• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکر ِحدیث سے مکالمہ

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
دوست آپ یہ بھی فرما دیجیے کہ کونسی لغت میں خارجی دلائل سے مراد قرآن کے وحی الہی ہونےکے ثبوت قرآن کے علاوہ دلائل ہیں؟ جس فلسفہ کی بات آپ فرما رہے ہیں، وہی فلسفہ محترم عبدہ صاحب بھی اس سے قبل کی پوسٹ میں تحریر کر چکے ہیں، اور مجھے انکا پورا فلسفہ سمجھ میں آگیا تھا، خارجی اور داخلی دلائل آپ کی ایجاد ہے، اس سے قبل ہم نے یہ اصطلاح نہیں سنی۔ کیونکہ اسکا یہ مفہوم کسی بھی لغت میں نہیں ہے، خارجی اور داخلی دلائل سے آپ کچھ اور مراد لے رہے ہیں، اور میں کچھ اور لے رہا ہوں، آپ اپنی سے دیکھ رہے ہیں تو آپ کو چھ دکھائی دے رہا ہے، میں دوسری طرف بیٹھا ہو، فلہذا مجھے "نو" دکھائی دے رہا ہے۔ لہذا اس بے مقصد کی بحث کو چھوڑ کر آپ اصل موضوع پر آ جائیں۔ قرآن کی حقانیت یا اسے قابل اتباع ثابت کرنے کی ضرورت دہریوں کے لیے آتی ہے، اور انکے لیے یہی ایک دلیل کافی ہے کہ یہ کائنات خدا کا معجزہ ہے، جو محض ایک "حکم" سے وجود میں آگئی۔ جبکہ دہریا اسے "اتفاق" قرار دیتا ہے، بس "کن" اور "اتفاق" یہ فرق جب مٹ گیا تو دہریا بھی سمجھ جائے گا، لیکن حیرت آپ جیسے لوگوں پر ہوتی ہے، قرآن کریم کو چھوٹا اور حدیث کی اہمیت جتانے کے لیے آپ ایسے دلائل مانگتے ہو، جو دہریا بھی نہ مانگے۔ محترم جب آپ اور میں دونوں متفق ہیں کہ ہمیں انسانی دنیا میں وحی الہی کی ضرورت ہے، اور دونوں قرآن کریم کی حقانیت پر بھی متفق ہیں، تو آپ فضول میں وقت کیوں برباد کررہے ہیں، اصل موضوع کی طرف آئیے، اور حدیث کا وجود ثابت کیجیے، ہمارا اصل موضوع "انکار حدیث" یا یوں کہہ لیجیے کہ " حجحیت حدیث" ہے، نہ کہ "اتباع قرآن کے معیارات"۔لہذا آپ اصل موضوع کی طرف آئیے اور وقت فضول موضوعات پر لا حاصل بحث کرکے برباد نہ کیجیے۔ اب اگر آپ اسی موضوع پر منسلک رہنا چاہتے ہیں، اور اصل موضوع کی طرف نہیں بڑھتے تو میں معذرت خواہ ہوں کہ اتباع قرآن کے حوالےسے میں آیات الہی کے علاوہ کسی اور معیار کا قائل نہیں ہوں۔ چاہے اسے آپ خارجی معیار کہیں یا داخلی۔
والسلام۔
محترم @عمران صاحب شاید مندرجہ ذیل سے مثال سے بات آپ کی سمجھ میں آجائے۔
آپ کے پیغام اور مندرجہ ذیل مثال میں ہائلائٹ کردہ بات میں مماثلت پر غور فرمائیں، تو بات کلیئر ہوجائے گی۔

زید اور بکر دو اشخاص ہیں جو کہتے ہیں کہ ان کا وزن 50 کلوگرام ہے۔ اب آپ زید کی بات مانتے ہیں اور بکر کی بات کے انکاری ہیں۔ جب آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ
اہلِ حدیث: آپ بکر کا وزن 50 کلوگرام کیوں نہیں مانتے ہیں؟
منکرِ حدیث: کیونکہ بکر کہتا ہے کہ اس کا وزن 50 کلو گرام ہے، اور اس کی خود کی بات کا کیا اعتبار۔
اہلِ حدیث: تو یہی بات تو زید بھی کہتا ہے؟
منکرِ حدیث: ہاں تو زید کے بارے میں تو بہت سے لوگوں سے سنا ہے، حتیٰ کہ آپ بھی مانتے ہیں۔
اہلِ حدیث: تو ایسے تو بہت سے لوگ بکر کے وزن کے متعلق بھی کہتے ہیں۔
منکرِ حدیث: لوگوں کی باتوں کا کیا اعتبار
منکرِ حدیث: اور دیکھیں آپ کو بکر کا وزن 50 کلوگرام ثابت کرنا پڑے گا، کیونکہ زید کا وزن تو (اس کے خود کے کہنے کی وجہ سے یا لوگوں کے کہنے کی وجہ سے)آپ بھی 50 کلو گرام مانتے ہیں لہٰذا آئندہ "زید" کے وزن پر بات نہیں ہوگی۔

عمران صاحب! ہماری سب سے پہلے جو بات ہونی ہے وہ ان معیارات پر ہونی ہے جن کی مدد سے زید اور بکر کا وزن کیا جاسکے۔
یعنی اگر ان کا "خود کا کہنا" معیار ہے تو وہ دونوں کے لیے یکساں تسلیم کیا جائے گا۔
اور اگر "لوگوں کا کہنا" معیار ہے تو وہ بھی دونوں کے لیے یکساں تسلیم کیا جائے گا۔
یا ان کے علاوہ "کوئی اور" معیار ہے تو وہ بھی دونوں کے لیے یکساں تسلیم کیا جائے گا۔


امید ہے سمجھ گئے ہونگے کہ محل نزاع یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں "صرف قرآن" قابل اتباع ہے اور ہم کہتے ہیں کہ "قرآن اور صحیح حدیث دونوں" قابل اتباع ہیں ہمارے اس طرح کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جن "معیارات" کی وجہ سے "قرآن" قابل اتباع ہے "صحیح حدیث بھی" ان معیارات پر پورا اترتی ہے۔
اب اس کا حل یہ ہے کہ آپ "اُن معیارات" پر روشنی ڈالیں جن پر آپ کی نظر میں قرآن تو پورا اترتا ہے لیکن صحیح حدیث پورا نہیں اترتی، خود ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
آپ نے جو نئے معیارات بنائے ہیں، یہ آپ کو ہی زیب دیتے ہیں، ہم تو باز آئے ان معیارات سے۔ میں ایک بار پھر عرض کروں گا کہ میری یا کسی بھی جید سے جید اور بڑے سے بڑے عالم کی رائے ، آیات الہی کے مقابلہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اس لیے ہم قرآن کریم کے حجت ہونے یا اسکے اتباع کے بارے میں کوئی معیار مقرر کر ہی نہیں سکتے اور نہ ہی خدا نے ہمیں یہ اختیارات تفویض کیے ہیں۔ یہ سب خدائی معیارات ہیں، انہیں آپ اپنے ہاتھ میں نہ ہی لیں تو اچھا ہے۔
اسکے اوپر چونکہ ابھی ہماری بحث رک گئی ہے کہ کیا ہم نے معیارات پر بحث کرنی ہے یا کسی اور چیز پر تو اس سلسلے میں ایک نیا دھاگہ بنایا ہے جو مندرجہ ذیل ہے
حجیت حدیث کو پرکھنے کے معیارات پر مکالمہ
اس میں اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ کیا قرآن کے معیارات پر بحث ہو سکتی ہے یا نہیں

