عمر سعد
مبتدی
- شمولیت
- جنوری 28، 2017
- پیغامات
- 13
- ری ایکشن اسکور
- 4
- پوائنٹ
- 9
موجودہ حکام اور انکے باطل نظام
ایک خارجی کی عجیب وغریب بوکھلاہٹ
الشیخ ابو حذیفہ انصاری حفظہ اللہ
کچھ عرصہ قبل ایک خارجی فکر کے حامل شخص سے واسطہ پڑ گیا۔ میں اسے کافی پرانا جانتا تھا اور اکثر اوقات ہماری حکام، قتال، خروج جیسے موضوعات پر تفصیلی ابحاث بھی ہو چکی تھیں۔ اور ہر مرتبہ وہ مجھے آئندہ دلائل دکھانے کا کہہ کر مجلس کو سمیٹ دیتا۔ اس کے اس رویے پر میں بھی خوش تھا کہ بال ہر مرتبہ اسی کے کورٹ میں رہ جاتا ہے۔
لیکن اس مرتبہ جب واسطہ پڑا تو وہ پھولے نہیں سما رہا تھا۔
مجھے دیکھتے ہی کہتا : کہ جناب ، آج میں آپ کی سب سے بڑی مصروفیت ہوں، میں نے مسکرا کر ٹھیک ہے جناب۔
پھر اس نے بلا تاخیر و تمہید بحث کا انداز اختیار کر لیا۔ وہ مجھے کہنے لگا کہ جناب آپ کہتے ہیں کہ صحیح مسلم کی کتاب الامارۃ اور دیگر کتب احادیث میں امت مسلمہ کو، جن قسم کے حکام کے حوالے سے رہنمائی کی گئی ہے اور جس دور کی طرف اشارہ کر کے رہنمائی کی گئی ، ہمیں ان سے ڈیلنگ کرتے ہوئے ، انہیں احادیث مبارکہ سے رہنمائی لینی چاہیئے۔
میں نے کہا : جی بالکل درست، متبع قرآن و سنت کو ایسا ہی زیب دیتا ہے۔
وہ خارجی فکر کا حامل شخص طنزاً مسکرا کر بولا : ارے جناب ، وہ تمام احادیث شرعی حاکم کے بارے میں ہیں!
یعنی کے خلیفہ المسلمین نہ کہ موجودہ بادشاہ و جمہوری (غیر شرعی) حکام کے بارے۔۔۔
وہ اپنے اس فہم پر بڑا خوش تھا اور میری طرف ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ جیسے میں ابھی اسکے موقف کے حق ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے ، اسکا شکریہ ادا کروں گا کہ ، ہاں واقعی میں نے تو کبھی اس جانب سوچا ہی نہیں !
لیکن سبحان اللہ ، بے شک حق اللہ تعالی کے پاس ہے۔
میں نے اسے کہا : کہ برائے کرم مجھے شرعی حاکم کی تعریف زرا کھل کر سمجھا دیں؟
وہ خارجی فکر کا حامل شخص بڑے اطمینان سے گویا ہوا اور کہا:
ارے بھائی ، ایسا حاکم ، جو قرآن و سنت پر عامل ہو اور اپنی ریاست یا ملک میں اسے قائم کرنے والا ہو، اسے شرعی امیر یا حاکم کہتے ہیں، اور صحیح مسلم کی کتاب الامارۃ یا دیگر کتب میں ایسے ہی حکام کے بارے میں آتا ہے کہ اگر وہ کبھی تم پر ظلم بھی کر بیٹھیں یا حق تلفی کریں یا کوڑے برسائیں تو ان پر صبر کرنا۔
اور جو قرآن و سنت اور شریعت کے خلاف یا علاوہ چلے وہ غیر شرعی حاکم ہے، اور یہ احادیث انکے بارے ہر گز نہیں !
سبحان اللہ، اس کی یہ تعریف اور تشریح سن کر میں مسکرانے سے نہ رک پایا۔
وہ میری مسکراہٹ سے تھوڑا سا گھبرایا اور بولا:
جناب، یہ ہنسی آپ کے منہ شیطان ڈال رہا ہے!
میں نے کہا : لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔۔۔(ویسے درحقیقت تھا ایسا ہی، کیونکہ مجھے خود اسی نے ہنسایا تھا)
بہرحال ، میں نے موضوع سے ہٹنے اور اس ذاتی وار کا جواب دینے کی بجائے، گفتگو کو آگے بڑھایا۔
میں نے اسے کہا : کہ او اللہ کے بندے کیا تو نے وہ احادیث پڑھی ہیں ؟؟؟
وہ کہتا : ہاں بالکل، کیا آپ صرف خود کو ہی اس قابل سمجھتے ہو!
میں نے کہا: جناب! ترش مزاجی کی ضرورت نہیں۔ مجھے آپ کی تشریح سے لگا کہ جیسے آپ نے وہ احادیث سرے سے دیکھی ہی نہیں ہیں!
وہ بولا کیا مطلب؟
میں نے کہا :کہ جناب ، نوٹ فرمالیں، جو تعریف آپ نے شرعی حاکم کی کیں ہیں ، وہاں موجود اکثراحادیث انکے بارے تو ہے ہی نہیں!
بلکہ آپ کی تعریف کے مطابق ، وہ تمام ‘‘غیر شرعی حکام‘‘ اور ان کے ساتھ معاملہ کرنے پر وارد ہوئی ہیں؛
پھر میں نے اسے مختلف روایات کے اقتباسات دکھلائے:
1۔ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
«عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، إِلَّا أَنْ يُؤْمَرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ»
ایک مسلمان پر سمع واطاعت فرض ہے چاہے اسے پسند ہو یا نا پسند ہو، الا یہ کہ اگر اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے ، اگر امیر اسے نافرمانی کا حکم دے تو نہ تو اس پر سننا ہے او نہ ماننا۔
عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا كُنَّا بِشَرٍّ، فَجَاءَ اللهُ بِخَيْرٍ، فَنَحْنُ فِيهِ، فَهَلْ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: هَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الشَّرِّ خَيْرٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: فَهَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: كَيْفَ؟ قَالَ: «يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ» قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟ قَالَ: «تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ»
میرے بعد ایسے امام ہوں گے جو نہ تو میری سنت پر چلیں گے اور نہ میرے طریقے کی پیروی کریں گے۔۔۔۔
عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلَ سَلَمَةُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ قَامَتْ عَلَيْنَا أُمَرَاءُ يَسْأَلُونَا حَقَّهُمْ وَيَمْنَعُونَا حَقَّنَا، فَمَا تَأْمُرُنَا؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الثَّالِثَةِ، فَجَذَبَهُ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ، وَقَالَ: «اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا، فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِّلُوا، وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ»
سلمۃ بن یزید الجعفیؓ نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا، وہ کہتے ہیں کہ : ہم نے کہا:
اے اللہ کے نبی اگر ہم پر ایسے امراء مسلط ہوجائیں جو ہم سے اپنا حق مانگیں اور ہمارا حق روکیں تو ایسی صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔
«سَتَكُونُ أُمَرَاءُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ عَرَفَ بَرِئَ، وَمَنْ أَنْكَرَ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ» قَالُوا: أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ: «لَا، مَا صَلَّوْا»
عنقریب ایسے امراء ہوں گے جن کی بعض باتیں تمہیں اچھی لگیں گی اوربعض بری ، چنانچہ تو جوان کی غلط باتوں کو پہچان لے اس کا ذمہ بری ہوگیا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اچانک پریشان ہوا، ہوتا بھی کیوں نا؟ اس کا خوشنماء فہم جل کر بھسم ہو چکا تھا۔
اس نے فورا اپنی جیب سے موبائل نکالا اور کسی کو کال ملانے لگا۔
جب کسی نے آگے سے فون اٹھایا تو اس نے ایک ہی سانس ساری صورتحال سے آگاہ کیا ، جو ابھی ابھی اس پر بیتی!سبحان اللہ ، فون پر دوسری جانب موجود شخص بھی کوئی بلا شاطر خارجی تھا۔
اس نے اس موضوع پر یکسر پینترا بدلتے ہوئے اس خارجی فکر کے حامل شخص سے کہا کہ آپ ان سے کہو کہ حاکم چلیں جیسا بھی ٹھیک ہے، ہمیں اس کے ساتھ شریعت کے مطابق ہی چلنا چاہیے لیکن یہاں مسئلہ حاکم کے شرعی یا غیر شرعی ہونے کا نہیں ہے۔۔۔۔اور نہ ہی ہم اس بنیاد پر ان کی تکفیر اور ان سے جنگ کرتے ہیں، بلکہ ہماری لڑائی تو اس “باطل نظام ” کی وجہ سے ہے، جو انہوں نے قائم کر رکھا ہے اور مسلط کر رکھا ہے۔ اور جتنی بھی احادیث ہیں وہ حکام کے بارے ہیں مگر نظام کا ان میں تذکرہ نہیں ہے!
