ابو عبدالله
مشہور رکن
- شمولیت
- نومبر 28، 2011
- پیغامات
- 723
- ری ایکشن اسکور
- 448
- پوائنٹ
- 135
محترم @عمران صاحب شاید مندرجہ ذیل سے مثال سے بات آپ کی سمجھ میں آجائے۔دوست آپ یہ بھی فرما دیجیے کہ کونسی لغت میں خارجی دلائل سے مراد قرآن کے وحی الہی ہونےکے ثبوت قرآن کے علاوہ دلائل ہیں؟ جس فلسفہ کی بات آپ فرما رہے ہیں، وہی فلسفہ محترم عبدہ صاحب بھی اس سے قبل کی پوسٹ میں تحریر کر چکے ہیں، اور مجھے انکا پورا فلسفہ سمجھ میں آگیا تھا، خارجی اور داخلی دلائل آپ کی ایجاد ہے، اس سے قبل ہم نے یہ اصطلاح نہیں سنی۔ کیونکہ اسکا یہ مفہوم کسی بھی لغت میں نہیں ہے، خارجی اور داخلی دلائل سے آپ کچھ اور مراد لے رہے ہیں، اور میں کچھ اور لے رہا ہوں، آپ اپنی سے دیکھ رہے ہیں تو آپ کو چھ دکھائی دے رہا ہے، میں دوسری طرف بیٹھا ہو، فلہذا مجھے "نو" دکھائی دے رہا ہے۔ لہذا اس بے مقصد کی بحث کو چھوڑ کر آپ اصل موضوع پر آ جائیں۔ قرآن کی حقانیت یا اسے قابل اتباع ثابت کرنے کی ضرورت دہریوں کے لیے آتی ہے، اور انکے لیے یہی ایک دلیل کافی ہے کہ یہ کائنات خدا کا معجزہ ہے، جو محض ایک "حکم" سے وجود میں آگئی۔ جبکہ دہریا اسے "اتفاق" قرار دیتا ہے، بس "کن" اور "اتفاق" یہ فرق جب مٹ گیا تو دہریا بھی سمجھ جائے گا، لیکن حیرت آپ جیسے لوگوں پر ہوتی ہے، قرآن کریم کو چھوٹا اور حدیث کی اہمیت جتانے کے لیے آپ ایسے دلائل مانگتے ہو، جو دہریا بھی نہ مانگے۔ محترم جب آپ اور میں دونوں متفق ہیں کہ ہمیں انسانی دنیا میں وحی الہی کی ضرورت ہے، اور دونوں قرآن کریم کی حقانیت پر بھی متفق ہیں، تو آپ فضول میں وقت کیوں برباد کررہے ہیں، اصل موضوع کی طرف آئیے، اور حدیث کا وجود ثابت کیجیے، ہمارا اصل موضوع "انکار حدیث" یا یوں کہہ لیجیے کہ " حجحیت حدیث" ہے، نہ کہ "اتباع قرآن کے معیارات"۔لہذا آپ اصل موضوع کی طرف آئیے اور وقت فضول موضوعات پر لا حاصل بحث کرکے برباد نہ کیجیے۔ اب اگر آپ اسی موضوع پر منسلک رہنا چاہتے ہیں، اور اصل موضوع کی طرف نہیں بڑھتے تو میں معذرت خواہ ہوں کہ اتباع قرآن کے حوالےسے میں آیات الہی کے علاوہ کسی اور معیار کا قائل نہیں ہوں۔ چاہے اسے آپ خارجی معیار کہیں یا داخلی۔
والسلام۔
آپ کے پیغام اور مندرجہ ذیل مثال میں ہائلائٹ کردہ بات میں مماثلت پر غور فرمائیں، تو بات کلیئر ہوجائے گی۔
زید اور بکر دو اشخاص ہیں جو کہتے ہیں کہ ان کا وزن 50 کلوگرام ہے۔ اب آپ زید کی بات مانتے ہیں اور بکر کی بات کے انکاری ہیں۔ جب آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ
اہلِ حدیث: آپ بکر کا وزن 50 کلوگرام کیوں نہیں مانتے ہیں؟
منکرِ حدیث: کیونکہ بکر کہتا ہے کہ اس کا وزن 50 کلو گرام ہے، اور اس کی خود کی بات کا کیا اعتبار۔
اہلِ حدیث: تو یہی بات تو زید بھی کہتا ہے؟
منکرِ حدیث: ہاں تو زید کے بارے میں تو بہت سے لوگوں سے سنا ہے، حتیٰ کہ آپ بھی مانتے ہیں۔
اہلِ حدیث: تو ایسے تو بہت سے لوگ بکر کے وزن کے متعلق بھی کہتے ہیں۔
منکرِ حدیث: لوگوں کی باتوں کا کیا اعتبار
منکرِ حدیث: اور دیکھیں آپ کو بکر کا وزن 50 کلوگرام ثابت کرنا پڑے گا، کیونکہ زید کا وزن تو (اس کے خود کے کہنے کی وجہ سے یا لوگوں کے کہنے کی وجہ سے)آپ بھی 50 کلو گرام مانتے ہیں لہٰذا آئندہ "زید" کے وزن پر بات نہیں ہوگی۔
عمران صاحب! ہماری سب سے پہلے جو بات ہونی ہے وہ ان معیارات پر ہونی ہے جن کی مدد سے زید اور بکر کا وزن کیا جاسکے۔
یعنی اگر ان کا "خود کا کہنا" معیار ہے تو وہ دونوں کے لیے یکساں تسلیم کیا جائے گا۔
اور اگر "لوگوں کا کہنا" معیار ہے تو وہ بھی دونوں کے لیے یکساں تسلیم کیا جائے گا۔
یا ان کے علاوہ "کوئی اور" معیار ہے تو وہ بھی دونوں کے لیے یکساں تسلیم کیا جائے گا۔
امید ہے سمجھ گئے ہونگے کہ محل نزاع یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں "صرف قرآن" قابل اتباع ہے اور ہم کہتے ہیں کہ "قرآن اور صحیح حدیث دونوں" قابل اتباع ہیں ہمارے اس طرح کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جن "معیارات" کی وجہ سے "قرآن" قابل اتباع ہے "صحیح حدیث بھی" ان معیارات پر پورا اترتی ہے۔
اب اس کا حل یہ ہے کہ آپ "اُن معیارات" پر روشنی ڈالیں جن پر آپ کی نظر میں قرآن تو پورا اترتا ہے لیکن صحیح حدیث پورا نہیں اترتی، خود ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