مقالات شاغف
کتب احادیث کے مراتب اور ان سے استفادہ کا طریقہ
31/مئی مضمون ابوالاشبال احمد شاغف بہاری
maqaalat-e-shagif
فاضل مصنف کا نام صغیر احمد، کنیت ابو الاشبال اور شاغف بہاری علمی اور علاقائی نسبت ہے۔
آپ ریاست بہار کے ضلع چمپارن کے ایک غیر معروف گاؤں "ٹولہ سوتا" میں مارچ 1942 میں پیدا ہوئے۔ قضائے الہی سے بوقتِ سحر 31/مئی (26/رمضان المبارک 1440) کو سعودی عرب میں انتقال کر گئے اور مکہ مکرمہ میں بروز جمعہ 31/مئی بعد عصر ان کی تدفین ہوئی۔
آپ اپنی آبائی ریاست بہار کے قصبہ بتیا کی ابتدائی تعلیم کے بعد دہلی میں 3 سال زیرتعلیم رہے، پھر جامعہ رحمانیہ بنارس میں تقریباً سال بھر، جس کے بعد دو سال آپ نے کولکاتا میں گزارے، بعد ازاں ممبئی میں تقریباً دس سال، ممتاز اہل حدیث عالم اور پبلشر شیخ عبدالصمد شرف الدین کے پریس الدارالقیمہ تحقیق و تصحیح کے عہدہ پر برسرکار رہنے کے بعد ممبئی سے مشرقی پاکستان منتقل ہوئے اور وہاں سے 1971 میں کراچی (پاکستان) چلے گئے جہاں 1976 تک قیام رہا۔ پھر 1977 میں سعودی عرب منتقل ہوگئے جہاں شاید آخر وقت تک قیام رہا، علمی وجاہت کے پیش نظر حکومت سعودی عرب نے انہیں شہریت کے اعزاز سے بھی نوازا تھا۔
مکہ مکرمہ کے رابطہ عالم اسلامی کے علمی اور تحقیقی مرکز میں کافی طویل عرصے تک آپ نے کام کیا۔ آپ کے مطبوعہ کاموں میں "تقریب التہذیب" کی تحقیق و تعلیق اور "تعلیقات سلفیہ" کی تخریج و تصحیح شامل ہیں۔ آپ کی دیگر تصنیفات میں سے زبدۃ تعجیل المنفعہ اور بیاضات فتح الباری شائع ہو چکی ہیں۔
امت مسلمہ کا ہر فرد اس بات سے واقف ہے کہ اس پر اپنے رسول کی اتباع و اطاعت فرض ہے۔ کیونکہ کتاب و سنت کی نصوص اس پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اللہ کی اطاعت اس پر موقوف ہے کہ اس کے رسول کی اطاعت کی جائے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
من یطع الرسول فقد اطاع اللہ (النساء : 80)
خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف صریح الفاظ میں اپنی امت کا آگاہ کر دیا کہ: جس نے آپ کی اطاعت کی وہ کامیاب ہو کر داخل جنت ہوگا اور جس نے آپ کی نافرمانی کی وہ خائب و خاسر ہو کر جہنم رسید ہوگا۔
اللہ رب العالمین نے آپ کی اطاعت کا وہ سلسلہ قائم کر دیا جس کی مثال امتوں میں مفقود ہے۔ آپ کے ساتھی صحابہ کرام آپ کے حین حیات آپ کے نقش قدم پر چلتے رہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ آپ کے جمیع اقوال و افعال ، حرکات و سکنات، بلکہ آپ کی ہئیت کاملہ کو حفظ و ضبط کیا اور عمل کے ساتھ اسے اپنے سے بعد والوں یعنی تابعین کو سونپ دیا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اسی کے مجموعے کو احادیث نبویہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
کتابت احادیث کا سلسلہ تو آپ کی حیات مبارکہ ہی سے شروع ہو گیا تھا لیکن اس کی تبویب (to classify chapters) و تصنیف کا باقاعدہ کام تابعین کرام کے آخری دور میں شروع ہوا چنانچہ ہمارے سامنے تابعین کرام کی تصنيفات میں سے صحیفہ ہمام بن منبہ چھپ چکا ہے۔