سبحان اللہ !
جب اس شخص نے فون بند کر کے دوبارہ اپنی گھبراہٹ سنبھالتے ہوئے مجھ پر یہ سوالات داغے تو یقین کیجئے، اس مرتبہ میں مسکرایا نہیں بلکہ ۔۔۔۔۔ میرا تو قہقہ ہی نکل گیا۔
بہرحال ، میں نے مشکل خود کو قابو کرتے ہوئے اس سے التماس کی کہ چلیں مجھے یہ بتا دیں کہ باطل نظام کی تعریف کیا ہوتی ہے؟؟؟
وہ خارجی فکر کا شخص جھٹ سے بولا:
وہ نظام جو قرآن و سنت کے خلاف ہو، کافروں کی خواہشات کے مطابق ہو وغیرہ وغیرہ
میں کہا : آپ کی تعریف تو ٹھیک ہے مگر آپ اور آپ کے فون پر موجود ‘‘ خفیہ شیخ‘‘ کی عقل لگتا ہے گھاس چرنے گئی ہوئی ہے۔
اتنے میں وہ غصے سے بولا کہ آپ ذاتیات پر حملے کی بجائے، اس بات کا جواب دیں۔
میں نے کہا : اللہ نے ہمیشہ حق کو ہر دور میں واضح کیا ہے، اور آج تم پر ان شاء اللہ میں بھی اپنے رب کی توفیق سے واضح کر دیتا ہوں۔
میں پھر وہی احادیث مبارکہ اس کو دکھائیں اور وہ مقامات دکھائے، جہاں باقاعدہ اسکے مطابق ‘‘غیر شرعی‘‘ حکمرانوں کے علاوہ اسی کی تعریفات کے عین مطابق باطل نظاموں کا بھی تذکرہ موجود ہے، لیکن اس کے باوجود ایک عام مسلم مومن کو حاکم سے کیسا برتاو رکھنا چاہیے، اس جانب خوب رہنمائی کی گئی ہے۔
میں نے اسے مذکورہ مقامات دکھلائے:
1۔
عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا كُنَّا بِشَرٍّ، فَجَاءَ اللهُ بِخَيْرٍ، فَنَحْنُ فِيهِ، فَهَلْ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: هَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الشَّرِّ خَيْرٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: فَهَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: كَيْفَ؟ قَالَ: «يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ» قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟ قَالَ: «تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ»
میرے بعد ایسے امام ہوں گے جو نہ تو میری سنت پر چلیں گے اور نہ میرے طریقے کی پیروی کریں گے۔۔۔۔
قَالَ ﷺ : «يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ»
قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟
قَالَ ﷺ : «تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ»
آپﷺ نے فرمایا: ایسے لوگ (حاکم) پیدا ہوں گے جن کے جسم انسانوں کے ہوں گے اور دل شیطان کے۔
میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں ایسے لوگوں کو پالوں تو کیا کروں؟
آپﷺ نے فرمایا:
حاکم وقت کی سنو اور اس کی اطاعت کرو، اگرچہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے اور تمہارا سارا مال لے لے۔ پھر بھی تم اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔۔۔۔۔۔۔
«سَتَكُونُ أُمَرَاءُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ عَرَفَ بَرِئَ، وَمَنْ أَنْكَرَ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ» قَالُوا: أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ: «لَا، مَا صَلَّوْا»
عنقریب ایسے امراء ہوں گے جن کی بعض باتیں تمہیں اچھی لگیں گی اوربعض بری ، چنانچہ تو جوان کی غلط باتوں کو پہچان لے اس کا ذمہ بری ہوگیا،۔۔۔۔۔۔۔۔
لہذا ، آپ کے دونوں ہی دعوے (حاکم غیر شرعی ہے پھر بعد میں نظام باطل ہے، اس لئے ہم انکی اطاعت سے نکلتے ، انکی تکفیر اور پھر خروج کرتے ہیں ) بے دلیل اور نفسانی خواہشات پر مبنی ہیں اور اسلام ان سے بری ہے۔
اور پھر میں نے اسے یہ رسالہ ” حکام وقت کی اطاعت احادیث نبویہ کی روشنی میں “ ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا، کہ جاؤ اور اسے پڑھو، زندگی رہی تو آئندہ ضرور ملاقات ہوگی۔اللہ حافظ
مضمون کا لنک: http://alfitan.com/2016/08/29/موجودہ-حکام-اور-انکے-باطل-نظام-ایک-خار/
لیکن اس مرتبہ جب واسطہ پڑا تو وہ پھولے نہیں سما رہا تھا۔
مجھے دیکھتے ہی کہتا : کہ جناب ، آج میں آپ کی سب سے بڑی مصروفیت ہوں، میں نے مسکرا کر ٹھیک ہے جناب۔
پھر اس نے بلا تاخیر و تمہید بحث کا انداز اختیار کر لیا۔ وہ مجھے کہنے لگا کہ جناب آپ کہتے ہیں کہ صحیح مسلم کی کتاب الامارۃ اور دیگر کتب احادیث میں امت مسلمہ کو، جن قسم کے حکام کے حوالے سے رہنمائی کی گئی ہے اور جس دور کی طرف اشارہ کر کے رہنمائی کی گئی ، ہمیں ان سے ڈیلنگ کرتے ہوئے ، انہیں احادیث مبارکہ سے رہنمائی لینی چاہیئے۔
میں نے کہا : جی بالکل درست، متبع قرآن و سنت کو ایسا ہی زیب دیتا ہے۔
وہ خارجی فکر کا حامل شخص طنزاً مسکرا کر بولا : ارے جناب ، وہ تمام احادیث شرعی حاکم کے بارے میں ہیں!
یعنی کے خلیفہ المسلمین نہ کہ موجودہ بادشاہ و جمہوری (غیر شرعی) حکام کے بارے۔۔۔
وہ اپنے اس فہم پر بڑا خوش تھا اور میری طرف ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ جیسے میں ابھی اسکے موقف کے حق ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے ، اسکا شکریہ ادا کروں گا کہ ، ہاں واقعی میں نے تو کبھی اس جانب سوچا ہی نہیں !
لیکن سبحان اللہ ، بے شک حق اللہ تعالی کے پاس ہے۔
میں نے اسے کہا : کہ برائے کرم مجھے شرعی حاکم کی تعریف زرا کھل کر سمجھا دیں؟
وہ خارجی فکر کا حامل شخص بڑے اطمینان سے گویا ہوا اور کہا:
ارے بھائی ، ایسا حاکم ، جو قرآن و سنت پر عامل ہو اور اپنی ریاست یا ملک میں اسے قائم کرنے والا ہو، اسے شرعی امیر یا حاکم کہتے ہیں، اور صحیح مسلم کی کتاب الامارۃ یا دیگر کتب میں ایسے ہی حکام کے بارے میں آتا ہے کہ اگر وہ کبھی تم پر ظلم بھی کر بیٹھیں یا حق تلفی کریں یا کوڑے برسائیں تو ان پر صبر کرنا۔
اور جو قرآن و سنت اور شریعت کے خلاف یا علاوہ چلے وہ غیر شرعی حاکم ہے، اور یہ احادیث انکے بارے ہر گز نہیں !
