السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امام کعبہ الشیخ خالد الغامدی نے جماعت اسلامی اور سید مودودی کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرمایا:
"جماعت اسلامی پاکستان کے لیے پوری امت کے دلوں میں محبت پائی جاتی ہے۔ دنیا میں اور مشرق و مغرب میں اس جماعت کے لیے آپ احترام اور محبت پائیں گے۔ ہم بھی جماعت اسلامی پاکستان کی ان خدمات سے باخبر رہتے ہیں جو اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے، اللہ کی عطا کردہ شریعت کو نافذ کرنے کے لیے اور اس پوری ریاست کو اللہ کے دین کے مطابق ڈھالنے کے لیے یہ مبارک جماعت کر رہی ہے۔ یہ جماعت اس دن سے ہی ایک مبارک جماعت رہی ہے جب امام العلامہ ابو الاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔امام ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ اس امت کے بڑے علماء میں سے تھے۔ انہوں نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔( کتاب و سنت کے) علم اور دعوت حق کو عام کیا۔ پاکستان اور پاکستان سے باہر بھی سنت کو نشر کرنے میں بڑا کردار ادا کیا اور (اس مقصد کے لیے) بہت کتابیں لکھیں۔ ہم نے بھی ان کی کتابوں کا مطالعہ اور تدریس کی ہے ، انہوں نے جو کچھ لکھا ہے ہم اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ اس امت مبارکہ کے بڑے علماء میں سے تھے۔اللہ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور ان کا ٹھکانہ اپنی وسیع و عریض جنتوں میں بنائے۔ جب ان کی وفات ہوئی تو آپ بھی جانتے ہیں کہ مکہ مکرمہ اور حرم مکی میں بھی ان کی نماز جنازہ غائبانہ ادا کی گئی جو اس امام کے بلند مرتبے کی واضح دلیل ہے۔
امام کعبہ کو اردو آتی ہے؟ امام کعبہ نے مودودی صاحب کی صرف عربی میں مترجم کتاب ہی پڑھی ہوگی!!
میں آپ کو مولانا مودودی کا ایک کارنامہ بیان کر دیتا ہوں جہاں وہ جماعت کے علاوہ سب کو یہودیوں کی طرح قرار دیتے ہیں!! وہ بھی بلا تبصرہ!! کیونکہ اگر میں نے تبصرہ کیا تو ممکن ہے بعض لوگوں پر بہت ناگوار گذرے!!
دعوتِ حق ایک عظیم آزمائش ہے
اس موقع پر ایک بات نہات صفائی کے ساتھ کہہ دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس قسم کی ایک دعوت کا جیسی کہ ہماری یہ دعوت ہے، کسی مسلمان قوم کے اندر اُٹھنا اُس کو ایک بڑی سخت آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ جب تک حق کے بعض منتشر اجزاء باطل کی آمیزش کے ساتھ سامنے آتے رہیں، ایک مسلمان قوم کے لیے ان کو قبول نہ کرنے اور ان کا ساتھ نہ دینے کا ایک معقول سبب موجود رہتا ہے۔ اور اس کا عذر مقبول ہوتا رہتا ہے۔ مگر جب پُورا حق بالکل بے نقاب ہو کر اپنی خالص صورت میں سامنے رکھ دیا جائے اور اس کی طرف اسلام کا دعویٰ رکھنے والی قوم کو دعوت دی جائے تو اس کا ساتھ دے اور اس خدمت کو انجام دینے کے لیے اُٹھ کھڑی ہو اُمت مسلمہ کی پیدائش کی ایک ہی غرض ہے، یا نہیں تو اسے ردّ کرکے وہی پوزیشن اختیار کرلے جو اس سے پہلے یہودی قوم اختیار کر چکی ہے۔ ایسی صورت میں ان دو راہوں کے سوا کسی تیسری راہ کی گنجائش اس قوم کے لیے باقی نہیں رہتی۔ یہ عین ممکن ہے کہ اس دو ٹوک فیصلہ میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے مسلمانوں کو ڈھیل دے اور اس نوعیت کی یکے بعد دیگرے کئی دعوتوں کے اُٹھنے تک دیکھتا رہے کہ وہ ان کے ساتھ کیا روش اختیار کرتے ہیں۔ لیکن بہر حال اس دعوت کی مُنہ موڑنے کا انجام آخر وہی ہے جو میں نے آپ سے عرض کردیا ہے۔ غیر مسلم اقوام کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ لیکن مسلمان اگر حق سے منہ موڑیں اور اپنے مقصدِ وجود کی طرف صریح دعوت کو سُن کر اُلٹے پاؤں پھر جائیں تو یہ وہ جرم ہے جس پر کسی نبی کی اُمت کو معاف نہیں کیاہے۔
اب چونکہ یہ دعوت ہندوستان
﴿حاشیہ 01﴾ میں اُٹھ چکی ہے اس لیے کم از کم یہاں کے مسلمانوں کے لیے تو آزمائش کا وہ خوفناک لمحہ آ ہی گیا ہے، رہے دوسرے ممالک کے مسلمان تو ہم ان تک اپنی دعوت پہنچانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اگر ہمیں اس کوشش میں کامیابی ہو گئی تو جہاں جہاں یہ پہنچے گی وہاں کے مسلمان بھی اسی آزمائش میں پڑ جائیں گے۔ میں یہ دعوےٰ کرنے کیلیے تو کوئی بنیاد نہیں رکھتا کہ یہ آخری موقع ہے جو مسلمانوں کو مل رہا ہے۔ اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے۔ ممکن ہے کہ ابھی کچھ اور مواقع مسلمانوں کے لیے مقدّر ہوں۔ لیکن قرآن کی بنیاد پر میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے یہ وقت ہے ایک نازک وقت۔ یہاں کے مسلمانوں کے سامنے اس وقت دو قسم کی دعوتیں ہیں۔ ایک طعف ہماری یہ دعوت ہے جو مسلمانوں کو ٹھیک اُس کام کے لیے بُلا رہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلم جماعت کی تاسیس و تشکیل کی واحد غرض قرار دیا ہے اور دوسری طرف وہ دعوتیں ہیں جن کے پیشِ نظر مسلمانوں کے دنیوی مفاد کی خدمت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ان دو متقابل پکاروں میں سے دوسری پکار کی طرف مسلمانوں کا فوج در فوج لپکنا اور پہلی پُکار کو امت کی عظیم اکثریت کا بہرے کانوں سے سُننا اکابر امت اور علماء و مشائخ کا اس سے بے اعتنائی برتنا یا اس کی کُھلی یا چھپی مخالفت پر اُتر آنا، اور ایک گروہ قلیل کا اس کی طرف بڑھنا بھی تو رُکتے اور جھجکتے اور پس و پیش کرتے ہوئے بڑھنا، میرے نزدیک ایک نہایت بُری علامت ہے اور ایک عظیم خطرہ ہے جس میں یہ مسلمان قوم اپنے آپ کو ڈال رہی ہے۔ خوب جان لیجئے کہ اگر اس وقت اس قوم میں کچھ آدمی بھی ایسے نہ نکلے جو امة وسط اور شهداء الله بننے کے قابل ہوں اور وہ خدمت انجام دے سکیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی پر ایک صالح و مصلح گروہ کو کمر بستہ دیکھنا چاہتا ہے تو پھر:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّـهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿سورة المائدة54﴾
"بعید نہیں کہ اللہ کسی دوسری ایسی قوم کو لے آئے جو اللہ کو محبوب ہو اور اللہ اسے محبوب ہو، جو اہل ایمان پر نرم اور کفار پر سخت ہو، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کرے اور کسی ملامت کرنیوالے کی ملامت سے نہ ڈرے یہ اللہ کا فضل ہے جسے اللہ عطا کرتا ہے،جس کو چاہتا ہے۔ اللہ بڑی وسعت رکھنے والا اور علیم ہے۔"
آپ حضرات یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ آپ در اصل اُمَّة وسط بننے کے امیدوار ہیں۔ آپ کا مقصود یہ ہے کہ اس مقامِ بلند کو حاصل کریں۔ اتنے بڑے منصب کی امیدواری کے لیے اُٹھ کھڑا ہونا اور پھر نہ اُس کی عظمت کو محسوس کرنا، نہ اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا، ایک عظیم الشان بے خبری ہے اور اس سے بڑھ کر بے خبری یہ ہے کہ ایک طرف تو آپ اُن کم سے کم صفات سے بھی ابھی تک متصف نہ ہوئے ہوں جو اس کارِ عظیم کے لیے ضروری ہیں اور دوسری طرف آپ تقاضا کریں کہ فوراً ہی کوئی بڑا قدم اُٹھا دیا جائے۔ کیا آپ اتنا نہیں سمجھتے اور اس سے ڈرتے نہیں کہ اگر آپ نے کوئی ایسا قدم اُٹھایا جس کے لیے ضروری استعداد آپ نے اپنے اندر پیدا نہیں کی ہے تو آپ منہ کی کھا کر پسپا ہوں گے اور اس راہ میں پیچھے ہٹنا فِرَارٌ مِّنَ الزَّحف ہے جو خدا کی شریعت میں بہت بڑا گناہ ہے۔
﴿حاشیہ 01﴾ متحدہ ہندوستان مراد ہے جو 1947 ء میں پاکستان اور بھارت دو حصّوں میں تقسیم ہوگیا۔ تقسیم کے بعد پاکستان میں جماعت اِسلامی پاکستان اور بھارت میں جماعت اِسلامی ہند، یہ کام کر رہی ہے۔
﴿صفحہ 24 تا 28 ۔ رُداد جماعت اِسلامی۔ حِصّہ دوم، مُرتبہ : شعبۂ تنظيم جماعت اِسلامی، شعبۂ نشر و اشاعت جماعتِ اسلامی، پاکستان، منصورہ لاہور
﴾