اول تو اس تساہل کی نشابدہی کر دوں کہ ''شفاء العلیل'' شاہ ولی اللہ کی تصنیف نہیں، بلکہ شاہ ولی اللہ کی عربی تصنیف ''القول الجميل في بيان سواء السبيل'' کا اردو ترجمہ اور حاشیہ ہے، جو خرم علی بلہوری نے کیا ہے۔ خیر یہ تو تساہل ہے، ایسا ہو جاتا ہے۔
شکریہ
اور یہاں تو بحث ہی اہل الحدیث کی فہم و فقہ کے معتبر اور اہل الرائے کی فہم وفقہ کے ''غیر معتبر'' ہونے پر ہو رہی ہے، اب ان کو فقہ کیونکر معتبر ہو، جو فقہ سے عدوات رکھتے ہوں! وہ تو خود ہی دستبردار ہوتے ہیں۔
بحث ہمارے لحاظ سے اس کے برعکس ہورہی ہے کہ اہل الرائے کی فقہ وفہم معتبر اوراہل الحدیث کی غیرمعتبر ہے،شاہ ولی اللہ کے زمانہ میں کونساظاہری محدث موجود تھا،حضرت شاہ ولی اللہ کے عہد کا مطالعہ یہ صاف بتاتاہے کہ اس زمانہ میں ظاہریوں کا کوئی وجود نہیں تھا،ابن حزم ظاہری کا مذہب عرصہ ہوامٹ چکاتھا، البتہ ابن حزم کی کتابیں اور ابن حزم کی کتابوں کے اقتباسات دیگر کتابوں میں موجود تھے جس میں سے کچھ کا ذکر شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب میں کیاہے،ایسے میں شاہ ولی اللہ کا محدث ظاہری سے مراد ابن حزم کی پیروی کرنے والامحدث نہیں بلکہ وہ محدث ہے جو فقہ اورفقہاء کوناپسند کرتاہے اوریہ آج کی بات نہیں، اس کا سررشتہ ماضی سے متصل ہے۔
گو کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی اسی کتاب میں بہت سی باتیں قابل اعتراض ونقد ہیں۔
تعجب ہے کہ شاہ ولی اللہ کی بہت ساری باتیں قابل نقد ہوتی ہیں اورپھر شاہ ولی اللہ کے ہی اقوال سے احناف کے خلاف استدلال بھی کیاجاتاہے،اگرکہاجائے کہ شاہ ولی اللہ تمہارے یہاں قابل احترام ہیں تو اہل حدیث میں بھی وہ قابل احترام ہیں، اگر کہاجائے کہ اہل حدیث ان کی تقلید نہیں کرتے تواحناف کون سی ان کی تقلید کرتے ہیں؟
اور یہ ترجمہ غلط نہیں، کیونکہ جیسا کہ آپ نے بھی اس کا معنی ''سخت گیر'' بھی لکھا ہے، اور اس عبارت میں ''متقشفہ فقہا'' انہیں قرار کہا گیا ہے جو تقلید کو اپنی دستاویز سمجھتے ہیں اور سنت کو ترک کرتے ہیں، اور اس کا تعلق مزاج و طبیعت کی سخت گیری سے نہیں کہ ''خشک مزاج'' کہا جائے، بلکہ عقل وخرد کی سخت گیری ہے، لہٰذا یہاں'' متقشفہ'' کا'' خشک دماغ'' یا''کوڑھ مغز ''کہنا غلط نہیں!
ویسے بھی اپنے عالم کی تقلید میں سنت کو ترک کرنے والے کے کم از کم ''خشک دماغ ''و ''کوڑھ مغز'' ہونے میں تو کوئی شک نہیں۔
میں نے پہلے ہی گزارش کی تھی کہ لغت کے باب میں کم ازکم اجتہاد سے کام نہ لیں، لیکن یہ گزارش بے اثر ثابت ہوئی اورہونی بھی چاہئے کیونکہ
مرد ناداں پر کلام نرم ونازک بے اثر ہونے کی بات اقبال بہت پہلے ہی کہہ گئے ہیں۔لغت میں کہیں بھی متقشف کا معنی خشک دماغ نہیں ہے، اوربالخصوص کسی فقیہہ کیلئے تواوربھی نہیں ،کیونکہ فقیہ کہتے ہی اس کو ہیں جو سمجھدار ہو اور کسی کو بیک وقت خشک دماغ فقیہ کہناایساہی ہے جیساکہ کہاجائے بغیرحدیث کا محدث،اوربغیر دولت کے مالدار،کسی کو زبردستی منوایانہیں جاسکتالیکن اتناضرور کہاجاسکتاہے کہ متقشف کا ترجمہ خشک دماغی سے کرنا خشک دماغی کی ہی علامت اورنشانی ہے۔اب اس میں کیافرق پڑتاہے کہ یہ ترجمہ ابن دائود نے کیاہے یاکسی محترمہ نے، وہ محترمہ کوئی سند اوراتھارٹی توہے نہیں، فارسی زبان اورلغت پر،اوراگرہوتی بھی تو اس کے مقابلے میں فارسی زبان وادب زیادہ معتبر ہوتی،اگرمولانا علی میاں کے مقدمہ کی بات ہے تو ان کامقدمہ ترجمہ کی صحت کی دلیل نہیں ہے۔
آگے جو شاہ ولی اللہ نے مقلدین فقہاء سے دور رہنے کی نصحیت کی ہے، اسے نظر انداز کرکے ایسا مطلب کشید کرنا، دل کے خوش رکھنے کے لئے تو اچھا خیال ہے، مگر درست نہیں!
شاوہ ولی اللہ نے علمائے محدثین یعنی کہ اہل الحدیث علماء سے رجوع کرنے کی نصیحت کی ہے اور مقلدین سے دور رہنے کی نصیحت کی ہے!
اب اگرکوئی دن دوپہر میں سورج نہ دیکھناچاہے تواس کا کیاعلاج ہے، شاہ ولی اللہ جہاں ایک جانب یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر تقلید کو ترجیح دینے والوں سے بچناچاہئے تودوسری جانب ایسے محدثین سے بھی گریز کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جنہیں فقہ وفقہاء سے عداوت ودشمنی ہے، ایسے محدثین کو انہوں نے ظاہری کہاتواس طرح کے فقہاء کو متقشف یعنی دین کی حقیقت سے جاہل وغافل۔
شاہ ولی اللہ تو صرف اتنی سی بات کہناچاہتے ہیں کہ انسان اس کی پیروی کرے جو حدیث اورفقہ دونوں کا جامع ہو،اگرشاہ ولی اللہ کی یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو پھر انہیں خداہی سمجھائے۔
ہم اپنے مافی الضمیر کو الفاظ کے پیرائے میں بیان کرنا خوب جانتے ہیں، اللہ کی توفیق سے! اور جب کوئی ہماری تحریر سے غلط مطلب اخذ کرتا ہے، تو ہم اس کی غلط فہمی باعتبار لغت وشرع بتلاتے ہیں! اب دیکھیں، آپ نے بھی شافعی، مالکی و حنبلی ہونا کا غلط مطلب اخذ کر لیا!
عربی کا ایک بہت زبان زد شعر ہے
وکم من عائب قولاصحیحا
وآفتہ من الفہم السقیم
آپ سے جب یہ عرض کیاگیا جو ذیل میں درج ہے کہ شافعی ،مالکی اورحنبلی کواگرآپ اہل حدیث کہتے ہیں تو پھر ان کی بیشتر تعداد مقلدین کی ہے توایسی صورت میں اہل حدیثوں کی تعداد بہت مختصر رہ جائے گی،توآپ نے اس کی تغلیط فرمادی اورفرمایاکہ یہ کلام کو سنہ سمجھنے کی دلیل ہے۔
شافعی مالکی اور حنبلی اہل الحدیث ہیں، اگر مقلدین نہیں!
آپ کا شافعی، مالکی، اور حنبلی کو مقلد کہنا واقعی آپ کے کلام کو نہ سمجھنے کی دلیل ہے! کیونکہ شافعی، مالکی اور حنبلی ہونے سے مقلد ہونالازم نہیں آتا!
لہٰذا آپ کی غلط فہم کی بنیاد پر کھڑی کوئی ہوئی عمارت کہ '' گویا اہل الحدیث کی بیشتر اور بڑی جماعت تقلید کی قائل ہے'' بلکل باطل ہے!
سوال یہ ہے کہ مالکیہ ،حنابلہ اورشوافع کی بیشتر اوربڑی تعداد جب ہر دور میں مقلد رہی ہے جو بڑے علماء ان میں رہے ہیں وہ بھی تقلید کے جواز کے قائل رہے ہیں توپھر اگر مقلد ہونے سے وہ اہل حدیث ہونے سے خارج ہورہے ہیں تو اہل حدیث بچے کس قدر اورکس تعداد میں!
آپ نہ یہ ماننے کے لئے تیار ہیں کہ مقلد شوافع ،مالکیہ اورحنابلہ اہل حدیث ہیں اورنہ ہی یہ ماننے کیلئے تیار ہیں کہ ان کو مقلد ماننے سے اہل حدیثوں کی تعداد بہت مختصر رہ جاتی ہے اورخدامان حدیث کی بڑی تعداد مقلدین کی ہی ٹھہرتی ہے،بس ضد پکڑرکھی ہے کہ نہ یہ تسلیم کروں گا نہ وہ تسلیم کروں گا بلکہ جومیراموقف ہے اس پر اٹل رہوں گاخواہ دلیل کچھ ہو،اگرچہ یہ ضد اور یہ ہٹ دھرمی آپ کی جماعت کی خاصیت بنتی جارہی ہے لیکن اس قدر واضح امور میں ضد اور ہٹ دھرمی مناسب نہیں رہتی۔