سبحان اللہ، اس کی یہ تعریف اور تشریح سن کر میں مسکرانے سے نہ رک پایا۔
وہ میری مسکراہٹ سے تھوڑا سا گھبرایا اور بولا:
جناب، یہ ہنسی آپ کے منہ شیطان ڈال رہا ہے!
میں نے کہا : لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔۔۔(ویسے درحقیقت تھا ایسا ہی، کیونکہ مجھے خود اسی نے ہنسایا تھا)
بہرحال ، میں نے موضوع سے ہٹنے اور اس ذاتی وار کا جواب دینے کی بجائے، گفتگو کو آگے بڑھایا۔
میں نے اسے کہا : کہ او اللہ کے بندے کیا تو نے وہ احادیث پڑھی ہیں ؟؟؟
وہ کہتا : ہاں بالکل، کیا آپ صرف خود کو ہی اس قابل سمجھتے ہو!
میں نے کہا: جناب! ترش مزاجی کی ضرورت نہیں۔ مجھے آپ کی تشریح سے لگا کہ جیسے آپ نے وہ احادیث سرے سے دیکھی ہی نہیں ہیں!
وہ بولا کیا مطلب؟
میں نے کہا :کہ جناب ، نوٹ فرمالیں، جو تعریف آپ نے شرعی حاکم کی کیں ہیں ، وہاں موجود اکثراحادیث انکے بارے تو ہے ہی نہیں!
بلکہ آپ کی تعریف کے مطابق ، وہ تمام ‘‘غیر شرعی حکام‘‘ اور ان کے ساتھ معاملہ کرنے پر وارد ہوئی ہیں؛
پھر میں نے اسے مختلف روایات کے اقتباسات دکھلائے:
1۔ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
«عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، إِلَّا أَنْ يُؤْمَرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ»
ایک مسلمان پر سمع واطاعت فرض ہے چاہے اسے پسند ہو یا نا پسند ہو، الا یہ کہ اگر اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے ، اگر امیر اسے نافرمانی کا حکم دے تو نہ تو اس پر سننا ہے او نہ ماننا۔
(بخاری 7144، مسلم: 1839 الفاظ مسلم کے ہیں)
2۔ حذیفۃ بن الیمانؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہا آپ ﷺ نے فرمایا: عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا كُنَّا بِشَرٍّ، فَجَاءَ اللهُ بِخَيْرٍ، فَنَحْنُ فِيهِ، فَهَلْ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: هَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الشَّرِّ خَيْرٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: فَهَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: كَيْفَ؟ قَالَ: «يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ» قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟ قَالَ: «تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ»
میرے بعد ایسے امام ہوں گے جو نہ تو میری سنت پر چلیں گے اور نہ میرے طریقے کی پیروی کریں گے۔۔۔۔
(مسلم:1847)
3۔ علقمہ بن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا:عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلَ سَلَمَةُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ قَامَتْ عَلَيْنَا أُمَرَاءُ يَسْأَلُونَا حَقَّهُمْ وَيَمْنَعُونَا حَقَّنَا، فَمَا تَأْمُرُنَا؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الثَّالِثَةِ، فَجَذَبَهُ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ، وَقَالَ: «اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا، فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِّلُوا، وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ»
