Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
سوال نمبر1 ۔
قرآن مجید کی جو 114 سورتیں ہیں ان سورتوں کے نام کس نے رکھے ہیں کیا قرآن نے خود ان سورتوں کے نام رکھے ہیں؟ اگر یہ نام قرآن نے رکھے ہیں تو کس پارے میں یہ نام موجود ہیں؟ یا یہ نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھے ہیں؟ اگر یہ نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھے ہیں تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اختیار تھا کہ اللہ نے بغیر نام کے سورتوں کو نازل کیا اور آپ نے اُن کے نام رکھ دیئے؟ یا پھر اللہ کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھے ہیں؟
سوال نمبر2۔
قرآن مجید میں 15 مقامات پر (آیت سجدہ پڑھ کر) سجدہ کرنے کا حکم ہے کیا یہ حکم قرآن میں موجود ہے یا یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے؟
سوال نمبر3۔
قرآن مجید کی ہر سورت کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتی ہے سوائے سورئہ توبہ کے۔ سورۃ انفال اور سورئہ توبہ کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں ہے۔ یہ کس نے بتایا کہ اب سورۃ توبہ شروع ہو گئی؟ یہ بات قرآن میں موجود ہے یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ سورۃ انفال کے بعد بغیر بسم اللہ الرحمن الرحیم کے سورئہ توبہ شروع ہوتی ہے۔ تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد دین ثابت نہیں ہوتا؟
سوال نمبر4 ۔
کیا قرآن نے حروف مقطعات کے معنی بیان کئے ہیں؟ اگر کئے ہیں تو کس سورت میں بیان کئے ہیں؟ اور اگر قرآن اس پر خاموش ہے تو کیا قرآن نے اس کی وجہ بتائی ہے؟
سوال نمبر5۔
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیٰۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلِھَااَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اﷲَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (سورئہ بقرہ:106)
ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے یا اس کو فراموش کرا دیتے ہیں تو اُس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت لے آتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے؟قرآن مجید کی جو 114 سورتیں ہیں ان سورتوں کے نام کس نے رکھے ہیں کیا قرآن نے خود ان سورتوں کے نام رکھے ہیں؟ اگر یہ نام قرآن نے رکھے ہیں تو کس پارے میں یہ نام موجود ہیں؟ یا یہ نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھے ہیں؟ اگر یہ نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھے ہیں تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اختیار تھا کہ اللہ نے بغیر نام کے سورتوں کو نازل کیا اور آپ نے اُن کے نام رکھ دیئے؟ یا پھر اللہ کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھے ہیں؟
سوال نمبر2۔
قرآن مجید میں 15 مقامات پر (آیت سجدہ پڑھ کر) سجدہ کرنے کا حکم ہے کیا یہ حکم قرآن میں موجود ہے یا یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے؟
سوال نمبر3۔
قرآن مجید کی ہر سورت کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتی ہے سوائے سورئہ توبہ کے۔ سورۃ انفال اور سورئہ توبہ کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں ہے۔ یہ کس نے بتایا کہ اب سورۃ توبہ شروع ہو گئی؟ یہ بات قرآن میں موجود ہے یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ سورۃ انفال کے بعد بغیر بسم اللہ الرحمن الرحیم کے سورئہ توبہ شروع ہوتی ہے۔ تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد دین ثابت نہیں ہوتا؟
سوال نمبر4 ۔
کیا قرآن نے حروف مقطعات کے معنی بیان کئے ہیں؟ اگر کئے ہیں تو کس سورت میں بیان کئے ہیں؟ اور اگر قرآن اس پر خاموش ہے تو کیا قرآن نے اس کی وجہ بتائی ہے؟
سوال نمبر5۔
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیٰۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلِھَااَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اﷲَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (سورئہ بقرہ:106)
اس آیت قرآنی میں اللہ نے بتایا ہے کہ ہم جس آیت کو چاہیں منسوخ کر دیں۔ کیا قرآنی آیات منسوخ بھی ہوتی ہیں؟ آیات کی منسوخی کے لئے کوئی آیت نازل ہوئی ہے کہ فلاں آیت اب منسوخ ہے یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ فلاں آیت اب منسوخ ہے؟ اگر احادیث سے پتہ چلا کہ فلاں آیت منسوخ ہے تو پھر یقینا یہ کہنا پڑے گا اور ماننا پڑے گا کہ جس طرح قرآن حجت اور دین ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد دین اور حجت ہے۔
سوال نمبر6۔
وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِنَّہٗ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ وَ مَا اﷲُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ لِئَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃٌ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِیْ وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ (بقرہ 149۔ 150)
اور تم جہاں سے نکلو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیا کرو بلاشبہ وہ تمہارے رب کی طرف سے حق ہے اور تم لوگ جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ اور تم جہاں سے نکلو مسجد محترم کی طرف منہ کرو اور مسلمانو تم جہاں ہوا کرو اسی (مسجد) کی طرف رخ کیا کرو (یہ تاکید) اس لئے (کی گئی ہے) کہ لوگ تمہیں کسی طرح کا الزام نہ دے سکیں مگر اُن میں سے جو ظالم ہیں (وہ الزام دیں تو دیں) سو اُن سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تمہیں اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہِ راست پر چلو ۔
اِن آیات میں قرآن کریم نے یہ حکم دیا ہے کہ ہم جب بھی جہاں پر بھی ہوں ہر حال میں ہر وقت اپنے چہرے مسجد الحرام کی طرف کر لیں۔ بتائیں اس آیت پر عمل کیسے ہو گا؟ دنیا میں کون ہے جو اس حکم پر عمل کر سکے؟ جب تک احادیث کو تسلیم نہیں کیا جائے گا جب تک اس حکم پر عمل ممکن ہی نہیں۔ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حکم صرف حالت نماز کیلئے ہے۔ اب بتائیے کیا احادیث دین نہیں؟
سوال نمبر7۔
اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اﷲُ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَ اتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ
حج کے مہینے (معیّن ہیں جو) معلوم ہیں تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کر لے تو حج (کے دنوں) میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی بُرا کام کرے نہ کسی سے جھگڑے اور جو نیک کام تم کرو گے اس کو اللہ جانتا ہے اور زادِ راہ (یعنی رستے کا خرچ) ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہتر (فائدہ) زادِ راہ (کا) پرہیز گاری ہے اور اے اہل عقل مجھ سے ڈرتے رہو ۔ (سورئہ بقرہ آیت نمبر197)۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حج کے مہینے معلوم ہیں۔ اشھر جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جو کہ کم از کم 3 کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اب آپ قرآن سے بتائیے کہ حج کے کون کون سے مہینے ہیں؟ یا پھر اس آیت کو سمجھنے کے لئے بھی حدیث کی ضرورت ہے؟ تو پھر ماننا پڑے گا کہ احادیث بھی قرآن کی طرح دین کا حصہ ہیں۔
سوال نمبر8۔
وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّ عَشْرًا فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْ اَنْفُسِھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اﷲُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ (سورئہ بقرہ آیت نمبر234)۔
اور جولوگ تم میں سے مر جائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں تو عورتیں ’’چار مہینے اور دس‘‘ اپنے آپ کو روکے رہیں اور جب (یہ) عدت پوری کر چکیں تو اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح) کر لیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے ۔
اس آیت میں اللہ رب العزت نے بتایا کہ جو عورتیں ایام عدت میں ہوں یعنی جن کے شوہر انتقال کر جائیں وہ 4 مہینے اور دس … انتظار کریں۔ اب قرآن سے بتائیے کہ یہ دس کیا ہیں؟ چار مہینے اور دس دن؟ چار مہینے اور دس ہفتے؟ چار مہینے اور دس عشرے؟ چار مہینے اور دس سال؟ کیا قرآن نے اس کی وضاحت کی ہے؟۔
سوال نمبر9۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلاً (سورۃ النساء آیت نمبر59)۔
مومنو! اللہ اور اُس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب ِ حکومت ہیں اُن کی بھی۔ پھر اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اُس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کاانجام بھی اچھا ہیـ ۔
قرآن نے کہا: اگر تمہارے درمیان اختلاف ہو جائے تو اگر تم اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرو۔
اب ہم اس آیت پر عمل کیسے کریں کہ اپنے اختلافات کے حل کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کریں؟ اللہ کی طرف رجوع کا مطلب قرآن کی طرف رجوع ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کا مطلب کیا احادیث کی طرف رجوع نہیں؟ ثابت ہوا کہ حدیث بھی قرآن کی طرح حجت ہے۔
سوال نمبر 10۔
وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ
اور (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) ہم نے تم کو تمام لوگوں کیلئے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا نِالَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَآ اِٰلہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاﷲِ وَ رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاﷲِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ (سورئہ اعراف:158)۔
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) کہہ دو کہ لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے اُس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگی بخشتا اور وہی موت دیتا ہے تو اللہ پر اور اُس کے رسول پیغمبر اُمّی پر، جو اللہ پر اور اُس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان لاؤ اور اُن کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاؤ ۔
ان دونوں آیات سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔ پہلے کسی نبی کو کسی خاص بستی کی طرف، کسی شہر کی طرف یا کسی قوم کی طرف بھیجا جاتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انسانیت کے لئے رسول بنا کر بھیجا اب قیامت تک کوئی اور نیا رسول نہیں آئے گا بلکہ تمام لوگوں کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول ہیں۔ تو کیا رسول ماننے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کی لائی ہوئی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چلا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے اور طریقے کے لئے کیا احادیث کی ضرورت ہو گی؟ یقینا ہو گی۔ پھر ماننا پڑے گا کہ احادیث پر عمل کرنا لازمی اور ضروری ہے۔
سوال نمبر11۔
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
تمہارے رب کی قسم! یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کر دو اُس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اُس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے (النسائ:۶۵)(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) کہہ دو کہ لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے اُس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگی بخشتا اور وہی موت دیتا ہے تو اللہ پر اور اُس کے رسول پیغمبر اُمّی پر، جو اللہ پر اور اُس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان لاؤ اور اُن کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاؤ ۔
ان دونوں آیات سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔ پہلے کسی نبی کو کسی خاص بستی کی طرف، کسی شہر کی طرف یا کسی قوم کی طرف بھیجا جاتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انسانیت کے لئے رسول بنا کر بھیجا اب قیامت تک کوئی اور نیا رسول نہیں آئے گا بلکہ تمام لوگوں کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول ہیں۔ تو کیا رسول ماننے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کی لائی ہوئی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چلا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے اور طریقے کے لئے کیا احادیث کی ضرورت ہو گی؟ یقینا ہو گی۔ پھر ماننا پڑے گا کہ احادیث پر عمل کرنا لازمی اور ضروری ہے۔
سوال نمبر11۔
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو دل سے تسلیم نہ کرے اور آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لے وہ مومن نہیں۔ اب بتائیں اللہ قسم کھا کر اس بات کی نفی کر رہا کہ وہ مومن نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لے اور آپ کے فیصلے پر دل سے راضی نہ ہو جائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ کہاں ملے گا؟ احادیث میں ملے گا۔ اس آیت کی روشنی میں بھی ہم کو ماننا پڑے گا کہ احادیث دین ہیں۔
سوال نمبر12۔
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ وَ مَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا (سورۃ النسائ:80)۔
اللہ رب العزت نے فرمایا: جس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی اُس نے اللہ کی پیروی کی۔ اب بتائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہم کس طرح کریں گے؟ یقینا احادیث کے ذریعے۔ تو مان لیں کہ احادیث دین کا لازمی جز ہیں۔
سوال نمبر13۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ وَ اِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا وَ اِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ مَا یُرِیْدُ اﷲُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ ٰلکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (سورئہ مائدہ:6)۔
مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تو منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں (دھو لیا کرو) اور اگرنہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء میں سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہمبستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اُس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (یعنی تیمم) کر لو اللہ تعالیٰ تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے چہرے دھو لو اپنے ہاتھ دھو لو اور اپنے پاؤں دھو لو اور سر پر مسح کر لو (یعنی وضو کر لو)(کیا آپ اسی ترتیب سے وضو کرتے ہیں کہ پہلے منہ دھویا پھر ہاتھ دھوئے وغیرہ)۔اب ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا وضو توڑنے والی بھی کوئی چیز یا کوئی عمل ہے جو قرآن سے ثابت ہو؟ یا صرف ایک بار ہی وضو کر لینا کافی ہے؟۔ قرآن سے جواب دیں۔
سوال نمبر14۔
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اﷲِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر173)۔
اُس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سؤر کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کر دیا ہے۔ ہاں جو ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) اللہ کی نافرمانی نہ کرے اور حد (ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے اُس پر کچھ گناہ نہیں بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرا ہوا جانور، خنزیر، خون اور جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے وہ حرام قرار دیا ہے۔ آج تقریباً سب لوگ مچھلی کھاتے ہیں جو کہ پانی سے نکلنے کے بعد فوراً مر جاتی ہے۔ اگر صرف قرآن ہی حجت ہے تو بتائیے کہ مچھلی حلال ہے یا حرام؟ اگر یہ کہا جائے کہ سمندری جانور حلال ہے تو سمندری جانور جو زندہ ہو وہ حلال ہے یا سمندری مرا ہوا جانور بھی حلال ہے؟ (اور اگر احادیث کو تسلیم کر لیا جائے تو صحیح بخاری سے پتہ چلتا ہے کہ مری ہوئی مچھلی حلال ہے)۔
سوال نمبر15۔
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ (سورئہ بقرہ:۶)۔
بیشک جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے کہ جو لوگ کافر ہیں آپ اُن کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اس آیت کی روشنی میں بتائیں کہ کفار کو ہم نصیحت کریں یا نہ کریں کیا وہ ایمان لائیں گے؟ اگر کوئی کفر کرنے والا مسلم ہونا چاہے تو اس آیت کی روشنی میں ہم اُس کو کیا کہیں؟ یا اس آیت کو سمجھنے کے لئے احادیث کی طرف رجوع کریں؟[/FONT][/COLOR]
سوال نمبر16۔
بیشک جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے کہ جو لوگ کافر ہیں آپ اُن کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اس آیت کی روشنی میں بتائیں کہ کفار کو ہم نصیحت کریں یا نہ کریں کیا وہ ایمان لائیں گے؟ اگر کوئی کفر کرنے والا مسلم ہونا چاہے تو اس آیت کی روشنی میں ہم اُس کو کیا کہیں؟ یا اس آیت کو سمجھنے کے لئے احادیث کی طرف رجوع کریں؟[/FONT][/COLOR]
سوال نمبر16۔
اِنَّ اﷲَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ مَنْ یُّشْرِکْ بِاﷲِ فَقَدِ افْتَرٰٓی اِثْمًا عَظِیْمًا
اللہ تعالیٰ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کر دے اور جس نے اللہ کاشریک مقرر کیا اُس نے بڑا بہتان باندھا۔ (سورۃ النسائ:48)۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا اِرشادِ گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک معاف نہیں کرے گا۔ کیا اس آیت کی روشنی میں مشرک کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ یا اس آیت کو حدیث کی روشنی میں سمجھنا پڑے گا؟
سوال نمبر 17۔
]قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُھِلَّ لِغَیْرِ اﷲِ بِہٖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورئہ انعام :145)۔
کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں میں اُن میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا بجز اسکے کہ وہ مرا ہوا جانور ہو یا بہتا لہو یا سؤر کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اُس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اگر کوئی مجبور ہو جائے لیکن نہ تو نافرمانی کرے اور نہ حد سے باہر نکل جائے تو تمہارا رب بخشنے والا مہربان ہیـ ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ فرما دیجئے کہ میں ان (4) چیزوں کے سوا کسی چیز کو حرام نہیں پاتا۔ اب بتائیں کیاصرف یہ چار چیزیں حرام ہیں اور کتے، بلی، گدھے اور چیل وغیرہ باقی سب حلال ہیں؟ یا اس آیت کو حدیث کی روشنی میں سمجھنا پڑے گا؟
سوال نمبر18۔
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّ ھُمْ صَاغِرُوْنَ (سورئہ توبہ:29)۔
جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روزِ آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ اُن چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دینِ حق کو قبول کرتے ہیں اُن سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اُن لوگوں کو قتل کرو جو اللہ کے حرام کو حرام نہیں مانتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حرام کو حرام نہیں مانتے۔ اللہ کا حرام تو قرآن سے ثابت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حرام کیا ہے؟ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو؟ ماننا پڑے گا کہ احادیث بھی دین ہیں۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا اِرشادِ گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک معاف نہیں کرے گا۔ کیا اس آیت کی روشنی میں مشرک کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ یا اس آیت کو حدیث کی روشنی میں سمجھنا پڑے گا؟
سوال نمبر 17۔
]قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُھِلَّ لِغَیْرِ اﷲِ بِہٖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورئہ انعام :145)۔
کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں میں اُن میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا بجز اسکے کہ وہ مرا ہوا جانور ہو یا بہتا لہو یا سؤر کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اُس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اگر کوئی مجبور ہو جائے لیکن نہ تو نافرمانی کرے اور نہ حد سے باہر نکل جائے تو تمہارا رب بخشنے والا مہربان ہیـ ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ فرما دیجئے کہ میں ان (4) چیزوں کے سوا کسی چیز کو حرام نہیں پاتا۔ اب بتائیں کیاصرف یہ چار چیزیں حرام ہیں اور کتے، بلی، گدھے اور چیل وغیرہ باقی سب حلال ہیں؟ یا اس آیت کو حدیث کی روشنی میں سمجھنا پڑے گا؟
سوال نمبر18۔
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّ ھُمْ صَاغِرُوْنَ (سورئہ توبہ:29)۔
جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روزِ آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ اُن چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دینِ حق کو قبول کرتے ہیں اُن سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اُن لوگوں کو قتل کرو جو اللہ کے حرام کو حرام نہیں مانتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حرام کو حرام نہیں مانتے۔ اللہ کا حرام تو قرآن سے ثابت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حرام کیا ہے؟ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو؟ ماننا پڑے گا کہ احادیث بھی دین ہیں۔
سوال نمبر19۔
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اﷲِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اﷲِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْھَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسَکُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّۃً وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اﷲَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ (سورئہ توبہ: 36)
اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ ہے اس روز سے کہ اُس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، کتابِ الٰہی میں (برس کے بارہ مہینے لکھے ہوئے) اُن میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ یہی دین کا سیدھا رستہ ہے تو ان مہینوں میں (قتالِ ناحق سے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔ اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کیساتھ ہے۔
اس آیت میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب میں مہینوں کی تعداد 12 ہے اور چار حرمت والے مہینے ہیں۔ اب بتائیں کتاب اللہ میں 12 مہینے کون کون سے ہیں؟ اور چار حرمت والے مہینے کون کون سے ہیں؟ نیز کتاب اللہ سے مراد اللہ کی وحی ہے جو کہ قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ مزید فرمایا کہ:
اِنَّمَا النَّسِیْٓئُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُحِلُّوْنَہٗ عَامًا وَّ یُحَرِّمُوْنَہٗ عَامًا لِّیُوَاطِئُوْا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اﷲُ فَیُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اﷲُ زُیِّنَ لَھُمْ سُوْٓئُ اَعْمَالِھِمْ وَ اﷲُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ (سورئہ توبہ:37)