اس کے بعد تبع تابعین کے دور میں جب فرقہ باطلہ کی دسیسہ کاریوں سے سنت کے اندر بدعت کا دخول شروع ہوا تو پھر رحمت الہی جوش میں آئی اور محدثین کرام کے ایک جم غفیر نے اپنی حیات مستعار کو محض سنت و احادیث نبویہ کے جمع کرنے پر وقف کر دیا۔ اور تصنیف کے دو طریقے جاری ہو گئے۔ بطور 'مسند' اور بطور 'احکامی' جسے عام طور سے لوگ فقہی ترتیب سے تعبیر کرتے ہیں۔ چنانچہ اس دور کی مشہور مسانید یہ ہیں:
مسند ابو داؤد طیالسی ، مسند مسدد، مسند اسحاق بن راہویہ، مسند احمد بن حنبل وغیرہ۔
اور احکامی ترتیب پر جمع شدہ کتاہیں جسے موطا امام مالک، مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، سنن دارمی وغیرہ ہمارے سامنے موجود ہیں۔
اس دور کے محدثین کرام نے اپنی محنت شاقہ سے احادیث نبوی کا تقریباً سارا ذخیره جمع کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ آثار و مراسل اور موقوفات و فتاوی وغیرہ کو بھی قلم بند فرما دیا، گویا عمل کے ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ باقاعدہ شروع ہو گیا اور وہ علوم بھی مرتب ہو گئے جن سے اس ذخیرۂ حدیث سے کھرے کھوٹے کو علیحدہ کیا جا سکے۔ لیکن تحقیق و تدقیق اور تنقیح کا کام ابھی باقی تھا۔ اللہ رب العالمین کا منشا کچھ اور تھا۔ وہ اس کام کے لیے ایک خاص ہستی کو آگے لانا چاہتا تھا تاکہ وہ اپنی قدرت کاملہ کا مظاہرہ کرے۔ چنانچہ اس نے مجدد کامل فقیہ الامت ، امیر المومنین، سید المحدثین محمد ابن اسماعیل بخاری کو آگے بڑھایا اور ان سے یہ کام لیا۔ چنانچہ اس امام عالی مقام حامی سنت ماحی بدعت مجدد عصر نے اپنے پیش رو محدثین کی محنت شاقہ سے جمع شدہ احادیث کے ذخیرہ کو ان سے پڑھا حفظ و ضبط کیا۔
چونکہ اللہ تعالی نے آپ کو مجدد وقت بنانا تھا اس لیے آپ کو بے پناہ ذاکرہ عطا فرمایا تھا، اتنا ہی نہیں عقل جبارہ سے بھی نوازا تھا۔ چنانچہ آپ نے اس وہبی قوت ذاکرہ اور عقل جبارہ سے کام لیتے ہوئے ذخیره سنت و احادیث کو کھنگالا اور ان سے احادیث صحیحہ کو جمع فرما کر ان میں سے ان احادیث کا انتخاب فرمایا جن سے آپ نے اپنی اس کتاب "الجامع الصحيح" کو مزین کرنا چاہا تھا۔
چنانچہ اللہ کی مدد سے 16 سال کے اندر اپنی اس تصنیف کو امت مسلمہ کے سامنے رکھ دیا جسے ہم "صحیح بخاری" کہتے ہیں۔ اور پھر اس کی تحدیث درس و تدریس شروع کر دی۔ تقریباً نوے ہزار آدمیوں نے اسے روایت کیا۔ آپ کی یہ تصنیف "صحیح بخاری" اپنی مثال آپ ہے۔ گویا یہ کتاب احادیث صحیحہ کا ایک انمول ذخیرہ ہے۔ تو اصول حدیث و استنباط بھی ہے۔ مختلف فیہ روایتوں کے جانچنے اور پرکھنے کی کسوٹی ہے تو علم الاسناد و علم الرجال کا نمونہ بھی۔ جہاں مصنفین کے لیے مشعل راہ ہے وہاں فقہ الحدیث اور فقہ اسلامی کا ایک بیش بہا موتی بھی ہے۔ اس سے
ایک عامی بھی آنکھ بند کر کے فائدہ اٹھا سکتا ہے تو ایک محدث و فقیہ بھی۔ یعنی ہر شخص اور ہر زمان و مکان کے لیے یکساں فائدہ پہنچانے والی لازوال کتاب ہے۔ اسی لیے تو محدثین کا اس بات پر اجماع ہے کہ کتاب اللہ کے بعد روئے زمین پر سب سے صحیح کتاب یہی صحیح بخاری ہے۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ اس کتاب کی توہین کرنے والا بدعتی و فاسق ہے۔
اس مجدد عصر کے تجدیدی کارنامے کو آگے بڑھانے والوں اور اس کے نقش قدم پر چلنے والوں کی دو خاص جماعتیں پیدا ہو گئیں۔ ایک جماعت احادیث صحیحہ کے مجموعہ تیار کرنے والوں کی جیسے امام مسلم، ابن خزیمہ ، ابن حبان، اسماعیلی ، ابو نعیم، برقانی ، ابوعوانہ وغیرہ۔ اور دوسری وہ جماعت جس نے حالات حاضرہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس وقت کے مسائل منتشرہ کے دلائل کا پتہ لگایا اور ان کو سامنے رکھتے ہوئے احکامی انداز پر تصنیف و تبویب کا کام کیا جسے امام ابو داؤد، ترمذی ،نسائی، ابن ماجہ وغیرہ۔ اور ان میں سے ہر ایک کا ایک نیا انداز ہے تو طریقہ بھی خاص ہے۔
ایک بار پھر سے سن لو۔ سید المحدثین ، مجدد عصر، حامی سنت، ماحی بدعت ،فقیہ الامت، امام بخاری وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے احادیث صحیحہ کو یکجا جمع و تدوین کا قصد فرمایا، اور پھر احادیث صحیحہ کے اعلی اقسام کو اپنی اس الجامع الصحيح کے اندر جگہ دی اور تبویب کے اندر تفنن کا وہ انداز اختیار کیا جس سے احادیث صحیحہ کی جمیع اقسام کی نشان دہی فرماتے ہوئے احقاق حق کے ساتھ ابطال باطل کو بھی پیش نظر رکھا۔ احادیث صحیحہ کی تمام اقسام کو قابل عمل بتایا تو احادیث ضعیفہ کی تمام اقسام کو چھوڑ دینے کی ترغیب و تحریص کا پہلو اختیار کیا۔ ساتھ ہی ساتھ امت مسلمہ کی زبوں حالی کی علت کی نشاندہی کر دی کہ اس کا سبب انتشار اور نااتفاقی ہے اور یہ سبب احادیث ضعیفہ و موضوعہ کے اختیار کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ لہذا امت مسلمہ پر واجب ہے کہ سب متفق ہو کر احادیث صحیحہ پر عمل پیرا ہو جائیں۔
امام بخاری علیہ الرحمہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امام مسلم نے احادیث صحیحہ کا ایک انمول ذخیرہ جمع کر دیا جسے ہم "صحیح مسلم" کہتے ہیں۔ آپ نے بھی اپنی اس کتاب کی ترتیب احکامی رکھی اور عناوین کتب یعنی کتاب الایمان، کتاب الطہارة، کتاب الصلاة الخ کے تحت ایک عجیب و غریب انداز سے احادیث صحیحہ کو جمع کر دیا اور جمع و ترتیب کے بعد اس کی تحدیث و تدریس بھی شروع کر دی۔ دراں حالے کہ ابھی ایک کام یعنی تبویب باقی تھا۔ اللہ نے آپ کو تبویب کی مہلت نہ دی بلکہ اس سے قبل ہی آپ کا انتقال ہو گیا۔ لہذا ہم آپ کے طریقہ استنباط سے کماحقہ واقف نہ ہو سکے۔
(نوٹ: صحیح مسلم کے اندر جو ابواب مطبوع ہیں وہ شارحین مسلم جیسے قاضی عیاض اور نووی وغیرہ کے مقرر کیے ہوئے ہیں۔)
امام مسلم نے مقدمہ کے اندر اپنی اس کتاب کی جمع و ترتیب سے متعلق تفصیل بیان کر دی ہے۔ یہاں مختصر لفظوں میں یہ بیان کر دینا کافی ہے کہ آپ نے ایراد احادیث اس انداز سے کیا ہے کہ آسانی کے ساتھ اس پرعمل تبویب ہو سکتا ہے گویا ایراد احادیث کے ذریعہ مقام تبویب کا پتہ چل جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ہر باب کے تحت سب سے پہلے وہ روایت لاتے ہیں جو مقصود و مطلوب ہے اور وہی روایت صحیح ہے، اس کے بعد شواہد و متابعات، مختلف الاسناد و مختلف الالفاظ روایتوں کو بھی بیان کرتے جاتے ہیں تاکہ طلبہ اس سے واقف ہو جائیں کہ اس باب میں اس سند اور متن سے بھی روایت موجود ہے۔ گویا جو کام امام بخاری نے تعلیقات و موقوفات اور اثار کے ایراد سے لیا وہی کام امام مسلم نے ان شواہدات و متابعات سے لیا۔ چونکہ امام بخاری کی تبویب کے ذریہ تعلیقات و موقوفات و آثار کا صحیح مقام متعین ہو جاتا
ہے، لیکن صحیح مسلم امام مسلم کی تبویب سے خالی ہے اس لیے ان کے مقام متعین کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ البتہ امام مسلم کی ساری روایتوں کو زیر تبویب امام بخاری رکھ دیا جائے تو اس سے خاطر خواہ اور صحیح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
امام بخاری سے استفادہ کرنے والوں میں امام ابن خزیمہ بھی ہیں۔ آپ نے امام بخاری اور امام مسلم دونوں سے استفادہ کیا اور تقریباً امام مسلم کے طرز پر اپنی کتاب ترتیب دی۔ البتہ تبویب میں تفنن سے کام لیا اور شواہدات و متابعات پر بھی تبویب کرتے گئے۔ اور بعض مقامات پر تبویب کے اندر "ان صح الخبر" وغیرہ کے الفاظ سے اشارتاً یہ واضح کر دیا کہ میری اس کتاب میں اسی روایتیں بھی ہیں جو صحیح نہیں ہیں۔
امام بخاری سے استفادہ کرنے والوں میں ایک اور لاثانی شخص امام ترمذی بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے امام بخاری ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک جدید طریقہ اختیار کیا اور اپنے شیخ کے اشارات کو جنہیں انہوں نے تبویب کے وقت ملحوظ رکھا تھا انہیں واشگاف الفاظ میں خوبصورت انداز سے بیان کرنے کی کوشش بلیغ فرمائی اور احادیث متنوعہ کا ایک انمول مجموعہ "جامع ترمذی" کی شکل میں ہمارے لیے چھوڑ گئے۔ آپ نے اپنی اس کتاب کو احکامی ترتیب پر مرتب فرمایا اور فقها امصار کے مسائل مروجہ اور مذاہب کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی تبویب فرمائی اور ہر حدیث کا درجہ بھی بیان کر دیا اور مذاہب فقها امصار کا بھی ذکر کرتے چلے گئے۔ گویا آپ نے حدیث زیر باب کی صحت و ضعف کو بیان کر کے مذاہب مختلفہ کی صحت و ضعف کو بھی واضح کر دیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ شواہدات و متابعات کی طرف بھی بائیں لفظ "وفي الباب عن فلان وفلان" اشارہ کرتے چلے گئے۔
اگر آپ کو اطمینان قلب چاہیے تو جامع ترمذی کو غور و فکر سے پڑھنے کی عادت ڈالیے۔ آپ جب اس انداز سے اس کتاب کا مطالعہ فرمائیں گے تو پھر میری باتوں کی حرف بحرف تصدیق کریں گے۔ اگر اللہ نے کسی وقت موقع عنایت فرمایا تو پھر جامع ترندی پر مزید کچھ لکھوں گا۔ ان شاء الله تعالی۔ سردست ایک باب کی نشاندہی کر دیتا ہوں اسے ہی غور و فکر اور تدبر و امعان کے ساتھ پڑھ لیجے۔ جامع ترمذی کی کتاب الطهارة کا باب "ماجاء في المسح على العمامة" کو نکال کر پڑھ لیجیے۔
اب ایک قدم اور آگے بڑھیے امام بخاری سے استفادہ کرنے والوں میں امام نسائی بھی ہیں۔ آپ نے بھی محمد عمر کے طرز پر احادیث کا ایک عجیب وغریب مجموعہ تیار کیا ہے جسے ہم "سنن نسائی" کے نام سے جانتے ہیں۔ آپ نے اپنی اس کتاب کو احکامی انداز سے مرتب فرمایا اور تبویب کے وقت امام بخاری کا اتباع کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ایراد احادیث اور اختلاف اسناد و الفاظ کے بیان میں تنوع سے کام لیا یعنی احادیث صحیحہ کے ساتھ ہی ساتھ احادیث ضعیفہ کو بھی گاہے بگاہے ذکر کر دیا اور اس پر بھی تبویب کرتے گئے تاکہ لوگوں پر یہ واضح کر دیں کہ اس مسئلہ کے استدلال میں تساہل سے کام لیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ حدیث ضعیف ہے جو اسناد سے واضح ہے۔ نیز شواہدات و متابعات کی ایک معتد بہ تعداد کو بھی مختلف ذیلی عنوان مثلاً اختلاف الفاظ "الناقلین الخبر فلاں" وغیرہ کے تحت بیان کر دیا، اور حسب ضرورت بعض مقامات پر واضح بھی کرتے چلے گئے کہ فلاں کی روایت صحیح یا فلاں کی روایت منکر ہے۔
اب ایک اور ہستی کی طرف نظر ڈالیے اور وہ ہیں ، امام ابو داؤد جو امام اہل السنہ احمد بن حنبل کے شاگرد لیکن امام بخاری و مسلم اور ان سے قبل گزرے ہوئے محدثین کی تصنیفات سے واقف ہیں۔ فقہا کے در میان منتشر و مختلف فیہ مسائل کا بھی علم رکھتے ہیں اور ان کے دلائل سے بھی واقف ہیں۔ گویا ان ساری باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تقریباً پانچ ہزار احادیث کا ایک مجموعہ تیار کرتے ہیں جس میں ہر ایک کے دلائل کی نشان دہی مقصود ہے۔ تبویب بھی اسی انداز سے کرتے جا رہے ہیں اور احادیث بالاسناد کا ذکر کرتے ہوئے کبھی کبھار سند و متن کی علت پر بھی نشان دہی کرتے جا رہے ہیں۔ گویا اشارتاً یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس کتاب میں درج شدہ احادیث وہ ہیں جن کو فقہا امصار میں سے کسی نہ کسی نے اختیار کیا ہے لیکن ان کا یہ اختیار کرنا ان کی صحت کی دلیل نہیں۔ صحت کا معیار تو وہی ہے جسے ہمارے اصحاب محدثین کرام نے اختیار کیا ہے اور وہی قابل قبول ہے۔
اب میں ایک اور ہستی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، وہ ہیں امام ابن ماجہ ان کا تیار کیا ہوا مجموعہ "سنن ابن ماجہ" سے مشہور ہے۔ غالیا آپ نے مصنف ابن ابی شیبہ سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے، البتہ مرفوع روایتوں کو جنہیں آپ نے اپنے شیوخ سے سنا ہے ان کو حالات حاضرہ اور مسائل منتشرہ کو سامنے رکھتے ہوئے احکامی ترتیب پر تبویب دی ہے۔ گویا اس کتاب سے فائدہ صرف علما ہی اٹھا سکتے ہیں کیونکہ اس کتاب میں احادیث ضعیفہ کی ایک معتد بہ تعداد موجود ہے جو قابل عمل و قبول نہیں ہے۔
مجدد عصر امام بخاری سے روشنی حاصل کرنے والوں میں ایک جماعت اور بھی ہے جیسے امام ابن حبان، اسماعیلی، ایونعیم، برقانی، ابوعوانہ وغیرہ ان حضرات نے بھی احادیث صحیحہ کا مجموعہ تیار کیا ہے۔ ان میں سے بعض کی کتابیں تو اب تک طبع ہو کر نہیں آئی ہیں لیکن بعض کی کتابیں طبع ہو چکی ہیں۔ ان حضرات کی تصنیفات صحیح کے نام سے معروف ہیں جیسے صحیح ابن حبانم صحیح اسماعیلی وغیرہ، لیکن ان کتابوں میں صحیح، حسن اور ضعیف روایتیں بھی ہیں۔ گویا یہ کتابیں ان گزرے ہوئے محدثین کی تصانیف جیسے کتب ستہ مسانید وغیرہ سے منتخب ہیں۔ ان میں اغلب تو ایسی روایتوں کا ہے جو مقبول ہیں لیکن ان میں ضعیف روایتیں بھی ہیں جن کو بطور شواہد و متابعات تو ذکر کرنا صحیح ہے لیکن ان پر بالکلیہ اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ گویا ان کتب میں وارد شدہ احادیث کو صحیحین اور جامع ترمذی کی کسوٹی پر کسنے کے بعد قبول کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ یہ کتابیں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
یہاں پر برسبیل استفادہ امام حاکم کی کتاب مستدرک اور بیہقی کی تصنیفات، اسی طرح طحاوی کی تصنیفات کا ذکر بھی ضروری ہے۔ حاکم کا تساہل معروف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مستدرک کی روایتوں میں ایک چوتھائی روایتیں تو صحیح ہیں، ایک چوتھائی ایسی ہیں جن کے شواہد و متابع ہیں اور باقی روایتیں ضعیف، موضوع و منکر ہیں۔
بیہقی کی تصنیفات اور طحاوی کی تصنیفات خاص اپنے اپنے مذہب کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہیں۔ گویا حدیث کی خدمت کے بجائے مذہب و مسلک کی خدمت کو مقدم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ ان کی کتابوں میں احادیث صحیحہ بھی موجود ہیں گویا ان کی تبویب اور و تضعيف پر کامل بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔
ہاں یہاں ایک اور قابل قدر ہستی کا ذکر ضروری ہے اور وہ ہیں امام دارقطنی۔ انہوں نے مجدد عصر امام بخاری کی تصنیفات سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ ان کی تصنیفات قابل قدر اور ان کی تصحیح و تضعیف قابل قبول ہے۔ گویا آپ نے اصول محدثین کی حتی المقدور پابندی کو اپنے پر لازم قرار دیا ہے۔
اب آخری گزارش یہ ہے کہ محدثین کرام نے بتوفیق الہی احادیث و آثار کی مع الاسناد کئی طریقوں سے جمع و تدوین کی ہے جن کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے ان تمام حضرات میں سے امام بخاری کے علاوہ کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ان کی کتابوں میں درج شدہ ساری روایتیں صحیح اور قابل عمل ہیں۔ بلکہ سب نے اشارہ و کنایہ سے اس کے پڑھنے والوں کو متنبہ کر دیا کہ اصول و ضوابط محدثین کرام کے مطابق جو روایتیں صحیح ہیں وہی قابل عمل و قبول ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ان محدثین کرام پر طعن و تشنیع کرنے والے، زبان درازی کرنے والے، ان کو غیر فقیہ کہنے والے اپنے مسلک و مذہب کے دلائل تلاش کرنے کے لیے ان کی کتابوں کو غلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کتابوں سے صرف یہ خدمت لیتے ہیں کہ اپنے مسلک کے دلائل فراہم کریں اگرچہ وہ روایت ضعیف و موضوع ہی کیوں نہ ہو۔ اور پھر سر افتخار اونچا کر کے عوام کے سامنے کہتے پھرتے ہیں کہ فلاں کتاب میں یہ حدیث موجود ہے، جو ہمارے مسلک کی دلیل ہے۔ اللہ رب العالمین ایسے حضرات کو صحیح طریقہ اختیار کرنے کی توفیق دے اور عوام کو ان کے فتنے سے بچائے۔ آمین۔
امت مسلمہ کے عروج و زوال کا نسخہ صرف اپنے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی و عدم پیروی کے ساتھ وابستہ ہے اگر امت نے آپ کی پیروی اختیار کی تو عروج اور آپ کی پیروی چھوڑ دی تو زوال۔ لہذا پیروی کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ ان کتب احادیث سے احادیث کو لیا جائے اور تعصبِ مذہبی و قومی کو پس پشت ڈال کر ان پر عمل کیا جائے۔
***
ماخوذ از کتاب:
مقالاتِ شاغف۔ از: ابوالاشبال احمد شاغف بہاری