رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قران بھولنا کیا قران کے غیر محفوظ ہونے کی کوئی دلیل ہے۔
ابوبکر قدوسی
صبح تڑکے فیس بک کو دیکھا تو ایک دوست نے قاری حنیف ڈار صاحب کی پوسٹ پر منشن کر رکھا تھا ...پوسٹ کیا تھی بنا دلیل کے ہمیشہ کی "شہباز شریفانہ انداز " کہ میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا ...حقیقت یہ ہے کہ اب تو ہمیں بھی اعتراف ہے کہ قاری صاحب دلیل کی کوئی بات نہیں مانتے -
خیر موصوف نے ہشام بن عروہ کی روایت کردہ حدیث کو نبی کریم کی ذات کی تنقیص قرار دیتے ہوے انکار کیا اور وہی جذباتی تقریر کہ جو مولوی حضرات منبر پر چڑھ کے کرتے ہیں -
احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک بار نماز میں بی کریم ایک آیت بھول گئے ، صحابی نے نماز کے بعد یاد دلایا تو آپ نے فرمایا کہ یاد کیوں نہ دلایا ، مراد تھی کہ لقمہ کیوں نہ دیا ..اس پر صحابی نے کہا کہ میں نے سمجھا ممکن ہے آیت منسوخ ہو گئی ہو ..یہی واقعہ عبد اللہ بن عمر کی روایت میں بھی ہے اس میں انہوں نے صحابی کا تذکرہ بھی کیا ہے ،،، اوہ سیدنا ابی تھے کہ جو مشہور قاری بھی تھے ....
ایک واقعے کی روایت سیدہ عائشہ نے بھی کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں آدمی کی تلاوت سے آپ کو ایک بھولی آیت یاد آ گئی -
یہ محض انسانی نسیان کی بات تھی جس کو جذباتی رنگ دے کے توہین رسالت تک بنا دیا گیا .....اور راویان حدیث کو قریب قریب بدیانت بنا کے قاری صاحب نے پیش کیا ...پوسٹ اس طرح لکھی ہے کہ جیسے موصوف کو ہی نبی سے پیار ہے اور راویان حدیث نبی کے دشمن تھے .... اس حدیث کے بنیادی راوی سیدنا ہشام بن عروہ ہیں جھ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے پوتے اور سیدنا ابوبکر صدیق کے نواسے کے بیٹے ہیں ...سیدہ عائشہ صدیقہ ان کی رشتے میں نانی لگتی ہیں ...
اب قاری صاحب نے اپنی پوسٹ میں " حسب اخلاق " لتے لیے ہیں ، اور خوب خوب اپنے بغض کا اظہار کیا ہے ..لیکن قارئین کرام دل چسپ امر یہ ہے کہ امت چودہ صدیوں تک نبی کریم پر اس مبینہ الزام سے ناواقف رہی ..وہ تو بھلا ہوا کہ قاری صاحب کا عالم میں ظہور ہوا اور امت کو خبر ہوئی کہ یہ راوی تو اصل میں نبی کے "دشمن " تھے ...لیکن ایک سوال کا قاری صاحب کئی سال سے جواب نہیں دے پائے ....جناب اگر یہ راوی نبی کے دشمن ہیں ، نبی پر جھوٹ باندھتے ہیں ، نبی کی عزت کا مذاق اڑاتے ہیں اور قران کی حیثیت کو مجروح کرتے ہیں ...تو پھر تب آپ کی غیرت کہاں جاتی ہے کہ جب اسی بخاری کی مسلم ، اور ہشام بن عروہ کی اور امام زہری کی دیگر روایات کو درست ہی نہیں بلکہ دین مانتے ہیں ....ان راویوں کی راویات کو نقل کر کر کے اپنے خطبے بیان کرتے ہیں ....
نبی کریم ایک بشر تھے اور بشر سے نسیان کا ہونا کوئی اچنبہے کی بات ہی نہیں - کہ انسان یوں سٹیج ڈرامہ لگا کے بیٹھ جائے - اور موصوف نے لکھا :
................
