• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکر ِحدیث سے مکالمہ

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محرم @ابن قدامہ بھائی اس میں کچھ تو بغیر دلیل کے خالی بھڑاس نکالی گئی ہے اس پر کیا کہا جا سکتا ہے باقی میرے سوال کے جواب میں جو باتیں لگ رہی ہیں وہ یہاں لکھ دیتا ہوں پہلے آپ اس سے اسکی تصدیق کروا دیں پھر ا پر بات ہو گی
میں بار بار یہ پوچھ رہا ہوں کہ ایک مسلمان یہ کیسے متعین کرتا ہے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے یعنی قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے کے لئے ایک مسلمان کے پاس جو ٹھوس دلائل موجود ہیں وہ پہلے یہاں لکھ دئے جائیں پھر ہم دیکھیں گے کہ اسی طرح کے دلائل کیا حدیث کو حجت ماننے کے بھی ہیں یا نہیں
ظاہر ہے کہ ایک پاگل ہی ہو سکتا ہے جو بغیر کسی دلیل کے کسی چیز کو حجت کہ دے پس پہلے وہ دلائل چاہئیں جنکی بنیاد پر قرآن کو ہم حجت مانتے ہیں

مگر یہ صاحب اسکا جواب نہیں دے رہے حالانکہ میرا اور انکا جھگڑا ہی شروع سے یہی ہے کہ وہ قرآن کو حجت بنانے والے دلائل نہیں بتانا چاہتے اور میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں

اب آپ ان سے مندرجہ ذیل سوال پوچھیں
1۔کیا کوئی عقل والا بغیر کسی دلیل کے کسی چیز کو لائق اتباع سمجھ سکتا ہے
2۔اگر پہلے سوال کا جواب ہاں ہے تو پھر ایسی عقل والے سے میں مزید بات نہیں کرنا چاہتا
3۔اگر پہلے سوال کا جواب نہیں ہے تو پھر میرا سوال ہے کہ ایک منکر حدیث قرآن کو کن کن وجوہات سے لائق اتباع سمجھتا ہے وہ وجویات نمبر وار لکھ دیں تاکہ مزید بات ہو سکے

اسکے علاوہ اس نے جو مندرجہ ذیل بات کی ہے اس پر بھی چند سوالات ہیں

یاد رھے کہ رسول کی حیات میں وہ خود اور وحی دونوں حکم ھوتے ہیں۔ کیونکہ رسول خود وحی کی اطاعت و اتباع کرتا ھے۔ جب رسول پردہ پوش ھو جائے تو اُس کی پیش کردہ کتاب وحی ہی واحد اطاعت و اتباع کا درجہ رکھتی ھے۔اگر اس پیراگراف میں کسی بات کی قرآنی شہادت درکار ھو تو پوچھ لینا۔ میری ایک ایک بات قرآنِ کریم سے مصدق ھے۔ ثم تتفکرو۔
سوالات مندرجہ ذیل ہیں
1۔رسول کے پردہ پوش ہونے سے کیا مراد ہے
2۔کہا گیا ہے کہ رسول کی حیات میں وہ (رسول) خود اور وحی دونوں حکم ہوتے ہیں اب ظاہر ہے یہاں رسول کے خود حکم ہونے سے ایک ہی مراد ہو سکتی ہے کہ رسول کا حکم انکی زندگی میں لائق اتباع ہے کیا یہ تشریح میں نے غلط کی ہے
3۔اگر درست ہے تو پھر بتائیں کہ اگر رسول نے اپنی زندگی میں حکم دیا ہو کہ اے تمام مسلمانوں فجر کی نماز پڑھو اس کے بعد وہ وفات پا گئے ہوں (یا آپ کے مطابق پردہ پوش ہو گئے ہوں) تو اسکے بعد بھی وہ حکم تمام مسلمانوں کے لئے قابل اتباع رہے گا یا نہیں ہاں یا ناں میں جواب دیں مگر ساتھ دلیل قرآن سے عنایت فرما دیں جیسا کہ آپ نے خود ہی لکھا ہے کہ اس پیرے کی ایک ایک بات کی قرآن سے تصدیق کی جا سکتی ہے
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
محرم @ابن قدامہ بھائی اس میں کچھ تو بغیر دلیل کے خالی بھڑاس نکالی گئی ہے اس پر کیا کہا جا سکتا ہے باقی میرے سوال کے جواب میں جو باتیں لگ رہی ہیں وہ یہاں لکھ دیتا ہوں پہلے آپ اس سے اسکی تصدیق کروا دیں پھر ا پر بات ہو گی
میں بار بار یہ پوچھ رہا ہوں کہ ایک مسلمان یہ کیسے متعین کرتا ہے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے یعنی قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے کے لئے ایک مسلمان کے پاس جو ٹھوس دلائل موجود ہیں وہ پہلے یہاں لکھ دئے جائیں پھر ہم دیکھیں گے کہ اسی طرح کے دلائل کیا حدیث کو حجت ماننے کے بھی ہیں یا نہیں
ظاہر ہے کہ ایک پاگل ہی ہو سکتا ہے جو بغیر کسی دلیل کے کسی چیز کو حجت کہ دے پس پہلے وہ دلائل چاہئیں جنکی بنیاد پر قرآن کو ہم حجت مانتے ہیں

مگر یہ صاحب اسکا جواب نہیں دے رہے حالانکہ میرا اور انکا جھگڑا ہی شروع سے یہی ہے کہ وہ قرآن کو حجت بنانے والے دلائل نہیں بتانا چاہتے اور میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں

اب آپ ان سے مندرجہ ذیل سوال پوچھیں
1۔کیا کوئی عقل والا بغیر کسی دلیل کے کسی چیز کو لائق اتباع سمجھ سکتا ہے
2۔اگر پہلے سوال کا جواب ہاں ہے تو پھر ایسی عقل والے سے میں مزید بات نہیں کرنا چاہتا
3۔اگر پہلے سوال کا جواب نہیں ہے تو پھر میرا سوال ہے کہ ایک منکر حدیث قرآن کو کن کن وجوہات سے لائق اتباع سمجھتا ہے وہ وجویات نمبر وار لکھ دیں تاکہ مزید بات ہو سکے
@عبدہ
باسمِ ربی۔ محترم ابن قدمہ صاحب سلامتی و رحمت ھو۔ محترم آپ کے نام نہاد علامہ صاحب کو علمی گفتگو کی تمیز تو ھے نہیں۔ پھر دوسروں کے کامنٹس بھڑاس ہی لگ سکتے ہیں اُن کو۔ ورنہ سامنے والے کی ہر بات کے پیچھے کچھ نہ کچھ حکمت ھوتی ھے۔ جو جاہلین کے سمجھ سے بالا ھوتی ھے۔ اور دیکھنے میں عام مشاہدہ یہی رہا ھے کہ یہ نام نہاد ملاں فطرت لوگ عقل کا اسعتمال کرنے سے ہمیشہ قاصر رھے ہیں۔ ان کے سامنے گریڈ 5 کا بچہ بھی بہتر بات کر پاتا ھے۔ خیر۔ آپ کی پیش کردہ کامنٹس عاصم صاحب جیسے نالائق کے ہیں۔ جس کو نہ تو قرآنِ کریم کی سمجھ ھے اور نہ ہی دین کی۔ یہی وجہ ھے کہ میں بیجا قرآنی آیات کو پیش کر کے اُن کی بیحرمتی نہیں کیا کرتا۔ میرا ایک مختصر نوٹ جو میں نے 2012 میں ایک دوست سے گفتگو کے دوران تحریر کیا تھا۔ پیش کر رہا ھوں۔ مگر اُس نوٹ پر گفتگو آپ کے علامہ صاحب سے شرائط طے کرنے کے بعد ہی کر پاؤنگا۔ تاکہ ہم دونوں ہی اُن شرائط کے پابند ھوں۔ اور وہ شرائط کہیں خارج سے نہیں بلکہ قرآنِ کریم کی آیات کے تحت ہی ھونگیں۔ لہٰذا آپ اپنے نام نہاد علامہ صاحب سے پوچھ لیں اگر وہ اخلاق کے دائرہ میں احکامات الٰہی کی پابندی کرتے ھوئے گفتگو کرنے کی اہلیت رکھتے ھٔوں تو مجھے خوشی ھو گی۔ اس باب میں وضاحت کرنے پر ورنہ میں کسی کی جہالت میں اُس کا ساتھی بننے کو ہرگز تیار نہیں ھوں۔ نوٹ ذیل میں ملاخطہ کیا جا سکتا ھے۔ ثم تتفکرو۔
دِ حدیث میں رسولِ پاک۴ اور صحابہ کبار رضوان اللہ علیھم کا کردار


https://www.facebook.com/notes/asif-bhatti/%D8%B1%D8%AF%D9%90-%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B1%D8%B3%D9%88%D9%84%D9%90-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%DB%B4-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B5%D8%AD%D8%A7%D8%A8%DB%81-%DA%A9%D8%A8%D8%A7%D8%B1-%D8%B1%D8%B6%D9%88%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DA%BE%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%DA%A9%D8%B1%D8%AF%D8%A7%D8%B1/368582333167439
............................... بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ...............................

