• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موطأ امام مالک روایۃ ابن القاسم (یونیکوڈ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
جابر بن عبد الله " حديثٌ واحدٌ"
21- عن أبي سلمة عن جابر بن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ( (أيما رجلٍ أعمر عمرى له ولعقبه: فإنها للذي يعطاها لا ترجع إلى الذي أعطاها لأنه أعطى عطاءً وقعت فيه المواريث) ) .
سیدنا جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کو عمریٰ ( عمر بھر کے لئے کسی چیز کا تحفہ ) دیا جائے کہ یہ اس کا اور اس کے وارثوں کا حق ہے تو جسے عمریٰ ملا اسی کا ہوجائے گا اور دینے والے کی طرف واپس نہیں لوٹے گا کیونکہ اس نے اس طرح دیا ہے کہ اس میں وراثت کے احکام جاری ہوگئے ۔
صحيح
«21- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 756/2 ض 1517 ، ك 36 ب 37 ح 43) التمهيد 112/7 ، الاستذكار : 1446
و أخرجه مسلم (1625) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
أبو هريرة " أربعة أحاديث"
22- وبه: عن أبي سلمة أن أبا هريرة كان يصلي بهم فيكبر كلما خفض ورفع، فإذا انصرف قال: والله إني لأشبهكم صلاةً برسول الله صلى الله عليه وسلم..
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ انھیں نماز پڑھاتے تو ہر اونچ نیچ میں تکبیر ( اللہ اکبر ) کہتے پھر جب نماز سے فارغ ہوتے تو فرماتے : اللہ کی قسم ! میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہوں ۔
صحيح
متفق عليه
« 22- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 76/1 ح 163 ، ك 3 ب 4 ح 19 ) التمهيد 79/7، الاستذكار : 143
و أخرجه البخاري (785) ومسلم (392) من حديث مالك به»
------------------
23- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ( (من أدرك الركعة من الصلاة فقد أدرك الصلاة) ) .. اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص نماز کی ایک رکعت پالے تو اس نے نماز پالی ۔
صحيح
متفق عليه
« 23- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 10/1 ح 14 ، ک 1 ، ب 3 ، ح 15) التمهيد 63/7 ، الاستذكار : 13
و أخرجه البخاري (580) ومسلم (607) من حديث مالك به »
------------------
24- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ( (إن أحدكم إذا قام يصلي جاءه الشيطان فلبس عليه حتى لا يدري كم صلى، فإذا وجد ذلك أحدكم فليسجد سجدتين وهو جالسٌ) ) .
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نماز کی ایک رکعت پالے تو اس نے نماز پالی۔
صحيح
متفق عليه
«24- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 100/1 ح 220 ، ک 4 ب 1 ح 1 ) التمهيد 89/7 ، الاستذكار : 193
و أخرجه البخاري (1232) ومسلم 389/2 بعد ح 569)
من حديث مالك به»
------------------
25- وبه: عن أبي هريرة: أن امرأتين من هذيلٍ رمت إحداهما الأخرى فطرحت جنيناً ميتاً فقضى فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم بغرةٍ عبدٍ أو وليدةٍ.
اور اسی سند ( کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ہذیل ( قبیلے ) کی دو عورتوں میں سے ایک نے دوسری کو مارا تو اس کا مردہ بچہ پیدا ہوگیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں فیصلہ کیا کہ ایک غلام یا لونڈی ( مارنے والی کی طرف سے بدلے اور دیت کے طور پر ) دی جائے ۔
صحيح
متفق عليه
«25- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 855/2 ح 1658 ، ك 43 ب 7 ح 5) التمهيد 107/7 ، الاستذكار : 1586
و أخرجه البخاري (5759) ومسلم (1681) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أبو عبد الله الأغر وأبو سلمة بن عبد الرحمن
حديثٌ واحدٌ
26- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن أبي عبد الله الأغر وعن أبي سلمة بن عبد الرحمن عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:( (ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلةٍ إلى السماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر، فيقول: من يدعوني فأستجيب له، ومن يسألني فأعطيه، ومن يستغفرني فأغفر له) ) .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کے آخری پہر میں آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے اور فرماتا ہے : کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تاکہ میں اسے دے دوں؟ کون ہے جو مجھ سے گناہ معاف کروائے تاکہ میں اس کے گناہ معاف کر دوں؟
صحيح
متفق عليه

