حميد بن عبد الرحمن بن عوفٍ " ستة أحاديث"
27- قال مالكٌ: حدثني ابن شهابٍ عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف أنه سمع معاوية بن أبي سفيان يوم عاشوراء عام حج وهو على المنبر يقول: يا أهل المدينة، أين علماؤكم؟! سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لهذا اليوم: ( (هذا يوم عاشوراء ولم يكتب الله عليكم صيامه وأنا صائمٌ، فمن شاء فليصم ومن شاء فليفطر) ) .
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے جس سال حج کیا تھا ، عاشوراء ( دس محرم) والے دن منبر پر فرمایا : اے مدینے والو ! تمہارے علماءکہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ عاشوراء کا دن ہے ، اس کا روزہ اللہ نے تم پر فرض نہیں کیا ۔ میں روزے سے ہوں ، جس کی مرضی ہے روزہ رکھے اور جس کی مرضی ہے ( یہ) روزہ نہ رکھے ۔
صحيح
متفق عليه
«27- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 299/1 ح 672 ، ك 18 ب 11 ح 34 ) التمهيد 203/7 ، الاستذكار : 622
و أخرجه البخاري (2003) ومسلم (1129) من حديث مالك به »
------------------
28- وبه: عن حميدٍ أنه سمع معاوية بن أبي سفيان عام حج وهو على المنبر وتناول قصة من شعرٍ كانت في يد حرسي يقول: يا أهل المدينة أين علماؤكم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن مثل هذه ويقول: ( (إنما هلكت بنو إسرائيل حين اتخذ هذه نساؤهم) ) .
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے جس سال حج کیا تھا ، منبر پر تشریف فرمات ہوئے ایک پہرے دار کے ہاتھ سے بالوں کا ایک گچھا لے کر فرمایا : اے مدینے والو ! تمھارے علماءکہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ( بالوں کی وگ لگانے ) سے منع فرماتے ہوئے سنا ہے اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب ایسے بال لگائے تو بنی اسرائیل ہلاک ہو گئے ۔
صحيح
متفق عليه
«28- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 947/2 ح 1829 ، ك 51 ب 1 ح 2) التمهيد 216/7 ، الاستذكار : 1765
و أخرجه البخاري (3468) ومسلم (2127) من حديث مالك به »
------------------
29- وبه: عن حميد بن عبد الرحمن عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ( (من قام رمضان إيماناً واحتساباً غفر له ما تقدم من ذنبه) ) .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص رمضان ( کے مہینے ) میں ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے قیام کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ۔
صحيح
متفق عليه
« 29- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 113/1 ح 247 مطولاً ، ك 6 ، ب 1 ، ح 2 ، من حديث ابن شهاب عن ابي سلمه بن عبدالرحمٰن بن عوف عن أبي هريره به ) التمهيد 95/7 ، الاستذكار : 218، 219
و أخرجه البخاري (2009) ، ومسلم (759/173) من حديث مالك به»
------------------
30- وبه: أن رجلاً أفطر في رمضان في زمان النبي صلى الله عليه وسلم فأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يكفر بعتق رقبةٍ أو صيام شهرين متتابعين أو إطعام ستين مسكيناً، فقال: لا أجد، فأتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرق تمرٍ، فقال: ( (خذ هذا فتصدق به) ) . فقال: يا رسول الله، ما أحدٌ أحوج إليه مني، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بدت أنيابه ثم قال: ( (كله) ) .
اور اسی سند ( کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے ( اپنی بیوی کے ساتھ ، دن میں جماع کرنے کی وجہ سے ) روزہ توڑ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ ایک غلام آزاد کرے یا دو مہینوں کے لگاتار روزے رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ۔ اس نے کہا: میں یہ نہیں کر سکتا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا تو آپ نے اس سے فرمایا : یہ لے لو اور اسے صدقہ کر دو ۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ ! مجھ سے زیادہ ( مدینے میں) کوئی ضرورت مند نہیں ہے جو اس کا محتاج ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے حتی کہ آپ کے دندان مبارک نظر آنے لگے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اسے کھا لو ۔
صحيح
«30- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 296/1 ح 666 ، ك 18 ب 9 ح 28) التمهيد 161/7 ، الاستذكار : 616
و أخرجه مسلم (111/83) من حديث مالك به ورواه البخاري (1936) من حديث ابن شهاب الزهري به»
------------------
31- وبه: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ( (من أنفق زوجين في سبيل الله نودي في الجنة: يا عبد الله هذا خيرٌ. فمن كان من أهل الصلاة دعي من باب الصلاة، ومن كان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد، ومن كان من أهل الصدقة دعي من باب الصدقة، ومن كان من أهل الصيام دعي من باب الريان) ) فقال أبو بكرٍ: ما على من يدعى من هذه الأبواب من ضرورةٍ، فهل يدعى أحدٌ من هذه الأبواب كلها؟ قال: ( (نعم، وأرجو أن تكون منهم) ) .
اور اسی ( سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اللہ کے راستے میں دو چیزیں ( جوڑا) خرچ کرنے گا تو جنت میں اس سے کہا: جائے گا : اے عبداللہ ! یہ ( دروازہ) بہتر ہے ۔ نماز پڑھنے والے کو نماز والے دروازے سے ، جہاد کرنے والے کو جہاد والے دروازے سے ، صدقات دینے والے کو صدقے والے دروازے سے اور روزہ رکھنے والے کو باب الریان ( روزے والے دروازے ) سے بلایا جائے گا ۔ ابوبکر ( صدیق رضی اللہ عنہ ) نے عرض کیا : جسے ان دروازوں میں سے بلایا جائے اسے اس کے بعد کوئی اور ضرورت تو نہیں مگر کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! اور میرا خیال ہے کہ آپ بھی ان لوگوں میں سے ہوں گے ( جنھیں ان سب دروازوں میں سے بلایا جائے گا)
صحيح
«31- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 469/2 ح 1036 ، ک 21 ب 19 ح 49) التمهيد 183/7 ، الاستذكار : 973
و أخرجه البخاري (1897) من حديث مالك به ورواہ مسلم (1027) من حدیث ابن شهاب الزهري به»
------------------
"32- وبه: عن أبي هريرة أنه قال: لولا أن يشق على أمته لأمرهم بالسواك مع كل صلاةٍ أو كل وضوءٍ. قال أبو الحسن: وهذا لفظٌ في رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم إشكالٌ، ولكن فيه عن عيسى بن مسكينٍ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( (لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم) ) ."
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو آپ ہر نماز یا ہر وضو کے ساتھ مسواک ( کرنے ) کا حکم دیتے ۔ ( اس کتاب کے راوی اور ملخص امام) ابوالحسن ( القابسی رحمه الله )نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک اس لفظ ( متن) کے مرفوع ہونے میں اشکال ہے لیکن عیسیٰ بن مسکین نے ( اپنی روایت میں) کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا ڈر نہ ہوتا تو میں انھیں ( مسواک کا) حکم دیتا ۔
صحيح
«32- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 66/1 ح 143 ، ك 2 ، ب 32 ح 115) التمهيد 194/7 ، الاستذكار : 122
و أخرجه النسائي في الكبري (198/2 ح 3045) من حديث عبدارحمٰن بن القاسم عن مالك قال : حدثني ابن شهاب به وللمرفوع شاند عند أحمد (250/2 ح 7406) و سنده صحيح ، وانظر صحيح البخاري (887) ، وصحيح مسلم (252) ولحديث الآتي : 321»
------------------