سلمۃ بن یزید الجعفیؓ نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا، وہ کہتے ہیں کہ : ہم نے کہا:
اے اللہ کے نبی اگر ہم پر ایسے امراء مسلط ہوجائیں جو ہم سے اپنا حق مانگیں اور ہمارا حق روکیں تو ایسی صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔
(مسلم:1846)
4۔ام سلمۃؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نےفرمایا:«سَتَكُونُ أُمَرَاءُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ عَرَفَ بَرِئَ، وَمَنْ أَنْكَرَ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ» قَالُوا: أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ: «لَا، مَا صَلَّوْا»
عنقریب ایسے امراء ہوں گے جن کی بعض باتیں تمہیں اچھی لگیں گی اوربعض بری ، چنانچہ تو جوان کی غلط باتوں کو پہچان لے اس کا ذمہ بری ہوگیا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(صحیح مسلم:1854)
پھر میں نے کہا : کہ ان روایات میں جن حکام کا ذکر ہے، وہ آپ کی تعریف و تشریح کے مطابق غیر شرعی ہوئے، جبکہ اسلام کے مطابق وہ مسلمانوں کے حاکم ہی رہے اور انہی سے برتاو کے بارے اسلام نے باقاعدہ رہنمائی کی ہے۔وہ اچانک پریشان ہوا، ہوتا بھی کیوں نا؟ اس کا خوشنماء فہم جل کر بھسم ہو چکا تھا۔
اس نے فورا اپنی جیب سے موبائل نکالا اور کسی کو کال ملانے لگا۔
جب کسی نے آگے سے فون اٹھایا تو اس نے ایک ہی سانس ساری صورتحال سے آگاہ کیا ، جو ابھی ابھی اس پر بیتی!سبحان اللہ ، فون پر دوسری جانب موجود شخص بھی کوئی بلا شاطر خارجی تھا۔
اس نے اس موضوع پر یکسر پینترا بدلتے ہوئے اس خارجی فکر کے حامل شخص سے کہا کہ آپ ان سے کہو کہ حاکم چلیں جیسا بھی ٹھیک ہے، ہمیں اس کے ساتھ شریعت کے مطابق ہی چلنا چاہیے لیکن یہاں مسئلہ حاکم کے شرعی یا غیر شرعی ہونے کا نہیں ہے۔۔۔۔اور نہ ہی ہم اس بنیاد پر ان کی تکفیر اور ان سے جنگ کرتے ہیں، بلکہ ہماری لڑائی تو اس “باطل نظام ” کی وجہ سے ہے، جو انہوں نے قائم کر رکھا ہے اور مسلط کر رکھا ہے۔ اور جتنی بھی احادیث ہیں وہ حکام کے بارے ہیں مگر نظام کا ان میں تذکرہ نہیں ہے!
سبحان اللہ !
جب اس شخص نے فون بند کر کے دوبارہ اپنی گھبراہٹ سنبھالتے ہوئے مجھ پر یہ سوالات داغے تو یقین کیجئے، اس مرتبہ میں مسکرایا نہیں بلکہ ۔۔۔۔۔ میرا تو قہقہ ہی نکل گیا۔
بہرحال ، میں نے مشکل خود کو قابو کرتے ہوئے اس سے التماس کی کہ چلیں مجھے یہ بتا دیں کہ باطل نظام کی تعریف کیا ہوتی ہے؟؟؟
وہ خارجی فکر کا شخص جھٹ سے بولا:
وہ نظام جو قرآن و سنت کے خلاف ہو، کافروں کی خواہشات کے مطابق ہو وغیرہ وغیرہ
میں کہا : آپ کی تعریف تو ٹھیک ہے مگر آپ اور آپ کے فون پر موجود ‘‘ خفیہ شیخ‘‘ کی عقل لگتا ہے گھاس چرنے گئی ہوئی ہے۔
اتنے میں وہ غصے سے بولا کہ آپ ذاتیات پر حملے کی بجائے، اس بات کا جواب دیں۔
میں نے کہا : اللہ نے ہمیشہ حق کو ہر دور میں واضح کیا ہے، اور آج تم پر ان شاء اللہ میں بھی اپنے رب کی توفیق سے واضح کر دیتا ہوں۔
میں پھر وہی احادیث مبارکہ اس کو دکھائیں اور وہ مقامات دکھائے، جہاں باقاعدہ اسکے مطابق ‘‘غیر شرعی‘‘ حکمرانوں کے علاوہ اسی کی تعریفات کے عین مطابق باطل نظاموں کا بھی تذکرہ موجود ہے، لیکن اس کے باوجود ایک عام مسلم مومن کو حاکم سے کیسا برتاو رکھنا چاہیے، اس جانب خوب رہنمائی کی گئی ہے۔
