• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موجودہ حکمرانوں کی حجاج سے تشبیہ

شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
موجودہ حکمرانوں کی حجاج سے تشبیہ
شبہ:13 اگر کوئی مسلم حکمران منافق ہواور اللہ کے قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہو ، حالانکہ اس کے پاس اس کو روکنے کی طاقت ہو ،پھر بھی اس کی حکومت میں زنا کے اڈے اور قرآن و سنت رائج نہ ہو توپھر کیا کریں گے۔ تو مفتی صاحب نے جواب دیا کہ پھر وہ ظالم ہیں۔ہمارا کام ہے ان کو دعوت دینا،اس کو سمجھانا ۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ حکمران تمہارے جو ظلم کریں گے،حقوق غصب کریں گے ،تم صبر کرنا اور ان کا حق ان کو دینا ،تم نہ ان کے حق مارنا۔ حجاج بن یوسف نے تو علماء قتل کیے مگر ان کے پیچھے نماز پڑھنے والے بھی صحابہ تھے۔
ظالم مسلمان حکمران کی تو بات ہی نہیں ہورہی
ازالہ: اس کو کہتے ہیں:سوال گندم ،جواب چنا۔مسلم ظالم حکمرانوں سے قتال نہ کرنے کا یہاں سوال ہی نہیں ، یہاں تو متعدد نواقض اسلام کے مرتکب ،اپنے شرک وکفر کا کھلم کھلا اظہار کرنے والے ، نفاذ شریعت کا مطالبہ کرنے والوں سے جنگ کرنے والے اور حربی کافروں کا ساتھ دے کر مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے طاغوتی اورمرتد حکمرانوں سے قتال کا سوال ہے۔اصل میں بات کو گول کرنا اور اصل موضوع سے بات کو پھیرنا آپکی ''مجبوری''ہے کیونکہ اصل موضوع پر آنے سے آپ کی جماعت کے موقف کا باطل ہونا واضح ہوتا ہے.........!
موجودہ حکمرانوں کو حجاج پر قیاس کرنا سراسر غلط ہے
دوسرا مفتی صاحب کا موجودہ حکمرانوں کو حجاج بن یوسف پر قیاس کرنا کئی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ شیخ ابوبصیر طرطوسی﷾ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
j حقیقت میں حجاج حکمران اور خلیفہ نہیں تھا بلکہ وہ اموی خلافت اوراموی خلفاءکا ایک گورنراور کارندہ تھا ، چنانچہ اس سے ظلم و زیادتی، قتل اور انتقام کی جو غلطیاں صادر ہوئیں ، وہ خلفاء کے دفاع کی قبیل سے تعلق رکھتی تھیں ۔ اسی وجہ سے بعض سلف صالحین اس کے ظلم اور اس کی غلطیوں کی تاویل کیا کرتے تھے اور اس سے قتال کی بجائے اس کے ظلم پر صبر کرنا زیادہ اولیٰ سمجھتے تھے جبکہ عصرِ حاضر کے طاغوتی حکمران مسلمانوں سے صرف ان کے دین کی وجہ سے جنگ و قتال کرتے ہیں۔یہ حکمران ان مسلمانوں سے جنگ کرتے ہیں جو ان سے عباد اور بلاد پر نفاذ شریعت اور اقامت خلافت کا مطالبہ کرتے ہیں،چنانچہ معاصر حکمرانوں کے ظلم وسرکشی اور حجاج کے ظلم و زیادتی کے اسباب و محرکات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
۱۔حجاج نے اللہ کی شریعت کو تبدیل نہیں کیاتھا.........نہ اس نے امت کے لیے مغرب اورمشرق سے کفریہ قوانین ہی امپورٹ کیے تھے جیسا کہ موجودہ طاغوتی حکمرانوں نے کیا ہے۔
۲۔ حجاج ایک مجاہد تھا.........وہ اللہ کے راستے میں جہاد کیا کرتا تھا.........شرک اور اہل شرک سے قتال کیا کرتا تھا۔وقت کا خلیفہ اسے جدھر بلاتا،وہ حاضرہوتا اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرتا.........اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں بہت سے علاقے فتح کرائے جو ارضِ اسلام میں ضم ہو گئے.........ان شہروں کے باشندے فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے ،یا پھر انھوں نے اس سے عہد اور امان حاصل کر لی جبکہ موجودہ طاغوتی حکمرانوں کی نظر میں جہاد جرم اور مجاہدین مجرم ٹھہر چکے ہیں۔انھوں نے امت کی نعمتیں اور وسائل کافر دشمن کے ہاتھوں بیچ دیے ہیں۔انھوں نے دین اسلام،امت اورامت کے بیٹوں کے خلاف دشمنان دین و ملت کے ساتھ ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے پوری پوری موافقت کی ہے.........بنا بریں یہ حجاج کی طرح کیسے ہو سکتے ہیں؟.........حجاج کا جہاد.........حجاج کی غیرت و مردانگی.........؟
بعض اسلاف نے تو حجاج کو کافر کہہ دیا تھا
۔ حجاج کی ان نیکیوں.........اور تاویل کے علی الرغم بعض سلف اس کی تکفیر کرنے سے نہ رکے ، چنانچہ انہوں نے اس کے مظالم کی وجہ سے اس پر کفر کا فتویٰ لگایا ۔امام شعبی﷫ فرماتے تھے:''میں گواہی دیتا ہوں کہ حجاج طاغوت پرایمان رکھنے والا اور اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔'' [1]
طاوس تابعی﷫کہتے ہیں:
''مجھے میرے عراق کے بھائیوں پر تعجب ہے کہ وہ حجاج کو مومن سمجھتے ہیں۔'' [2]
لہٰذا مفتی صاحب کا موجودہ حکمرانوں کو حجاج پر قیاس کرنا باطل اور مردود ہے ۔
[1] کتاب الایمان لابن أبي شیبة،رقم:97، ص:39.شیخ البانی نے اس کی سندکو صحیح قراردیا ہے۔
[2] کتاب الایمان لابن أبي شیبة،رقم:95، ص:39.شیخ البانی نے اس کی سندکو صحیح قرار دیا ہے،(رقم الفتوٰی: 1185)
 

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
ہونا تو الگ تھریڈ تھا لیکن چونکہ موضوع پہلے سے ہی حجاج بن یوسف پر ہے تو اس حوالے سے میں یہ پوسٹ یہی کر رہا ہوں۔

حجاج بن یوسف کا آخری سفر


عراق پر 20 برس حکومت کرنے کے بعد 54 برس کی عمر میں حجاج بیمار ہوا ہے اس کے معدے میں بے شمار کیڑے پیدا ہو گئے تھے اور جسم کو ایسی سخت سردی لگ گئی تھی کہ کہ آگ کی بہت سی آنگھیٹیاں بدن سے لگا کررکھ دی جاتی تھیں پھر بھی سردی میں کمی نہیں ہوتی تھی۔ جب زندگی سے نا امیدی ہو گئی تو حجاج نے گھروالوں سے کہا کہ مجھے بٹھا دو اور لوگوں کو جمع کرو۔
لوگ آئے تو اس نے حسب عادت ایک بلیغ تقریر کی ، موت اور سختیوں کا ذکر کیا ، قبراور اس کی تنہائی بیان کی ، دنیا اور اس کی بے ثباتی یاد کی۔
آخرت اور اس کی ہولناکیوں کی تشریح کی اپنے گناہوں اور ظلموں کا اعتراف کیا۔
پھر یہ شعر اس کی زبان پر جاری ہو گئے۔
إن ذنبي وزن السماوات والأرض
وظني بربي أن يحابي

میرے گناہ آسمان اور زمین کے برابر بھاری ہیں۔
مگر مجھے اپنے خالق سے امید ہے کہ رعایت کرے گا۔
فلئن منّ بالرضا فهو ظني
ولأن مر بالكتاب عذابي

اگر اپنی رضامندی کا احسان مجھے دے تو یہی میری امید ہے۔ لیکن اگر وہ عدل کرکے میرے عذاب کا حکم دے۔
لم يكن منه ذاك ظلماً وبغياً
وهل يهضم رب يرجى لحسن الثواب ـ

تو یہ اس کی طرف سے ہر گز ظلم نہیں ہو گا کیا یہ ممکن ہے کہ وہ رب ظلم کرے جس سے صرف بھلائی کی توقع کی جاتی ہے۔
پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رودیا۔
موقعہ اس قدر عبرت انگیز تھا کہ مجلس میں کوئی بھی شخص اپنے آنسو روک نہ سکا۔
اس کے بعد اس نے اپنا کاتب طلب کیا
اور خلیفہ ولید بن عبدالملک کو حسب ذیل خط لکھوایا۔
كنت أرعى غنمك، وأحوطها حياطة الناصح الشفيق برعية مولاه، فجاء الأسد -قصده بالأسد ملك الموت- فبطش بالراعي ومزق المرعى، وقد نزل بمولاك ما نزل بأيوب الصابر، وأرجو أن يكون الجبار أراد بعبده غفراناً لخطاياه، وتكفيراً لما حمل من ذنوبه.
'' امابعد! میں تمہارہ بکریاں چراتا تھا ایک خیرخواہ گلہ بان کی طرح اپنے آقا کے گلے کی حفاظت کرتا تھا ، اچانک شیر آیا ، گلہ بان کو طمانچہ مارا اور چراگاہ خراب کر ڈالی۔
آج تیرے غلام پر وہ مصیبت نازل ہوئی ہے جو ایوب پر نازل ہوئی تھی۔
مجھے امید ہے کہ جبار و قہار اس طرح اپنے بندے کی خطائیں بخش اور گناہ دھونا چاہتے ہیں۔
"پھر خط کے آخیر میں یہ شعر لکھنے کا حکم دیا۔
إذا ما لقيت الله عني راضياً
فإن شفاء النفس فيما هنا لك

اگر میں نے اپنے خدا کو راضی پایا توبس میری مراد پوری ہوگئی۔
فحسبي بقاء الله من كل ميت
وحسبي حياة الله من كل هالك

سب مرجائیں مگر خدا کا باقی رہنا میرے لیے کافی ہے ! سب ہلاک ہوجائیں مگر خداکی زندگی میرے لیے کافی ہے۔
لقد ذاق هذا الموت من كان قبلنا
ونحن نذوق الموت من بعد ذلك

ہم سے پہلے یہ موت چکھ چکے ہیں ، ہم بھی ان کے بعد موت کا مزہ چکھیں گئے
فإن مت فاذكرني بذكر محبب
فقد كان جماً في رضاك مسالكي

اگر میں مر جاؤں تو مجھے محبت سے یاد رکھنا ،
کیونکہ تمہاری خوشنودی کے لیے میری راہیں بے شمار تھیں۔
وإلا ففي دبر الصلاة بدعوة
يلقى بها المسجون في نار مالك

یہ نہیں تو کم ازکم ہر نماز کے بعد دعامیں یاد رکھنا جس سے جہنم کے قیدی کو کچھ نفع پہنچے
عليك سلام الله حياً وميتاً
ومن بعدما تحيا عتيقاً لمالك

