• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرین استمداد غیر اللہ سے چند سوالات

کشمیر خان

مبتدی
شمولیت
اگست 22، 2015
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
25
خان صاحب !
ہر آنکھ والے کو نظر آرہا ہے کہ ہم کاپی پیسٹ نہیں کیا ۔۔بلکہ علامہ رازیؒ کی پوری تفسیری عبارت نقل کرکے ترجمہ کے ساتھ آپ کے واویلے
کا ٹھوس جواب دیا ہے؛
ورابعها: أنهم وضعوا هذه الأصنام والأوثان على صور أنبيائهم وأكابرهم، وزعموا أنهم متى اشتغلوا بعبادة هذه التماثيل، فإن أولئك الأكابر تكون شفعاء لهم عند الله تعالى، ونظيره في هذا الزمان اشتغال كثير من الخلق بتعظيم قبور الأكابر، على اعتقاد أنهم إذا عظموا قبورهم فإنهم يكونون شفعاء لهم عند الله. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واعلم أن كل هذه الوجوه باطلة بالدليل الذي ذكره الله تعالى وهو قوله: ويعبدون من دون الله ما لا يضرهم ولا ينفعهم وتقريره ما ذكرناه من الوجوه الثلاثة.

اور چوتھی صورت یہ تھی کہ انہوں نے انبیاء و اکابرین کے بت بنالئے تھے
اور انکی پرستش کرنے لگے تھے اس اعتقاد کے ساتھ کہ اس طرح یہ اکابر ۔ اللہ کی جناب میں ہمارے شفیع اور سفارشی بنیں گے ۔
’’اور اس زمانہ میں اس کی نظیر یہ ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے لوگ بزرگوں کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ جب وہ ان کی قبروں کی تعظیم کریں گے تو وہ بزرگ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کی شفاعت کریں گے ‘‘
(آخر میں علامہ رازی ؒ لکھتے ہیں )
خبر دار ! یہ تمام صورتیں باطل ہیں اس قرآنی دلیل سے جو اللہ عزوجل نے بیان فرمائی‘‘ یعنی :(ويعبدون من دون الله ما لا يضرهم ولا ينفعهم )

اب یہ ’’ مبارک ‘‘ اور واضح عبارت آپکے شرکیہ ’’ استمداد ‘‘ کا کھلا رد ہے ۔۔جو علامہ رازی جیسے مفسر کے قلم سے رقم ہوئی؛
میرے اعتراض کا جواب نہیں آیا!!
جناب!
میں کہتا ہوں کہ قبروں کی تعظیم مطلقا نظیرِ شرکِ مشرکین ہے یا کوئی خاص صورت؟
امام رازی علیہ الرحمۃ کے مبارک قول کے دونوں حصوں کو دیکھیں ناں جناب۔۔ ’’جاہلی مشرکوں‘‘ نے تو اپنے معبودانِ باطلہ کو اللہ عزوجل کے برابر ٹھہرایا ہوا تھا (سورۃ الشعراء:98) تو اب قبروں کی تعظیم تبھی ’’جاہلی مشرکوں‘‘ کے شرک کی نظیر قرار دی جا سکتی ہے جب اس تعظیمِ قبور میں وہی علت مذکورہ پائی جائے۔
اگر آپ کو اس سے اختلاف ہے تو میرا رد کریں دلیل سے!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
میں کہتا ہوں کہ قبروں کی تعظیم مطلقا نظیرِ شرکِ مشرکین ہے یا کوئی خاص صورت؟
اس کا جواب علامہ رازیؒ کی اس عبارت میں موجود ہے جو میں کئی بار پیش کر چکا ہوں ؛ آپ اس عبارت کو ’’ بریلی کی عینک اتار کر بار بار دیکھیں
ان شاء اللہ نظر آجائے گی ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کشمیر خان

مبتدی
شمولیت
اگست 22، 2015
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
25
اس کا جواب علامہ رازیؒ کی اس عبارت میں موجود ہے جو میں کئی بار پیش کر چکا ہوں ؛ آپ اس عبارت کو ’’ بریلی کی عینک اتار کر بار بار دیکھیں
ان شاء اللہ نظر آجائے گی ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کئی بار‘‘ صرف اور صرف وہ عبارات لکھ دی ہیں جناب نے
مگر ان میں میرے آپ پر کیے گئے اعتراض یا سوال کا جواب نہیں ہے۔
اگر آپ کو ’’نظر‘‘ آ رہا ہے جواب تو لکھ کیوں نہیں دیتے۔ سوال یا اعتراض یہ ہے:
میں کہتا ہوں کہ قبروں کی تعظیم مطلقا نظیرِ شرکِ مشرکین ہے یا کوئی خاص صورت؟
امام رازی علیہ الرحمۃ کے مبارک قول کے دونوں حصوں کو دیکھیں ناں جناب۔۔ ’’جاہلی مشرکوں‘‘ نے تو اپنے معبودانِ باطلہ کو اللہ عزوجل کے برابر ٹھہرایا ہوا تھا (سورۃ الشعراء:98) تو اب قبروں کی تعظیم تبھی ’’جاہلی مشرکوں‘‘ کے شرک کی نظیر قرار دی جا سکتی ہے جب اس تعظیمِ قبور میں وہی علت مذکورہ پائی جائے۔
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی مبارک عبارت تو بالکل بے غبار ہے۔۔مگر اس سے جو نظریہ جناب نے اخذ فرمایا ہے، اسکا تو شائبہ تک نہیں!! اور یہی میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ اپنے اخذ کردہ نظریہ کا ثبوت تو دو اسی تفسیر سے مگر جواب نہیں بن پڑا آپ سے۔۔۔
اگر آپ کو اس سے اختلاف ہے تو میرا رد کریں دلیل سے!

کہ مشرکین کے اس قول ’’ هؤلاء شفعاؤنا عند الله ‘‘ یہ جن کی ہم پوجا کرتے ہیں (مستقل ’’ الہ ‘‘ نہیں ،بلکہ ) اللہ کی جناب میں ہمارے شفیع اور سفارشی ہیں
(مستقل ’’ الہ ‘‘ نہیں ،بلکہ ) یہ علامہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کے کس قول کا ترجمہ یا ترجمانی ہے؟؟؟؟
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سو باتوں کی ایک بات:
کہ ابو جہل کے پیروکاروں نے قرآن حدیث کو رد کر دینا ہے!
باذن اللہ کی قید کے بغیر تو کوئی ایک مکھی کے پر جیسی چیز نہیں بنا سکتا مگر باذن اللہ کی قید سے مردوں کو زندہ کرنے کا دعوی نبی کا ہے!!
اس فورم کے تمام اہلحدیثوں کو کھلا چیلنج:
کوئی ایک ہی آیت یا ایک ہی حدیث ایسی لاؤ کہ جس سے مشرکین کا یہ عقیدہ ثابت ہو کہ وہ اپنے جھوٹے معبودوں کا اختیار باذن اللہ کی قید سے مقید مانتے تھے؟؟
سن لو اہلحدیثو!! میں دس بیس آیات یا درجن بھر احادیث کی بات نہیں کر رہا ہوں، صرف ایک ہی ایسی آیت لا دو یا آیت نہیں لا سکتے تو صرف ایک ہی حدیث پیش کردو ایسی۔۔۔۔
میرے اسی ٹاپک میں پہلے والے سوالات کے جوابات دینے کی تو ہمت نہیں کی اب تک کسی نے۔۔۔ اسی ایک چیلنج کو تو قبول کرنے کی سعی کر لو!!
یہ سوال بھی اپنے سوال نامہ میں شامل کر ہی دیتے! آپ کو بعد میں یاد آیا ہے کوئی بات نہیں، آپ کے اس اکتیسویں سوال کا جواب بھی دیا جائے گا!
ذرا دھیرج رکھئے! قادری رانا صاحب سے گفتگو کو بغور مطالعہ فرمائیے گا!
حضرت کام آپ نے وہی کیا ہے بتوں والی آیات پیش کر کے۔
اس آیت کو آپ نے ''بتوں'' کے ساتھ منحصر کیسے کردیا؟ بھائی جان میں نے اسی لئے آپ کے احمد رضا خان بریلوی کا ترجمہ پیش کیا تھا۔
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ ﴿سورة الأعراف 194- 195﴾
بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو، ﴿﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤ چلو اور مجھے مہلت نہ دو (ترجمہ : احمد رضا خان بریلوی)
احمد رضا خان نے ''تمہاری طرح بندے'' لکھا ہے۔ اور احمد رضا خان کا یہ ترجمہ بالکل درست ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو نازل کئے ہیں وہ ﴿عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ﴾ لہٰذا اس آیت میں ما فوق الاسباب پکار یعنی کہ عبادت (پوجا) کو بتوں کے ساتھ منحصر نہیں کیا جاسکتا!
اور اس پکار کو ما فوق الاسباب کے ساتھ مقید کرنے کی دلیل اسی آیت میں موجود ہے، ﴿أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں۔
ویسے پکار کے عبادت ہونے کے لئے ما فوق الاسباب ہونے کے تقید کے قرآن و سنت میں یوں تو اور بھی دلائل ہیں، مگر یہی دلیل کفایت کرتی ہے!
چلیں بات یہ ہے کہ اگر سوال کے مطابق جواب دیتے اپنے عقیدے کو واضح کرتے اور پھر دلائل دیتے تو ٹھیک تھا۔
قادری رانا بھائی! ہم نے دلیل کے ساتھ اپنا مؤقف بیان کر دیا آپ کہتے کہ اپنے عقیدے کو واضح کرتے!
اور کیا بیان و وضاحت ہوتی ہے؟ہم نے اپنا مؤقف قران کی آیت پیش کر رکے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے ما فوق الاسباب مدد طلب کرنا و پکار غیر اللہ کی عبادت ہے اور یہ شرک ہے! اور کس چیز کا نام بیان اور وضاحت ہوتا ہے؟
اور ہم پہلے ہی بیان کردیا تھا، اقتباس دوبارہ پیش کیا جارہا ، بغور مطالعہ فرمائیں:
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ ﴿سورة الأعراف 194- 195﴾
بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو، ﴿﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤ چلو اور مجھے مہلت نہ دو (ترجمہ : احمد رضا خان بریلوی)

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں غیر اللہ کی پکار کے بطلان کو بیان کرتے ہوئے غیر اللہ کو اسباب کا محتاج ٹھہرایا ہے، کہ اللہ کے علاوہ جنہیں پکارا جاتا ہے، ان کے پاس وہ اسباب ہے ہی کہاں کہ وہ تمہاری پکار کو سن سکیں اور اس کا جواب دے سکیں!
جبکہ اللہ تعالیٰ تو کسی سبب کا محتاج نہیں ، بلکہ اس کی تمام صفات فوق الاسباب ہیں!
اللہ تعالیٰ تو وہ ذات پاک ہے کہ جس نے مخلوق بھی پیدا کی اور اپنی مخلوق کے لئے اسباب بھی پیدا کئے ہیں!
قرآن کی یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ما تحت الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے، اور ما فوق الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے۔
قرآن کی یہ آیت اس امر میں بھی صریح دلیل ہے کہ ما فوق الاسباب کسی مخلوق کو پکارنا اور اس سے مدد طلب کرنا اسے معبود بنانا اور اور شرک ہے، جبکہ ما تحت الاسباب کی اس امر مین داخل نہیں!
چلیں آپ کی باتوں کا جواب بھی ہم دیں گئے لیکن ایک دو باتوں کا جواب عطا فرمائیں۔
ہم بھی دیکھیں گے کہ آپ کیا جواب دیتے ہیں!
آپ کے مزید دو باتیں کشید کرنا تو ہمیں پہلے ہی اندازہ تھا، اس لئے ہم نے پہلے ہی اس کا بندوبست بھی کردیا تھا! ابھی اس یہ بات بھی واضح ہو جائے گی! ان شاء اللہ!

مافوق الاسباب سے کیا مراد ہے؟اسباب غیر عادیہ سے مدد کرنا یا اسباب عادیہ اور اسباب غیر عادیہ بے نیاز ہو کر مدد کرنا؟
ما فوق الاسباب سے مراد ما فوق الاسباب ہے! ما فوق الاسباب سے مراد ما تحت الاسباب نہیں!
قادری رانا بھائی! جب ہم نے ما فوق الاسباب کا ذکر کیا ہے ، تو اس میں تمام میسر اسباب شامل ہیں! خواہ عادیہ ہوں یا غیر عادیہ!
نوٹ: قادری رانا بھائی! اس اسکو ل کا میں پرنسپل ہوں!
دوسری بات جیسے ڈاکٹر گولی دیتا ہے تو اس سے شفا مل جاتی ہے یہ تحت الاسباب مگر نبی ولی ہاتھ پھیرتے ہیں تو شفا مل جاتی ہے یہ مافوق الاسباب ۔کیا یہ درست ہے؟
قادری رانا بھائی! ڈاکٹر کا گولی دینا تحت الاسباب ہے، بلکل اس سے شفا کاحصول ہونا بھی تحت الاسباب، اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً ".
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو ۔
صحيح البخاري » كِتَاب الطِّبِّ » باب مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، وَأَبُو الطَّاهِرِ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، قَالُوا : حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ قَال : " لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ فَإِذَا أُصِيبَ دَوَاءُ الدَّاءِ بَرَأَ بِإِذْنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ".
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بیماری کی دوا ہے جب بیمار کی دوا پہنچ جاتی ہے تو اللہ کے حکم سے وہ بیماری دور ہو جاتی ہے۔
صحيح مسلم » كِتَاب السَّلَامِ » بَاب لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ وَاسْتِحْبَابِ التَّدَاوِي

جبکہ کسی ''ولی'' کا محض ''ہاتھ پھیرنا'' کوئی سبب نہیں! البتہ ہاتھ پھیر کر دعا اور دم کرنا ما فوق الاسباب اللہ کو پکارنا ہے!
اس میں بھی شرعی تقاضوں کو مدّنظر رکھنا لازم ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاقُ : أَخْبَرَنَا وقَالَ زُهَيْرٌ : وَاللَّفْظُ لَهُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قالت : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَكَى مِنَّا إِنْسَانٌ مَسَحَهُ بِيَمِينِهِ ، ثُمَّ قَالَ : " أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا " ، فَلَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَقُلَ أَخَذْتُ بِيَدِهِ لِأَصْنَعَ بِهِ نَحْوَ مَا كَانَ يَصْنَعُ ، فَانْتَزَعَ يَدَهُ مِنْ يَدِي ، ثُمَّ قَالَ : " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَاجْعَلْنِي مَعَ الرَّفِيقِ الْأَعْلَى " ، قَالَتْ : فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ قَدْ قَضَى.
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ہم میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تو رسول اللہ اس پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے پھر فرماتے تکلیف کو دور کر دے اے لوگوں کے پروردگار شفاء دے تو ہی شفا دینے والا ہے تیری شفاء کے علاوہ کوئی شفا نہیں ہے ایسی شفا دینے والا ہے تیری شفا کہ کوئی بیماری باقی نہ رہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور بیماری شدید ہوگئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا تاکہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے اسی طرح کروں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے کھینچ لیا پھر فرمایا اے اللہ میری مغفرت فرما اور مجھے رفیق اعلی کے ساتھ کر دے سیدہ فرماتی ہیں میں نے آپ کی طرف دیکھنا شروع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے تھے۔
صحيح مسلم » كِتَاب السَّلَامِ » بَاب اسْتِحْبَابِ رُقْيَةِ الْمَرِيضِ

پھر اگر اس سے مراد اسباب غیر عادیہ سے مدد ہے تو حضرت موسی کا پتھر سے پانی نکالنا،
قادری بھائی جان! آپ نے یہ موضوع سے باہر کی ایک بات بحث میں داخل کی ہے۔کیونکہ ابھی بات ہے استمداد بغیر اللہ کے حوالے سے!
قادری رانا بھائی! ان باتوں کی عبارت آپ ضرور پیش کیا کیجئے وہ بھی مع حوالہ؛
آپ عبارت پیش کریں اور اس عبارت سےموسی علیہ السلام کی ما فوق الاسباب استمداد بغیر اللہ دکھلائیں!
حضور اکرم کا پانی کے پیالہ میں ہاتھ ڈالنا اور انگشتان مبارکہ سے چشمے کا بہنا،
ایک بار پھر وہی عرض کروں گا کہ:
قادری بھائی جان! آپ نے یہ موضوع سے باہر کی ایک بات بحث میں داخل کی ہے۔کیونکہ ابھی بات ہے استمداد بغیر اللہ کے حوالے سے!
قادری رانا بھائی! ان باتوں کی عبارت آپ ضرور پیش کیا کیجئے وہ بھی مع حوالہ؛
آپ عبارت پیش کریں اور اس عبارت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ما فوق الاسباب استمداد بغیر اللہ دکھلائیں!

حضرت عیسی کا مردوں کو زندہ کرنا یہ سب اسباب غیر عادیہ کے تحت ہی تھا۔
ایک بار پھر وہی عرض کروں گا کہ:
قادری بھائی جان! آپ نے یہ موضوع سے باہر کی ایک بات بحث میں داخل کی ہے۔کیونکہ ابھی بات ہے استمداد بغیر اللہ کے حوالے سے!
قادری رانا بھائی! ان باتوں کی عبارت آپ ضرور پیش کیا کیجئے وہ بھی مع حوالہ؛
آپ عبارت پیش کریں اور اس عبارت سےعیسیٰ علیہ السلام کی ما فوق الاسباب استمداد بغیر اللہ دکھلائیں!

لہذا اگر یہ شرک ہے تو انبیا بھی اس سے محفوظ نہ رہے۔؟اس کی وضاحت فرمائیں
بھائی جان ہم نے ما فوق الاسباب استمداد بغیر اللہ کو شرک کہا ہے، اور اس پر قرآن کی صریح دلیل پیش کی ہے! آپ پہلے انبیاء علیہ السلام سے ما فوق الاسباب استمداد بغیر اللہ ثابت تو کیجئے!
دیکھتے ہیں، آپ انبیاء علیہ السلام سے مافوق الاسباب استمداد بغیر اللہ ثابت کرنے کے لئے ان باتوں کی کون سی عبارت پیش کرتے ہیں!

باقی جوا ب انشا اللہ عنقریب دیا جائے گا
جوابات کے ہم بھی منتظر ہیں!

جناب ہم نے کہا تھا نہ کہ پیش آپ نے بتوں والی آیات ہی کرنی ہے۔
اول تو یہ بتائیے کہ کیا بتوں اور مشرکوں اور کفار کے اعتقاد و افعال بیان کرنے والی آیات منسوخ ہیں؟ کہ ان سے استدلال نہیں کیا جا سکتا! جو فعل شرک کا ہے وہ مشرکین کا فعل ہی قرآن میں ذکر ہے، اسی طرح کفر کا بھی!
اب انبیاء علیہ السلام کے اعتقاد و افعال تو کفر و شرک نہیں!

دوم میں یاد دہانی کے لئے پہلے کیا گیا بیان دوبارہ پیش کرتا ہوں:
اس آیت کو آپ نے'' بتوں'' کے ساتھ منحصر کیسے کردیا؟ بھائی جان میں نے اسی لئے آپ کے احمد رضا خان بریلوی کا ترجمہ پیش کیا تھا۔
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ ﴿سورة الأعراف 194- 195﴾
بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو، ﴿﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤ چلو اور مجھے مہلت نہ دو (ترجمہ : احمد رضا خان بریلوی)
احمد رضا خان نے ''تمہاری طرح بندے'' لکھا ہے۔ اور احمد رضا خان کا یہ ترجمہ بالکل درست ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو نازل کئے ہیں وہ ﴿عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ﴾ لہٰذا اس آیت میں ما فوق الاسباب پکار یعنی کہ عبادت (پوجا) کو بتوں کے ساتھ منحصر نہیں کیا جاسکتا! ﴿أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں

اور اس پکار کو ما فوق الاسباب کے ساتھ مقید کرنے کی دلیل اسی آیت میں موجود ہے، ﴿أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں۔
ویسے پکار کے عبادت ہونے کے لئے ما فوق الاسباب ہونے کے تقید کے قرآن و سنت میں یوں تو اور بھی دلائل ہیں، مگر یہی دلیل کفایت کرتی ہے!

چلیں جو آیت آپ نے پیش کی اس کی تشریح کرتے ہوئے قاضی ثنا اللہ لکھتے ہیں
مطلب اس طرح ہو کے کیونکہ انہوں نے بتوں کی مورتیاں بنا رکھیں تھیں ان سے فرمایا کی یہ زیادہ سے زیادہ زندہ بھی ہو جائیں تو بھی عبا دت کے مستحق نہیں ہو سکتے۔(تفسیر مظہری ج 4 ص 302)
پہلی بات تو یہ آیت ہے بتوں کے بارے میں پھر یہاں عبادت کی نفی ہے۔جیسا کہ تفسیرمظہری کے حوالے سے گزارا۔
قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی، المظہری الحنفی (متوفی 1225ھ)
قادری رانا بھائی! اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں! کہ ہم پر یعنی کہ اہل الحدیث پر اہل الرائے کی تفسیر و شرح و اقوال سے حجت قائم نہیں کی جا سکتی! ہم تو اہل الرائے پر ان کے علماء کی تفسیر و شرح و اقوال سے بطور دلائل خصم دلیل و حجت قائم کر نے کے مجاز ہیں! آپ بلکل اپنے مؤقف کے بیان میں اپنے ان اہل الرائے کی تفسیر و شرح و اقوال کو پیش کر سکتے ہو! لیکن ان سے ہم پر اعتراض قائم نہیں کرسکتے!
جس طرح ہم شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ یا دیگر اہل الحدیث علماء کی تفسیر و شرح و اقوال سے آپ پر حجت قائم نہیں کر سکتے! ہاں اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے ان کی تفسیر و شرح و اقوال بیان کرسکتے ہیں ، اور کرتے ہیں!
باقی وہ فقہاء و علماء ہیں جو متفق علیہ ہیں! اگر میری طرف سے پیش کردہ مفسر و شارح و فقیہ آپ کے لئے معتبر نہ ہو تو بالکل آپ یہ فرما دیں کہ یہ آپ کے نزدیک معتبر نہیں!
مثلاً امام الذہبی و امام ابن کثیر رحمہ اللہ عنہما! گو کہ یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں ، لیکن آپ کے ہاں بھی معتبر ہیں قرار پائیں ہیں!

دوم کہ آپ نے قاضی ثناء اللہ پانی پتی کے حوالہ سے بھی بات یاتو سمجھی نہیں یا پھر کسی اور نے آپ کے یہ پٹی پڑھا دی ہے۔
میں آپ سے اسی لئے عبارت طلب کر رہا تھا!
آپ نے عبارت پیش کرنے میں بھی غلطی کی ہے! وہ یہ کہ آپ نے تفسیر مظہری کا اردو ترجمہ پیش کیا، جو سید عبد الدائم الجلالی کا تشریحی ترجمہ ہے ! میں آپ کو تفسیر مظہری کی اصل عبارت اور اور آپ کے پیش کردہ سید عبد الدائم الجلای کا رشریحی ترجمہ اور پیر محمد کرم شاہ الازہری کا ترجمہ بھی پیش کرتا ہوں!
(واقعی تم خدا کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی جیسے بندے ہیں اگر تم سچے ہو تو ان کو پکاروں پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کردیں)۔
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ ايها المشركون مِنْ دُونِ اللَّهِ اى تعبدونهم وتسمونهم الهة عِبادٌ أَمْثالُكُمْ اى مخلوقة مملوكة مذللة مسخرة لما أريد منهم قال مقاتل أراد به الملئكة والخطاب مع قوم يعبدون الملئكة والاول أصح فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ انها الهة ويحتمل انهم لما نحتوا الأصنام بصورا لاناسى قال لهم ان منتهى أمرهم ان يكونوا احياء عقلاء أمثالكم فلا يستحقون عبادتكم كما لا يستحقها بعضكم من بعض ثم بين انها دونكم منزلة فقال.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 473 جلد 03 التفسير المظهري - محمد ثناء الله الفاني فتي الحنفي المظهري - دار إحياء التراث العربي، بيروت

إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ یعنی اے مشرکو اللہ کے سوا تم جن کی عبادت کرتے اور ان کو معبود کہتے ہو۔ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ تمہاری طرح بندے ہیں یعنی مخلوق ہیں اللہ کے مملوک اور تابع ارادہ ہیں۔ مقاتل نے کہا خطاب کا رخ ان لوگوں کی طرف ہے جو فرشتوں کو پوچا کرتے تھے اس لئے، الَّذِينَ تَدْعُونَ سے مراد ملائکہ ہیں اور اول تفسیر زیادہ صحیح ہے۔ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ اگر تم سچے ہو کہ وہ الہ ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مطلب اس طرح ہو کہ چونکہ انسانوں کی شکل کی انہوں مورتیاں بنا رکھی تھیں تو ان سے (گویا) فرمایا کہ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ یہ تمہاری طرح زندہ اور عاقل ہو جائیں اگر ایسا ہو بھی جائے تب بھی وہ تمہاری عبادت کے مستحق نہیں ہوسکتے جس طرح تم میں سے کسی عبادت کا مستحق نہیں ہے اس سے آگے واضح فرمایا کہ وہ تو تم سے کمتر درجہ پر ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 303 جلد 04 تفسیر مظہری مترجم اردو – تشریحی ترجمہ سید عبد الدائم الجلالی – دار الاشاعت، کراچی

(اے کفار) بے شک وہ جنہیں تم پوجتے ہو اللہ کے سوا بندے ہیں تمہاری طرح تو پکارو انہیں پس چاہئے کہ قبول کریں تمہاری بکار اگر تم سچے ہو)
جن کی تم عبادت کرتے ہو اور ان کو خدا کہتے ہو تمہاری طرح مخلوق، مملوک، مطیع اور ارادہ تابع ہیں۔ مقاتل فرماتے ہیں عباد سے مراد فرشتے ہیں اور اس قوم کو خطاب ہو رہا ہے جو ملائکہ کی عبادت کرتی تھی۔ پہلا قول اصح ہے۔ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ اگر تم اس عقیدہ میں سچے ہو کہ یہ خدا ہیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ جب انہوں نے انسانوں کی شکل میں بت گھڑ لئے تو فرمایا ان مورتیوں کی انتہا تمہارے خیال کے مطابق ہی ہوگی کہ یہ تمہاری طرح زندہ اور عقل رکھتے ہیں اگر یہ بھی مان لیا جائے تو یہ بے بس مورتیاں کیسے عبادت کی مستحق ہو سکتی ہیں؟ تم بھی زندہ اور عقل والے ہو تم ایک دوسرے کی عبادت کے مستحق نہیں تو یہ کیسے ہوں گی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 521 جلد 03 تفسیر مظہری مترجم اردو – مترجم پیر محمد کرم شاہ الازہری – دار الاشاعت، کراچی

آئیے اب ہم آپ کو بتلائیں کہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے درحقیقت کہا کیا ہے!
قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اس آیت کی دو تفسیر بیان کی ہے، پہلی جسے انہوں سے اصح یعنی راجح قرار دیا ہے، وہ یہ ہے:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ ايها المشركون مِنْ دُونِ اللَّهِ اى تعبدونهم وتسمونهم الهة عِبادٌ أَمْثالُكُمْ اى مخلوقة مملوكة مذللة مسخرة لما أريد منهم............ والاول أصح
جن کی تم عبادت کرتے ہو اور ان کو خدا کہتے ہو تمہاری طرح مخلوق، مملوک، مطیع اور ارادہ تابع ہیں۔۔۔۔۔۔۔ پہلا قول اصح ہے۔
دوسری تفسیر قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے جو بیان کی ہے مرجوح قرار دیا ہے وہ یہ ہے:
قال مقاتل أراد به الملئكة والخطاب مع قوم يعبدون الملئكة
مقاتل فرماتے ہیں عباد سے مراد فرشتے ہیں اور اس قوم کو خطاب ہو رہا ہے جو ملائکہ کی عبادت کرتی تھی۔
نوٹ: ویسے آپ اس مقاتل کے بارے میں کچھ جانتے بھی ہیں؟
اب ایک بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ کہ دوسری تفسیر سے پہلی تفسیر جو کہ اصح ہے کو ترک نہیں کیا جاسکتا، یعنی کہ جو عموم پہلی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے اس کو دوسری تفسیر سے خاص نہیں کیا جاسکتا، وگرنہ اسے اصح قرار دینا عبث ہو جائے گا! لہٰذا دوسری تفسیر پہلی تفسیر کے تابع تو ہو سکتی ہے، مگر پہلی تفسیر کے عموم کی نفی نہیں کرسکتی!
پھر قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے دوسری تفسیر کے حوالے سے ایک احتمال بیان کیا ہے کہ یہ ایک احتمال ہے کہ:
ويحتمل انهم لما نحتوا الأصنام بصورا لاناسى قال لهم ان منتهى أمرهم ان يكونوا احياء عقلاء أمثالكم
یہ بھی احتمال ہے کہ جب انہوں نے انسانوں کی شکل میں بت گھڑ لئے تو فرمایا ان مورتیوں کی انتہا تمہارے خیال کے مطابق ہی ہوگی کہ یہ تمہاری طرح زندہ اور عقل رکھتے ہیں
اب اس احتمال سے تو قرآن کے آیت کے عموم میں تخصیص ہو نہیں سکتی! بلکہ اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ یہ احتمال بھی اس عموم میں داخل ہے!
اور پھر قاضی ثناء اللہ پانی پاتی نے اس احتمال کے درست ہونے کی سورت میں بھی پہلی تفسیر کا اثبات ثابت کیا ہے؛ قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں:
أمثالكم فلا يستحقون عبادتكم كما لا يستحقها بعضكم من بعض ثم بين انها دونكم منزلة فقال.
اگر یہ بھی مان لیا جائے تو یہ بے بس مورتیاں کیسے عبادت کی مستحق ہو سکتی ہیں؟ تم بھی زندہ اور عقل والے ہو تم ایک دوسرے کی عبادت کے مستحق نہیں تو یہ کیسے ہوں گی۔
قادری رانا صاحب! کچھ سمجھ آیا اب؟

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لفظ تدعون کا ترجمہ مفسرین نے یعبدون سے کیا ۔
بلکل جناب! اور یہی ترجمہ میں نے آپ کو پیش کیا تھا، اور وہ بھی احمد رضا خان بریلوی کا!
یہی تو ہم آپ کو سمجھا رہے ہیں کہ ما فوق الاسباب دعا عبادت ہے! اسی لئے یہاں مفسرین و مترجمین نے اس کا ترجمہ عبادت ہی کیا ہے!
یہ بات پہلے ہی بتا دی تھی، کہ یہاں تدعون بمعنی تعبدون ہی ہے، کیونکہ یہاں ما فوق الاسباب پکار کا ذکر ہے: ہم اپنے بیان کردہ مؤقف کا دوبارہ اقتباس پیش کرتے ہیں:
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ ﴿سورة الأعراف 194- 195﴾
بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو، ﴿﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤ چلو اور مجھے مہلت نہ دو (ترجمہ : احمد رضا خان بریلوی)

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں غیر اللہ کی پکار کے بطلان کو بیان کرتے ہوئے غیر اللہ کو اسباب کا محتاج ٹھہرایا ہے، کہ اللہ کے علاوہ جنہیں پکارا جاتا ہے، ان کے پاس وہ اسباب ہے ہی کہاں کہ وہ تمہاری پکار کو سن سکیں اور اس کا جواب دے سکیں!
جبکہ اللہ تعالیٰ تو کسی سبب کا محتاج نہیں ، بلکہ اس کی تمام صفات فوق الاسباب ہیں!
اللہ تعالیٰ تو وہ ذات پاک ہے کہ جس نے مخلوق بھی پیدا کی اور اپنی مخلوق کے لئے اسباب بھی پیدا کئے ہیں!
قرآن کی یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ما تحت الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے، اور ما فوق الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے۔
قرآن کی یہ آیت اس امر میں بھی صریح دلیل ہے کہ ما فوق الاسباب کسی مخلوق کو پکارنا اور اس سے مدد طلب کرنا اسے معبود بنانا اور اور شرک ہے، جبکہ ما تحت الاسباب کی اس امر مین داخل نہیں!
ملاحظہ ہو
تفسیر ابن کثیر ج 2 ذیر تحت الایۃ مترجم
تفسیر ابن کثیر کی آپ نے عبارت پیش نہیں کی! کہ ہم اس حوالہ سے کچھ ذکر کریں!

تفسیر ابن عباس ،مدراک وغیرہ۔
تفسیر ابن عباس میں نے دیکھی، تو اس تفسیر کی کے شروع میں ہی اس کی سند درج ہے!
بِسم الله الرَّحْمَن الرَّحِيم
وصل الله على سيدنَا مُحَمَّد وَآله أَجْمَعِينَ أخبرنَا عبد الله الثِّقَة بن الْمَأْمُون الْهَرَوِيّ قَالَ أخبرنَا أبي قَالَ أخبرنَا أَبُو عبد الله قَالَ أخبرنَا ابو عبيد الله مَحْمُود بن مُحَمَّد الرَّازِيّ قَالَ أخبرنَا عمار بن عبد الْمجِيد الْهَرَوِيّ قَالَ أخبرنَا عَليّ بن إِسْحَق السَّمرقَنْدِي عَن مُحَمَّد بن مَرْوَان عَن الْكَلْبِيّ عَن ابي صَالح عَن ابْن عَبَّاس

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 03 جلد 01 تنوير المقباس من تفسير ابن عباس - أبو طاهر محمد بن يعقوب الفيروزآبادى - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 01 جلد 01 تنوير المقباس من تفسير ابن عباس - أبو طاهر محمد بن يعقوب الفيروزآبادى - دار الفكر

کلبی اور ابی صالح کے متعلق علم الجراح والتعدیل سے یوں تو بہت کچھ نقل کیا جاسکتا ہے، مگر بریلویہ کو ان کے امام احمد رضا خان بریلوی صاحب کا ہی قول پیش کرنےپر ہی اکتفاء کرتے ہیں، دیکھئے کہ بریلویہ کے امام احمد رضا خان بریلوی اس ''تفسیر ابن عباس'' کے متعلق کیا فرماتے ہیں:
یہ تفسیر کہ منسوب بسید نا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ہے نہ اُن کی کتاب ہے نہ اُن سے ثابت یہ بسند محمد بن مروان عن الکلبی عن ابی صالح مروی ہے اور ائمہ دین اس سند کو فرماتے ہیں کہ یہ سلسلہ کذب ہے تفسیر اتقان شریف میں ہے:
واوھی طرقہ طریق الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس فان انضم الٰی ذلک روایۃ محمد بن مروان اسدی الصغیر فھی سلسلۃ الکذب ۔۱؂
اس کے طُرق میں سے کمزور ترین طریق کلبی کا ابوصالح سے اور اس کا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرنا اگر اس کے ساتھ محمد بن مروان اسدی کی روایت مل جائے تو کذب کا سلسلہ ہے ۔(ت)
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 396 جلد 29 فتاوی رضویہ - احمد رضا خان بریلوی – رضا فاؤنڈیشن، لاہور

قادری رانا صاحب! اب فرمائیے! اب کیا کہئے گا؟
بھائی جان! آپ کیا ایسی مکذوبہ سند سے جو اقوال ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منسوب ہوں، کیا وہ تفسیر ، اور وہ بھی تخصیص و تقید میں مفید ہو سکتے ہیں؟

دوم تفسیر ابن عباس کی عبارت درج ذیل ہے:
{إِنَّ الَّذين تَدْعُونَ} تَعْبدُونَ {مِن دُونِ الله} من الْأَصْنَام {عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ} مخلوقون أمثالكم {فادعوهم} يَعْنِي الْآلهَة {فَلْيَسْتَجِيبُواْ لَكُمْ} فليسمعوا دعاءكم وليجيبوكم {إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ} أَنهم ينفعوكم {أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَآ} إِلَى الْخَيْر {أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَآ} يَأْخُذُونَ بهَا ويعطون {أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَآ} عبادتكم {أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا} دعوتكم {قُلِ} يَا مُحَمَّد لمشركي أهل مَكَّة {ادعوا شُرَكَآءَكُمْ} اسْتَعِينُوا بآلهتكم {ثُمَّ كِيدُونِ} اعْمَلُوا أَنْتُم وهم فِي هلاكي {فَلاَ تُنظِرُونِ} فَلَا تؤجلون.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 186 جلد 01 تنوير المقباس من تفسير ابن عباس - أبو طاهر محمد بن يعقوب الفيروزآبادى - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 143 – 144 جلد 01 تنوير المقباس من تفسير ابن عباس - أبو طاهر محمد بن يعقوب الفيروزآبادى - دار الفكر

اور یہ بات تو ہم کہتے ہیں کہ یہاں تَدْعُونَ بمعنی تَعْبدُونَ ہے، ایک بار پھر ہمارا مؤقف پیش کرتا ہوں: بار بار پیش کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے:
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ ﴿سورة الأعراف 194- 195﴾
بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو، ﴿﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤ چلو اور مجھے مہلت نہ دو (ترجمہ : احمد رضا خان بریلوی)

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں غیر اللہ کی پکار کے بطلان کو بیان کرتے ہوئے غیر اللہ کو اسباب کا محتاج ٹھہرایا ہے، کہ اللہ کے علاوہ جنہیں پکارا جاتا ہے، ان کے پاس وہ اسباب ہے ہی کہاں کہ وہ تمہاری پکار کو سن سکیں اور اس کا جواب دے سکیں!
جبکہ اللہ تعالیٰ تو کسی سبب کا محتاج نہیں ، بلکہ اس کی تمام صفات فوق الاسباب ہیں!
اللہ تعالیٰ تو وہ ذات پاک ہے کہ جس نے مخلوق بھی پیدا کی اور اپنی مخلوق کے لئے اسباب بھی پیدا کئے ہیں!
قرآن کی یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ما تحت الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے، اور ما فوق الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے۔
قرآن کی یہ آیت اس امر میں بھی صریح دلیل ہے کہ ما فوق الاسباب کسی مخلوق کو پکارنا اور اس سے مدد طلب کرنا اسے معبود بنانا اور اور شرک ہے، جبکہ ما تحت الاسباب کی اس امر مین داخل نہیں!

باقی آ پ کا تفسیر مدارک یعنی تفسير النسفي ﴿مدارك التنزيل وحقائق التأويل﴾ کے حوالہ سے ہم پر اعتراض کرنا بھی عجیب ہے!
أبو البركات عبد الله بن أحمد بن محمود حافظ الدين النسفي، الحنفي (المتوفى: 710هـ)
قادری رانا بھائی! اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں! کہ ہم پر یعنی کہ اہل الحدیث پر اہل الرائے کی تفسیر و شرح و اقوال سے حجت قائم نہیں کی جا سکتی! ہم تو اہل الرائے پر ان کے علماء کی تفسیر و شرح و اقوال سے بطور دلائل خصم دلیل و حجت قائم کر نے کے مجاز ہیں! آپ بلکل اپنے مؤقف کے بیان میں اپنے ان اہل الرائے کی تفسیر و شرح و اقوال کو پیش کر سکتے ہو! لیکن ان سے ہم پر اعتراض قائم نہیں کرسکتے!
جس طرح ہم شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ یا دیگر اہل الحدیث علماء کی تفسیر و شرح و اقوال سے آپ پر حجت قائم نہیں کر سکتے! ہاں اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے ان کی تفسیر و شرح و اقوال بیان کرسکتے ہیں ، اور کرتے ہیں!
باقی وہ فقہاء و علماء ہیں جو متفق علیہ ہیں! اگر میری طرف سے پیش کردہ مفسر و شارح و فقیہ آپ کے لئے معتبر نہ ہو تو بالکل آپ یہ فرما دیں کہ یہ آپ کے نزدیک معتبر نہیں!
مثلاً امام الذہبی و امام ابن کثیر رحمہ اللہ عنہما! گو کہ یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں ، لیکن آپ کے ہاں بھی معتبر ہیں قرار پائیں ہیں!

اب ہم آپ کو تفسیر النسفي کی عبارت پیش کرتے ہیں:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (194)
{إِنَّ الذين تَدْعُونَ مِن دُونِ الله} أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة {عباد أمثالكم} أى مخلقون مملوكون أمثالكم {فادعوهم} لجلب نفع أو دفع ضر {فَلْيَسْتَجِيبُواْ لَكُمْ} فليجيبوا {إِن كُنتُمْ صادقين} في أنهم آلهة
أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ (195)
ثم أبطل أن يكونوا عباداً أمثالهم فقال {ألهم أرجل يمشون بها} مشيكم
الأعراف 185 190 {أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا} يتناولون بها {أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذان يسمعون بها} أى فلم تعبدون ماهو دونكم {قُلِ ادعوا شُرَكَاءكُمْ} واستعينوا بهم في عداوتى {ثم كيدون} جميعا انتم وشركاؤكم

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 625 - 626 جلد 01 مدارك التنزيل وحقائق التأويل (تفسير النسفي) - أبو البركات عبد الله بن أحمد حافظ الدين النسفي - دار الكلم الطيب، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 390 جلد 01 مدارك التنزيل وحقائق التأويل (تفسير النسفي) - أبو البركات عبد الله بن أحمد حافظ الدين النسفي - نزار مصطفى الباز

﴿بے شک تم خدا کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو﴾ یعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو اور جن کو تم الہٰ مانتےہو۔ ﴿وہ بھی تمہارے ہی جیسے بندے ہیں﴾ یعنی وہ تمہاری طرح مخلوق و مملوک ہیں۔ ﴿پس تم ان کو پکارو﴾ حصول نفع یا دعف ضرر کے لئے ﴿پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا مانیں﴾ پس چاہئے کہ وہ جواب دیں ﴿اگر تم سچے ہو﴾ اس بات میں کہ وہ الہٰ ہیں۔ پھر اسی بات کا ابطال کیا کہ وہ تم جیسے بھی ہوں۔
﴿کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہیں﴾ تمہاری طرح چلنا۔ ﴿یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے کسی چیز چیز کو پکڑتے ہیں﴾ جن سے وہ چیزیں لیں۔ پکڑیں ﴿یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں﴾ ﴿یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہوں﴾ پس پھر تم ان کی کیوں عبادت کرتے ہو جو تم سے کم تر ہیں۔
﴿آپ کہہ دیں کہ تم اپنے سب شرکاء کو بلالو﴾ میری دشمنی میں ان سے مدد حاصل کرو۔ ﴿پھر تدبیر کرو میرے متعلق﴾ تم اور تمہارے شرکاء مل کر۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 1033 – 1034 مدارک التنزیل و حقائق التاویل (تفسیر مدارک مترجم اردو) – مترجم شمس الدین – مکتبۃ العلم، لاہور

یہاں بھی وہی بات ہے کہ غیر اللہ کو ما فوق الاسباب پکارنے کو ان کی عبادت اور الہٰ بنانا قرار دیا گیا! اور آپ یہ ماننے کو تیار نہیں!
{إِنَّ الذين تَدْعُونَ مِن دُونِ الله} أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة ﴿بے شک تم خدا کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہویعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو اور جن کو تم الہٰ مانتےہو۔

اور کسی کو الہ سمجھ کر پکارنا عبادت۔مطلقا پکارنا نہیں
بھائی جان! بات مطلقاً پکارنے کی نہیں! بات ہے ما فوق الاسباب پکارنے کی! اور ما فوق الاسباب پکارنے کو ہی عبادت کہا گیا ہے، جیسے کہ قرآن کی اس آیت میں، جو ہم نے اپنے استدلال میں پیش کی ہے!
مطلقاً پکار میں ما فوق الاسباب اور ما تحت الاسباب دونوں پکار شامل ہیں، جبکہ قرآن و حدیث نے غیر اللہ کو ما فوق الاسباب پکارنے کو عبادت قرار دیا ہے، اور غیر اللہ کی عبادت شرک ہے!

اگلی بات زہن میں رکھیں
صنم میں جاں تھی نہ ہے نہ ہی اسے ادراک بھی
بندہ خاکی تو سن لیتا ہے زیر خاک بھی
اشعار تو بہت ذہن میں ہیں، میرے بھی!
ویسے اسی نوع کا ایک شعر میں بھی آپ کو عرض کردیتا ہوں!
گر محمد نے محمد کو خدا مان لیا
پھر تو سمجھو کہ مسلمان ہے دغا باز نہیں

اس شعر میں پہلا ''محمد'' محمد یار گڑھی کا تخلص ہے

یہاں بتوں سے شعور کی نفی ہے۔یہی بات حضرت ابراہیم نے کی تھی کہ جو تمہاری پکار کو سن نہیں سکتا وہ تمہاری مدد کیا کرے گا ۔کیونکہ وہ ہوتے ہی بے شعور ہیں۔
لیکن یہاں صرف بتوں میں شعور کی نفی نہیں، بلکہ یہاں مخلوق کے ما فوق الاسباب اختیار و اہلیت کی نفی ہے! قرآن کی آیت میں الفاظ ہیں:
عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ جس کا ترجمہ احمد رضا خان بریلوی نے ''تمہاری طرح بندے ہیں'' کیا ہے، اور دیگر نے بھی یہی بیان کیا ہے!
بالکل ابراہیم علیہ السلام کے حوالہ سے بتوں کے نہ سننے کی نفی قرآن میں موجود ہے، اور وہ اس آیت کے منافی نہیں کہ مخلوق ما فوق الاسباب پکار کو نہیں سن سکتی!

دوسری بات سورت نمل میں ہے کہ حضرت سلمان نے دور سے چیونٹی کی آواز سنی اب یہ بتاو کہ وہاں کونسا سبب ظاہری تھا۔جبکہ سائنس تو یہاں تک کہتی ہے کہ چیونٹی کی آواز نہیں ہوتی۔
سلیمان علیہ السلام کا چیونٹی پکار کو سننا ما فوق الاسباب نہیں!

لہذا اس آیت میں جو ان سے اسباب کی نفی ہے کہ ان کے کان نہیں ان کے ہاتھ تو آگے اس کا مقصد بیان کیا کہ وہ تم سے کم تر ہیں۔نہ کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اسباب ظاہری کے بغیر کوئی سن ہی نہیں سکتا۔
قادری رانا بھائی! یہاں آپ نے اپنی اس بات کی بناء تفسیر مظہری پر قائم کی ہے وہ بھی اسے غلط سمجھ کر! اور تفسیر مظہری کی حیثیت بھی آہ کو بتلا دی ہے ، اور یہ بھی آپ کو بتلا دیا ہے کہ تفسیر مظہری میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے در اصل بیان کیا کیا ہے! آپ اسے غلط سمجھے اور مزید اس پر عمارت کھڑی کر رہے ہیں!
تفسیر مظہری میں مخلوق کے لئے ما فوق الاسباب سننے کا کوئی اثبات نہیں! بلکہ بتوں کے لئے تو یہ کہا گیا ہے کہ ان کے پاس تو وہ اسباب بھی نہیں جو زندہ انسانوں کو میسر ہوتے ہیں!
یہ جو آپ نے مقصد تراشا ہے، یہ مقصد نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی آپ کے لئے معتبر تفسیر مظہری میں!

باقی تفصیل ہمارے سوالات کے جواب کے بعد۔
ہم دیکھیں گے!شاید کہ ہم بھی دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے!
وہ جواب کہ جس کا وعدہ ہے، شاید کہ وہ ہم دیکھیں گے!

اور سورت شوری کی جو آیت ہے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی صفات اپنی نوعیت میں رب کے ساتھ خاص ہیں۔جیسا کہ خود آپ نے نقل فرمایا کہ
ان دونوں (یعنی مخلوق اور اللہ کی صفات) میں حقیقی معنی میں کوئی مشابہت ہی نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات قدیم ہیں بخلاف مخلوق کی صفات کے جیسے کہ اس کی ذات تبارک و تعالیٰ دوسری ذاتوں کے مشابہ نہیں ہے ایسے ہی اس کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں
اور یہی بات ہم کرتے ہیں کہ اللہ کی صفات اس کی ذاتی ،لامحدود اور قدیم جب کے بندے کی صفات محدود قدیم اور عطائی۔
قادری رانا بھائی! یہ فرق بھی ہے، جو قرآن و حدیث سے مخلوق اور خالق کی صفات ميں بیان ہوا ہے! مگر مذکورہ آیت ميں جو فرق بیان ہوا ہے مخلوق کی صفات ما تحت الاسباب ہیں اور خالق کی ما فوق الاسباب، اور مخلوق میں ما فوق الاسباب صفات کو ماننا شرک ہے، اسے آپ نے ذکر نہیں کیا!
جبکہ ہمارا موضوع گفتگو ہی، خالق کی صفات کا ما فوق الاسباب ہونا، اور ما فوق الاسباب مخلوق کو پکارنا مخلوق کی عبادت ہونا ہے!

لیس کمثلہ شئی کی تفسیر کے تحت تفسیر ابن عباس میں ہے فی االصفۃ العلم (صفحہ 408) اور اسی صفت علم میں سے اللہ نے اپنے انبیا کو بھی عطا کیا مگر ان کا علم حادث ۔محدود اور عطائی۔
لہذا اس آٰت کہیں بھی یہ اشارہ نہیں ملتا کہ مافوق الاسباب مدد اللہ سے خاص ہے۔
پھر آپ نے وہی تفسیر ابن عباس سے استدلال کیا! دوبارہ دیکھ لیں تفسیر ابن عباس کی کیا حقیقت ہے!
دوم کہ آپ نے پھر عبارت پوری نہیں لکھی! میں آپ کو وہ عبارت پیش کرتا ہوں!
{فَاطِرُ السَّمَاوَات} أَي هُوَ خَالق السَّمَوَات {وَالْأَرْض جَعَلَ لَكُم} خلق لكم {مِّنْ أَنفُسِكُمْ} آدَمِيًّا مثلكُمْ {أَزْوَاجاً} أصنافاً ذكرا وَأُنْثَى {وَمِنَ الْأَنْعَام أَزْوَاجًا} أصنافاذكرا وَأثْنى {يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ} يخلقكم فِي الرَّحِم وَيُقَال يكثركم بِالتَّزْوِيجِ {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ} فِي الصّفة وَالْعلم وَالْقُدْرَة وَالتَّدْبِير {وَهُوَ السَّمِيع} لمقالتكم {الْبَصِير} بأعمالكم
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 512 جلد 01 تنوير المقباس من تفسير ابن عباس - أبو طاهر محمد بن يعقوب الفيروزآبادى - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 406 جلد 01 تنوير المقباس من تفسير ابن عباس - أبو طاهر محمد بن يعقوب الفيروزآبادى - دار الفكر

قادری رانا صاحب! اول تو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کی سند ثابت نہیں، جیسا کہ آپ کے امام احمد رضا خان نے بھی ذکر کیا ہے، اوپر حوالہ گزرا!
دوم کہ اس سے کسی قسم کی تخصیص و تقید نہیں کی جا سکتی، اور نہ یہ الفاظ ان الفاظ کے متقاضی ہیں، کیونکہ یہاں تین (3) صفات ذکر کی گئی ہیں فِي الصّفة وَالْعلم وَالْقُدْرَة وَالتَّدْبِير، اگر لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ آپ کے کہنے کے مطابق، بلکہ آپ نے تو صرف صفت علم کا ذکر کیا، یہاں علم قدرت، تدبیر کے ساتھ خاص یا عام مانا جائے ، تو کیا اللہ کی دیگر صفات اور اس کی ذات کی مثالیں ہیں؟ بلکل نہیں، اللہ تعالیٰ کی ہر صفت اور اس کی ذات کی قطعی کوئی مثل نہیں! اللہ کی تمام صفات ما فوق الاسباب ہیں! اور اللہ کی صفات کا ما فوق الاسباب ہونا، ہم نے اللہ تعالیٰ کے اس کلام سے ثابت کیا ہے؛ایک بار پھر پیش خدمت ہے:
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ ﴿سورة الأعراف 194- 195﴾
بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو، ﴿﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤ چلو اور مجھے مہلت نہ دو (ترجمہ : احمد رضا خان بریلوی)

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں غیر اللہ کی پکار کے بطلان کو بیان کرتے ہوئے غیر اللہ کو اسباب کا محتاج ٹھہرایا ہے، کہ اللہ کے علاوہ جنہیں پکارا جاتا ہے، ان کے پاس وہ اسباب ہے ہی کہاں کہ وہ تمہاری پکار کو سن سکیں اور اس کا جواب دے سکیں!
جبکہ اللہ تعالیٰ تو کسی سبب کا محتاج نہیں ، بلکہ اس کی تمام صفات فوق الاسباب ہیں!
اللہ تعالیٰ تو وہ ذات پاک ہے کہ جس نے مخلوق بھی پیدا کی اور اپنی مخلوق کے لئے اسباب بھی پیدا کئے ہیں!
قرآن کی یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ما تحت الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے، اور ما فوق الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے۔
قرآن کی یہ آیت اس امر میں بھی صریح دلیل ہے کہ ما فوق الاسباب کسی مخلوق کو پکارنا اور اس سے مدد طلب کرنا اسے معبود بنانا اور اور شرک ہے، جبکہ ما تحت الاسباب کی اس امر مین داخل نہیں!

اور لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ مخلوق کی صفات کے ما فوق الاسباب ہونے کی نفی کر دیتی ہے! فتدبر!

تفسیر البیضاوی تدعون تعبدون
قادری رانا بھائی!یہی بات تو آپ کو ہم زمانے سے سمجھا رہے ہیں بلکہ تھریڈ میں @عبدہ بھائی آپ کو یہی بات سمجھا رہیں ہیں کہ دعا عبادت ہے، اور وہاں آپ مان کر نہیں دے رہے! اور یہاں مجھے بار بار بتلا رہے ہیں کہ تدعون سے مراد تعبدون ہے! بھائی ہم بھی تو آپ کو یہی کہہ رہے ہیں کہ یہاں تدعون کے سے مراد تعبدون ہے، کیونکہ مخلوق کو ما فوق الاسباب پکارنا عبادت ہے!
یہ تفسیر بیضاوی کی عبارت ہے:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ (194) أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِها أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِها أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِها أَمْ لَهُمْ آذانٌ يَسْمَعُونَ بِها قُلِ ادْعُوا شُرَكاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلا تُنْظِرُونِ (195)
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة. عِبادٌ أَمْثالُكُمْ من حيث إنها مملوكة مسخرة. فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ أنهم آلهة، ويحتمل أنهم لما نحتوها بصور الأناسي قال لهم: إن قصارى أمرهم أن يكونوا أحياء عقلاء أمثالكم فلا يستحقون عبادتكم كما لا يستحق بعضكم عبادة بعض، ثم عاد عليه بالنقض فقال: أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِها أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِها أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِها أَمْ لَهُمْ آذانٌ يَسْمَعُونَ بِها وقرئ «إِنَّ الذين» بتخفيف «أَن» ونصب «عِبَادِ» على أنها نافية عملت عمل ما الحجازية ولم يثبت مثله، و «يَبْطِشُونَ» بالضم ها هنا وفي «القصص» و «الدخان» . قُلِ ادْعُوا شُرَكاءَكُمْ واستعينوا بهم في عداوتي. ثُمَّ كِيدُونِ فبالغوا فيما تقدرون عليه من مكر، وهي أنتم وشركاؤكم. فَلا تُنْظِرُونِ فلا تمهلون فإني لا أبالي بكم لوثوقي على ولاية الله تعالى وحفظه.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 46 جلد 03 أنوار التنزيل وأسرار التأويل المعروف بتفسير البيضاوي - ناصر الدين أبو سعيد عبد الله بن عمر البيضاوي - دار إحياء التراث العربي، بيروت

یہاں بھی مخلوق کو ما فوق الاسباب پکارنے کو ان کی عبادت اور انہیں الہٰ بنانا بتایا گیا ہے!

باقی آپ مافوق الاسباب کی تعریف فرمائیں تفصیلی جواب بھی آپ کی خدمت میں دے دیا جائے گا۔
ما فوق الاسباب کے معنی سمجھنے کے لئے تو عربی جاننے کی بھی ضرورت نہیں، بلکہ جسے اردو سمجھ آتی ہو اسے بھی سمجھ آجائے گا کہ:
ما فوق الاسباب کے معنی ہیں اسباب سے بالا تر، یعنی اسباب کا محتاج ہوئے بغیر!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حضرت میں نے مندرجہ ذیل اقتباس سے اختلاف کیا ہے۔
جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ ﴿سورة الأعراف 194- 195﴾
بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو، ﴿﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤ چلو اور مجھے مہلت نہ دو (ترجمہ : احمد رٖضا خان بریلوی)
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں غیر اللہ کی پکار کے بطلان کو بیان کرتے ہوئے غیر اللہ کو اسباب کا محتاج ٹھہرایا ہے، کہ اللہ کے علاوہ جنہیں پکارا جاتا ہے، ان کے پاس وہ اسباب ہیں ہیں کہاں کہ وہ تمہاری پکار کو سن سکیں اور اس کا جواب دے سکیں!
جبکہ اللہ تعالیٰ تو کسی سبب کا محتاج نہیں ، بلکہ اس کی تمام صفات فوق الاسباب ہیں!
اللہ تعالیٰ تو وہ ذات پاک ہے کہ جس نے مخلوق بھی پیدا کی اور اپنی مخلوق کے لئے اسباب بھی پیدا کئے ہیں!
قرآن کی یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ما تحت الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے، اور ما فوق الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے۔
قرآن کی یہ آیت اس امر میں بھی صریح دلیل ہے کہ ما فوق الاسباب کسی مخلوق کو پکارنا اور اس سے مدد طلب کرنا اسے معبود بنانا اور اور شرک ہے، جبکہ ما تحت الاسباب کی اس امر مین داخل نہیں!
قادری رانا بھائی! اس کا اندیشہ تو مجھے پہلے ہی تھا کہ آپ نے قرآن و حدیث کی دلیل تو قبول کرنی نہیں ہے، بلکہ اس پر بیجا اعتراض ہی وارد کرنے ہیں؛
ہم نے پہلے ہی یہ عرض کیا تھا:
لیکن یہ باتیں تو اسے سمجھ آئیں گی، اور وہ مانے گا جو اللہ تعالیٰ کے قرآن کو اپنی دلیل سمجھے، جن لوگوں کے نزدیک اپنے فقہاء کے باتیں قرآن و حدیث پر مقدم ہوں، انہوں نے تو اس بارے میں علم الکلام کے گھوڑے دوڑانے ہیں! اس قرآن کی آیت مافو ق الاسباب اور ما تحت الاسباب کے اس بیان کے اثبات پر کئی طرح کے بے سروپا سوال کھڑے کردینے ہیں ، کہ اس آیت سے آپ کے استدلال کا طریق کیا ہے، بعبارۃ النص ہے؟ باشارۃ النص ہے؟ بدلالۃ النص ہے ؟ باقتضاء النص ہے؟
یہ بھی بتلا دیا جائے گا، تو پھر حکمت چین و حجت بنگال کے تحت مزید دس سوالات کھڑے کر دیئے جائیں گے!
اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کیا تھا:
لیکن ہم بھی ان اٹکل کے گھوڑوں کو اصطبل میں باندھ ہی دیتے ہیں!
قادری رانا بھائی! میں نے آپ کے سعد الدين التفتازاني کی عقیدہ کی کتاب شرح العقائد النسفية سے اللہ کی صفات کا ما فوق الاسباب ہونا، اور مخلوق کی صفات کا ماتحت الاسباب ہونا ثابت کیا تھا!
(للخَلْقِ)
أي المخلوق، من الملك والإنس والجن، بخلاف علم الخالق تعالى، فإنه لذاته لا لسبب من الأسباب.

( علم کے اسباب) مخلوق کے لئے یعنی فرشتہ اور انسان اور جن کے لئے بخلاف حق تعالیٰ کے علم کے، اس لئے کہ وہ ذاتی ہے اسباب میں سے کسی سبب کی وجہ سے نہیں۔
یعنی کہ اللہ تعالیٰ کی صفات ما فوق الاسباب ہیں!

آپ اس سے چشم پوشی کیوں کر رہے ہیں؟ اور آپ نے جو تفسیر ابن عباس سے خاص علم کے متعلق جو نظریہ پیش کیا تھا، شرح العقائد النسفية نے خاص علم کا ذکر کر کے آپ کے نظریہ کو باطل قرار دیا ہے! آپ کے الفاظ آپ کو پیش کرتا ہوں:
لیس کمثلہ شئی کی تفسیر کے تحت تفسیر ابن عباس میں ہے فی االصفۃ العلم (صفحہ 408) اور اسی صفت علم میں سے اللہ نے اپنے انبیا کو بھی عطا کیا مگر ان کا علم حادث ۔محدود اور عطائی۔
لہذا اس آٰت کہیں بھی یہ اشارہ نہیں ملتا کہ مافوق الاسباب مدد اللہ سے خاص ہے۔
آپ پہلے اپنے سعد الدین التفتازاني اور شرح العقايد النسفیة کا انکار کریں! کہ وہاں جو عقیدہ بیان کیا گیا ہے وہ غلط ہے!
ہم نے جو ما فوق الاسباب اور ما تحت الاسباب کا بیان کیا ہے، وہی شرح العقائد النسفية میں سعد الدين التفتازانی نے بیان کیا ہے!
یہی نہیں ہم نے قاضی عیاض سے بھی مخلوق کی صفات اور خالق کی صفات کا فرق بیان کیا ہے! ذرا وہاں بھی نظر کر لیتے!
ہمارے بیان پر اعتراض کرنا آپ کو اس وقت تک روا نہیں جب تک سعد الدین التفتازاني کی شرح العقائد النسفية کا رد نہیں کرتے!

ایک بار پھر پیش کرتا ہوں:
ہم بھی ماتحت الاسباب اور ما فوق الاسباب کا فرق انہیں کے فقہاء کی کتب و کلام سے پیش کر دیتے ہیں:
(وأسْبَابُ العِلْمِ)
وهو صِفَةٌ يتجلى بها المذكورُ لمَنْ قامت هي به، أي يتضح ويظهر ما يذكر، ويمكن أن يعبر عنه موجوداً كان أو معدوماً، فيشمل إدراك الحواس وإدراك العقل من التصورات والتصديقات اليقينية وغير اليقينية، بخلاف قولهم: صفة توجب تمييزاً لا يحتمل النقيض، فإنَّه وإنْ كان شاملاً لإدراك الحواس بناء على عدم التقييد بالمعاني، وللتصورات بناء على أنها لا نقائض لها على ما زعموا، لكنه لا يشمل غير اليَقِينِيَّات من التصديقات.
هذا ولكن ينبغي أن يحمل التجلِّي على الانكشاف التام الذي لا يشمل الظن، لأنَّ العلم عندهم مقابل للظن.(للخَلْقِ)
أي المخلوق، من الملك والإنس والجن، بخلاف علم الخالق تعالى، فإنه لذاته لا لسبب من الأسباب.
(ثَلاثَةٌ: الحَوَاسُّ السَّلِيمَةُ، وَالخَبَرُ الصَّادِقُ، وَالعَقْلُ)بحكم الاستقراء.
ووجه الضبط: أن السبب إن كان من خارج فالخبر الصادق، وإلا: فإن كان آلة غير المدرك فالحواس، وإلا فالعقل.
فإن قيل: السببُ المؤثر في العلوم كلها هو الله تعالى، لأنها بخلقه وإيجاده من غير تأثير للحاسة.
والخبر الصادق والعقل والسبب الظاهري كالنار للإحراق هو العقل لا غير، وإنما الحواس والأخبار آلات وطرق في الإدراك.
والسببُ المفضي في الجملة بأن يخلقَ الله فينا العلم معه بطريق جري العادة ليشمل المدرك كالعقل والآلة كالحس والطريق كالخبر لا ينحصر في الثلاثة، بل هاهنا أشياء أخر، مثل الوجدان والحدس والتجربة ونظر العقل بمعنى ترتيب المبادي والمقدمات.
قلنا: هذا على عادة المشايخ في الاقتصار على المقاصد، والإعراض عن تدقيقات الفلاسفة، فإنهم لمَّا وَجَدُوا بعض الإدراكات حاصلة عقيب استعمال الحواس الظاهرة التي لا شك فيها، سواء كانت من ذوي العقول أو غيرهم، جعلوا الحواسَّ أحدَ الأسباب.
ولما كان معظم المعلومات الدينية مستفاداً من الخبر الصَّادِقِ جعلوا مسبباً آخر.
ولما لم يثبت عندهم الحواس الباطنة المسماة بالحِسِّ المُشْترَك والوَهْم وغير ذلك ولم يتعلق لهم غرض بتفاصيل الحدسيات والتجريبات والبديهيات والنظريات، وكان مرجعُ الكُلِّ إلى العقل جعلوه سبباً ثالثاً يفضي إلى العلم بمجرد التفات أو انضمام حدس أو تجربة أو ترتيب مقدمات، فجعلوا السبب في العلم بأن لنا جوعاً وعطشاً وأن الكل أعظم من الجزء وأن نور القمر مستفاد من الشمس وأن السقمونيا مسهل وأن العالم حادث، هو العقل، وإن كان في البعض باستعانة الحس.
(فالحَوَاسُّ) جمع حاسة، بمعنى القوة الحساسة (خمْسٌ)، بمعنى أن العقل حاكم بالضرورة بوجودها، وأما الحواسُّ الباطنة التي ثبتها الفلاسفة فلا يتم دلائلها على الأصول الإسلامية.
(السَّمْعُ)، وهو قوة مودعة في العصب المفروش في مقعر الصماخ، يدرك بها الأصوات بطريق وصول الهواء المتكيف بكيفية الصوت إلى الصماخ، بمعنى أن الله تعالى يخلق الإدراك في النفس عند ذلك.
(والبَصَرُ)، وهو قوة مودعة في العصبتين المجوفتين اللتين تتلاقيان في الدماغ ثم تفترقان فتتأديان إلى العينين، يدرك بها الأضواء والألوان أو الأشكال والمقادير والحركات والحسن والقبح وغير ذلك مما يخلق الله تعالى إدراكها في النفس عند استعمال العبد تلك القوة.
(والشَّمُّ)، وهو قوة مودعةٌ في الزائدتين الناتئتين من مقدم الدماغ الشبهتين بحلمتي الثدي، يدرك بها الروائح بطريق وصول الهواء المتكيف بكيفية ذي الرائحة إلى الخيشوم.
(واللَّمْسُّ)، وهي قوة مثبتةٌ في جميع البدن يدرك بها الحرارة والبرودة والرطوبة واليبوسة ونحو ذلك عند التماس والاتصال به.
(وبكُلِّ حَاسَّةٍ مِنهَا)، أي الحواس الخمس (يُوقَفُ) أي يطلع (عَلَى مَا وُضِعَتْ هِيَ) أي تلك الحاسة (لَهُ).
يعني أن الله تعالى قد خَلَقَ كُلاَّ من تلك الحواس لإدراك أشياء مخصوصة، كالسمع للأصوات والذوق للمطعوم والشم للروائح، لا يدرك بها ما يدرك بالحاسة الأخرى.
وأما أنه هل يجوز أو يمتنع ذلك ؟
ففيه خلاف، والحقُّ الجَوَاز، لما أن ذلك بمحضِ خلق الله من غير تأثير للحواس، فلا يمتنع أن يخلق الله عقيب صرف الباصرة إدراك الأصوات مثلاً.
فإن قيل: أليست الذائقة تُدرَكُ بها حلاوة الشيء وحرارته معاً ؟
قلنا: لا، بل الحلاوة تدرك بالذوق والحرارة باللمس الموجود في الفم واللسان.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 39 – 51 جلد 01 شرح العقائد النسفية- سعد الدين التفتازاني - مكتبة البشری، کراتشي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 10 – 12 جلد 01 شرح العقائد النسفية- سعد الدين التفتازاني - مكتبة الرشيدية، کوئته
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 25 – 32 جلد 01 شرح العقائد النسفية مع حاشية الكسّلي - سعد الدين التفتازاني – قريمي يوسف ضيا، معارف نظارات جليله

اور اسباب علم اور وہ (علم) ایک ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے شئ اس شخص کو منکشف اور واضح ہو جاتی ہے، جس کے ساتھ وہ (صفت) قائم ہوتی ہے یعنی واضح اور ظاہر ہو جاتی ہے وہ چیز جو ذکر کی جاتی ہے اور جس کا تعبیر کیا جانا ( زبان سے ذکر کیا جانا) ممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ تعریف حواس کے ادراک اور عقل کے ادراک یعنی تصوا اور تصدیقات یقینیہ اور غیر یقینیہ (سب) کو شامل ہوگی۔
برخلاف بعض اشاعرہ کے قول کے کہ علم ایک ایسی صفت ہے جو ایسی تمیز پیدا کرتی ہے جو نقیض کا احتمال نہیں رکھتا کیونکہ یہ تعریف اگرچہ حواس کے ادراک کو بھی شامل ہے معانی کی قید نہ لگانے کی بناء پر اور تصورات کو بھی شامل ہے، اس بناء پر کہ بعض لوگوں کے بقول تصورات کی نقیض ہی نہیں ہوتی، لیکن یہ تعریف تصدیقات غیر یقینیہ کو شامل نہیں ہوگی۔ لیکن مناسب ہے کہ (پہلی تعرف میں) تجلی کو انکشاف تام پر محمول کیا جائے جو ظن کو شامل نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اشاعرہ کے نزدیک علم ظن ما مقابل ہے۔
(اور اسباب علم) مخلوق فرشتہ، انسان اور جنات کے لئے استقراء کی رو سے تین ہیں حواس سلیمہ اور خبر صادق اور عقل، بخلاف باری تعالیٰ کے علم کے کہ خود اس کی ذات کی وجہ سے ہے کسی سبب کے سہارے نہیں ہے وجہ حصر یہ ہے کہ سبب اگر (مدرک سے) خارج ہے تو وہ خبر صادق ہے ورنہ اگر وہ آلہ ہے (ادراک کا) کو مدرک کا غیر ہے تو حواس ہیں ورنہ پھر عقل ہے۔
اگر یہ کہا جاوے کہ سبب مؤثر یعنی سبب حقیقی تو تمام علوم میں صرف اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ سارے علوم حاسّہ اور خبر صادق اور عقل کی تاثیر کے بغیر محض اللہ تعالیٰ کے خلق اور اس کی ایجاد کا نتیجہ ہیں اور حواس و اخبار تو ادراک میں آلہ اور طریق ہیں، اور سبب فی الجملہ بایں معنی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت کے مطابق اس کے ہوتے ہوئے (شئی کا) علم پیدا فرمادیں تاکہ (سبب بایں معنیٰ) مدرک جیسے عقل کو آلہ جیسے حس کو اور طریق جیسے خبر کو شامل ہو جائے۔ تو وہ (سبب بمعنی مذکور) ان ہی تین میں منحصر نہیں ہے۔ بلکہ یہاں کچھ اور چیزیں بھی ہیں، مثلاً وجدان اور حدس اور نظر عقل جنی ترتیب مبادی اور ترتیب مقدمات۔
ہم جواب دیں گے کہ یہ (اسباب علم کا تین ہونا) مشائخ (اہل حق) کی اس عادت پر مبنی پے جو مقاصد پر اکتفا کرنے اور فلاسفہ کی موشگافیوں سے اعراض کرنے کے سلسلہ میں رہی ہے۔ کیونکہ انہوں نے بعض ادراکات کو ان حواس ظاہرہ کے استعمال کے بعد حاصل ہوتے دیکھا جن کے وجود میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے خواہ وہ حواس ذوی العقول کے ہوں یا غیر ذوی العقول کے ہوں تو انہوں نے حواس کو (علم کا) ایک سبب قرار دیا اور جب کہ دینی معلومات کا بیشتر حصہ خبر صادق سے معلوم ہوا ہے تو خبر صادق کو دوسرا سبب قرار دیا اور چونکہ مشائخ اہل حق کے نزدیک جس مشترک، خیال، اور وہم وغیرہ نامی حواس باطنہ کا وجود ثابت نہیں ہے اور حسیات، تجربات، بیہیات، اور نظریات کی تفصیلات سے ان کا کوئی فائدہ وابستہ نہیں تھا اور ان سب علوم کا مرجع عقل ہی ہے تو عقل کو تیسرا سبب قرار دیا۔ جو محض التفات سے یا حدس یا تجربہ کے انضمام سے یا ترتیب مقدمات کے واسطہ سے علم کا سبب ہوتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کے علم کا کہ ہم کو بھوک اور پیاس لگی ہے۔ اور اس بات کے علم کا کہ کل اپنے جزء سے بڑاہوتا ہے اور اس بات کے علم کا کہ چاند کی روشنی سورج سے مستفاد ہے۔ اور اس بات کے علم کا کہ سقمونیا دست آور ہے سبب عقل ہی کو قرار دیا، اگرچہ ان میں سے بعض میں علم حس کی مدد سے بھی حاصل ہوتا ہے۔
پس حواس جو حاسّہ بمعنی قوت حاسّہ کی جمع ہے پانچ ہیں بایں معنی کہ عقل بدیہی طور پر ان کے وجود کا فیصلہ کرنے والی ہے۔ رہے حواس باطنہ، جن کو فلاسفہ ثابت کرتے ہیں تو ان کے (ثبوت کے) دلائل اسلامی قواعد پر پورے نہیں اترتے۔ (ان حواس خمسہ میں سے ایک) سمع ہے اور وہ ایک ایسی قوت ہے جو کان کے سوراخ کے باطن میں بچھے ہوئے پٹھوں میں (منجانب اللہ) رکھی ہوئی ہے اس کے ذریعہ کان کے سوراخ میں اس ہوا کے پہونچنے کے واسطہ سے جو آواز کی کیفیت کے ساتھ متصف ہوتی ہے۔ آوازوں کا ادراک کیا جاتا ہے۔ بایں معنی کہ اللہ تعالیٰ اس وقت نفس میں ادراک پیدا فرما دیتے ہیں۔
اور (حواس) ظاہرہ خمسہ میں سے دوسرا حاسّہ ) بصر ہے اور وہ ایک ایسی قوت ہے جو ان دو کھوکھلے پٹھوں میں رکھی ہوئی ہے جو باہم دماغ میں ملے ہوئے ہیں۔ پھر ایک دوسرے سے جدا ہو کر دونوں آنکھوں میں پہونچتے ہیں۔ اس (قوت) کے ذریعہ روشنیوں، رنگوں اور شکلوں اور مقداروں اور حرکتوں اور خوبصورتی و بدصورتی وغیرہ کا ادراک ہوتا ہے جن کا ادراک بندے کے اس قوت استعمال کرنے کے وقت اللہ تعالیٰ نفس میں پیدا فرماتے ہیں۔
اور حواس میں سے تیسرا حاسّہ شیم ہے اور وہ مقدم دماغ میں پستان کی گھنڈیوں کے مشابہ پیدا پونے والے گوشت کت دو ٹکڑوں میں ودیعت کی ہوئی وہ قوت ہے جس کے ذریعہ بودار چیز کی کیفیت (بو) کے ساتھ متصف ہونے والی ہوا کے ناک کے بانسہ تک پہونچنے کے واسطہ سے ہر قسم کی بو کا ادراک ہوتا ہے۔
اور حواس میں سے چوتھا حاسّہ ذوق ہے اور وہ ایسی قوت ہے جو زبان کے اوپر بچھے ہوئے پٹھے میں ودیعت کی ہوئی ہے اس کے ذریعہ کھائی جانے والی یا ذائقہ والی چیز کے ساتھ منہ کے اندر کی لعابی رطوبت کے اختلاط کرنے اور اس رطوبت کے مذکورہ پٹھے تک پہونچنے کے واسطے سے (ہر قسم کے) ذائقوں کا ادراک ہوتا ہے اور حواس خمسہ سے پانچواں حاسّہ لمس ہے اور یہ ایسی قوت ہے جو تمام بدن میں پھیلی ہوئی ہے اس کے ذریعہ بدن کے ساتھ مس اور اتصال کرنے کے وقت حرارت، برودت، رطوبت، یبوست وغیرہ کا ادراک ہوتا ہے۔
اور ان حواس خمسہ میں سے ہر حاسّہ ک ذریعہ اسی چیز کی آگاہی ہوتی ہے جس کے لئے وہ حاسّہ پیدا کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالی نے ان حواس میں سے ہر ایک کو کچھ مخصوص اشیاء کے ادراک کے لئے پیدا کیا ہے۔ مثلاً حسّہ سمع کو آوازوں کے (ادراک کے) لئے اور خاسّہ صوق کو ذائقوں کے (ادراک کے) لئے اور قوت شامّہ کو خوشبوؤں ، بدبوؤں کے (ادراک کے) لئے (پیدا کیا ہے) ان (میں سے کسی) کے ذریعہ ایسی چیز کا ادراک نہیں ہوتا جس کا ادراک دوسرے حاسّہ سے ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ کیا ایسا ممکن ہے (یا نہیں؟) تو اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے اور حق امکان ہے۔ کیونکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے سے ہوتا ہے۔ حواس کے مؤثر ہونے کی وجہ سے نہیں۔ پس یہ بات محال نہیں کہ قوت باصرہ کو متوجہ کرنے کے بعد مثلاً آواز کا ادراک پیدا فرمادیں، پھر اعتراض کیا ہمارے کہ کیا قوت ذائقی ایک شئ کی حلاوت اور حرارت کا ایک ساتھ ادراک نہیں کرتی، ہم جواب دیں گے کہ نہیں، بلکہ حلاوت کا ادراک قوت ذائقہ کے ذریعہ ہوتا ہے اور حرارت کا ادراک اس قوت لامسہ کے ذریعہ ہوتا ہے جو منہ اور زبان میں موجود ہے۔
صفحہ 49 - 64 بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی، استاذ دار العلوم دیوبند – مکتبہ سید احمد شہید

اور علم کے اسباب اور علم ایسی صفت ہے جس کے ذریعہ منکشف ہو جائے مذکور اس شخص پر جس کے ساتھ یہ صفت قائم ہے یعنی واضح اور ظاہر ہو جائے وہ چیز جس کا ذکر کیا جا سکے اور جس کو تعبیر کرنا ممکن ہو موجود ہو یا معدوم ہو، تو یہ تعریف شامل ہے حواس کے ادراک کو اور عقل کے ادراک کو یعنی تصورات یقینیہ کو بخلاف ان کے اس قول کے کہ علم ایک ایسی صفت ہے جو ایسی تمیز کو ثابت کرے جس میں یقیض کا احتمال نہ ہو پس یہ تعریف اگرچہ شامل ہے حواس کے ادراک کو بناء کرتے ہوئے معانی کے ساتھ مفید کرنے کے ساتھ۔ (اور شامل ہے) تصورات کو بناء کرتے ہوئے اس پر کہ تصورات کی نقیض نہیں ہیں جیسا کہ مناطقہ نے گمان کیا ہے لیکن یہ تعریف شامل نہیں ہے تصدیقات میں سے یقینیات کو اسے محفوظ کرلو۔ لیکن مناسب یہ ہے کہ تجلی کو (جو پہلی تعریف میں ہے) اس انکشافِ تام پر محمول کیا جائے جو ظن کو شامل نہ ہو اس لئے کہ علم ان کے نزدیک ظن کا مقابل ہے ( علم کے اسباب) مخلوق کے لئے یعنی فرشتہ اور انسان اور جن کے لئے بخلاف حق تعالیٰ کے علم کے، اس لئے کہ وہ ذاتی ہے اسباب میں سے کسی سبب کی وجہ سے نہیں۔ تین (3) ہیں، حواس سلیمہ اور خبر صادق اور عقل اسقراء کے حکم سے اور ضبط کی دلیل یہ ہے کہ سبب اگر خارجی ہو تو وہ خبر صادق ہے ورنہ اگر وہ آلۂ غیر مدرک ہو تو حواس ہیں ورنہ تو عقل ہے۔
پس اگر اعتراض کیا جائے کہ وہ سبب جو تمام علوم میں مؤثر ہے وہ اللہ تعالیٰ ہے اس لئے کہ تمام علوم اس کے خلق اور ایجاد کے سبب سے ہیں بغیر حاسہ اور خبر اور عقل کی تاثیر کے۔
اور سبب ظاہری جیسے إحراق (جلانا) کے لئے آگ ہے وہ صرف عقل ہے نہ کہ غیر اور حواس اور اخبار ادراک کے آلات اور طرق ہیں۔
اور سبب مفضی فی الجملہ اس طریقہ پر کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ عادۃ اللہ کے جاری ہونے کے طریقہ پر ہمارے اندر علم کا خلق فرما دے تاکہ (یہ سبب) مشتمل ہو جائے مُدرک کو جیسے عقل اور آلہ کو جیسے حِس اور طریق کو جیسے خبر (لہٰذا سبب فی الجملہ) تین میں منحصر نہیں ہے بلکہ دوسری چیزیں ہیں اور آلہ کو جیسے وجدان اور حدس اور تجربہ اور نظر العقل مبادی اور مقدمات کو ترتیب دینے کے معنی میں۔
ہم جواب دیں گے کہ یہ مشایخ کی عادت کے مطابق ہے مقاصد پر اکتفاء کرنے میں اور فلاسفہ کی بریکیوں سے اعراض کرنے میں، پس بیشک مشایخ نے جب پایا بعض ادراکات کو حاصل ہونے والے ان حواسِ طاہرہ کے استعمال کے بعد جن میں کوئی شک نہیں خواہ وہ حواس ذوی العقول کے ہوں یا ان کے غیر کے، تو انہوں نے حواس کو اسباب میں سے ایک قرار دیا۔
اور جبکہ معلوماتِ دینیہ کا زیادہ تر حصہ خبر صادق سے مستفاد ہے تو مشائخ نے خبر کو دوسرا سبب قرار دیا اور جبکہ مشائخ کے نزدیک حواسِ باطنہ جن کا نام رکھا ہوا ہے حس مشترک اور خیال اور وہم اور اس کے علاوہ کے ساتھ ثابت نہیں ہوئے اور مشائخ کو کوئی غرض متعلق نہ ہوئی، حدسیات اور تجربیات اور بدیہیات اور نظریات کی تفاصیل کے متعلق اور ان سب کا مرجع عقل کی طرف تھا انہوں نے عقل کو تیسرا سبب قرار دیا جو مفضی الی العلم ہے اس طریقہ پر کہ ہم کو بھوک اور پیاس ہے اور کل جزء سے بڑا ہے، اور چاند کا نور سورج سے مستفاد ہے اور سقمونیا مُسہِل ہے، اور عالم حادث ہے (تو بنا دیا انہوں نے علم کا سبب) عقل ہی کو اگر چہ عقل بعض چیزوں میں حِس کی مدد سے (علم کا سبب ہے)۔
پس حواس حاسّہ کی جمع ہے، قوت حاسّہ کے معنیٰ میں پانچ ہیں اس معنیٰ کرکے کہ عقل بداہۃ ان کے وجود کا فیصلہ کرتی ہے اور بہر حال حواسِ باطنہ جن کو فلاسفہ ثابت کرتے ہیں ان کے دلائل اصول اسلامیہ کے مطابق تام نہیں ہیں۔
ادراک کرلیا جاتا ہے اس قوت کے ذریعہ آوازوں کا اس ہوا کے پہونچنے کے طریقہ پر کان کے سوراخ کے باطن کے جانب جو متکیف ہے صوت کی کیفیت کے ساتھ۔
اس معنیٰ کرکہ اللہ تعالیٰ نفس کے انداز اس وقت ادراک کا خلق فرما دیتے ہیں۔
اور بصر وہ قوت ہے جو ان دو پٹھوں میں رکھدی گئی ہے جو کھوکھلے ہیں جو مل جاتے ہیں پھر دونوں جدا ہو جاتے ہیں پھر دونوں آنکھوں کی طرف پہونچ جاتے ہیں۔
ادراک کیا جاتا ہے اس قوت کے ذریعہ روشنیوں اور رنگوں اور شکلوں اور مقادیر اور حرکات اور حسن و قبح اور اس کے علاوہ کا ان چیزوں میں سے کہ جسلے ادراک نفس میں اللہ تعالیٰ خلق فرمادے بندہ کے اس قوت کو استعمال کرنے کے وقت میں۔
اور شم وہ قوت ہے جس کو ان دو گوشت کے ٹکڑوں میں رکھ دیا گیا ہے جو مقدمِ دماغ میں اگتے ہیں جو پستان کے دونوں سروں کے مشابہ ہیں، اس قوت کے ذریعہ بوؤں کا ادراک ہو جاتا ہے اس ہوا کے خیثوم تک پہنونچے کے طریقہ پر جو بو والی چیز کی کیفیت کے ساتھ متکیف ہے۔
اور ذوق وہ قوت ہے جو پھیلی ہوئی ہے اس پٹھے میں جو زبان کے جرم پر بچھا ہوا ہے اس کے ذریعہ ذائقوں کا ادراک کرلیا جاتا ہے اس رطوبۃ لعابیہ کے ملنے کی وجہ سے جو منہ میں ہے مطعوم کے ساتھ اور اس کے پہونچنے کی وجہ سے پٹھے کی طرف۔
اور لمس وہ قوت ہے جو پھیلی ہوئی ہے پورے بدن میں جس کے ذریعہ حرارت اور برودت اور رطوبت اور یبوست اور اس کے مثل کا ادراک کر لیا جاتا ہے چھونے اور ملنے کے وقت اس کے ساتھ۔
اور حواسِ خمسہ میں سے ہر ایک حاسّہ سے واقفیت اور اطلاع ہوتی ہے اس شئ پر کہ یہ حاسہ جس کے کئے وضع کیا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ حاسوں میں سے ہر ایک کو اشیاء مخصوصہ کے ادراک کے لئے پیدا فرمایا ہے جیسے سمع آوازوں کے لئے اور ذوق ذائقوں کے لئے اور شم بوؤں کے لئے ادراک نہیں کیا جائے گا کسی حاسہ سے اس چیز کا جس کا ادراک دوسرے حس سے کیا جاتا ہے اور بہر حال یہ بات کہ کیا یہ جائز ہے تو اس میں اختلاف ہے علماء کے درمیان اور حق جواز ہے اس لئے کہ یہ محض اللہ کے خلق سے ہے بغیر حواس کی تاثیر کے تو یہ بات ممتنع نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ قوت باصرہ کے استعمال کے بعد مثلاً آوازوں کے ادراک کا خلق فرمادے۔ پس اگر اعتراض کیا جائے کہ کیا قوتِ ذائقہ شئ کی حلوات اور حرارت دونوں کا ادراک نہیں کرتی تو ہم کہیں گے کہ نہیں بلکہ حلاوت کا ادراک ہوتا ہے ذوق سے اور حرارت کا اس قوتِ لمس سے جو منہ اور زبان میں موجود ہے۔
صفحہ 78 - 93 جواهر الفوائد شرح العقائد – محمد یوسف تاؤلوی، استاذ دار العلوم دیوبند – بک لینڈ، لاہور

