محدث فورم کی انتظامیہ اس پر غور کرے! (جو بھی قرآٰن و حدیث کو چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوجائےگا۔ ابو حنیفہ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے قرآن و حدیث کو چھوڑ دیا۔)
محدث فورم کے منتظم جناب انس نضر صاحب وضاحت فرمائیں گے کہ واقعی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ "گمراہ" تھے؟
نٹ گردی کرتے ہوئے جناب شیخ مقصود الحسن فیضی صاحب کا یہ مضمون نظر سے گزرا دل سے دعا نکلی کہ اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے پرائے کی پرواہ کئے بغیر "راہ اعتدال" پر گامزن ہیں ، اللہ ہر مسلمان کو راہ اعتدال پر اپنانے کی توفیق بخشے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان پر نقد
از : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
الحمد للہ وحدہ الصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ ۔
اما بعد
ارشاد باری تعالی ہے : [تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ] {البقرة:134}
" یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی ، ان کی کمائی ان کے لئے ہے اور تمہاری کمائی تمہارے لئے اور ان کے اعمال کے بارے میں تم سے باز پرس نہ ہوگی " ۔
ارشا نبوی ہے :
"لا تسبو الاموات فانھم قد افضوا الی ما قدموا " ۔
مردوں کو گالی نہ دو ، اس لئے کہ جو کچھ اچھے برے اعمال وہ آگے بھیجے اس تک پہنچ گئے "
{ صحیح بخاری :1393 ، الجنائز – سنن النسائی :1936 ، الجنائز – مسند احمد6/180، بروایت عائشہ }
بلکہ ہمیں حکم یہ ہے کہ مردوں کے عیبوں کو ظاہر کرنے سے بچیں اور ان کی خوبیوں کو واضح کریں "
ارشاد نبوی ہے :
" اذکروا محاسن موتاکم وکفوا عن ساوئھم "
" اپنے مردوں کی خوبیوں کا ذکر کرو اور ان کے عیوب کو نہ چھیڑو " ۔
{ سنن ابو داود :4900، الادب – سنن الترمذی :1019، الجنائز – مستدرک الحاکم :1/358 ، بروایت ابن عمر }
ذرا اس قصہ پر بھی غور کریں :
ایک مجلس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا : یزید بن قیس کا – اس پر اللہ کی لعنت ہو – کیا حال ہے ؟ [ واضح رہے کہ یہ یزید وہی شخص ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والوں کا سردار تھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ کو کھلے عام برا بھلا کہتا تھا ] لوگوں نے جواب دیا : وہ تو مرگیا ، یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا استغفار پڑھنے لگیں ، لوگوں نے کہا : ابھی تک تو آپ اسے گالیاں دے رہی تھیں اور اب استغفار پڑھ رہی ہیں ، اس کا کیا مطلب ہے ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : مردوں کو برا بھلا نہ کہو اس لئے کہ وہ اپنے کئے کو پہنچ گئے ہیں ۔
{ صحیح ابن حبان :5/43 ، نمبر :2010 }
سنن ابو داود میں یہ حدیث مختصر ہے جس کے الفاظ ہیں :
" اذا مات صاحبکم فدعوہ ولا تقعوا فیہ "
" جب تمہار ساتھی مر جائے تو اس کو چھوڑ دو اور اس کی عیب جوئی کے پیچھے نہ پڑو "
{ سنن ابو داود :4899، الادب }
خاص کر اگر کسی مردے کو برا بھلا کہنے سے زندوں کو تکلیف پہنچ رہی ہو تو اس کی قباحب اور بڑھ جاتی ہے ۔
ارشاد نبوی ہے :
" لا تسبوا الاموات فتوذوا بہ الاحیاء "
" مردوں کو گالی نہ دو کہ اس سے زندوں کو تکلیف پہنچے "
{ سنن ابو داود :1983 ، الجنائز – مسند احمد :4/252 – صحیح ابن حبان :3011 ، 5/43 ، بروایت مغیرہ بن شعبہ }
ان احادیث کے پیش نظر اگر کوئی مصلحت راجحہ نہ ہوتو کسی مردے کو برا بھلا کہنا جائز نہیں ہے بلکہ بعض علماء کا خیال ہے کہ اگر کسی مردہ کافر کو برا بھلا کہنے سے زندوں کو تکلیف ہوتی ہو تو اسے بھی برا بھلا نہ کہا جائے گا ۔
{ دیکھئے فتح الباری :3/258-259 }
اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ و رضی اللہ عنہ و ارضاہ کی شخصیت قدماء اہل علم میں محل نزاع رہی ہے کچھ علماء نے بعض مسائل کی بنیاد پر ان پر جرح کی ہے حضرت امام سے متعلق بعض ناروا چیزیں معاصرانہ چشمک کی وجہ سے بعض کتابوں میں منقول ہوگئی ہیں ، دوسری طرف کچھ لوگوں نے ان کے بارے میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ قولا نہیں تو عملا ان کی معصومیت کا عقیدہ رکھ لیا ہے اور ان کے فضائل میں حدیثیں گھڑ لیں ہیں ، یہ دونوں رائیں مردود اور انصاف پسند اہل علم کے نزدیک قابل رد ہیں ، امام موصوف کے بارے میں عادلانہ رائے یہ ہے کہ وہ اہل سنت وجماعت کے اماموں میں سے ایک بہت بڑے امام ، کتا ب وسنت کے پابند اور دین اسلام کے ایک بہت بڑے خادم اور اس کی طرف سے دفاع کرنے والے عالم ہیں ، نہ غلطیوں سے مبرا ہیں اور نہ ہی فسق وفجور اور کفر وبدعت کے داعی ہیں ۔
{ دیکھئے معیا ر حق کا مقدمہ از شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی }
چنانچہ کتب تراجم وتاریخ و سیر کے عصر تدوین وتمحیص میں اہل سنت و جماعت کے معتبر اور قابل اعتماد علماء کا اس پر اتفاق ہے ، چھٹی و ساتویں صدی ہجری اور اس کے بعد لکھی جانے والی معتبر تاریخی کتابوں کا جس شخص نے بھی مطالعہ کیا ہوگا وہ اس حقیقت کا اعتراف کرے گا ۔
میں یہاں چند حوالے نقل کرتا ہوں :
[۱] امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی کتاب تذکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں وکان امام ورعا ، عالما عاملا ، متعبدا، کبیر الشان لا یقبل جوائز السلطان بل یتجرد وینکسب ۔{1/168}
آپ ایک پرہیزگار ، باعمل عالم ، عبادت گزار اور بڑے عظیم شان والے امام ہیں ، بادشاہوں کے انعامات قبول نہ کرتے بلکہ خود تجارت اور اپنی روزی کماتے ۔
یہی امام ذہبی اپنی مشہور کتاب سیر اعلام النبلاء کے تقریبا پندرہ صفحات پر امام صاحب کا ذکر خیر کیا ہے اور آپ کے ذم میں ایک حرف بھی نقل نہیں کیا بلکہ ذم کی طرف اشارہ تک نہیں کیا کہ امام موصوف پر لوگوں نے کچھ کلام کیا ہے ، پھر آخر میں لکھتے ہیں :
" وقال الشافعی : الناس فی الفقہ عیال علی ابی حنیفہ قلت : الامامۃ فی الفقہ و دقائقہ مسلمۃ الی ھذا لامام و ھذا امر لا شک فیہ ، ولیس یصح فی الاذھان شیئ، اذا احتاج النھار الی دلیل وسیرتہ تحتمل ان تفرد فی مجلدین رضی اللہ عنہ ورحمہ توفی شھیدا سقیا فی سنۃ خمسین ومائۃ ولہ سبعون سنۃ " ۔
{ السیر :6/403 }
امام شافعی فرماتے ہیں کہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے خوشہ چیں ہیں ، میں کہتا ہوں کہ فقہ اور فقہ کے دقیق مسائل کا استنباط اس امام کے بارے میں امر مسلم ہے ، یہ ایسی چیز ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے [پھر امام ذہبی عربی کا ایک شعر لکھتے ہیں جس کا ترجمہ ہے ] اگر دن کو وجود بھی دلیل پیش کرنے کا محتاج ہوتو ایسے ذہن رکھنے والوں کے نزدیک کوئی چیزصحیح نہیں ہوسکتی ، امام موصوف کی سیرت ایسی ہے کہ اسے دو جلدوں میں مرتب کی جائے اللہ تعالی ان سے راضی ہو اور ان پر رحم کرے ،سن۱۵۰ھ میں زہر دے کر انہیں شہید کردیا گیا ، اس وقت ان کی عمر ستر سال تھی ۔
[۲] امام ذہبی کے ہم عصر ایک اور امام جو تفسیر وحدیث اور تاریخ میں معروف خاص عام ہیں ، میری مراد حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمہ اللہ سے ہے وہ اپنی مشہور کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں :
" فقیہ العراق و احد أئمۃ الاسلام و السادۃ الاعلام و احد أرکان العلماء و احد أئمۃ الاربعۃ اصحاب المذاھب المتبوعۃ " ۔
عراق کے فقیہ ، ائمہ اسلام میں سے ایک ، اسلام کے سرداروں اور جوئی کے لوگوں میں سے ایک ، علماء میں سے ایک اہم بڑی شخصیت ، چار متبوعہ مذاہب سے ایک کے امام ۔
پھر تقریبا ایک صفحہ پر امام موصوف کی تعریف میں اہل علم کے اقوال نقل کئے ہیں ۔
{ البدایہ :10/110 }
[۳] حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے تہذیب التھذیب کے تقریبا چار صفحات پر امام موصوف کا ذکر خیر کیا ہے اور ان کے ذم میں ایک لفظ بھی نقل نہیں کیا بلکہ آخر میں لکھتے ہیں :
" ومناقب الامام ابو حنیفہ کثیرۃ حدا فرضی اللہ عنہ و أسکنہ الفردوس " آمین
امام ابوحنیفہ کے مناقب بہت زیادہ ہیں اللہ تعالی آپ سے راضی ہو اور جنت الفردوس میں جگہ دے ،
{ تھذیب التھذیب :10/102}
واضح رہے کہ یہ تینوں بزرگ جن کا ذکر کیا گیا ان میں سے کوئی بھی حنفی نہیں ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کے سامنےوہ تمام اقوال تفصیل کے ساتھ تھے جن سے امام ابو حنیفہ کی تنقیص وتوہین ثابت ہوئی ہے لیکن ان بزرگوں کا ان اقوال کی طرف اشارہ تک نہ کرنا بلکہ ان تمام باتوں کو بالکل ہی گول کرجانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان محققین کے نزدیک وہ اقوال امام صاحب ، ان کے علم ، ورع اور تقوی کے شایان شان نہیں ہیں ۔
[۴] حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے بھی امام ابو حنیفہ کو اپنی کتاب طبقات الحفاظ سے پانچویں طبقہ میں رکھا ہے اور ان کے ذم میں ایک لفظ بھی نقل نہیں کیا ہے ۔
{ طبقات الحفاظ :80-81 } ۔
[۵] بلکہ حسن اتفاق یہ دیکھئے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایک مختصر سی کتاب طبقات المحدثین میں لکھی ہے جس میں بڑے بڑے محدثین اور حفاظ حدیث کے نام کی فہرست رکھی ہے ، لکھتے ہیں : " فھذہ مقدمۃ فی ذکر اسماء اعلام حملۃ الآثار النبویہ "
{ المعین طبقات المحدثین ،ص:17 }
اس کتاب میں محدثین کے کل ستائیس طبقات ہیں جن میں چوتھے طبقے کا عنوان ہے ، طبقۃ الاعمش و ابی حنیفہ ، پھر اس طبقہ کے محدثین عظام میں امام ابو حنیفہ کا بھی نام درج ہے ۔ {ص:51-57 } ۔
[۶] امام ابن خلکان رحمہ اللہ ساتویں صدی ہجری کے مشہور امام و مؤرخ ہیں انہوں نے بھی اپنی مشہور کتاب وفیات الاعیان کے تقریبا دس صفحوں پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر خیر کیا ، چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں :" وکان عالما عاملا زاھدا عابدا ، ورعا تقیا ، کثیر الخشوع دائم التفرع الی اللہ تعالی "{ 5/406 }
" وہ عالم باعمل تھے ، پرہیزگار و عبادت گزار تھے ، متقی اور صاحب ورع بزرگ تھے ، ہمیشہ خشوع و خضوع اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے " ۔
پورے ترجمے میں ایک لفظ بھی ذم میں نقل نہیں کیا ہے بلکہ لکھتے ہیں کہ کاشکہ وہ اقوال جو خطیب بغدادی نے امام موصوف کے مثالب میں نقل کیا ہے نہ لکھے ہوتے تو بہتر تھا ۔
اس طرح اگر اگلے پچھلے اہل علم کے اقوال نقل کئے جائیں تو موضوع بہت طویل ہوجائے گا ، ہم نے یہاں صرف پانچ اہل علم کے حوالے نقل کئے ہیں جو اہل سنت وجماعت کے معتبر اور قابل اعتماد ناقدین فن ہیں خاص کر ابتدا کے تین حضرات کے اقوال وتحقیق پر حدیث کی تصحیح و تضعیف کی بنیاد رکھی جاتی ہے ، اب ان حضرات کا امام موصوف کے ذم و تنقیص کا ایک لفظ بھی نقل نہ کرنا بلکہ ان کی طرف اشارہ تک نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اقوال اس لائق ہیں کہ انہیں طاق نسیان پر رکھ کر اس پر بھول کا دبیز پردہ ڈال دیا جائے ۔ واللہ اعلم ۔
یہی منہج ہمارے ہند وپاک کے کبار علمائے اہلحدیث کا رہا ہے اور اپنے اساتذہ کو بھی ہم نے اس نہج پر چلتے پایا ہے چنانچہ شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب معیار حق میں امام حنیفہ رحمہ اللہ کو اپنا پیشوا مجتہد ، متبع سنت اور متقی و پرہیزگار لکھتے ہیں ۔ {ص:29 }
امام عصر علامہ محمد ابراہیم سیالکوٹی رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب تاریخ اہل حدیث میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ بڑے خوبصورت اور عمدہ انداز میں کرتے ہیں ، اہل حدیث کو اس کا مطالعہ کرلینا چاہئے ، علامہ سیالکوٹی رحمہ اللہ امام موصوف کی طرف دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں : " حالانکہ آپ اہل سنت کے بزرگ امام ہیں اور آپ کی زندگی اعلی درجے کے تقوے اور تورع پر گزری جس سے کسی کو انکار نہیں " ۔
{ تاریخ اہل حدیث ،ص:77 }
اس کے بعد ان تمام الزامات کی تردید کی ہے جو امام پر لگائے جاتے ہیں اور ائمہ فن کے اقوال بھی نقل کئے ہیں اس میں سب سے پہلے نمبر پر امام ابو حنیفہ کو رکھا ہے اور تقریبا بارہ صفحات پر آپ کی سیرت لکھی ہے ۔
{ص:54تا 65 }
۲- سابق امیر جمعیت اہل حدیث پاکستان علامہ محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ اپنے گہرے علم ، باریک بینی اور توازن طبع کے لحاظ سے بہت مشہور ہیں ، جن لوگوں نے ان کی کتابیں پڑھی ہیں وہ اس حقیقت کو سمجھتے ہیں ، ان کی بعض اردو کتابوں کا ترجمہ عربی زبان میں ہوا ہے ، وہ اپنی کتاب فتاوی سلفیہ میں لکھتے ہیں : " جس قدر یہ زمین [زمین کوفہ ]سنگلاخ تھی اسی قدر وہاں اعتقادی اور عملی اصلاح کے لئے ایک آئینی شخص حضرت امام ابو حنیفہ تھے جن کی فقہی موشگافیوں نے اعتزال و تجمم کے ساتھ رفض وتشیع کو بھی ورطہٴحیرت میں ڈال دیا ۔ اللھم ارحمہ واجعل الجنۃ الفردوس ماواہ ۔
{ فتاوی سلفیہ ،ص:143 }
۳- عصر حاضر میں علامہ البانی رحمہ اللہ کا حدیث وفقہ میں جو مقام ہے اور علمائے اہل حدیث کے نزدیک ان کی جو اہمیت ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے ، علامہ مرحوم جہاں ایک طرف حفظ و ضبط کے لحاظ سے امام موصوف پر کلام کرتے ہیں وہیں ان کی علمیت ، صلاح وتقوی سے متعلق جو کچھ امام ذہبی نے نقل کیا ہے اس سے مکمل موافقت ظاہر کرتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں :
" ولذلک ختم الامام الذھبی فی سیر النبلاء :5/288/1 ، بقولہ وبہ نختم : قلت : الامامۃ فی الفقہ و دقائقہ مسلمۃ الی ھذا الامام وھذا امر لا شک فیہ ،
لیس یصح فی الاذھان شیئ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اذا احتاج النھار الی اللیل ۔
{ سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ :1/167 }
یہاں یہ امر بھی قابل اشارہ ہے کہ ہمارے ہندوپاک کے بعض اہل علم نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پرکلام کیا ہے جیسے حال میں مولانا رئیس احمد ندوی رحمہ اللہ ۔
اس سلسلہ میں گزارش یہ ہے کہ :
اولا : اگر بعض اہل علم نے امام صاحب سے متعلق کوئی ایسی بات کہی ہے تو ان کے مقابل جمہور علمائے اہل حدیث جو ان سے زیادہ علم رکھنے والے اوران سے گہری نظر رکھنے والے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقام کو زیادہ سمجھنے والے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ان الزامات سے بری قرار دیا ہے جیسے شیخ الکل اور علامہ میں سیالکوٹی رحمہم اللہ جمیعا ۔
ثانیا : مولانا رئیس ندوی رحمہ اللہ نے مستقلا اور بالمقصد امام صاحب رحمہ اللہ پر کلام نہیں کیا اور نہ عوام کے سامنے امام موصوف کے عیوب بیان کرتے پھرتے تھے بلکہ ان کی تحریر تو دیوبندی حضرات کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں غلو اور اہلحدیثوں پر امام صاحب پر توہین کے الزام کا رد عمل ہے جس سے مولانا مرحوم کا مقصد یہ بتلانا تھا کہ :
اتنی نہ بڑھا پاکی واماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ اہل علم کا علمی مجالس میں کسی موضوع کو چھڑنا اور معنی رکھتا ہے اور اسے حدیث مجالس اور کم علم وکم سمجھ اور کم تجربہ لوگوں کے سامنے بیان کرنا دوسرا معنی رکھتا ہے ۔
حتی کہ میری رائے میں حضرت مولانا رئیس احمد ندوی رحمہ اللہ اگر وہی اسلوب اختیار کئے ہوتے جو علامہ عبد الرحمن معلمی یمانی رحمہ اللہ نے التبکیل میں استعمال کیا ہے تو بہتر ہوتا ۔
ذرا غور کریں کہ ہم جیسے معمولی علم رکھنے والے طالبان علم کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اگر ایک طرف امام صاحب پر کسی وجہ سے بعض اہل علم نے کلام کیا ہے تو دوسری طرف دوسرے اہل علم نے انکی مدح سرائی بھی کی ہے جسے کتب سیر میں دیکھا جاسکتا ہے ، اب صرف ایک طرف کی بات کو لے لینا اور باقی باتوں کو چھوڑ دینا تحقیق و انصاف سے گری ہوئی بات ہے ، خاص کر امام موصوف رحمہ اللہ کی طرف منسوب بہت سی باتیں محل نظر ہیں علی سبیل المثال خلق القرآن سے متعلق امام موصوف سے دونوں قسم کی روایتیں منوقل ہیں ایک طرف یہ نقل کیا جاتا ہے کہ امام صاحب خلق قرآن کے قائل تھے { واضح رہے کہ اس کم علم کی تحقیق میں یہ روایتیں صحیح نہیں ہیں } اور دوسری طرف یہ منقول ہے کہ امام صاحب خلق قرآن کے قائل نہیں تھے بلکہ اسے بدعت اور کفر قرار دیتے تھے جیسا کہ فقہ اکبر اور عقیدہ طحاویہ وغیرہ میں مذکور ہے ، اب سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس ان متضاد راویوں کو پرکھنے کا معیار کیاہے ؟ جب کہ ہم دیکھتے ہیں امام ذہبی ، امام ابن کثیر اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ جیسے ناقدین فن ان باتوں سے قطعا اعراض کرتے آئے ہیں بلکہ امام ابن تیمیہ اور امام ذہبی رحمہما اللہ وغیرہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو سلف کے عقیدے پر مانتے ہیں ۔
اس لئے طالبان علوم شرعیہ سے میری گزارش ہے کہ اپنے علم کو پختہ بنانے ، تزکیہ نفس اور ذہنی تربیت پر خصوصی توجہ دیں اور اہل علم کے عیوب اور ان کی ذات پر کیچڑ اچھالنے سے پرہیز کریں اور یاد رکھیں کہ علماء نے کہا ہے کہ " لحوم العلماء مسمومۃ " علماء کا خون زہر آلود ہے ، نیز تاریخ شاہد ہے کہ جن لوگوں نے جذبات اور ناتجربہ کاری اور اپنے کو عوام مِں ظاہر کرنے کی غرض سے علماء حق پر انگلی اٹھائی ہے اللہ تعالی نے ان کے علم کی برکت کو محو کردیا ہے ، ایسے لوگوں کو امام سخاوی رحمہ اللہ کی کتاب الاعلان بالتوبیخ لمن ذم التاریخ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے ۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے متعلق یہ چند سطریں اس لئے تحریر کی گئیں کہ بہت سے جذباتی اور نوجوان اہلحدیث دعاۃ سے متعلق سننے میں آتا ہے کہ وہ امام موصوف سے متعلق بدزبانی ہی نہیں بلکہ بدعقیدگی میں مبتلا ہیں حتی کہ ان میں سے بعض تو امام موصوف کو " رحمہ اللہ " کہنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ امام صاحب کو مسلمان نہیں سمجھتے { حاشا للہ } مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں ایسے لوگ خود ہی رحمت الہی سے محروم نہ ہوجائیں ، علامہ میر سیالکوٹی لکھتے ہیں :
" ہر چند کہ میں سخت گنہگار ہوں ، لیکن یہ ایمان رکھتا ہوں اور اپنے اساتذہ جناب ابو عبد اللہ عبیدہ اللہ غلام حسن صاحب مرحوم سیالکوٹی اور جناب مولانا حافظ عبد المنان صاحب مرحوم محدث وزیر آبادی کی صحبت وتلقین سے یہ بات یقین کے رتبے تک پہنچ چکی ہے کہ بزرگان دین خصوصا حضرات ائمہ متبوعین سے حسن عقیدت نزول برکات کا ذریعہ ہے ۔
{ تاریخ اہل حدیث :95 }
واللہ اعلم وصلی اللہ علی نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم