حافظ راشد
رکن
- شمولیت
- جولائی 20، 2016
- پیغامات
- 116
- ری ایکشن اسکور
- 29
- پوائنٹ
- 75
منہج کالغوی معنیٰ: منہج عربی زبان میں ایسے راستے کے لئے بولا جا تا ہے جس کے اندر تین خصوصیات پائی جائیں۔ (۱)وضاحت (۲) ظہور (۳) سیدھا ہونا ۔اسی سے ایک دوسرا لفظ ’’منہاج ‘‘ اسی معنی کے لئے آتا ہے جس کو قرآن نے بھی استعمال کیا ہے ۔ فرمایا:{ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا } (المائدہ:۴۸) ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت میں منہاج کی تفسیر ’’سبیل اور سنۃ‘‘ سے کی ہے ۔اور سبیل و سنۃ دونوں کا معنی راستہ ہوتا ہے۔ ( المنھج السلفی :۱۰)
منہج کی اصطلاحی تعریف: منہج دراصل ایسے قواعد کو کہتے ہیں جو علمی مطالعہ کی کسی بھی محنت کو محکم کر دیتے ہیں ۔ مثلاً :عربی زبان کے قواعد ، تفسیر ، فقہ اور عقیدہ کے اصول منہج کہلائیں گے ۔ اس کی جویہ ہے کہ یہ علوم اسلام کا مطالعہ اور اسلام کے اصولوں کو منضبط اور مرتب کردیتے ہیں۔ (منھج الاستدلال :۲۰)
تعریف کی تشریح: منہج ایک طرح سے کسی بھی چیز کے اصول و ضوابط کا نام ہے اگر اسلام کے مطالعہ میں عربی زبان کے قواعد تفسیر ، فقہ ،حدیث وغیرہ کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے مطالعے میں اسلام کا منہج بھی پیش نظر رہا ہے ۔
منہج کی اہمیت: منہج کی اہمیت کو درجہ ذیل نکات سے سمجھا اور جانا جا سکتا ہے :
۱۔منہج اول تو علم کی حفاظت کرتا ہےاور اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ منہج کے ذریعہ علم کا نظام درست ہونے کے ساتھ اس کا میدان کشادہ ہو جاتا ہے ۔ اور اہل علم سطحیت سے نکل کر ایک معیار پا لیتے ہیں ۔
۲۔ منہج انسانی عقل اور ذہن سے تعلق رکھنے والے امور کوطے شدہ اصولوں کا پابند بناتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہےکہ مطلوب موضوعات کی حقیقت تک رسائی ہو جاتی ہے۔
۳۔منہج انسانی فکر کو ایک محور پرمرکوز کر دیتا ہے یوں انسانی فکرکسی بھی شۓ کو مکمل شرح و بسط ، نئے تسلسل اور نمایاں اسلوب میں بیان کرنے کی پابند ہوجاتی ہے ۔
منہج کی اقسام: اب تک ہم نے یہ جان لیا کہ منہج وہ عمل ہے جو کسی کام کا راستہ زاویہ اور اسلوب بتلاتا ہے ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو منہج کی کئی اقسام بھی ہیں یہاں بعض قسموں کا اجمالی ذکر کیا جارہا ہے ۔
(۱) دعوتی منہج : افکارو نظریات کو دوسروں تک منتقل کرنے کے لئے جو اسلوب اپنایا جاتا ہے اسے دعوتی منہج کہا جاتا ہے ۔ اس باب میں ہر جماعت اور گروپ جداگانہ منہج رکھتا ہے ۔ سلف کا منہج قرآن و سنت کو میزان بتاتا ہے جب کہ دوسرے لوگ عقل کو مناظرہ اور دعوت کی روح مانتے ہیں ۔
(۲) علمی منہج : اس کا تعلق کسی جماعت یا تنظیم سے نہیں بلکہ ہر اس شخص سے ہےجو لکھنے اور بولنے سے جڑا ہوا ہے یاوہ شخص لکھی اور بولی جا نے والی چیز میں فن کی رعایت اور خود موضوع کے تمام اصول و قواعد کو اپنانے کا اہتمام کرتا ہے تو کہا جائے گا اس کا منہج علمی ہے ۔ اس کے بر عکس ہونے پر سطحیت اور کم علمی وغیرہ تعبیرات اس پر صادق آئیں گی۔
(۳) تربیتی منہج : اس سے مراد سکھلانے اور پڑھانے ،مشق و تمرین کرانے کا طریقہ ہوتا ہے آج کل تعلیم و تعلم کے بہت سے مناہج ہیں کسی کا ہدف قرآن و سنت ہے کسی کا مقصد تصوف ، جبکہ کوئی قدیم اور فرسودہ مذاہب و ادیان کی تقلیدانہ روش کو اپناتاہے تو کوئی موجودہ ملحدانہ سسٹم کو عمل میں لاتا ہے ۔
(۴) فکری منہج : کسی بھی جماعت ، تنظیم ، اور انسان کے نظریات ، افکار اور ذہنی سوچ کا جو دھارا اور رخ ہے اسے فکری منہج سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
یہ قسم دوسری اقسام کی بنسبت زیادہ وسعت رکھتی ہے کیوں کہ اس میں عقائد اور سلوکیات بھی شامل ہیں ۔ اسلامی تاریخ میں جتنے بھی فرق اور تحریکات پیدا ہوئیں ان کے عقائد خواہ صحیح ہوں یا غلط ساری چیزوں کو فکری منہج ہی سے تعبیر کیا جاتا تھا ۔
منہج کی اس قسم میں کئی مناہج آتےہیں :
ے•سلفی منہج : جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔
ے•کلامی اور اعتزالی منہج
ے•صوفی منہج
ے•خارجی اور انحرافی منہج
منہج سلف کا مفہوم: منہج سلف سے مراد وہ راستہ ہے جس پر چل کر تابعین ، تبع تابعین اور ان کے بعد کے ائمہ سلف تمام باطل فرقوں سے الگ اور ممتاز رہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { وَأَنَّ هٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ذَالِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ } ’’کہ یہی سیدھا راستہ ہے تم اسی کی پیروی کرو اس کے علاوہ کسی اور راستے کی پیروی نہ کرو اگر تم نے اس کے علاوہ راستہ کی پیروی کی تو سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے ۔ میں تمہیں اسی چیز کی وصیت کرتا ہوں تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ‘‘۔ (سورۃ الانعام : ۱۵۳)
اسی طرح سے اللہ کےرسول ﷺکا فرمان ہے :عن عبد الله بن مسعود قال : خط لنا رسول الله صلى الله عليه و سلم خطا ثم قال هذا سبيل الله ثم خط خطوطا عن يمينه وعن شماله ثم قال هذه سبل قال يزيد متفرقة على كل سبيل منها شيطان يدعو إليه ثم قرأ { إن هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله } ابن مسعود رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ہمارے لئے ایک خط کھینچا پھر کہا کہ یہ اللہ کا راستہ ہے پھر اس خط کے دائیں بائیں کئی خطوط کھینچے اور کہا یہ مختلف راستوں میں ہر راستے پہ شیطان بیٹھا ہے جو اس کی طرف بلا رہا ہے پھر اللہ کے رسول ﷺ نے یہ آیت پڑھی :{و أن هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله}(مسندأحمدبن حنبل:۱؍۴۳) ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں ایک حدیث ذکر کی ہے۔ أبان بن عثمان کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ صراط مستقیم کیا ہے ؟تو آپ نے کہا محمد ﷺ نے ہم کو ایک کنارہ پر چھوڑا ہے جس کا کونہ جنت میں جاتا ہے جسکے دائیں بائیں بہت سے راستے ہیں ان راستوں پر کچھ لوگ ہیں جو وہاں سے گزرنے والے تمام لوگوں کو بلاتے ہیں جس نےدائیں بائیں والے کسی بھی راستے کو اختیار کیا وہ جہنم میں جائے گا اور جس نے صراط مستقیم کو اختیار کیا وہ اس کے ساتھ جنت تک جائے گا پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت کی : {وأن هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله }( تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر نے ذکر کیا ہے )۔
اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے : ’’ تركتكم على البيضاء ليلها كنهارها لا يزيغ عنها بعدي الا هالك ‘‘کہ میں نے تم کو روشن شاہراہ پر چھوڑا ہے جس کا دن بھی رات کی طرح ہے جس سے صرف ہلاک ہونے والا ہی اعراض کر سکتا ہے ۔ (مسندأحمدبن حنبل:۴؍۱۲۶)
سلف کی لغوی تعریف: ’’ سَـــلَـــفَ يَـــسْـــلُــــفُ سَـــلَـــفَــاً و سُــلُـــوْفًا‘‘= آگے جانا ۔اسی سے ’’سالف ‘‘ہے جس کا معنی ہے آگے گزرنے والا ۔ گویا آدمی کے آبا و اجداد اور جو اس سے پہلے گزر گئے اس کے سلف ہوئے۔
غرض عربی زبان میں سلف آگے بڑھ جانے ، پہلے آنے اور زمانہ کے اعتبار سے سبقت کرنے کے معنی میں آتا ہے ۔جیسے آبا و اجداد ہمارے ’’سلف‘‘ ہیں کیوں کہ یہ ہم سے پہلے آئے ، اسی طرح سے اگر کوئی قوم سفر کررہی ہے توجو لوگ آگے چلنے والےہیں پیچھے والوں کے سلف کہلائینگے ۔کیوں کہ آگے والے لوگ چلنے میں سبقت کر گئے ۔ اسی طرح سے کھانے میں ابتدائی چیزیں جو کھائی جاتی ہیں ان کو ’’سلفہ‘‘ کہا جاتا ہے کیوں کہ انہیں دوسرے کھانوںکے مقابلے پہلے کھایا گیا ۔(منہج السلف :۲۸)
سلف کے تین اہم اطلاقات:
۱۔آگے جانا :قرآن میں لفظ سلف آٹھ مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے اور ان تمام مقامات پر اللہ نے لفظِ سلف آگے نکل جانے کے معنیٰ میں استعمال کیا ہے۔
حدیث میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے لیکن حدیث میں اس معنی کے علاوہ دو اور معانی کے لئے آیا ہے ۔
۲۔قرض: ’’أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلاً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ سَأَلَ بَعْضَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يُسْلِفَهُ أَلْفَ دِينَارٍ‘‘اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے ایک آدمی نے کسی اسرائیلی ہی سے کہا کہ اسے وہ ایک ہزار قرض دے دے۔ خود اللہ کے رسول ﷺ نےبھی ذاتی طور پر قرض کے لئے لفظ’’ سلف‘‘ کہا ہے۔(صحيح البخاري ـ حسب ترقيم فتح الباري:۳؍۱۲۴) اور مذکورہ حدیث بھی در حقیقت اللہ کے رسول کے استعمال کا پتہ دیتی ہے۔
۳۔ بیع سلم کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث ہے ۔
’’فَقَالَ مَنْ سَلَّفَ فِي تَمْرٍ فَلْيُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ‘‘. اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : کہ جو شخص بیع سلم کرے تو چاہئے کہ معلوم وزن اور معلوم ناپ میں بیع کرے۔ (صحيح البخاري ـ حسب ترقيم فتح الباري:۳؍۱۱) یہا ں پر’’ سلف‘‘ سے مراد بیع سلم ہے ۔
سلف کی اصطلاحی تعریف: ان تینوں صدیوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جنہیں اللہ کے رسول ﷺ نے ’’خیر القرون‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے ۔ انہیں لوگوں کو عام طور پرسلف صالحین کےلفظ سے یاد کیا جاتا ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ -صلى الله عليه وسلم- :’’خَيْرُ أُمَّتِى الْقَرْنُ الَّذِينَ يَلُونِى ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ‘‘آپ ﷺ کا فرمان ہے : سب سے بہتر زمانہ میرا زمانہ ہے پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہونگے پھر وہ لوگ جو ان سے ملے ہوئے ہونگے۔(صحيح مسلم ـ مشكول وموافق للمطبوع:۷؍۱۸۴) یہاں مراد صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین ہیں ۔
لیکن اسی دور کے گمراہ فرقے خوارج ، رافضہ،قدریہ، اشعریہ، مرجئہ ، معتزلہ اور جہمیہ اس فضیلت میں شمار نہیں ہونگے کیوں کہ انہوں نے دین اسلام میں بدعات ایجاد کیں اور صفات الٰہیہ میں ایسی غلطیاں کیں جس کی بنا پر وہ صراط مستقیم سے بہت دور ہو گئے ۔البتہ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ عام گفتگو میں یا تحریر وں میں بھی جو لوگ اسلاف کے منہج پر چلے انہیں بھی سلف لکھا اور بولاجاتا ہے ۔ بہت سارے لوگ اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کے سبب متعدد قسم کے اعتراضات کرنے لگتے ہیں ۔
سلفیت کیا ہے ؟ لفظ ’’سلفیت ‘‘صفت بیان کرتا ہے یعنی سلف والی صفات اور سلف والا طریقہ کسی کے اندر پایا جائے تو کہیں گے کہ اس کے اندر سلفیت ہے ۔
ے گویاسلفیت وہ منہج ہے جس پراللہ کے رسول ﷺ اور قرون مفضلہ کے لوگ قائم رہے اور جس کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِى قَائِمَةً بِأَمْرِ اللّٰهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ أَوْ خَالَفَهُمْ حَتّٰى يَأْتِىَ أَمْرُ اللّٰهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ عَلَى النَّاسِ ‘‘.’’میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ حق پر قائم رہے گا جو کوئی انہیں نقصان پہنچانا چاہے گا انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے گا اور وہ اسی طرح قائم رہے گا ‘‘۔ (صحيح مسلم ـ مشكول وموافق للمطبوع :۶؍۵۳)
ے یہ وہ منہج ہے جس پر سلف صالح کا اعتماد رہا ہے اور جس پر وہ اپنے عقائد ، معاملات ، احکام، تربیت ، دعوت ،اور تزکیہ نفس پر چلے ۔ دین کے حصول ، اس کی فہم ، اس پر عمل اور دعوت کا یہی منہج اللہ کے اس قول کے مصداق ہے ۔{وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُون َ}’’ہماری مخلوق میں ایک ایسی جماعت بھی ہے جو دین حق کی رہنمائی کرتی ہے اور اسی کے ذریعہ انصاف کرتی ہے‘‘ ۔ (سورہ : الاعراف : ۱۸۱)
خلاصہ : مختصر لفظوں میں سلفیت کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے : کہ سلفیت نام ہے پورے دین کو تسلیم کرنے ، اس کو سمجھنے ،اس پر عمل کرنے اوراس کی دعوت دینے میں قرون مفضلہ کے صالحین کا طریقہ اختیار کرنے کا ۔
سلفی کون ہیں ؟ ہر وہ شخص جو عقیدہ، شریعت، اخلاق اور دعوت کے اعتبار سے سلف کے منہج پر ہو وہ سلفی ہے ۔ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’إن السلف هم أهل القرون المفضلة ،فمن اقتفى أثرهم و سار على منهجهم فهو السلفي، و من خالفهم في ذلك فهو من الخلف‘‘’’ کہ قرون مفضلہ کے لوگ سلفی تھے اور جو شخص ان کی پیروی کرے اور ان کے طریقہ پر چلے تو اس کا شمار بھی سلفی میں ہوگا اور جو ان کی مخالفت کرے اس کا تعلق خلف سے ہوگا ۔‘‘ نیز محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’السلفية هي أتباع منهج النبيﷺ و أصحابه ، لأنه من سلفنا ، الذين تقدموا علينا ، فأتباعهم هو السلفية‘‘’’ سلفی ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اللہ کے رسول ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کے طریقہ پر زندگی گزارتے ہیں ، کیوں کہ وہ ہمارے سلف تھے جو ہم سے پہلے گزر چکے پس ان کی اتباع کرنے والے سلفی ہیں ۔‘‘(اصول منہج السلف اصحاب الحدیث: ۱۷)
سلفیت کے نام اور اس کے اوصاف: سلفیت کے بہت سے نام ہیںکچھ نام ذیل میں دئے جارہے ہیں :
۱: اہل السنہ و الجماعۃ : یہاں اہل سنت سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے اندر چار چیزیں پائی جائیں:
۱: اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے اصحاب کی اقتدا۔
۲: حق پر جمع ہونا جس پر کتاب وسنت دلالت کرتے ہوں ۔
۳: اس منہج پر چلنا جو در حقیقت اللہ کا دین ہے جس کو اللہ نے نبی ﷺ کے ذریعہ بھیجا ہے اور جس پرآپ کے اصحاب اور تابعین اور تبع تابعین ثابت رہے۔
۴:مسلم حاکم وقت کی اطاعت کرنا۔
۲: اہل الحدیث : ہر شخص جس نے علم عمل کا مرکز نبی کی سنت بنا رکھا ہو۔
امام أحمد طائفہ منصورہ کے بارے میںکہتے ہیں : اگر وہ اہل حدیث نہیں ہیں تو میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں۔
عبد اللہ بن مبارک طائفہ منصورہ کے بارے میں کہتے ہیں : میرے نزدیک اس سے مراد اہل حدیث ہیں ۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: کہ اہل حدیث سے میں ان لوگوںکو مراد نہیں لیتا جو لوگ اپنے سماع ، کتابت اور روایت پر اعتماد کرتے ہیں بلکہ میری مراد ان لوگوں سے ہے جو ان کو اچھی طرح سے حفظ کرنے ، جاننے اور سمجھنے والے ہوں بلکہ ظاہری اور باطنی طور پر اس پر عمل کرنے والے ہوں ۔علامہ ابن تیمیہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ اہل الحدیث سے مرادصرف محدثین نہیں ہیںجیسا کہ آج کل یہ مغالطہ عام کیا جارہا ہے ۔ بلکہ اہل الحدیث سے مراد محدثین حدیث سے شغف رکھنے والے اور حدیث پر عمل کرنے والے سبھی ہیں۔
۳: سواد أعظم : اس سے مراد اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے دین کی پیروی کی ۔ اس لئے ان کی اتباع ضروری ہے کیوں کہ جس طریقہ سے انہوں نے دین کو سمجھا ، جانا اور عمل کیا ہے اسی طرح سے ہمیں بھی اپنی زندگی گزارنی ہے ۔اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے :عن ابن عمر :’’ أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال إن الله لا يجمع أمتي أو قال أمة محمد صلى الله عليه و سلم على ضلالة ويد الله مع الجماعة‘‘۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے :’’کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: میری امت ضلالت پر جمع نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کاہاتھ جماعت کے ساتھ ہے ‘‘۔ (سنن الترمذي شاكر + ألباني :۴؍۴۶۶)
۴:فرقہ ناجیہ : یہ نام اللہ کے رسول ﷺ کی ایک حدیث کے مفہوم سے لیا گیا ہے ۔
عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : ’’افْتَرَقَتِ الْيَهُودُ عَلٰى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ، فَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ ، وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ ، وَافْتَرَقَتِ النَّصَارٰى عَلٰى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ، فَإِحْدَى وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ ، وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَتَفْتَرِقَنَّ أُمَّتِي عَلٰى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ، وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ ، وَثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ ، قِيلَ : يَا رَسُولَ اللهِ ، مَنْ هُمْ ؟ قَالَ : الْجَمَاعَةُ‘‘.
عوف بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’ یہود اکہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے ایک فرقہ جنت میں اور ستر فرقے جہنم میں جائیں گے ۔ نصاریٰ بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے ایک جنت میں اور باقی جہنم میں ۔ اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے میری امت میں تہتر فرقے ہوگے بہتر جہنم میں اور ایک فرقہ جنت میں جائے گا ۔ کہا گیا اے اللہ کے رسو ل: وہ کون لوگ ہیں: تو آپﷺ نے فرمایا : جماعت ‘‘۔ (سنن ابن ماجة ـ محقق ومشكول:۵؍۱۲۸)
۵: طائفہ منصورہ: اس نام کی دو وجہ ہے :
پہلی وجہ : اللہ اس گروہ کی مدد اور تائید کرتا ہے ۔
دوسری وجہ : یہ گروہ حق کی مدد کر نے والا اور اس پر آنے والی مصیبتوں کا دفاع کرنے والا ہے ۔
اور یہ دونوں معانی صحیح ہیں ان کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے ۔ اللہ کے رسول کی حدیث ہے :
عن ثوبان قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم:’’ إنما أخاف على أمتي الأئمة المضلين قال وقال رسول الله صلى الله عليه و سلم لا تزال طائفة من أمتي على الحق ظاهرين لا يضرهم من يخذلهم حتى يأتي أمر الله‘‘۔
ثوبان رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہتے ہیں : اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : کہ میں اپنی امت میں گمراہ کرنے والے ائمہ سے ڈرتا ہوں ۔ میری امت میں ایک جماعت ایسی ہو گی جو حق پر رہے گی ان کو ان کی مخالفت کرنے والے کچھ بھی نقصان نہیں پہچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے ۔ (سنن الترمذي – شاكر + ألباني:۴؍۵۰۴)
۶: غرباء: اس سے مرادوہ وقت ہے جس میں مسلمان تعداد کے اعتبار سے کم تھے ۔ لیکن وہ حق پر تھے اسی حق پر ہونے کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں چھا گئے۔ یہ نام اللہ کے رسول ﷺ کے قول سے اخذ کیا گیا ہے ۔عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ -صلى الله عليه وسلم:’’ بَدَأَ الإِسْلَامُ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيبًا فَطُوبٰى لِلْغُرَبَاءِ ‘‘. ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اسلام غربت اور اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا اور عنقریب اسی اجنبیت اور غربت کی طرف لوٹ آئے گا ۔ تو غربا ءکے لئے خوشخبری ہے‘‘ ۔ (صحيح مسلم ـ مشكول وموافق للمطبوع:۱؍۹۰)
منہج سلف کیوں ضروری ؟ سلف کی اتباع ضروری ہے اس میں کسی کو اختیار نہیں ہوسکتا۔یہ دراصل شریعت کے دوسرے واجبات ہی کی طرح ہے۔کچھ دلیلیں مندرجہ ذیل ہیں :
قرآن کی دلیل: اللہ کا فرمان ہے : { وَمَن يُّشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا }’’اور جو حق کے واضح ہونے کے بعد اللہ کے رسول ﷺ سے دشمنی کرتا اور مسلمانوں کے راستہ کے علاوہ کی پیروی کرتا ہے ہم اس کو اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھر گیا ہے اور ہم اس کو جہنم میں ڈال دیں گے اور جہنم بہت برا ٹھکانا ہے‘‘ ۔ (سورۃ النساء :۱۱۵)
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ’’ مومنوں کی راہ کے علاوہ کوئی اور راہ اختیار کرنا در حقیقت رسول کی مخالفت ہے کیوں کہ کبھی تو شارع کی طرف سے منصوص اور انکار ہوتا ہے اور کبھی اختلاف اس چیز کے سلسلے میں ہوتا ہے جس پر امت متفق ہوتی ہےاور اس میں ان کا اتفاق معلوم اور ثابت شدہ ہوتا ہے۔(تفسیر ابن کثیر ) امر واقعہ بھی یہی ہے کہ سلف کا منہج ہی ہماری کامیابی کاضامن ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :{ وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَالِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ}’’اور جو انصار و مہاجرین سب سے آگے نکل جانے والے ہیں ، اوروہ لوگ جنہوں نے نیک کاموں میں ان کی پیروی کی وہ اللہ سے راضی ہیں اور اللہ ان سے راضی ہے ۔ اللہ نے ان کے لئے جنت تیار کر رکھی ہے جس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے ۔یہ بہت بڑی کامیابی ہے‘‘۔(سورہ توبہ : ۱۰۰)
اس آیت میں اللہ نے صحابہ کرام کے راستہ کی تعریف کی ہے اور ان کے لئے بہترین بدلہ کا ذکر کیا ہے ۔اس میں دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے توان کے راستے سے بھی راضی ہے اوراللہ جس چیز سے راضی ہے وہی ہماری اتباع ہے۔
سنت سے دلیل:
۱: ’’خَيْرُ أُمَّتِى الْقَرْنُ الَّذِينَ يَلُونِى ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘۔’’آپ ﷺ کا فرمان ہے : سب سے بہتر زمانہ میرا زمانہ ہے پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہونگے پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہونگے‘‘۔ (صحيح مسلم ـ مشكول وموافق للمطبوع :۷؍۱۸۴) اس سے مراد صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین ہیں ۔
۲: ’’ فإِنَّهُ مَنْ يَّعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِى فَسَيَرٰى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘.اللہ کےرسول ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:’’ کہ تم لوگوں میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ایسی صورت میں تمہارے اوپر میری اورہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کا التزام ضروری ہے ۔تم اس کو اپنے دانتوں سے اچھی طرح سے پکڑ لو اورنئی نئی چیزوں سے بچو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔ (سنن أبي داؤدـ محقق وبتعليق الألباني :۴؍۳۲۹)
وجہ استدلال: ان دونوں حدیثوں میں صحابہ کرام اور تابعین اور ان کے منہج کی فضیلت کے سلسلے میں دلالت موجود ہے ۔ یہ فضیلت بتاتی ہےکہ اختلاف اور افتراق کے وقت انہیں کا منہج ہمارے لئے ضروری ہے۔
سلف کے اقوال سے دلیل: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’اتبعوا و لاتبتدعوا، فقد كفيتم ، كل بدعة ضلالة‘‘ ’’تم لوگ اتباع کرو ابتداع (نئی چیزیں ایجاد )مت کرو تمہارے پاس جو ہے وہ کافی ہے، ہر بدعت گمراہی ہے ‘‘۔
اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’اصبر على السنة ، و قف حيث وقف القوم ، و قل بما قالوا و كفوا عما كفوا عنه و اسلك سبيل سلفك الصالح ، فإنه يسعك ما وسعهم‘‘ ’’سنت پر صبر کرو اور وہاں رک جاؤجہاں سلف رک گئے۔اوروہی کہو جو انہوں نے کہا ۔اور ان چیزوں سے رک جاؤجن سےوہ لوگ رک گئے اور سلف صالحین کے طریقہ پر چلو کیو ں کہ جو چیزان کے لئے کافی اور کشادہ رہی تمہیں بھی کافی اور کشادہ ہوگی ‘‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا :’’عليك بآثار من السلف و إن رفضك الناس ، و إياك و آراء الرجال و إن زخرفوا لك بالقول فإن الأمر ينجلي و أنت منه على صراط المستقيم‘‘’’ سلف کے آثار پر تم چلو گر چہ لوگ آپ کو دھتکار دیں، اور لوگوں کی آرا اپنانے سے بچیں ان کے انداز کتنے ہی دل کش کیوں نہ ہوں کیوں کہ معاملہ واضح ہے اورتم اس حوالے سے سیدھی راہ پر ہو‘‘۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے :’’ إن الله نظر في قلوب العباد فوجد قلب محمد صلى الله عليه و سلم خير قلوب العباد فاصطفاه لنفسه فابتعثه برسالته ثم نظر في قلوب العباد بعد قلب محمد فوجد قلوب أصحابه خير قلوب العباد فجعلهم وزراء نبيه يقاتلون على دينه‘‘۔’’کہ اللہ نے بندوں کے دلوں کی طرف دیکھا تو محمد ﷺ کے دل کو سب سے اچھا پایا، سو آپ ﷺ کو اللہ نے اپنے لئے چن لیا اورخلعت رسالت دے کر مبعوث فرمایا پھر اللہ نے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو اصحاب محمد کے دلوں کو محمد ﷺ کے دل کے بعد بندوں کے دلوں میں سب سے اچھا پایا سو اللہ نے ان کو اپنے نبی کا وزیر بنا دیا ان لوگوں نے ان کے دین کی حفاظت کے لئے قتال کیا ‘‘۔ ( مسندأحمدبن حنبل:۱؍۳۷۹)۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : لَا عَيْبَ عَلٰى مَنْ أَظْهَرَ مَذْهَبَ السَّلَفِ وَانْتَسَبَ إلَيْهِ وَاعْتَزَى إلَيْهِ بَلْ يَجِبُ قَبُولُ ذَالِکَ مِنْهُ بِالِاتِّفَاقِ . فَإِنَّ مَذْهَبَ السَّلَفِ لَا يَكُونُ إلَّا حَقًّا .جو مذہب سلف کااظہار کرے اور اس کی طرف اپنی نسبت کرے تو اس کے لئے کوئی عیب نہیں ہے بلکہ اس کو متفقہ طور پر قبول کرنا ضروری ہے کیوں کہ مذہب سلف ہی حق مذہب ہے ۔ ( مجموع الفتاوى:۴؍۱۴۹)
قرآن اور احادیث کے نصوص نیز علما ء کے اقوال سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ منہج سلف کی ابتاع ضروری ہے ۔
منہج کی اصطلاحی تعریف: منہج دراصل ایسے قواعد کو کہتے ہیں جو علمی مطالعہ کی کسی بھی محنت کو محکم کر دیتے ہیں ۔ مثلاً :عربی زبان کے قواعد ، تفسیر ، فقہ اور عقیدہ کے اصول منہج کہلائیں گے ۔ اس کی جویہ ہے کہ یہ علوم اسلام کا مطالعہ اور اسلام کے اصولوں کو منضبط اور مرتب کردیتے ہیں۔ (منھج الاستدلال :۲۰)
تعریف کی تشریح: منہج ایک طرح سے کسی بھی چیز کے اصول و ضوابط کا نام ہے اگر اسلام کے مطالعہ میں عربی زبان کے قواعد تفسیر ، فقہ ،حدیث وغیرہ کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے مطالعے میں اسلام کا منہج بھی پیش نظر رہا ہے ۔
منہج کی اہمیت: منہج کی اہمیت کو درجہ ذیل نکات سے سمجھا اور جانا جا سکتا ہے :
۱۔منہج اول تو علم کی حفاظت کرتا ہےاور اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ منہج کے ذریعہ علم کا نظام درست ہونے کے ساتھ اس کا میدان کشادہ ہو جاتا ہے ۔ اور اہل علم سطحیت سے نکل کر ایک معیار پا لیتے ہیں ۔
۲۔ منہج انسانی عقل اور ذہن سے تعلق رکھنے والے امور کوطے شدہ اصولوں کا پابند بناتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہےکہ مطلوب موضوعات کی حقیقت تک رسائی ہو جاتی ہے۔
۳۔منہج انسانی فکر کو ایک محور پرمرکوز کر دیتا ہے یوں انسانی فکرکسی بھی شۓ کو مکمل شرح و بسط ، نئے تسلسل اور نمایاں اسلوب میں بیان کرنے کی پابند ہوجاتی ہے ۔
منہج کی اقسام: اب تک ہم نے یہ جان لیا کہ منہج وہ عمل ہے جو کسی کام کا راستہ زاویہ اور اسلوب بتلاتا ہے ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو منہج کی کئی اقسام بھی ہیں یہاں بعض قسموں کا اجمالی ذکر کیا جارہا ہے ۔
(۱) دعوتی منہج : افکارو نظریات کو دوسروں تک منتقل کرنے کے لئے جو اسلوب اپنایا جاتا ہے اسے دعوتی منہج کہا جاتا ہے ۔ اس باب میں ہر جماعت اور گروپ جداگانہ منہج رکھتا ہے ۔ سلف کا منہج قرآن و سنت کو میزان بتاتا ہے جب کہ دوسرے لوگ عقل کو مناظرہ اور دعوت کی روح مانتے ہیں ۔
(۲) علمی منہج : اس کا تعلق کسی جماعت یا تنظیم سے نہیں بلکہ ہر اس شخص سے ہےجو لکھنے اور بولنے سے جڑا ہوا ہے یاوہ شخص لکھی اور بولی جا نے والی چیز میں فن کی رعایت اور خود موضوع کے تمام اصول و قواعد کو اپنانے کا اہتمام کرتا ہے تو کہا جائے گا اس کا منہج علمی ہے ۔ اس کے بر عکس ہونے پر سطحیت اور کم علمی وغیرہ تعبیرات اس پر صادق آئیں گی۔
(۳) تربیتی منہج : اس سے مراد سکھلانے اور پڑھانے ،مشق و تمرین کرانے کا طریقہ ہوتا ہے آج کل تعلیم و تعلم کے بہت سے مناہج ہیں کسی کا ہدف قرآن و سنت ہے کسی کا مقصد تصوف ، جبکہ کوئی قدیم اور فرسودہ مذاہب و ادیان کی تقلیدانہ روش کو اپناتاہے تو کوئی موجودہ ملحدانہ سسٹم کو عمل میں لاتا ہے ۔
(۴) فکری منہج : کسی بھی جماعت ، تنظیم ، اور انسان کے نظریات ، افکار اور ذہنی سوچ کا جو دھارا اور رخ ہے اسے فکری منہج سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
یہ قسم دوسری اقسام کی بنسبت زیادہ وسعت رکھتی ہے کیوں کہ اس میں عقائد اور سلوکیات بھی شامل ہیں ۔ اسلامی تاریخ میں جتنے بھی فرق اور تحریکات پیدا ہوئیں ان کے عقائد خواہ صحیح ہوں یا غلط ساری چیزوں کو فکری منہج ہی سے تعبیر کیا جاتا تھا ۔
منہج کی اس قسم میں کئی مناہج آتےہیں :
ے•سلفی منہج : جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔
ے•کلامی اور اعتزالی منہج
ے•صوفی منہج
ے•خارجی اور انحرافی منہج
منہج سلف کا مفہوم: منہج سلف سے مراد وہ راستہ ہے جس پر چل کر تابعین ، تبع تابعین اور ان کے بعد کے ائمہ سلف تمام باطل فرقوں سے الگ اور ممتاز رہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { وَأَنَّ هٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ذَالِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ } ’’کہ یہی سیدھا راستہ ہے تم اسی کی پیروی کرو اس کے علاوہ کسی اور راستے کی پیروی نہ کرو اگر تم نے اس کے علاوہ راستہ کی پیروی کی تو سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے ۔ میں تمہیں اسی چیز کی وصیت کرتا ہوں تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ‘‘۔ (سورۃ الانعام : ۱۵۳)
اسی طرح سے اللہ کےرسول ﷺکا فرمان ہے :عن عبد الله بن مسعود قال : خط لنا رسول الله صلى الله عليه و سلم خطا ثم قال هذا سبيل الله ثم خط خطوطا عن يمينه وعن شماله ثم قال هذه سبل قال يزيد متفرقة على كل سبيل منها شيطان يدعو إليه ثم قرأ { إن هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله } ابن مسعود رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ہمارے لئے ایک خط کھینچا پھر کہا کہ یہ اللہ کا راستہ ہے پھر اس خط کے دائیں بائیں کئی خطوط کھینچے اور کہا یہ مختلف راستوں میں ہر راستے پہ شیطان بیٹھا ہے جو اس کی طرف بلا رہا ہے پھر اللہ کے رسول ﷺ نے یہ آیت پڑھی :{و أن هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله}(مسندأحمدبن حنبل:۱؍۴۳) ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں ایک حدیث ذکر کی ہے۔ أبان بن عثمان کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ صراط مستقیم کیا ہے ؟تو آپ نے کہا محمد ﷺ نے ہم کو ایک کنارہ پر چھوڑا ہے جس کا کونہ جنت میں جاتا ہے جسکے دائیں بائیں بہت سے راستے ہیں ان راستوں پر کچھ لوگ ہیں جو وہاں سے گزرنے والے تمام لوگوں کو بلاتے ہیں جس نےدائیں بائیں والے کسی بھی راستے کو اختیار کیا وہ جہنم میں جائے گا اور جس نے صراط مستقیم کو اختیار کیا وہ اس کے ساتھ جنت تک جائے گا پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت کی : {وأن هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله }( تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر نے ذکر کیا ہے )۔
اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے : ’’ تركتكم على البيضاء ليلها كنهارها لا يزيغ عنها بعدي الا هالك ‘‘کہ میں نے تم کو روشن شاہراہ پر چھوڑا ہے جس کا دن بھی رات کی طرح ہے جس سے صرف ہلاک ہونے والا ہی اعراض کر سکتا ہے ۔ (مسندأحمدبن حنبل:۴؍۱۲۶)
سلف کی لغوی تعریف: ’’ سَـــلَـــفَ يَـــسْـــلُــــفُ سَـــلَـــفَــاً و سُــلُـــوْفًا‘‘= آگے جانا ۔اسی سے ’’سالف ‘‘ہے جس کا معنی ہے آگے گزرنے والا ۔ گویا آدمی کے آبا و اجداد اور جو اس سے پہلے گزر گئے اس کے سلف ہوئے۔
غرض عربی زبان میں سلف آگے بڑھ جانے ، پہلے آنے اور زمانہ کے اعتبار سے سبقت کرنے کے معنی میں آتا ہے ۔جیسے آبا و اجداد ہمارے ’’سلف‘‘ ہیں کیوں کہ یہ ہم سے پہلے آئے ، اسی طرح سے اگر کوئی قوم سفر کررہی ہے توجو لوگ آگے چلنے والےہیں پیچھے والوں کے سلف کہلائینگے ۔کیوں کہ آگے والے لوگ چلنے میں سبقت کر گئے ۔ اسی طرح سے کھانے میں ابتدائی چیزیں جو کھائی جاتی ہیں ان کو ’’سلفہ‘‘ کہا جاتا ہے کیوں کہ انہیں دوسرے کھانوںکے مقابلے پہلے کھایا گیا ۔(منہج السلف :۲۸)
سلف کے تین اہم اطلاقات:
۱۔آگے جانا :قرآن میں لفظ سلف آٹھ مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے اور ان تمام مقامات پر اللہ نے لفظِ سلف آگے نکل جانے کے معنیٰ میں استعمال کیا ہے۔
حدیث میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے لیکن حدیث میں اس معنی کے علاوہ دو اور معانی کے لئے آیا ہے ۔
۲۔قرض: ’’أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلاً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ سَأَلَ بَعْضَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يُسْلِفَهُ أَلْفَ دِينَارٍ‘‘اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے ایک آدمی نے کسی اسرائیلی ہی سے کہا کہ اسے وہ ایک ہزار قرض دے دے۔ خود اللہ کے رسول ﷺ نےبھی ذاتی طور پر قرض کے لئے لفظ’’ سلف‘‘ کہا ہے۔(صحيح البخاري ـ حسب ترقيم فتح الباري:۳؍۱۲۴) اور مذکورہ حدیث بھی در حقیقت اللہ کے رسول کے استعمال کا پتہ دیتی ہے۔
۳۔ بیع سلم کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث ہے ۔
’’فَقَالَ مَنْ سَلَّفَ فِي تَمْرٍ فَلْيُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ‘‘. اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : کہ جو شخص بیع سلم کرے تو چاہئے کہ معلوم وزن اور معلوم ناپ میں بیع کرے۔ (صحيح البخاري ـ حسب ترقيم فتح الباري:۳؍۱۱) یہا ں پر’’ سلف‘‘ سے مراد بیع سلم ہے ۔
سلف کی اصطلاحی تعریف: ان تینوں صدیوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جنہیں اللہ کے رسول ﷺ نے ’’خیر القرون‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے ۔ انہیں لوگوں کو عام طور پرسلف صالحین کےلفظ سے یاد کیا جاتا ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ -صلى الله عليه وسلم- :’’خَيْرُ أُمَّتِى الْقَرْنُ الَّذِينَ يَلُونِى ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ‘‘آپ ﷺ کا فرمان ہے : سب سے بہتر زمانہ میرا زمانہ ہے پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہونگے پھر وہ لوگ جو ان سے ملے ہوئے ہونگے۔(صحيح مسلم ـ مشكول وموافق للمطبوع:۷؍۱۸۴) یہاں مراد صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین ہیں ۔
لیکن اسی دور کے گمراہ فرقے خوارج ، رافضہ،قدریہ، اشعریہ، مرجئہ ، معتزلہ اور جہمیہ اس فضیلت میں شمار نہیں ہونگے کیوں کہ انہوں نے دین اسلام میں بدعات ایجاد کیں اور صفات الٰہیہ میں ایسی غلطیاں کیں جس کی بنا پر وہ صراط مستقیم سے بہت دور ہو گئے ۔البتہ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ عام گفتگو میں یا تحریر وں میں بھی جو لوگ اسلاف کے منہج پر چلے انہیں بھی سلف لکھا اور بولاجاتا ہے ۔ بہت سارے لوگ اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کے سبب متعدد قسم کے اعتراضات کرنے لگتے ہیں ۔
سلفیت کیا ہے ؟ لفظ ’’سلفیت ‘‘صفت بیان کرتا ہے یعنی سلف والی صفات اور سلف والا طریقہ کسی کے اندر پایا جائے تو کہیں گے کہ اس کے اندر سلفیت ہے ۔
ے گویاسلفیت وہ منہج ہے جس پراللہ کے رسول ﷺ اور قرون مفضلہ کے لوگ قائم رہے اور جس کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِى قَائِمَةً بِأَمْرِ اللّٰهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ أَوْ خَالَفَهُمْ حَتّٰى يَأْتِىَ أَمْرُ اللّٰهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ عَلَى النَّاسِ ‘‘.’’میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ حق پر قائم رہے گا جو کوئی انہیں نقصان پہنچانا چاہے گا انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے گا اور وہ اسی طرح قائم رہے گا ‘‘۔ (صحيح مسلم ـ مشكول وموافق للمطبوع :۶؍۵۳)
ے یہ وہ منہج ہے جس پر سلف صالح کا اعتماد رہا ہے اور جس پر وہ اپنے عقائد ، معاملات ، احکام، تربیت ، دعوت ،اور تزکیہ نفس پر چلے ۔ دین کے حصول ، اس کی فہم ، اس پر عمل اور دعوت کا یہی منہج اللہ کے اس قول کے مصداق ہے ۔{وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُون َ}’’ہماری مخلوق میں ایک ایسی جماعت بھی ہے جو دین حق کی رہنمائی کرتی ہے اور اسی کے ذریعہ انصاف کرتی ہے‘‘ ۔ (سورہ : الاعراف : ۱۸۱)
