مجھے وہ روایت درکار ہیں جس میں ایسی علامات کا ذکر ہو۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حسن خاتمہ :
کا مطلب یہ ہے کہ کسی بندہ کی موت سے پہلے اسے رضائے الہی کیلئے اطاعت نیک اعمال ،اور توبہ کی توفیق میسر آتی ہے ۔
جیسا کہ خود نبی کریم ﷺ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے :
سنن الترمذی میں ہے:
عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا أراد الله بعبد خيرا استعمله " فقيل: كيف يستعمله يا رسول الله؟ قال: " يوفقه لعمل صالح قبل الموت " قال أبو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.
سیدنا انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کام پر لگاتا ہے“، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیسے کام پر لگاتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”موت سے پہلے اسے عمل صالح کی توفیق دیتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (2 / 87) ، المشكاة (5288) ، الظلال (397 - 399)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مرنے والے کو اپنے حسن خاتمہ کا علم اس طرح ہوتا ہے :
(إن الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا تتنزل عليهم الملائكة ألا تخافوا ولا تحزنوا وأبشروا بالجنة التي كنتم توعدون) فصلت: 30 ،
وهذه البشارة تكون للمؤمنين عند احتضارهم، وفي قبورهم، وعند بعثهم من قبورهم.
جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعده دیئے گئے ہو۔ (30)
اور فرشتوں کی طرف سے بشارت موت کے وقت ،اور قبر میں ،اور قبر اٹھنے کے وقت ہوتی ہے ؛
اس بات پر نبی اکرم ﷺ کی حدیث بھی دلالت کرتی ہے :
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ» قَالَتْ عَائِشَةُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِهِ: إِنَّا لَنَكْرَهُ المَوْتَ، قَالَ: «لَيْسَ ذَاكِ، وَلَكِنَّ المُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَهُ المَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَانِ اللَّهِ وَكَرَامَتِهِ، فَلَيْسَ شَيْءٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا أَمَامَهُ، فَأَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ وَأَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَإِنَّ الكَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَابِ اللَّهِ وَعُقُوبَتِهِ، فَلَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَهَ إِلَيْهِ مِمَّا أَمَامَهُ، كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ وَكَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ»
عبادہ بن صامت ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جو شخص اللہ سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے ، اللہ بھی اس سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو پسند نہیں کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند نہیں کرتا ۔ “ اور عائشہ ؓ یا نبی کریم ﷺ کی بعض ازواج نے عرض کیا کہ مرنا تو ہم بھی نہیں پسند کرتے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے ملنے سے موت مراد نہیں ہے بلکہ بات یہ ہے کہ ایماندار آدمی کو جب موت آتی ہے تو اسے اللہ کی خوشنودی اور اس کے یہاں اس کی عزت کی خوشخبری دی جاتی ہے ۔ اس وقت مومن کو کوئی چیز اس سے زیادہ عزیز نہیں ہوتی جو اس کے آگے (اللہ سے ملاقات اور اس کی رضا اور جنت کے حصول کے لیے) ہوتی ہے ، اس لیے وہ اللہ سے ملاقات کا خواہشمند ہو جاتا ہے اور اللہ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جب کافر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کی بشارت دی جاتی ہے ، اس وقت کوئی چیز اس کے دل میں اس سے زیادہ ناگوار نہیں ہوتی جو اس کے آگے ہوتی ہے ۔ وہ اللہ سے جا ملنے کو ناپسند کرنے لگتا ہے ، پس اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے ‘‘ ( صحیح البخاری ۶۵۰۷ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور دوسروں کیلئے مرنے والے کے حسن خاتمہ کی علامات
(۱) اس کو کلمہ پڑھنے کی توفیق ملتی ہے
أن رسول صلى الله عليه وسلم قال : (من كان آخر كلامه لا إله إلا الله دخل الجنة) یعنی جس کا آخری کلام ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ وہ جنت میں جائے گا ۔۔۔رواه الحاكم وغيره
(۲) جو مومن جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات فوت ہو
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ (وقال الالبانی(حسن)
(۳ ) موت کے وقت جبین پر پسینہ آنا
«المؤمن يموت بعرق الجبين» .
(صحيح الجامع الصغير وزياداته) [حم ت ن هـ ك] عن بريدة. المشكاة 1610، أحكام الجنائز ص 35
اسی طرح کچھ مواقع اور مخصوص حالتوں میں موت بھی حسن خاتمہ کی علامت ہوگی
جہاد کے دوران موت ، طاعون سے یا غرق ہونے والے کی موت ،زچگی کے دوران عورت کی موت ، وغیرہ صورتیں؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(البتہ کبھی میت کے چہرے کی خوبصورتی یا مسکراہٹ کی وجہ سے اس کی چمک ،یا اسی جیسی کسی اور نشانی سے کچھ اشارے مل سکتے ہیں)
شیخ المنجد کی اصل عبارت درج ذیل ہے :
أما بعد الموت : فليس هناك من العلامات ما يمكن الاستدلال به على صلاح العبد وتقواه ، وقد يستأنس بما قد يظهر أحيانا على الميت من ابيضاض وجهه ، أو إشراقه بابتسامة رقيقة ، ونحو ذلك إذا كان معروفا في حياته بالصلاح ، إلا أن مثل ذلك لا يكون على سبيل القطع والجزم .
فإذا كان العبد معروفا بالصلاح والتقوى في حياته ، ثم أشرق وجهه وابيض بعد موته كان ذلك مما يستبشر به ويستأنس .
كما أن حسن ثناء الناس عليه بعد موته ودعائهم له من علامات صلاحه ، وكذا حسن الصحبة التي كان عليها في حياته هي من علامات صلاحه .
لیکن موت کے بعد ایسی کوئی قوی علامت موجود نہیں ہے جس سے بندے کے صالح اور متقی ہونے کی دلیل لی جائے ،ہاں البتہ کبھی میت کے چہرے کی خوبصورتی یا مسکراہٹ کی وجہ سے اس کی چمک ،یا اسی جیسی کسی اور نشانی سے کچھ اشارے مل سکتے ہیں ، یہ بات واضح رہے کہ اس وقت ہے جب اس شخص کو زندگی میں لوگوں کے درمیان اچھے لفظوں میں بیان کیا جاتا ہو، تاہم اس بارے میں کوئی یقینی اور ٹھوس بات نہیں کی جا سکتی۔
انتہی ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی نشست میں اس سوال پر علامہ البانی کی تحقیق پیش کروں گا ان شاء اللہ