باسمِ ربی۔ محترم ابن قدمہ صاحب آپ کے عالم صاحب کو فضول کامنٹس کرنے کا بڑا شوق ھے۔
جی سوال چنا ہو تو جواب چنا ہی ہو گا باجرہ تو نہیں دیا جا سکتا
اختلاف کا مطلب اختلاف ھے خواہ وہ لفظی ھو یا حقیقی اور قرآن کریم کا یہ چیلنج لفظی یا حقیقی کی تخصِص کیساتھ نہیں دیا گیا۔ بلکہ ہر قسم کے اختلاف سے متعلق ھے۔
چلئیے اُن سے کہئیے کہ وہ مجھے قرآن کریم میں کوئی ایک اختلاف ثابت کر دیں؟ پہلے ہم اُن کا ایمان قرآن کریم پر تو مکمل کر لین۔ پھر روایات کو اُس معیار پر پورا کر دیں۔ شاید یہ عمل اُن کے لئے آسان ھو جائے۔ ثم تتفکرو۔
جی اگر آپ کا یہ دعوی ہے کہ قرآن میں لفظی اختلاف بھی نہیں تو یہ درست نہیں اسکی مثال نیچے لکھتا ہوں
قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَماً مَّسْفُوحاً أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقاً أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ
یہاں کہا گیا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم انکو کہ دو کہ میری طرف جو کچھ بھی وہی کیا گیا ہے (یعنی تمام وحی) اس میں ان چار چیزوں کے علاوہ کوئی چیز کھانے والے کے لئے حرام نہیں رکھی گئی
یعنی اس آیت میں لفظی اور ظاہری طور پر یہ حصر سے بات کی گئی ہے کہ مجھے جو کچھ بھی وحی کیا گیا ان میں ان چار چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز حرام نہیں کی گئی ہے
یہاں یہ بات تھوڑی سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ جب الا نفی کے سیاق میں آئے تو اس سے حصر پیدا ہوتا ہے جیسے لا الہ الا اللہ یعنی کوئی بھی اور الہ نہیں مگر اللہ
اسی طرح کہ کوئی بھی اور وحی نہیں کی گئی حرام ہونے کے سلسلے میں مگر ان چار چیزوں کے حرام ہونے کے سلسلے میں
اب اس آیت کے لفظی معنی کے برعکس دوسری جگہ اور بھی چیزیں خود قرآن میں حرام کی گئی ہیں
یہ پہلا لفظی اختلاف ہے باقی بعد میں