خارجی اور داخلی دلائل آپ کی ایجاد ہے، اس سے قبل ہم نے یہ اصطلاح نہیں سنی۔ کیونکہ اسکا یہ مفہوم کسی بھی لغت میں نہیں ہے، خارجی اور داخلی دلائل سے آپ کچھ اور مراد لے رہے ہیں، اور میں کچھ اور لے رہا ہوں،
اسکی وضاحت ابو عبداللہ بھائی نے بھی کر دی ہے اور اوپر نئے شروع کردی دھاگے میں بھی کچھ لکھا ہے

قرآن کی حقانیت یا اسے قابل اتباع ثابت کرنے کی ضرورت دہریوں کے لیے آتی ہے، اور انکے لیے یہی ایک دلیل کافی ہے کہ یہ کائنات خدا کا معجزہ ہے، جو محض ایک "حکم" سے وجود میں آگئی۔ جبکہ دہریا اسے "اتفاق" قرار دیتا ہے، بس "کن" اور "اتفاق" یہ فرق جب مٹ گیا تو دہریا بھی سمجھ جائے گا، لیکن حیرت آپ جیسے لوگوں پر ہوتی ہے، قرآن کریم کو چھوٹا اور حدیث کی اہمیت جتانے کے لیے آپ ایسے دلائل مانگتے ہو، جو دہریا بھی نہ مانگے۔ محترم جب آپ اور میں دونوں متفق ہیں کہ ہمیں انسانی دنیا میں وحی الہی کی ضرورت ہے، اور دونوں قرآن کریم کی حقانیت پر بھی متفق ہیں، تو آپ فضول میں وقت کیوں برباد کررہے ہیں، اصل موضوع کی طرف آئیے، اور حدیث کا وجود ثابت کیجیے، ہمارا اصل موضوع "انکار حدیث" یا یوں کہہ لیجیے کہ " حجحیت حدیث" ہے، نہ کہ "اتباع قرآن کے معیارات"۔لہذا آپ اصل موضوع کی طرف آئیے اور وقت فضول موضوعات پر لا حاصل بحث کرکے برباد نہ کیجیے۔ اب اگر آپ اسی موضوع پر منسلک رہنا چاہتے ہیں، اور اصل موضوع کی طرف نہیں بڑھتے تو میں معذرت خواہ ہوں کہ اتباع قرآن کے حوالےسے میں آیات الہی کے علاوہ کسی اور معیار کا قائل نہیں ہوں۔ چاہے اسے آپ خارجی معیار کہیں یا داخلی۔
اس پر نئے دھاگے میں تفصیل سے پوسٹ نمبر 2 میں لکھا ہے اور ایک مکالمہ بھی لکھا ہے وہ یہاں بھی اگلی پوسٹ میں لگا دیتا ہوں لیکن اس پر بحث اس نئے دھاگے میں ہی کی جائے تو بہتر رہے گی
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
قرآن کی بجائے معیارات پر بات کرنے کی وجہ:
ہم بار بار پہلے معیارات پر بات کیوں کرنے پر زور دے رہے ہیں اسکو سمجھنے کے لئے ایک مثال دیکھتے ہیں
پاکستان میں پارلیمنٹ حکم دینے کا معیار ہے اس پارلیمنٹ نے قانون بنا کر چیف جسٹس کو کچھ اختیارات دئے ہوئے ہیں اور اسی پارلیمنٹ نے قانون بنا کر ڈی سی او لاہور کو بھی اختیارات دئے ہوئے ہیں
اسی دفعہ 144 کے تحت آج کل ڈی سی او لاہور نےنہر میں نہانے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے اب اگر کوئی نہر میں نہاتا ہے اور اسکو پولیس پکڑ لیتی ہے اور عدالت میں پیش کر دیتی ہے
اسکا عدالت سے مندرجہ ذیل مکالمہ ہوتا ہے (یہ صرف سمجھانے کے لئے ہے پس مثال کو قرآن یا حدیث پر حقیقت میں قیاس نہ کیا جائے)

ملزم:
نہر میں نہانے سے کس نے منع کیا تھا
عدالت:
ڈی سی او لاہور نے دفعہ 144 کے تحت منع کیا تھا
ملزم:
کیا ڈی سی او حجت ہے یعنی لائق اتباع ہے
عدالت:
جی پارلیمنٹ نے قانون (دفعہ 144) بنا کر ڈی سی او کو حجت یعنی قابل اتباع بنایا ہوا ہے
ملزم:
جج صاحب چیف جسٹس پر ہمارا اور تمھارا اتفاق ہے کہ نہیں
عدالت:
جی بالکل اتفاق ہے
ملزم:
کیا چیف جسٹس نے کبھی حکم دیا ہے کہ ڈی سی او کی بات مانو
عدالت:
اس بارے معلومات نہیں ہیں کہ آیا اسکا حکم کبھی دیا ہے کہ نہیں
ملزم:
تو پھر جب چیف جسٹس پر ہم دونوں کا اتفاق ہے تو اسکا حکم دکھاؤ تو میں مجرم ثابت ہوں گا
عدالت:
بھائی ہمارا تمھارا اتفاق اس پر نہیں ہے کہ چیف جسٹس ہی صرف کسی کو قابل اتباع بنانے کا معیار ہے بلکہ صرف اس پر اتفاق ہے کہ جیف جسٹس کی حجت یعنی قابل اتباع ہے
ملزم:
نہیں مجھے نہیں معلوم جب ہمارا اور آپ کا چیف جسٹس پر اتفاق ہے تو پھر نہر میں نہ نہانے کا حکم یا ڈی سی او کی اتباع کا ھکم ہمیں چیف جسٹس کی زبان سے دکھائیں تب ہم مانیں گے
عدالت:
(چلو لگتا ہے کہ یہ گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلے گا) اچھا آپ یہ بتائیں کہ چیف جسٹس کے قابل اتباع ہونے کا معیار کیا ہے
ملزم:
توبہ توبہ استغفراللہ آپ چیف جسٹس پر اعتراض کر رہے ہیں جج صاحب یہ سارے سیاست دان مل بھی جائیں تو چیف جسٹس کی بات کو نہیں جھٹلایا جا سکتا آپ کو شرم آنی چاہئے چیف جسٹس کے قابل اتباع ہونے کے معیار کا تقاضا کرتے ہوئے
عدالت:
بھائی چیف جسٹس اس میں استغفراللہ والی کون سی بات ہے اصل میں جس ڈی سی او کا آپ حکم ماننے کا انکار کر رہے ہیں اسکو لائق اتباع بھی اسی معیار (یعنی پارلیمنٹ) نے بنایا ہے جس نے چیف جسٹس کو قابل اتباع بنایا ہے
ملزم:
دیکھیں جج صاحب آپ چیف جسٹس کے بارے معیارات پر بات نہ کریں کیونکہ اسکا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا پس اسکی اتباع کے لئے ہم کوئی معیار مقرر ہی نہیں کر سکتے نہ پاکستان نے ہمیں یہ اختیارات تفویض کیے ہیں پس چیف جسٹس کے لئے میں چیف جسٹس کی ذات کے علاوہ کسی اور معیار کا قائل نہیں
عدالت:
بھائی خالی چیف جسٹس کی ذات کا خود یہ کہنا کہ میں لائق اتباع ہوں یہ تو کوئی دلیل نہیں ہمیں تو خارجی دلیل چاہئے اور ہمارے نزدیک چیف جسٹس لائق حجت صرف اس وجہ سے ہے کیونکہ پارلیمنٹ نے اسکو لائق حجت بنایا ہے ورنہ وہ قابل اتباع نہیں اور آپ کے نزدیک بھی ایسا ہی ہے البتہ صرف سزا سے بچنے کے لئے جان بوجھ کر ماننا نہیں چاہ رہے ورنہ سو فیصد یقینی بات ہے کہ آپ بھی چیف جسٹس کو قابل اتباع اسی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ نے ایسا کہا ہوا ہے پس اگر وہی پارلیمنٹ ڈی سی او کو قابل اتباع بنا دے تو پھر اس پر بھی آپ کو اعتراض نہیں کرنا چاہئے
ملزم:
(سزا سے بچنے کے لئے) میں چیف جسٹس کے بارے کسی معیار کو نہیں مانتا پس اگر آپ نہر میں نہ نہانے کا حکم چیف جسٹس کی زبانی دکھا دیں یا پھر ڈی سی او کا قابل اتباع ہونا چیف جسٹس کی زبانی دکھا دیں تو میں بات کروں گا ورنہ مجھ سے بات نہ کریں کیونکہ ہمارا اصل موضوع نہر میں نہ نہانے کے حکم کا چیف جسٹس سے ثابت ہونا ہے نہ کہ چیف جسٹس کے حجت ہونے کے معیارات- چیف جسٹس کے اوپر اعتراضات تو انصاف اور پاکستان کے دشمن اور بیوروکریٹ کرتے ہیں پس چیف جسٹس کو چھوٹا اور ڈی سی او کو کی اہمیت جتلانے کے لئے آپ چیف جسٹس کے حجت ہونے کے معیار جیسے دلائل مانگتے ہیں پس میرا وقت لا حاصل بحث کر کے برباد نہ کیجیئے پس اسی موضوع سے منسلک رہنا چاہتے ہیں اصل موضوع کی طرف نہیں آتے تو میں معذرت خواہ ہوں کہ چیف جسٹس کے حجت ہونے کے لئے میں چیف جسٹس کی اپنی ذات کی گواہی کے علاوہ کسی معیار کو نہیں مانتا چاہئے آپ اسکو داخلی دلیل مانیں یا خارجی
عدالت:
------------------(کیا حکم دیا ہو گا سب سمجھتے ہیں)