اور اسباب علم، اور علم ایسی صفت ہے کہ جس کی وجہ سے منکشف ہو جائے مذکورہ (شئ) اس شخص پر کہ جس کے ساتھ یہ صفت قائم ہے یعنی واضح اور ظاہر ہو جائے وہ چیز کہ جس کا ذکر کیا جا سکے اور جس کو تعبیر کرنا ممکن ہو خواہ وہ موجود ہو یا معدوم ہو تو یہ (تعریف) شامل ہے حواس کے ادراک کو اور عقل کے ادراک کو یعنی تصورات کو اور تصدیقاتِ یقینیہ اور غیر یقینیہ کو۔
بخلاف ان (اشاعرہ) کے اس قول کے علم ایک ایسی صفت ہے کہ جو ایسی تمیز کو ثابت کرے کہ جس میں نقیض کا احتمال نہ ہو۔ پس یہ تعریف اگرچہ شامل ہے حواس کے ادراک کو بناء کرتے ہوئے معافی کے ساتھ مقید نہ کرتے ہوئے اور (شامل ہے) تصورات کو، بناء کرتے ہوئے اس پر کہ تصورات کی نقیض نہیں ہے جیسا کہ مناطقہ نے گمان کیا ہے، لیکن یہ (تعریف) شامل نہیں ہے تصدیقات میں سے غیر یقینیات کو۔ یہ محفوظ کرلو۔ لیکن مناسب یہ ہے کہ (پہلی تعریف میں) ''یتجلّٰی'' کو انکشاف تام پر محمول کیا جائے جو ظن کو شامل نہیں ہوتا، اس لئے کہ علم ان (اشاعرہ) کے نزدیک ''ظن'' کا مقابل ہے۔
(اور علم کے اسباب) مخلوق کے لئے یعنی فرشتہ اور انسان اور جن کے لئے، بخلاف حق تعالیٰ کے، اس لئے کہ وہ ذاتی ہے اسباب میں سے کسی سبب کی وجہ سے نہیں ہے۔ تین (3) ہیں، حواسِ سلیمہ، خبر صادق اور عقل۔ استقراء کے حکم سے وجہ ضبط (حصر) یہ ہے کہ سبب اگر (مدرک سے) خارج ہے تو وہ خبرِ صادق ہے ورنہ اگر وہ آلۂ غیر مدرک ہو تو وہ حواس ہیں ورنہ پھر عقل ہے۔
پس اگر کہا جائے کہ وہ سبب جو تمام علوم میں مؤثر ہے وہ اللہ تعالیٰ ہیں اس لئے کہ (سارے) علوم اس کے خلق اور اس کے ایجاد کے سبب سے حاسہ اور خبر اور عقل کی تاثیر کے بغیر ہیں۔ اور سبب ظاہری جیسے آگ احراق (جلانے) کے لئے ہے وہ صرف عقل ہے نہ کہ غیر۔ اور حواس اور اخبار صرف ادراک کے آلات اور طرق ہیں۔ اور سبب مفضی فی الجلمہ بایں معنی کہ اللہ تعالیٰ اپنی عادت کے جاری ہونے کے طریقہ پر ہمارے اندر علم کا خلق (شئی کا علم) فرما دے تاکہ (یہ سبب) شامل ہو جائے مُدرک کو جیسے عقل ہے اور آلہ کو جیسے حس ہے اور طریق کو جیسے خبر (لہٰذا سبب فی الجملہ) تین (3) میں منحصر نہیں ہے بلکہ یہاں کچھ اور چیزیں بھی ہیں جیسے وجدان اور حدس اور تجربہ اور نظر عقل جو مقدمات کو ترتیب دینے کے معنیٰ میں ہے۔
ہم جواب دیں گے کہ یہ (اسباب علم کا تین ہونا) مشایخ کی عدت کے مطابق ہے مقاصد پر اکتفاء کرنے میں اور فلاسفہ کی باریکیوں سے اعراض کرنے میں، اس لئے کہ انہوں نے جب بعض ادراکات کو ان حواسِ طاہرہ کے استعمال کے بعد حاصل ہوتے ہوئے پایا کہ جن میں کوئی شک نہیں ہے خواہ وہ حواس ذوی العقول کے ہوں یا ان کے غہر کے۔ تو انہوں نے حواس کو اسباب میں سے ایک سبب (علم کا) دوسرا قرار دیا۔ اور جب کہ معلوماتِ دینیہ کا زیادہ تر حصہ خبرِ صادق سے مستفاد ہے تو مشائخ نے خبرِ صادق کو (علم کا) دوسرا سبب قرار دیا اور جبکہ مشائخ کے نزدیک حواسِ باطنہ کہ جن کا نام حس مشترک اور خیال اور وہم اور اس کے علاوہ (جن کا وجود) ثابت نہیں ہے۔ اور مشائخ کی کوئی غرض متعلق نہ ہوئی حدسیات، تجربیات، بدیہیات اور نظریات کی تفاصیل سے۔ اور ان سب کا مرجع عقل ہے۔ تو انہوں نے عقل کو تیسرا سبب قرار دیا جو مفضی الی العلم ہے محض التفات سے یا حدس یا تجربہ کے انضمام سے یا مقدمات کی ترتیب سے تو انہوں نے علم کا سبب بنا دیا، بایں طور کہ ہمیں بھوک اور پیاس لگی اور (اس بات کا علم کہ) کُل اپنے جزء سے بڑا ہوتا ہے اور (اس بات کا علم کہ) چاند کی روشنی سورج سے مستفاد ہے اور (اس بات کا علم کہ) سقمونیا دست آور ہے اور (اس بات کا علم کہ) عالم حادث ہے (سبب) عقل کو قرار دیا۔ اگرچہ ان میں سے بعض چیزوں میں علم حس کی مدد سے بھی حاصل ہوتا ہے۔
پس حواس، حاسہ کی جمع ہے جو قوت کے معنی میں ہے۔ پانچ ہیں بائیں معنی کہ عقل بداہۃ ان کے وجود کا فیصلہ کرتی ہے اور بہر حال حواسِ باطنہ کہ جن کو فلاسفہ ثابت کرتے ہیں ان کے (ثبوت کے) دلائل اسلامی اسولوں کے مطابق تام نہیں ہیں (ان حواسِ خمسہ میں سے ایک) سمع ہے اور وہ ایسی قوت ہے کہ جو کان کے سوراخ کے باطن میں بچھے ہوئے پٹھوں میں (من جانب اللہ) رکھدی گئی ہے اس کے ذریعہ کان کے سوراخ میں اس ہوا کے پہنچنے کے طریقہ پر آواز کی کیفیت کے ساتھ متصف ہوتی ہے آوازوں کا ادراک کیا جاتا ہے بایں معنی کہ اللہ تعالیٰ اس وقت نفس میں ادراک پیدا فرما دیتے ہیں۔
اور (حواسِ خمسہ میں سے دوسرا حاسہ) بصر ہے وہ ایسی قوت ہے جو ان دوو کھوکھلے پٹھوں میں رکھی ہوئی ہے جو (دماغ میں) ملے ہوئے ہیں پھر دونوں جدا جاتے ہیں پھر دونوں آنکھوں کی طرف پہنچ جاتے ہیں۔
ادراک کیا جاتا ہے اس قوت (باصرہ) کے ذریعہ سے روشنیوں اور شکلوں اور مقادیر اور حرکات اور حُسن وقبح اور اس کے علاوہ کا ان چیزوں میں سے کہ جس کا ادراک نفس میں اللہ تعالیٰ پیدا فرمادے بندہ اس قوت کو استعمال کرنے کے وقت۔
اور(حواس میں سے تیسرا حاسہ) شمّ ہے وہ ایسی قوت ہے کہ جس کو اس دو گوشت کے ٹکڑوں میں ودیعت رکھ دیا گیا ہے جو مقدم دماغ میں اُگتے ہیں جو پستان کے دونوں سِروں کے مشابہ ہیں اس (قوت) کے ذریعہ بوؤں کا ادراک ہو جاتا ہے اس ہوا کے خیثوم تک کے طریقہ پر جو بو والی چیز کی کیفیت کے ساتھ متکیف ہے۔
اور (حواس میں سے چوتھا حاسہ) ذوق ہے وہ ایسی قوت ہے جو پھیلی ہوئی ہے اس پٹھے میں کہ جو زبان کے جرم پر بچھا ہوا ہے اس کے ذریعہ ذائقوں کا ادراک کیا جاتا ہے اس رطوبت لُعابیہ کے ملنے کی وجہ سے منہ میں ہے مطعوم (کھائی جانے والی چیز) کے ساتھ اور اس کے پہنچنے کی وجہ سے پٹھے کی طرف۔
اور (حواس میں سے پانچواں حاسہ) لمس ہے اور یہ ایسی قوت ہے جو تمام بدن میں پھیلی ہوئی ہے جس کے ذریعہ حرارت اور بُرودت اور رُطوبت اور یبوست اور مثل کا ادراک کیا جاتا ہے چھونے اور ملنے کے وقت اس (بدن) کے ساتھ۔
اور ان حواس خمسہ میں سے پر ایک حاسہ سے واقفیت اور اطلاع ہوتی ہے اس شئ پر کہ جس کے لئے وہ حاسہ وضع کیا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ان حاسوں میں سے پر ایک کو اشیاء مخصوصہ کے ادراک کے لئے پیدا فرمایا ہے جیسے سمع آوازوں کے لئے اور ذوق ذائقوں کے لئے اور شم بوؤں کے لئے، ادراک نہیں کیا جائے گا کسی حاسہ سے اس چیز کا کہ جس کا ادراک دوسرے حاسہ سے کیا جاتا ہے۔ اور بہر حال کیا یہ بات جائز ہے تو اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ اور حق بات امکان ہے اس لئے کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے سے ہوتا ہے بغیر حواس کی تاثیر کے، تو یہ بات ممتنع نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ قوتِ باصرہ کے استعمال کے بعد مثلاً آوازوں کے ادراک کا خلق فرمادیں۔
پھر اگر اعتراض کیا جائے کہ کیا قوتِ ذائقہ شئ کی حلاوت اور حرارت دونوں کا ادراک نہیں کرتی تو ہم جواب دیں گے کہ نہیں بلکہ حلاوت کا ادراک ہوتا ہے ذوق سے حرارت کا اس قوتِ لامسہ سے جو منہ اور زبان میں موجود ہے۔
صفحہ 57 - 73 توضیح العقائد فی حل شرح العقائد – اکرام الحق، استاذ جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان– جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان

اور اسباب علم اور وہ (علم) ایک ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے شئ اس شخص کو منکشف اور واضح ہو جاتی ہے جس کے ساتھ وہ (صفت) قائم ہوتی ہے، یعنی واضح اور ظاہر ہو جاتی ہے وہ چیز جو ذکر کی جاتی ہے اور جس کا تعبیر کیا جانا (زبان سے ذکر کیا جانا) ممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ تعریف حواس کے ادراک اور عقل کے ادراک یعنی تصور اور تصدیقات یقینیہ اور غیر یقینیہ (سب) کو شامل ہوگی۔
برخلاف بعض اشاعرہ کے قول کے کہ علم ایک ایسی صفت ہے جو ایسی تمیز پیدا کرتی ہے جو نقیض کا احتمال نہیں رکھتا کیونکہ یہ تعریف اگرچہ حواس کے ادراک کو بھی شامل ہے، معافی کی قید نہ لگانے کی بناء پر اور تصورات کو بھی (شامل ہے)۔ اس بناء پر بعض لوگوں کے بقول تصورات کی نقیض ہی نہیں ہوتی، لیکن یہ تعریف تصدیقات غیر یقینیہ کو شامل نہیں ہوگی لیکن مناسب ہے کہ (پہلی تعریف میں) تجلی کو انکشاف تام پر محمول کیا جائے جو ظن کو شامل نہیں ہوتا، اس لئے کہ اشاعرہ کے نزدیک علم ظن کا مقابل ہے۔
(اسباب علم) مخلوق فرشتہ انسان اور جنات کے لئے اسقراء کی رو سے تین ہے حواس سلیمہ، خبر صادق اور عقل برخلاف باری تعالیٰ کے علم کے کہ وہ خود اس کی ذات کی وجہ سے ہے کسی سبب کے سہارے نہیں ہے، وجہ حصر یہ ہے کہ سبب اگر (مدرک سے) خارج ہے، تو وہ خبر صادق ہے ورنہ اگر وہ آلہ ہے (ادراک کا) جو مدرک کا غیر ہے، تو حواس ہے ورنہ پھر عقل ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ سبب مؤثر یعنی سبب حقیقی تو تمام علوم میں صرف اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ سارے علوم حاسہ اور خبر صادق اور عقل کی تاثیر کے بغیر محض اللہ تعالیٰ کے خلق اور اس کی ایجاد کا نتیجہ ہیں اور حواس و اخبار تو ادراک میں آلہ اور طریق ہیں اور سبب فی الجملہ بایں معنی کہ اللہ تعالیٰ اپنی عادت کے مطابق اس کے ہوتے ہوئے (شئ کا) علم پیدا فرما دیں تاکہ ( سبب بایں معنی) مدرک جیسے عقل کو اور آلہ جیسے حس کو اور طریق جیسے خبر شامل ہو جائے۔ تو وہ ( سبب بمعنی مذکور) ان ہی تین (3) میں منحصر نہیں ہے بلکہ یہاں کچھ اور چیزیں بھی ہیں مثلاً وجدان، حدس اور نظر عقل بمعنی ترتیب مبادی اور ترتیب مقدمات۔
ہم جواب دیں گے کہ یہ (اسباب علم کا تین ہونا) مشائخ (اہل حق) کی اس عادت پر مبنی ہے جو مقاصد پر اکتفاء کرنے اور فلاسفہ کی موشگافیوں سے اعراض کرنے کے سلسلہ میں رہی ہے کیونکہ انہوں نے بعض ادراکات کو ان حواس ظاہرہ کے استعمال کے بعد حاصل ہوتے دیکھا جن ے وجود میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے، خواہ وہ حواس ذوی العقول کے ہوں یا غیر ذوی العقول کے اس لئے انہوں نے حواس کو (علم کا) ایک سبب قرار دیا، اور جب کہ دینی معلومات کا بیشتر حصہ خبر صادق سے معلوم ہوا ہے، تو خبر صادق کو دسورا سبب قرار دیا اور چونکہ مشائخ اہل حق کے نزدیک حس مشترک، خیال اور اہم وغیرہ نامی حواس باطنہ کا وجود ثابت نہیں، اور حدسیات، تجربیات، بدیہیات اور نطریات کی تفصیلات سے ان کا کوئی فائدہ وابستہ نہیں، اور ان سب علوم کا مرجع عقل ہی ہے۔ تو عقل کو تیسرا سبب قرار دیا ، جو محض التفات سے یا حدس یا تجربہ کے انضمام سے یا ترتیب مقدمات کے واسطہ سے علم کا سبب ہوتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کا علم کا ہم کو بھوک اور پیاس لگی ہے اور اس بات کے علم سبب ہوتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کے علم کا کہ ہم کو بھوک اور پیاس لگی ہے اور اس بات کے علم کا کہ کل اپنے جز سے بڑا ہوتا ہے، اور اس بات کے علم کا کہ چاند کی روشنی سورج کی روشنی سے مستفاد ہے، اور اس بات کے علم کا سقمونیا دست آور ہے سبب عقل ہی قرار دیا۔ اگر چہ ان میں سے بعض میں علم حس کی مدد سے بھی حاصل ہوتا ہے۔
پس حواس جو حاسہ کی جمع ہے بمعنیٰ قوت، حاسہ پانچ ہیں بایں معنیٰ کہ عقل بدیہی طور پر ان کے وجود کا فیصلہ کرنے والی ہے۔ رہا حواس باطنیہ، جن کو فلاسفہ ثابت کرتے ہیں تو ان کے (ثبوت کے) دلائل اسلامی قواعد پر پورے نہیں اترتے۔ (ان حواس خمسہ میں سے ایک) سمع ہے اور وہ ایک ایسی قوت ہے جو کان کے سوراخ کے باطن میں بچھے ہوئے پٹھوں میں (منجانب اللہ) رکھی ہوئی ہے اس کے ذریعہ کان کے سوراخ میں اس ہوا کے پہونچنے کے واسطے سے جو آواز کی کیفیت کے ساتھ متصف ہوتی ہے۔ آوازوں کا ادراک کیا جاتا ہے۔ بایں معنیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس وقت نفس میں ادراک پیدا فرمادیتے ہیں۔
اور (حواس ظاہرہ خمسہ میں سے دوسرا حاسہ) بصر ہے۔ اور وہ ایک ایسی قوت ہے جو ان دو کھوکھلے پٹھوں میں رکھی ہوئی ہے جو باہم دماغ میں ملے ہوئے ہیں۔ پھر ایک دوسرے سے جدا ہو کر دونوں آنکھوں میں پہنچتے ہیں۔ اس (قوت) کے ذریعہ روشنیوں، رنگوں اور شکلوں اور مقداروں اور حرکتوں اور خوبصورتی وغیرہ ایسی چیزوں کا ادراک ہوتا ہے جن کا ادراک بندے کے اس قوت کو ستعمال کرنے کے وقت اللہ تعالیٰ نفس میں پیدا فرما دیتے ہیں۔
اور حواس میں تیسرا حاسہ شم ہے، اور مقدم دماغ میں پستان کی گھنڈیوں کے مشابہ پیدا ہونے والے گوشت کے دو ٹکڑوں میں ودیعت کی ہوئی وہ قوت ہے جس کے ذریعے بودار چیز کی کیفیت (بو) کے ساتھ متصف ہونے والی ہوا کے ناک کے بانسہ تک پہنچنے کے واسطہ سے ہر قسم کو بو کا ادراک ہوتا ہے۔ اور حواس میں سے چوتھا حاسہ ذوق ہے اور وہ ایسی قوت ہے جو زبان کے اوپر بچھے ہوئے پٹھے میں ودیعت کی ہوئی ہے، اس کے ذریعے کھائے جانی والی یا ذائقہ والی چیز کے ساتھ منہ کے اندر کی لعابی رطوبت کے اختاط کرنے اور اس رطوبت کے (مذکورہ پٹھے تک پہنچنے کے واسطے سے) (ہر قسم کے) ذائقوں کا ادراک ہوتا ہے، اور حواس خمسہ میں سے پانچواں حاسہ لمس ہے اور یہ ایسی قوت ہے جو تمام بدن میں پھیلی ہوئی ہے، اس کے ذریعے بدن کے ساتھ مس اور اتصال کرنے کے وقت حرارت، برودت، رطوبت، یبوست وغیرہ کا ادراک ہوتا ہے۔
اور ان حواس خمسہ میں سے ہر حاسہ کے ذریعہ اسی چیز کی آگاہی ہوتی ہے، جس کے لئے وہ حاسّہ پیدا کیا گیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ان حواس میں سے ہر ایک کو مخصوص اشیاء کے ادراک کے لئے پیدا کیا ہے، مثلاً حاسہ سمع کو آوازوں کے (ادراک کے لئے) اور حاسہ ذوق کو ذائقوں کے (ادراک کے لئے) اور قوت شامہ کو خوشبوؤں، بدبوؤں کے ادراک کے لئے پیدا کیا ہے، ان (میں سے کسی) کے ذریعے ایسی چیز کا ادراک نہیں ہوتا، جس کا ادراک دوسرے حاسہ سے ہوتا ہے، رہی بات کہ کیا ایسا ممکن ہے (یا نہیں؟) تو اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، اور حق امکان ہے کیونکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے سے ہوتا ہے۔ حواس کے مؤثر ہونے کی وجہ سے نہیں، پس یہ بات محال نہیں کہ قوت باصرہ کو متوجہ کرنے کے بعد مثلاً آواز کا ادراک پیدا فرمادیں، پھر اگر اعتراض کیا جائے کہ کیا قوت ذائقہ ایک شئ کی حلوات اور حرارت کا ایک ساتھ ادراک نہیں کرتی، ہم جواب دیں گے کہ نہیں بلکہ حلاوت کا ادراک قوت ذائقہ کے ذریعے ہوتا ہے اور حرارت کا ادراک اس قوت لامسہ کے ذریعے ہوتا ہے جو منہ اور زبان میں موجود ہے۔
صفحہ 87 - 106 اشرف الفوائد اردو شرح العقائد – فدا محمد – مدنی کتب خانہ

مذکورہ بالا عبارت میں جو اہم ترین نکتہ مندرجہ ذیل ہے:

(للخَلْقِ)
أي المخلوق، من الملك والإنس والجن، بخلاف علم الخالق تعالى، فإنه لذاته لا لسبب من الأسباب.

( علم کے اسباب) مخلوق کے لئے یعنی فرشتہ اور انسان اور جن کے لئے بخلاف حق تعالیٰ کے علم کے، اس لئے کہ وہ ذاتی ہے اسباب میں سے کسی سبب کی وجہ سے نہیں۔
یعنی کہ اللہ تعالیٰ کی صفات ما فوق الاسباب ہیں!

ممکن ہے کوئی منچلا یہ کہہ دے کہ ما فوق الاسباب اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کرنے کی دلیل نہیں،
لہٰذا ہم اس کی وضاحت بھی کئے دیتے ہیں کہ بالکل ما فوق الاسباب اللہ تعالیٰ کے لئے ہی خاص ہے؛ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (سورة الشورى 11)
آسمانوں اور زمین کا بنانے والا، تمہارے لیے تمہیں میں سے جوڑے بنائے اور نر و مادہ چوپائے، اس سے تمہاری نسل پھیلاتا ہے، اس جیسا کوئی نہیں، اور وہی سنتا دیکھتا ہے (ترجمہ: احمد رضا خان بریلوی)

اس آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ الازہری فرماتے ہیں:
کوئی چیز ذات میں یا صفات میں اللہ تعالیٰ کی مانند نہیں تاکہ اگر اللہ کو چھوڑ کر اس کی پناہ لی جائے تو اس کا کام بن جائے۔ انسان کو اپنے خالق کا در چھوڑ کر کہیں پناہ نہیں مل سکتی۔ وہ سمع اور بصیر ہے۔ اپنی ہر مخلوق کی فریاد اور اس کا نالۂ و درد بھی سُن رہا ہے اور اس کی حالت زار کو بھی دیکھ رہا ہے۔ اور کون ہے جس کی یہ شان ہو۔
صفحہ 366 (2448) جلد 04 ضیاء القرآن – محمد کرم شاہ الازہری – ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور

قاضی عیاض کا بیان بھی ملاحظہ فرمائیں:

قَالَ الْقَاضِي أَبُو الْفَضْلِ : - وَفَّقَهُ اللَّهُ تَعَالَى - ، وَهَا أَنَا أَذْكُرُ نُكْتَةً أُذَيِّلُ بِهَا هَذَا الْفَصْلَ ، وَأَخْتِمُ بِهَا هَذَا الْقِسْمَ ، وَأُزِيحُ الْإِشْكَالَ بِهَا فِيمَا تَقَدَّمَ عَنْ كُلِّ ضَعِيفِ الْوَهْمِ ، سَقِيمِ الْفَهْمِ ، تُخَلِّصُهُ مِنْ مَهَاوِي التَّشْبِيهِ ، وَتُزَحْزِحُهُ عَنْ شُبَهِ التَّمْوِيهِ ، وَهُوَ أَنْ يَعْتَقِدَ أَنَّ اللَّهَ - تَعَالَى - جَلَّ اسْمُهُ فِي عَظَمَتِهِ ، وَكِبْرِيَائِهِ ، وَمَلَكُوتِهِ ، وَحُسْنَى أَسْمَائِهِ ، وَعُلِيِّ صِفَاتِهِ ، لَا يُشْبِهُ شَيْئًا مِنْ مَخْلُوقَاتِهِ ، وَلَا يُشَبَّهُ بِهِ ، وَأَنَّ مَا جَاءَ مِمَّا أَطْلَقَهُ الشَّرْعُ عَلَى الْخَالِقِ ، وَعَلَى الْمَخْلُوقِ ، فَلَا تَشَابُهَ بَيْنَهُمَا فِي الْمَعْنَى الْحَقِيقِيِّ ، إِذْ صِفَاتُ الْقَدِيمِ بِخِلَافِ صِفَاتِ الْمَخْلُوقِ ، فَكَمَا أَنَّ ذَاتَهُ لَا تُشْبِهُ الذَّوَاتَ كَذَلِكَ صِفَاتُهُ لَا تُشْبِهُ صِفَاتَ الْمَخْلُوقِينَ ، إِذْ صِفَاتُهُمْ لَا تَنْفَكُّ عَنِ الْأَعْرَاضِ ، وَالْأَغْرَاضِ ، وَهُوَ - تَعَالَى - مُنَزَّهٌ عَنْ ذَلِكَ ، بَلْ لَمْ يَزَلْ بِصِفَاتِهِ ، وَأَسْمَائِهِ ، وَكَفَى فِي هَذَا قَوْلُهُ : لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ﴿الشُّورَى : 11﴾.
وَلِلَّهِ دَرُّ مَنْ قَالَ مِنَ الْعُلَمَاءِ الْعَارِفِينَ الْمُحَقِّقِينَ : التَّوْحِيدُ إِثْبَاتُ ذَاتٍ غَيْرِ مُشْبِهَةٍ لِلذَّوَاتِ ، وَلَا مُعَطَّلَةٍ عَنِ الصِّفَاتِ .
وَزَادَ هَذِهِ النُّكْتَةَ الْوَاسِطِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ - بَيَانًا ، وَهِيَ مَقْصُودُنَا ، فَقَالَ : لَيْسَ كَذَاتِهِ ذَاتٌ ، وَلَا كَاسْمِهِ اسْمٌ ، وَلَا كَفِعْلِهِ فِعْلٌ ، وَلَا كَصِفَتِهِ صِفَةٌ ، إِلَّا مِنْ جِهَةِ مُوَافَقَةِ اللَّفْظِ اللَّفْظَ ، وَجَلَّتِ الذَّاتُ الْقَدِيمَةُ أَنْ تَكُونَ لَهَا صِفَةٌ حَدِيثَةٌ ، كَمَا اسْتَحَالَ أَنْ تَكُونَ لِلذَّاتِ الْمُحْدَثَةِ صِفَةٌ قَدِيمَةٌ .
وَهَذَا كُلُّهُ مَذْهَبُ أَهْلِ الْحَقِّ ، وَالسُّنَّةِ ، وَالْجَمَاعَةِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - .
وَقَدْ فَسَّرَ الْإِمَامُ أَبُو الْقَاسِمِ الْقُشَيْرِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَوْلَهُ هَذَا ، لِيَزِيدَهُ بَيَانًا ، فَقَالَ : هَذِهِ الْحِكَايَةُ تَشْتَمِلُ عَلَى جَوَامِعِ مَسَائِلِ التَّوْحِيدِ ، وَكَيْفَ تُشْبِهُ ذَاتُهُ ذَاتَ الْمُحْدَثَاتِ ، وَهِيَ بِوُجُودِهَا مُسْتَغْنِيَةٌ ، وَكَيْفَ يُشْبِهُ فِعْلُهُ فِعْلَ الْخَلْقِ ، وَهُوَ لِغَيْرِ جَلْبِ أُنْسٍ ، أَوْ دَفْعِ نَقْصٍ حَصَلَ ، وَلَا بِخَوَاطِرَ وَأَغْرَاضٍ وُجِدَ ، وَلَا بِمُبَاشَرَةٍ وَمُعَالَجَةٍ ظَهَرَ ، وَفِعْلُ الْخَلْقِ لَا يَخْرُجُ عَنْ هَذِهِ الْوُجُوهِ.
وَقَالَ آخَرُ مِنْ مَشَايِخِنَا : مَا تَوَهَّمْتُمُوهُ بِأَوْهَامِكُمْ ، أَوْ أَدْرَكْتُمُوهُ بِعُقُولِكُمْ فَهُوَ مُحْدَثٌ مِثْلُكُمْ .
وَقَالَ الْإِمَامُ أَبُو الْمَعَالِي الْجُوَيْنِيُّ : مَنِ اطْمَأَنَّ إِلَى مَوْجُودٍ انْتَهَى إِلَيْهِ فِكْرُهُ فَهُوَ مُشَبِّهٌ ، وَمَنِ اطْمَأَنَّ إِلَى النَّفْيِ الْمَحْضِ فَهُوَ مُعَطِّلٌ ، وَإِنْ قَطَعَ بِمَوْجُودٍ اعْتَرَفَ بِالْعَجْزِ عَنْ دَرْكِ حَقِيقَتِهِ فَهُوَ مُوَحِّدٌ .
وَمَا أَحْسَنَ قَوْلَ ذِي النُّونِ الْمِصْرِيِّ : حَقِيقَةُ التَّوْحِيدِ أَنْ تَعْلَمَ أَنَّ قُدْرَةَ اللَّهِ - تَعَالَى - فِي الْأَشْيَاءِ بِلَا عِلَاجٍ ، وَصُنْعَهُ لَهَا بِلَا مِزَاجٍ ، وَعِلَّةُ كُلِّ شَيْءٍ صُنْعُهُ ، وَلَا عِلَّةَ لِصُنْعِهِ ، وَمَا تُصُوِّرَ فِي وَهْمِكَ فَاللَّهُ بِخِلَافِهِ .
وَهَذَا كَلَامٌ عَجِيبٌ نَفِيسٌ مُحَقَّقٌ .
وَالْفَصْلُ الْآخَرُ ، تَفْسِيرٌ لِقَوْلِهِ : لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ﴿الشُّورَى : 11﴾. وَالثَّانِي تَفْسِيرٌ لِقَوْلِهِ : لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ ﴿الْأَنْبِيَاءِ : 23﴾، وَالثَّالِثُ ، تَفْسِيرٌ لِقَوْلِهِ : إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ﴿النَّحْلِ : 40﴾ .
ثَبَّتَنَا اللَّهُ وَإِيَّاكَ عَلَى التَّوْحِيدِ ، وَالْإِثْبَاتِ ، وَالتَّنْزِيهِ ، وَجَنَّبَنَا طَرَفَيِ الضَّلَالَةِ ، وَالْغَوَايَةِ مِنَ التَّعْطِيلِ ، وَالتَّشْبِيهِ بِمَنِّهِ ، وَرَحْمَتِهِ .

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 304 – 306 جلد 01 الشفا بتعريف حقوق المصطفى صلى الله عليه وسلم - أبو الفضل القاضي عياض - جائزة دبي الدولية للقرآن الكريم
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 204 – 206 جلد 01 الشفا بتعريف حقوق المصطفى صلى الله عليه وسلم - أبو الفضل القاضي عياض - دار سعادت - مطبعة عثمانية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 151 – 152 جلد 01 الشفا بتعريف حقوق المصطفى صلى الله عليه وسلم - أبو الفضل القاضي عياض - دار ابن حزم
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 164 – 165 جلد 01 الشفا بتعريف حقوق المصطفى صلى الله عليه وسلم - أبو الفضل القاضي عياض - دار الحديث
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 199 – 201 جلد 01 الشفا بتعريف حقوق المصطفى صلى الله عليه وسلم - أبو الفضل القاضي عياض - عبد الحميد أحمد حنفي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 243 – 246 جلد 01 الشفا بتعريف حقوق المصطفى صلى الله عليه وسلم - أبو الفضل القاضي عياض - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 153 – 154 جلد 01 الشفا بتعريف حقوق المصطفى صلى الله عليه وسلم - أبو الفضل القاضي عياض - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 337 – 340 جلد 01 الشفا بتعريف حقوق المصطفى صلى الله عليه وسلم - أبو الفضل القاضي عياض - دار الكتاب العربي


قاضی ابو الفضل (عیاض) رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے، فرماتے ہیں:
اب میں اسی فصل میں اس کے ذیل اور ضمنی ایک نکتہ بیان کرکے اس قسم کو ختم کرتا ہوں اور اس نکتہ کے ذریعے ان مشکلوں کو دور کردوں گا جو ہر کمزور وہم اور بیمار فہم کو پیش آئے ہوں گے تاکہ اس کو تشبیہ کے غاروں سے نکالے اور ملمع سازوں سے دور کردے۔
وہ یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ جل اسمہ، اپنی سفات، عظمت کبریاء ملکوت اور اسماء حسنی اور صفات علیاء میں اس حد تک ہے کہ اس کی مخلوق میں کوئی بھی ادنیٰ سا مشابہ بھی نہیں ہے اور نہ کسی کو اس سے تشبیہ بھی دی جاسکتی ہے۔ بلا شک وشبہ وہ جو شریعت نے مخلوق پر بولا ہے۔ ان دونوں میں حقیقی معنی میں کوئی مشابہت ہی نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات قدیم ہیں بخلاف مخلوق کی صفات کے جیسے کہ اس کی ذات تبارک و تعالیٰ دوسری ذاتوں کے مشابہ نہیں ہے ایسے ہی اس کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں۔ کیونکہ مخلوق کی صفات اعراض و اغراض سے جدا نہیں ہوتیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے پاک ومنزہ ہے بلکہ وہ اپنی صفات و اسماء کے ساتھ ہمیشہ سے ہے، اس بارے میں یہ فرمان کافی ہے:
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ﴿الشُّورَى : 11﴾ اس جیسا کوئی نہیں۔
اور اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خوبی ہے۔ جن علماء عارفین، محققین نے یہ کہا کہ توحید ایسی ذات کے ثابت کرنے کا نام ہے جو کہ اور ذاتوں کے مشابہ نہیں اور نہ صفات سے معطل ہے۔
واسطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس نکتہ کو خوب بڑھا کر بیان ہے اور یہی ہمارا مقصود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ذات کے مثل کوئی ذات نہیں اور نہ اس کے نام کے مثل کوئی نام اور نہ اس کے فعل کے مثل کوئی فعل ہے اور نہ اس کی صفت کے مثل کوئی صفت۔ مگر صرف لفظ کی لفظ کے ساتھ موافقت کی وجہ سے ہے۔ اس کی قدیم ذات برتر ہے کہ اس کی کوئی صفت حادث ہو۔ جیسے کہ یہ محال ہے کہ کسی حادث ذات میں کوئی صفت قدیم ہو۔ یہ کل کا کل اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے۔
بلا شبہ امام ابو القاسم قیشری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے اس قول کی اور زیادہ وضاحت کے ساتھ تفسیر کی ہے اور فرمایا کہ یہ حکایت تمام مسائل توحید کو مشتمل ہے۔ کیونکر اس کی ذات، محدث ذاتوں کے مشابہ ہو اس کی ذات اپنے وجود میں مستغنی ہے اور کیونکر اس کا فعل مخلوق کے فعل کے مشابہ ہو وہ فعل تو نفع محبت اور دفع نقص کے بغیر ہے اور نہ خطروں اور غرضوں کا گزر ہے اور نہ اعمال و محنت سے ظاہر ہوا اور مخلوق ان وجوہات سے باہر نہیں۔
ہمارے مشائخ میں سے ایک بزرگ نے کہا ہے کہ جو کچھ تم اپنے وہموں سے وہم کرتے ہو یا اپنی عقلوں سے معلوم کرتے ہو۔ وہ تمہاری طرح حادث ہے۔
ابو المعالی رحمۃ اللہ علیہ جوینی فرماتے ہیں کہ جو شخص اس موجود کی طرف مطمئن ہو گیا اور اس طرف اپنی فکر بس کردی۔ ارے وہ تو مشبہ ہے اور جو شخص نفی محض کی طرف ہو گیا وہ معطل ہے اور جو شخص ایک ایسے موجود کے ساتھ علاقہ رکھ کر اس کی حقیقت کے ادراک سے عجز کا اعتراف کرے، بس وہی موحد ہے۔
حجرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے توحید کی حقیقت میں کیا خوب کہا ہے کہ تم اس بات کو جان لو کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت چیزوں میں بغیر محنت سے ہے اور مخلوق کا بنانا بلا مزاج اور سبب کے ہے۔ ہر چیز کی علت اس کی صفت ہے اور اس کی صفت کے لئے کوئی علت نہیں اور تمہارے وہم میں جو بھی متسور ہو اللہ اس کے برعکس ہے۔ یہ کلام نہایت عجیب عمدہ اور محقق ہے اور اس کا آخری فقرہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تفسیر ہے :
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ﴿الشُّورَى : 11﴾ سے اور دوسرا اس کے فرمان ہے: لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ ﴿الْأَنْبِيَاءِ : 23﴾ جو اللہ کرتا ہے اس سے پوچھا نہ جائے گا۔ حالانکہ وہ خود مسئول ہیں۔ اور تیسرا ٹکڑا اللہ کے اس فرمان کی تفسیر ہے: إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ﴿النَّحْلِ : 40﴾ جو چیز ہم چاہیں اس سے ہمارا فرمانا یہ ہی ہوتا ہے کہ ہم کہیں ہو جا وہ فوراً ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں توحید اور اس کے اژبات اور اس کی تنزیہہ پر ثابت و قائم رکھے اور ضلالت و گمراہی یعنی تعطل و تشبیہ کے کناروں سے اپنے فضل و احسان کے طفیل محفوظ رکھے۔ آمین۔
صفحہ 222 – 223 جلد 01 الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ – مترجم غلام معین الدین نعیمی – مکتبہ اعلیٰ حضرت، لاہور

(جواب مکمل ہوا)
 
Last edited:

کشمیر خان

مبتدی
شمولیت
اگست 22، 2015
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
25
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

کہ ابو جہل کے پیروکاروں نے قرآن حدیث کو رد کر دینا ہے!

یہ سوال بھی اپنے سوال نامہ میں شامل کر ہی دیتے! آپ کو بعد میں یاد آیا ہے کوئی بات نہیں، آپ کے اس اکتیسویں سوال کا جواب بھی دیا جائے گا!
ذرا دھیرج رکھئے! قادری رانا صاحب سے گفتگو کو بغور مطالعہ فرمائیے گا!

اس آیت کو آپ نے ''بتوں'' کے ساتھ منحصر کیسے کردیا؟ بھائی جان میں نے اسی لئے آپ کے احمد رضا خان بریلوی کا ترجمہ پیش کیا تھا۔
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ ﴿سورة الأعراف 194- 195﴾
بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو، ﴿﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤ چلو اور مجھے مہلت نہ دو (ترجمہ : احمد رضا خان بریلوی)
احمد رضا خان نے ''تمہاری طرح بندے'' لکھا ہے۔ اور احمد رضا خان کا یہ ترجمہ بالکل درست ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو نازل کئے ہیں وہ ﴿عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ﴾ لہٰذا اس آیت میں ما فوق الاسباب پکار یعنی کہ عبادت (پوجا) کو بتوں کے ساتھ منحصر نہیں کیا جاسکتا!
اور اس پکار کو ما فوق الاسباب کے ساتھ مقید کرنے کی دلیل اسی آیت میں موجود ہے، ﴿أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں۔
ویسے پکار کے عبادت ہونے کے لئے ما فوق الاسباب ہونے کے تقید کے قرآن و سنت میں یوں تو اور بھی دلائل ہیں، مگر یہی دلیل کفایت کرتی ہے!

