- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
مولانا ابو الحسن ندوی صاحب کی تصانیف کا ایک دوسرا رخ
مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ برصغیر پاک و ہند کے ان اکابرین میں سے ہیں ، جن کے علم و فضل ، قوت فکر ، صلابت رائے کا اعتراف پورے عالم اسلام کو ہے ، آپ نے اردو عربی ہر دو زبانوں میں بیش قیمت تصانیف رقم فرمائی ہیں ، مسلمانوں کے عروج زوال کے دنیا پر اثرات نامی کتاب جو عربی زبان میں ما ذا خسر العالم بانحطاط المسلمین کے عنوان سے مطبوع ہے ، ندوی صاحب کے علمی ذوق ، ادبی شوق ،فکرو نظر کی بلندی کا پتہ دیتی ہے ،آپ کی ذات کے تعارف ، اور علمی خدمات پر مستقل کتب موجود ہیں ،زیر نظر سطور میں محقق شہیر محترم شیخ صلاح الدین مقبول صاحب کی کتاب ’’ الأستاذ أبو الحسن الندوی و الوجہ الآخر من کتاباتہ ‘‘ کا تعارف مقصود ہے ۔
بات یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ کمال صرف اللہ ذو الجلال کی ذات کے لیے ہے ، معصوم عن الخطاء کا پروانہ صرف انبیاء کی ذات کے لیے جاری ہوا ہے ، چنانچہ مولانا ندوی صاحب اپنی بے شمار خوبیوں کے باوصف کچھ خطرناک قسم کی خامیوں سے نہیں بچ سکے ، ایک طرف جہاں آپ نے امت کی علمی و ادبی ، فکری و نظری رہنمائی کی ہے ، دوسری طرف کتاب وسنت کے مخالف بعض نظریات کے پرچار کا باعث بھی بنے ہیں ، موصوف ایک محقق و مصنف ہونے کے ساتھ ایک صوفی بھی تھے ، اور راہ تصوف کو اس کی تمام تر خامیوں اور لوازمات کے ساتھ اختیار کیے رکھا ، چنانچہ آپ کی اردو تصانیف میں جابجا اس بات کے صراحت کے ساتھ ثبوت موجود ہیں کہ آپ صوفیانہ بدعات پر نہ صرف عمل پیرا تھے ، بلکہ اس کی طرف داعی بھی تھے ، اور اسے کار ثواب سمجھتے تھے ، چنانچہ منصور حلاج اور ابن عربی جیسے زنادقہ کا دفاع ،کشف و مراقبہ ،اقطاب و ابدال کے کون و مکاں میں اثرات جیسی تمام صوفیانہ باتیں ان کی کتب میں ملتی ہیں ، البتہ عربی تصانیف میں انہوں نے کھل کا اس بات کا اظہار نہیں کیا ، اور یہ شاید ان کی حکمت عملی تھی ، تاکہ عرب کے سلفی العقیدہ ، اور پختہ مزاج لوگ ان کی تحریروں سے متنفر نہ ہوں ، اس کے علاوہ موصوف کی تصانیف میں عقائد و تاریخ وغیرہ سے متعلق کئی لغزشوں کا وجود اس بات کا سبب بنا کہ شیخ صلاح الدین مقبول صاحب نے نصیحت کی خاطر اور احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ سر انجام دینے کے لیے قلم اٹھایا ، اور عربی زبان میں سات سو سے زائد صفحات پر مشتمل کتاب تصنیف فرمائی ۔ علمی اعتراض اور مبنی بر حقیقت تنقید کرنا ، ایک ایسی خوبی بلکہ اہل علم کی ذمہ داری ہے ، جس کی طرف خود ندوی صاحب نے اپنی تحریروں میں توجہ دلائی ہے ، لہذا امید ہے کہ ندوی صاحب سے عقیدت رکھنے والے اس کتاب کو مثبت انداز سے دیکھیں گے ۔
کتاب کے مندرجات پر ایک نظر
کتاب مقدمہ و تمہید اور چند خطوط کے ذکر کے بعد سات ابواب پر مشتمل ہے :
باب اول : ندوی صاحب کے حقیقی او رروحانی بزرگوں کا تصوف زدہ ہونا
اس باب میں مصنف نے تفصیل کے ساتھ اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ ندوی صاحب کا خاندان تصوف زدہ تھا ، چنانچہ خود ندوی صاحب کے بیانات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کے دادا ، والد ، بھائی اور خود وہ اس سلسلے میں جکڑے ہوئے تھے ۔
اس بعد اس بات کا بیان ہے کہ ندوۃ العلماء کے مؤسسین و معاونین اور کئی اراکین کے تذکرہ میں یہ بات موجود ہے کہ وہ عشق و سرور کے ان بکھیڑوں میں الجھے ہوئے تھے ۔
باب دوم : ندوی صاحب کا ترجمہ ( سوانح ) نگاری کے ذریعے تصوف کا پرچار
اس سلسلے میں غزالی ، جیلانی ، رومی ، پیر فرید گنج شکر ، معین الدین چشتی ، خواجہ نظام الدین اولیاء ، شاہ ولی اللہ ،سید سرہندی ،سید احمد بریلوی وغیرہ بطور نمونہ ذکر کیے گئے ہیں اور واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح ندوی صاحب نے اس میدان کو تصوف کی ترویج کا ذریعہ بنایا ہے ۔
باب سوم : صوفی عقائد کی ترویج
اس باب وہ بدعات و خرافات ذکر کی گئی ہیں ، جو ندوی صاحب کی تصنیفات میں پائی جاتی ہیں ، مثلا شیخ سے بیعت ہونا ، قبروں پر حاضری دینا ، تصور شیخ ، کشف و مراقبہ ، وحدۃ الشہود ، مساجد میں قبرین تعمیر کرنا ، وغیرہ ایک لمبی فہرست ہے ۔
باب چہارم : یہاں عقائد کے باب میں ندوی صاحب کے انحراف کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔
باب پنجم : بعض آیات کی تفسیر میں ندوی صاحب کے موقف پر نقد ہے ۔
باب ششم : حدیث و سنت کے متعلقہ بعض مباحث میں ندوی صاحب کے موقف پر کلام کیا ہے ، اور یہ کہ انہوں نے بعض صوفیانہ خرافات کی ترویج کے لیے ضعیف و من گھڑت روایات کا سہار ا لیا ہے ۔
باب ہفتم : یہاں بعض فقہی مسائل میں ندوی صاحب کے طرز عمل پر تنقید کی گئی ہے ۔
باب ہشتم : بعض تاریخی مباحث کے متعلق ندوی صاحب کا موقف
اس باب میں تاریخی حقائق بیان کرتے ہوئے ندوی صاحب سے جہاں انصاف کا دامن چھوٹا اس کی وضاحت موجود ہے ، اسی طرح بعض معروف شخصیات کے بارے میں ندوی صاحب کے ناروا طرز عمل کا تذکر ہ ہے ، مثلا برصغیر میں اسلام کی ابتداء ندوی صاحب کے نزدیک صوفیاء سے ہوتی ہے ، حالانکہ حقائق اس سے مختلف ہیں ، اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرتے ہوئے ندوی صاحب صوفیاء سے اس قدر متاثر ہوئے ہیں کہ غیر صوفیوں کا تذکرہ کرنا بھول گئے ، اسی طرح بعض صحابہ کرام کے بارے گفتگو کرتے ہوئے گستاخی کی حد تک پہنچ گئے ہیں ۔ یہ سب باتیں تفصیل کےساتھ اس باب میں ملیں گے ۔
باب نہم : میں ندوی صاحب کے تناقضات بیان کیے گئے ہیں ۔
باب دہم : میں ان معروف شخصیات کا تذکرہ ہے ، جنہوں نے ندوی صاحب پر تنقید کی ہے ۔
یہاں تقی الدین ہلالی ، حمود تویجری ، زین العابدین الاعظمی ، شمس افغانی ، عبد الحمید رحمانی ، عبد الماجد دریا آبادی ، عتیق الرحمن سنبھلی سمیت پندرہ قابل قدر شخصیات کا تذکرہ موجود ہے ۔ رحم اللہ الاموات منہم و حفظ الأحیاء .
اور آخر میں ’’ خاتمہ ‘‘ کے عنوان سے کتاب کا خلاصہ بیان کیا ہے ۔
ایک اہم وضاحت :
یہ کتاب مولانا ابو الحسن ندوی صاحب کی زندگی میں تحریر کی جاچکی تھی ، اور طباعت سے قبل مؤلف اپنے گرامی قدر استاذ مولانا عبد الحمید رحمانی کے ذریعے اس کو ندوی صاحب تک پہنچا چکے تھے ، تاکہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی غیر مناسب یا خلاف حقیقت بات کی گئی ہے تو اس کی اصلاح کی جا سکے ، لیکن ندوی صاحب کے بقول وہ اس کتاب کو خود تو نہ پڑھ سکے البتہ اپنے بعض رفقاء کی ذمہ داری لگائی کہ وہ اس کے محتویات سے آگاہ کریں ، یوں ندوی صاحب کا جوابی خط رحمانی صاحب کو موصول ہوا ، جس میں کتاب کے مندرجات کے بارے میں تو کوئی خاطر خواہ بات نہیں البتہ دو مقامات پر موجود عبارات کو لے کر ثانوی قسم کے اعتراض کیے گئے ، جو در حقیقت مولانا ندوی کی علمی شان سے میل نہیں کھاتے تھے ، لیکن شاید آخری عمر میں بیماری کے باعث یا پھر جس رفیق سے انہوں نے مدد لی ان کی کم علمی کے باعث ایسا ہوگیا ۔ تفصیل کے لیے کتاب کے شروع میں خط و کتابت کا سلسلہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔ یہاں صرف یہ وضاحت مقصود ہے کہ کتا ب کی طباعت اگرچہ ندوی صاحب کی وفات کے بعد ہوئی ، لیکن مسودہ ان کی زندگی میں ان تک پہنچ گیا تھا ۔
Last edited: