَدْ بَلَغَا في المَجْدِ غَايَتَاهَا
ويحكى عن الإمام أبي حنيفة أنه سئل عن إنسان رَمَى إنسانًا بحجر فقتله: هل يجب عليه القَوَدُ؟ فقال: لا، ولو رماه بِأَبَا قُبَيْسٍ -بالألف، على هذه اللغة- لأن أصله أبَوٌ، فلما تحركت الواو وانفتح ما قبلها قلبوها ألفًا بعد إسكانها إضعافًا لها، كما قالوا: عَصًا، وقَفًا، وأصله عَصَو وقَفَوا، فلما تحركت الواو وانفتح ما قبلها قلبوها ألفًا، فكذلك ههنا.
الانصاف فی مسائل الخلاف للانباری، 1۔18، المکتبۃ العصریۃ


وحاصل ما ذكره أن في أب وأخ وحم ثلاث لغات أشهرها أن تكون بالواو والألف والياء والثانية أن تكون بالألف مطلقا والثالثة أن تحذف منها الأحرف الثلاثة وهذا نادر
شرح ابن عقیل علی الفیۃ بن مالک، 1۔52، دار التراث
شرح اشمونی اور شرح الشواہد بھی دیکھ سکتے ہیں۔


آپ کو تو ترجمہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اور میں اس لیے نہیں کر رہا کہ کچھ عوام میں آپ کا پردہ رہ جائے۔
لیکن یہ ہے کہ صرف حوالے اور عبارتیں نقل کر دینا کافی نہیں ہوتا۔ نقل کے لیے تھوڑی سی عقل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔


میں سوچ سمجھ کر ہی گفتگو کیا کرتا ہوں! تو جناب میں نے سوچ لیا ہے، پہلے تو امام ذہبی سے حفص بن غیاث تک کی سند پیش کریں!
صبر جی صبر! ٹھنڈا کر کے کھائیں ذرا! علم اسماء الرجال کا تعلق علم تاریخ سے ہے جسے علم حدیث میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اور یہ سند کے لحاظ سے بحث علم حدیث میں ہوتی ہے۔ آپ ذرا یہ قاعدہ پیش کریں باحوالہ کہ "علم تاریخ میں بھی مکمل سند ضروری ہے اور اس سند پر بحث بھی علم حدیث کے لحاظ سے کی جائے گی اور اس میں کسی معروف معتدل امام فن کی تعلیق کافی نہیں ہے"۔ پھر سند کا مطالبہ فرمائیں۔

اور اگر یہ قاعدہ نہ ملے تو پھر یہ جان لیں کہ علامہ ذہبیؒ جیسے معتدل امام فن کی تعلیق کو میں کافی سمجھتا ہوں۔

ہم پیشگی ہی ،امام ابو حنیفہ کی فہم وفقہ کے متعلق حفص بن غیاث کا ہی مؤقف باسند پیش کردیتے ہیں:
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمٌ، سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «كُنْتُ أَجْلِسُ إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ فَأَسْمَعُهُ يُفْتِي فِي الْمَسْأَلَةِ الْوَاحِدَةِ بِخَمْسَةِ أَقَاوِيلَ فِي الْيَوْمِ الْوَاحِدِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ تَرَكْتُهُ وَأَقْبَلْتُ عَلَى الْحَدِيثِ»
حفص بن غیاث نے کہا: میں ا بو حنیفہ کے پاس بیٹھا تھا تو میں نے ایک ہی مسئلہ میں ایک ہی دن میں انہیں پانچ مختلف فتاوی دیتے سنا، جب میں نے ان کا یہ حال دیکھا، تو میں نے انہیں ترک کردیا اور علم الحدیث کی طرف توجہ کی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 205 جلد 01 السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل (المتوفى: 290هـ) - الناشر: دار ابن القيم، الدمام

ابن داود صاحب! حفص بن غیاث ابو حنیفہؒ کے پاس بیٹھے ان کی مجلس فقہ میں۔ لیکن اس درجہ کی فقہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ جب انہوں نے ابوحنیفہؒ کو ہر مسئلہ میں پانچ اقوال بتاتے دیکھا (جو عموما باریک باریک فرق پر مبنی ہوتے ہیں) تو وہ سمجھ گئے کہ اس فقہ کی باریکی تک پہنچنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے علم حدیث حاصل کرنا شروع کر دیا۔ ذرا بتائیے کہ اس قول میں حفص بن غیاث نے امام ابو حنیفہؒ کی فہم و فراست کو برا کہاں کہا ہے؟
اور اگر بالفرض ایک مسئلہ میں ایک سے زیادہ قول ہونا آپ کے نزدیک برا ہوتا ہے تو پھر ذرا خیر مانگیے امام احمد کی جن کے اکثر مسائل میں ایک سے زیادہ اقوال ہیں، اور امام شافعی کی جن کی رائے قدیم و جدید بہت مشہور ہیں۔ ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟؟
ابن داود صاحب! کیا کہوں! آپ ہر بات وہ کرتے ہیں جس کی زد آپ کے اپنے علماء اہل الحدیث (میرے حسن ظن کے مطابق، ورنہ آپ کا کیا ہے، کب ان سے بھی براءت کر دیں) پر جاتی ہے۔ اور انصاف چونکہ آپ کو چھو کر بھی نہیں گزرا اس لیے وہاں آپ تاویلات کے سوا کچھ بول نہیں سکتے۔


جی جناب! اور اس فقیہ ومحدث حفص بن غیاث نے امام صاحب کے فہم و فقہ کے بے انتہا اضطرب کے سبب امام ابوحنیفہ کی فقہ کو ''غیر معتبر'' جانتے ہوئے، امام ابو حنیفہ کو ترک کردیا!

اور جب یہ اضطراب امام احمد اور شافعی رحمہما اللہ کے اقوال میں پایا جاتا ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی اپنی فہم غیر معتبر معلوم ہوتی ہے۔

جی! امام احمد بن حنبل ، حفص بن غیاث کی تو تعریف کرتے ہیں، مگر امام ابوحنیفہ اور اہل الرائے کی فقہ کی فہم وفقہ کو ''غیر معتبر''قرار دیتے ہیں:
سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ.
امام عبداللہ بن احمد ؒ نے کہا میں نے اپنے باپ (امام احمد بن حنبلؒ) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اپنے کسی دینی معاملہ میں پوچھنا چاہتا ہے۔ یعنی وہ طلاق سے متعلق قسم اٹھانے یا اس کے علاوہ کسی اور معاملہ میں مبتلا ہوا اور اس کے شہر میں اصحاب الرائے بھی ہوں اور ایسے اصحاب حدیث بھی ہوں جنہیں حدیث صحیح سے ياد نہیں ہو، ضعیف حدیث کو اور اسناد کے قوی ہونے کی پہچان نہیں رکھتے تو یہ آدمی اس دوطبقوں میں سے کس سے مسئلہ پوچھے ۔ اصحاب الرائے سے یا ان اصحاب الحدیث سے جو معرفت میں کمزور ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ آدمی اصحاب الحدیث سے پوچھے اور اصحاب الرائے سے نہ پوچھے کیونکہ ضعیف حدیث بھی ابو حنیفہ کے رائے سے تو بہتر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 180 - 181 جلد 01 السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل (المتوفى: 290هـ) - دار ابن القيم، الدمام
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 438 جلد 01 مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل (المتوفى: 290هـ) - المكتب الإسلامي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 397 جلد 01 مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل (المتوفى: 290هـ) - دار التأصيل - دار المودة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1312 - 1313 جلد 01 مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل (المتوفى: 290هـ) - مكتبة الدار بالمدينة
تو جناب! امام احمد بن حنبل نے امام ابوحنیفہ اور ان کے شاگرد و پیروکار، تمام اہل الرائے کی فہم وفقہ کو ''غیر معتبر'' قرار دیتے ہوئے ان سے شرعی مسائل کے متعلق سوال کرنے سے بھی منع کردیا ہے!


جناب نے چار لنكس دیے ہیں جو درحقیقت دو حوالے ہیں۔ السنۃ کا حوالہ اور مسائل احمد بن حنبل کا حوالہ۔
اگر یہ درست ہے تب بھی یہ صرف امام احمد کی رائے ہے۔ اور ضروری نہیں کہ ان کی ہر رائے درست ہو۔ خلق قرآن اور معتزلہ کے حوادث کی وجہ سے امام احمدؒ کے ایسے کئی اقوال منقول ہیں جو متشدد ہیں اور فی الواقع درست نہیں۔ لیکن ہم آگے دیکھتے ہیں:
پہلا حوالہ ہے السنہ لعبد اللہ بن احمد کا جس کی عبارت بھی نقل کی گئی ہے۔ اس میں ایک لفظ "کیونکہ" ہائیلائٹ کیا ہے جو کہ عربی عبارت میں موجود نہیں ہے۔ اس سے معنی تھوڑا سا تبدیل ہو جاتا ہے۔
عبد اللہ بن احمد کے الفاظ ہیں:
قال: يسأل أصحاب الحديث ولا يسأل أصحاب الرأي الضعيف الحديث خير من رأي أبي حنيفة
اس جملہ کو آپ نے شاملہ سے نقل کر کے ترجمہ کر دیا ہے۔ جو حوالہ دیا ہے اسے کم از کم کھول کر ایک بار پڑھ لینا تھا۔ دار ابن القیم کی شائع شدہ "السنۃ" بتحقیق دکتور قحطانی میں یہ الفاظ یوں ہیں:
قال: يسأل أصحاب الحديث، ولا يسأل أصحاب الرأي الضعيف، الحديث خير من رأي أبي حنيفة
یہاں قومہ "الضعیف" کے بعد ہے جبکہ آپ کے حوالے میں "الضعیف" سے پہلے ہے۔ اور الضعیف صفت بن رہا ہے "الرای" کی۔ ترجمہ یوں ہوتا ہے:
"فرمایا: اصحاب الحدیث سے پوچھے، اور ضعیف رائے والوں سے نہ پوچھے، حدیث ابو حنیفہ کی رائے سے بہتر ہے۔"
اور یہی بات درست ہے کیوں کہ آپ کی دی ہوئی عبارت میں
الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ ہے۔ میں ذرا پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ "الحدیث" پر زیر کون لے کر آیا ہے؟ اگر یہ مجرور ہے مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے تو مضاف "الضعیف" پر الف لام کہاں سے آ گیا؟ اس بنیادی قاعده سے تو آپ یقینا واقف ہوں گے کہ اضافت معنوی میں مضاف پر الف لام کا دخول عند النحویین جائز نہیں ہے۔ اور اضافت لفظیہ اگر آپ اسے بنا سکیں تو بنا کر دکھائیں! اس لیے یہ ماقبل کی "الرائی" کی صفت ہی بن سکتا ہے۔
اور ابن داود صاحب! ضعیف رائے والے فقہاء سے پوچھنے کا کون کہتا ہے؟؟ حدیث واقعی ابو حنیفہ کے قول سے بہتر ہے۔ دونوں باتیں درست ہیں لیکن یہاں ان کا مقام نہیں۔ ان دونوں باتوں سے امام ابو حنیفہ کی فہم و فقہ کا غیر معتبر ہونا کہاں سے ثابت ہوتا ہے؟؟؟


دوسرا حوالہ ہے مسائل احمد بن حنبل کا! اس کا پہلا اسکین دیکھیے!
تحقیق ہے زہیر شاویش کی جو مشہور محقق ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
مع ان ھذا یعتبر مدحا للامام ابی حنیفۃ لا ذما عند من حسن فہمہ و سلمت نیتہ
"حالانکہ یہ امام ابو حنیفہؒ کی مدح کے طور پر معتبر ہے نہ کہ ذم کے طور پر، اس کے نزدیک جس کا فہم درست ہو اور نیت صحیح ہو۔"
زہیر شاویش کے اعتبار سے تو آپ کی نیت بھی گڑبڑ محسوس ہوتی ہے اور فہم بھی۔ ابتسامہ
اسے زہیر شاویش نے مدح اس اعتبار سے سمجھا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کا اپنا یہ طرز ہے کہ وہ ضعیف حدیث کو قیاس پر مقدم کرتے ہیں۔ امام احمد نے اسی کا حوالہ دیا ہے کوئی اعتراض نہیں کیا۔


دوسرے اسکین میں کوئی تفصیل نہیں کی گئی۔
تیسرے اسکین کے محقق ہیں علی سلیمان المہنا۔ انہوں نے تفصیلا اس پر لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
و ذلک لا ینال من شخصیتہ او یحط من درجتہ
"اور یہ بات ان کی شخصیت کو مجروح نہیں کرتی نہ ان کے مرتبے کو کم کرتی ہے۔"
اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں مراد اصحاب القیاس کی رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ کا ذکر تو اس لیے کر دیا ہے کہ وہ اس باب (قیاس) میں معروف تھے۔
میں کہتا ہوں کہ یہ عرب کا طرز ہے کہ وہ یہ کرتے ہیں کہ کسی مشہور شخص کی صفت کا اطلاق مختلف جگہوں پر کرتے ہیں جیسے جود حاتم اور شجاعت علی رض کا۔ باقی رہی یہ بات کہ یہاں مراد اصحاب القیاس یا اصحاب الرائے مطلقا ہیں اور خصوصیت سے امام ابو حنیفہؒ نہیں ہیں، اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اسی روایت کو ابن قیمؒ نے اعلام الموقعین میں نقل کیا ہے اور وہاں الفاظ یہ ہیں:
ضعيفُ الحديثِ أقوي من الرأي
اعلام الموقعین، 2۔145، دار ابن الجوزی
یہاں "الرائ" مذکور ہے، الف لام استغراق کا ہے اور اس میں تمام "آراء" شامل ہیں ابو حنیفہؒ کی رائے کے علاوہ بھی۔ اس کے بعد ابن قیم نے یہ بیان کیا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ ضعیف حدیث کو قیاس پر مقدم کرتے تھے اور آخر میں یہ کہا ہے کہ امام احمد اور ابو حنیفہ دونوں کا یہ قول ہے۔
وأصحاب أبي حنيفة [رحمه اللَّه] مُجْمِعُونَ على أن مذهبَ أبي حنيفة أن ضعيف الحديث [عنده أولى] من القياس والرأي، وعلى ذلك بَنَى مذهبه، كما قدَّم حديث القَهْقَهة مع ضعفه على القياس والرأي، [وقَدَّم حديث الوضوء بنبيذ التمر في السَّفر مع ضَعْفه على الرأي والقياس، ومنع قَطْعَ السارق بسرقة أقل من عشرة دراهم والحديث فيه ضعيف، وجعل أكثرَ الحيض عشرةَ أيام والحديث فيه ضعيف، وشَرَط في إقامة الجمعة المِصْرَ والحديثُ فيه كذلك وترك القياس المحْضَ في مسائل [الآبار] لآثار فيها غيرِ مرفوعةٍ، فتقديمُ الحديثِ الضعيفِ وآثار الصحابة على القياس والرأي قولهُ، وقولُ الإمام أحمد.


مزے کی بات یہ ہے کہ جو کچھ آپ کو سمجھ میں آرہا ہے امام احمد کے اس قول سے وہ نہ تو ابن قیمؒ کو سمجھ آیا نہ زہیر شاویش اور علی سلیمان المہنا کو۔ اور آپ کی سمجھ کی ہمارے نزدیک تو کوئی حیثیت پہلے ہی نہیں تھی اب ابن قیم وغیرہ کے مقابلے میں تو بالکل ہی غیر معتبر ثابت ہوتی ہے۔

آخر میں عرض یہ ہے کہ آج کل کچھ تعلیمی مصروفیات کا بوجھ بڑھ گیا ہے اور فتاوی کی تمرین کی ابتدا ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے تفصیلی جوابات میں دقت ہو رہی ہے۔ آپ اور دیگر احباب اس گفتگو کو جاری رکھیے۔ میں ان شاء اللہ وقت ملنے پر شریک ہوتا ہوں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بلکل جناب! امام ابو حنیفہ اہل الرائے کے امام و فقیہ ہیں، ہم نے اس کا انکار نہیں کرتے، امام ذہبی نے بھی امام ابو حنیفہ کے امام اہل الرائے ہونے کی تصریح کی ہے، اس بات کا تو کسی کو انکار ہی نہیں:

شکر ہے اتنی بات کا تو انکار نہیں کرتے۔ ورنہ ممکن تھا۔۔۔۔۔۔۔


امام ذہبی کے امام ابو حنیفہ کو فقیہ کہنے پر ہی اگر امام ابو حنیفہ کی فہم و فقہ معتبر قرار پاتی ہے،تو پھر محمد بن ادریس بن احمد العجلی الحلی رافضی کی فہم وفقہ کا معتبر ہونا بھی آپ کو ہی مبارک ہو، کیونکہ امام ذہبی نے اس رافضی کو بھی علم فقہ میں عدیم النظیر قرار دیا ہے۔
مُحَمَّد بْن إدريس بْن أَحْمَد بْن إدريس، الشيخ أبو عبد الله العجلي الحلي، فقيه الشيعة وعالم الرافضة في عصره. [المتوفى: 597 هـ]
كان عديم النّظير فِي عِلم الفِقه، صنَّف كتاب الحاوي لتحرير الفتاوي، ولقّبه بكتاب السّرائر، وهو كتاب مشكور بين الشّيعة، وله كتاب خلاصة الاستدلال، وله منتخب كتاب التبيان فقه، وله مناسك الحجّ، وغير ذلك فِي الأُصول والفروع، قرأ على الفقيه راشد بْن إِبْرَاهِيم، والشّريف شرف شاه.
وكان بالحِلَّة، وله أصحاب وتلامذة، ولم يكن للشّيعة فِي وقته مثله، ولبعضهم فِيهِ قصيدة يفضّله فيها على مُحَمَّد بْن إدريس الشّافعيّ رَضِيَ اللَّه عَنْهُ، وما بينهما أفعل التفضيل.
محمد بن ادریس بن احمد بن ادریس، الشیخ ابو عبد اللہ العجلی، الحلی، فقیہ شیعہ اور اپنے وقت کا رافضیوں کا عالم۔
علم الفقہ میں عدیم النظیر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1120 جلد 12 تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الغرب الإسلامي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 314 جلد 42 تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتاب العربي، بيروت

ویسے جناب استدلالات بہت عمدہ فرمانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ابن داود صاحب! لکھنے سے پہلے کسی استاد کی خدمت میں جا کر اپنی بات کی اصلاح کروا لیا کریں۔ ذہبی کہتے ہیں کہ فقہ کی امامت ان پر مسلم ہے۔ اور آپ کہتے ہیں کہ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کی فہم و فقہ معتبر بھی ہے۔
یعنی آپ کا مطلب یہ ہوا کہ امام ابو حنیفہ فقہ کے ایسے امام ہیں جن کی فقہ میں امامت مسلم ہے لیکن فقہ معتبر نہیں۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ تو پھر ذہبی کے نزدیک امامت مسلم کس لیے ہے؟ اپنی کتب بھرنے کے لیے؟


ہاں ہو سکتا ہے آپ یہ کہیں کہ "آپ کلام کو سمجھے نہیں" (جو کہ آپ کا تکیہ کلام ہوتا جا رہا ہے) میری مراد یہ ہے کہ ان کے اور دیگر ائمہ کے اختلاف میں علامہ ذہبیؒ امام شافعیؒ کی فہم و فقہ پر عمل کرتے ہیں، اگر ان کی رائے معتبر ہوتی تو ان کی رائے کو اختیار کرتے۔
اگر آپ نے یہ ارشاد فرمایا تو ہم بھی عرض کریں گے کہ یہ بات آپ کی جہالت پر مبنی ہے۔ آپ لوگوں نے مسئلہ رفع یدین میں عبد اللہ بن مسعود رض کی فقہ کو اختیار نہیں کیا تو اس کا کیا آپ لوگ یہ مطلب لیتے ہیں کہ ان کی فقہ ہی غیر معتبر ہے؟ صحابہ میں جن مسائل میں اختلاف چلا آ رہا ہے ان میں امام شافعی اور امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ نے اگر کسی ایک صحابی کی رائے کو اختیار کیا ہے تو اس کا مطلب کیا آپ کے نزدیک یہ ہوگا کہ ان ائمہ کے نزدیک دیگر صحابہ کرام کی فہم ہی معتبر نہیں تھی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہاں یہ کیوں ہوگا؟؟؟
ابن داود صاحب! بھلا یہ قانون کس نے بنایا ہے کہ کسی کے نزدیک دوسرے کی فقہ کا اعتبار اسی وقت سمجھا جائے گا جب وہ اپنے منہ سے کہے کہ اس فلاں کی فقہ میرے نزدیک معتبر ہے؟؟؟ کہیں یہ آپ کے اس نئے علم حدیث کا کوئی نیا قاعدہ تو نہیں؟
ابن داود صاحب! آپ کس امام کی فقہ کو معتبر مانتے ہیں؟؟؟ کیا آپ ذہبی کے الفاظ میں مجھے دکھا سکتے ہیں کہ انہوں نے صراحتا کہا ہو کہ ان کی فقہ معتبر ہے؟؟؟
ارے ہاں! آپ کے نزدیک تو اہل الحدیث کی فقہ (ہی) معتبر ہے نا؟؟ کتنے ائمہ سے اس جملے کو ثابت کر سکتے ہیں؟؟؟ اگر نہیں کر سکیں نا تو پھر سمجھ لیجیے گا کہ کھوٹ آپ کی اپنی عقل میں ہے اور ذہبی کے ان الفاظ سے فقہ کا معتبر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ہاں کسی مسئلہ میں مرجوح ہو، یہ الگ بات ہے۔


اور یہ جو آپ نے حوالہ دیا ہے شیعہ عالم کا، یہ نہ ہی دیتے تو اچھا تھا۔ آپ کی کم فہمی اور انتشار ذہنی کا ثبوت دیتا ہے۔ ارے ابن داود بھائی! کیا یہ بھی بھول گئے کہ فقہ اور عقیدہ میں فرق ہوتا ہے؟؟ بیشک ابتدائی زمانہ میں یہ فرق نہیں کیا جاتا تھا لیکن ذہبیؒ کے زمانے سے بہت پہلے فقہ اور عقیدہ الگ الگ موضوعات قرار پا گئے تھے اور الگ الگ کتب لکھی جاتی تھیں۔ اور شیعیت کا مسئلہ عقیدہ کا مسئلہ ہے فقہ کا نہیں۔ فقہ میں ان کی فقہ کی اگر ذہبی نے تعریف کی ہے تو یقینا ان کے نزدیک معتبر قرار پائے گی، البتہ مرجوح ہوگی۔
امام ابن تیمیہ ؒ نے مجموع الفتاوی میں شیعہ کا قول ابن عباس رض کے قول کے ساتھ ذکر کیا ہے:
والتمتع جائز باتفاق أهل العلم. وإنما كان طائفة من بني أمية وغيرهم يكرهونه. وقد قيل: إن الذين كرهوا ذلك إنما كرهوا فسخ الحج إلى التمتع فإن الناس يقدمون من الآفاق فيحرمون بالحج فمن جوز الفسخ جوز لهم المتعة ومن منع من ذلك منعهم منه. والفسخ فيه ثلاثة أقوال معروفة: قيل هو واجب كقول ابن عباس وأتباعه وأهل الظاهر والشيعة. وقيل: هو محرم كقول معاوية وابن الزبير ومن اتبعهما كأبي حنيفة ومالك والشافعي. وقيل: هو جائز مستحب وهو مذهب فقهاء الحديث أحمد وغيره
مجموع الفتاوی، 26۔49، ط: مجمع الملک فہد
اگر شیعہ کی فقہ غیر معتبر تھی تو ابن تیمیہؒ کو ان کے قول کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کہیں عیسائیوں یا یہودیوں کے اقوال نقل کیے ہیں؟؟ اس لیے عرض ہے کہ شیعہ کی فقہ معتبر ہے لیکن مرجوح ہے۔ اور عقیدہ کا مسئلہ الگ ہے فقہ کا الگ۔
آگے اس جگہ تو اہل الحدیث کے ایک گروہ کے ساتھ بھی ذکر کیا ہے:
وإيجاب المتعة هو قول طائفة من أهل الحديث والظاهرية: كابن حزم وغيره وهو مذهب الشيعة أيضا
26۔51
یعنی ان کی فقہ بھی ذکر کی جاتی ہے۔ فلیتدبر


ایک تو آپ پہلے ہم پر غلط بات منسوب کرتے ہو، پھر ضد کی تہمت بھی دھرتے ہو!
امام ابوحنیفہ کو فقیہ ماننے کا ہم کب انکار کیا ہے؟
امام ذہبی نے بھی انہیں فقیہ کہا ہے اور یہ ہم تسلیم کرتے ہیں!
آپ خواہ مخواہ ہم پر غلط باتیں کیوں منسوب کرتے ہو!
کیا جھوٹ بولنے کو شیعہ کی طرح عبادت سمجھ بیٹھے ہو!
ہم بھی امام ابو حنیفہ کو اہل الرائے کا امام و فقیہ مانتے ہیں او امام ذہبی بھی امام ابو حنیفہ کو اہل الرائے کا امام وفقیہ قرار دیتے ہیں ۔
فقیہ تو مانتے ہیں لیکن فقہ معتبر نہیں۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
بالکل ایسے ہی جیسے کوئی کہے کہ ابن داود صاحب مرد تو ہیں لیکن ان کی مردانگی معتبر نہیں۔


ہاں ذرا سی گڑبڑ کر گئے جناب!
امام ذہبی بھی امام ابو حنیفہ کو اہل الرائے کا امام وفقیہ قرار دیتے ہیں ۔
علامہ ذہبی نے جب امام صاحب کی فقاہت مسلم ہونے کا ذکر کیا ہے تو وہاں ایسی کوئی قید نہیں لگائی۔
قُلْتُ: الإِمَامَةُ فِي الفِقْهِ وَدَقَائِقِه مُسَلَّمَةٌ إِلَى هَذَا الإِمَامِ، وَهَذَا أَمرٌ لاَ شَكَّ فِيْهِ.
وَلَيْسَ يَصِحُّ فِي الأَذْهَانِ شَيْءٌ ... إِذَا احْتَاجَ النَّهَارُ إِلَى دَلِيْلِ
سیر اعلام النبلاء، 6۔403، ط: الرسالۃ

بلکہ علامہ ذہبی نے امام ابو حنیفہؒ کو پوری ملت (یعنی ملت اسلامیہ) کا فقیہ قرار دیا ہے:
أَبُو حَنِيْفَةَ النُّعْمَانُ بنُ ثَابِتِ التَّيْمِيُّ
الإِمَامُ، فَقِيْهُ المِلَّةِ، عَالِمُ العِرَاقِ،
سیر اعلام النبلاء، 6۔390، الرسالہ


اور اپنے زمانے کے علماء کا فقہ میں سردار کہا ہے:
وَسَادَ أَهْلَ زَمَانِهِ فِي التَّفَقُّهِ وَتَفْرِيعِ الْمَسَائِلِ
تاریخ الاسلام، 3۔990، دار الغرب
"اور تفقہ اور مسائل کی تفریع میں اپنے زمانہ والوں کے سردار بن گئے۔"


اور رہ گیا مسئلہ امام اہل الرائے کہنے کا۔ تو اگرچہ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہ اہل الرائے و اہل الحدیث دونوں کے امام ہیں (وہ آپ کے والے اہل الحدیث نہیں جن کا علم حدیث نیا ہے، حقیقی اہل الحدیث کی بات کر رہا ہوں۔)
لیکن اس میں بھی آپ نے اس کتاب کا حوالہ دیا ہے جس میں امام ابو حنیفہؒ کا ترجمہ ہونے نہ ہونے میں ہی اختلاف ہے۔ یعنی میزان الاعتدال کا۔ بشار عواد معروف اور عبد الفتاح ابو غده كے اقوال تو آپ سے پوشیده نہیں ہوں گے۔ حافظ ابن حجرؒ کو بھی یہ ترجمہ نہیں ملا۔


اس کے علاوہ جن کتب میں ذہبیؒ نے امام کا ذکر کیا ہے ان میں یوں ذکر کیا ہے:
الإِمَامُ، فَقِيْهُ المِلَّةِ، عَالِمُ العِرَاقِ،
سیر اعلام النبلاء، 6۔390، الرسالہ


النُّعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ بْنُ زَوْطِيٍّ، الإِمَامُ الْعَلَمُ، أَبُو حَنِيفَةَ الْكُوفِيُّ، الْفَقِيهُ،
تاریخ الاسلام، 3۔990، دار الغرب


أبو حنيفة الإمام الأعظم فقيه العراق النعمان بن ثابت
تذكرۃ الحفاظ، 1۔126، العلمیۃ


ان میں امام اهل الرائے نہیں کہا بلکہ مطلقا الامام یا الامام الاعظم کہا ہے۔ اور اتنا تو آپ کو پتا ہوگا ہی کہ مطلق کو اس کے اطلاق پر رکھا جاتا ہے۔

ابن داود صاحب! عوام کی آنکھوں میں آپ شاید دھول جھونک سکتے ہوں لیکن ہماری نہیں۔

کیوں میاں! شیعہ روافض کے عقیدہ امامت کی طرح اپنے امام اعظم کے معصوم عن الخطاء کا عقیدہ اختیار کر کے اسلام کو خیر آباد تو نہیں کہہ دیا!
یہ ہوتا ہے عقیدت کا غلو!
امام ذہبی نے تو یہ بات نہیں کہی!
آنکھیں کی جگہ بٹن تو نہیں لگے ہوئے؟ میں نے کب کہا ہے کہ ذہبیؒ نے یہ بات کہی ہے؟ یہ بات میں نے حفص بن غیاث کے قول کے حوالے سے کہی تھی۔ سمجھ نہ آیا کرے تو پوچھ لیا کریں۔


ہاں ! ابن ابی العز نے آپ جیسی فکر رکھنے والے حنفیوں سے متعلق کہا ہے:
وَقد إنحرف فِي شَأْن أبي حنيفَة رَحمَه الله طَائِفَتَانِ: فطائفة قد غلبت فِي تَقْلِيده فَلم تتْرك لَهُ قولا وأنزلوه منزلَة الرَّسُول صلى الله عَلَيْهِ وَسلم.
اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی شان میں دو گروہوں نے انحراف کیا ہے۔ ایک گروہ وہ ہے جس نے ان کی تقلید میں غلو کیا، اور ان کے قول کو نہیں چھوڑا ، اور امام ابو حنفیہ کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بٹھا دیاہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 30 الاتباع - ابن أبي العز الحنفي - عالم الكتب بيروت

ابن ابی العز آپ کے نزدیک "معتبر رائے والے" "اہل الحدیث" سے ہیں؟ اگر نہیں تو غیر معتبر بات کیوں ذکر کرتے ہیں؟ اور اگر ہاں تو پھر میں آگے کلام کرتا ہوں۔


میاں! امام صاحب کی فہم پر شک کیا ! اسے مردود قرار دیا گیا ہے، امام بخاری اور امام شافعی کا حوالہ پیش کیا جا چکا ہے، اور بھی مزید قطار میں ہیں!
ارے رے! گھاس تو نہیں کھا گئے؟؟ امام بخاری نے صرف یہ کہا ہے کہ "وہ ان سے اور ان كی رائے اور حدیث سے خاموش ہو گئے ہیں۔"

کون خاموش ہو گئے ہیں؟ کس کی جرح نقل کی ہے؟ امام بخاری کی مراد اگر محدثین ہیں تو ان کا کسی کی رائے کے بارے میں خاموش ہونے یا جرح کرنے سے کیا تعلق؟ ان کا کام حدیث اور اس سے متعلق چیزوں پر جرح کرنا ہے آراء پر نہیں۔ پھر محدثین میں بھی امام بخاری نعیم بن حماد جیسے حضرات کی صحبت میں رہے ہیں:
وقال العبّاس بن مصعب: وضع كتبا في الرد على أبي حنيفة.
قال الأزديّ: كان يضع الحديث في تقوية السّنّة وحكايات مزوّرة في ثلب أبي حنيفة، كلها كذب، وكان من أعلم الناس بالفرائض. انتهى ملخصا.
شذرات الذہب، 3۔134، دار ابن کثیر
"عباس بن مصعب کہتے ہیں: (نعیم نے) ابو حنیفہ کے رد میں کتابیں گھڑی ہیں۔
ازدی نے کہا: وہ سنت کو مضبوط کرنے کے لیے حدیث گھڑتا تھا اور ابو حنیفہ کی برائی میں جھوٹی حکایات، جو سب کی سب جھوٹی ہیں۔ اور وہ لوگوں میں فرائض کا سب سے زیادہ جاننے والا تھا۔"

اب اس پر آپ بحث کر سکتے ہیں کہ ابو الفتح ازدی نے بشر بن حماد كا قول نقل كیا ہے وغیرہ۔ لیکن اس پر کوئی دلیل نہیں ہے سوائے الفاظ کے ایک جیسا ہونے کے۔ اس کے علاوہ عباس بن مصعب کا ذکر قاسم بن قطلوبغاؒ نے الثقات میں کیا ہے اور انہوں نے بھی نعیم بن حماد کے بارے میں یہ بات ذکر کی ہے۔ امام بخاری کی سکتوا عنہ سے اگر اس طرح کے لوگ ہیں تو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ اس قول میں کتنی مضبوطی ہے۔
اور اگر ان کی مراد کوئی اور ہیں تو اس کوئی اور کی وضاحت آپ کے ذمے!


اور امام شافعیؒ والے حوالوں کا حال ابھی گزرا ہے۔

اور تو اور، امام صاحب کے اپنے شاگردوں نے بھی امام صاحب کی فہم وفقہ کو رد کیا ہے!
إنّهم أدرجوا أبا يوسف ومحمّد في طبقة مجتهدي المذهب، الذين لا يخالفون إمامه في الأصول، وليس كذلك، فإنّ مخالفتَهما لإمامهما في الأصول غير قليلة، حتى قال الإمامُ الغَزاليُّ في كتابه ((المنخول)): إنّهما خالفا أبا حنيفةَ في ثُلُثي مذهبه. انتهى.
۔۔ ۔ قاضی ابو یوسف اور محمد بن حسن شیبانی کو طبقہ مجتہد فی المذہب میں لکھا ہے، جو اپنے امام کی اصول میں مخالفت نہیں کرتے؛لیکن ایسا نہیں ہے، دونوں شاگردوں کی اپنے امام، (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ) سے اصول میں بھی کچھ کم مخالفت نہیں، حتی کہ امام غزالی نے اپنی کتاب ''المخول'' میں کہا کہ انہوں نے اپنے استاذ کے مذہب سے دو تہائی مسائل میں اختلاف کیا ہے۔''
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 08 عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية - أبو الحسنات محمد عبد الحي اللكنوي (المتوفى: 1304هـ) – مير محمد كتب خانه، کراتشي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 08 عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية - أبو الحسنات محمد عبد الحي اللكنوي (المتوفى: 1304هـ) - المطبع اليوسفي، لكنؤ – الهند
تو جناب! آپ کے مطابق تو امام ابوحنیفہ کی فہم و فقہ پر شک سے بڑھ کر اس کو رد کرنے پر قاضی ابو یوسف اور محمد بن حسن الشیبانی کو جاہل قرار یقیناً جاہل قرار پائیں گے!

کیوں اپنی علمیت کا پردہ چاک کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ ابن داود صاحب! کسی کی فہم پر شک کرنا الگ ہوتا ہے اور اس کی فقہ کو مرجوح سمجھنا الگ ہوتا ہے۔ امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ نے جس جگہ ابو حنیفہؒ کی فقہ کو مرجوح سمجھا اس جگہ بالکل اسی طرح چھوڑ دیا جیسے آپ لوگوں نے حضرت ابن مسعود رض کی فقہ کو مسئلہ رفع الیدین میں چھوڑا ہے۔


اور ہاں! امام غزالی سے یاد آیا کہ امام غزالی تو آپ کے امام اعظم کو مجتہد ماننے سے ہی انکارکرتے ہیں! اور یہاں تک کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کو لغت کی معرفت نہیں بھی نہیں تھی اور نہ ہی علم الحدیث کی معرفت تھی، اور درحقیقت فقیہ بھی نہیں تھے۔
مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ یہ پڑھ کر امام صاحب کی عقیدت کے بت کی پوجا کرنے والوں کو دل کا دورہ ہی نہ پڑھ جائے!
وأما أبو حنيفة فلم يكن مجتهدا لأنه كان لا يعرف اللغة وعليه يدل قوله ولو رماه بأبو قبيس وكان لا يعرف الأحاديث ولهذا ضري بقبول الأحاديث الضعيفة ورد الصحيح منها ولم يكن فقيه النفس بل كان يتكايس لا في محله على مناقضة مآخذ الأصول
ابوحنیفہ مجتہد نہیں تھے،کیونکہ انہیں عربی لغت کی معرفت نہیں تھی، جس پر ان کا قول ''بأبو قبيس'' دلالت کرتا ہے، اور نہ ہی وہ احادیث کی معرفت رکھتے تھے، اس وجہ سے وہ ان میں ضعیف احادیث قبول کر لیتے اور صحیح احادیث رد کردیتے تھے، وہ ( فقیہ النفس )حقیقی فقیہ نہ تھے ، بس بے موقع اپنی خلاف اصول دانائی کا اظہار فرماتے رہتے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 471 المنخول من تعليقات الأصول - أبو حامد محمد بن محمد الغزالي (المتوفى: 505هـ) - دار الفكر، دمشق
پھر کیا فرماتے ہیں حضرت! امام غزالی کے بارے میں! امام غزالی کو بھی صرف جاہل کہنے پر اکتفاء کیجئے گا یا اس سے بڑھ کر حکم صادر فرمایا جائے گا! اگر کہا جائے کہ بعد میں امام غزالی نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا، تو بہر حال اس وقت تک امام غزالی کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں!

ابن داود صاحب! امام غزالی سے تو غلطی ہو گئی ہوگی، ذہول ہو گیا ہوگا، نسیان ہو گیا ہوگا۔ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ وہ بڑے عالم ہیں۔ انہیں نحو کے اس چھوٹے سے اختلاف کا یقینا علم ہوگا جسے میں ابھی ذکر کر رہا ہوں۔ لیکن آپ کیوں اپنی "علمیت" ظاہر کر رہے ہیں اس عبارت کو نقل کر کے؟؟؟
ابن داود صاحب! امام غزالی کی غلطی پر تو یہ بھی دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے امام ابو حنیفہؒ کا قول ہی غلط نقل کر دیا ہے ولو رماہ بابو قبیس۔ نیچے محقق نے اس پر تعلیق بھی کی ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کا قول ولو رماہ بابا قبیس کا ہے۔ اور یہ باقاعدہ ایک لغت ہے:
مسألة: [الاختلاف في إعراب الأسماء الستة]
ذهب الكوفيّون إلى أن الأسماء الستة المعتلّة وهي: أبُوكَ، وأخُوكَ وحَمُوكَ، وهَنُوكَ، وفُوكَ، وذو مال مُعْرَبَة من مكانين. وذهب البصريون إلى أنها معربة من مكان واحد، والواو والألف والياء هي حروف الإعراب. وإليه ذهب أبو الحسن الأخفش في أحد القولين. وذهب في القول الثاني إلى أنها ليست بحروف إعراب، ولكنها دلائلُ الإعرابِ، كالواو والألف والياء في التثنية والجمع، وليست بلام الفعل. وذهب علي بن عيسي الرَّبَعِي إلى أنها إذا كانت مرفوعة ففيها نقل بلا قلب، وإذا كانت منصوبة ففيها قلب بلا نقل، وإذا كانت مجرورة ففيها نقل وقلب. وذهب أبو عثمان المازني إلى أن الباء2 حرف الإعراب، وإنما الواو والألف والياء نشأت عن إشباع الحركات.
وقد يحكى عن بعض العرب أنهم يقولون: هذا أَبُك، ورأيت أَبَك، ومررت بِأَبِك -من غير واو ولا ألف ولا ياء- كما يقولون في حالة الإفراد من غير إضافة3.
وقد يحكى أيضًا عن بعض العرب أنهم يقولون: هذا أَبَاك، ورأيت أبَاكَ، ومررت بأبَاكَ -بالألف في حالة الرفع والنصب والجر- فيجعلونه اسمًا مقصورًا، قال الشاعر:
إن أَبَاهَا وأَبَا أَبَاهَا ... قَدْ بَلَغَا في المَجْدِ غَايَتَاهَا
ويحكى عن الإمام أبي حنيفة أنه سئل عن إنسان رَمَى إنسانًا بحجر فقتله: هل يجب عليه القَوَدُ؟ فقال: لا، ولو رماه بِأَبَا قُبَيْسٍ -بالألف، على هذه اللغة- لأن أصله أبَوٌ، فلما تحركت الواو وانفتح ما قبلها قلبوها ألفًا بعد إسكانها إضعافًا لها، كما قالوا: عَصًا، وقَفًا، وأصله عَصَو وقَفَوا، فلما تحركت الواو وانفتح ما قبلها قلبوها ألفًا، فكذلك ههنا.
الانصاف فی مسائل الخلاف للانباری، 1۔18، المکتبۃ العصریۃ


وحاصل ما ذكره أن في أب وأخ وحم ثلاث لغات أشهرها أن تكون بالواو والألف والياء والثانية أن تكون بالألف مطلقا والثالثة أن تحذف منها الأحرف الثلاثة وهذا نادر
شرح ابن عقیل علی الفیۃ بن مالک، 1۔52، دار التراث
شرح اشمونی اور شرح الشواہد بھی دیکھ سکتے ہیں۔


آپ کو تو ترجمہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اور میں اس لیے نہیں کر رہا کہ کچھ عوام میں آپ کا پردہ رہ جائے۔
لیکن یہ ہے کہ صرف حوالے اور عبارتیں نقل کر دینا کافی نہیں ہوتا۔ نقل کے لیے تھوڑی سی عقل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔


میں سوچ سمجھ کر ہی گفتگو کیا کرتا ہوں! تو جناب میں نے سوچ لیا ہے، پہلے تو امام ذہبی سے حفص بن غیاث تک کی سند پیش کریں!
صبر جی صبر! ٹھنڈا کر کے کھائیں ذرا! علم اسماء الرجال کا تعلق علم تاریخ سے ہے جسے علم حدیث میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اور یہ سند کے لحاظ سے بحث علم حدیث میں ہوتی ہے۔ آپ ذرا یہ قاعدہ پیش کریں باحوالہ کہ "علم تاریخ میں بھی مکمل سند ضروری ہے اور اس سند پر بحث بھی علم حدیث کے لحاظ سے کی جائے گی اور اس میں کسی معروف معتدل امام فن کی تعلیق کافی نہیں ہے"۔ پھر سند کا مطالبہ فرمائیں۔

اور اگر یہ قاعدہ نہ ملے تو پھر یہ جان لیں کہ علامہ ذہبیؒ جیسے معتدل امام فن کی تعلیق کو میں کافی سمجھتا ہوں۔

ہم پیشگی ہی ،امام ابو حنیفہ کی فہم وفقہ کے متعلق حفص بن غیاث کا ہی مؤقف باسند پیش کردیتے ہیں:
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمٌ، سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «كُنْتُ أَجْلِسُ إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ فَأَسْمَعُهُ يُفْتِي فِي الْمَسْأَلَةِ الْوَاحِدَةِ بِخَمْسَةِ أَقَاوِيلَ فِي الْيَوْمِ الْوَاحِدِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ تَرَكْتُهُ وَأَقْبَلْتُ عَلَى الْحَدِيثِ»
حفص بن غیاث نے کہا: میں ا بو حنیفہ کے پاس بیٹھا تھا تو میں نے ایک ہی مسئلہ میں ایک ہی دن میں انہیں پانچ مختلف فتاوی دیتے سنا، جب میں نے ان کا یہ حال دیکھا، تو میں نے انہیں ترک کردیا اور علم الحدیث کی طرف توجہ کی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 205 جلد 01 السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل (المتوفى: 290هـ) - الناشر: دار ابن القيم، الدمام

ابن داود صاحب! حفص بن غیاث ابو حنیفہؒ کے پاس بیٹھے ان کی مجلس فقہ میں۔ لیکن اس درجہ کی فقہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ جب انہوں نے ابوحنیفہؒ کو ہر مسئلہ میں پانچ اقوال بتاتے دیکھا (جو عموما باریک باریک فرق پر مبنی ہوتے ہیں) تو وہ سمجھ گئے کہ اس فقہ کی باریکی تک پہنچنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے علم حدیث حاصل کرنا شروع کر دیا۔ ذرا بتائیے کہ اس قول میں حفص بن غیاث نے امام ابو حنیفہؒ کی فہم و فراست کو برا کہاں کہا ہے؟
اور اگر بالفرض ایک مسئلہ میں ایک سے زیادہ قول ہونا آپ کے نزدیک برا ہوتا ہے تو پھر ذرا خیر مانگیے امام احمد کی جن کے اکثر مسائل میں ایک سے زیادہ اقوال ہیں، اور امام شافعی کی جن کی رائے قدیم و جدید بہت مشہور ہیں۔ ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟؟
ابن داود صاحب! کیا کہوں! آپ ہر بات وہ کرتے ہیں جس کی زد آپ کے اپنے علماء اہل الحدیث (میرے حسن ظن کے مطابق، ورنہ آپ کا کیا ہے، کب ان سے بھی براءت کر دیں) پر جاتی ہے۔ اور انصاف چونکہ آپ کو چھو کر بھی نہیں گزرا اس لیے وہاں آپ تاویلات کے سوا کچھ بول نہیں سکتے۔


جی جناب! اور اس فقیہ ومحدث حفص بن غیاث نے امام صاحب کے فہم و فقہ کے بے انتہا اضطرب کے سبب امام ابوحنیفہ کی فقہ کو ''غیر معتبر'' جانتے ہوئے، امام ابو حنیفہ کو ترک کردیا!

اور جب یہ اضطراب امام احمد اور شافعی رحمہما اللہ کے اقوال میں پایا جاتا ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی اپنی فہم غیر معتبر معلوم ہوتی ہے۔

جی! امام احمد بن حنبل ، حفص بن غیاث کی تو تعریف کرتے ہیں، مگر امام ابوحنیفہ اور اہل الرائے کی فقہ کی فہم وفقہ کو ''غیر معتبر''قرار دیتے ہیں:
سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ.
امام عبداللہ بن احمد ؒ نے کہا میں نے اپنے باپ (امام احمد بن حنبلؒ) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اپنے کسی دینی معاملہ میں پوچھنا چاہتا ہے۔ یعنی وہ طلاق سے متعلق قسم اٹھانے یا اس کے علاوہ کسی اور معاملہ میں مبتلا ہوا اور اس کے شہر میں اصحاب الرائے بھی ہوں اور ایسے اصحاب حدیث بھی ہوں جنہیں حدیث صحیح سے ياد نہیں ہو، ضعیف حدیث کو اور اسناد کے قوی ہونے کی پہچان نہیں رکھتے تو یہ آدمی اس دوطبقوں میں سے کس سے مسئلہ پوچھے ۔ اصحاب الرائے سے یا ان اصحاب الحدیث سے جو معرفت میں کمزور ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ آدمی اصحاب الحدیث سے پوچھے اور اصحاب الرائے سے نہ پوچھے کیونکہ ضعیف حدیث بھی ابو حنیفہ کے رائے سے تو بہتر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 180 - 181 جلد 01 السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل (المتوفى: 290هـ) - دار ابن القيم، الدمام
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 438 جلد 01 مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل (المتوفى: 290هـ) - المكتب الإسلامي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 397 جلد 01 مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل (المتوفى: 290هـ) - دار التأصيل - دار المودة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1312 - 1313 جلد 01 مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل (المتوفى: 290هـ) - مكتبة الدار بالمدينة
تو جناب! امام احمد بن حنبل نے امام ابوحنیفہ اور ان کے شاگرد و پیروکار، تمام اہل الرائے کی فہم وفقہ کو ''غیر معتبر'' قرار دیتے ہوئے ان سے شرعی مسائل کے متعلق سوال کرنے سے بھی منع کردیا ہے!


جناب نے چار لنكس دیے ہیں جو درحقیقت دو حوالے ہیں۔ السنۃ کا حوالہ اور مسائل احمد بن حنبل کا حوالہ۔
اگر یہ درست ہے تب بھی یہ صرف امام احمد کی رائے ہے۔ اور ضروری نہیں کہ ان کی ہر رائے درست ہو۔ خلق قرآن اور معتزلہ کے حوادث کی وجہ سے امام احمدؒ کے ایسے کئی اقوال منقول ہیں جو متشدد ہیں اور فی الواقع درست نہیں۔ لیکن ہم آگے دیکھتے ہیں:
پہلا حوالہ ہے السنہ لعبد اللہ بن احمد کا جس کی عبارت بھی نقل کی گئی ہے۔ اس میں ایک لفظ "کیونکہ" ہائیلائٹ کیا ہے جو کہ عربی عبارت میں موجود نہیں ہے۔ اس سے معنی تھوڑا سا تبدیل ہو جاتا ہے۔
عبد اللہ بن احمد کے الفاظ ہیں:
قال: يسأل أصحاب الحديث ولا يسأل أصحاب الرأي الضعيف الحديث خير من رأي أبي حنيفة
اس جملہ کو آپ نے شاملہ سے نقل کر کے ترجمہ کر دیا ہے۔ جو حوالہ دیا ہے اسے کم از کم کھول کر ایک بار پڑھ لینا تھا۔ دار ابن القیم کی شائع شدہ "السنۃ" بتحقیق دکتور قحطانی میں یہ الفاظ یوں ہیں:
قال: يسأل أصحاب الحديث، ولا يسأل أصحاب الرأي الضعيف، الحديث خير من رأي أبي حنيفة
یہاں قومہ "الضعیف" کے بعد ہے جبکہ آپ کے حوالے میں "الضعیف" سے پہلے ہے۔ اور الضعیف صفت بن رہا ہے "الرای" کی۔ ترجمہ یوں ہوتا ہے:
"فرمایا: اصحاب الحدیث سے پوچھے، اور ضعیف رائے والوں سے نہ پوچھے، حدیث ابو حنیفہ کی رائے سے بہتر ہے۔"
اور یہی بات درست ہے کیوں کہ آپ کی دی ہوئی عبارت میں
الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ ہے۔ میں ذرا پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ "الحدیث" پر زیر کون لے کر آیا ہے؟ اگر یہ مجرور ہے مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے تو مضاف "الضعیف" پر الف لام کہاں سے آ گیا؟ اس بنیادی قاعده سے تو آپ یقینا واقف ہوں گے کہ اضافت معنوی میں مضاف پر الف لام کا دخول عند النحویین جائز نہیں ہے۔ اور اضافت لفظیہ اگر آپ اسے بنا سکیں تو بنا کر دکھائیں! اس لیے یہ ماقبل کی "الرائی" کی صفت ہی بن سکتا ہے۔
اور ابن داود صاحب! ضعیف رائے والے فقہاء سے پوچھنے کا کون کہتا ہے؟؟ حدیث واقعی ابو حنیفہ کے قول سے بہتر ہے۔ دونوں باتیں درست ہیں لیکن یہاں ان کا مقام نہیں۔ ان دونوں باتوں سے امام ابو حنیفہ کی فہم و فقہ کا غیر معتبر ہونا کہاں سے ثابت ہوتا ہے؟؟؟


دوسرا حوالہ ہے مسائل احمد بن حنبل کا! اس کا پہلا اسکین دیکھیے!
تحقیق ہے زہیر شاویش کی جو مشہور محقق ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
مع ان ھذا یعتبر مدحا للامام ابی حنیفۃ لا ذما عند من حسن فہمہ و سلمت نیتہ
"حالانکہ یہ امام ابو حنیفہؒ کی مدح کے طور پر معتبر ہے نہ کہ ذم کے طور پر، اس کے نزدیک جس کا فہم درست ہو اور نیت صحیح ہو۔"
زہیر شاویش کے اعتبار سے تو آپ کی نیت بھی گڑبڑ محسوس ہوتی ہے اور فہم بھی۔ ابتسامہ
اسے زہیر شاویش نے مدح اس اعتبار سے سمجھا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کا اپنا یہ طرز ہے کہ وہ ضعیف حدیث کو قیاس پر مقدم کرتے ہیں۔ امام احمد نے اسی کا حوالہ دیا ہے کوئی اعتراض نہیں کیا۔


دوسرے اسکین میں کوئی تفصیل نہیں کی گئی۔
تیسرے اسکین کے محقق ہیں علی سلیمان المہنا۔ انہوں نے تفصیلا اس پر لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
و ذلک لا ینال من شخصیتہ او یحط من درجتہ
"اور یہ بات ان کی شخصیت کو مجروح نہیں کرتی نہ ان کے مرتبے کو کم کرتی ہے۔"
اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں مراد اصحاب القیاس کی رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ کا ذکر تو اس لیے کر دیا ہے کہ وہ اس باب (قیاس) میں معروف تھے۔
میں کہتا ہوں کہ یہ عرب کا طرز ہے کہ وہ یہ کرتے ہیں کہ کسی مشہور شخص کی صفت کا اطلاق مختلف جگہوں پر کرتے ہیں جیسے جود حاتم اور شجاعت علی رض کا۔ باقی رہی یہ بات کہ یہاں مراد اصحاب القیاس یا اصحاب الرائے مطلقا ہیں اور خصوصیت سے امام ابو حنیفہؒ نہیں ہیں، اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اسی روایت کو ابن قیمؒ نے اعلام الموقعین میں نقل کیا ہے اور وہاں الفاظ یہ ہیں:
ضعيفُ الحديثِ أقوي من الرأي
اعلام الموقعین، 2۔145، دار ابن الجوزی
یہاں "الرائ" مذکور ہے، الف لام استغراق کا ہے اور اس میں تمام "آراء" شامل ہیں ابو حنیفہؒ کی رائے کے علاوہ بھی۔ اس کے بعد ابن قیم نے یہ بیان کیا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ ضعیف حدیث کو قیاس پر مقدم کرتے تھے اور آخر میں یہ کہا ہے کہ امام احمد اور ابو حنیفہ دونوں کا یہ قول ہے۔
وأصحاب أبي حنيفة [رحمه اللَّه] مُجْمِعُونَ على أن مذهبَ أبي حنيفة أن ضعيف الحديث [عنده أولى] من القياس والرأي، وعلى ذلك بَنَى مذهبه، كما قدَّم حديث القَهْقَهة مع ضعفه على القياس والرأي، [وقَدَّم حديث الوضوء بنبيذ التمر في السَّفر مع ضَعْفه على الرأي والقياس، ومنع قَطْعَ السارق بسرقة أقل من عشرة دراهم والحديث فيه ضعيف، وجعل أكثرَ الحيض عشرةَ أيام والحديث فيه ضعيف، وشَرَط في إقامة الجمعة المِصْرَ والحديثُ فيه كذلك وترك القياس المحْضَ في مسائل [الآبار] لآثار فيها غيرِ مرفوعةٍ، فتقديمُ الحديثِ الضعيفِ وآثار الصحابة على القياس والرأي قولهُ، وقولُ الإمام أحمد.


مزے کی بات یہ ہے کہ جو کچھ آپ کو سمجھ میں آرہا ہے امام احمد کے اس قول سے وہ نہ تو ابن قیمؒ کو سمجھ آیا نہ زہیر شاویش اور علی سلیمان المہنا کو۔ اور آپ کی سمجھ کی ہمارے نزدیک تو کوئی حیثیت پہلے ہی نہیں تھی اب ابن قیم وغیرہ کے مقابلے میں تو بالکل ہی غیر معتبر ثابت ہوتی ہے۔

آخر میں عرض یہ ہے کہ آج کل کچھ تعلیمی مصروفیات کا بوجھ بڑھ گیا ہے اور فتاوی کی تمرین کی ابتدا ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے تفصیلی جوابات میں دقت ہو رہی ہے۔ آپ اور دیگر احباب اس گفتگو کو جاری رکھیے۔ میں ان شاء اللہ وقت ملنے پر شریک ہوتا ہوں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں مکان تبدیل کرنے میں مصروف ہوں، وقت نکال کر جلد اس کا جواب تحریر کروں گا۔ ان شاء اللہ
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اول تو اس تساہل کی نشابدہی کر دوں کہ ''شفاء العلیل'' شاہ ولی اللہ کی تصنیف نہیں، بلکہ شاہ ولی اللہ کی عربی تصنیف ''القول الجميل في بيان سواء السبيل'' کا اردو ترجمہ اور حاشیہ ہے، جو خرم علی بلہوری نے کیا ہے۔ خیر یہ تو تساہل ہے، ایسا ہو جاتا ہے۔
شکریہ
اور یہاں تو بحث ہی اہل الحدیث کی فہم و فقہ کے معتبر اور اہل الرائے کی فہم وفقہ کے ''غیر معتبر'' ہونے پر ہو رہی ہے، اب ان کو فقہ کیونکر معتبر ہو، جو فقہ سے عدوات رکھتے ہوں! وہ تو خود ہی دستبردار ہوتے ہیں۔
بحث ہمارے لحاظ سے اس کے برعکس ہورہی ہے کہ اہل الرائے کی فقہ وفہم معتبر اوراہل الحدیث کی غیرمعتبر ہے،شاہ ولی اللہ کے زمانہ میں کونساظاہری محدث موجود تھا،حضرت شاہ ولی اللہ کے عہد کا مطالعہ یہ صاف بتاتاہے کہ اس زمانہ میں ظاہریوں کا کوئی وجود نہیں تھا،ابن حزم ظاہری کا مذہب عرصہ ہوامٹ چکاتھا، البتہ ابن حزم کی کتابیں اور ابن حزم کی کتابوں کے اقتباسات دیگر کتابوں میں موجود تھے جس میں سے کچھ کا ذکر شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب میں کیاہے،ایسے میں شاہ ولی اللہ کا محدث ظاہری سے مراد ابن حزم کی پیروی کرنے والامحدث نہیں بلکہ وہ محدث ہے جو فقہ اورفقہاء کوناپسند کرتاہے اوریہ آج کی بات نہیں، اس کا سررشتہ ماضی سے متصل ہے۔
گو کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی اسی کتاب میں بہت سی باتیں قابل اعتراض ونقد ہیں۔
تعجب ہے کہ شاہ ولی اللہ کی بہت ساری باتیں قابل نقد ہوتی ہیں اورپھر شاہ ولی اللہ کے ہی اقوال سے احناف کے خلاف استدلال بھی کیاجاتاہے،اگرکہاجائے کہ شاہ ولی اللہ تمہارے یہاں قابل احترام ہیں تو اہل حدیث میں بھی وہ قابل احترام ہیں، اگر کہاجائے کہ اہل حدیث ان کی تقلید نہیں کرتے تواحناف کون سی ان کی تقلید کرتے ہیں؟
اور یہ ترجمہ غلط نہیں، کیونکہ جیسا کہ آپ نے بھی اس کا معنی ''سخت گیر'' بھی لکھا ہے، اور اس عبارت میں ''متقشفہ فقہا'' انہیں قرار کہا گیا ہے جو تقلید کو اپنی دستاویز سمجھتے ہیں اور سنت کو ترک کرتے ہیں، اور اس کا تعلق مزاج و طبیعت کی سخت گیری سے نہیں کہ ''خشک مزاج'' کہا جائے، بلکہ عقل وخرد کی سخت گیری ہے، لہٰذا یہاں'' متقشفہ'' کا'' خشک دماغ'' یا''کوڑھ مغز ''کہنا غلط نہیں!
ویسے بھی اپنے عالم کی تقلید میں سنت کو ترک کرنے والے کے کم از کم ''خشک دماغ ''و ''کوڑھ مغز'' ہونے میں تو کوئی شک نہیں۔
میں نے پہلے ہی گزارش کی تھی کہ لغت کے باب میں کم ازکم اجتہاد سے کام نہ لیں، لیکن یہ گزارش بے اثر ثابت ہوئی اورہونی بھی چاہئے کیونکہ مرد ناداں پر کلام نرم ونازک بے اثر ہونے کی بات اقبال بہت پہلے ہی کہہ گئے ہیں۔لغت میں کہیں بھی متقشف کا معنی خشک دماغ نہیں ہے، اوربالخصوص کسی فقیہہ کیلئے تواوربھی نہیں ،کیونکہ فقیہ کہتے ہی اس کو ہیں جو سمجھدار ہو اور کسی کو بیک وقت خشک دماغ فقیہ کہناایساہی ہے جیساکہ کہاجائے بغیرحدیث کا محدث،اوربغیر دولت کے مالدار،کسی کو زبردستی منوایانہیں جاسکتالیکن اتناضرور کہاجاسکتاہے کہ متقشف کا ترجمہ خشک دماغی سے کرنا خشک دماغی کی ہی علامت اورنشانی ہے۔اب اس میں کیافرق پڑتاہے کہ یہ ترجمہ ابن دائود نے کیاہے یاکسی محترمہ نے، وہ محترمہ کوئی سند اوراتھارٹی توہے نہیں، فارسی زبان اورلغت پر،اوراگرہوتی بھی تو اس کے مقابلے میں فارسی زبان وادب زیادہ معتبر ہوتی،اگرمولانا علی میاں کے مقدمہ کی بات ہے تو ان کامقدمہ ترجمہ کی صحت کی دلیل نہیں ہے۔
آگے جو شاہ ولی اللہ نے مقلدین فقہاء سے دور رہنے کی نصحیت کی ہے، اسے نظر انداز کرکے ایسا مطلب کشید کرنا، دل کے خوش رکھنے کے لئے تو اچھا خیال ہے، مگر درست نہیں!
شاوہ ولی اللہ نے علمائے محدثین یعنی کہ اہل الحدیث علماء سے رجوع کرنے کی نصیحت کی ہے اور مقلدین سے دور رہنے کی نصیحت کی ہے!
اب اگرکوئی دن دوپہر میں سورج نہ دیکھناچاہے تواس کا کیاعلاج ہے، شاہ ولی اللہ جہاں ایک جانب یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر تقلید کو ترجیح دینے والوں سے بچناچاہئے تودوسری جانب ایسے محدثین سے بھی گریز کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جنہیں فقہ وفقہاء سے عداوت ودشمنی ہے، ایسے محدثین کو انہوں نے ظاہری کہاتواس طرح کے فقہاء کو متقشف یعنی دین کی حقیقت سے جاہل وغافل۔
شاہ ولی اللہ تو صرف اتنی سی بات کہناچاہتے ہیں کہ انسان اس کی پیروی کرے جو حدیث اورفقہ دونوں کا جامع ہو،اگرشاہ ولی اللہ کی یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو پھر انہیں خداہی سمجھائے۔
ہم اپنے مافی الضمیر کو الفاظ کے پیرائے میں بیان کرنا خوب جانتے ہیں، اللہ کی توفیق سے! اور جب کوئی ہماری تحریر سے غلط مطلب اخذ کرتا ہے، تو ہم اس کی غلط فہمی باعتبار لغت وشرع بتلاتے ہیں! اب دیکھیں، آپ نے بھی شافعی، مالکی و حنبلی ہونا کا غلط مطلب اخذ کر لیا!
عربی کا ایک بہت زبان زد شعر ہے
وکم من عائب قولاصحیحا
وآفتہ من الفہم السقیم
آپ سے جب یہ عرض کیاگیا جو ذیل میں درج ہے کہ شافعی ،مالکی اورحنبلی کواگرآپ اہل حدیث کہتے ہیں تو پھر ان کی بیشتر تعداد مقلدین کی ہے توایسی صورت میں اہل حدیثوں کی تعداد بہت مختصر رہ جائے گی،توآپ نے اس کی تغلیط فرمادی اورفرمایاکہ یہ کلام کو سنہ سمجھنے کی دلیل ہے۔
شافعی مالکی اور حنبلی اہل الحدیث ہیں، اگر مقلدین نہیں!
آپ کا شافعی، مالکی، اور حنبلی کو مقلد کہنا واقعی آپ کے کلام کو نہ سمجھنے کی دلیل ہے! کیونکہ شافعی، مالکی اور حنبلی ہونے سے مقلد ہونالازم نہیں آتا!
لہٰذا آپ کی غلط فہم کی بنیاد پر کھڑی کوئی ہوئی عمارت کہ '' گویا اہل الحدیث کی بیشتر اور بڑی جماعت تقلید کی قائل ہے'' بلکل باطل ہے!
سوال یہ ہے کہ مالکیہ ،حنابلہ اورشوافع کی بیشتر اوربڑی تعداد جب ہر دور میں مقلد رہی ہے جو بڑے علماء ان میں رہے ہیں وہ بھی تقلید کے جواز کے قائل رہے ہیں توپھر اگر مقلد ہونے سے وہ اہل حدیث ہونے سے خارج ہورہے ہیں تو اہل حدیث بچے کس قدر اورکس تعداد میں!
آپ نہ یہ ماننے کے لئے تیار ہیں کہ مقلد شوافع ،مالکیہ اورحنابلہ اہل حدیث ہیں اورنہ ہی یہ ماننے کیلئے تیار ہیں کہ ان کو مقلد ماننے سے اہل حدیثوں کی تعداد بہت مختصر رہ جاتی ہے اورخدامان حدیث کی بڑی تعداد مقلدین کی ہی ٹھہرتی ہے،بس ضد پکڑرکھی ہے کہ نہ یہ تسلیم کروں گا نہ وہ تسلیم کروں گا بلکہ جومیراموقف ہے اس پر اٹل رہوں گاخواہ دلیل کچھ ہو،اگرچہ یہ ضد اور یہ ہٹ دھرمی آپ کی جماعت کی خاصیت بنتی جارہی ہے لیکن اس قدر واضح امور میں ضد اور ہٹ دھرمی مناسب نہیں رہتی۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب ہم حاضر ہو گئے ہیں، ان شاء اللہ جلد ہی عرض کرتا ہوں!
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب ہم حاضر ہو گئے ہیں، ان شاء اللہ جلد ہی عرض کرتا ہوں!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماشاء اللہ!
ایک بار پھر سے آپکو فورم پر خوش آمدید کہتے ہیں
 
Top