مؤطا الامام مالک سے ایک اقتباس
کن لوگوں سے علم نہ لیا جائے:
خلف بن قاسم رحمہ اللہ نے اپنی سند سے بیان کیا کہ امام مالک رحمہ الله فرمایا کرتے تھے کہ چار قسم کے لوگ ایسے ہیں
کہ جن سے علم نہ لیا جائے۔
ا۔ جو بے وقوف اور نا کجھ ہو۔
۲۔ ایسا بدعتی جو لوگوں کو اپنی بدعت کے اختیار کرنے پر آمادہ کر تا ہو۔
۳ ۔ ایسا جھوٹا آدی جو عام گفتگو میں بھی جھوٹ سے احتراز نہ کرتا ہو خواہ حدیث رسول ﷺ میں جھوٹ بولنا اس سے ثابت نہ ہو
۴ - اور ایک نیک اور صالح شخص جو یہ بھی نہ جانتا ہو کہ اسے کسی چیز کا علم ہے اور وہ کیا بیان کر رہا ہے۔
ان کے علاوہ ہر آدی سے علم اخذ کیا جاسکتا ہے۔ ابراہیم بن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ کے اس قول کا مطرف بن عبد اللہ رحمہ اللہ سے تذکرہ کیا تو وہ بولے میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ کو یوں فرماتے سنا کہ میں نے اس شہر مدینہ منورہ میں بہت سے ایسے علماء کو پایا جن کا فضیلت اور نیکی میں بہت شہرہ تھا۔ اور وہ احادیث بھی روایت کیا کرتے تھے اس کے باوجود میں نے ان سے معمولی سا بھی علم اخذ نہیں کیا۔ دریافت کیا گیا ابو عبد اللہ اس کی ایسی کیا وجہ ہوئی ؟ تو فرمایا: وہ نیکی اور پارسائی کے باوجود یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا بیان کر رہے ہیں۔ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس قسم کے اقوال ابن ابی اویس ، اشہب بن عبد العزیز ، ابن کنانہ عثمان رحمہ اللہ اور بشر بن عمر رحمہ اللہ نے بھی امام مالک رحمہ اللہ سے بیان کئے ہیں۔ ان میں سے بعض نے امام مالک رحمہ اللہ سے یہ بھی بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: جن حضرات سے میں نے ان کی پارسائی کے باوجود علم نہیں لیا وہ اس قدر صالح اور پارسا تھے اگر بیت المال کی ذمہ داری انہیں سونپ دی جاتی تو وہ پورے طور پر دیانت دار ہوتے ۔ ان سے روایت اور علم اخذ نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس فن کے اہل نہ تھے۔ جبکہ ابن شہاب جب ہمارے شہر میں تشریف لاتے تو اخذ علم کے لئے ہم ان کے ہاں خوب جمگٹھا کر دیتے۔
ابو عثان سعید بن نصر رحمہ اللہ اور ابوالقاسم عبد الوارث بن سفیان رحمہ اللہ نے باسند بیان کیا ہے کہ بشر بن عمر رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ سے ایک شخص کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: کیا تم نے اس
سے روایت کردہ کوئی بات میری کتابوں میں دیکھی ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں ۔ تو آپ نے فرمایا: اگر وہ روایت حدیث میں ثقہ ہوتا تو تم اس کا ذکر میری کتابوں میں ضر در پاتے۔ عثمان بن کنانہ رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ اسے بیان کرتے ہیں کہ بسا اوقات کوئی بیان کرنے والا ہمارے ہاں بیٹھ کر سارا سارا دن احادیث بیان کرتا ہے اور ہم اس سے ایک بھی حدیث نہیں لیتے۔ ہم اس پر جھوٹا ہونے کی تہمت نہیں لگاتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری نظر میں وہ حدیث روایت کرنے کا اہل نہیں ہوتا۔ امام عبد الرزاق نے معمر رحمہ اللہ سے اور انہوں نے موکل جندی رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے ایک آدمی کی گواہی کو محض اس لئے رد کر دیا تھا کہ اس نے صرف ایک ہی بار جھوٹ بولا تھا۔ معمر کہتے ہیں کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اللہ پر کوئی جھوٹ باندھا تھا یا اللہ کے رسول ﷺ کی طرف جھوٹی بات منسوب کی تھی یا کسی عام آدمی کی طرف جھوٹ کی نسبت کی تھی۔ ابو عمر ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ ایسے حدیث کی بناء پر اس آدمی کی روایت بھی قبول نہیں کرتے تھے۔ جو عام لوگوں پر جھوٹ باندھتا ہو ۔ اگرچہ وہ حدیث رسول میں جھوٹ نہ ہی بولتا ہو۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول
کو جب پتہ چلتا کہ آپ کے اہل خانہ میں سے کسی نے جھوٹ بولا یا جھوٹی بات کی ہے تو آپ ﷺ اس سے اس وقت تک اعراض کئے رہتے جب تک وہ اللہ کے حضور خلوص دل سے سچی توبہ نہ کر لیتا۔
مؤطا امام مالک رحمہ اللہ، صفحہ 43، 44
یہ ترجمہ ابھی نیٹ پر دستیاب نہیں ہے الحمدللہ دو سال قبل جلال پور پیر والا سے شیخ صاحب کے گھر سے 1000 میں ایک نسخہ لایا تھا،
انتخاب، محمد مرتضیٰ ساجد آف قصور پنجاب