میں نے اسے مذکورہ مقامات دکھلائے:
1۔
عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا كُنَّا بِشَرٍّ، فَجَاءَ اللهُ بِخَيْرٍ، فَنَحْنُ فِيهِ، فَهَلْ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: هَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الشَّرِّ خَيْرٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: فَهَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: كَيْفَ؟ قَالَ: «يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ» قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟ قَالَ: «تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ»
میرے بعد ایسے امام ہوں گے جو نہ تو میری سنت پر چلیں گے اور نہ میرے طریقے کی پیروی کریں گے۔۔۔۔
(مسلم:1847)
2۔قَالَ ﷺ : «يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ»
قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟
قَالَ ﷺ : «تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ»
آپﷺ نے فرمایا: ایسے لوگ (حاکم) پیدا ہوں گے جن کے جسم انسانوں کے ہوں گے اور دل شیطان کے۔
میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں ایسے لوگوں کو پالوں تو کیا کروں؟
آپﷺ نے فرمایا:
حاکم وقت کی سنو اور اس کی اطاعت کرو، اگرچہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے اور تمہارا سارا مال لے لے۔ پھر بھی تم اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔۔۔۔۔۔۔
(مسلم:1847)
3۔ ام سلمۃؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نےفرمایا:«سَتَكُونُ أُمَرَاءُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ عَرَفَ بَرِئَ، وَمَنْ أَنْكَرَ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ» قَالُوا: أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ: «لَا، مَا صَلَّوْا»
عنقریب ایسے امراء ہوں گے جن کی بعض باتیں تمہیں اچھی لگیں گی اوربعض بری ، چنانچہ تو جوان کی غلط باتوں کو پہچان لے اس کا ذمہ بری ہوگیا،۔۔۔۔۔۔۔۔
(صحیح مسلم:1854)
میں نے کہا جناب ، اپنی آنکھیں اور دماغ کھول کر دیکھ لیں کہ رسول اللہ ﷺ ، جہاں حکام کے خود فاسق و فاجر اور ظالم ہونے کا بتلا رہے ہیں ، وہی انکے نظاموں کو بھی واضح فرما رہے ہیں کہ وہ قرآن و سنت کو چھوڑ کر دیگر نظاموں پر حکومتیں چلائیں گے۔ آپ ﷺ نے حتی کہ یہاں تک فرما دیا کہ ان کے دل شیطان کے ہوں گے، یعنی وہ شیطانی طریقہ کار اور نظاموں کو نہ صرف دلدادہ بلکہ انہیں مسلط بھی کریں گے۔لہذا ، آپ کے دونوں ہی دعوے (حاکم غیر شرعی ہے پھر بعد میں نظام باطل ہے، اس لئے ہم انکی اطاعت سے نکلتے ، انکی تکفیر اور پھر خروج کرتے ہیں ) بے دلیل اور نفسانی خواہشات پر مبنی ہیں اور اسلام ان سے بری ہے۔
اور پھر میں نے اسے یہ رسالہ ” حکام وقت کی اطاعت احادیث نبویہ کی روشنی میں “ ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا، کہ جاؤ اور اسے پڑھو، زندگی رہی تو آئندہ ضرور ملاقات ہوگی۔اللہ حافظ
مضمون کا لنک: http://alfitan.com/2016/08/29/موجودہ-حکام-اور-انکے-باطل-نظام-ایک-خار/