«26- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 214/1 ح 499 ، ك 15 ، ب 8 ح 30) التمهيد 128/7 ، الاستذكار : 468
و أخرجه البخاري (1145) ، ومسلم (758) من حديث مالك به
من رواية يحيي وجاء في الأصل : يَدْعُنِيْ»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حميد بن عبد الرحمن بن عوفٍ " ستة أحاديث"
27- قال مالكٌ: حدثني ابن شهابٍ عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف أنه سمع معاوية بن أبي سفيان يوم عاشوراء عام حج وهو على المنبر يقول: يا أهل المدينة، أين علماؤكم؟! سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لهذا اليوم: ( (هذا يوم عاشوراء ولم يكتب الله عليكم صيامه وأنا صائمٌ، فمن شاء فليصم ومن شاء فليفطر) ) .
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے جس سال حج کیا تھا ، عاشوراء ( دس محرم) والے دن منبر پر فرمایا : اے مدینے والو ! تمہارے علماءکہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ عاشوراء کا دن ہے ، اس کا روزہ اللہ نے تم پر فرض نہیں کیا ۔ میں روزے سے ہوں ، جس کی مرضی ہے روزہ رکھے اور جس کی مرضی ہے ( یہ) روزہ نہ رکھے ۔
صحيح
متفق عليه
«27- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 299/1 ح 672 ، ك 18 ب 11 ح 34 ) التمهيد 203/7 ، الاستذكار : 622
و أخرجه البخاري (2003) ومسلم (1129) من حديث مالك به »
------------------
28- وبه: عن حميدٍ أنه سمع معاوية بن أبي سفيان عام حج وهو على المنبر وتناول قصة من شعرٍ كانت في يد حرسي يقول: يا أهل المدينة أين علماؤكم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن مثل هذه ويقول: ( (إنما هلكت بنو إسرائيل حين اتخذ هذه نساؤهم) ) .
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے جس سال حج کیا تھا ، منبر پر تشریف فرمات ہوئے ایک پہرے دار کے ہاتھ سے بالوں کا ایک گچھا لے کر فرمایا : اے مدینے والو ! تمھارے علماءکہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ( بالوں کی وگ لگانے ) سے منع فرماتے ہوئے سنا ہے اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب ایسے بال لگائے تو بنی اسرائیل ہلاک ہو گئے ۔
صحيح
متفق عليه
«28- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 947/2 ح 1829 ، ك 51 ب 1 ح 2) التمهيد 216/7 ، الاستذكار : 1765
و أخرجه البخاري (3468) ومسلم (2127) من حديث مالك به »
------------------
29- وبه: عن حميد بن عبد الرحمن عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ( (من قام رمضان إيماناً واحتساباً غفر له ما تقدم من ذنبه) ) .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص رمضان ( کے مہینے ) میں ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے قیام کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ۔
صحيح
متفق عليه
« 29- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 113/1 ح 247 مطولاً ، ك 6 ، ب 1 ، ح 2 ، من حديث ابن شهاب عن ابي سلمه بن عبدالرحمٰن بن عوف عن أبي هريره به ) التمهيد 95/7 ، الاستذكار : 218، 219
و أخرجه البخاري (2009) ، ومسلم (759/173) من حديث مالك به»
------------------
30- وبه: أن رجلاً أفطر في رمضان في زمان النبي صلى الله عليه وسلم فأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يكفر بعتق رقبةٍ أو صيام شهرين متتابعين أو إطعام ستين مسكيناً، فقال: لا أجد، فأتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرق تمرٍ، فقال: ( (خذ هذا فتصدق به) ) . فقال: يا رسول الله، ما أحدٌ أحوج إليه مني، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بدت أنيابه ثم قال: ( (كله) ) .
اور اسی سند ( کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے ( اپنی بیوی کے ساتھ ، دن میں جماع کرنے کی وجہ سے ) روزہ توڑ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ ایک غلام آزاد کرے یا دو مہینوں کے لگاتار روزے رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ۔ اس نے کہا: میں یہ نہیں کر سکتا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا تو آپ نے اس سے فرمایا : یہ لے لو اور اسے صدقہ کر دو ۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ ! مجھ سے زیادہ ( مدینے میں) کوئی ضرورت مند نہیں ہے جو اس کا محتاج ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے حتی کہ آپ کے دندان مبارک نظر آنے لگے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اسے کھا لو ۔
صحيح
«30- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 296/1 ح 666 ، ك 18 ب 9 ح 28) التمهيد 161/7 ، الاستذكار : 616
و أخرجه مسلم (111/83) من حديث مالك به ورواه البخاري (1936) من حديث ابن شهاب الزهري به»
------------------
31- وبه: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ( (من أنفق زوجين في سبيل الله نودي في الجنة: يا عبد الله هذا خيرٌ. فمن كان من أهل الصلاة دعي من باب الصلاة، ومن كان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد، ومن كان من أهل الصدقة دعي من باب الصدقة، ومن كان من أهل الصيام دعي من باب الريان) ) فقال أبو بكرٍ: ما على من يدعى من هذه الأبواب من ضرورةٍ، فهل يدعى أحدٌ من هذه الأبواب كلها؟ قال: ( (نعم، وأرجو أن تكون منهم) ) .
اور اسی ( سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اللہ کے راستے میں دو چیزیں ( جوڑا) خرچ کرنے گا تو جنت میں اس سے کہا: جائے گا : اے عبداللہ ! یہ ( دروازہ) بہتر ہے ۔ نماز پڑھنے والے کو نماز والے دروازے سے ، جہاد کرنے والے کو جہاد والے دروازے سے ، صدقات دینے والے کو صدقے والے دروازے سے اور روزہ رکھنے والے کو باب الریان ( روزے والے دروازے ) سے بلایا جائے گا ۔ ابوبکر ( صدیق رضی اللہ عنہ ) نے عرض کیا : جسے ان دروازوں میں سے بلایا جائے اسے اس کے بعد کوئی اور ضرورت تو نہیں مگر کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! اور میرا خیال ہے کہ آپ بھی ان لوگوں میں سے ہوں گے ( جنھیں ان سب دروازوں میں سے بلایا جائے گا)
صحيح
«31- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 469/2 ح 1036 ، ک 21 ب 19 ح 49) التمهيد 183/7 ، الاستذكار : 973
و أخرجه البخاري (1897) من حديث مالك به ورواہ مسلم (1027) من حدیث ابن شهاب الزهري به»
------------------
"32- وبه: عن أبي هريرة أنه قال: لولا أن يشق على أمته لأمرهم بالسواك مع كل صلاةٍ أو كل وضوءٍ. قال أبو الحسن: وهذا لفظٌ في رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم إشكالٌ، ولكن فيه عن عيسى بن مسكينٍ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( (لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم) ) ."
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو آپ ہر نماز یا ہر وضو کے ساتھ مسواک ( کرنے ) کا حکم دیتے ۔ ( اس کتاب کے راوی اور ملخص امام) ابوالحسن ( القابسی رحمه الله )نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک اس لفظ ( متن) کے مرفوع ہونے میں اشکال ہے لیکن عیسیٰ بن مسکین نے ( اپنی روایت میں) کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا ڈر نہ ہوتا تو میں انھیں ( مسواک کا) حکم دیتا ۔
صحيح
«32- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 66/1 ح 143 ، ك 2 ، ب 32 ح 115) التمهيد 194/7 ، الاستذكار : 122
و أخرجه النسائي في الكبري (198/2 ح 3045) من حديث عبدارحمٰن بن القاسم عن مالك قال : حدثني ابن شهاب به وللمرفوع شاند عند أحمد (250/2 ح 7406) و سنده صحيح ، وانظر صحيح البخاري (887) ، وصحيح مسلم (252) ولحديث الآتي : 321»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حميد بن عبد الرحمن ومحمد بن النعمان " حديثٌ واحدٌ"
33- مالكٌ: حدثني ابن شهابٍ عن حميد بن عبد الرحمن بن عوفٍ وعن محمد بن النعمان بن بشيرٍ يحدثانه عن النعمان بن بشير أنه قال: إن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً كان لي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( (أكل ولدك نحلته مثل هذا؟) ) فقال: لا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم، ( (فارجعه) ) .

سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے ابا انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: میں نے اپنے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام اپنی مرضی سے تحفہ دیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اسی طرح غلام تحفے میں دئیے ہیں؟ تو انہوں ( نعمان بن بشیر کے والد رضی اللہ عنہ ) نے جواب دیا : نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر اس ( غلام) کو واپس لے لو ۔
صحيح
متفق عليه

«33- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 751/2 ، 752 ح 1511 ، ك 36 ب 33 ح 39) التمهيد 223/7 ، الاستذكار : 1439
و أخرجه البخاري (2586) ومسلم (1623/9) من حديث مالك به»
------------------
عروة بن الزبير له عن عائشة اثنا عشر حديثاً وعن عمرة عن عائشة" حديثٌ واحدٌ
34- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن عروة بن الزبير عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يغتسل من إناءٍ هو الفرق من الجنابة.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت ایک برتن سے کرتے تھے جسے فَرَقُ کہتے ہیں ( فرق میں تین صاع یعنی ساڑھے سات کلو پانی آتا تھا ۔ )
صحيح

« 34- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 44/1 ، 45 ح 97 ، ك 2 ، ب 17 ، ح 68) التمهيد 100/8 ، الاستذكار : 84
و أخرجه مسلم (319) من حديث مالك به ورواه البخاري (250) من حديث ابن شهاب الزهري به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
عروة بن الزبير له عن عائشة اثنا عشر حديثاً
35- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي بالليل إحدى عشرة ركعة يوتر منها بواحدةٍ. فإذا فرغ منها اضطجع على شقه الأيمن.
اور اسی سند ( کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعات نماز پڑھتے تھے ۔ ان میں سے ایک وتر ( آخر میں) پڑھتے تھے ۔ جب آپ اس سے فارغ ہوتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے تھے ۔
صحيح
«35- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 120/1 ح 261 ، ک 7 ب 2 ح 8) التمهيد 121/8 ، الاستذكار : 232
و أخرجه مسلم (736) من حديث مالك به »
------------------
36- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى في المسجد فصلى بصلاته ناسٌ، ثم صلى من القابلة فكثر الناس، ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة أو الرابعة فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم. فلما أصبح قال: ( (قد رأيت الذي صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا أني خشيت أن يفرض عليكم) ) وذلك في رمضان.
اور اسی ( سند کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ( رات کی) نماز ( تراویح) پڑھی تو ( بعض) لوگوں نے آپ کے ساتھ ( آپ کے پیچھے ) نماز پڑھی پھر آنے والی رات جب آپ نے نماز پڑھی تو لوگ زیادہ ہو گئے پھر تیسری یا چوتھی رات کو ( بہت) لوگ اکٹھے ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس ( نماز پڑھانے کے لیے ) باہر تشریف نہ لائے ۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا : تم نے ( رات کو) جو کیا وہ میں نے دیکھا تھا لیکن میں صرف اس وجہ سے تمھارے پاس نہ آیا کیونکہ مجھے خوف ہو گیا تھا کہ یہ ( قیام) تم پر فرض نہ ہو جائے ۔ یہ واقعہ رمضان میں ہوا ۔
صحيح
متفق عليه
« 36- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 113/1 ح 246 ، ک 6 ، ب 1 ح 1) التمهيد 108/8 ، الاستذكار : 217
و أخرجه البخاري (1129) ومسلم (761) من حديث مالك به»
------------------
37- وبه: عن عائشة أم المؤمنين أنها قالت: ما سبح رسول الله صلى الله عليه وسلم سبحة الضحى قط وإني لأستحبها، وإن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليدع العمل وهو يحب أن يعمل به خشية أن يعمل به الناس فيفرض عليهم.
اور اسی سند کے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز ( ہمیشہ) کبھی نہیں پڑھی اور میں اس نماز کو مستحب سمجھتی ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عمل کو پسند کرنے کے باوجود ( بعض اوقات) اس خوف کی وجہ سے چھوڑ دیتے تھے کہ کہیں اس پر لوگوں کے عمل کرنے کی وجہ سے فرض نہ ہو جائے ۔
صحيح
متفق عليه
«37- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 152/1 ، 153 ح 357 ، ك 9 ب 8 ح 29 وعنده : وابي لا سبحها (اور میں یہ نماز پڑهتی ہوں)) التمهيد 134/8 ، الاستذكار : 127
و أخرجه البخاري (1128) ومسلم (718) من حديث مالك به نحو المعنيٰ»
------------------
"38- وبه: عن عائشة أنها قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع فأهللنا بعمرةٍ، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( (من كان معه هديٌ فليهلل بالحج مع العمرة ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعاً) ) . قالت: فقدمت مكة وأنا حائضٌ فلم أطف بالبيت ولا بين الصفا والمروة. فشكوت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ( (انقضي رأسك وامشطي وأهلي بالحج ودعي العمرة) ) . قالت: ففعلت. فلما قضينا الحج أرسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم مع عبد الرحمن بن أبي بكر إلى التنعيم فاعتمرت. ثم قال: ((هذه مكان عمرتك) ) ، قالت: فطاف الذين أهلوا بالعمرة بالبيت وبين الصفا والمروة ثم حلوا ثم طافوا طوافاً آخر بعد أن رجعوا من منى لحجهم. وأما الذين أهلوا بالحج أو جمعوا الحج والعمرة فإنما طافوا طوافاً واحداً."
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ہم حجتہ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( حج کرنے کے لئے ) نکلے ۔ ہم نے عمرہ کی لبیک کہی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کے پاس قربانی کے جانور ہوں تو وہ عمرے کے ساتھ حج کی لبیک کہے پھر جب تک ان دونوں ( حج و عمرہ) سے فارغ نہ ہو جائے احرام نہ کھولے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میں مکہ آئی تو میں حیض سے تھی پس میں نے بیت اللہ کا طواف نہیں کیا اور نہ صفا و مروہ کی سعی کی پھر میں نے اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تو آپ نے فرمایا : اپنے سر کے بال کھول دو اور کنگھی کرو اور حج کا احرام باندھ لو اور عمرہ ( کا عمل) چھوڑ دو ۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اسی طرح کیا ۔ جب ہم نے حج مکمل کر لیا ( تو)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ( میرے بھائی) عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تنعیم بھیجا تو میں نے عمرہ کر لیا پھر آپ نے فرمایا : یہ تمھارے عمرے کی جگہ ہے ۔ انہوں نے کہا: جنھوں نے عمرے کی لبیک کہی تھی انہوں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر لی پھر انہوں نے احرام کھول دئیے پھر انہوں نے منیٰ سے لوٹنے کے بعد حج کا طواف کیا ۔ جن لوگوں نے حج ( افراد) کی لبیک کہی تھی یا حج اور عمرے ( قران) کی لبیک کہی تھی تو انہوں نے ( صفا مروہ کے درمیان) صرف ایک طواف کیا ۔
صحيح
متفق عليه
«38- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 410/1 ، 411ح 951 ک20 ب74ح 223 ، وعندہ : وَامْتَشِطِىْ) التمهيد 198/8 ، الاستذكار : 892
و أخرجه البخاري (1556) ومسلم (1211/111) من حديث مالك به »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
39- وبه: أنها أخبرته أن أفلح أخا أبي القعيس جاء يستأذن عليها -وهو عمها من الرضاعة- بعد أن نزل الحجاب، قالت: فابيت أن آذن له. فلما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم أخبرته بالذي صنعت فأمرني أن آذن له علي.
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ ان ( عروہ بن الزبیر) کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا : ابوالقعیس کے بھائی افلح جو کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا تھے ، انہوں نے پردے کی فرضیت کے بعد میرے ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے) پاس آنے کی اجازت چاہی تو میں نے اجازت دینے سے انکار کر دیا ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ کو بتایا کہ میں نے یہ کہا ہے ۔ آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں انھیں آنے کی اجازت دے دوں ۔
صحيح
متفق عليه

«39- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 602/2ح 1315 ۔ ك 30 ب 1 ح 3) التمهيد 235/8 ، الاستذكار : 1235
و أخرجه البخاري (5103) ومسلم (1445/3) من حديث مالك به
من رواية يحيي بن يحيي»
------------------
"40- وبه عن: ابن شهابٍ أنه سئل عن رضاعة الكبير فقال: أخبرني عروة بن الزبير أن أبا حذيفة بن عتبة بن ربيعة وكان من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان قد شهد بدراً، وكان تبنى سالماً الذي كان يقال له: سالمٌ مولى أبي حذيفة، كما تبنى رسول الله صلى الله عليه وسلم زيد بن حارثة، وأنكح أبو حذيفة سالماً وهو يرى أنه ابنه فأنكحه ابنة أخيه فاطمة ابنة الوليد بن عتبة بن ربيعة وهي يومئذٍ من المهاجرات الأول، وهي يومئذٍ من أفضل أيامى قريشٍ، فلما أنزل الله تعالى في كتابه في زيد بن حارثة ما أنزل، فقال:”ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم“ رد كل واحدٍ تبني من أولئك إلى أبيه، فإن لم يعلم أبوه رد إلى مواليه. فجاءت سهلة بنت سهيل -وهي امرأة أبي حذيفة وهي من بني عامر بن لؤي- إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله، كنا نرى سالماً ولداً وكان يدخل علي وأنا فضلٌ وليس لنا إلا بيتٌ واحدٌ، فماذا ترى في شأنه؟ فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما بلغنا: ( (أرضعيه خمس رضعاتٍ فيحرم بلبنها) ) . وكانت تراه ابناً من الرضاعة.
فأخذت بذلك عائشة أم المؤمنين فيمن كانت تحب أن يدخل عليها من الرجال. فكانت تأمر أختها أم كلثومٍ ابنة أبي بكرٍ الصديق رضي الله عنه وبنات أخيها أن يرضعن لها من أحبت أن يدخل عليها من الرجال. وأبى سائر أزواج النبي صلى الله عليه وسلم أن يدخل عليهن بتلك الرضاعة أحدٌ من الناس. وقلن: لا والله ما نرى الذي أمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم سهلة بنت سهيلٍ إلا رخصةً من رسول الله صلى الله عليه وسلم في رضاعة سالمٍ وحده. والله لا يدخل علينا بهذه الرضاعة أحدٌ. فعلى هذا من الخبر كان رأي أزواج النبي صلى الله عليه وسلم في رضاعة الكبير. قال أبو الحسن: الذي اتصل هذا الحديث، قول عروة: فأخذت بذلك عائشة."

عروہ بن الزبیر ( رحمه الله) سے روایت ہے کہ بدری صحابی ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ نے ( اپنے غلام) سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ کو متبنیٰ بنایا تھا ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو متبنیٰ بنایا تھا ۔ ابوحذیفہ نے سالم کا نکاح اپنی بھتیجی فاطمہ بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے کرایا جو کہ پہلی ہجرت کرنے والی صحابیات میں سے اور اپنے زمانے میں قریش کی افضل ترین عورتوں میں سے تھیں ، اس لئے کہ وہ انھیں اپنا بیٹا ہی سمجھتے تھے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ( قرآن مجید) میں سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں حکم نازل فرمایا : انھیں ان کے والدین کے ساتھ پکارو ( منسوب کرو) یہ تمھارے رب کے نزدیک زیادہ انصاف والی بات ہے ۔ اگر تمھیں ان کے والدین معلوم نہیں تو پھر وہ تمھارے دینی بھائی اور موالی ( غلام) ہیں ۔ (الاحزاب : 5 ) ہر ایک نے اپنے متبنیٰ کو اس کے ( حقیقی) والد کی طرف لوٹا دیا( منسوب کر دیا) اگر اس کا باپ معلوم نہیں تھا تو اسے موالی کی طرف منسوب کر دیا ۔ پھر ابوحذیفہ کی بیوی سہلہ بنت سہیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں ، وہ بنو عامر بن لوی میں سے تھیں ۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ ! ہم تو سالم کو بیٹا سمجھتے تھے جبکہ میں کام کاج کے لباس میں یا ایک ہی کپڑے میں ہوتی ہوں ، ہمارا ایک ہی گھر ہے ۔ آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے پانچ دفعہ دودھ پلا دو تو وہ اس دودھ کی وجہ سے حرام ہو جائے گا ( رضاعی بیٹا بن جائے گا) وہ اسے رضاعی بیٹا سمجھتی تھیں ۔ اس بات کو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اختیار کیا ۔ وہ مردوں میں سے جسے اپنے پاس آنے کی اجازت دینا چاہتیں تو اپنی بہن ام کلثوم بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ اور بھانجیوں کو حکم دیتیں کہ اسے ( اپنا) دودھ پلا دیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری بیویوں نے رضاعت کے ذریعے سے لوگوں کو اپنے پاس آنے کی اجازت سے انکار کیا اور کہا: نہیں ، اللہ کی قسم ! ہمارا خیال ہے کہ سہلہ بنت سہیل کا سالم کو رضاعی بیٹا بنانا صرف ان کے لئے خاص اجازت تھی ۔ اللہ کی قسم ! کوئی آدمی بھی اس رضاعت کے ذریعے سے ہمارے پاس نہیں آ سکے گا ۔ بڑی عمر کے آدمی کی رضاعت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی یہی رائے تھی ۔ ابولحسن ( الراوی) نے کہا: یہ حدیث عروہ کے اس قول کی وجہ سے مرفوع متصل ہو گئی ہے کہ ( اس بات کو عائشہ رضی اللہ عنہا نے اختیار کیا ۔)
إسناده صحيح

40- «الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 605/2، 606 ح 1325 ، ك 30 ب 2 ح 12) التمهيد 249/8 ، 250 ، الاستذكار : 1245
و أخرجه النسائي (86/6 ح 3326) و البيھقي (457/7) من حديث مالك به (مختصراً) ورواه عبدالرزاق 458/9 ، 459 ح 12886) عن مالك عن ابن شهاب عن عروة عن عائشة به وانظر التمهيد (250/8) وله شواهد عند مسلم (1453) وغيره »
------------------
"41- وبه: عن عروة عن عائشة أنها قالت: كان عتبة بن أبي وقاص عهد إلى أخيه سعد بن أبي وقاص أن ابن وليدة زمعة مني فاقبضه إليك، قالت: فلما كان عام الفتح أخذه سعد، وقال: ابن أخي، قد كان عهد إلي فيه، فقام إليه عبد بن زمعة فقال: أخي وابن وليدة أبي، ولد على فراشه. فتساوقا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال سعدٌ: يا رسول الله، ابن أخي قد كان عهد إلي فيه. وقال عبد بن زمعة: أخي وابن وليدة أبي، ولد على فراشه. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( (هو لك يا عبد بن زمعة) ) . وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:( (الولد للفراش وللعاهر الحجر) ) . ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لسودة بنت زمعة: ( (احتجبي منه) ) : لما رأى من شبهه بعتبة.
قالت: فما رآها حتى لقي الله عز وجل."
اور اسی سند کے ساتھ عروہ ( بن الزبیر) سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص کو ( مرتے وقت) یہ ذمہ داری سونپی کہ رمعہ ( بن قیس بن عبدالشمس) کی لونڈی کا بیٹا میرے نطفے سے ہے لہٰذا اسے اپنے قبضے میں رکھنا ۔ فتح مکہ والے سال سعد نے اس لڑکے کو لے کیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے ، میرے بھائی نے اس کے بارے میں مجھے ذمہ داری سونپی تھی ۔ تو عبد بن زمعہ نے اس کی طرف کھڑے ہو کر کہا: میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے ۔ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے ۔ سعد نے کہا: یا رسول اللہ ! یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے ، میرے بھائی نے مجھے اس کے بارے میں وصیت کی تھی ۔ عبد بن زمعہ نے کہا: میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عبد بن زمعہ ! یہ تمھارے سپرد ہے ، اولاد اسی کی شمار ہوگی جس کے بستر پر پیدا ہو ، اور زانی کے لئے پتھر ( سنگسار کرنا) ہے ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ لڑکا عتبہ ( بن ابی وقاص) سے مشابہ ہے تو آپ نے اپنی بیوی سودہ بنت زمعہ ( بن قیس) سے فرمایا : تم اس سے پردہ کرو ۔ آپ (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا: پس اس لڑکے نے سودہ رضی اللہ عنہ کو ان کی وفات تک نہیں دیکھا ۔
صحيح

«41- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 739/2 ح 1488 ، ك 36 ب 21 ح 20) التمهيد 178/8 ، الاستذكار : 1412
و أخرجه البخاري (6749) من حديث مالك به ورواه مسلم (1457) من حديث ابن شهاب الزهر به
من رواية يحيي بن يحيي وجاء في الأصل : عتبة بن وقاص و سعد بن وقاص»
------------------
42- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا اشتكى يقرأ على نفسه بالمعوذات وينفث. فلما اشتد وجعه كنت أقرأ عليه وأمسح عليه بيده رجاء بركتها.
اور اسی سند ( کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تو خود اپنے اوپر معوذات ( سورة الاخلاص ، سورة الفلق اور سورة الناس) دم کرکے پھونک مارتے تھے ۔ جب آپ کی بیماری زیادہ شدید ہو جاتی تو میں آپ پر دم کرتی اور آپ ( کے جسد مبارک) پر برکت ( حاصل کرنے ) کے لئے آپ کا ہاتھ پھیرتی تھی ۔
صحيح
متفق عليه

«42- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 942/2 ، 943 ح 1819 ، ك 50 ب 4 ح 10) التمهيد 129/8 ، الاستذكار : 1819
و أخرجه البخاري (5016) ومسلم (2192/51) من حديث مالك به »
------------------
43- وبه: أنها قالت: ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم في أمرين إلا أخذ أيسرهما ما لم يكن إثماً. فإن كان إثماً كان أبعد الناس منه. وما انتقم رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه إلا أن تنتهك حرمةٌ هي لله فينتقم لله بها.
اور اسی سند ( کے ساتھ عائشہ رضی اللہ عنہا ) سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن دو کاموں میں اختیار دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان کام ہی اختیار کیا بشرطیکہ وہ گناہ والا ( نا جائز) کام نہ ہوتا اور اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہنے والے ہوتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کے لئے کسی سے کبھی انتقام نہیں لیا الا یہ کہ اللہ کی مقرر کردہ حرمت کی خلاف ورزی ہوتی ہوتو اس صورت میں آپ اللہ کے لئے اس کا انتقام لیتے تھے ۔
صحيح
متفق عليه

«43- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 902/2 ، 903 ح 1736 ، ك 47 ب 1 ح 2) التمهيد 146/8 ، الاستذكار : 1668
و أخرجه البخاري (3560) ومسلم (2327/77) من حديث مالك به»
------------------
44- وبه: أنها قالت: إن أزواج النبي صلى الله عليه وسلم حين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم أردن أن يبعثن عثمان بن عفان إلى أبي بكرٍ الصديق فيسألنه ميراثهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت لهن عائشة: أليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( (لا نورث، ما تركنا فهو صدقةٌ) ) .
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ) روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے یہ ارادہ کیا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت میں سے اپنا حصہ مانگیں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ا ن سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ ہماری وراثت نہیں ہوتی ، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ؟
صحيح
متفق عليه

«44- الموطأ ( رواية يحييٰ بن يحييٰ 993/2 ح 1935 ، ك 56 ب 12 ح 27) التمهيد 150/8 ، الاستذكار : 1877
و أخرجه البخاري ( 6730) ومسلم ( 1758/51) من حديث مالك به»
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حديث بشير بن أبي مسعود وبقية حديث عائشة
45- مالكٌ عن ابن شهابٍ أن عمر بن عبد العزيز أخر الصلاة يوماً ، فدخل عليه عروة بن الزبير فأخبره أن المغيرة بن شعبة أخر الصلاة يوماً وهو بالكوفة. فدخل عليه أبو مسعودٍ الأنصاري فقال : ما هذا يا مغيرة؟ أليس قد علمت أن جبرائيل نزل فصلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم. ثم قال : بهذا أمرت. فقال عمر لعروة اعلم ما تحدث به يا عروة أو أن جبرائيل هو الذي أقام لرسول الله صلى الله عليه وسلم وقت الصلاة. قال عروة : كذلك كان بشير بن أبي مسعودٍ يحدث عن أبيه. قال عروة : ولقد حدثتني عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي العصر والشمس في حجرتها قبل أن تظهر.

ابن شہاب ( زہری) سے روایت ہے کہ ایک دن ( خلیفہ) عمر بن عبدالعزیز ( رحمه الله ) نے نماز ( پڑھنے ) میں تاخیر کی تو ان کے پاس تابعی عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ تشریف لائے پھر انھیں بتایا کہ ایک دن ( صحابی) مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں نماز ( پڑھنے ) میں تاخیر کی تو سیدنا ابومسعود ( عقبہ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ ) ان کے پاس تشریف لائے پھر فرمایا : اے مغیرہ ! یہ کیا ہے ؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جبریل علیہ السلام نے نازل ہو کر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ، پھر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ، پھر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ، پھر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ، پھر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ، پھر انہوں ( جبریل علیہ السلام ) نے فرمایا : اس کا آپ کو ( یا مجھے ) حکم دیا گیا ہے ۔ ( یہ سن کر )عمر ( بن عبدالعزیز رحمہ اللہ) نے عروہ رحمہ اللہ سے کہا: اے عروہ ! جان لو کہ تم کیا حدیث بیان کر رہے ہو؟ کیا جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کو اوقات قائم کرکے بتائے تھے ؟ عروہ نے کہا: اسی طرح بشیر بن ابی مسعود اپنے ابا ( ابومسعود رضی اللہ عنہ ) سے حدیث بیان کرتے تھے ۔ عروہ رحمہ اللہ نے کہا: کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ( اور میری خالہ) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھتے تھے اور دیواروں پر دھوپ چڑھنے سے پہلے ان کے حجرے میں ہوتی تھی ۔
صحيح
متفق عليه
«45- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 3/1 ، 4 ح 1 ، ك 1 ب 1 ح 1 ) التمهيد 10/8 ، الاستذكار : 1
و أخرجه البخاري (521 ، 522) ومسلم (610/167 ) من حديث مالك به»
------------------
عمرة عن عائشة
46- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن عروة بن الزبير عن عمرة بنت عبد الرحمن عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اعتكف يدني إلي رأسه فأرجله وكان لا يدخل البيت إلا لحاجة الإنسان.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کرتے ( تو حالت اعتکاف میں) اپنا سر ( مسجد سے نکال کر) میرے نزدیک کرتے پھر میں آپ کی کنگھی کرتی اور آپ صرف انسانی ضرورت کے لئے ہی گھر میں داخل ہوتے تھے ۔
صحيح
«46- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 312/1 ح 700 ، ك 19 ، ب 1 ، ح 1) التمهيد 316/8 ، الاستذكار : 649 ، 652
و أخرجه مسلم (297) من حديث مالك به »
------------------
عبد الرحمن بن عبد القاري حديثٌ واحدٌ
47- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن عروة بن الزبير عن عبد الرحمن بن عبد القاري قال : سمعت عمر بن الخطاب يقول : سمعت هشام بن حكيم يقرأ سورة الفرقان على غير ما أقرؤها عليه ، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم أقرأنيها ، فكدت أن أعجل عليه ، ثم أمهلته حتى انصرف ، ثم لببته بردائه فجئت به رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت : يا رسول الله ، إني سمعت هذا يقرأ سورة الفرقان على غير ما أقرأتنيها. فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (اقرأ) ) فقرأ القراءة التي سمعته يقرأ. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (هكذا أنزلت) ) . ثم قال لي : ( (اقرأ) ) : فقرأت ، فقال : ( (هكذا أنزلت. إن هذا القرآن أنزل على سبعة أحرفٍ فاقرؤوا ما تيسر منه) ) .

سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو سورة الفرقان اس طرح پڑھتے ہوئے سنا جس طرح میں نہیں پڑھتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت مجھے پڑھائی تھی تو قریب تھا کہ میں ان ( ہشام رضی اللہ عنہ ) پر جلدی میں حملہ کر دیتا ۔ پھرمیں نے انھیں مہلت دی جب وہ ( قرأت سے ) فارغ ہوئے تو میں ان کی چادر کو ان کے گلے میں لپیٹ کر سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا پھر میں نے کہا: یا رسول اللہ ! جیسے آپ نے مجھے سورة الفرقان پڑھائی ہے ، میں نے ان ( ہشام) کو سورة الفرقان اس کے خلاف پڑھتے ہوئے سنا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہشام سے فرمایا : پڑھو ! تو انہوں نے اسی طرح پڑھا جس طرح میں نے سنا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ اسی طرح نازل ہوئی ہے ۔ پھر آپ نے مجھ سے فرمایا : پڑھو ! میں نے ( یہ سورت) پڑھی تو آپ نے فرمایا : یہ اسی طرح نازل ہوئی ہے ۔ یہ قرآن سات حرفوں ( قرأتوں) پر نازل ہوا ہے لہٰذا اس میں سے جو میسر ہو پڑھو ۔
صحيح
متفق عليه
«47- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 201/1 ح 474 ، ك 15 ب 4 ح 5) التمهيد 272/8 ، الاستذكار : 443
و أخرجه البخاري (2419) ومسلم (818) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعودٍ ” تسعة أحاديث “
48- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعودٍ عن عبد الله بن عباسٍ أنه قال: أقبلت راكباً على حمارٍ وأنا يومئذٍ قد ناهزت الاحتلام ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس بمنىً، فمررت بين يدي بعض الصف فنزلت فأرسلت الحمار يرتع ودخلت في الصف، فلم ينكر ذلك علي أحدٌ.

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں ایک گدھے پر سوار ہوکر آیا اور میں اس وقت قریب البلوغ تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے ۔ پس میں صف کے کچھ حصے کے سامنے سے گزرا پھر میں نے گدھے سے اترکر اسے چھوڑ دیا تاکہ وہ چرتا پھرے اور میں صف میں داخل ہوگیا ۔ پس کسی ایک نے بھی مجھ پر انکار نہیں کیا ۔
صحيح
متفق عليه
«48- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 155/1 ، 156 ح 366 ، ك 9 ب 11 ح 38) التمهيد 20/9 ، الاستذكار : 413
و أخرجه البخاري (493) ومسلم (504) من حديث مالك به نحو المعنٰي»
------------------
49- وبه: عن ابن عباسٍ أنه قال: إن أم الفضل ابنة الحارث سمعته وهو يقرأ ”والمرسلات عرفاً“ فقالت: يا بني، لقد ذكرتني بقراءتك هذه السورة إنها لآخر ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ بها في المغرب.

اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ( ان کی والدہ) ام الفضل ( لبابہ) بنت الحارث ( رضی اللہ عنہما) نے انھیں ( نماز میں سورة المرسلات) «وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا» پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا : اے میرے بیٹے ! تم نے اس قرأت کے ساتھ مجھے یاد دلا دیا ہے کہ یہ وہ سورت ہے جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے آخر میں سنا ، آپ نماز مغرب میں اس کی قرأت کر رہے تھے ۔
صحيح
متفق عليه
«49- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 78/1 ح 169 ، ك 3 ب 5 ح 24) التمهيد 22/9 ، الاستذكار : 148 مختصراً
و أخرجه البخاري (763) ومسلم (462) من حديث مالك به»
------------------
50- وبه: عن ابن عباسٍ: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى مكة عام الفتح في رمضان فصام حتى بلغ الكديد ثم أفطر فأفطر الناس معه، وكانوا يأخذون بالأحدث فالأحدث من أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم.

اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی طرف رمضان میں روانہ ہوئے تو آپ نے کدید ( ایک مقام) تک روزے رکھے پھر آپ نے افطار کیا ( روزے نہ رکھے ) تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ افطار کیا اور لوگ ( صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم اجمعین) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تازہ بہ تازہ حکم پر عمل کرتے تھے ۔
صحيح
«50- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 294/1 ح 659 ، ك 18 ب 7 ح 21) التمهيد 64/9 ، الاستذكار : 609
و أخرجه البخاري (1944) من حديث مالك به مختصراً ورواه الدارمي (1715) من حديث مالك به ، ومسلم (1112) من حديث الزهري به»

------------------
51- وبه: أن سعد بن عبادة استفتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إن أمي ماتت وعليها نذرٌ ولم تقضه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( (اقضه عنها) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا: میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور ان پر نذ ر ( واجب) تھی جسے انہوں نے پورا نہیں کیا؟ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اس کی طرف سے ( نذر کو ) پورا کرو ۔
صحيح
متفق عليه

« 51- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 472/2 ح 1040 ، ك 22 ب 1 ح 1 ) التمهيد 24/9 ، الاستذكار : 972
و أخرجه البخاري (2761) ومسلم (1638) من حديث مالك به»

------------------
52- وبه: عن ابن عباسٍ أنه قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بشاةٍ ميتةٍ كان أعطاها مولاةً لميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ( (هلا انتفعتم بجلدها؟) ) فقالوا: يا رسول الله إنها ميتةٌ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( (إنما حرم أكلها) ) .

اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی مردار بکری کے پاس سے گزرے جو آپ نے اپنی زوجہ میمونہ رضی اللہ عنہ کی لونڈی کو دی تھی تو آپ نے فرمایا : تم نے اس کی جلد ( کھال ) سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا ؟ لوگوں نے کہا: یہ مُردار ہے ۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کا صرف کھانا حرام کیا گیاہے ۔
صحيح
«52- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 498/2 ض 1099 ك 25 ب 6 ح 16) التمهيد 49/9 ، الاستذكار : 1031
و أخرجه النسائي (172/7 ح 4240) من حديث عبدالرحمٰن بن القاسم عن مالك به
ورواه البخاري (1492) ومسلم (363/101) من حديث الزهري به»

------------------
53- وبه: عن ابن عباسٍ عن الصعب بن جثامة الليثي أنه أهدى لرسول الله صلى الله عليه وسلم حماراً وحشياً وهو بالأبواء أو بودان، فرده عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال: فلما رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما في وجهي قال: ( (إنا لم نرده عليك إلا أنا حرم) ) .

اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عبا س رضی اللہ عنہ سے روایت ہے “ وہ سیدنا صعب بن جثامہ اللیثی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابواءیاودان ایک مقام کے پاس رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گورخر ایک حلال جانور کے گوشت کا تحفہ پیش کیا جسے انہوں نے شکار کیا تھاتو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رد کر دیا ۔
صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے کی حالت دیکھی تو فرمایا : ہم نے اسے اس لئے قبول نہیں کیا کہ ہم حالت احرام میں ہیں ۔
صحيح
متفق عليه

«53- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 353/1 ح 801، ك 20 ب 25 ح 83) التمهيد 54/9 ، الاستذكار : 751
و أخرجه البخاري (1825) ومسلم (1193) من حديث مالك به »

------------------
54- وبه: عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعودٍ عن أبي هريرة وزيد بن خا لدٍ الجهني أنهما أخبراه: أن رجلين اختصما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال أحدهما: يا رسول الله، اقض بيننا بكتاب الله. وقال الآخر وهو أفقههما: أجل يا رسول الله، فاقض بيننا بكتاب والله وأذن لي في أن أتكلم. فقال: ( (تكلم) ) فقال: إن ابني كان عسيفاً على هذا فزنا بامرأته فأخبرني أن على ابني الرجم، فافتديت منه بمئة شاةٍ وبجاريةٍ لي، ثم إني سألت أهل العلم فأخبروني أنما على ابني جلد مئةٍ وتغريب عامٍ وإنما الرجم على امرأته. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( (أما والذي نفسي بيده لأقضين بينكما بكتاب الله. أما غنمك وجاريتك فرد إليك) ) . وجلد ابنه مئةً وغربه عاماً وأمر أنيساً الأسلمي أن يأتي امرأة الآخر، فإنه اعترفت رجمها، فاعترفت فرجمها.
قال مالك: والعسيف الأجير."

اور اسی سند کے ساتھ عبید اﷲ بن عبد اﷲ بن عتبہ بن مسعود رحمه الله سے روایت ہے “ انہیں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ دو آدمیوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اپنا جھگڑا پیش کیا تو ایک نے کہا: یا رسول اﷲ ! آپ ہمارے درمیان کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کریں ۔ دوسرا جوان دونوں میں زیادہ سمجھدار تھا بولا: جی ہاں یا رسول اﷲ ! آپ ہمارے درمیان کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کریں اور مجھے بات کرنے کی اجازت دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بات کرو“ تو اس نے کہا: میرا بیٹا اس کا عسیف مزدور تھا تو اس نے اس آدمی کی بیوی کے ساتھ زنا کر لیا پھر اس نے بتایا کہ میرے بیٹے کو سنگسار کیا جائے گا ۔ میں نے اس فدیے میں سو بکریا ں اور ایک لونڈی دی“ پھر اس کے بعد میں نے اہل علم سے پوچھا: تو نہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کو سوکوڑے لگیں گے اور ایک سال کے لیے جلاوطن کیا جائے گا اور سنگسار تو صرف اس کی بیوی کو کیاجائے گا ۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس اﷲ کی قسم جس کی ہاتھ میں میری جان ہے “ میں تم دونوں کے درمیان کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کروں گا“ تیری بکریاں اور تیری لونڈی تو تجھے واپس ملے گی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیٹے کو سو کوڑے لگوائے اور ایک سال کے لیے جلاوطن کر دیا اور سیدنا اُنیس الاسلمی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ دوسرے شخص کی بیوی کے پاس جائیں پھر اگر وہ زنا کا اعتراف کر لے تو اسے رجم ( سنگسار ) کر دیں ۔ اس عورت نے اعتراف کر لیا تو پھر اسے رجم ( سنگسار ) کر دیا گیا ۔
( اما م ) مالک نے کہا: عسیف مزدور کو کہتے ہیں ۔
صحيح
«54- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 822/2 ح 1597 ، ك 41 ب 1 ح 6) التمهيد 71/9 ، 72 ، الاستذكار : 1526
و أخرجه البخاري (6233-6234) من حديث مالك به ورواه مسلم (1697/25 ، 1698) من حديث الزهري به »

------------------
55- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عن الأمة إذا زنت ولم تحصن، فقال: إن زنت فاجلدوها، ثم إن زنت فاجلدوها، ثم إن زنت فاجلدوها، ثم بيعوها ولو بضفيرٍ) ) .
قال مالكٌ: قال ابن شهابٍ: فلا أدري أبعد الثالثة أو الرابعة، والضفير: الحبل.


اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ ) روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لونڈی کے بارے میں پوچھا: گیا جو زنا کرے اور وہ محصنہ ( شادی شدہ ) نہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب وہ زنا کرے تو اسے کوڑے لگاﺅ پھر اگر وہ زنا کرے تو اسے کوڑے لگاﺅ پھر اگر زنا کرے تواسے کوڑے لگاﺅ پھر اسے بیچ دو اگرچہ ( اس کی قیمت ) ضیفر ( ایک رسی )ہی ہو ۔
زہری نے کہا: مجھے معلوم نہیں ہے کہ آپ نے یہ بات تیسری دفعہ فرمائی یا چوتھی دفعہ ؟ اور ضیفر رسی کو کہتے ہیں ۔
صحيح
«55- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 826/2 ، ح 1606 ، ك 41 ، ب 3 ، ح 14) التمهيد 94/9 ، الاستذكار : 1534
و أخرجه البخاري (2154 ، 2153) من حديث مالك به ورواه مسلم (1704/33) من حديث الزهري به »

------------------
56- وبه: عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعودٍ عن أم قيس ابنة محصنٍ: أنها أتت بابنٍ لها صغيرٍ لم يأكل الطعام إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأجلسه رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجره فبال على ثوبه، فدعا بماءٍ فنضحه ولم يغسله.

اور اسی سند کے ساتھ ا م قیس بنت محصن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے “ وہ اپنے چھوٹے بچے کو جس نے ابھی کھانا شروع نہیں کیا تھا لے کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو اپنی گود میں بٹھا لیا پھر اس بچے نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا تو آپ نے پانی منگوایا پھر آپ نے کپڑے پر پانی چھڑکا اور اسے نہ دھویا ۔
صحيح
«56- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 64/1 ح 137 ، ك 2 ب 30 ح 109) التمهيد 108/9 ، الاستذكار : 116
و أخرجه البخاري (223) من حديث مالك به ورواه مسلم (287) من ابن شهاب الزهري به»

------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أبو بكر بن عبد الرحمن " حديثٌ واحدٌ"
57- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن أبي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشامٍ عن أبي مسعودٍ الأنصاري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن الكلب ومهر البغي وحلوان الكاهن.

سیدنا ابومسعود عقبہ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت سے “ زانیہ کی خرچی سے اور کاہن نجومی کی مٹھائی سے منع فرمایاہے ۔

صحيح
متفق عليه

«57- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 656/2 ح 1400 ، ك 31 بب 29 ح 68) التمهيد 397/8 ، الاستذكار : 1321
و أخرجه البخاري (2237) ومسلم (1567) من حديث مالك به »
------------------
سليمان بن يسارٍ " حديثٌ واحدٌ"
58- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن سليمان بن يسار عن عبد الله بن عباسٍ أنه قال: كان الفضل بن عباسٍ رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاءته امرأةٌ من خثعمٍ تستفتيه فجعل الفضل بن عباسٍ ينظر إليها وتنظر إليه فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يصرف وجه الفضل إلى الشق الآخر فقالت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم إن فريضة الله على العباد في الحج أدركت أبي شيخاً كبيراً لا يستيطع أن يثبت على الراحلة أفأحج عنه. قال: نعم. وذلك في حجة الوداع.

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر فضل بن عباس رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خثم قبیلے کی ایک عورت مسئلہ پوچھنے کے لیے آئی “ فضل بن عباس اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ فضل بن عباس کی طرف دیکھنے لگی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل رضی اللہ عنہ کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا ۔ اس عورت نے کہا: یا رسول اﷲ ! اﷲ تعالی نے بندوں پر اس وقت حج فرض کیا جب میرے والد صاحب بہت بوڑھے ہوگئے ، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اور یہ واقعہ حجتہ الوداع کا ہے ۔

صحيح
متفق عليه

« 58- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 359/1 ح 815، ك 20 ، ب 30 ح 97) التمهيد 122/9 وقال : ”هذا حديث صحيح ثابت “ الاستذكار : 765
و أخرجه البخاري (1513) ومسلم (1334) من حديث مالك به»
------------------
سالمٌ بن عبد الله بن عمر " حديثان. وله ثالثٌ في هذه الرواية معلولٌ"
59- مالكٌ عن ابن شهابٍ عن سالمٍ بن عبد الله عن ابن عمر: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه حذو منكبيه وإذا كبر للركوع وإذا رقع رأسه من الركوع رفعهما كذلك. وقال: سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد. وكان لا يفعل ذلك في السجود.

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ا ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تواپنے دونوں کندھوں تک رفع یدین کرتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح رفع یدین کرتے اور فرماتے : «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ » اﷲ نے اس کی سن لی جس نے اس کی حمد بیان کی «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» اے ہمارے رب ! اور سب تعریفیں تیرے لیے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدوں میں رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔

صحيح
«59- الموطأ (رواية محمد بن الحسن الشيباني ص 89 ح 99) التمهيد 210/9 و الاستذكار : 139 بلفظ يحيي بن يحيي (تنبیہ : یہ روایت یحیی بن یحیی کے نسخے میں مختصراً مروی ہے جس میں رکوع سے پہلے والے رفع یدین کا ذکر نہیں ہے) ۔ ( دیکھئے: الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 75/1 ح 160 ، ك 3 ب 4 ح 16)
و أخرجه البخاري (735) من حديث مالك به رواه مسلم (390) من حديث ابن شهاب الزهري به»
------------------
60- وبه عن سالمٍ بن عبد الله أن عبد الله بن محمد بن أبي بكرٍ الصديق أخبر عبد الله بن عمر عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ( (ألم تري أن قومك حين بنوا الكعبة اقتصروا عن قواعد إبراهيم) ) . قالت فقلت: يا رسول الله ألا تردها على قواعد إبراهيم قال لولا حدثان قومك بالكفر لفعلت. قال: فقال عبد الله بن عمر: لئن كانت عائشة سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أرى رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك استلام الركنين اللذين يليان الحجر إلا أن البيت لم يتم على قواعد إبراهيم.

سالم بن عبد اﷲ ( بن عمر رحمہ اﷲ) سے روایت ہے کہ عبد اﷲ بن محمد بن ابی بکر الصدیق ( رحمہ اﷲ) نے سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تو نے نہیں دیکھاکیا تجھے معلوم نہیں کہ جب تیری قوم قریش مکہ نے کعبہ کی تعمیر کی تواسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں سے چھوٹا کر دیا ؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میں نے کہا: یا رسول اﷲ ! آپ اسے ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر کیوں نہیں لوٹا دیتے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تمھاری قوم کفر سے تازہ تازہ مسلمان نہ ہوئی ہوتی تو میں ایسا کر دیتا ۔ عبدا ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا : اگر عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر ( حطیم) والے دونوں ارکان( کونوں ، دیواروں) جو ( طواف میں) صرف اسی لئے نہیں چھوا تھا کہ بیت اﷲ کی تعمیر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر نہیں کی گئی تھی ۔

صحيح
متفق عليه

« 60- الموطأ (363/1 ، 364 حه 824 ، ك 20 ب 33 ح 104 ، وعنده : لَمْ يُتَمَّمْ) التمهيد 26/10 ، الاستذكار : 772
و أخرجه البخاري (4484) ومسلم (1333/399) من حديث مالك به
من رواية يحييٰ بن يحييٰ و في الأصل : قالج ، خطأ مطبعي»
------------------
 
Top