خلاصہ : مختصر لفظوں میں سلفیت کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے : کہ سلفیت نام ہے پورے دین کو تسلیم کرنے ، اس کو سمجھنے ،اس پر عمل کرنے اوراس کی دعوت دینے میں قرون مفضلہ کے صالحین کا طریقہ اختیار کرنے کا ۔
سلفی کون ہیں ؟ ہر وہ شخص جو عقیدہ، شریعت، اخلاق اور دعوت کے اعتبار سے سلف کے منہج پر ہو وہ سلفی ہے ۔ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’إن السلف هم أهل القرون المفضلة ،فمن اقتفى أثرهم و سار على منهجهم فهو السلفي، و من خالفهم في ذلك فهو من الخلف‘‘’’ کہ قرون مفضلہ کے لوگ سلفی تھے اور جو شخص ان کی پیروی کرے اور ان کے طریقہ پر چلے تو اس کا شمار بھی سلفی میں ہوگا اور جو ان کی مخالفت کرے اس کا تعلق خلف سے ہوگا ۔‘‘ نیز محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’السلفية هي أتباع منهج النبيﷺ و أصحابه ، لأنه من سلفنا ، الذين تقدموا علينا ، فأتباعهم هو السلفية‘‘’’ سلفی ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اللہ کے رسول ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کے طریقہ پر زندگی گزارتے ہیں ، کیوں کہ وہ ہمارے سلف تھے جو ہم سے پہلے گزر چکے پس ان کی اتباع کرنے والے سلفی ہیں ۔‘‘(اصول منہج السلف اصحاب الحدیث: ۱۷)
سلفیت کے نام اور اس کے اوصاف: سلفیت کے بہت سے نام ہیںکچھ نام ذیل میں دئے جارہے ہیں :
۱: اہل السنہ و الجماعۃ : یہاں اہل سنت سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے اندر چار چیزیں پائی جائیں:
۱: اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے اصحاب کی اقتدا۔
۲: حق پر جمع ہونا جس پر کتاب وسنت دلالت کرتے ہوں ۔
۳: اس منہج پر چلنا جو در حقیقت اللہ کا دین ہے جس کو اللہ نے نبی ﷺ کے ذریعہ بھیجا ہے اور جس پرآپ کے اصحاب اور تابعین اور تبع تابعین ثابت رہے۔
۴:مسلم حاکم وقت کی اطاعت کرنا۔
۲: اہل الحدیث : ہر شخص جس نے علم عمل کا مرکز نبی کی سنت بنا رکھا ہو۔
امام أحمد طائفہ منصورہ کے بارے میںکہتے ہیں : اگر وہ اہل حدیث نہیں ہیں تو میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں۔
عبد اللہ بن مبارک طائفہ منصورہ کے بارے میں کہتے ہیں : میرے نزدیک اس سے مراد اہل حدیث ہیں ۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: کہ اہل حدیث سے میں ان لوگوںکو مراد نہیں لیتا جو لوگ اپنے سماع ، کتابت اور روایت پر اعتماد کرتے ہیں بلکہ میری مراد ان لوگوں سے ہے جو ان کو اچھی طرح سے حفظ کرنے ، جاننے اور سمجھنے والے ہوں بلکہ ظاہری اور باطنی طور پر اس پر عمل کرنے والے ہوں ۔علامہ ابن تیمیہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ اہل الحدیث سے مرادصرف محدثین نہیں ہیںجیسا کہ آج کل یہ مغالطہ عام کیا جارہا ہے ۔ بلکہ اہل الحدیث سے مراد محدثین حدیث سے شغف رکھنے والے اور حدیث پر عمل کرنے والے سبھی ہیں۔
۳: سواد أعظم : اس سے مراد اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے دین کی پیروی کی ۔ اس لئے ان کی اتباع ضروری ہے کیوں کہ جس طریقہ سے انہوں نے دین کو سمجھا ، جانا اور عمل کیا ہے اسی طرح سے ہمیں بھی اپنی زندگی گزارنی ہے ۔اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے :عن ابن عمر :’’ أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال إن الله لا يجمع أمتي أو قال أمة محمد صلى الله عليه و سلم على ضلالة ويد الله مع الجماعة‘‘۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے :’’کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: میری امت ضلالت پر جمع نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کاہاتھ جماعت کے ساتھ ہے ‘‘۔ (سنن الترمذي شاكر + ألباني :۴؍۴۶۶)
۴:فرقہ ناجیہ : یہ نام اللہ کے رسول ﷺ کی ایک حدیث کے مفہوم سے لیا گیا ہے ۔
عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : ’’افْتَرَقَتِ الْيَهُودُ عَلٰى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ، فَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ ، وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ ، وَافْتَرَقَتِ النَّصَارٰى عَلٰى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ، فَإِحْدَى وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ ، وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَتَفْتَرِقَنَّ أُمَّتِي عَلٰى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ، وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ ، وَثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ ، قِيلَ : يَا رَسُولَ اللهِ ، مَنْ هُمْ ؟ قَالَ : الْجَمَاعَةُ‘‘.
عوف بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’ یہود اکہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے ایک فرقہ جنت میں اور ستر فرقے جہنم میں جائیں گے ۔ نصاریٰ بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے ایک جنت میں اور باقی جہنم میں ۔ اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے میری امت میں تہتر فرقے ہوگے بہتر جہنم میں اور ایک فرقہ جنت میں جائے گا ۔ کہا گیا اے اللہ کے رسو ل: وہ کون لوگ ہیں: تو آپﷺ نے فرمایا : جماعت ‘‘۔ (سنن ابن ماجة ـ محقق ومشكول:۵؍۱۲۸)
۵: طائفہ منصورہ: اس نام کی دو وجہ ہے :
پہلی وجہ : اللہ اس گروہ کی مدد اور تائید کرتا ہے ۔
دوسری وجہ : یہ گروہ حق کی مدد کر نے والا اور اس پر آنے والی مصیبتوں کا دفاع کرنے والا ہے ۔
اور یہ دونوں معانی صحیح ہیں ان کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے ۔ اللہ کے رسول کی حدیث ہے :
عن ثوبان قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم:’’ إنما أخاف على أمتي الأئمة المضلين قال وقال رسول الله صلى الله عليه و سلم لا تزال طائفة من أمتي على الحق ظاهرين لا يضرهم من يخذلهم حتى يأتي أمر الله‘‘۔
ثوبان رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہتے ہیں : اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : کہ میں اپنی امت میں گمراہ کرنے والے ائمہ سے ڈرتا ہوں ۔ میری امت میں ایک جماعت ایسی ہو گی جو حق پر رہے گی ان کو ان کی مخالفت کرنے والے کچھ بھی نقصان نہیں پہچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے ۔ (سنن الترمذي – شاكر + ألباني:۴؍۵۰۴)