باسمِ ربی۔ محترم برادر قمر نقیب خان صاحب سلامت رہیں۔ پیش کرنے کو تو ساری زمین اور سارا آسمان بھی پیش کیا جا سکتا ھے۔ مگر دوست علم تو صرف ایک نکتہ کا ھوتا ھے۔ باقی آپ کی اپنی سوچ کے پر ھوتے ہین جو جس قدر غور کر لے وہ اُسی قدر اُونچی اُڑان اُڑ سکتا ھے۔ میں کچھ معرضات پیش کر رہا ھوں شاید آپ کی حجت تمام ھو سکے۔

روایات سے اس بات کا پتہ چلتا ھے کہ قرآنِ کریم کے علاوہ کچھ اور متفرق چیزیں بھی حضور۴ کے ارشاد کے مطابق قلم بند ھوئی تھیں۔ مثلاً وہ تحریری معاہدات، احکام اور فرامین وغیرہ جو آنحضرت۴ نے قبائل یا اپنے عمال کے نام بھیجے۔ لیکن اس باب میں جو کچھ آج تک معلوم ھو سکا ھے وہ فقط اتنا ھے کہ قرآنِ کریم کے علاوہ حضور۴ کی وفات کے وقت صرف حسبِ ذیل تحریری سرمایہ موجود تھا۔

۱۔ پندرہ سو صحابہ رضوان اللہ علیھم کے نام ایک رجسٹر میں

۲۔ مکتوباتِ گرامی جو حضور۴ نے سلاطین و امرأ کو لکھے۔

۳۔ چند تحریری احکام، فرامین اور معاہدات وغیرہ۔

۴۔ کچھ حدیثیں جو حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہہ و حضرت انس رضی اللہ عنہہ نے اپنے طور پر قلم بند کیں۔ ان احادیث کے متعلق نہ تو کہیں سے یہ ثابت ھے کہ حضور۴ نے اُن کی تصدیق فرمائی تھی اور نہ ہی وہ بعد میں اپنی اصلی شکل میں کہیں موجود رہیں۔ لہٰذا رسول پاک۴ نے جو کچھ اُمت کو دیا تھا۔ وہ صرف قرانِ کریم تھا۔ احادیث کا کوئی مجموعہ اُمت کو نہیں دیا گیا۔ خود بخاری شریف مین یہ حدیث موجود ھے کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہہ سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم۴ نے اُمت کے لئے کیا چھوڑا ھے۔ تو آپ نے کہا کہ مَاتَرَکَ اِلّا مَابَینَ الدَّ فُتَیْنِ۔ یعنی حضور۴ نے قرآنِ کریم کے علاوہ اور کچھ نہیں چھوڑا۔

بخاری جلد سوم کتاب فضائل القرآن ص ۴۵

حضور نبی کریم۴ کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم بالخصوص خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم کا عمل ہمارے سامنے آتا ھے۔ مسند امام احمد میں لکھا ھے کہ صحابہ رضوان اللہ علیھم نے فرمایا کہ

ہم لوگ جو کچھ رسول اللہ۴ سے سنا کرتے تھے۔ اسے لکھ لیا کرتے تھے۔ تب ایک دن رسول اللہ۴ ہم لوگوں کے سامنے وارد ھوئے اور فرمایا، کہ کیا ھے جسے تم لوگ لکھ لیا کرتے ھو۔ ہم نے عرض کیا کہ حضور۴ سے جو کچھ ہم سنتے ہیں اسکو لکھ لیا کرتے ہیں۔ تب آپ۴ نے فرمایا کہ کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ دوسری کتاب؟ یعنی ایسا نہیں کرنا چاھئیے۔ پھر فرمایا ستھری کرو۔ خالص رکھو۔ اللہ کی کتاب کو اور ہر قسم کے اشتباہ سے پاک رکھو۔ صحابی رسول کہتے ہیں کہ تب ہم نے جو کچھ لکھا تھا اس کو ایک میدان میں اکٹھا کیا پھر اس کو ہم نے جلا دیا۔

تدوین حدیث ۲۴۹

امام ذہنی نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہہ کے متعلق حسبِ ذیل روایت بھی لکھی ھے جو آپ تبلیغی جماعت کی کتاب کے سرِ ورق پر بھی ملاخطہ کر سکیں گے۔ جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہہ نے فرمایا کہ میرے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو جمع کیا اور ان کی تعداد پانچ سو تھی پھر ایک شب میں دیکھا گیا کہ وہ بہت زیادہ کروٹیں بدل رھے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ آپ یہ کروٹیں کسی جسمانی تکلیف کی وجہ سے بدل رھے ہیں یا کوئی خبر آپ تک پہنچی ھے۔ جسے سن کر آپ بیچین ھو رھے ہیں آپ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ جب صبح ھوئی تو آپ نے فرمایا بیٹی ان حدیثوں کو لاو جو تمہارے پاس ہیں۔ پھر آگ منگائی اور اس نسخہ کو جلا دیا۔ اور وجہ یہ بتائی کہ اس سے اُمت میں فرقوں کی بوُ آتی ھے۔ میں اپنے بعد کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑ کر جانا چاھتا جس سے اُمت فرقوں میں بٹ سکے۔

تبلیغی نصاب ص ۳ اور امام ذہبی کی کتاب تدوینِ حدیث ص ۸۸-۲۸۵

حضرت امام ذہنی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہہ کے متعلق حسب ذیل روایت بھی لکھی ھے۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہہ نے رسول اللہ ۴ کی وفات کے بعد لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ تم لوگ رسول اللہ۴ سے ایسی حدیثیں روایت کرتے ھو جن میں باہم اختلاف کرتے ھو اور تمہارے بعد کے لوگ اختلاف میں زیادہ سخت ھو جائیں گے۔ پس چاھئیے کہ رسول اللہ۴ کی طرف منسوب کر کے کوئی بات نہ بیان کرو۔ پھر اگر تم سے کوئی پوچھے تو کہہ دیا کرو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ھے۔ پس چاھئیے کہ اس کتاب نے جن چیزوں کو حلال کیا ھے۔ ان کو حلال قرار دو۔ اور جن باتوں کو حرام ٹَھہرایا ان کو حرام ٹھہراؤ۔۔۔ تذکرۃ الحفاظ ذہبی بحوالہ تدوینِ حدیٹ ص ۳۲۱

باسمِ ربی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہہ کے بارے میں تو کچھ پوچھئیے ہی مت۔ وہ شہکارِ رسالت تھے۔ اُن کا ایک تاریخ ساز نعرہ آج بھی ہمارے کانوں میں خدا سے محبت کا وہ ترانہ بجاتا ھے۔ جس کی بنا پر اقبال نے کہا تھا کہ

دشت تو دشت کیا صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے

بحرِ ظلمات میں دوڑا دئیے اپنے گھوڑے ہم نے

یہ اُسی محبت ایمانی کا تقاضہ تھا جو آپ نے رسولِ پاک۴ کی کسی نئی وصیت کی بجائے "حسبنا کتاب اللہ" کا عظیم الشان نعرہ بلند کیا۔ جو رسولِ پاک۴ اُمت کو ورثے میں دے کر گئے۔ جس کی گونج پھر ایران و روما کی عظیم الشان سلطنتیں قہرِ الٰہی کی ایسی زد میں آئیں کہ جب تک وہ ختم نہ ھو گئیں۔ یہ گونچ مومنین کے ایمان کا ستارہ بن کر چمکتی رہی اور اس چمک کی فیصل سے وہ عظیم الشان سلطنتیں تخت و تاراج ھوتی رہیں۔ خیر ہم واپس اپنے موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔

علامہ ابنِ عبدالبر نے آپنی مشہور کتاب جامع بیان العلم میں ایک روایت نقل کی ھے۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہہ نے چاہا کہ سنن یعنی حدیثوں کو لکھوا لیا جائے تب انہوں نے رسول اللہ۴ کے صحابیوں رضوان اللہ علہھم سے فتوٰی طلب کیا تو لوگوں نے یہی کہا کہ حدیثیں لکھوا لی جائیں۔