نتیجہ:
بالکل اسی طرح ہم کہنا چاہ رہے ہیں کہ جن دلائل کی وجہ سے قرآن کو حجت مانا جاتا ہے انہیں دلائل کی وجہ سے ہی صحیح احادیث کو بھی حجت مانا جاتا ہے مثلا سلف صالحین کی گواہی، تواتر، اختلاف نہ ہونا، وغیرہ
پس اوپر مکالمہ پڑھنے کے بعد عمران صاحب کا اوپر پوسٹ نمبر 19 پڑھ لیں کہ کیا وہ اسی شش و پنج میں تو مبتلا نہیں ہیں
 

عمران

مبتدی
شمولیت
جون 01، 2015
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
18
اب آپ کی لا علمی کی وجہ سے دنیا تو نہیں بدل جائی گی!! ویسے آپ کو یہ کس نے کہا کہ آپ الٹا دیکھنا شروع کر دیں!!


یہ بھی عجب کہی! اب حدیث کے وجود سے ہی آنکھیں کترانا چہ معنی دارد!!
چلیں آپ سے عوامی انداز میں پوچھ لیتے ہیں:
کیا قرآن کے الہامی ہونے کا ثبوت صرف قرآن میں موجود آیات سے ثابت ہوتا ہے؟ یا قرآن ميں موجود آیات کے علاوہ بھی کوئی عقلی اور نقلی دلائل قرآن کے الہامی ہونے کو ثابت کرتی ہیں؟

ہم آپ کے بیان کردہ موضوع پر اپنا دعوی پیش کر دیتے ہیں:
دین اسلام میں حدیث محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حجت و دلیل تسلیم نہ کرنا ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نازل کردہ وحی کا انکار ہے۔
برادر محترم، میں آپ کا مطلب سمجھ گیا ہوں، اس لیے آپ عوامی انداز سے پوچھیں یا عالمانہ انداز سے پوچھیں، میرا جواب وہی ہے، جو میں اوپر دے چکا ہوں، مجھے بخوبی علم ہے کہ آپ خارجی دلیل کیوں مانگ رہے ہیں، ویسے تو سینکڑوں بلکہ ہزاروں دلائل دیے جاسکتے ہیں، لیکن آپ نے ان "خارجی" دلائل کو یکسر یہ کہہ کر نظر انداز کر دینا ہے کہ خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم (حدیث) پر ہمیں ذیادہ اعتماد ہے، لہذا اس سے بڑی کوئی خارجی دلیل ہو ہی نہیں سکتی۔ وحی میرے نزدیک ایک خارج سے عطا کردہ علم ہے، اس لیے میں قرآن کریم کی آیات کو ہی بطور دلائل تسلیم کروں گا اور پیش بھی کروں گا۔ والسلام۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
قرآن کی بجائے معیارات پر بات کرنے کی وجہ:
ہم بار بار پہلے معیارات پر بات کیوں کرنے پر زور دے رہے ہیں اسکو سمجھنے کے لئے ایک مثال دیکھتے ہیں
پاکستان میں پارلیمنٹ حکم دینے کا معیار ہے اس پارلیمنٹ نے قانون بنا کر چیف جسٹس کو کچھ اختیارات دئے ہوئے ہیں اور اسی پارلیمنٹ نے قانون بنا کر ڈی سی او لاہور کو بھی اختیارات دئے ہوئے ہیں
اسی دفعہ 144 کے تحت آج کل ڈی سی او لاہور نےنہر میں نہانے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے اب اگر کوئی نہر میں نہاتا ہے اور اسکو پولیس پکڑ لیتی ہے اور عدالت میں پیش کر دیتی ہے
اسکا عدالت سے مندرجہ ذیل مکالمہ ہوتا ہے (یہ صرف سمجھانے کے لئے ہے پس مثال کو قرآن یا حدیث پر حقیقت میں قیاس نہ کیا جائے)

ملزم:
نہر میں نہانے سے کس نے منع کیا تھا
عدالت:
ڈی سی او لاہور نے دفعہ 144 کے تحت منع کیا تھا
ملزم:
کیا ڈی سی او حجت ہے یعنی لائق اتباع ہے
عدالت:
جی پارلیمنٹ نے قانون (دفعہ 144) بنا کر ڈی سی او کو حجت یعنی قابل اتباع بنایا ہوا ہے
ملزم:
جج صاحب چیف جسٹس پر ہمارا اور تمھارا اتفاق ہے کہ نہیں
عدالت:
جی بالکل اتفاق ہے
ملزم:
کیا چیف جسٹس نے کبھی حکم دیا ہے کہ ڈی سی او کی بات مانو
عدالت:
اس بارے معلومات نہیں ہیں کہ آیا اسکا حکم کبھی دیا ہے کہ نہیں
ملزم:
تو پھر جب چیف جسٹس پر ہم دونوں کا اتفاق ہے تو اسکا حکم دکھاؤ تو میں مجرم ثابت ہوں گا
عدالت:
بھائی ہمارا تمھارا اتفاق اس پر نہیں ہے کہ چیف جسٹس ہی صرف کسی کو قابل اتباع بنانے کا معیار ہے بلکہ صرف اس پر اتفاق ہے کہ جیف جسٹس کی حجت یعنی قابل اتباع ہے
ملزم:
نہیں مجھے نہیں معلوم جب ہمارا اور آپ کا چیف جسٹس پر اتفاق ہے تو پھر نہر میں نہ نہانے کا حکم یا ڈی سی او کی اتباع کا ھکم ہمیں چیف جسٹس کی زبان سے دکھائیں تب ہم مانیں گے
عدالت:
(چلو لگتا ہے کہ یہ گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلے گا) اچھا آپ یہ بتائیں کہ چیف جسٹس کے قابل اتباع ہونے کا معیار کیا ہے
ملزم:
توبہ توبہ استغفراللہ آپ چیف جسٹس پر اعتراض کر رہے ہیں جج صاحب یہ سارے سیاست دان مل بھی جائیں تو چیف جسٹس کی بات کو نہیں جھٹلایا جا سکتا آپ کو شرم آنی چاہئے چیف جسٹس کے قابل اتباع ہونے کے معیار کا تقاضا کرتے ہوئے
عدالت:
بھائی چیف جسٹس اس میں استغفراللہ والی کون سی بات ہے اصل میں جس ڈی سی او کا آپ حکم ماننے کا انکار کر رہے ہیں اسکو لائق اتباع بھی اسی معیار (یعنی پارلیمنٹ) نے بنایا ہے جس نے چیف جسٹس کو قابل اتباع بنایا ہے
ملزم:
دیکھیں جج صاحب آپ چیف جسٹس کے بارے معیارات پر بات نہ کریں کیونکہ اسکا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا پس اسکی اتباع کے لئے ہم کوئی معیار مقرر ہی نہیں کر سکتے نہ پاکستان نے ہمیں یہ اختیارات تفویض کیے ہیں پس چیف جسٹس کے لئے میں چیف جسٹس کی ذات کے علاوہ کسی اور معیار کا قائل نہیں
عدالت:
بھائی خالی چیف جسٹس کی ذات کا خود یہ کہنا کہ میں لائق اتباع ہوں یہ تو کوئی دلیل نہیں ہمیں تو خارجی دلیل چاہئے اور ہمارے نزدیک چیف جسٹس لائق حجت صرف اس وجہ سے ہے کیونکہ پارلیمنٹ نے اسکو لائق حجت بنایا ہے ورنہ وہ قابل اتباع نہیں اور آپ کے نزدیک بھی ایسا ہی ہے البتہ صرف سزا سے بچنے کے لئے جان بوجھ کر ماننا نہیں چاہ رہے ورنہ سو فیصد یقینی بات ہے کہ آپ بھی چیف جسٹس کو قابل اتباع اسی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ نے ایسا کہا ہوا ہے پس اگر وہی پارلیمنٹ ڈی سی او کو قابل اتباع بنا دے تو پھر اس پر بھی آپ کو اعتراض نہیں کرنا چاہئے
ملزم:
(سزا سے بچنے کے لئے) میں چیف جسٹس کے بارے کسی معیار کو نہیں مانتا پس اگر آپ نہر میں نہ نہانے کا حکم چیف جسٹس کی زبانی دکھا دیں یا پھر ڈی سی او کا قابل اتباع ہونا چیف جسٹس کی زبانی دکھا دیں تو میں بات کروں گا ورنہ مجھ سے بات نہ کریں کیونکہ ہمارا اصل موضوع نہر میں نہ نہانے کے حکم کا چیف جسٹس سے ثابت ہونا ہے نہ کہ چیف جسٹس کے حجت ہونے کے معیارات- چیف جسٹس کے اوپر اعتراضات تو انصاف اور پاکستان کے دشمن اور بیوروکریٹ کرتے ہیں پس چیف جسٹس کو چھوٹا اور ڈی سی او کو کی اہمیت جتلانے کے لئے آپ چیف جسٹس کے حجت ہونے کے معیار جیسے دلائل مانگتے ہیں پس میرا وقت لا حاصل بحث کر کے برباد نہ کیجیئے پس اسی موضوع سے منسلک رہنا چاہتے ہیں اصل موضوع کی طرف نہیں آتے تو میں معذرت خواہ ہوں کہ چیف جسٹس کے حجت ہونے کے لئے میں چیف جسٹس کی اپنی ذات کی گواہی کے علاوہ کسی معیار کو نہیں مانتا چاہئے آپ اسکو داخلی دلیل مانیں یا خارجی
عدالت:
------------------(کیا حکم دیا ہو گا سب سمجھتے ہیں)

نتیجہ:
بالکل اسی طرح ہم کہنا چاہ رہے ہیں کہ جن دلائل کی وجہ سے قرآن کو حجت مانا جاتا ہے انہیں دلائل کی وجہ سے ہی صحیح احادیث کو بھی حجت مانا جاتا ہے مثلا سلف صالحین کی گواہی، تواتر، اختلاف نہ ہونا، وغیرہ
پس اوپر مکالمہ پڑھنے کے بعد عمران صاحب کا اوپر پوسٹ نمبر 19 پڑھ لیں کہ کیا وہ اسی شش و پنج میں تو مبتلا نہیں ہیں
عبدہ بھائی ایک منکر الحدیث نے اس کا یہ جواب دیا ہے
باسمِ ربی۔ محترم ٹی صاحب آپ نے جو تحریر پیش کی ھے یہ کسی ملاں کی لکھی ھوئی ھے۔ کیونکہ اس میں عقل کی کمی واضح ھے۔ عدالت کا یہ تصور وہی دے سکتا ھے۔ جس کو علم نہ ھو یا جو اپنی مرضی کی بات کو پیش کرنے کے لئے اٹکل پچو سے کام لے۔ کبھی ایسا بھی ھوا ھے کہ ملزم جج سے سوال کرتا رھے اور جج پر اپنی مرضی کی بات ٹھونس رہا ھو۔ پھر میں بات کرونگا تو آپ کو ہی شکایت ھو گی۔ دور کیا جانا۔ سادہ سی بات ھے کہ رسول کی موجودگی میں اُس پر نازل شدہ وحی اور وہ خود حکم ہیں۔ جب رسول زندہ نہ ھو تو پھر وحی ہی واحد حکم ھوتا ھے۔ پلیز سوچ سمجھ کر پوسٹ لگائیں۔ آپ کا پیش کردہ سارے کا سارا تصور قرآنِ کریم کے خلاف ھے۔ پلیز تحقیق کریں۔ اور اگر ریفرنسز درکار ھوں تو پوچھ سکتے ہیں۔ میں آپ کی مدد کرونگا۔ ثم تتفکرو۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
عبدہ بھائی ایک منکر الحدیث نے اس کا یہ جواب دیا ہے
باسمِ ربی۔ محترم ٹی صاحب آپ نے جو تحریر پیش کی ھے یہ کسی ملاں کی لکھی ھوئی ھے۔ کیونکہ اس میں عقل کی کمی واضح ھے۔ عدالت کا یہ تصور وہی دے سکتا ھے۔ جس کو علم نہ ھو یا جو اپنی مرضی کی بات کو پیش کرنے کے لئے اٹکل پچو سے کام لے۔ کبھی ایسا بھی ھوا ھے کہ ملزم جج سے سوال کرتا رھے اور جج پر اپنی مرضی کی بات ٹھونس رہا ھو۔
محترم ابن قدامہ بھائی اسکو کہیں کہ یہ واقعی کسی مولوی کی لکھی ہوئی ہے مگر تم جیسے لوگ کیا جانوں کے مولوی کیا ہوتا ہے جنکو پرویزی کہلانے پر تو اعتراض نہیں ہوتا مگر اپنے آقا پرویز کی طرح کیونکہ ترجمہ پڑھ کر ہی قرآن کی تشریح کرتے ہیں پس مولوی کے لفظ کاہ ی نہیں پتا کہ جس مولوی سکا معنی مولا سے نسبت والا ہے جیسے شافعی سے مراد امام شافعی رحمہ اللہ سے نسبت والا اور حنفی سے مراد ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے نسبت والا یا پرویزی سے مراد پرویز سے نسبت والا
پس جب لوگ نون لیگی اور سندھی اور بلوچی اور پرویزی اور حنفی اور چکڑالوی جیسی نسبتیں رکھ رہے ہوں وہاں مولوی جیسی نسبت تو نصیب والوں کو ہی ملے گی
دوسری بات کہ یہاں مولوی بھی وہ ہے جو تمھاری دنیاوی جہالت کی باتوں پر بھی الحمد للہ عبور رکھتا ہے پس وہ یہاں عدالت کا وہ تصور ہی تمھارے سامنے پیش کر رہا ہے جو تمھارے کردار سے ظاہر ہو رہا ہے پس جسکو سمجھانا ہوتا ہے اسی کے کرادر کو سامنے رکھ کر ہی مثال دی جاتی ہے اور یہاں اس منکر حدیث کے کردار کو سامنے رکھ کر ہی اس مولوی نے مثال دی ہے اسکو نیچے سمجھیں
مثال میں یہ کہا گیا ہے کہ جج کچھ اور کہ رہا ہے اور قانون کے حجت ہونے اور نہ ہونے میں فرق کو ثابت کر رہا ہے اور وہ ملزم (جو بعینہ منکر حدیث کی طرح ردعمل دکھا رہا ہے) وہ کہ رہا ہے کہ میں جج کی بات کو نہیں مانتا بلکہ میں چیف جسٹس کو ہی حجت مانتا ہوں لیکن یہ چیف جسٹس جس وجہ سے حجت بنا (یعنی آئین وقانون پاکستان) تو اس وجہ کو میں حجت نہیں مانتا کہ اس میں دفعہ 144 بھی کوئی چیز ہوتی ہے اسی طرح منکر حدیث بھی کہتا ہے کہ میں قرآن کی بات کو تو مانتا ہوں مگر قرآن جس وجہ سے حجت بنا یعنی لوگوں کی گواہی تو اس وجہ کو میں حجت نہیں مانتا
پس یہ عدالت کا ماحول خراب کرنے والا تو منکر حدیث ہی ہے اگر وہ عدالت کا ماحول درست کرنا چاہتا ہے تو پہلے قانون تو سمجھے اسی لئے تو عدالت میں بغیر وکیل کے بات نہیں کرنے دیتے ورنہ یہ منکر حدیث تو پتا نہیں ججوں کو کہاں کہاں گھماتے رہتے
پس میرا دوبارہ سوال ہے کہ
×کیا جب ایک چیز کو جس وجہ سے حجت یا واجب الاطاعت بنایا گیا ہو بعینہ وہی وجہ کسی دوسری چیز میں بھی پائی جائے تو کیا دوسری چیز بھی اسی طرح حجت یا واجب الاطاعت نہیں بن جائے گی
× اگر نہیں تو میرا سوال ہے کہ پھر سونامی یا تحریک انصاف کے دھرنے سے کیسے بچیں گے کہ وہ کہیں گے آپ انصاف نہیں کر رہے (ابتسامہ)

خیر قرآن میں اسی طرح کی ہٹ دھرمی ابراھیم علیہ اسلام کے ساتھ کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی جب انہوں نے کہا تھا کہ اللہ زندہ مردہ کرتا ہے تو سامنے والے ہٹ دھرم نے نقلی زندہ مردہ کرنے کی مثال دکھا کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تو ابراھیم علیہ اسلام نے اس غلط مثال کا رد کرنے کی بجائے ایک نئی مثال ایسی رکھ دی جس پر اللہ کہتا ہے کہ فبھت الذی کفر یعنی کافر کا منہ ہی بند کر دیا پس ہم بھی اسس مولوی بیزار صاحب کا منہ بند کرنے کے لئے ہم اس مثال کو ہی ایسا بدل دیتے ہیں کہ وہ اعتراض ہی ختم ہو جائے
ہم عدالت کو سائڈ پر رکھ کر پوچھتے ہیں کہ ہم فرض کرتے ہیں کہ ان صاحب نے ہی نہر میں نہانے کی غلطی کی جو دفعہ 144 کے خلاف ہے اب ہم ہی اس سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے ایسا کیوں کیا تو وہ کہتا ہے کہ میں دفعہ 144 کو نہیں مانتا کیونکہ دفعہ 144 کا حکم چیف جسٹس نے نہیں دیا ہوتا اور ہم چیف جسٹس کو حجت مانتے ہیں اور واجب الاطاعت مانتے ہیں تو اس کو میں کہتا ہوں کہ بھئی اس چیف جسٹس کو حجت کس وجہ سے مانتے ہو تو وہ اس وجہ کو بتانے سے ہچکچاتا ہے کیونکہ جانتا ہے کہ چیف جسٹس کو حجت تو اسی قانون نے بنایا ہے جس نے پھر دفعہ 144 کا اختیار بھی ڈی سی او کو دیا ہے پس اگر اس وجہ کو مان لیا گیا تو لا محالہ ڈی سی او کے اختیار کو بھی ماننا پڑے گا پس وہ چیف جسٹس کی ذات کو تو بڑھا چڑھا کا پیش کرتا رہے گا مگر اس وجہ کی طرف نہیں آئے گا جس کی وجہ سے چیف جسٹس کو یہ بڑھوتری ملی

پھر میں بات کرونگا تو آپ کو ہی شکایت ھو گی۔ دور کیا جانا۔ سادہ سی بات ھے کہ رسول کی موجودگی میں اُس پر نازل شدہ وحی اور وہ خود حکم ہیں۔ جب رسول زندہ نہ ھو تو پھر وحی ہی واحد حکم ھوتا ھے۔ پلیز سوچ سمجھ کر پوسٹ لگائیں۔ آپ کا پیش کردہ سارے کا سارا تصور قرآنِ کریم کے خلاف ھے۔ پلیز تحقیق کریں۔ اور اگر ریفرنسز درکار ھوں تو پوچھ سکتے ہیں۔ میں آپ کی مدد کرونگا۔ ثم تتفکرو۔
اب ذرا جہالت کا اندازہ کریں اسکے نزدیک بھی یہ بات طے ہے کہ سب کچھ ہمیں رسول اللہ کی زبان سے پتا چلا ہے یعنی اسی رسول اللہ نے اپنی زبان سے کہا کہ فلاں بات اللہ کی وحی ہے اور اسی رسول اللہ نے اپنی زبان سے کہا فلاں بات میرا حکم ہے
اب اس سے بڑا جاہل بھی بھلا کوئی ہو گا کہ جو یہ کہتا ہے کہ رسول کی موجودگی میں انکا حکم تو حجت ہے مگر غیر موجودگی میں انکا اپنا حکم حجت نہیں رہتا لیکن دوسری طرف وہ یہ کہتا ہے کہ اسی رسول نے اپنے حکم کے علاوہ جو حکم اللہ کی طرف منسوب کیا ہے وہ انکی زندگی کے بعد بھی حکم ہی رہے گا
بھئی اگر اس رسول کی زبان پر اعتبار کر کے ایسا کر رہے ہو تو پھر زبان کا اعتبار تو انکی زندگی کے بعد اگر وحی کے لئے کرو گے تو انکے اپنے حکم کے لئے کیوں نہیں کرو گے
اور اگر یہ اعتبار کسی حکم کی وجہ سے کر رہے ہو کہ وہ رسول ہی کہے کہ اللہ کی وحی تو میری زندگی کے بعد بھی حجت ہو گی مگر میرا حکم میری زندگی کے بعد حجت نہیں ہو گا تو اس پر کوئی دلیل ہی پیش کر دو
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
@عبدہ بھائی منکر الحدیث نے اس کا یہ جواب دیا ہے
باسمِ ربی۔ محترم ٹی صاحب سلامتی و رحمت ھو۔ آپ نے میرے جس کامںٹس کا جواب لا کر دیا ھے۔ اُس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ھے کہ میں نے عقل کی کمی کی بات واضح طور پر لکھی ھے۔ جس کے جواب مین صرف پرویز صاحب کو زیر بحث لایا گیا ھے جو ایک بے عقل انسان ھونے کی دلالت کرتا ھے۔
آپ خود انہیں کامنٹس کو بغور دیکھیں۔ اور اس کو دو تین مرتبہ پڑھیں۔ تو آپ کو اس جواب میں ماسوائے چند الفاظ باقی سب بیوقوفی کی تشہید نظر آئے گی۔ آپ کے علامہ صاحب کی تحریر پیش کر رہا ھوں۔ غور سے بار بار پڑھین۔
" باسمِ ربی۔ محترم ٹی صاحب آپ نے جو تحریر پیش کی ھے یہ کسی ملاں کی لکھی ھوئی ھے۔ کیونکہ اس میں عقل کی کمی واضح ھے۔ عدالت کا یہ تصور وہی دے سکتا ھے۔ جس کو علم نہ ھو یا جو اپنی مرضی کی بات کو پیش کرنے کے لئے اٹکل پچو سے کام لے۔ کبھی ایسا بھی ھوا ھے کہ ملزم جج سے سوال کرتا رھے اور جج پر اپنی مرضی کی بات ٹھونس رہا ھو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواب : محترم ٹی بھائی اسکو کہیں کہ یہ واقعی کسی مولوی کی لکھی ہوئی ہے مگر تم جیسے لوگ کیا جانوں کے مولوی کیا ہوتا ہے جنکو پرویزی کہلانے پر تو اعتراض نہیں ہوتا مگر اپنے آقا پرویز کی طرح کیونکہ ترجمہ پڑھ کر ہی قرآن کی تشریح کرتے ہیں پس مولوی کے لفظ کاہ ی نہیں پتا کہ جس مولوی سکا معنی مولا سے نسبت والا ہے جیسے شافعی سے مراد امام شافعی رحمہ اللہ سے نسبت والا اور حنفی سے مراد ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے نسبت والا یا پرویزی سے مراد پرویز سے نسبت والا
پس جب لوگ نون لیگی اور سندھی اور بلوچی اور پرویزی اور حنفی اور چکڑالوی جیسی نسبتیں رکھ رہے ہوں وہاں مولوی جیسی نسبت تو نصیب والوں کو ہی ملے گی"

آپ نے غور فرمایا کہ یہ صاحب اُن باتوں پر گفتگو کر رھے ہیں۔ جن کا میرے کامنٹس سے کوئی تعلق نہیں ھے۔ خود پسندی و خود سری انسان کو اپنے اعمال احسن بنا کر پیش کرتیں ہیں۔ اسی لئے انسان بغیر علم و عقل بے سر و پا کی باتیں کرتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ قرآنِ کریم مین تتفکرو کو حکم اللہ سے مشروط کر دیا گیا ھے۔ اج یہ لوگ بے سروپا کی باتیں نہ کرتے۔ مجوسی علماء کی اندھی تقلید نہ کرتے۔ تو آج اسلامی معاشرہ دنیا میں ایک نور بن کر چمک رہا ھوتا۔ نہ کہ جملہ معاشرتی بیماریوں کی آماہ جگاہ بنا نظر آتا۔ ہمیں بہت اچھی طرح معلوم ھے کہ ولی کے مادہ و، ل، ی کے کیا معنی ہیں۔ اور یہ ملاں نام کی چیز اسلام میں ایک ناجائز اضافہ ہیں۔ جن کا تلف ھونا ہی اسلام کی صحت کے لئے ضروری ھے۔ یہ چاھے جو مرضی کر لیں۔ میں حلفیہ کہہ سکتا ھوں کہ میں دیکھ رہا ھوں۔ کہ ان کی بقایا زندگی بہت دیر کی نہیں ھے۔ جلد یا بدیر (ممکن ھے کہ میری زندگی میں ہی) ان سب نام نہاد مولویوں کو صفحہ ہستی سے مٹنا ھے۔ ہمارا مقصد کبھی بھی طعن و تشنیع نہیں رہا۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ جیسا نبی کریم سلامً علیہ نے قرآنِ کریم کے مطابق اُمت کو زندگی کی طرف لوٹایا تھا۔ ویسے ہی معاشرہ قائم ھو جائے۔ اور یہ رسمی عبادات کو چھوڑ کر اصل دین کی پیروی کی جائے۔ محترم ٹی صاحب پلیز انصاف سے تحریر کو پڑھا کریں۔ اور پھر اپنے علم کو قرآنِ کریم سے مصدق کرا کر بات کو سمجھنے کی کوشیش کیا کریں۔ ہم قرآنی طلبہء ہمیشہ تصریح کو پیش کرتے ہیں۔ اور رد و قبول پر کبھی اصرار نہیں کرتے۔ اور نہ ہی اپینی بات پر سوال آجانے کے بعد اُس کو درست ثابت کرنے کے لئے پنتیرے بدلتے ہیں۔ جو آپ کے علامہ صاحب کر رھے ہیں۔
................ جاری ھے ...............
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
@عبدہ بھائی
@عبدہ باسمِ ربی۔ محترم ٹی صاحب سلامتی و رحمت ھو۔ آپ نے میرے جس کامںٹس کا جواب لا کر دیا ھے۔ اُس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ھے کہ میں نے عقل کی کمی کی بات واضح طور پر لکھی ھے۔ جس کے جواب مین صرف پرویز صاحب کو زیر بحث لایا گیا ھے جو ایک بے عقل انسان ھونے کی دلالت کرتا ھے۔
آپ خود انہیں کامنٹس کو بغور دیکھیں۔ اور اس کو دو تین مرتبہ پڑھیں۔ تو آپ کو اس جواب میں ماسوائے چند الفاظ باقی سب بیوقوفی کی تشہید نظر آئے گی۔ آپ کے علامہ صاحب کی تحریر پیش کر رہا ھوں۔ غور سے بار بار پڑھین۔
" باسمِ ربی۔ محترم ٹی صاحب آپ نے جو تحریر پیش کی ھے یہ کسی ملاں کی لکھی ھوئی ھے۔ کیونکہ اس میں عقل کی کمی واضح ھے۔ عدالت کا یہ تصور وہی دے سکتا ھے۔ جس کو علم نہ ھو یا جو اپنی مرضی کی بات کو پیش کرنے کے لئے اٹکل پچو سے کام لے۔ کبھی ایسا بھی ھوا ھے کہ ملزم جج سے سوال کرتا رھے اور جج پر اپنی مرضی کی بات ٹھونس رہا ھو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواب : محترم ٹی بھائی اسکو کہیں کہ یہ واقعی کسی مولوی کی لکھی ہوئی ہے مگر تم جیسے لوگ کیا جانوں کے مولوی کیا ہوتا ہے جنکو پرویزی کہلانے پر تو اعتراض نہیں ہوتا مگر اپنے آقا پرویز کی طرح کیونکہ ترجمہ پڑھ کر ہی قرآن کی تشریح کرتے ہیں پس مولوی کے لفظ کاہ ی نہیں پتا کہ جس مولوی سکا معنی مولا سے نسبت والا ہے جیسے شافعی سے مراد امام شافعی رحمہ اللہ سے نسبت والا اور حنفی سے مراد ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے نسبت والا یا پرویزی سے مراد پرویز سے نسبت والا
پس جب لوگ نون لیگی اور سندھی اور بلوچی اور پرویزی اور حنفی اور چکڑالوی جیسی نسبتیں رکھ رہے ہوں وہاں مولوی جیسی نسبت تو نصیب والوں کو ہی ملے گی"

آپ نے غور فرمایا کہ یہ صاحب اُن باتوں پر گفتگو کر رھے ہیں۔ جن کا میرے کامنٹس سے کوئی تعلق نہیں ھے۔ خود پسندی و خود سری انسان کو اپنے اعمال احسن بنا کر پیش کرتیں ہیں۔ اسی لئے انسان بغیر علم و عقل بے سر و پا کی باتیں کرتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ قرآنِ کریم مین تتفکرو کو حکم اللہ سے مشروط کر دیا گیا ھے۔ اج یہ لوگ بے سروپا کی باتیں نہ کرتے۔ مجوسی علماء کی اندھی تقلید نہ کرتے۔ تو آج اسلامی معاشرہ دنیا میں ایک نور بن کر چمک رہا ھوتا۔ نہ کہ جملہ معاشرتی بیماریوں کی آماہ جگاہ بنا نظر آتا۔ ہمیں بہت اچھی طرح معلوم ھے کہ ولی کے مادہ و، ل، ی کے کیا معنی ہیں۔ اور یہ ملاں نام کی چیز اسلام میں ایک ناجائز اضافہ ہیں۔ جن کا تلف ھونا ہی اسلام کی صحت کے لئے ضروری ھے۔ یہ چاھے جو مرضی کر لیں۔ میں حلفیہ کہہ سکتا ھوں کہ میں دیکھ رہا ھوں۔ کہ ان کی بقایا زندگی بہت دیر کی نہیں ھے۔ جلد یا بدیر (ممکن ھے کہ میری زندگی میں ہی) ان سب نام نہاد مولویوں کو صفحہ ہستی سے مٹنا ھے۔ ہمارا مقصد کبھی بھی طعن و تشنیع نہیں رہا۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ جیسا نبی کریم سلامً علیہ نے قرآنِ کریم کے مطابق اُمت کو زندگی کی طرف لوٹایا تھا۔ ویسے ہی معاشرہ قائم ھو جائے۔ اور یہ رسمی عبادات کو چھوڑ کر اصل دین کی پیروی کی جائے۔ محترم ٹی صاحب پلیز انصاف سے تحریر کو پڑھا کریں۔ اور پھر اپنے علم کو قرآنِ کریم سے مصدق کرا کر بات کو سمجھنے کی کوشیش کیا کریں۔ ہم قرآنی طلبہء ہمیشہ تصریح کو پیش کرتے ہیں۔ اور رد و قبول پر کبھی اصرار نہیں کرتے۔ اور نہ ہی اپینی بات پر سوال آجانے کے بعد اُس کو درست ثابت کرنے کے لئے پنتیرے بدلتے ہیں۔ جو آپ کے علامہ صاحب کر رھے ہیں۔
................ جاری ھے ...............
اب ان صاحب کو کون سمجھائے کہ عبور لفظ ان جیسے جاہلین کے لئے کس قدر معیوب ھے۔ کونسی دنیاوی جہالت کی باتوں پر جناب کو عبور حاصل ھے؟
اور موصوف مجھے جانتے ہی کتنا ھے جو فرما رھے ہیں کہ میرے کردار سے وہ کچھ اخذ کر بیٹھے ہیں۔ اگر بگلے کی ایک ٹانگ اُن کو نظر آ رہی ھے تو یہ اُن کی تقلیدی بینائی جو اُن کو بغور دیکھنے نہیں دیتی۔ تقلیدی عقل جو انہیں سوچنے نہیں دییتی اور مجوسی روایات کا تقلیدی ایمان جو انہیں قرآنی حکمت و ہدایت پر ایمان لانے نہیں دیتا کا قصور ھے۔ اُن کی تحریر سے قطعی یہ تاثر نہیں لیا جا سکتا کہ اُن کے پاس کوئِ علم بھی ھے۔ وہ صرف ایک ذہنی مریض مقلد نظر آ رھے ہیں۔ جو اپنی باتوں کے حق میں فضول لفاظی کر کے اُن کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ ذرا نیچے غور فرمائیے کہ اپنی پہلی بات سے انہوں نے کیسے دوسرے گھر میں چھلانگ لگائی ھے۔
............ جاری ھے ............
مزید لکھتے ہیں کہ۔
" مثال میں یہ کہا گیا ہے کہ جج کچھ اور کہ رہا ہے اور قانون کے حجت ہونے اور نہ ہونے میں فرق کو ثابت کر رہا ہے اور وہ ملزم (جو بعینہ منکر حدیث کی طرح ردعمل دکھا رہا ہے) وہ کہ رہا ہے کہ میں جج کی بات کو نہیں مانتا بلکہ میں چیف جسٹس کو ہی حجت مانتا ہوں لیکن یہ چیف جسٹس جس وجہ سے حجت بنا (یعنی آئین وقانون پاکستان) تو اس وجہ کو میں حجت نہیں مانتا کہ اس میں دفعہ 144 بھی کوئی چیز ہوتی ہے اسی طرح منکر حدیث بھی کہتا ہے کہ میں قرآن کی بات کو تو مانتا ہوں مگر قرآن جس وجہ سے حجت بنا یعنی لوگوں کی گواہی تو اس وجہ کو میں حجت نہیں مانتا
پس یہ عدالت کا ماحول خراب کرنے والا تو منکر حدیث ہی ہے اگر وہ عدالت کا ماحول درست کرنا چاہتا ہے تو پہلے قانون تو سمجھے اسی لئے تو عدالت میں بغیر وکیل کے بات نہیں کرنے دیتے ورنہ یہ منکر حدیث تو پتا نہیں ججوں کو کہاں کہاں گھماتے رہتے"

محترم ٹی صاحب آپ اس وضاحت پر غور کریں کہ جج کس کو مقرر کیا جا رہا ھے۔ یعنی رسول اکرم سلامً علیہ کے اُن الفاظ کو جو مجوسی علماء نے خود سے گھڑ کر نام محمد سلامً علیہ سے منسوب کئے ہیں۔ اُس قرآن کو نہیں جو خود کی سچائی کا دعویٰ یہ کرتا ھے کہ اُس کے کسی ایک چیلنج کا جواب دیدو ورنہ تسلیم کر لو کہ میں سچا ھوں۔ وہی قرآن یہ واضح کر رہا ھے کہ مرسلین کے جانے کے بعد اُن کی وحی کردہ تعلیم کو ہی سچا سمجھا جائے اگر وہ کسی شخصیت سے منسوب ھو کر آئے تو ہرگز تسلیم نہ کرو۔ حق و سچ میں یہی یہی بات درست ھےکہ وہ بلواسطہ دی جاتی ھے۔ جو کسی زریعے سے حاصل ھو وہ اُس کا حق و سچ ھو گا۔ مگر اُس کا ہرگز نہیں جو خود نہ دے رہا ھو۔ خیر باقی وضاحت اگلے کامنٹس میں دیکھ لیجئِے گا۔ ثم تتفکرو۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
@عبدہ
آپ کے ملاں رقمطراز ہیں کہ۔

"دوسری بات کہ یہاں مولوی بھی وہ ہے جو تمھاری دنیاوی جہالت کی باتوں پر بھی الحمد للہ عبور رکھتا ہے۔ پس وہ یہاں عدالت کا وہ تصور ہی تمھارے سامنے پیش کر رہا ہے جو تمھارے کردار سے ظاہر ہو رہا ہے پس جسکو سمجھانا ہوتا ہے اسی کے کرادر کو سامنے رکھ کر ہی مثال دی جاتی ہے اور یہاں اس منکر حدیث کے کردار کو سامنے رکھ کر ہی اس مولوی نے مثال دی ہے اسکو نیچے سمجھیں"