"رسول اللہ ﷺ نے قرآن ہماری طرح رٹا لگا کر حفظ نہیں کیا تھا بلکہ اللہ پاک نے اس کو رسول اللہ ﷺ کے قلب پر بذریعہ جبرائیل انسٹال کر دیا تھا "
...................
تو پھر وہ ہر سال جبرائیل کا آ کے نبی کریم کے ساتھ مکمل قران کا دور کرنا کیا ہوا ؟
دوستو ! پھر وحی آتے ہی اس کو لکھنے کے اہتمام کی کیا ضرورت تھی ؟
بلا شبہ نبی کریم قران کے حافظ تھے ، لیکن اس کے باوجود ہمیشہ اہتمام رہا کہ جو قران نازل ہوتا وہ اس کو لکھ لیا جاتا ..اگر یہ لکھنے کا اہتمام صرف دوسروں کے لیے ہوتا تو کبھی یہ لکھے مخطوطے خود بی کے گھر میں موجود نہ ہوتے -
مجھے نہیں سمجھ آتی ہمارے احباب کی عقل سے کیا دشمنی ہے کہ اس کا استعمال حرام ہی کیے بیٹھے ہیں - عقل کی بات ہے کہ اللہ نے جو قران کی حفاظت کا وعدہ کیا تو یہ لکھنے کی ترغیب بھی اسی کی ہدایت ہو گی ، اسی طرح اس صحابی کا آپ کو یاد دلانا بھی اصل میں اللہ کا ہی کیا گیا اہتمام تھا - اور ساتھ بشریت رسول کا اظہار بھی - فرماتے ہیں کہ :
......................
"ایک بات نوٹ کر لیجئے کہ یہ جو بار بار جبلی اور فطری بھولنا کہہ رہے ہیں ـ اللہ پاک نے اسی جبلی اور بشری تقاضے سے بھولنے کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا ـ اور صرف ایک بھولنے کا استثناء رکھا تھا کہ اللہ پاک جو آیت منسوخ کرنا چاہے گا وہ بھُلا دے گا ، یعنی جونہی لوح محفوظ میں تعدیل کی جائے گی رسول اللہ ﷺ کے قلبِ مبارک سے آٹومیٹک وہ محو ہو جائے گا ، البتہ بشری تقاضے سے آپ کبھی قرآن نہیں بھولیں گے ،،
...................
لیجئے کمال نہیں ہو گیا ؟ قران میں بہت ایسی آیات ہیں کہ جو منسوخ ہیں مگر آپ کو نہ بھلائی گئی ہیں ، نہ قران سے باہر ہیں بلکہ ابھی بھی تلاوت کی جاتی ہیں - تو وہ اصول کہاں گیا کہ موصوف بیان کر رہے ہیں کہ جو آیت منسوخ کرنی ہو گی وہ بھلا دی جائے گی ؟
اسی طرح جب قران نازل ہو گیا ، کاغذ پر لکھا گیا ..لوگوں تک پہنچ گیا ..تو اگر بھلانا مقصود نسخ ہو گیا تو لوگوں کو کس طرح خبر ہو گی کہ یہ آیت تو نبی کریم کو بھلا دی گئی ہے اور آپ بھول چکے ہیں اور لوگ اسے تلاوت کیے جا رہے ہیں - دیکھیے نا نبی کریم تو گئے بھول ..اور جب بھول ہی گئے تو دوسروں کو کیسے خبر دے سکیں گے کہ یہ آیت تھی اب نہیں ہے ،،کیونکہ یہ بتانے کے لیے بھی تو یاد رکھنا ضروری ہے نا ...