تجھ پر ہر حال میں اللہ کی سلامتی ہو۔
جیتے جی ، میرے پیچھے اور جب دوبارہ زندہ کیاجاؤں۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ عیادت کو آئے تو حجاج نے ان سے اپنی تکلیفوں کا شکوہ کیا۔
حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا '' میں تجھے منع نہیں کرتا تھا کہ نیکوکاروں کو نہ ستا۔
مگر افسوس تم نے نہیں سنا۔''حجاج نے خفا ہو کر جواب دیا۔'' میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ اس مصیبت کو دور کرنے کے لیے دعا کرو ، میں تم سے یہ دعا چاہتا ہوں کہ خدا جلد از جلد میری روح قبض کرے اور اب زیادہ عذاب نہ دے ''
اسی اثباء میں ابومنذر یعلی بن مخلد مزاج پرسی کو پہنچے۔
'' حجاج! موت کے سکرات اور سختیوں پر تیرا کیا حال ہے ؟''
انہوں نے سوال کیا۔
'' ائے یعلٰی! '' حجاج نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا '' کیا پوچھتے ہو ، شدید مصیبت ! سخت تکلیف ! ناقابل بیان الم ، ناقابل برداشت درد! سفر دراز! توشہ قلیل ! آہ ! میری ہلاکت ! اگر اس جبار و قہار نے مجھ پر رحم نہ کھایا !"

یہ سن کر ابومنذر نے کہا '' ائے حجاج! خدا اپنے انہی بندوں پر رحم کھاتا ہے جو رحم دل اور نیک نفس ہوتے ہیں۔ اس کی مخلوق سے بھلائی کرتے ہیں۔محبت کرتے ہیں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ تو فرعون اور ہامان کا ساتھی تھا کیونکہ تیری سیرت بگڑی ہوئی تھی ، تو نے اپنی ملت ترک کر دی تھی۔ راہ حق سے کٹ گیا تھا۔صالحین کے طور طریقوں سے دور ہو گیا تھا تو نے نیک انسان قتل کر کے ان کی جماعے فنا کر ڈالی ، تابعین کی جڑیں کاٹ کر ان کا پاک درخت اکھاڑ پھینکا ، افسوس تو نے خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت کی۔
تو نے خون کی ندیاں بہا دیں ، جانیں لیں ، آبروئیں برباد کیں ، قہر و جبر کی روش اختیار کی۔ تو نے نہ اپنا دین ہی بچایا ، نہ دنیا ہی پائی ۔ تونے خاندان مروان کو عزت دی۔ مگر اپنا نفس ذلیل کیا اور ان کا گھر برباد کیا ، مگر اپنا گھر ویران کر لیا ، آج تیرے لیے نہ نجات ہے نہ فریاد ، کیونکہ تو آج کے دن اس کے بعد غافل تھا ، تو اس امت کے لئے مصیبت اورقہر تھا ، اللہ کا ہزار ہزار شکرہے کہ اس نے تیری موت سے امت کو راحت بخشی اور تجھے مغلوب کر کے اس کی آرزو پوری کر دی۔ ''
راوی کہتا ہے کہ حجاج یہ سن کر مبہوت ہو گیا ، دیر تک سناٹے میں رہا ، پھر اس نے ٹھنڈی سانس لی۔ آنسو ڈبڈبا آئے اور آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کہا کہ '' ائے الہٰی ! مجھ بخش دے ، کیونکہ لوگ کہتے ہیں تو مجھے نہیں بخشے گا ۔پھر یہ شعر پڑھا :
رب إن العباد قد أيأسوني
ورجائي لك الغداة عظيم

الٰہی ! بندوں نے مجھے ناامید کر ڈالا ۔حالانکہ میں تجھ سے بڑی امید رکھتا ہوں -
یہ کہکر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اگر کوئی بھائی یا بہن تحقیق کرنا چاہا تو اس تھریڈ کا لازمی مطالعہ کرے​

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی آپ کافی سارے تھریڈز میں یہی ایک ہی لنک لگاتے جارہے ہیں۔ جو کہ درست بات نہیں۔ آپ کی اس طرح کی تمام پوسٹ ریموو ہوسکتی ہیں۔ اس لیے اجتناب ہی بہتر ہے۔جزاکم اللہ خیرا
 
Top