لیکن لوگوں کے اس مشورہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہہ کا قلب مطمئین نہ ھوا۔ چنانچہ کامل ایک ماہ تک حضرت عمر رضی اللہ عنہہ اس معاملہ میں استخارہ کرتے رھے۔ پھر ایک دن جب صبح ھوئی اور اس وقت حق تعالٰی نے فیصلہ میں یکسوئی کی کیفیت ان کے قلب میں عطا کر دی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے لوگوں سے کہا کہ میں نے حدیثوں کو قلم بند کرانے کا ارادہ کیا تھا۔ پھر مجھے ان قوموں کا خیال آیاجو تم سے پہلے گزری ہیں کہ انہوں نے کتابیں لکھیں اور ان پر ٹوٹ پڑیں۔ اور اللہ کی کتاب کو چھوڑ بیٹھیں اور قسم ھے اللہ کی کہ میں اللہ کی کتاب کو کسی دوسری چیز کے ساتھ مخلوط کرنا نہیں چاھتا۔

تروین حدیث ص ۳۹۴

اور یہ اس لیے تھا کہ جیسا کہ خود نبی اکرم۴ نے فرمایا تحا کہ مجھ سے قرآن کے علام کچھ نہ لکھو۔ جس نے قرآن کے سوا کوئی میری بات لکھی ھے تو چاھئیے کہ اسے مٹا دے۔

صحیح مسلم

یہی نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کر دیا کہ حدیث کو جمع اور مدون نہیں کرنا چاھئیے بلکہ وہ ایک قدم آگے بڑھے۔ چنانچہ طبقات میں ھے کہ

حضرت عمر رضی اللہ عنہہ کے زمانے میں حدیثوں کی کثرت ھو گئی۔ تو اپ نے لوگوں کو قسمیں دے دے کر حکم دیا کہ ان حدیثوں کو ان کے پاس پیش کریں۔ حسب الحکم لوگوں نے اپنے مجموعے حضرت عمر رضی اللہ عنہہ کے پاس پیش کر دیئے۔ تب آپ نے انہیں جلانے کا حکم دیا۔

طبقات جلد ۵ ص ۱۴۱۔ تدوین حدیث ص ۳۹۹

یہ کچھ دارالخلافہ میں ھوا۔ اسکے بعد کیا ھوا اس کے متعلق حافظ ابنِ عبدالبر نے جامع بیان العلم میں یہ روایت نقل کی ھے۔

حضرت عمر ابنِ خطاب رضی اللہ عنہہ نے پہلے تو یہ چاہا کہ حدیثوں کو قلم بند کر لیا جائے مگر پھر ان پر واضح ھوا کہ قلم بند کرانا ان کا مناسب نہ ھو گا۔ تب الاحصار یعنی چھاؤنیوں اور دیگر اضلاعی شہروں میں یہ لکھ کر بھیجا کہ جس کے پاس حدیثوں کے سلسلہ کی کوئی چیز ھو، چاھئیے کہ اسے محو کر دے یعنی ضائع کر دے۔

جامع بیان العلم جلد۱ ص ۶۵۔۔۔ تدوینِ حدیث ص ۴۰۰۔

مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم نے اپنی کتاب میں ایک خاص باب باندھا ھے جس کا عنوان ھے قرنِ اول میں حکومت کی طرف سے حفاظت و اشاعتِ حدیث کا اہتمام نہ ھونا کوئی امرِ اتفاق نہیں بلکہ مبنی بر مصلحت ھے۔ انہوں نے اس سے پہلے امام ابنِ حزم کا یہ قول نقل کیا ھے کہ۔

جس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہہ کی وفات ھوئی تو مصر سے لے کر عراق تک اور عراق سے لیکر شام تک اور شام سے لیکر یمن تک قرآنِ کریم کے جو نسخے پھیلے ھوءے تھے ان کی تعداد اگر ایک لاکھ سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہ تھی۔

تدوین حدیث ص ۲۱۶۔

اسکے بعد انہوں نے تفصیل سے لکھا کہ جب قرآنِ کریم کی اشاعت میں اس قدر اہتمام کیا گیا تو اگر حکومت چاہتی تو احادیث میں کون سا امر مانع ھو سکتا تھا۔ انہوں نے کہا ھے کہ حکومت نے دیدہ دانستہ ایسا نہیں کیا تھا ۔

یہ ھے کیفیت صحابہ کبار رضوان اللہ علیھم کے زمانے میں احادیث مرتب کرنے کی یقینی۔ سیر حاصل تفصیلات کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ۔

۱۔ رسول اللہ ۴ نے حکم دیا کہ مجھ سے قرآن کے سوا کچھ نہ لکھو۔

۲۔ صحابہ رضوان اللہ علیھم نے جو احادیث اپنے طور پر لکھی تھیں انہیں انہوں نے حضور۴ کے فرمان کے مطابق جلا دیا۔

۳۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہہ نے اپنے مدون کردہ محموعہ احادیث کو جلا دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ احادیث بیان مت کریں۔

۴۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے ایک ماہ تک غور و خوض کے بعد فیصلہ کیا کہ احادیث جمع اور مدون نہیں کرنی چایئیں۔

۵۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے لوگوں کو قسمیں دے دے کر ان سے احادیث کے مجموعے منگوائے اور انہیں جلا دیا۔

۶۔ اور باقی شہروں میں حکم بھیج دیا کہ اگر کسی کے پاس احادیث لکھی ھوئی ھوں تو وہ انہیں ضائع کر دے اور

۷۔ یہ کچھ اتفاقاً نہیں کیا گیا۔ بلکہ مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم کے الفاظ میں ایسا مبنی بر مصلحت دیدہ دانستہ کیا گیا ھے۔

یہ سلسلہ یہاں پر ہی ختم نہیں ھوا بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے اس باب میں اور بھی شدت سے کام لیا۔ آپ لوگوں کو حدیثوں کی اشاعت سے سختی سے روکتے تھے۔ قزعہ بن کعب رضی اللہ عنہہ راوی ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے ہم کو عراق بھیجا تو ہمیں تاکید کر دی کہ یاد رکھو کہ تم ایسے مقام پر جاتے ھو جہاں کے لوگوں کی آوازیں قرآن پڑھنے میں شہد کی مکھیوں کی طرح گونجتی رہتی ہیں۔ تم ان کو احادیث میں الجھا کر قرآن سے غافل نہ کر دینا۔

حضرت ابو ہریرا رضی اللہ عنہہ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہہ کے زمانے میں بھی حدیثیں بیان کرتے تھے؟ انہون نے کہا کہ اگر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہہ کے زمانے میں اس طرح حدیثیں بیان کرتا تو وہ مجھے دُرے سے پیٹتے۔

یہ بھی روایت ھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود، ابو داؤد اور ابو مسعود انصاری رضوان اللہ علیھم کو کثرتِ روایت کے جرم میں قید کر دیا تھا۔ ان تمام روایات کے لئے دیکھئیے۔ تذکرۃ الحفاظ۔ ممکن ھے ان روایات کی صحت کو محلِ نظر قرار دے دیا جائے۔ حالانکہ ہمارے نزدیک ان کے صحیح ھونے کی دلیل یہ ھے کہ یہ منشائے قرآنی اور عملِ رسولِ پاک۴ کے عین مطابق ہیں۔ بایں ہمہ ہم اس بحث میں الجھے بغیر بھی اندرونی شہادات سے اطمینان حاصل کرتے ہیں کہ خلافتِ راشدہ کے اختتام پر بھی کوئی محموعہ احادیث نہیں ملتا۔ جو ان حضرات نے خود مرتب فرمایا ھو یا اُن کی زیر نگرانی مدون کیا گیا ھو۔

دین ایک ایسی سچائی ھے جس میں ظن و قیاس کی کوئی گنجائش نہیں۔ جس طرح اللہ رب العزت، قرآنِ کریم کے بارے میں پوری عالمِ انسانیت کو چیلنج دیتے ہیں اُسی طرح اُس کے ماننے والوں کو بھی اپنے عقائد پر وہی اعتماد اور فخر ھونا چاھئیے کہ اُس کو دنیائے عالم کے کسی بھی علم سے پرکھا جائے تو یہ خود کو ہر شک و شبہ سے بالا ثابت کرنے میں خود کفیل ھو۔ اگر دین کی بنیاد ظن و قیاس پر رکھ دی جائے تو وہ بادِ مخالف کے دو چار تھپیڑوں کے بعد خود بخود ڈھیر ھو جائے گی۔ جیسا کہ آج کے دور میں مخالفین اسلام ان روایات کے ذریعے اہلِ اسلام کو عقل کے خلاف ثابت کر رھے ہیں۔ اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف بھی۔

قرآنِ کریم میں سورہ الاسراء میں حکمِ ربی ھے کہ

وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ﴿٣٦﴾۔

اورجس بات کی تجھے خبر نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ بے شک کان اورآنکھ اور دل ہر ایک سے باز پرس ہو گی (36)۔

بصارت اور سمجھنے سوچنے کی صلاحیت سب سے اس کے متعلق سوال ھو گا۔ اور مومنین کی خصوصیت یہ بتائی کہ

وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا ﴿٧٣﴾۔

ترجمہ۔۔۔ اور وہ لوگ جب انہیں ان کے رب کی آیتوں سے سمجھایا جاتا ہے تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے (73)۔ بلکہ عقل و فکر سے کام لے کر انہیں قبول اور اختیار کرتے ہیں۔

دین سے متعلق ایک چیز تو یقیناً اپ متفق ھونگے۔ یعنی یہ کہ دین وہی ھو سکتا ھے جو یقینی ھو۔ سورہ یونس میں فرمایا کہ

وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ ﴿٣٦﴾۔

ترجمہ۔۔۔ اور وہ اکثر اٹکل پر چلتے ہیں بےشک حق بات کے سمجھنے میں اٹکل ذرا بھی کام نہیں دیتی بے شک الله جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں (36)۔

اب سوال یہ ھے کہ جن دو اجزا قرآن و حدیث کے مجموعے کا نام دین ھے تو ان میں سے کوئی ظنی تو نہیں؟ اور کیا یہ دونوں اجزأ اللہ اور اسکے رسول۴ نے دین کی حیثیت سے مسلمانوں کو دیئے ہیں؟

قرآنِ کریم کی شہادت خود قرآنِ کریم سے لیجئیے کہ اس کا من جانب اللہ ھونے کی دلیل یہ ھے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ھے۔ سورہ النساء میں وضاحت ھے کہ۔

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿٨٢﴾۔

ترجمہ۔۔۔ کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ قرآن سوائے الله کے کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے (82)۔

اس کتاب مبارک کے زریعے بھیجا جانے والا علم حق ھے۔ سورہ الفاطر میں حکم ھے۔

وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ ﴿٣١﴾۔

ترجمہ۔۔۔ اور یہ کتاب جو ہم نے آپ کے پاس وحی کے طور پر بھیجی ہے یہ بالکل ٹھیک ہے جو کہ اپنے سے پہلی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی پوری خبر رکھنے واﻻ خوب دیکھنے واﻻ ہے (31)۔

عقل والے تو اس آیت سے ہی تمام بات سمجھ سکتے ہیں۔ کہ جو کچھ ھے اسی قرآن کے اندر موجود ھے۔ اس سے باہر کچھ نہیں ۔ اس کتاب عظیم کی ابتدا دوسرے ہی صفحہ پر ان الفاظ سے ھوتی ھے ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ یعینی اس کتاب میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ سراسر حق ھے۔ یقینی ھے۔ ظنی اور قیاسی نہیں۔ ریب و شکوک کی حدود سے بالاتر ھے۔ یہ تو ھے نفسِ کتاب کے متعلق اب یہ کہ یہ یقینی شے مسلمانوں کو ملی کیسے؟ اور ان کے پاس رھے گی کس حیثیت سے۔ سو ظاہر ھے کہ قرآنی کریم حضور۴ پر نازل ھوا اور اسکے متعلق جمع و تدوین کی ذمہ داری خود اللہ تعالٰی نے اپنے اوپر لی۔ سورہ القیامۃ میں فرمایا کہ

إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾۔

ترجمہ۔۔۔ اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے (17)۔

صرف جمع اور تدوین ہی نہیں بلکہ اس بات کی ذمہ داری بھی کہ قیامت تک اس میں کسی قسم کا رد و بدل اور کسی نوعیت کی تحریف و الحاق نہ ھو سکے گا۔ سورہ الحجر میں فرمایا کہ۔

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴿٩﴾۔

ترجمہ۔۔۔ ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں (9)۔

اس حفاظت کو عملی شکل دینے کے لئے جناب رسولِ پاک۴ کو سورہ المائدہ میں ارشاد ھوا کہ۔

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ ﴿٦٧﴾ ۔

ترجمہ۔۔۔ اے رسول جو تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اترا ہے اسے پہنچا دے (67)۔

اور رسولِ کریم۴ نے حرفاً حرفاً وحی خداوندی انسانوں تک پہنچانے کا ایسا شاندار اہتمام کیا کہ آج چودہ سو سال بعد بھی حق حفاظ کے سینوں میں اُسی طرح جگمگاتا نظر آتا ھے اور حدیث یعنی روایات کسی ایک فرد کو بھی ازبر نہیں۔ بلکہ تمام اسلاف سے لیکر آج تک ایک بھی انسان ایسا پیدا نہیں ھوا جو تمام روایات کو من و عن اُسی طرح پڑھ سکا ھو۔ اس کے ساتھ ہی ربِ کریم سے مدعا گذار ھوں کہ ہر پڑھنے والے کے سینے میں حق کی روشنی پیدا فرما۔ تاکہ اُمت اُس کے کلامِ پاک پر اکٹھی ھو کر اپنے اعمال سے دنیاوی جنت کی آبیاری کرنے کے قابل ھو سکے۔

وآخر دعونا أن الحمد لله رب العالمين۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
سوالات مندرجہ ذیل ہیں
1۔رسول کے پردہ پوش ہونے سے کیا مراد ہے
2۔کہا گیا ہے کہ رسول کی حیات میں وہ (رسول) خود اور وحی دونوں حکم ہوتے ہیں اب ظاہر ہے یہاں رسول کے خود حکم ہونے سے ایک ہی مراد ہو سکتی ہے کہ رسول کا حکم انکی زندگی میں لائق اتباع ہے کیا یہ تشریح میں نے غلط کی ہے
3۔اگر درست ہے تو پھر بتائیں کہ اگر رسول نے اپنی زندگی میں حکم دیا ہو کہ اے تمام مسلمانوں فجر کی نماز پڑھو اس کے بعد وہ وفات پا گئے ہوں (یا آپ کے مطابق پردہ پوش ہو گئے ہوں) تو اسکے بعد بھی وہ حکم تمام مسلمانوں کے لئے قابل اتباع رہے گا یا نہیں ہاں یا ناں میں جواب دیں مگر ساتھ دلیل قرآن سے عنایت فرما دیں جیسا کہ آپ نے خود ہی لکھا ہے کہ اس پیرے کی ایک ایک بات کی قرآن سے تصدیق کی جا سکتی ہے
@عبدہ
باسمِ ربی۔ محترم صاحب آپ کے علامہ صاحب کو اگر نہیں معلوم کہ قرآن اللہ کی کتاب ھے تو اُن سے کہیئے کہ بیان سے زیادہ مطالعہ پر زور دیں۔ یہ سوال ایک روایت پرست نام نہاد مسلم ہی کر سکتا ھے کہ کیا قرآن اللہ کی کتاب ھے یا نہیں۔ قرآنِ کریم میں اندرونی اور خارجی ہر قسم کی شہادت موجود ھے۔ اُن سے کہئیے کہ وہ یہاں تشریف لے آئیں اور شرائط طے کر کے پھر سوال کریں۔ اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے قرآنِ کریم کی ایسی ایسی شہادتیں پیش کر سکتا ھوں کہ وہ ایک تو کیا ساری دنیا کے انسان بھی مل کر اُن کا کوئی توڑ نہیں لا سکتے۔ محترم میں بہت لمبے عرصے سے اس قرآن پر ایمان لا چکا ھوں۔ آپ اور آپ کے علامہ کی طرح نہیں بلکہ مکمل تحقیق کے بعد۔ اس لئے مجھے قطعی کوئی شبہ نہیں ھے کہ یہ قرآن اللہ کی کتاب ھے۔ مختصراً ایک نکتہ عرض کر دیتا ھوں کہ
اس کتاب کے اعلانات اور چلنجز کے تحت باہم غیر اختلافی قرآنی مفہوم صرف قرآنِ کریم کو زیب ھے۔ دنیا کی کوئی ایک کتاب بھی اس قسم کی دلیل نہ تو دیتی ھے اور نہ ہی اس کی اہل ھے۔ یہ انسانی ذہن اور وحی کی تعلیم کا بنیادی فرق ھے۔
آپ کے نام نہاد ملاں صاحب کی ایک بات بہت پسند آئی لکھتے ہیں کہ۔
" ظاہر ہے کہ ایک پاگل ہی ہو سکتا ہے جو بغیر کسی دلیل کے کسی چیز کو حجت کہ دے پس پہلے وہ دلائل چاہئیں جنکی بنیاد پر قرآن کو ہم حجت مانتے ہیں"
قائریں ذرا غور فرمایا جائے کہ جناب کی ذہنی حالت کس بھی طور سے صحت مند نظر آتی ھے۔ یہ صاحب قرآن کریم کی حقانیت پر شبہ پیدا کر کے روایات کو حق ثابت کرنا چاھتے ہیں۔ کس قدر جاہل ہیں یہ صاحب۔
محترم ٹی صاحب کیا آپ کے نزدیک قرآنِ کریم متنازعہ ھے۔ اس میں شک و شبہ کی گنجائش ھے۔ اگر آپ کو یا اُن کو ھے۔ تو آپ لوگ اپنے ایمان سے رجوع کرو۔ مجھے قطعی نہیں ھے۔ اس لئے ہم قرآنِ کریم پر بات برھان و دلیل کے لئے حاصل کرینگے۔ چونکہ روایات متنازعہ ہیں۔ اور خلاف قرآن ہیں۔ اس لئے گفتگو کو صرف روایات کی حقانیت تک محدود رکھا جائے تو بہتر ھو گا۔
میں قرآنِ کریم کی حقانیت پر صرف ملحدین اور غیر مسلم سے بات کر سکتا ھوں۔ جو قرآن کریم پر ایمان کا داعی ھو اُس کیساتھ نہیں۔ مسلمانوں کے درمیان تمام مسائل انہی روایات کی وجہ سے ہیں۔ تو ہم بحث صرف روایات کو قرآنِ کریم کی روشنی میں ہی دیکھ سکتے ہیں۔ اور وہیں سے فتویٰ حاصل کر سکتے ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں کہ۔
" مگر یہ صاحب اسکا جواب نہیں دے رہے حالانکہ میرا اور انکا جھگڑا ہی شروع سے یہی ہے کہ وہ قرآن کو حجت بنانے والے دلائل نہیں بتانا چاہتے اور میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں"
اگر آپ کے ملاں کو قرآن کریم کو حجت ثابت کرنے کے دلائل چاہئیں تو وہ اعلان کریں کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ ملحد یا کسی بھی دیگر مذھب سے ہیں تو میں بخوشی جواب دے دونگا۔
موصوف پھر رقمطراز ہیں کہ۔
" اب آپ ان سے مندرجہ ذیل سوال پوچھیں
1۔کیا کوئی عقل والا بغیر کسی دلیل کے کسی چیز کو لائق اتباع سمجھ سکتا ہے
2۔اگر پہلے سوال کا جواب ہاں ہے تو پھر ایسی عقل والے سے میں مزید بات نہیں کرنا چاہتا
3۔اگر پہلے سوال کا جواب نہیں ہے تو پھر میرا سوال ہے کہ ایک منکر حدیث قرآن کو کن کن وجوہات سے لائق اتباع سمجھتا ہے وہ وجویات نمبر وار لکھ دیں تاکہ مزید بات ہو سکے

اسکے علاوہ اس نے جو مندرجہ ذیل بات کی ہے اس پر بھی چند سوالات ہیں"
محترم ٹی صاحب پہلے سوال کا جواب ھے "نہیں" اور
تیسرے سوال کا جواب ھے کہ پہلے حدیث اور روایت میں فرق سمجھ لو پھر الفاظ کا استعمال کرنا۔ اگر وہ روایت اور حدیث کا فرق نہیں جانتے تو اپنی جہالت کی یوں تشہیر مت کریں۔ قرآن حدیث ھے اور روایت تاریخ۔ اور میں پہلے ہی عرض کر چکا ھوں کہ قرآنِ کریم پر بات صرف اُن کا دائرہ اسلام سے خارج ھونے کے بعد بتاؤں گا۔ قرآن متنازعہ نہیں ھے۔ روایات ہیں۔ اس لئے بات صرف روایات پر کی جانی چاھئیے۔ میں نے نوٹ پیش کیا ھے۔ اُس میں اُن کے ایسے سوالات کے جوابات موجود ہیں۔ ثم تتفکرو۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
میرا ایک مختصر نوٹ جو میں نے 2012 میں ایک دوست سے گفتگو کے دوران تحریر کیا تھا۔ پیش کر رہا ھوں۔ مگر اُس نوٹ پر گفتگو آپ کے علامہ صاحب سے شرائط طے کرنے کے بعد ہی کر پاؤنگا۔ تاکہ ہم دونوں ہی اُن شرائط کے پابند ھوں۔
جی گفتگو کی شرط سمجھنے کے لئے میری مندرجہ ذیل باتیں سمجھ لیں
1۔پہلی بات تو ہے کہ ہم نے ثابت کیا کرنا ہے تو یہ بالکل واضح ہے کہ میں نے دلائل سے یہ ثابت کرنا ہے کہ آیا حدیث رسول قابل اتباع ہے کہ نہیں
2۔اب دوسری بات یہ ہے کہ میں حدیث رسول کے قابل اتباع ہونے کے لئے جب کوئی دلیل دوں گا تو سوال یہ پیدا ہو گا کہ کیا وہ دلیل آپ کے ہاں بھی معتبر ہو گی یا نہیں اور جھگڑا یہیں سے شروع ہو گا کہ کون سی دلیل معتبر ہو گی اور کون سی معتبر نہیں ہو گی
3۔اس سلسلے میں یہ میرا دعوی ہے کہ میں حدیث کے قابل اتباع ہونے کی وہ دلیل دینا چاہتا ہوں جو دلیل آپ کے ہاں بھی معتبر ہو لیکن اس سلسلے میں پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ آپ کے ہاں کسی چیز (قرآن وحدیث ) کے قابل اتباع ہونے کے معتبر دلائل کیا ہو سکتے ہیں اب چونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ قرآن کو لائق اتباع مانتے ہیں تو میں یہ بار بار پوچھ رہا ہوں کہ قرآن کے لائق اتباع ہونے کے آپ کی نظر میں کیا دلائل ہیں تاکہ مجھے پتا چل جائے کہ آپ کس طرح کے دلائل کو معتبر سمجھتے ہیں اور میں بھی اسی طرح کے دلائل آپ کے سامنے رکھ سکوں
4۔یہاں یہ یاد رکھیں کہ میں قرآن کے لائق اتباع ہونے کے دلائل اس وجہ سے نہیں مانگ رہا کہ مجھے قرآن پر شک ہے بلکہ میں آپ کا ذہن دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ کس طرح کے دلائل کو معتبر مانتے ہیں تاکہ میں اسی طرح کے دلائل آپ کو دے سکوں
4۔اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ آپ کچھ معتبر دلائل کی وجہ سے ہی قرآن کو لائق اتباع مانتے ہیں جیسا کہ جب میں نے پہلا سوال پوچھا تھا کہ کیا کوئی عقل والا بغیر کسی دلیل کے کسی چیز کو لائق اتباع سمجھ سکتا ہے تو آپ نے اسکا جواب اوپر والی پوسٹ میں دیا ہے کہ نہیں- پس یہ ثابت ہوا کہ آپ بھی قرآن کو کچھ معتبر دلائل کی وجہ سے ہی قابل اتباع سمجھتے ہیں

لہٰذا آپ اپنے نام نہاد علامہ صاحب سے پوچھ لیں اگر وہ اخلاق کے دائرہ میں احکامات الٰہی کی پابندی کرتے ھوئے گفتگو کرنے کی اہلیت رکھتے ھٔوں تو مجھے خوشی ھو گی۔
نو کمنٹ
البتہ یہ شکر ہے کہ ان صاحب نے آخر کار قرآن کے حجت ہونے کے دلائل دینے شروع کر دیئے ہیں اور میری مشکل آسان کر دی ہے اب میں انہیں دلائل کی طرح حدیث کے واجب الاطاعت ہونے کے بھی دلائل دینے کی کوشش میں کامیاب ہو سکتا ہوں
پہلے نیچے انکی پوسٹ کا اقتباس لے کر اپنی طرف سے دلائل کو نمبر لگا دیتا ہوں پھر انکا خلاصہ لکھ دوں گا

1-روایات سے اس بات کا پتہ چلتا ھے کہ قرآنِ کریم کے علاوہ کچھ اور متفرق چیزیں بھی حضور۴ کے ارشاد کے مطابق قلم بند ھوئی تھیں۔ مثلاً وہ تحریری معاہدات، احکام اور فرامین وغیرہ جو آنحضرت۴ نے قبائل یا اپنے عمال کے نام بھیجے۔ لیکن اس باب میں جو کچھ آج تک معلوم ھو سکا ھے وہ فقط اتنا ھے کہ قرآنِ کریم کے علاوہ حضور۴ کی وفات کے وقت صرف حسبِ ذیل تحریری سرمایہ موجود تھا۔------------------

2-دین سے متعلق ایک چیز تو یقیناً اپ متفق ھونگے۔ یعنی یہ کہ دین وہی ھو سکتا ھے جو یقینی ھو۔ سورہ یونس میں فرمایا کہ
وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ ﴿٣٦﴾۔
ترجمہ۔۔۔ اور وہ اکثر اٹکل پر چلتے ہیں بےشک حق بات کے سمجھنے میں اٹکل ذرا بھی کام نہیں دیتی بے شک الله جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں (36)۔
اب سوال یہ ھے کہ جن دو اجزا قرآن و حدیث کے مجموعے کا نام دین ھے تو ان میں سے کوئی ظنی تو نہیں؟ اور کیا

3-یہ دونوں اجزأ اللہ اور اسکے رسول۴ نے دین کی حیثیت سے مسلمانوں کو دیئے ہیں؟

4-قرآنِ کریم کی شہادت خود قرآنِ کریم سے لیجئیے کہ اس کا من جانب اللہ ھونے کی دلیل یہ ھے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ھے۔ سورہ النساء میں وضاحت ھے کہ۔
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿٨٢﴾۔
ترجمہ۔۔۔ کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ قرآن سوائے الله کے کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے (82)۔

5-اس کتاب مبارک کے زریعے بھیجا جانے والا علم حق ھے۔ سورہ الفاطر میں حکم ھے۔
وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ ﴿٣١﴾۔
ترجمہ۔۔۔ اور یہ کتاب جو ہم نے آپ کے پاس وحی کے طور پر بھیجی ہے یہ بالکل ٹھیک ہے جو کہ اپنے سے پہلی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی پوری خبر رکھنے واﻻ خوب دیکھنے واﻻ ہے (31)۔
عقل والے تو اس آیت سے ہی تمام بات سمجھ سکتے ہیں۔ کہ جو کچھ ھے اسی قرآن کے اندر موجود ھے۔ اس سے باہر کچھ نہیں ۔ اس کتاب عظیم کی ابتدا دوسرے ہی صفحہ پر ان الفاظ سے ھوتی ھے ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ یعینی اس کتاب میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ سراسر حق ھے۔ یقینی ھے۔ ظنی اور قیاسی نہیں۔ ریب و شکوک کی حدود سے بالاتر ھے۔
6-قرآنی کریم حضور۴ پر نازل ھوا اور اسکے متعلق جمع و تدوین کی ذمہ داری خود اللہ تعالٰی نے اپنے اوپر لی۔ سورہ القیامۃ میں فرمایا کہ
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾۔
ترجمہ۔۔۔ اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے (17)۔
صرف جمع اور تدوین ہی نہیں بلکہ اس بات کی ذمہ داری بھی کہ قیامت تک اس میں کسی قسم کا رد و بدل اور کسی نوعیت کی تحریف و الحاق نہ ھو سکے گا۔ سورہ الحجر میں فرمایا کہ۔
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴿٩﴾۔
ترجمہ۔۔۔ ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں (9)۔

7-آج چودہ سو سال بعد بھی حق حفاظ کے سینوں میں اُسی طرح جگمگاتا نظر آتا ھے اور حدیث یعنی روایات کسی ایک فرد کو بھی ازبر نہیں۔
پس قرآن کے واجب الاطاعت ہونے کے معتبر دلائل کا خلاصہ یہ ہوا
1۔قرآن کا دور رسالت میں واضح لکھا ہوا ہونا اور باقی چیزوں کا واضح یا مکمل نہ لکھا ہوا ہونا صرف قرآن ہی کے واجب الاطاعت ہونے کی دلیل ہے
2۔قرآن یقینی اور قطعی ہے جبکہ باقی ظنی ہیں پس قطعی ہونا صرف قرآن ہی کے حق ہونے کی دلیل ہے
3۔قرآن کو دین کے طور پر (یعنی حکم یا واجب الاطاعت ہونے کے طور پر) دیا گیا مگر دوسری چیزوں کو دین یا واجب الاطاعت ہونے کے طور پر نہیں دیا گیا پس صرف قرآن ہی واجب الاطاعت ہے
4-صرف قرآن ہی کے واجب الاطاعت ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس میں اختلاف نہیں اور باقی چیزوں میں اختلاف ہے
5-قرآن خود کہتا ہے کہ یہ کتاب بالکل حق ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں پس یہ صرف قرآن کے حق ہونے کی دلیل ہے
6-قرآن خود کہتا ہے کہ اسکی جمع و تدوین و حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں پس یہ صرف قرآن کے حق ہونے کی دلیل ہے
7-قرآن سینوں میں حرف بحرف موجود ہے مگر دوسری چیزیں اس طرح سینوں میں موجود نہیں پس صرف قرآن ہی حق ہوا


محترم ابن قدامہ بھائی آپ پہلے ان اوپر سات پوائنٹ کو ان صاحب سے کلیئر کروا دیں اور انہوں نے کوئی اور معتبر دلیل بھی ایڈ کرنی ہے تو کر لیں تاکہ پھر میں بھی اسی طرح کے ہی دلائل حدیث کے لئے دے سکوں جزاکم اللہ خیرا
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
میں قرآنِ کریم کی حقانیت پر صرف ملحدین اور غیر مسلم سے بات کر سکتا ھوں۔ جو قرآن کریم پر ایمان کا داعی ھو اُس کیساتھ نہیں۔ مسلمانوں کے درمیان تمام مسائل انہی روایات کی وجہ سے ہیں۔ تو ہم بحث صرف روایات کو قرآنِ کریم کی روشنی میں ہی دیکھ سکتے ہیں۔ اور وہیں سے فتویٰ حاصل کر سکتے ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں کہ۔
" مگر یہ صاحب اسکا جواب نہیں دے رہے حالانکہ میرا اور انکا جھگڑا ہی شروع سے یہی ہے کہ وہ قرآن کو حجت بنانے والے دلائل نہیں بتانا چاہتے اور میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں"
اگر آپ کے ملاں کو قرآن کریم کو حجت ثابت کرنے کے دلائل چاہئیں تو وہ اعلان کریں کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ ملحد یا کسی بھی دیگر مذھب سے ہیں تو میں بخوشی جواب دے دونگا۔
اس بارے اوپر وضاحت کی جا چکی ہے کہ یہاں مسئلہ یہ نہیں کہ میں قرآن کو حجت نہیں مانتا بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ
1-مجھے حدیث کو حجت ثابت کرنا ہے
2-اس سلسلے میں نے محسوس کیا کہ جب میں دلائل دوں گا تو ہو سکتا ہے کہ منکر حدیث صاحب کے نزدیک وہ دلائل معتبر ہی نہ ہوں کیونکہ یاد رکھیں دلائل ہونا اور بات ہے اور ان دلائل کا کسی کی نظر میں معتبر ہونا اور بات ہے
3-پس میری نظر میں معتبر دلائل کوئی اور ہو سکتے ہیں اور سامنے والے کی نظر میں کوئی اور
4-پس میں نے سوچا کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا وہ بھی مرا ہوا کی طرح کہیں ایسا نہ ہو کہ میں دلائل دیتا جاوں اور میرے اور میرے فرقے والوں کے ہاں تو وہ معتبر دلائل ہوں مگر سامنے والے کے ہاں وہ اٹکل پچو ہوں پس سوچا کہ سامنے والے کے دلائل کا معیار پہلے معلوم کر لیا جائے
5-پس اسی سلسلے میں جب ان صاحب سے پوچھا کہ کیا کوئی عقل مند بغیر دلائل کے کسی چیز کی اتباع کر سکتا ہے تو کہا گیا کہ نہیں پس ثابت ہوا کہ وہ بھی قرآن کی اتباع کچھ ٹھوس دلائل پر ہی کرتے ہیں پس انکا دلائل کی قبولیت کا معیار معلوم کرنا چاہتا ہوں تاکہ میرے دلائل معتبر جانے جائیں