پس میرا دوبارہ سوال ہے کہ
×کیا جب ایک چیز کو جس وجہ سے حجت یا واجب الاطاعت بنایا گیا ہو بعینہ وہی وجہ کسی دوسری چیز میں بھی پائی جائے تو کیا دوسری چیز بھی اسی طرح حجت یا واجب الاطاعت نہیں بن جائے گی
× اگر نہیں تو میرا سوال ہے کہ پھر سونامی یا تحریک انصاف کے دھرنے سے کیسے بچیں گے کہ وہ کہیں گے آپ انصاف نہیں کر رہے (ابتسامہ)
محترم ٹی صاحب آپ اس ملاں کے سر پر سو جوتے لگائیں اور پوچھیں کہ کیا ایک شخص کی بات میں فرق ھو تو اُسےکیا کہا جاتا ھے۔ وہ جاہل انسان پس و پیش کریگا۔ میں آپ کو بتاتا ھوں۔ اُس کو منافق کہا جاتا ھے۔ آپ خود سوچیں۔ کیا قرآن اور روایات میں فرق ھے یا نہیں۔ اگر ھے اُن کی جہالت کو اپنا کر کیا ہم آپ سلامً علیہ کو منافق سمجھنا اور دوسروں کو سمجھانا چاہ رھے ہیں۔ نعوذباللہ من ذالک۔
معذرت چاہتا ھوں۔ ان جیسے ذہنوں نے ہی نبی اکرم سلامً علیہ کی عزت و منزلت میں فرق پیدا کرنے کی کوشیش کی ھے ورنہ کس کی مجال ھے کہ قرآن کی موجودگی میں آپ سلامً علیہ کی طرف کوئی غلط بات منسوب کر سکے۔ باقی آپ کے ملاں کے کامنٹس جاہلیت پر مدلل ہیں۔ جس کا جواب دینا ضروری نہیں ھے۔ آپ کہاں اُن بے عقلوں سے جواب لینے چلے جاتے ہیں۔ آپ خود کے دماغ پر بھروسہ نہیں کرنا چاہتے۔ کمال ھے۔ اپنی فنانس، فزکس، طبعیات، نشو و نما، غرض زندگی کے ہر ہر پہلو پر اسی عقل پر بھروسہ کرنے والا انسان قرآن پر غور و فکر کر کے سہی سمت کا تعین کیوں نہیں کر سکتا۔ کیا یہ جاہل ملاں جن کو اپنی زندگیوں کا ذرہ برابر بھی علم نہیں ھوتا۔ آپ کے لئے فیصلے کریں گے۔ آخر کس جرم کی پاداش میں آپ خود کی عقل کو زیرِ عتاب رکھنا چاھتے ہیں۔
یاد رھے کہ رسول کی حیات میں وہ خود اور وحی دونوں حکم ھوتے ہیں۔ کیونکہ رسول خود وحی کی اطاعت و اتباع کرتا ھے۔ جب رسول پردہ پوش ھو جائے تو اُس کی پیش کردہ کتاب وحی ہی واحد اطاعت و اتباع کا درجہ رکھتی ھے۔ اسی وحی کی اطاعت و اتباع سے خدا کی اطاعت و اتباع ھوتا ھے۔ اسی وحی کی اطاعت و اتباع سے رسول کی اطاعت و اتباع ھوتا ھے۔ اگر رسول سے منسوب کر کے کوئی دیگر کتاب تیار کر لی جائے۔ جو خود اپنی زندگی میں وہ رسول مرتب نہ کر کے گیا ھو۔ تو اُسے ہرگز قبول نہیں کرنا چاھئیے۔ کیونکہ اُس کو قبول کرنے سے ہم رسولوں کو اربابِ من دون اللہ بنا لیتے ہیں۔ یعنی ایک طرف خدا کا واضح قانون اُس کی پیش کردہ وحی میں موجود ھوتی ھے۔ تو دوسری طرح رسول سے منسوب کتاب اُس کے مقابل دوسرا حکم سامنے لا رہی ھوتی ھے۔ جو سراسر شرک ھے۔ اگر اس پیراگراف میں کسی بات کی قرآنی شہادت درکار ھو تو پوچھ لینا۔ میری ایک ایک بات قرآنِ کریم سے مصدق ھے۔ ثم تتفکرو۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
@عبدہ
(پھر میں بات کرونگا تو آپ کو ہی شکایت ھو گی۔ دور کیا جانا۔ سادہ سی بات ھے کہ رسول کی موجودگی میں اُس پر نازل شدہ وحی اور وہ خود حکم ہیں۔ جب رسول زندہ نہ ھو تو پھر وحی ہی واحد حکم ھوتا ھے۔ پلیز سوچ سمجھ کر پوسٹ لگائیں۔ آپ کا پیش کردہ سارے کا سارا تصور قرآنِ کریم کے خلاف ھے۔ پلیز تحقیق کریں۔ اور اگر ریفرنسز درکار ھوں تو پوچھ سکتے ہیں۔ میں آپ کی مدد کرونگا۔ ثم تتفکرو۔) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب : اب ذرا جہالت کا اندازہ کریں اسکے نزدیک بھی یہ بات طے ہے کہ سب کچھ ہمیں رسول اللہ کی زبان سے پتا چلا ہے یعنی اسی رسول اللہ نے اپنی زبان سے کہا کہ فلاں بات اللہ کی وحی ہے اور اسی رسول اللہ نے اپنی زبان سے کہا فلاں بات میرا حکم ہے
اب اس سے بڑا جاہل بھی بھلا کوئی ہو گا کہ جو یہ کہتا ہے کہ رسول کی موجودگی میں انکا حکم تو حجت ہے مگر غیر موجودگی میں انکا اپنا حکم حجت نہیں رہتا لیکن دوسری طرف وہ یہ کہتا ہے کہ اسی رسول نے اپنے حکم کے علاوہ جو حکم اللہ کی طرف منسوب کیا ہے وہ انکی زندگی کے بعد بھی حکم ہی رہے گا
بھئی اگر اس رسول کی زبان پر اعتبار کر کے ایسا کر رہے ہو تو پھر زبان کا اعتبار تو انکی زندگی کے بعد اگر وحی کے لئے کرو گے تو انکے اپنے حکم کے لئے کیوں نہیں کرو گے
اور اگر یہ اعتبار کسی حکم کی وجہ سے کر رہے ہو کہ وہ رسول ہی کہے کہ اللہ کی وحی تو میری زندگی کے بعد بھی حجت ہو گی مگر میرا حکم میری زندگی کے بعد حجت نہیں ہو گا تو اس پر کوئی دلیل ہی پیش کر دو۔

محترم ٹی صاحب کیا آپ کا یہ علامہ عاصم منیر ھے۔ اگر نہیں تو جو بھی ھو اُس لعنت کے مارے کو کہہ دیں کہ تم پر خدا کی مار ھو۔ کیوں بے عقلی کی باتیں کرنے سے باز نہیں آتا۔ اگر میں غلط ھوں تو میرے کامںٹس میں آخر میں صاف لکھا ھے کہ ریفرنس مانگ سکتے ھو۔ کیوں نہیں اُس نے ریفرنس مانگے۔ چلیئے میں اُس سے ریفرنس مانگتا ھوں۔ کہ قرآنِ کریم سے ثابت کرے کہ رسول کی پردہ پوشی کے بعد اُس کی اطاعت و اتباع کیسے ھوتا ھے؟ اگر رسول نہ رھے تو اُس کے بعد اُس کا تباع کرنے کا حکم قرآن میں کہاں ھے؟ ثم تتفکرو۔
 
Top