قادری رانا بھائی! ہم نے دلیل کے ساتھ اپنا مؤقف بیان کر دیا آپ کہتے کہ اپنے عقیدے کو واضح کرتے!
اور کیا بیان و وضاحت ہوتی ہے؟ہم نے اپنا مؤقف قران کی آیت پیش کر رکے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے ما فوق الاسباب مدد طلب کرنا و پکار غیر اللہ کی عبادت ہے اور یہ شرک ہے! اور کس چیز کا نام بیان اور وضاحت ہوتا ہے؟
اور ہم پہلے ہی بیان کردیا تھا، اقتباس دوبارہ پیش کیا جارہا ، بغور مطالعہ فرمائیں:



ہم بھی دیکھیں گے کہ آپ کیا جواب دیتے ہیں!
آپ کے مزید دو باتیں کشید کرنا تو ہمیں پہلے ہی اندازہ تھا، اس لئے ہم نے پہلے ہی اس کا بندوبست بھی کردیا تھا! ابھی اس یہ بات بھی واضح ہو جائے گی! ان شاء اللہ!


ما فوق الاسباب سے مراد ما فوق الاسباب ہے! ما فوق الاسباب سے مراد ما تحت الاسباب نہیں!
قادری رانا بھائی! جب ہم نے ما فوق الاسباب کا ذکر کیا ہے ، تو اس میں تمام میسر اسباب شامل ہیں! خواہ عادیہ ہوں یا غیر عادیہ!
نوٹ: قادری رانا بھائی! اس اسکو ل کا میں پرنسپل ہوں!

قادری رانا بھائی! ڈاکٹر کا گولی دینا تحت الاسباب ہے، بلکل اس سے شفا کاحصول ہونا بھی تحت الاسباب، اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً ".
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو ۔
صحيح البخاري » كِتَاب الطِّبِّ » باب مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، وَأَبُو الطَّاهِرِ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، قَالُوا : حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ قَال : " لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ فَإِذَا أُصِيبَ دَوَاءُ الدَّاءِ بَرَأَ بِإِذْنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ".
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بیماری کی دوا ہے جب بیمار کی دوا پہنچ جاتی ہے تو اللہ کے حکم سے وہ بیماری دور ہو جاتی ہے۔
صحيح مسلم » كِتَاب السَّلَامِ » بَاب لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ وَاسْتِحْبَابِ التَّدَاوِي

جبکہ کسی ''ولی'' کا محض ''ہاتھ پھیرنا'' کوئی سبب نہیں! البتہ ہاتھ پھیر کر دعا اور دم کرنا ما فوق الاسباب اللہ کو پکارنا ہے!
اس میں بھی شرعی تقاضوں کو مدّنظر رکھنا لازم ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاقُ : أَخْبَرَنَا وقَالَ زُهَيْرٌ : وَاللَّفْظُ لَهُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قالت : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَكَى مِنَّا إِنْسَانٌ مَسَحَهُ بِيَمِينِهِ ، ثُمَّ قَالَ : " أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا " ، فَلَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَقُلَ أَخَذْتُ بِيَدِهِ لِأَصْنَعَ بِهِ نَحْوَ مَا كَانَ يَصْنَعُ ، فَانْتَزَعَ يَدَهُ مِنْ يَدِي ، ثُمَّ قَالَ : " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَاجْعَلْنِي مَعَ الرَّفِيقِ الْأَعْلَى " ، قَالَتْ : فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ قَدْ قَضَى.
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ہم میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تو رسول اللہ اس پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے پھر فرماتے تکلیف کو دور کر دے اے لوگوں کے پروردگار شفاء دے تو ہی شفا دینے والا ہے تیری شفاء کے علاوہ کوئی شفا نہیں ہے ایسی شفا دینے والا ہے تیری شفا کہ کوئی بیماری باقی نہ رہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور بیماری شدید ہوگئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا تاکہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے اسی طرح کروں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے کھینچ لیا پھر فرمایا اے اللہ میری مغفرت فرما اور مجھے رفیق اعلی کے ساتھ کر دے سیدہ فرماتی ہیں میں نے آپ کی طرف دیکھنا شروع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے تھے۔
صحيح مسلم » كِتَاب السَّلَامِ » بَاب اسْتِحْبَابِ رُقْيَةِ الْمَرِيضِ


قادری بھائی جان! آپ نے یہ موضوع سے باہر کی ایک بات بحث میں داخل کی ہے۔کیونکہ ابھی بات ہے استمداد بغیر اللہ کے حوالے سے!
قادری رانا بھائی! ان باتوں کی عبارت آپ ضرور پیش کیا کیجئے وہ بھی مع حوالہ؛
آپ عبارت پیش کریں اور اس عبارت سےموسی علیہ السلام کی ما فوق الاسباب استمداد بغیر اللہ دکھلائیں!

ایک بار پھر وہی عرض کروں گا کہ:
قادری بھائی جان! آپ نے یہ موضوع سے باہر کی ایک بات بحث میں داخل کی ہے۔کیونکہ ابھی بات ہے استمداد بغیر اللہ کے حوالے سے!
قادری رانا بھائی! ان باتوں کی عبارت آپ ضرور پیش کیا کیجئے وہ بھی مع حوالہ؛
آپ عبارت پیش کریں اور اس عبارت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ما فوق الاسباب استمداد بغیر اللہ دکھلائیں!


ایک بار پھر وہی عرض کروں گا کہ:
قادری بھائی جان! آپ نے یہ موضوع سے باہر کی ایک بات بحث میں داخل کی ہے۔کیونکہ ابھی بات ہے استمداد بغیر اللہ کے حوالے سے!
قادری رانا بھائی! ان باتوں کی عبارت آپ ضرور پیش کیا کیجئے وہ بھی مع حوالہ؛
آپ عبارت پیش کریں اور اس عبارت سےعیسیٰ علیہ السلام کی ما فوق الاسباب استمداد بغیر اللہ دکھلائیں!


بھائی جان ہم نے ما فوق الاسباب استمداد بغیر اللہ کو شرک کہا ہے، اور اس پر قرآن کی صریح دلیل پیش کی ہے! آپ پہلے انبیاء علیہ السلام سے ما فوق الاسباب استمداد بغیر اللہ ثابت تو کیجئے!
دیکھتے ہیں، آپ انبیاء علیہ السلام سے مافوق الاسباب استمداد بغیر اللہ ثابت کرنے کے لئے ان باتوں کی کون سی عبارت پیش کرتے ہیں!


جوابات کے ہم بھی منتظر ہیں!


اول تو یہ بتائیے کہ کیا بتوں اور مشرکوں اور کفار کے اعتقاد و افعال بیان کرنے والی آیات منسوخ ہیں؟ کہ ان سے استدلال نہیں کیا جا سکتا! جو فعل شرک کا ہے وہ مشرکین کا فعل ہی قرآن میں ذکر ہے، اسی طرح کفر کا بھی!
اب انبیاء علیہ السلام کے اعتقاد و افعال تو کفر و شرک نہیں!

دوم میں یاد دہانی کے لئے پہلے کیا گیا بیان دوبارہ پیش کرتا ہوں:
اس آیت کو آپ نے'' بتوں'' کے ساتھ منحصر کیسے کردیا؟ بھائی جان میں نے اسی لئے آپ کے احمد رضا خان بریلوی کا ترجمہ پیش کیا تھا۔
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ ﴿سورة الأعراف 194- 195﴾
بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو، ﴿﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤ چلو اور مجھے مہلت نہ دو (ترجمہ : احمد رضا خان بریلوی)
احمد رضا خان نے ''تمہاری طرح بندے'' لکھا ہے۔ اور احمد رضا خان کا یہ ترجمہ بالکل درست ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو نازل کئے ہیں وہ ﴿عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ﴾ لہٰذا اس آیت میں ما فوق الاسباب پکار یعنی کہ عبادت (پوجا) کو بتوں کے ساتھ منحصر نہیں کیا جاسکتا! ﴿أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں

اور اس پکار کو ما فوق الاسباب کے ساتھ مقید کرنے کی دلیل اسی آیت میں موجود ہے، ﴿أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں۔
ویسے پکار کے عبادت ہونے کے لئے ما فوق الاسباب ہونے کے تقید کے قرآن و سنت میں یوں تو اور بھی دلائل ہیں، مگر یہی دلیل کفایت کرتی ہے!


قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی، المظہری الحنفی (متوفی 1225ھ)
قادری رانا بھائی! اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں! کہ ہم پر یعنی کہ اہل الحدیث پر اہل الرائے کی تفسیر و شرح و اقوال سے حجت قائم نہیں کی جا سکتی! ہم تو اہل الرائے پر ان کے علماء کی تفسیر و شرح و اقوال سے بطور دلائل خصم دلیل و حجت قائم کر نے کے مجاز ہیں! آپ بلکل اپنے مؤقف کے بیان میں اپنے ان اہل الرائے کی تفسیر و شرح و اقوال کو پیش کر سکتے ہو! لیکن ان سے ہم پر اعتراض قائم نہیں کرسکتے!
جس طرح ہم شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ یا دیگر اہل الحدیث علماء کی تفسیر و شرح و اقوال سے آپ پر حجت قائم نہیں کر سکتے! ہاں اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے ان کی تفسیر و شرح و اقوال بیان کرسکتے ہیں ، اور کرتے ہیں!
باقی وہ فقہاء و علماء ہیں جو متفق علیہ ہیں! اگر میری طرف سے پیش کردہ مفسر و شارح و فقیہ آپ کے لئے معتبر نہ ہو تو بالکل آپ یہ فرما دیں کہ یہ آپ کے نزدیک معتبر نہیں!
مثلاً امام الذہبی و امام ابن کثیر رحمہ اللہ عنہما! گو کہ یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں ، لیکن آپ کے ہاں بھی معتبر ہیں قرار پائیں ہیں!

دوم کہ آپ نے قاضی ثناء اللہ پانی پتی کے حوالہ سے بھی بات یاتو سمجھی نہیں یا پھر کسی اور نے آپ کے یہ پٹی پڑھا دی ہے۔
میں آپ سے اسی لئے عبارت طلب کر رہا تھا!
آپ نے عبارت پیش کرنے میں بھی غلطی کی ہے! وہ یہ کہ آپ نے تفسیر مظہری کا اردو ترجمہ پیش کیا، جو سید عبد الدائم الجلالی کا تشریحی ترجمہ ہے ! میں آپ کو تفسیر مظہری کی اصل عبارت اور اور آپ کے پیش کردہ سید عبد الدائم الجلای کا رشریحی ترجمہ اور پیر محمد کرم شاہ الازہری کا ترجمہ بھی پیش کرتا ہوں!
(واقعی تم خدا کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی جیسے بندے ہیں اگر تم سچے ہو تو ان کو پکاروں پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کردیں)۔
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ ايها المشركون مِنْ دُونِ اللَّهِ اى تعبدونهم وتسمونهم الهة عِبادٌ أَمْثالُكُمْ اى مخلوقة مملوكة مذللة مسخرة لما أريد منهم قال مقاتل أراد به الملئكة والخطاب مع قوم يعبدون الملئكة والاول أصح فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ انها الهة ويحتمل انهم لما نحتوا الأصنام بصورا لاناسى قال لهم ان منتهى أمرهم ان يكونوا احياء عقلاء أمثالكم فلا يستحقون عبادتكم كما لا يستحقها بعضكم من بعض ثم بين انها دونكم منزلة فقال.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 473 جلد 03 التفسير المظهري - محمد ثناء الله الفاني فتي الحنفي المظهري - دار إحياء التراث العربي، بيروت

إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ یعنی اے مشرکو اللہ کے سوا تم جن کی عبادت کرتے اور ان کو معبود کہتے ہو۔ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ تمہاری طرح بندے ہیں یعنی مخلوق ہیں اللہ کے مملوک اور تابع ارادہ ہیں۔ مقاتل نے کہا خطاب کا رخ ان لوگوں کی طرف ہے جو فرشتوں کو پوچا کرتے تھے اس لئے، الَّذِينَ تَدْعُونَ سے مراد ملائکہ ہیں اور اول تفسیر زیادہ صحیح ہے۔ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ اگر تم سچے ہو کہ وہ الہ ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مطلب اس طرح ہو کہ چونکہ انسانوں کی شکل کی انہوں مورتیاں بنا رکھی تھیں تو ان سے (گویا) فرمایا کہ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ یہ تمہاری طرح زندہ اور عاقل ہو جائیں اگر ایسا ہو بھی جائے تب بھی وہ تمہاری عبادت کے مستحق نہیں ہوسکتے جس طرح تم میں سے کسی عبادت کا مستحق نہیں ہے اس سے آگے واضح فرمایا کہ وہ تو تم سے کمتر درجہ پر ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 303 جلد 04 تفسیر مظہری مترجم اردو – تشریحی ترجمہ سید عبد الدائم الجلالی – دار الاشاعت، کراچی

(اے کفار) بے شک وہ جنہیں تم پوجتے ہو اللہ کے سوا بندے ہیں تمہاری طرح تو پکارو انہیں پس چاہئے کہ قبول کریں تمہاری بکار اگر تم سچے ہو)
جن کی تم عبادت کرتے ہو اور ان کو خدا کہتے ہو تمہاری طرح مخلوق، مملوک، مطیع اور ارادہ تابع ہیں۔ مقاتل فرماتے ہیں عباد سے مراد فرشتے ہیں اور اس قوم کو خطاب ہو رہا ہے جو ملائکہ کی عبادت کرتی تھی۔ پہلا قول اصح ہے۔ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ اگر تم اس عقیدہ میں سچے ہو کہ یہ خدا ہیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ جب انہوں نے انسانوں کی شکل میں بت گھڑ لئے تو فرمایا ان مورتیوں کی انتہا تمہارے خیال کے مطابق ہی ہوگی کہ یہ تمہاری طرح زندہ اور عقل رکھتے ہیں اگر یہ بھی مان لیا جائے تو یہ بے بس مورتیاں کیسے عبادت کی مستحق ہو سکتی ہیں؟ تم بھی زندہ اور عقل والے ہو تم ایک دوسرے کی عبادت کے مستحق نہیں تو یہ کیسے ہوں گی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 521 جلد 03 تفسیر مظہری مترجم اردو – مترجم پیر محمد کرم شاہ الازہری – دار الاشاعت، کراچی

آئیے اب ہم آپ کو بتلائیں کہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے درحقیقت کہا کیا ہے!
قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اس آیت کی دو تفسیر بیان کی ہے، پہلی جسے انہوں سے اصح یعنی راجح قرار دیا ہے، وہ یہ ہے:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ ايها المشركون مِنْ دُونِ اللَّهِ اى تعبدونهم وتسمونهم الهة عِبادٌ أَمْثالُكُمْ اى مخلوقة مملوكة مذللة مسخرة لما أريد منهم............ والاول أصح
جن کی تم عبادت کرتے ہو اور ان کو خدا کہتے ہو تمہاری طرح مخلوق، مملوک، مطیع اور ارادہ تابع ہیں۔۔۔۔۔۔۔ پہلا قول اصح ہے۔
دوسری تفسیر قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے جو بیان کی ہے مرجوح قرار دیا ہے وہ یہ ہے:
قال مقاتل أراد به الملئكة والخطاب مع قوم يعبدون الملئكة
مقاتل فرماتے ہیں عباد سے مراد فرشتے ہیں اور اس قوم کو خطاب ہو رہا ہے جو ملائکہ کی عبادت کرتی تھی۔
نوٹ: ویسے آپ اس مقاتل کے بارے میں کچھ جانتے بھی ہیں؟
اب ایک بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ کہ دوسری تفسیر سے پہلی تفسیر جو کہ اصح ہے کو ترک نہیں کیا جاسکتا، یعنی کہ جو عموم پہلی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے اس کو دوسری تفسیر سے خاص نہیں کیا جاسکتا، وگرنہ اسے اصح قرار دینا عبث ہو جائے گا! لہٰذا دوسری تفسیر پہلی تفسیر کے تابع تو ہو سکتی ہے، مگر پہلی تفسیر کے عموم کی نفی نہیں کرسکتی!
پھر قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے دوسری تفسیر کے حوالے سے ایک احتمال بیان کیا ہے کہ یہ ایک احتمال ہے کہ:
ويحتمل انهم لما نحتوا الأصنام بصورا لاناسى قال لهم ان منتهى أمرهم ان يكونوا احياء عقلاء أمثالكم
یہ بھی احتمال ہے کہ جب انہوں نے انسانوں کی شکل میں بت گھڑ لئے تو فرمایا ان مورتیوں کی انتہا تمہارے خیال کے مطابق ہی ہوگی کہ یہ تمہاری طرح زندہ اور عقل رکھتے ہیں
اب اس احتمال سے تو قرآن کے آیت کے عموم میں تخصیص ہو نہیں سکتی! بلکہ اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ یہ احتمال بھی اس عموم میں داخل ہے!
اور پھر قاضی ثناء اللہ پانی پاتی نے اس احتمال کے درست ہونے کی سورت میں بھی پہلی تفسیر کا اثبات ثابت کیا ہے؛ قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں:
أمثالكم فلا يستحقون عبادتكم كما لا يستحقها بعضكم من بعض ثم بين انها دونكم منزلة فقال.
اگر یہ بھی مان لیا جائے تو یہ بے بس مورتیاں کیسے عبادت کی مستحق ہو سکتی ہیں؟ تم بھی زندہ اور عقل والے ہو تم ایک دوسرے کی عبادت کے مستحق نہیں تو یہ کیسے ہوں گی۔
قادری رانا صاحب! کچھ سمجھ آیا اب؟

(جاری ہے)
لمبی چوڑی بحثیں بعد میں کیجئے گا۔
میری پوسٹ میں کیا گیا چیلنج ابھی تک قائم ہے، ایک صاحب نے اپنی سی کوشش کی، مگر بے سود۔
قادری رانا صاحب کو دیا گیا جواب مجھے جواب نہیں ہے۔ آپکی اور انکی بحث ہی کچھ اور ہو رہی ہے۔۔
میرے سوالوں اور چیلنج کا جواب دیں، ایسے جان نہیں چھوٹنے والی۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ابھی آپ آرام سے بغور قادری رانا کی اور میری گفتگو ملاحظہ فرمائیں!
 
Top