بس اسی لئے ان سے پوچھا کہ آپ قرآن کو لائق اتباع جو کہتے ہیں تو اس سلسلے میں کس طرح کے دلائل کو پسند کرتے ہیں
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
@عبدہ بھائی
باسمِ ربی۔ محترم قدمہ صاحب سلامتی و رحمت ھو۔ آپ کے عالم صاحب لکھتے ہیں کہ۔
" جی گفتگو کی شرط سمجھنے کے لئے میری مندرجہ ذیل باتیں سمجھ لیں
1۔پہلی بات تو ہے کہ ہم نے ثابت کیا کرنا ہے تو یہ بالکل واضح ہے کہ میں نے دلائل سے یہ ثابت کرنا ہے کہ آیا حدیث رسول قابل اتباع ہے کہ نہیں"
* آپ عالم صاحب کو بتا دیں کہ حدیث رسول سلامً علیہ کا لفظ استعمال نہیں کریں گے۔ کیونکہ روایات کو حدیث کے نام سے پیش کرنے سے الجھن پیدا ھو گی۔ میں قرآنی آیات کو حدیث رسول سمجھتا ھوں۔ اس لئے روایت لکھنا ھو گا۔ اگر وہ بضد ھوں کہ نہیں اُن کو حدیث ہی لکھنا ھے تو پھر اُن کو اس نکتہ پر پہلے بات کرنا ھو گی۔
2۔اب دوسری بات یہ ہے کہ میں حدیث رسول کے قابل اتباع ہونے کے لئے جب کوئی دلیل دوں گا تو سوال یہ پیدا ہو گا کہ کیا وہ دلیل آپ کے ہاں بھی معتبر ہو گی یا نہیں اور جھگڑا یہیں سے شروع ہو گا کہ کون سی دلیل معتبر ہو گی اور کون سی معتبر نہیں ہو گی۔
* اُن کی ہر وہ دلیل قابلِ قبول ھے جو قرآنِ کریم کے خلاف نہ ھو اور قرآن کریم سے مصدق ھو۔ اگر اُن کی بات قرآنِ کریم کے خلاف ھوئی تو وہ درست تسلیم نہیں کی جائے گی۔
3۔اس سلسلے میں یہ میرا دعوی ہے کہ میں حدیث کے قابل اتباع ہونے کی وہ دلیل دینا چاہتا ہوں جو دلیل آپ کے ہاں بھی معتبر ہو لیکن اس سلسلے میں پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ آپ کے ہاں کسی چیز (قرآن وحدیث ) کے قابل اتباع ہونے کے معتبر دلائل کیا ہو سکتے ہیں اب چونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ قرآن کو لائق اتباع مانتے ہیں تو میں یہ بار بار پوچھ رہا ہوں کہ قرآن کے لائق اتباع ہونے کے آپ کی نظر میں کیا دلائل ہیں تاکہ مجھے پتا چل جائے کہ آپ کس طرح کے دلائل کو معتبر سمجھتے ہیں اور میں بھی اسی طرح کے دلائل آپ کے سامنے رکھ سکوں
* آپ اُن کو بتا دیں کہ اگر وہ جانتے ہیں کہ میں قرآنِ کریم کو حجت مانتا ھوں تو اُن کو سوال کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ اوپر بھی یہی سوال اور یہاں بھی وہی سوال، میں بتا چکا ھوں کہ قرآنِ کریم کی آیات کے خلاف نہیں ھونی چاھئیے۔ مجھے قبول ھو گی۔ قرآنِ کریم کے اندر ہی قرآن فہمی کے اصول و قواعد موجود ہیں۔ اگر اُنہیں نہیں معلوم تو جیسےجیسے کوئی دلیل پیش کریں گے۔ اُس کا رد میں قرآنِ کریم سے پیش کرتا جاؤنگا۔ اور وہاں پر اصول و قواعد بھی واضح ھوتے چلے جائیں گے۔
4۔یہاں یہ یاد رکھیں کہ میں قرآن کے لائق اتباع ہونے کے دلائل اس وجہ سے نہیں مانگ رہا کہ مجھے قرآن پر شک ہے بلکہ میں آپ کا ذہن دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ کس طرح کے دلائل کو معتبر مانتے ہیں تاکہ میں اسی طرح کے دلائل آپ کو دے سکوں۔
* بہت اچھی بات ھے۔ کہ آپ کو قرآن کریم پر شک نہیں۔ میں آپ کے یہ کامنٹس یاد رکھوں گا۔ اور وقت آنے پر آپ کو یاد دہانی کرواتا رھونگا۔
4۔اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ آپ کچھ معتبر دلائل کی وجہ سے ہی قرآن کو لائق اتباع مانتے ہیں جیسا کہ جب میں نے پہلا سوال پوچھا تھا کہ کیا کوئی عقل والا بغیر کسی دلیل کے کسی چیز کو لائق اتباع سمجھ سکتا ہے تو آپ نے اسکا جواب اوپر والی پوسٹ میں دیا ہے کہ نہیں- پس یہ ثابت ہوا کہ آپ بھی قرآن کو کچھ معتبر دلائل کی وجہ سے ہی قابل اتباع سمجھتے ہیں
* محترم میرے پاس قرآن کریم کی حقانیت پر پورا قرآن تصدیق کرتا نظر آتا ھے۔ میری زندگی کا اوڑھنا بچھونا صرف قرآن ہی ھے۔ ثم تتفکرو۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
@عبدہ بھائی
باسمِ ربی۔ پھر آپ کے عالم صاحب رقمطراز ہیں کہ۔
" لہٰذا آپ اپنے نام نہاد علامہ صاحب سے پوچھ لیں اگر وہ اخلاق کے دائرہ میں احکامات الٰہی کی پابندی کرتے ھوئے گفتگو کرنے کی اہلیت رکھتے ھٔوں تو مجھے خوشی ھو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جواب نو کمنٹ
البتہ یہ شکر ہے کہ ان صاحب نے آخر کار قرآن کے حجت ہونے کے دلائل دینے شروع کر دیئے ہیں اور میری مشکل آسان کر دی ہے اب میں انہیں دلائل کی طرح حدیث کے واجب الاطاعت ہونے کے بھی دلائل دینے کی کوشش میں کامیاب ہو سکتا ہوں
پہلے نیچے انکی پوسٹ کا اقتباس لے کر اپنی طرف سے دلائل کو نمبر لگا دیتا ہوں پھر انکا خلاصہ لکھ دوں گا"
آپ اُن سے کہہ دیں کہ جناب آپ کو ہر آن قرآنی دلائل ہی ملنے والے ہیں۔ آپ بالکل فکر نہ کریں۔ میں جو کچھ بھی عرض کرونگا وہ صرف قرآنِ کریم سے ہی ھو گا۔ ثم تتفکرو۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
@عبدہ
باسمِ ربی۔ محترم ابن قدمہ صاحب آپ کے عالم صاحب کو یہ کیا پریشانی لاحق ھو گئی کہ پوائینٹ سات ھوں یا ایک سو سات۔ اگر اُن کی کسی وضاحت پر قرآن کریم کی جانب سے کوئی نیا سوال سامنے اتا ھے تو اُن کو یہ کیا پریشانی لاحق ھو گئی ھے۔ اُن سے کہیں کہ پہلے ان سات نکات پر بات کر لیں۔ اگر بات میں جھول ھو گا تو مزید نکات سامنے لائے جا سکتے ہیں۔ سرِ دست وہ ان کا جواب عنایت فرمائیں۔ شکریہ ثم تتفکرو۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

احادیث رسول کی حجت پر بات کرتے ہوے یہ بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ آیا جس کو آپ حدیث رسول کہہ رہے ہیں وہ واقعتاً رسول کا ہی قول ہے؟؟ - کیوں کہ ہمارے اکثر علماء ہر وہ روایت جو احادیث یا صاح ستہ میں پائی جاتی ہے اس کو "حدیث رسول" پر ہی محمول کرتے ہیں - جب کہ احادیث کی کتب میں بے شمار ایسی روایات بھی موجود ہیں جو قول رسول نہیں ہے بلکہ ان کی حیثیت تاریخی ہے یا یہ صحابہ کرام کا ااپنا جتہاد یا کوئی قول ہے - مثال کے طور پر بخاری میں حضرت عائشہ رضی الله عنہ کا قول ہے (جو ہشام بن عروہ سے مروی ہے) کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے نکاح کے وقت میری عمرصرف ٦ سال تھی- اب یہ قول صحیح ہے یا ضعیف لیکن یہ قول عائشہ رضی الله عنہ کا اپنا قول ہے نہ کہ حدیث رسول- لیکن اکثر علماء اس کو بھی حدیث رسول پر ہی محمول کرتے ہیں - اسی طرح کی اور بہت سی روایات احادیث کی کتب میں پائی جاتی ہیں جن کا تعلق اسلامی تاریخ سے ہے جیسے واقعہ سقیفہ بنو سعدہ، جنگ جمل جنگ صفین اور صحابہ کرام کے مشجرات (باہمی اختلاف وغیرہ) - سوال ہے اس کے شواہد تو موجود ہیں کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم تو اپنے اقوال صحابہ کرام سے لکھوا لیا کرتے تھے- یا صحابہ کرام خود آپ کے اقوال نقل کرتے رہتے تھے ان کی دینی اہمیت کے پیش نظر - لیکن نبی کریم کی وفات کے بعد صحابہ کرام کے اپنے اقوال یا اجتہادات نقل کرنے کا اہتمام کون کرتا تھا؟؟- یعنی میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حدیث رسول اور غیرحدیث رسول کا معیار ایک ہی ہے یا مختلف ہے؟؟- جیسے حجت قرآن اور حجت حدیث میں مرتبہ کے لحاظ سے قران پہلے آتا ہے اور احدیث رسول بعد میں- اس طرح بقیہ روایات کا کیا معیار حجت کیا ہے ؟؟ یعنی اگر کوئی صحابہ کرام کی عظمت کی بنا پران کے مابین ہونے والے مشجارات کا انکارکرتا ہے تو کیا وہ بھی منکرین حدیث میں شمار ہو گا ؟؟

