السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کہ ابو جہل کے پیروکاروں نے قرآن حدیث کو رد کر دینا ہے!
یہ سوال بھی اپنے سوال نامہ میں شامل کر ہی دیتے! آپ کو بعد میں یاد آیا ہے کوئی بات نہیں، آپ کے اس اکتیسویں سوال کا جواب بھی دیا جائے گا!
ذرا دھیرج رکھئے! قادری رانا صاحب سے گفتگو کو بغور مطالعہ فرمائیے گا!
اس آیت کو آپ نے ''بتوں'' کے ساتھ منحصر کیسے کردیا؟ بھائی جان میں نے اسی لئے آپ کے احمد رضا خان بریلوی کا ترجمہ پیش کیا تھا۔
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ ﴿سورة الأعراف 194- 195﴾
بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو، ﴿﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤ چلو اور مجھے مہلت نہ دو (ترجمہ : احمد رضا خان بریلوی)
احمد رضا خان نے
''تمہاری طرح بندے'' لکھا ہے۔ اور احمد رضا خان کا یہ ترجمہ بالکل درست ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو نازل کئے ہیں وہ
﴿عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ﴾ لہٰذا اس آیت میں ما فوق الاسباب پکار یعنی کہ عبادت (پوجا) کو بتوں کے ساتھ منحصر نہیں کیا جاسکتا!
اور اس پکار کو ما فوق الاسباب کے ساتھ مقید کرنے کی دلیل اسی آیت میں موجود ہے،
﴿أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں۔
ویسے پکار کے عبادت ہونے کے لئے ما فوق الاسباب ہونے کے تقید کے قرآن و سنت میں یوں تو اور بھی دلائل ہیں، مگر یہی دلیل کفایت کرتی ہے!
قادری رانا بھائی! ہم نے دلیل کے ساتھ اپنا مؤقف بیان کر دیا آپ کہتے کہ اپنے عقیدے کو واضح کرتے!
اور کیا بیان و وضاحت ہوتی ہے؟ہم نے اپنا مؤقف قران کی آیت پیش کر رکے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے ما فوق الاسباب مدد طلب کرنا و پکار غیر اللہ کی عبادت ہے اور یہ شرک ہے! اور کس چیز کا نام بیان اور وضاحت ہوتا ہے؟
اور ہم پہلے ہی بیان کردیا تھا، اقتباس دوبارہ پیش کیا جارہا ، بغور مطالعہ فرمائیں:
ہم بھی دیکھیں گے کہ آپ کیا جواب دیتے ہیں!
آپ کے مزید دو باتیں کشید کرنا تو ہمیں پہلے ہی اندازہ تھا، اس لئے ہم نے پہلے ہی اس کا بندوبست بھی کردیا تھا! ابھی اس یہ بات بھی واضح ہو جائے گی! ان شاء اللہ!
ما فوق الاسباب سے مراد ما فوق الاسباب ہے! ما فوق الاسباب سے مراد ما تحت الاسباب نہیں!
قادری رانا بھائی! جب ہم نے ما فوق الاسباب کا ذکر کیا ہے ، تو اس میں تمام میسر اسباب شامل ہیں! خواہ عادیہ ہوں یا غیر عادیہ!
نوٹ: قادری رانا بھائی! اس اسکو ل کا میں پرنسپل ہوں!
قادری رانا بھائی! ڈاکٹر کا گولی دینا تحت الاسباب ہے، بلکل اس سے شفا کاحصول ہونا بھی تحت الاسباب، اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً ".
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو ۔
صحيح البخاري » كِتَاب الطِّبِّ » باب مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، وَأَبُو الطَّاهِرِ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، قَالُوا : حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ قَال : " لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ فَإِذَا أُصِيبَ دَوَاءُ الدَّاءِ بَرَأَ بِإِذْنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ".
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بیماری کی دوا ہے جب بیمار کی دوا پہنچ جاتی ہے تو اللہ کے حکم سے وہ بیماری دور ہو جاتی ہے۔
صحيح مسلم » كِتَاب السَّلَامِ » بَاب لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ وَاسْتِحْبَابِ التَّدَاوِي
جبکہ کسی ''ولی'' کا محض ''ہاتھ پھیرنا'' کوئی سبب نہیں! البتہ ہاتھ پھیر کر دعا اور دم کرنا ما فوق الاسباب اللہ کو پکارنا ہے!
اس میں بھی شرعی تقاضوں کو مدّنظر رکھنا لازم ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاقُ : أَخْبَرَنَا وقَالَ زُهَيْرٌ : وَاللَّفْظُ لَهُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قالت : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَكَى مِنَّا إِنْسَانٌ مَسَحَهُ بِيَمِينِهِ ، ثُمَّ قَالَ : " أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا " ، فَلَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَقُلَ أَخَذْتُ بِيَدِهِ لِأَصْنَعَ بِهِ نَحْوَ مَا كَانَ يَصْنَعُ ، فَانْتَزَعَ يَدَهُ مِنْ يَدِي ، ثُمَّ قَالَ : " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَاجْعَلْنِي مَعَ الرَّفِيقِ الْأَعْلَى " ، قَالَتْ : فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ قَدْ قَضَى.
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ہم میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تو
رسول اللہ اس پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے پھر فرماتے تکلیف کو دور کر دے اے لوگوں کے پروردگار شفاء دے تو ہی شفا دینے والا ہے تیری شفاء کے علاوہ کوئی شفا نہیں ہے ایسی شفا دینے والا ہے تیری شفا کہ کوئی بیماری باقی نہ رہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور بیماری شدید ہوگئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا تاکہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے اسی طرح کروں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے کھینچ لیا پھر فرمایا اے اللہ میری مغفرت فرما اور مجھے رفیق اعلی کے ساتھ کر دے سیدہ فرماتی ہیں میں نے آپ کی طرف دیکھنا شروع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے تھے۔
صحيح مسلم » كِتَاب السَّلَامِ » بَاب اسْتِحْبَابِ رُقْيَةِ الْمَرِيضِ
قادری بھائی جان! آپ نے یہ موضوع سے باہر کی ایک بات بحث میں داخل کی ہے۔کیونکہ ابھی بات ہے استمداد بغیر اللہ کے حوالے سے!
قادری رانا بھائی! ان باتوں کی عبارت آپ ضرور پیش کیا کیجئے وہ بھی مع حوالہ؛
آپ عبارت پیش کریں اور اس عبارت سےموسی علیہ السلام کی ما فوق الاسباب استمداد بغیر اللہ دکھلائیں!
ایک بار پھر وہی عرض کروں گا کہ:
قادری بھائی جان! آپ نے یہ موضوع سے باہر کی ایک بات بحث میں داخل کی ہے۔کیونکہ ابھی بات ہے استمداد بغیر اللہ کے حوالے سے!
قادری رانا بھائی! ان باتوں کی عبارت آپ ضرور پیش کیا کیجئے وہ بھی مع حوالہ؛
آپ عبارت پیش کریں اور اس عبارت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ما فوق الاسباب استمداد بغیر اللہ دکھلائیں!
ایک بار پھر وہی عرض کروں گا کہ:
قادری بھائی جان! آپ نے یہ موضوع سے باہر کی ایک بات بحث میں داخل کی ہے۔کیونکہ ابھی بات ہے استمداد بغیر اللہ کے حوالے سے!
قادری رانا بھائی! ان باتوں کی عبارت آپ ضرور پیش کیا کیجئے وہ بھی مع حوالہ؛
آپ عبارت پیش کریں اور اس عبارت سےعیسیٰ علیہ السلام کی ما فوق الاسباب استمداد بغیر اللہ دکھلائیں!
بھائی جان ہم نے ما فوق الاسباب استمداد بغیر اللہ کو شرک کہا ہے، اور اس پر قرآن کی صریح دلیل پیش کی ہے! آپ پہلے انبیاء علیہ السلام سے ما فوق الاسباب استمداد بغیر اللہ ثابت تو کیجئے!
دیکھتے ہیں، آپ انبیاء علیہ السلام سے مافوق الاسباب استمداد بغیر اللہ ثابت کرنے کے لئے ان باتوں کی کون سی عبارت پیش کرتے ہیں!
جوابات کے ہم بھی منتظر ہیں!
اول تو یہ بتائیے کہ کیا بتوں اور مشرکوں اور کفار کے اعتقاد و افعال بیان کرنے والی آیات منسوخ ہیں؟ کہ ان سے استدلال نہیں کیا جا سکتا! جو فعل شرک کا ہے وہ مشرکین کا فعل ہی قرآن میں ذکر ہے، اسی طرح کفر کا بھی!
اب انبیاء علیہ السلام کے اعتقاد و افعال تو کفر و شرک نہیں!
دوم میں یاد دہانی کے لئے پہلے کیا گیا بیان دوبارہ پیش کرتا ہوں:
اس آیت کو آپ نے'' بتوں'' کے ساتھ منحصر کیسے کردیا؟ بھائی جان میں نے اسی لئے آپ کے احمد رضا خان بریلوی کا ترجمہ پیش کیا تھا۔
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ ﴿سورة الأعراف 194- 195﴾
بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو، ﴿﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤ چلو اور مجھے مہلت نہ دو (ترجمہ : احمد رضا خان بریلوی)
احمد رضا خان نے
''تمہاری طرح بندے'' لکھا ہے۔ اور احمد رضا خان کا یہ ترجمہ بالکل درست ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو نازل کئے ہیں وہ
﴿عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ﴾ لہٰذا اس آیت میں ما فوق الاسباب پکار یعنی کہ عبادت (پوجا) کو بتوں کے ساتھ منحصر نہیں کیا جاسکتا!
﴿أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں
اور اس پکار کو ما فوق الاسباب کے ساتھ مقید کرنے کی دلیل اسی آیت میں موجود ہے،
﴿أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں۔
ویسے پکار کے عبادت ہونے کے لئے ما فوق الاسباب ہونے کے تقید کے قرآن و سنت میں یوں تو اور بھی دلائل ہیں، مگر یہی دلیل کفایت کرتی ہے!
قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی، المظہری الحنفی (متوفی 1225ھ)
قادری رانا بھائی! اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں! کہ ہم پر یعنی کہ اہل الحدیث پر اہل الرائے کی تفسیر و شرح و اقوال سے حجت قائم نہیں کی جا سکتی! ہم تو اہل الرائے پر ان کے علماء کی تفسیر و شرح و اقوال سے بطور دلائل خصم دلیل و حجت قائم کر نے کے مجاز ہیں! آپ بلکل اپنے مؤقف کے بیان میں اپنے ان اہل الرائے کی تفسیر و شرح و اقوال کو پیش کر سکتے ہو! لیکن ان سے ہم پر اعتراض قائم نہیں کرسکتے!
جس طرح ہم شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ یا دیگر اہل الحدیث علماء کی تفسیر و شرح و اقوال سے آپ پر حجت قائم نہیں کر سکتے! ہاں اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے ان کی تفسیر و شرح و اقوال بیان کرسکتے ہیں ، اور کرتے ہیں!
باقی وہ فقہاء و علماء ہیں جو متفق علیہ ہیں! اگر میری طرف سے پیش کردہ مفسر و شارح و فقیہ آپ کے لئے معتبر نہ ہو تو بالکل آپ یہ فرما دیں کہ یہ آپ کے نزدیک معتبر نہیں!
مثلاً امام الذہبی و امام ابن کثیر رحمہ اللہ عنہما! گو کہ یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں ، لیکن آپ کے ہاں بھی معتبر ہیں قرار پائیں ہیں!
دوم کہ آپ نے قاضی ثناء اللہ پانی پتی کے حوالہ سے بھی بات یاتو سمجھی نہیں یا پھر کسی اور نے آپ کے یہ پٹی پڑھا دی ہے۔
میں آپ سے اسی لئے عبارت طلب کر رہا تھا!
آپ نے عبارت پیش کرنے میں بھی غلطی کی ہے! وہ یہ کہ آپ نے تفسیر مظہری کا اردو ترجمہ پیش کیا، جو سید عبد الدائم الجلالی کا تشریحی ترجمہ ہے ! میں آپ کو تفسیر مظہری کی اصل عبارت اور اور آپ کے پیش کردہ سید عبد الدائم الجلای کا رشریحی ترجمہ اور پیر محمد کرم شاہ الازہری کا ترجمہ بھی پیش کرتا ہوں!
(واقعی تم خدا کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی جیسے بندے ہیں اگر تم سچے ہو تو ان کو پکاروں پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کردیں)۔
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ ايها المشركون مِنْ دُونِ اللَّهِ اى تعبدونهم وتسمونهم الهة عِبادٌ أَمْثالُكُمْ اى مخلوقة مملوكة مذللة مسخرة لما أريد منهم قال مقاتل أراد به الملئكة والخطاب مع قوم يعبدون الملئكة والاول أصح فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ انها الهة ويحتمل انهم لما نحتوا الأصنام بصورا لاناسى قال لهم ان منتهى أمرهم ان يكونوا احياء عقلاء أمثالكم فلا يستحقون عبادتكم كما لا يستحقها بعضكم من بعض ثم بين انها دونكم منزلة فقال.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 473 جلد 03 التفسير المظهري - محمد ثناء الله الفاني فتي الحنفي المظهري - دار إحياء التراث العربي، بيروت
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ یعنی اے مشرکو اللہ کے سوا تم جن کی عبادت کرتے اور ان کو معبود کہتے ہو۔
عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ تمہاری طرح بندے ہیں یعنی مخلوق ہیں اللہ کے مملوک اور تابع ارادہ ہیں۔ مقاتل نے کہا خطاب کا رخ ان لوگوں کی طرف ہے جو فرشتوں کو پوچا کرتے تھے اس لئے،
الَّذِينَ تَدْعُونَ سے مراد ملائکہ ہیں
اور اول تفسیر زیادہ صحیح ہے۔
إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ اگر تم سچے ہو کہ وہ الہ ہیں۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مطلب اس طرح ہو کہ چونکہ انسانوں کی شکل کی انہوں مورتیاں بنا رکھی تھیں تو ان سے (گویا) فرمایا کہ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ یہ تمہاری طرح زندہ اور عاقل ہو جائیں
اگر ایسا ہو بھی جائے تب بھی وہ تمہاری عبادت کے مستحق نہیں ہوسکتے جس طرح تم میں سے کسی عبادت کا مستحق نہیں ہے اس سے آگے واضح فرمایا کہ وہ تو تم سے کمتر درجہ پر ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 303 جلد 04 تفسیر مظہری مترجم اردو – تشریحی ترجمہ سید عبد الدائم الجلالی – دار الاشاعت، کراچی
(اے کفار) بے شک وہ جنہیں تم پوجتے ہو اللہ کے سوا بندے ہیں تمہاری طرح تو پکارو انہیں پس چاہئے کہ قبول کریں تمہاری بکار اگر تم سچے ہو)
جن کی تم عبادت کرتے ہو اور ان کو خدا کہتے ہو تمہاری طرح مخلوق، مملوک، مطیع اور ارادہ تابع ہیں۔ مقاتل فرماتے ہیں عباد سے مراد فرشتے ہیں اور اس قوم کو خطاب ہو رہا ہے جو ملائکہ کی عبادت کرتی تھی۔
پہلا قول اصح ہے۔
إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ اگر تم اس عقیدہ میں سچے ہو کہ یہ خدا ہیں۔
یہ بھی احتمال ہے کہ جب انہوں نے انسانوں کی شکل میں بت گھڑ لئے تو فرمایا ان مورتیوں کی انتہا تمہارے خیال کے مطابق ہی ہوگی کہ یہ تمہاری طرح زندہ اور عقل رکھتے ہیں
اگر یہ بھی مان لیا جائے تو یہ بے بس مورتیاں کیسے عبادت کی مستحق ہو سکتی ہیں؟ تم بھی زندہ اور عقل والے ہو تم ایک دوسرے کی عبادت کے مستحق نہیں تو یہ کیسے ہوں گی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 521 جلد 03 تفسیر مظہری مترجم اردو – مترجم پیر محمد کرم شاہ الازہری – دار الاشاعت، کراچی
آئیے اب ہم آپ کو بتلائیں کہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے درحقیقت کہا کیا ہے!
قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اس آیت کی دو تفسیر بیان کی ہے، پہلی جسے انہوں سے اصح یعنی راجح قرار دیا ہے، وہ یہ ہے:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ ايها المشركون مِنْ دُونِ اللَّهِ اى تعبدونهم وتسمونهم الهة عِبادٌ أَمْثالُكُمْ اى مخلوقة مملوكة مذللة مسخرة لما أريد منهم............ والاول أصح
جن کی تم عبادت کرتے ہو اور ان کو خدا کہتے ہو تمہاری طرح مخلوق، مملوک، مطیع اور ارادہ تابع ہیں۔۔۔۔۔۔۔
پہلا قول اصح ہے۔
دوسری تفسیر قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے جو بیان کی ہے مرجوح قرار دیا ہے وہ یہ ہے:
قال مقاتل أراد به الملئكة والخطاب مع قوم يعبدون الملئكة
مقاتل فرماتے ہیں عباد سے مراد فرشتے ہیں اور اس قوم کو خطاب ہو رہا ہے جو ملائکہ کی عبادت کرتی تھی۔
نوٹ: ویسے آپ اس مقاتل کے بارے میں کچھ جانتے بھی ہیں؟
اب ایک بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ کہ دوسری تفسیر سے پہلی تفسیر جو کہ اصح ہے کو ترک نہیں کیا جاسکتا، یعنی کہ جو عموم پہلی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے اس کو دوسری تفسیر سے خاص نہیں کیا جاسکتا، وگرنہ اسے اصح قرار دینا عبث ہو جائے گا! لہٰذا دوسری تفسیر پہلی تفسیر کے تابع تو ہو سکتی ہے، مگر پہلی تفسیر کے عموم کی نفی نہیں کرسکتی!
پھر قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے دوسری تفسیر کے حوالے سے ایک احتمال بیان کیا ہے کہ یہ ایک احتمال ہے کہ:
ويحتمل انهم لما نحتوا الأصنام بصورا لاناسى قال لهم ان منتهى أمرهم ان يكونوا احياء عقلاء أمثالكم
یہ بھی احتمال ہے کہ جب انہوں نے انسانوں کی شکل میں بت گھڑ لئے تو فرمایا ان مورتیوں کی انتہا تمہارے خیال کے مطابق ہی ہوگی کہ یہ تمہاری طرح زندہ اور عقل رکھتے ہیں
اب اس احتمال سے تو قرآن کے آیت کے عموم میں تخصیص ہو نہیں سکتی! بلکہ اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ یہ احتمال بھی اس عموم میں داخل ہے!
اور پھر قاضی ثناء اللہ پانی پاتی نے اس احتمال کے درست ہونے کی سورت میں بھی پہلی تفسیر کا اثبات ثابت کیا ہے؛ قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں:
أمثالكم فلا يستحقون عبادتكم كما لا يستحقها بعضكم من بعض ثم بين انها دونكم منزلة فقال.
اگر یہ بھی مان لیا جائے تو یہ بے بس مورتیاں کیسے عبادت کی مستحق ہو سکتی ہیں؟ تم بھی زندہ اور عقل والے ہو تم ایک دوسرے کی عبادت کے مستحق نہیں تو یہ کیسے ہوں گی۔
قادری رانا صاحب! کچھ سمجھ آیا اب؟
(جاری ہے)