سوال نمبر25۔
وَاَنْزَلَ اﷲُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَ کَانَ فَضْلُ اﷲِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا (سورۃ النسائ:113)۔
اور اللہ نے تم پر کتاب اور دانائی نازل فرمائی ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھائی ہیں جو تم نہیں جانتے تھے۔ اور تم پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔
اس آیت میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ ہم نے کتاب اور حکمت نازل فرمائی۔ کتاب سے مراد اگر قرآن ہے تو حکمت کیا ہے؟ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہم نے ذکر نازل کیا (سورئہ نحل:44)۔ (سورئہ حجر:9) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ذکر نازل کیا اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی۔ بتائیں اس ذکر سے کیا مراد ہے؟۔
سوال نمبر26۔ (سورئہ فیل مکمل)۔
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِo اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍلo وَّ اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَo تَرْمِیْھِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیلٍo فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کیساتھ کیا کیا؟ کیا اُن کا داؤ غلط نہیں کیا؟ اور اُن پر جھنڈ کے جھنڈ جانور بھیجے۔ جو اِن پر کنکر کی پتھریاں پھینکتے تھے۔ پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا۔
یہ ہاتھی والے کون تھے؟ ان کا جرم کیا تھا؟ قرآن نے اُن کا قصور بتایا ہے؟ قرآن سے جواب دیں؟
سوال نمبر27۔
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْھَا قَآئِمَۃً عَلٰٓی اُصُوْلِھَا فَبِاِذْنِ اﷲِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ (سورئہ حشر:5)۔
اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا کہ جو درخت تم نے کاٹے اور جو چھوڑ دیئے وہ اللہ کے حکم سے تھا۔ یہ اللہ کا حکم کس آیت میں موجود ہے؟
سوال نمبر28۔
اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ
(کوثر:۱)
بے شک ہم نے تم کو کوثر عطا کی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے تم کو کوثر عطا کی۔ بتائیں کہ کوثر کیا ہے؟ جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی۔ کیا کسی عورت کا نام ہے یا یہ کوئی اور چیز ہے؟۔ قرآن مجید سے جواب دیں۔
سوال نمبر29۔
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اﷲَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اﷲَ کَثِیْرًا (سورئہ احزاب:21)۔
تم کو پیغمبر الٰہی کی پیروی (کرنی) بہتر ہے (یعنی) اُس شخص کو جسے اللہ (سے ملنے) اور روزِ قیامت (کے آنے) کی امید ہو اور وہ اللہ کا کثرت سے ذکر کرتا ہو ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نمونہ ہیں۔ اگر ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین نمونہ سمجھے پھر آپ کے طریقے پر عمل کرنا چاہے تو وہ کیسے عمل کرے گا؟ ماننا پڑے گا کہ احادیث کو تسلیم کرنا پڑے گا جب ہی ہم قرآن پر عمل کر سکیں گے۔
سوال نمبر30۔
الٓرٰکِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ
الٓر۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور اللہ حکم و خبیر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کر دی گئی ہیں۔ (سورئہ ھود:1)
ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ (سورئہ قیامۃ:19)۔
پھر بے شک اس قرآن کا بیان ہمارے ذمہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن کا بیان ہمارے ذمہ ہے۔ پھر قرآن کی تفسیر ہمارے ذمہ ہے حکیم اور خبیر ذات کی طرف سے قرآن کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یہ تفسیر کہاں اور کس سپارے میں ہے؟ قرآن کا بیان کہاں ہے؟ قرآن نے ایک عمل کا حکم دیا۔ اب سب اپنی مرضی کے مطابق عمل کریں تو اللہ کی چاہت پوری ہو گی یا سب ویسے ہی عمل کریں جس طرح اللہ چاہتا ہے۔ جب اللہ کی چاہت پوری ہو گی تو ماننا پڑے گا کہ قرآن کے ساتھ ساتھ قرآن کا بیان اور تفصیل بھی اللہ کی طرف سے احادیث کی صورت میں ہے۔
سوال نمبر31۔
وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَآیِٔ نَفْسِیْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ (سورئہ یونس:15)۔
اور جب اُن کو ہماری آیتیں پڑھ کرسنائی جاتی ہیں تو جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی اُمید نہیں وہ کہتے ہیں کہ (یا تو) اس کے سِوا کوئی اور قرآن (بنا) لاؤ یا اس کو بدل دو۔ کہہ دو کہ مجھے اختیار نہیں ہے کہ اسے اپنی طرف سے بدل دوں میں تو اُسی حکم کا تابع ہوں جو میری طرف آتا ہے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے (سخت) دن کے عذاب سے خوف آتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہی عمل کرتے ہیں جس کی اُن کو وحی کی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی کیا قرآن میں ہجرت کا حکم موجود ہے؟ یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرضی سے ہجرت کی تھی؟ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’میں تو اُسی حکم کا تابع ہوں جو میری طرف آتا ہے‘‘۔
ایک نظریہ کچھ لوگوں نے بنا رکھا ہے کہ ہم احادیث تو مانیں گے مگر وہ حدیث نہیں مانیں گے جو عقل میں نہ آئے۔ کس کی عقل کو معیار بنایا جائے گا؟ ایک حدیث ایک آدمی کی عقل میں آتی ہے دوسرے کی عقل میں نہیں آتی۔ کس کی عقل تسلیم کی جائے گی؟ ایک موچی اور ڈاکٹر دونوں کی عقل کیا ایک جیسی ہوتی ہے؟ کیا عقل دین میں معیار ہے؟ اگر یہ معیار ہم قرآن پر رکھیں تو جو آیت ہماری عقل میں نہ آئے ہم اُس کو تسلیم نہیں کریں گے؟ یقینا کریں گے کیونکہ قرآن ثابت شدہ ہے۔ اسی طرح جو احادیث صحیح سند سے ثابت ہوں ہم اُس کو تسلیم کریں گے چاہے وہ ہماری عقل میں آئے یا نہ آئے (کیونکہ وہ احادیث ثابت شدہ ہیں)۔ دیکھیں آیت قرآنی جو ہماری عقل کے خلاف ہیں مگر ہم اُس کو تسلیم کرتے ہیں، اُس حوالے سے چند سوال:
سوال نمبر32۔
قُلْنَا ٰینَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ (سورئہ انبیائ:69)۔
ہم نے حکم دیا کہ اے آگ! سرد ہو جا اور ابراہیم پر (موجبِ) سلامتی (بن جا)۔
اللہ تعالیٰ نے آگ کو ٹھنڈا اور سلامتی والا بنا دیا کیا یہ بات عقل کے خلاف نہیں کہ آگ کا کام تو جلانا ہے اور وہ ٹھنڈی اور سلامتی والی بن گئی؟ مگر ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ یہ ثابت شدہ ہے۔
سوال نمبر33۔۔
وَ رَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا وَ قَالَ یٰٓاَبَتِ ھٰذَا تَاْوِیْلُ رُئْیَایَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا وَ قَدْ اَحْسَنَ بِیْٓ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَ جَآئَ بِکُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَتِیْ اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآئُ اِنَّہٗ ھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ
اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور سب یوسف کے آگے سجدے میں گر پڑے (اُس وقت) یوسف نے کہا کہ ابا جان یہ میرے اُس خواب کی تعبیر ہے جومیں نے پہلے (بچپن میں) دیکھا تھا میرے رب نے اُسے سچ کر دیا اور اُس نے مجھ پر (بہت سے) احسانات کئے ہیں کہ مجھے جیل خانے سے نکالا اور اس کے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں فساد ڈال دیا تھا، آپ کو گاؤں سے یہاں لایا۔ بیشک میرا رب جوچاہتا ہے تدبیر سے کرتا ہے۔ وہ دانا (اور) حکمت والا ہے .۔ (سورئہ یوسف:100)
جناب یعقوب u نے اپنے بیٹے یوسف u کو سجدہ کیا، دونوں نبی ہیں، باپ نے بیٹے کو سجدہ کیا۔ کیا کوئی انسان انسان کو سجدہ کر سکتا ہے؟ اور اگر سجدہ کرنا ہی ہو تو بیٹا باپ کو سجدہ کرے گا یا باپ بیٹے کو؟ عقل کہتی ہے کہ سجدہ کرنا ہی تھا تو بیٹا باپ کو کرتا کہ عقل اس کو تسلیم کرتی ہے مگر ہم عقل کے مقابلے میں قرآن کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ثابت شدہ ہے۔ لہٰذا وہ احادیث بھی قابل قبول ہیں جو صحیح ہیں۔چاہے وہ عقل میں آئیں یا نہ آئیں۔
چند ایسی آیات جو عقل میں نہیں آتیں مگر ہم پھر بھی اُن کو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہیں مثلاً سورئہ نحل:40، انفال:50، الاعراف:172۔
ایک اور دھوکہ دیا جاتا ہے کہ ہم وہ احادیث نہیں مانیں گے جو قرآن کے خلاف ہوں گی حالانکہ کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں، یہ صرف ہماری کم علمی کا قصور ہے ورنہ دونوں میں تطبیق دے کر دونوں کو ماننا پڑے گا۔ ورنہ اگر یہ قانون قرآن پر رکھا جائے تو دو آیات اگر ایک دوسرے کے خلاف ہم کو محسوس ہوں تو ہم کیا کریں گے؟ یقینا ہم دونوں کو تسلیم کریں گے کیونکہ ثابت شدہ ہیں۔ کیا ایک آیت کو تسلیم کر کے دوسری کو ضعیف کہہ کر ردّ کر دیں گے یا دونوں کو تسلیم کریں گے؟ جب ہم دونوں کو تسلیم کرتے ہیں تو احادیث کے لئے ہم یہ فارمولہ کیوں نہیں اپناتے؟۔
قرآنی آیات دیکھیں۔
سوال نمبر34۔
وَ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً کَذٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَ رَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًا (سورئہ فرقان:32)۔
اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہ اتارا گیا؟ اس طرح (آہستہ آہستہ) اس لئے اتارا گیاکہ اس سے تمہارے دل کو قائم رکھیں اور اسی واسطے ہم اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے ہیں ۔
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ (سورئہ قدر:1)۔
ہم نے اس (قرآن) کو شب ِ قدر میں نازل کیا۔
ایک آیت میں فرمایا کہ کافر کہتے ہیں کہ یہ قرآن ایک ساتھ نازل کیوں نہیں ہوا؟ دوسری آیت میں فرمایا کہ ہم نے اس کو ایک رات میں نازل کیا۔ اب ہم دونوں آیتوں میں تطبیق دے کر دونوں کو تسلیم کرتے ہیں، اسی قانون کے تحت ہم احادیث کو تسلیم کیوں نہیں کرتے؟۔ دوسری مثال:
سوال نمبر35۔
فَوَ رَبِّکَ لَنَسْئَلَنَّہُ اَجْمَعِیْنَo عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
تمہارے رب (ہونے) کی قسم! ہم ضرور ان سب سے پُرسش کریں گے۔ اُن کاموں کی جو وہ کرتے رہے۔ (سورئہ حجر:93-92)
فَیَوْمَئِذٍ لَّا یُسْئَلُ عَنْ ذَنْبِہٖٓ اِنْسٌ وَّ لَا جَآنٌّ (سورئہ رحمن:39)۔
اُس روز نہ تو کسی انسان سے اُس کے گناہوں کے بارے میں پرسش کی جائے گی اور نہ کسی جن سے۔
ایک آیت میں فرمایا کہ تمہارے رب کی قسم ہم ان سے ضرور سوال کریں گے جو عمل یہ کرتے تھے۔ دوسری آیت میں فرمایا کہ اُس دن کسی جن سے اور انسان سے اُس کے گناہوں کے بارے میں سوال نہیں ہو گا۔ دونوںآیتوں میں تطبیق دے کر دونوں کو ماننا پڑے گا۔ ایسے ہی کوئی صحیح سند سے حدیث ثابت ہو تو اُس کو ماننا پڑے گا اور کیا اُس کا انکار کفر نہ ہو گا؟
سوال نمبر36۔
کیا قرآن کی کوئی ایسی آیت موجود ہے کہ وحی قرآن کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جو وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی وہ تمام کی تمام قرآن ہی میں موجود ہے؟
سوال نمبر37۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیش گوئیاں کیں اور وہ پوری ہوئی وہ کس بنا پر تھیں؟ جبکہ قرآن اس بات کی نفی کرتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی غیب کا علم نہیں جانتا۔
قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اﷲُ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ (سورئہ نمل:65)۔
کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیںنہیں جانتے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کب (زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے؟
سوال نمبر38۔
اگر احادیث حجت نہیں ہیں تو موضوع (جھوٹی، بناوٹی) احادیث کیوں گھڑی جاتی رہی ہیں؟ نقل اُسی کی بنائی جاتی ہے جس کے اصل کا کوئی مقام ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں 1000 کا نوٹ چلتا ہے، جب ہی تو نقلی نوٹ مارکیٹ میں چلایا جاتا ہے اگر اصلی نہ چلتا ہو تو بتائیں کون بیوقوف ہے جو نقلی نوٹ بنائے۔ 10000 (دس ہزار) کا نوٹ اس وقت تک تو نہیں چلتا۔ بتائیں کیا کوئی دس ہزار کا جعلی نوٹ بنائے گا؟ نہیں بنائے گا کیونکہ دس ہزار کا نوٹ چلتا ہی نہیں۔
جب احادیث شروع سے ہی دین سمجھی جاتی تھیں اسی وجہ سے ہی موضوع احادیث بنائی گئیں اور اگر حدیث کو دین نہ سمجھا جاتا تو موضوع احادیث کیوں گھڑی جاتی رہیں؟
سوال نمبر39۔
مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَھَا اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اﷲِ یَسِیْرٌ لِّکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰکُمْ وَ اﷲُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِ (سورئہ حدید:23-22)
کوئی مصیبت ملک پر اور خود تم پر نہیں پڑتی مگر پیشتر اس کے کہ ہم اس کو پیدا کریں ایک کتاب میں (لکھی ہوئی) ہے (اور) یہ کام اللہ کو آسان ہے تاکہ جو (مطلب) تم سے فوت ہو گیا ہے اس کا غم نہ کھایا کرو اور نہ عطا کردہ چیز پر اِتراؤ۔ اور اللہ اِترانے والے اور شیخی خوروں کو دوست نہیں رکھتا۔
وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اﷲِ رِزْقُھَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَ مُسْتَوْدَعَھَا کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ (ھود:6)۔
اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اُس کا رزق اللہ کے ذمے ہے وہ جہاں رہتا ہے اُسے بھی جانتا ہے اور جہاں سونپا جاتا ہے اُسے بھی، یہ سب کچھ کتابِ روشن میں (لکھا ہوا) ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو مصیبت دنیا میں آتی ہے یا خود تم کو پہنچتی ہے، وہ اس کے پیدا کرنے سے پہلے کتاب میں لکھی ہوتی ہے۔ یہ لکھا ہوا کیا ہے؟ کیا تقدیر ہے؟ کیا تقدیر لکھی ہوتی ہے؟ انکار حدیث کرنے والے تقدیر کا انکار کیوں کرتے ہیں؟ اور یہ کون سی کتاب ہے جس میں لکھا ہوا ہے؟ براہِ مہربانی قرآن سے جواب دیں۔
سوال نمبر40۔
وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ (سورئہ بقرۃ:96)۔
اور اللہ تعالیٰ (کی خوشنودی) کے لئے حج و عمرہ پورا کرو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کے لئے حج اور عمرہ کو پورا کرو۔ یہ حج کیا ہے؟ کہاں اور کیسے ہو گا؟ اور عمرہ کیا ہے پورا کیسے ہو گا؟ صرف قرآن سے جواب دیں۔
سوال نمبر41۔
وَ اِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِہٖ وَ اَظْھَرَہُ اﷲُ عَلَیْہِ عَرَّفَ بَعْضَہٗ وَ اَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّاَھَا بِہٖ قَالَتْ مَنْ اَنْبَاَکَ ھٰذَا قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ
اور یاد کرو جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے ایک پوشیدہ بات کہی۔ پس جب اُس نے اس بات کی خبر (دوسری کو) کر دی۔ اور اللہ نے اپنے نبی کو اس پر آگاہ کر دیاتو نبی نے تھوڑی سی بات تو بتا دی اور تھوڑی سی ٹال گئے۔ پھر جب نبی نے اپنی اُس بیوی کو یہ بات بتائی تو وہ کہنے لگی کہ اس کی خبر آپ کو کس نے دی؟ کہا کہ مجھے اُس نے بتایا ہے جو جاننے والا خبردار ہے (سورئہ تحریم:3)۔
قرآن مجید میں کہیں نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مطلع کیا کہ فلاں بی بی نے تمہارا راز طاہر کر دیا پھر علیم و خبیر اللہ نے کس طرح خبر دی؟ ظاہر ہے یہ کہنا پڑے گا کہ قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی۔ ورنہ آپ کو یہ خبر کیسے ملی؟
سوال نمبر42۔
قرآن مجید سے بتائیں کہ مرغی حلال ہے یا حرام؟ اور کتا اور گدھا حرام ہے یا حلال؟ قرآن کی واضح آیت بتائیں، اِدھر اُدھر کی باتوں میں نہ الجھائیں۔
سوال نمبر43۔
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انْحَرْ (سورئہ کوثر:2)۔
تو اپنے رب کیلئے نماز پڑھا کرو اور قربانی کیا کرو۔
قرآن مجید میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، رکوع کرنے، سجدہ کرنے کا ذکر بھی قرآن میں آیا ہے، کھڑے ہونے کا بھی حکم موجود ہے، سوال یہ ہے کہ پہلے کھڑے ہوں یا پہلے رکوع کریں یا سجدہ کریں؟ اور کھڑے ہوں تو ہاتھ باندھ کر یا چھوڑ کر کھڑے ہوں؟ ہاتھ اگر باندھے جائیں تو کہاں باندھے جائیں؟ رکوع کرنے کا حکم ہے رکوع کا معنی جھکنا ہے۔ کہاں جھکیں، آگے جھکیں یا دائیں بائیں؟ رکوع کی حالت میں ہاتھ کہاں رکھیں؟ سجدہ کس طرح کریں؟ کون سے اعضاء کو زمین پر رکھیں؟ سجدہ ایک کریں یا دو؟ ان سوالات کا جو بھی جواب آپ دیں اس کا ثبوت قرآن سے دیں عقلی تک بندیاں دین کا حصہ نہیں، وہ نہیں مانی جائیں گی۔ اور اگر آپ قرآن سے ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتے (اور یقینا نہیں دے سکتے) تو مان جائیں کہ قرآن پر عمل کرنے کے لئے حدیث کی ضرورت ہے اور حدیث بھی قرآن کی طرح دین کا حصہ ہے۔
سوال نمبر44۔
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ
اور نماز پڑھا کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور (اللہ تعالیٰ کے آگے) جھکنے والوں کیساتھ جھکا کرو۔ (سورئہ بقرہ:43)۔
الَّذِیْنَ لَا یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ کٰفِرُوْنَ
جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کے بھی قائل نہیں ۔ (سورہ حم سجدہ:7)
یہ زکوۃ کب دی جائے گی؟ کیا ہر نماز کے ساتھ زکوۃ دی جائے گی؟ یا سال میں ایک مرتبہ دی جائے گی؟ کس حساب سے دی جائے گی؟ غلے پر کتنی اور سونے چاندی پر کتنی دی جائے گی؟ زکوٰۃ نہ دینے والوں کو سخت عذاب کی دھمکی بھی دی گئی ہے، یہ سارے مسائل قرآن سے بتائیں؟ یہ سب مسائل قرآن سے ثابت نہیں، احادیث سے پتہ چلتے ہیں۔ ثابت ہوا کہ حدیث مانے بغیر قرآن پر بھی عمل نہیں ہو سکتا۔
سوال نمبر45۔
وَاعْلَمُوْآ اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاﷲِ وَ مَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ وَ اﷲُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (الانفال:41)۔
اور جان رکھو کہ جو چیز تم (کفار سے) لُوٹ کر لاؤ اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کا اور اس کے رسول کا اور اہلِ قرابت کااور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے، اگر تم اللہ پر اور اس (نصرت) پر ایمان رکھتے ہو جو (حق و باطل میں) فرق کرنے کے دن (یعنی جنگ بدر میں)، جس دن دونوں فوجوں میں مڈبھیڑ ہو گئی، اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) پر نازل فرمائی اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
مال غنیمت میں پانچ حصے کر کے ایک حصہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے الگ کر لیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ باقی چار حصے کیا کئے جائیں؟ کیا قرآن اس بارے میں کوئی حکم دیتا ہے؟ اگر دیتا ہے تو کیا دیتا ہے؟ اور اگر نہیں دیتا تو ان چار حصوں کو ہم کیا کریں؟ صرف قرآنِ مجید سے جواب دیں۔
سوال نمبر46۔
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْآ اَیْدِیَھُمَا جَزَآئًم بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اﷲِ وَ اﷲُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (سورۃ المائدہ:38)۔
اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت اُن کے ہاتھ کاٹ ڈالو یہ اُن کے فعلوں کی سزا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرت ہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
قرآن میں حکم ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھوں کو کاٹ دو۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں ہاتھ کاٹیں یا ایک ہاتھ؟ دایاں ہاتھ یا بایاں ہاتھ؟ بغل سے کاٹیں یا کہنی سے؟ کتنی چوری پر ہاتھ کاٹ دیا جائے؟ 2، 4 روپے پر بھی کیا ہاتھ کاٹ دیا جائے؟ براہ مہربانی ان مسائل کو قرآن سے حل کریں؟
سوال نمبر47۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْن (سورئہ جمعہ:9)۔
مومنو! جب جمعے کے دن نماز کیلئے پکارا جائے تو اللہ کی یاد (یعنی نماز) کیلئے جلدی کرو اور (خرید و) فروخت ترک کر دو اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے پکارا جائے تو اس کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ سوال یہ ہے کہ جمعہ کے دن کب پکارا جائے؟ کس نماز کے لئے پکارا جائے؟ کن الفاظ سے پکارا جائے؟ کیا کچھ پکارا جائے؟ جس نماز کے لئے پکارا جائے وہ کیسے پڑھی جائے؟ ان ساری باتوں کے ثبوت قرآن سے دیں؟
سوال نمبر 48۔
دنیا میں بہت سے جانور ہیں، مثلاً بلی، گیدڑ، بھیڑیا، چیتا، شیر، بندر، ریچھ، ہرن، بھینسا، خرگوش، کوا، چیل، باز، شکرہ، کبوتر، مینا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب جانور حلال ہیں یا حرام؟ یا کچھ حلال ہیں یا حرام؟ آپ جو بھی جواب دیں قرآن سے دیں کیونکہ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ ہر مسئلہ کا حل قرآن میں موجود ہے۔ حدیث کی ضرورت نہیں ہے۔ اور آپ ان سوالوں کا جواب قرآن سے یقینا نہیں دے سکتے تو مان لیںکہ قرآن سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے احادیث بھی ضروری ہیں۔
سوال نمبر49۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاﷲِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اﷲِ وَ رُسُلِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًاo اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا وَ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًاo وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاﷲِ وَ رُسُلِہٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ اُولٰٓئِکَ سَوْفَ یُؤْتِیْھِمْ اُجُوْرَھُمْ وَ کَانَ اﷲُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo(سورۃ النسائ:150تا 152)
جو لوگ اللہ سے اور اُس کے پیغمبروں سے کفر کرتے ہیں اور اللہ اور اُس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں او ر کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیںا ور بعض کو نہیں مانتے اور ایمان اور کفر کے بیچ میںایک راہ نکالنی چاہتے ہیں۔ وہ بلا شبہ کافر ہیں اور کافروں کیلئے ہم نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اور جو لوگ اللہ اور اُس کے پیغمبروں پر ایمان لائے اور ان میں کسی میں فرق نہ کیا (یعنی سب کو مانا) ایسے لوگوں کو وہ عنقریب ان (کی نیکیوں) کے صلے عطا فرمائے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان فرق کرنے والے کو اسلام اور کفر کے درمیان نئے راستے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بتائیں اس سے کیا مراد ہے؟ ایک شخص قرآن کو مانتا ہے اور حدیث کو نہیں مانتا، کیا وہ اس تنبیہ میں شامل نہیں ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حق یہ ہی ہے کہ وہ کافر ہیں۔
سوال نمبر50۔
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اﷲِ بِہٖ وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَــکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِِاثْمٍ فَاِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورئہ مائدہ:3)۔