اس پر بھی روشنی ڈالیں تو بہتر ہو گا-
جزاک الله ھوا خیراً

@اسحاق سلفی
@عبدہ
@ابن قدامہ
@خضر حیات
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
1۔پہلی بات تو ہے کہ ہم نے ثابت کیا کرنا ہے تو یہ بالکل واضح ہے کہ میں نے دلائل سے یہ ثابت کرنا ہے کہ آیا حدیث رسول قابل اتباع ہے کہ نہیں"
* آپ عالم صاحب کو بتا دیں کہ حدیث رسول سلامً علیہ کا لفظ استعمال نہیں کریں گے۔ کیونکہ روایات کو حدیث کے نام سے پیش کرنے سے الجھن پیدا ھو گی۔ میں قرآنی آیات کو حدیث رسول سمجھتا ھوں۔ اس لئے روایت لکھنا ھو گا۔ اگر وہ بضد ھوں کہ نہیں اُن کو حدیث ہی لکھنا ھے تو پھر اُن کو اس نکتہ پر پہلے بات کرنا ھو گی۔
الفاظ کے تبدیل کرنے پر وقت کیوں ضائع کریں وہ جیسے کہتے ہیں اسی طرح کر لیتے ہیں یعنی
ہم جسکو قرآن کہتے ہیں وہ اسکو حدیث کہنا چاہ رہے ہیں
اور ہم جس کو حدیث کہتے ہیں وہ اسکو روایت کہنا چاہ رہے ہیں
تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہاں یہ یاد رہے کہ ان ناموں کے معنوں کو دلیل کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا

1۔پہلی بات تو ہے کہ ہم نے ثابت کیا کرنا ہے تو یہ بالکل واضح ہے کہ میں نے دلائل سے یہ ثابت کرنا ہے کہ آیا حدیث رسول قابل اتباع ہے کہ نہیں"
* آپ عالم صاحب کو بتا دیں کہ حدیث رسول سلامً علیہ کا لفظ استعمال نہیں کریں گے۔ کیونکہ روایات کو حدیث کے نام سے پیش کرنے سے الجھن پیدا ھو گی۔ میں قرآنی آیات کو حدیث رسول سمجھتا ھوں۔ اس لئے روایت لکھنا ھو گا۔ اگر وہ بضد ھوں کہ نہیں اُن کو حدیث ہی لکھنا ھے تو پھر اُن کو اس نکتہ پر پہلے بات کرنا ھو گی۔

2۔اب دوسری بات یہ ہے کہ میں حدیث رسول کے قابل اتباع ہونے کے لئے جب کوئی دلیل دوں گا تو سوال یہ پیدا ہو گا کہ کیا وہ دلیل آپ کے ہاں بھی معتبر ہو گی یا نہیں اور جھگڑا یہیں سے شروع ہو گا کہ کون سی دلیل معتبر ہو گی اور کون سی معتبر نہیں ہو گی۔
* اُن کی ہر وہ دلیل قابلِ قبول ھے جو قرآنِ کریم کے خلاف نہ ھو اور قرآن کریم سے مصدق ھو۔ اگر اُن کی بات قرآنِ کریم کے خلاف ھوئی تو وہ درست تسلیم نہیں کی جائے گی۔


3۔اس سلسلے میں یہ میرا دعوی ہے کہ میں حدیث کے قابل اتباع ہونے کی وہ دلیل دینا چاہتا ہوں جو دلیل آپ کے ہاں بھی معتبر ہو لیکن اس سلسلے میں پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ آپ کے ہاں کسی چیز (قرآن وحدیث ) کے قابل اتباع ہونے کے معتبر دلائل کیا ہو سکتے ہیں اب چونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ قرآن کو لائق اتباع مانتے ہیں تو میں یہ بار بار پوچھ رہا ہوں کہ قرآن کے لائق اتباع ہونے کے آپ کی نظر میں کیا دلائل ہیں تاکہ مجھے پتا چل جائے کہ آپ کس طرح کے دلائل کو معتبر سمجھتے ہیں اور میں بھی اسی طرح کے دلائل آپ کے سامنے رکھ سکوں
* آپ اُن کو بتا دیں کہ اگر وہ جانتے ہیں کہ میں قرآنِ کریم کو حجت مانتا ھوں تو اُن کو سوال کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ اوپر بھی یہی سوال اور یہاں بھی وہی سوال، میں بتا چکا ھوں کہ قرآنِ کریم کی آیات کے خلاف نہیں ھونی چاھئیے۔ مجھے قبول ھو گی۔ قرآنِ کریم کے اندر ہی قرآن فہمی کے اصول و قواعد موجود ہیں۔ اگر اُنہیں نہیں معلوم تو جیسےجیسے کوئی دلیل پیش کریں گے۔ اُس کا رد میں قرآنِ کریم سے پیش کرتا جاؤنگا۔ اور وہاں پر اصول و قواعد بھی واضح ھوتے چلے جائیں گے۔


4۔اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ آپ کچھ معتبر دلائل کی وجہ سے ہی قرآن کو لائق اتباع مانتے ہیں جیسا کہ جب میں نے پہلا سوال پوچھا تھا کہ کیا کوئی عقل والا بغیر کسی دلیل کے کسی چیز کو لائق اتباع سمجھ سکتا ہے تو آپ نے اسکا جواب اوپر والی پوسٹ میں دیا ہے کہ نہیں- پس یہ ثابت ہوا کہ آپ بھی قرآن کو کچھ معتبر دلائل کی وجہ سے ہی قابل اتباع سمجھتے ہیں
* محترم میرے پاس قرآن کریم کی حقانیت پر پورا قرآن تصدیق کرتا نظر آتا ھے۔ میری زندگی کا اوڑھنا بچھونا صرف قرآن ہی ھے۔ ثم تتفکرو۔
یہاں میں نے اوپر لکھا تھا کہ آپ کے ہاں کون سی دلیل معتبر ہو گی تو آپ نے کہا کہ قرآن کی آیت تو میں اسکی بات نہیں کر رہا
دیکھیں میں نے اوپر جب یہ لکھا تھا کہ کیا منکر روایت قرآن کو حجت بغیر کسی دلیل کے مانتا ہے تو انہوں نے کہا تھا کہ نہیں بلکہ کچھ ٹھوس دلائل کی وجہ سے ہی قرآن کو ھجت مانتا ہے تو میں نے کہا تھا کہ مجھے وہی دلائل دکھا دئے جائیں میں انہیں کے طرح کے دلائل کو پیش کر کے حدیث کو حجت ثابت کروں گا مگر مجھے وہ دلائل نہیں بتائے جا رہے
پس بات تو تب ہی ہو سکتی ہے جب
1-یا تو وہ تسلیم کریں کہ قرآن کو حجت ہم بغیر کسی دلیل کے تسلیم کرتے ہیں اور باقی ساری چیزوں کو صرف اسی کے ذریعے اب ثابت کیا جائے گا
2-یا پھر وہ جب تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کے حجت ہونے کے کچھ ٹھوس دلائل ہیں تو وہی دلائل اگر روایت کے لئے بھی موجود ہوں تو پھر تو روایت کو بھی حجت تسلیم کرنا چاہئے

پس خالی قرآن کو معیار کس دلیل پر بنا رہے ہیں جس دلیل کی بنیاد پر آپ خالی قرآن کو معیار بنا رہے ہیں آپ وہ دلیل ہی خالی یہاں لکھ دیں میں الحمد للہ اسی طرح کی دلیل سے حدیث کو بھی معیار ثابت کر دوں گا

لیکن یہ بات یاد رہے کہ یہاں خالی قرآن کو معیار بنانے کی یہ دلیل نہ لکھ دیں کہ یہ ہمارے اور تمھارے درمیان مشرک ہے کیونکہ کسی چیز کا دو گروہوں میں مشترک ہونا اس بات کی بالکل دلیل نہیں ہوتا کہ دونوں گروہ اسکے اکیلے معیار ہونے پر بھی متفق ہیں
مثلا اگر کوئی گروہ کل کو کھڑا ہو جائے اور وہ قرآن کے صرف پہلے پارے کو مانتا ہو اور باقیوں کو نہ مانے تو اس صورت میں ہمارے اور تمھارے اور اس تیسرے گروہ کے درمیان تو صرف پہلا پارہ ہی مشترک ہو گا تو اگر وہ اسی کو دلیل بنا کر کہے کہ پہلا پارہ کیونکہ مشترک ہے پس صرف یہی معیار ہے آپ باقی پارے اسی ایک پارے سے ثابت کریں گے تو ٹھیک ورنہ باقی پارے غلط ہو جائیں گے تو کیا آپ اسکی اس دلیل کو درست مان لیں گے
پس سب سے پہلے ہمیں قرآن کے حجت ہونے کیدلیل دیں یاتسلیم کریں کہ آپ اسکو بغیر دلیل ہی حجت مانتے ہیں پھر ہم بھی وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کو حدیث کے حجت ہونے کی بالکل اسی طرح دلیل دیں گے
 
Top