قران کا منسوخ ہونا بھلاے جانے کے ساتھ لازم ہے ہی نہیں - قران میں تو بہت سی ایسی آیات ہیں کہ جو نہ تو بھلائی گئیں ،اور نہ ہی نکالی گئی ، تلاوت بھی جاری ہے لیکن منسوخ ہیں جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ امَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۳)
اس آیت کریمہ میں اہل کتاب کی طرح روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا کہ رات کو سو جانے سے پہلے پہلے کھانے کی اِجازت تھی، اور اگر کوئی سو گیا تو اس پر کھانا اور بیوی دونوں حرام تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُمت ِمحمدیہ پر قلت ِتکلیف کے پیش نظر اس کو منسوخ کر دیا۔
عمر بن خطاب اور قیس بن صرمہ رض سے پیش آنے والے واقعات اس ناسخ آیت کے نزول کا سبب بنے:
’’ اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَاؓئِکُمْ … وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۷)
پہلی آیت میں لفظ کما میں حکم اور وصف دونوں پائے جاتے ہیں- وصف یہ کہ اسی طرح روزے فرض ہیں جس طرح سابقہ امتوں پر یعنی انہی کے طریقے سے رکھنے پڑیں گے ۔ لیکن اس بعد والی مذکورہ آیت سے حکم بعینہٖ باقی رہا لیکن وصف منسوخ ہو گیا۔
اسی طرح شراب والی آیت ہے کہ جس میں نشے کی حالت میں نماز سے منع کیا گیا ، اس کا مفھوم واضح ہے کہ شراب یوں تو پینا جائز تھا لیکن اگر نشہ ہے تو نماز پڑھنا جائز نہ تھا ..اب یہ آیت بھی قران میں موجود ہے لیکن منسوخ ہے - تو ضروری نہیں کہ جو آیات منسوخ ہیں وہ ضرور بھلا ہی دی گئی تھیں -اور ساتھ ہی موصوف اس بات کا کوئی جواب بھی نہیں دے سکے کہ نبی کریم کو تو بھلا دی گئیں لیکن جن صحابہ کے پاس ان کے نسخوں میں لکھی ہوئی تھیں ان کا کیا ہوا ؟-
دوستو ! روایت میں محض ایک انسانی نسیان کا ذکر تھا جو بشریت کا اولین وصف ہے ، اس کا حفاظت قران سے کوئی تعلق نہ تھا ..لیکن حدیث دشمنی میں بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا - ایک انسانی وصف کے اظہار اور اس کی خبر پر بے کار شور کیا جا رہا ہے ..اور کمال یہ ہے کہ ڈیڑھ ہزار سال امت اس حدیث کو تسلیم کرتی رہی اور بلاشبہ شک کے تسلیم کرتی رہی - کسی کی غیرت نہ جاگی کہ جی اس حدیث سے تو قران مشکوک ہو رہا ہے ...چودہ صدیوں بعد ہمارے دوستوں پر کوئی نیا الہام ہوا اور خبر ہوئی کہ جی قران کو تو اس روایت سے خطرہ لاحق ہو گیا -
اور آخری بات ! حدیث میں نبی کریم کے الفاظ ہر کچھ واضح کر رہے ہیں کہ جب صحابی نے آپ کو آیت یاد دلائی تو فورا آپ کو یاد بھی آ گئی ..اس کا مطلب ہے کہ بھولی تھی ہی نہیں ...
جو بہت پختہ حافظ ہوتے ہیں کئی کئی سال تراویح میں غلطی نہیں کرتے ..اور کبھی ان سے غلطی ہو جائے تو ان کو یاد دلا دیا جاتا ہے ، وہ فورا درست کر لیتے ہیں ...یعنی ان کے دماغ کی ہارڈ ڈسک میں موجود ڈیٹا بالکل درست ہوتا ہے ، وقتی ایرر یعنی نسیان کا غلبہ ہو جاتا ہے .. پیچھے سے سامع کا لقمہ دراصل وہی درستی ہوتی ہے جو لاشعور سے شعور کی طرف آنے والے ڈیٹا کے ایرر کو دور کرتی ہے ..اس کو کوئی بھی نہیں کہتا کہ قران بھولا جا چکا ہے یا قران غیر محفوظ ہو گیا ....
یہی معاملہ تب ہوا تھا کہ جونہی آپ کو یاد دلایا گیا تو حافظے کی ہارڈ ڈسک سے فورا اصل فائل کھل گئی ...یعنی آپ بھولے ہی نہیں تھے اور نہ قران غیر محفوظ ہو گیا تھا -