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سؤر کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کرمر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کر لو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو یہ سب گناہ (کے کام) ہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں تو اُن سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند فرمایا۔ ہاں جوشخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
قرآن مجید جو ہمارے پاس موجود ہے کیا کہ اللہ رب العزت نے اسی طرح نازل کیا ہے یا یہ ترتیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے؟ اگر یہ ترتیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے تو کیا حدیث حجت نہ ہو گی؟ کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ترتیب کے مطابق تلاوت قرآن کرتے ہیں اور کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اختیار تھا کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب میں اپنی مرضی سے آیات کو ترتیب دیں یا یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق کیا؟ تو پھر مان لینا چاہیئے کہ قرآن کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی اور وہ بھی دین ہے جو احادیث صحیحہ کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اور اگر کوئی منکر حدیث یہ بات کہہ دے کہ قرآن جس ترتیب سے ہمارے پاس موجود ہے اسی ترتیب سے اللہ نے نازل فرمایا ہے تو سورئہ مائدہ میں چھٹے سپارے میں اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَــکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا
آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند فرمایا۔
کہ آج ہم نے دین مکمل کر دیا۔ جب چھٹے سپارے میں دین مکمل ہو گیا تو باقی سپارے کیوں نازل کئے گئے؟ کیا کسی بھی انکارِ حدیث کرنے والے کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟؟؟
ایک دھوکہ عوام الناس کو یہ دیا جاتا ہے کہ حدیث کا انکار کرنا کفر ہے۔ ہم احادیث کا انکار نہیں کرتے۔ لوگوں نے باتیں بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی ہیں، ہم اُن باتوں کا انکار کرتے ہیں جبکہ حقیقت ایسی نہیں ہے۔ جو فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، صحیح احادیث کی صورت میں، وہ آپ کے فرامین ہیں اُن میں سے کسی ایک کا بھی انکار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا اِنکار ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص سورئہ فیل کا انکار کر دے اور کہے کہ میں قرآن کا انکار نہیں کرتا، قرآن پر میرا ایمان ہے میں قرآن پر ایمان رکھتا ہوں اور سورئہ فیل کے بارے میں کہے کہ میں اس کو نہیں مانتا کہ یہ اللہ نے نازل کی ہے۔ وہ اپنے انکار کی وجہ یہ بتائے کہ یہ سورت اللہ نے نازل نہیں کی تب بھی وہ کافر ہے کیونکہ وہ قرآن کے ایک حصے کا منکر ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سمجھ کر انکار کرے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد نہیں ہیں بلکہ لوگوں کی باتیں ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوگوں نے منسوب کی ہیں حالانکہ وہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحیح اسناد سے ثابت ہوں تو اُن فرامین کا انکار کرنے والا بھی اُسی طرح دائرئہ اسلام سے خارج ہے جس طرح قرآن مجید کے ایک چھوٹے سے حصے کا انکار کرنے والا دائرئہ اسلام سے خارج ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہم اپنے لئے اور تمام پڑھنے والوں کے لئے دُعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اُس حق کوسمجھنے کی اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے۔ کیونکہ توفیق دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ہے۔
الحمد ﷲ
www.Albisharah.com - منکرین حدیث سے پچاس سوالات