امن کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کر دینا کفر میں اضافہ کرنا ہے اس سے کافرگمراہی میں پڑے رہتے ہیں، ایک سال توا س کو حلال سمجھ لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام، تاکہ ادب کے مہینوں کی گنتی جو اللہ نے مقرر کی ہے پوری کر لیں اور جو اللہ نے منع کیا ہے اس کو جائز کر لیں۔ ان کے بُرے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
مہینوں کا آگے پیچھے کر لینا کفر میں زیادتی ہے۔ تو کیا صرف قرآن سے حرمت والے مہینے ثابت ہیں؟
سوال نمبر20۔
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اٰوٰٓی اِلَیْہِ اَبَوَیْہِ وَ قَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآئَ اﷲُ ٰامِنِیْنَ وَ رَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا وَ قَالَ یٰٓاَبَتِ ھٰذَا تَاْوِیْلُ رُئْیَایَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا وَ قَدْ اَحْسَنَ بِیْٓ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَ جَآئَ بِکُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَتِیْ اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآئُ اِنَّہٗ ھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ
اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور سب یوسف کے آگے سجدے میں گر پڑے (اُس وقت) یوسف نے کہا کہ ابا جان یہ میرے اُس خواب کی تعبیر ہے جومیں نے پہلے (بچپن میں) دیکھا تھا میرے رب نے اُسے سچ کر دیا اور اُس نے مجھ پر (بہت سے) احسانات کئے ہیں کہ مجھے جیل خانے سے نکالا اور اس کے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں فساد ڈال دیا تھا، آپ کو گاؤں سے یہاں لایا۔ بیشک میرا رب جوچاہتا ہے تدبیر سے کرتا ہے۔ وہ دانا (اور) حکمت والا ہے۔(سورئہ یوسف:100-99)۔
اس آیت سے پتہ چلا کہ جناب یعقوب u نے اپنے بیٹے یوسف u کو سجدہ کیا۔ اس آیت کی روشنی میں کوئی شخص اپنے بیٹے کو سجدہ کر سکتا ہے؟ کیا غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز ہے؟ یا ہم احادیث کی روشنی میں اس آیت کو سمجھیں گے؟۔
سوال نمبر21۔ اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ ہے اس روز سے کہ اُس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، کتابِ الٰہی میں (برس کے بارہ مہینے لکھے ہوئے) اُن میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ یہی دین کا سیدھا رستہ ہے تو ان مہینوں میں (قتالِ ناحق سے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔ اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کیساتھ ہے۔
اس آیت میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب میں مہینوں کی تعداد 12 ہے اور چار حرمت والے مہینے ہیں۔ اب بتائیں کتاب اللہ میں 12 مہینے کون کون سے ہیں؟ اور چار حرمت والے مہینے کون کون سے ہیں؟ نیز کتاب اللہ سے مراد اللہ کی وحی ہے جو کہ قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ مزید فرمایا کہ:
اِنَّمَا النَّسِیْٓئُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُحِلُّوْنَہٗ عَامًا وَّ یُحَرِّمُوْنَہٗ عَامًا لِّیُوَاطِئُوْا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اﷲُ فَیُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اﷲُ زُیِّنَ لَھُمْ سُوْٓئُ اَعْمَالِھِمْ وَ اﷲُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ (سورئہ توبہ:37)
امن کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کر دینا کفر میں اضافہ کرنا ہے اس سے کافرگمراہی میں پڑے رہتے ہیں، ایک سال توا س کو حلال سمجھ لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام، تاکہ ادب کے مہینوں کی گنتی جو اللہ نے مقرر کی ہے پوری کر لیں اور جو اللہ نے منع کیا ہے اس کو جائز کر لیں۔ ان کے بُرے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
مہینوں کا آگے پیچھے کر لینا کفر میں زیادتی ہے۔ تو کیا صرف قرآن سے حرمت والے مہینے ثابت ہیں؟
سوال نمبر20۔
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اٰوٰٓی اِلَیْہِ اَبَوَیْہِ وَ قَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآئَ اﷲُ ٰامِنِیْنَ وَ رَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا وَ قَالَ یٰٓاَبَتِ ھٰذَا تَاْوِیْلُ رُئْیَایَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا وَ قَدْ اَحْسَنَ بِیْٓ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَ جَآئَ بِکُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَتِیْ اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآئُ اِنَّہٗ ھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ
اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور سب یوسف کے آگے سجدے میں گر پڑے (اُس وقت) یوسف نے کہا کہ ابا جان یہ میرے اُس خواب کی تعبیر ہے جومیں نے پہلے (بچپن میں) دیکھا تھا میرے رب نے اُسے سچ کر دیا اور اُس نے مجھ پر (بہت سے) احسانات کئے ہیں کہ مجھے جیل خانے سے نکالا اور اس کے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں فساد ڈال دیا تھا، آپ کو گاؤں سے یہاں لایا۔ بیشک میرا رب جوچاہتا ہے تدبیر سے کرتا ہے۔ وہ دانا (اور) حکمت والا ہے۔(سورئہ یوسف:100-99)۔
اس آیت سے پتہ چلا کہ جناب یعقوب u نے اپنے بیٹے یوسف u کو سجدہ کیا۔ اس آیت کی روشنی میں کوئی شخص اپنے بیٹے کو سجدہ کر سکتا ہے؟ کیا غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز ہے؟ یا ہم احادیث کی روشنی میں اس آیت کو سمجھیں گے؟۔
وَ اِذْ قُلْنَا لَکَ اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَۃَ الْمَلْعُوْنَۃَ فِی الْقُرْاٰنِ وَ نُخَوِّفُھُمْ فَمَا یَزِیْدُھُمْ اِلَّا طُغْیَانًا کَبِیْرًا(سورئہ بنی اسرائیل:60)
جب ہم نے تم سے کہا کہ تمہارا رب لو گوں کو احاطہ کیے ہوئے ہے، اور جو نمائش (معراج) ہم نے تمہیں دکھائی اُس کو لوگوں کیلئے آزمائش کیا، اور اسی طرح ایک درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو اُن کو اس سے بڑی (سخت) سر کشی پیدا ہوئی ہے۔
اس آیت میں ایک درخت کا ذکر ہے جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے۔ بتائیں قرآن کی 114 سورتوں میں سے اُس درخت کا نام کس سورت میں ہے جس پر لعنت کی گئی ہے؟ لعنت کے الفاظ کہاں ہیں یا اس آیت کو احادیث کے حوالے سے سمجھیں گے؟
سوال نمبر22۔
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ فَلَا تَکُنْ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْ لِّقَآئِہٖ وَجَعَلْنٰہُ ھُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ (سورئہ الم سجدہ:23)
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو تم اُس کے ملنے سے شک میں نہ ہونا اور ہم نے اُس کو بنی اسرائیل کیلئے (ذریعہ) ہدایت بنایا۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے موسیٰu کو کتاب دی تم اُن سے ملاقات میں شک نہ کرنا۔ اب بتائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے موسیٰ u کی ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی؟ اور اگر احادیث کو تسلیم کر لیا جائے تو واقعہ معراج اس ملاقات کو ثابت کر دیتا ہے۔ ماننا پڑے گا کہ احادیث قرآن کی تفسیر ہیں۔
سوال نمبر23۔
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدُّوْنَo وَ قَالُوْآ ئَ اٰلِھَتُنَا خَیْرٌ اَمْ ھُوَ مَا ضَرَبُوْہُ لَکَ اِلَّا جَدَلاً بَلْ ھُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ o اِنْ ھُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْہِ وَ جَعَلْنٰھُا مَثَلًا لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ o وَ لَوْ نَشَآئُ لَجَعَلْنَا مِنْکُمْ مَّلٰٓئِکَۃً فِی الْاَرْضِ یَخْلُفُوْنَ o وَ اِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِھَا وَ اتَّبِعُوْنِ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌo (سورئہ زخرف:57 تا 61)۔
اور جب مریم کے بیٹے (عیسیٰ) کا حال بیان کیا گیا تو تمہاری قوم کے لوگ اُس سے چِلا اٹھے۔ اور کہنے لگے کہ بھلا ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ؟ انہوں نے عیسیٰ کی جو مثال بیان کی ہے تو صرف جھگڑنے کو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو۔ وہ تو ہمارے ایسے بندے تھے جن پر ہم نے فضل کیا اور بنی اسرائیل کیلئے اُن کو (اپنی قدرت کا) نمونہ بنا دیا۔ اور اگر ہم چاہتے تو تم میں سے فرشتے بنا دیتے جو تمہاری جگہ زمین میں رہتے۔ اور وہ قیامت کی نشانی ہیں۔ تو (کہہ دو کہ لوگو!) اس میں شک نہ کرو اور میرے پیچھے چلو یہی سیدھا راستہ ہے ۔
اس آیت میں اللہ جل جلالہ نے فرمایا کہ مریم کے بیٹے(عیسیٰ u) قیامت کی نشانی ہے۔ اس نشانی سے کیا مراد ہے؟ نشانی تو آنے والی چیز کو کہا جاتا ہے۔ کیا عیسیٰ u قرب قیامت میں آئیں گے؟ جبکہ انکار احادیث کرنے والے عیسیٰ u کا آنا غلط خیال کرتے ہیں۔
سوال نمبر24۔
اِنَّ اﷲَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (سورئہ احزاب:56)۔
اللہ اور اُس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں مومنو! تم بھی اُن پر درود اور سلام بھیجا کرو ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام بھیجیں۔ کیا قرآن نے صلوٰۃ و سلام کا طریقہ بتایا؟ کب بھیجیں، نماز میں؟ دُعا میں؟ یا عام حالات میں؟ کن الفاظ سے بھیجیں؟ بغیر احادیث کے ہم قرآن پر عمل کیسے کریں؟
Last edited: