منہ پر تعریف کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر صحابی کی تعریف منہ پر کیا کرتے تھے۔ کچھ کی پیٹھ پیچھے بھی کیا کرتے تھے۔ تعریف بھی ایسی کہ وہ صحابی جھوم جائے۔ مثلا حضرت ابو زر غفاری کی صداقت کی تعریف، حضرت علی کی شجاعت کی تعریف، حضرت ابو بکر صدیق کی صداقت کی تعریف وغیرہ۔ پھر آپ ازواجِ مطہرات کی بھی تعریف منہ پر کیا کرتے تھے۔
یہ بیان محض کم علمی کی دلیل ہے ؛
نبی کریم ﷺ نے بحیثیت نبی و رسول جس شخص کی تعریف و مدح بیان فرمائی ، تو اللہ تعالی کے امر و ارشاد سے فرمائی ۔
تاکہ قیامت تک آنے والے اہل ایمان کو ان عظیم اور پاکیزہ نفوس کی قدر و منزلت کا اعتقاد رہے ،
یعنی پیغمبر مکرم ﷺ کا انکی مدح و منقبت بیان فرمانا دین کا اہم حصہ ہے ، جس کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ ان ممدوح حضرات نے دین و شریعت کو نبی مکرم ﷺ سے نقل کرکے آنے والی امت تک پہنچانا تھا ، اسلئے انکی صداقت و عدالت کی گواہی دربار نبوت
سے جاری ہونا ضروری تھا ۔
اور جس جس خوش بخت کی مدح و تعریف بیان فرمائی ، فی الواقع وہ تمام افراد اس مدح و تعریف کے بجا طور پر اہل اورمستحق تھے ،
اور اپنی مدح سن کر کسی غلط روش کا شکار ہونے سے محفوظ بھی تھے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کہ نبی گرامی ﷺ کے بعد ::
(۱) ۔ کوئی شخص کسی بھی دوسرے شخص کی حقیقی ایمانی حالت ، باطنی کیفیت ، اور نیت و ارادہ سے واقف نہیں ہوسکتا،
اسلئے وہ اس کے ظاہر کو دیکھ کر یقین سے حتمی طور پر اس کی حقیقی حالت کا حکم نہیں لگاسکتا ،
اسی لئے پیارے امام اعظم ﷺ نے تعلیم دی ہے کہ :
عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه، قال: أثنى رجل على رجل عند النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال: «ويلك قطعت عنق صاحبك، قطعت عنق صاحبك» مرارا، ثم قال: «من كان منكم مادحا أخاه لا محالة، فليقل أحسب فلانا، والله حسيبه، ولا أزكي على الله أحدا أحسبه كذا وكذا، إن كان يعلم ذلك منه»
(صحیح البخاری 2662 )
تخریج «صحیح البخاری/الشہادات 2662 ) ، الأدب ۹۵ ( ۶۱۶۲ ) ، صحیح مسلم/الزہد ۱۴ ( ۳۰۰۰ ) ، سنن ابی داود/الأدب ۱۰ ( ۴۸۰۵ ) ، ( تحفة الأشراف : ۱۱۶۷۸ ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ۵/۴۱ ، ۴۶ ، ۴۷ ، )
ترجمہ :
جناب ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا: ”افسوس! تم نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی“، اس جملہ کو آپ نے کئی بار دہرایا، پھر فرمایا: ”تم میں سے اگر کوئی آدمی اپنے بھائی کی تعریف کرنا چاہے تو یہ کہے کہ میں ایسا سمجھتا ہوں، لیکن میں اللہ تعالیٰ کے اوپر کسی کو پاک نہیں کہہ سکتا“ ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی میں یہ نہیں جانتا کہ حقیقت میں اللہ کے نزدیک یہ کیسا ہے ؟ میرے نزدیک تو اچھا ہے، حدیثوں کا یہی مطلب ہے کہ منہ پر کسی کی تعریف نہ کرے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۲ )۔ منہ پر مدح کرنے ممانعت کی دوسری وجہ :
جب کسی کی منہ پر تعریف اور خوشامد کی جائے گی تو احتمال ہے کہ آدمی میں غرور تکبر پیدا ہو جائے، اور اپنے عیب کو ہنر سمجھے اور دوسرے مسلم بھائی کو حقیر جانے۔اور اس اندیشہ سے صحابہ کرام کے علاوہ کوئی بھی محفوظ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں کسی کی ظاہری و عملی صالحات پراس کی حقیقی مدح اس کی غیر موجودگی میں کرنا بالخصوص محسن کی سچی تعریف بالکل جائز بلکہ مستحسن ہے
اور کئی صورتوں میں ضروری ہے ،
اور علماء و مشائخ کی مدح وتعریف بھی ایک مستحسن عمل ہے :
مثلاً :۔
ہمارے قریب ترین علماء میں شیخ الحدیث حافظ زبیر علی زئی ؒ اور ان کے استاذ گرامی جناب حاجی اللہ دتہ ؒ اور شیخ عبدالحمید اظہر رحمہم اللہ تعالی
علم اور تقوی و اخلاص اور ایمانی مروت کے اعلی مقامات کے حامل تھے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
@شادباش عالم