مصدر تلقی اور منہج تلقی میں فرق نہ کرنا
بہت سارے لوگ مصدر تلقی اور منہج تلقی میں فرق نہیں کرتے ۔چنانچہ اگر انہیں کہا جائے تم نے دین کا فہم کہاں سے حاصل کیا ہے ؟ وہ جواباً کہتے ہیں ''قرآن و حدیث '' سے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رہتی دنیا تک حق کا پیمانہ قرآن و حدیث کے سوا اورکوئی نہیں ہے مگر یہاں سوال کی نوعیت مختلف ہے ۔زیادہ واضح کرنے کے لیے ہم سوال یوں رکھ دیتے ہیں کہ :''آپ نے قرآن و حدیث کو کہاں سے سمجھا ہے ؟''
آخر قرآن وحدیث کو سمجھنے کابھی تو کوئی ذریعہ ہوگا ؟
یہ ذریعہ یہاں کے درسی نصاب ہیں ؟
تنظیمی لٹریچر ہے ؟
اسٹال پر فروخت ہونے والی کتب اور رسائل ہیں ؟
جلسے اور پروگرام ہیں ؟
تقریری اور تحریری مناظرے ہیں ؟
ادیبوں اور شاعروں کا کلام ہے ؟
''ذاتی مطالعہ' ' ہے؟
ریڈیو اور ٹی وی کی دینی نشریات ہیں ؟
اخبارات کے ''روحانی ایڈیشن '' ہیں ؟ ... یا پھر منہج سلف ؟
جو صرف علمائے اہل سنت کے ہاں سے ہی ملتا ہے۔ یاد رہے ہمارا مقصد کسی''لٹریچر'' یا ''تقریر و تحریر '' کی افادیت کم کرانا نہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ لٹریچر ،نصاب ،پروگرامز جن سے ہم جڑیں ہیں اُن کے بارے میں یہ دیکھنا ہے کہ وہ 'سلف ' سے کس قدر جوڑتے ہیں او ر اپنے آپ سے کس قدر ۔؟
قرآن و حدیث دین کا اصل مصدر ہیں ۔بلکہ دین ہیں ۔یہ بات ہر بحث اور شبہ سے بالا تر ہے ۔اس کے سوا رب تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے رسول ﷺ پر کچھ نہیں اتارا۔دین کا یہ منبع محکم ہے اور اپنے آپ میں انتہائی واضح ۔ مگر پھر بھی اس کی ''تفسیر '' اور ''بیان '' ایک باقاعدہ علم ہے اور اس علم کو درست طور پر جاننے اور سمجھنے والے تاریخی طور پر کچھ متعین لوگ ہیں۔
کیا سب لوگ قرآن و حدیث کوایک ہی طرح سمجھ سکتے ہیں ؟سچ تو یہ ہے کہ درست مراجع اور صحیح ضوابط نہ ہوں تو قرآن و حدیث کو صحیح معنوں میں سمجھا بھی نہیںجا سکتا ۔یہ درست مرجع اور علم فہم سلف کا نام ہے جس کے بغیر اس دین کو سمجھنا گمراہی کے دروازے کھولنا ہے ۔ آیات اور احادیث کے فہم اور تطبیق کے بارے میں جب بعض لوگوں کو صحابہ اور سلف کے راستے کی پابند ی کرنے کو کہا جاتا ہے تووہ جواب دیتے ہیں:' 'ہم ان کی بات کیوں مانیں ،وہ کوئی نبی تو نہیںہیں؟''حقیقت یہ ہے کہ سلف اور ائمہ کے اقوال کا اللہ اور اس کے رسول کے قول سے مقابلہ نہیں بلکہ وہ اللہ اور رسولﷺ کے فرامین کا فہم حاصل کرنے کا ذریعہ ہیںاس بات کو خود اللہ اور اُس کے رسول نے بیان فرمایا ہے ۔
نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا اسی حقیقت کو بیان کرتی ہے :
﴿صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ۷ۧ ﴾ (الفاتحۃ:۷)
''ہمیں اُن کی راہ چلا جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان کی جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ گمراہوں کی ۔''