۶: غرباء: اس سے مرادوہ وقت ہے جس میں مسلمان تعداد کے اعتبار سے کم تھے ۔ لیکن وہ حق پر تھے اسی حق پر ہونے کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں چھا گئے۔ یہ نام اللہ کے رسول ﷺ کے قول سے اخذ کیا گیا ہے ۔عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ -صلى الله عليه وسلم:’’ بَدَأَ الإِسْلَامُ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيبًا فَطُوبٰى لِلْغُرَبَاءِ ‘‘. ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اسلام غربت اور اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا اور عنقریب اسی اجنبیت اور غربت کی طرف لوٹ آئے گا ۔ تو غربا ءکے لئے خوشخبری ہے‘‘ ۔ (صحيح مسلم ـ مشكول وموافق للمطبوع:۱؍۹۰)
منہج سلف کیوں ضروری ؟ سلف کی اتباع ضروری ہے اس میں کسی کو اختیار نہیں ہوسکتا۔یہ دراصل شریعت کے دوسرے واجبات ہی کی طرح ہے۔کچھ دلیلیں مندرجہ ذیل ہیں :
قرآن کی دلیل: اللہ کا فرمان ہے : { وَمَن يُّشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا }’’اور جو حق کے واضح ہونے کے بعد اللہ کے رسول ﷺ سے دشمنی کرتا اور مسلمانوں کے راستہ کے علاوہ کی پیروی کرتا ہے ہم اس کو اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھر گیا ہے اور ہم اس کو جہنم میں ڈال دیں گے اور جہنم بہت برا ٹھکانا ہے‘‘ ۔ (سورۃ النساء :۱۱۵)
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ’’ مومنوں کی راہ کے علاوہ کوئی اور راہ اختیار کرنا در حقیقت رسول کی مخالفت ہے کیوں کہ کبھی تو شارع کی طرف سے منصوص اور انکار ہوتا ہے اور کبھی اختلاف اس چیز کے سلسلے میں ہوتا ہے جس پر امت متفق ہوتی ہےاور اس میں ان کا اتفاق معلوم اور ثابت شدہ ہوتا ہے۔(تفسیر ابن کثیر ) امر واقعہ بھی یہی ہے کہ سلف کا منہج ہی ہماری کامیابی کاضامن ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :{ وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَالِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ}’’اور جو انصار و مہاجرین سب سے آگے نکل جانے والے ہیں ، اوروہ لوگ جنہوں نے نیک کاموں میں ان کی پیروی کی وہ اللہ سے راضی ہیں اور اللہ ان سے راضی ہے ۔ اللہ نے ان کے لئے جنت تیار کر رکھی ہے جس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے ۔یہ بہت بڑی کامیابی ہے‘‘۔(سورہ توبہ : ۱۰۰)
اس آیت میں اللہ نے صحابہ کرام کے راستہ کی تعریف کی ہے اور ان کے لئے بہترین بدلہ کا ذکر کیا ہے ۔اس میں دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے توان کے راستے سے بھی راضی ہے اوراللہ جس چیز سے راضی ہے وہی ہماری اتباع ہے۔
سنت سے دلیل:
۱: ’’خَيْرُ أُمَّتِى الْقَرْنُ الَّذِينَ يَلُونِى ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘۔’’آپ ﷺ کا فرمان ہے : سب سے بہتر زمانہ میرا زمانہ ہے پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہونگے پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہونگے‘‘۔ (صحيح مسلم ـ مشكول وموافق للمطبوع :۷؍۱۸۴) اس سے مراد صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین ہیں ۔
۲: ’’ فإِنَّهُ مَنْ يَّعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِى فَسَيَرٰى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘.اللہ کےرسول ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:’’ کہ تم لوگوں میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ایسی صورت میں تمہارے اوپر میری اورہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کا التزام ضروری ہے ۔تم اس کو اپنے دانتوں سے اچھی طرح سے پکڑ لو اورنئی نئی چیزوں سے بچو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔ (سنن أبي داؤدـ محقق وبتعليق الألباني :۴؍۳۲۹)
وجہ استدلال: ان دونوں حدیثوں میں صحابہ کرام اور تابعین اور ان کے منہج کی فضیلت کے سلسلے میں دلالت موجود ہے ۔ یہ فضیلت بتاتی ہےکہ اختلاف اور افتراق کے وقت انہیں کا منہج ہمارے لئے ضروری ہے۔
سلف کے اقوال سے دلیل: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’اتبعوا و لاتبتدعوا، فقد كفيتم ، كل بدعة ضلالة‘‘ ’’تم لوگ اتباع کرو ابتداع (نئی چیزیں ایجاد )مت کرو تمہارے پاس جو ہے وہ کافی ہے، ہر بدعت گمراہی ہے ‘‘۔
اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’اصبر على السنة ، و قف حيث وقف القوم ، و قل بما قالوا و كفوا عما كفوا عنه و اسلك سبيل سلفك الصالح ، فإنه يسعك ما وسعهم‘‘ ’’سنت پر صبر کرو اور وہاں رک جاؤجہاں سلف رک گئے۔اوروہی کہو جو انہوں نے کہا ۔اور ان چیزوں سے رک جاؤجن سےوہ لوگ رک گئے اور سلف صالحین کے طریقہ پر چلو کیو ں کہ جو چیزان کے لئے کافی اور کشادہ رہی تمہیں بھی کافی اور کشادہ ہوگی ‘‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا :’’عليك بآثار من السلف و إن رفضك الناس ، و إياك و آراء الرجال و إن زخرفوا لك بالقول فإن الأمر ينجلي و أنت منه على صراط المستقيم‘‘’’ سلف کے آثار پر تم چلو گر چہ لوگ آپ کو دھتکار دیں، اور لوگوں کی آرا اپنانے سے بچیں ان کے انداز کتنے ہی دل کش کیوں نہ ہوں کیوں کہ معاملہ واضح ہے اورتم اس حوالے سے سیدھی راہ پر ہو‘‘۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے :’’ إن الله نظر في قلوب العباد فوجد قلب محمد صلى الله عليه و سلم خير قلوب العباد فاصطفاه لنفسه فابتعثه برسالته ثم نظر في قلوب العباد بعد قلب محمد فوجد قلوب أصحابه خير قلوب العباد فجعلهم وزراء نبيه يقاتلون على دينه‘‘۔’’کہ اللہ نے بندوں کے دلوں کی طرف دیکھا تو محمد ﷺ کے دل کو سب سے اچھا پایا، سو آپ ﷺ کو اللہ نے اپنے لئے چن لیا اورخلعت رسالت دے کر مبعوث فرمایا پھر اللہ نے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو اصحاب محمد کے دلوں کو محمد ﷺ کے دل کے بعد بندوں کے دلوں میں سب سے اچھا پایا سو اللہ نے ان کو اپنے نبی کا وزیر بنا دیا ان لوگوں نے ان کے دین کی حفاظت کے لئے قتال کیا ‘‘۔ ( مسندأحمدبن حنبل:۱؍۳۷۹)۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : لَا عَيْبَ عَلٰى مَنْ أَظْهَرَ مَذْهَبَ السَّلَفِ وَانْتَسَبَ إلَيْهِ وَاعْتَزَى إلَيْهِ بَلْ يَجِبُ قَبُولُ ذَالِکَ مِنْهُ بِالِاتِّفَاقِ . فَإِنَّ مَذْهَبَ السَّلَفِ لَا يَكُونُ إلَّا حَقًّا .جو مذہب سلف کااظہار کرے اور اس کی طرف اپنی نسبت کرے تو اس کے لئے کوئی عیب نہیں ہے بلکہ اس کو متفقہ طور پر قبول کرنا ضروری ہے کیوں کہ مذہب سلف ہی حق مذہب ہے ۔ ( مجموع الفتاوى:۴؍۱۴۹)
قرآن اور احادیث کے نصوص نیز علما ء کے اقوال سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ منہج سلف کی ابتاع ضروری ہے ۔