• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا اکر م اعوان کی نرالی منطق…چند معروضات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مولانا اکر م اعوان کی نرالی منطق…چند معروضات

محمد عطاء اللہ صدیقی
اداکارہ انجمن کے ’اعزاز‘ میں منعقدہ تقریب میں تنظیم الاخوان کے امیر مولانا محمد اکرم اعوان صاحب کی شرکت کے حوالے سے راقم الحروف کی ناقدانہ معروضات اورردّ عمل ۲۴؍ اپریل کے روزنامہ ’’خبریں‘‘ میں شائع ہوا۔ جس کے جواب میں جناب محترم اعوان صاحب کا موقف ’’خبریں‘‘ کی ۳۰ ؍اپریل کی اشاعت میں شائع ہے ۔ اپنے موقف میں راقم کی طرف سے اٹھائے گئے اصولی اعتراضات کے متعلق شرعی رائے کے اظہار کی بجائے انہوں نے خلط ِمبحث ، متناقض تاویلات اور بڑی حدتک جواباً شخصی الزامات اور ’مذمت‘کے پیرائے کو اختیار فرمایا ہے ۔راقم الحروف کسی بحث وجدل اورغیر ضروری مناقشت کو پسند نہیں کرتا لیکن مولانا صاحب کی جارحانہ گرفت پرسکوت اختیار کرنے کا واضح مطلب یہی ہو گا کہ ان کے بے جا الزامات کی صداقت کوتسلیم کر لیا گیا ہے ۔ مزید برآں اگر مسئلہ محض راقم کی کردا رکشی تک محدود ہوتا تواسے در خور ِاعتنا نہ سمجھ کر نظر انداز کیا جاسکتا تھا۔ لیکن یہاں تو صورت یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے بنیادی اصول ،سماجی اقدار ، او رصحافت کا پیشہ بھی مولانا اعوان صاحب کے جلالی الزامات کی زد میں ہیں۔ چونکہ مسئلہ افراد کا نہیں بلکہ اصولوں کا ہے، اسی لیے اس کے متعلق ابہام کو رفع کرنا اشد ضروری ہے …راقم الحروف نے جو معروضات پیش کی تھیں، اس کے اہم نکات یہ ہیں:
(۱) کیا اسلامی شریعت کی رو سے ایک عالم دین اور روحانی سلسلہ کے پیشوا کا ایک فلمی عورت کی ’’عزت افزائی‘‘ کے لیے منعقدہ تقریب میں شریک ہونا منا سب ہے ؟
(۲) ہمارے ہاں جس طرح سے فلم کو پیسہ کمانے اور عریانی پھیلانے کا ذریعہ بنا دیا گیاہے ، کیایہ پیشہ اپنی نوعیت کے اعتبا ر سے اس قابل ہے کہ اسے قابل مبارک باداور لائق تحسین سمجھا جائے؟
(۳) فلم جیسے ناپسندیدہ اورمکروہ پیشہ سے وابستہ افراد ’معزز‘کہلائے جا سکتے ہیں یاکسی روحانی شخصیت کے ان کی تقاریب میں شریک ہونے سے ان کی عزت میں اضافہ ہو جاتا ہے ؟
(۴) مولانا اکرم اعوان صاحب کتاب وسنت اورعلماء ِکرام وصوفیاء ِعظام کے تعامل کی روشنی میں اپنے مذکورہ طرز عمل کادفاع کرسکتے ہیں اوراگر نہیں تو ان کی اس خود ساختہ شریعت کی حقیقت کیا ہے ؟
مندرجہ بالا کسی ایک نقطہ کی شریعت ِمطہرہ کی روشنی میں وضاحت اوراس کے بارے میں قارئین کی راہنمائی سرانجام دینے کی بجائے انہوں نے محض بے ربط اوربے نقط الزام تراشی پر اکتفا کرنا ہی مناسب سمجھا۔مناسب معلوم ہوتاہے کہ مولانا اکرم اعوان صاحب کے ارشادات کی حقیقت کو واضح کیا جائے …اس کے بعد معاملہ قارئین پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ خود ہی فیصلہ کریں کہ ان کی با ت میں کس قدر وزن ہے؟
(۱) مولانا اعوان صاحب تحریر فرماتے ہیں: ’’آپ نے درست نہیں لکھا ۔ آپ نے محض ایک اخبار میں چھپے ہوئے کو بنیاد بنایا جو اپنے ہی ملک کااخبار ہے اور اپنی مرضی کا مالک ہے …ضروری نہیں کہ درست ہی لکھے‘‘
قارئین کرام! راقم الحروف نے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ جیسے مؤقر روزنامے میں شائع شدہ خبر کے متن کی بنیاد پر اپنی معروضات پیش کی تھیں۔ ۱۳ ؍اپریل کو ان کے متعلق خبر شائع ہوئی تھی اور ۲۴؍اپریل کو خبریں میں راقم کے مضمون کی اشاعت تک مولانا اعوان صاحب کی طرف سے اس اہم خبر کے متعلق کسی قسم کی تردید شائع نہ ہوئی ۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے جس مضمون میں مذکورہ شکوک وشبہات تحریر کرتے ہیں، اسی میں اس خبر کی تائید بھی کرتے ہیں ۔ اپنے موقف کی وضاحت میں انہوں نے نہ تواس بات کی تردید کی کہ وہ انجمن کی تقریب میں شریک نہ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے خبر کے کسی حصہ کی خاص طور پر صحت سے انکار کیا ۔ اس کے باوجود انہیں گلہ ہے کہ ان کے خلاف مضمون ’’محض ایک اخبار‘‘ کی خبر کی بنیاد پر شائع کیاگیا ہے ۔ راقم الحروف نے ان کے اس بیان کو کہ فلمی صنعت کی کارکردگی قابل تحسین ہے، تنقید کا نشانہ بنایا تھا ، اب وہ خود ہی لکھ رہے ہیں ’’مفہوم یہی تھا کہ آپ لوگوں نے جن حالات میں غیر ملکی فلم انڈسٹری کامقابلہ کیا ہے ، وہ واقعی مبارک کے لائق ہے ‘‘ انہوں نے اپنے بیان میں پاکستان کے اردو اخبارات کے بارے میں بھی یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ قابل اعتماد نہیں ہیں او ریہ بات فراموش کر گئے کہ ان کے حق میں خبریں بھی انہی اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔
۲۔ مولانا اکرم اعوان صاحب کا دوسرا ارشاد ملاحظہ ہو ! ’’آپ کا ارشاد ہے کہ ممکن ہے مولانا اکر م اعوان اپنی اس حرکت کا دفاع کریں؟ ماشاء اللہ کس سے دفاع ؟آپ سے یا آپ جیسے ان سب لوگوں سے جو ہر ظلم میں برابر کے شریک ہیں؟
راقم الحروف کی مولانا سے عقیدت مندی محض غائبانہ تعارف پر مبنی تھی ،ان سے ذاتی شناسائی کا تعلق ہرگز نہیں ہے ۔ بعض اہل دانش وتدبر کی ان کے بارے میں عقیدت سے درحقیقت متاثر ہو کر راقم بھی ان کامعتقد ہو گیاتھا ۔ کسی قسم کی جان پہچان کے بغیر مولانااعوان صاحب راقم الحروف کو ہر طرح کے ظلم میں برابر کاشریک سمجھتے ہیں ۔ اسلامی شریعت میں تو اس سوئے ظن کا کوئی جواز نہیں ہے شاید ان کی خانہ ساز طریقت میں اس کا جواز پایا جاتا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا اکر م اعوان صاحب پندار ذات او رپیرانہ نخوت پسندی کے اس ہمالہ پر متمکن ہیں جہاں انسان اپنے آپ کو ہر تنقید سے متبرا اورہر خطا سے معصوم سمجھنے کی غلطی فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ چونکہ وہ ہزاروں لوگوں کے روحانی پیرومرشد ہیں، لہٰذا ان کے کسی غیر شرعی عمل کی نشاندہی کرنے والا ان کے عتاب کا شکار ہو کر ’’ہر ظلم میں برابر کی شراکت‘‘ کاملزم بھی ٹھرتا ہے ۔ ہم مولانا اکرم صاحب سے نہایت ادب سے گزارش کریں گے کہ اگر وہ پندارِ روحانیت کے اس مصنوعی خول سے لمحہ بھر کے لیے باہر نکلنا گوارا فرمائیں توہم یہ عرض کرنے کی جسارت کریں کہ عوامی راہنما ، سیاستدان ، پیر یا عالم دین کاذاتی کردار بھی ’’پبلک پراپرٹی‘‘ قرار پاتا ہے ۔ جدید جمہوری دور میں مولانا صاحب !آپ محض یہ کہہ کر ’’میں کام اللہ کے لیے کرتا ہوں اورمیرے دفاع کے لیے وہی ذات کافی ہے ’’ اپنی جان نہیں چھڑا سکتے۔ اگر آپ کو اس بدقسمت قوم کی راہنمائی پر اصرار ہے اورآپ فی الواقع یہ سمجھتے ہیں کہ آپ اسلامی انقلاب کے علمبردار ہیں تو پھر آپ کواپنے طرز ِعمل کادفاع قرآن وسنت کی روشنی میں کرنا پڑے گا ۔ ورنہ آپ رضاکارانہ طور پر اس منصب سے دستبردار ہو جائیں اور پھر جو جی میں آئے کریں ، آپ پھر عوامی احتساب کے مکلف نہیں رہیں گے ۔
(۳) راقم ،مولانا کے درج ذیل ارشادات کا سیاق وسباق سمجھے سے قاصر ہے …فرماتے ہیں !
’’آپ کو توصرف میری ذا ت میں کفر نظر آیا ، مگر کسی ظالم کے خلاف کسی مظلوم کے حق میں نہ آپ کی نظر اٹھی اور نہ کوئی نقطہ نظر سامنے آیا ۔سینکڑوں لوگ جل مرے، لاکھوں قتل ہوئے ،ہورہے ہیں ،سینکڑوں نئے شراب خانہ کھل گئے۔ پورا معاشی نظام سو د پر چل رہا ہے۔ آپ بھی نوشِ جان فرمار رہے ہیں ۔ ہوٹلوں میں لڑکیاں سپلائی ہورہی تھی… مگر آپ کے لیے سوچنے کاکوئی نکتہ نہ بن سکا ۔‘‘
مولانا اعوان صاحب جس جذباتی اعصاب زدگی میں الزامات کی یہ بوچھاڑ کر رہے ہیں، اس کے بارے میں بجاطور پر کہا جاسکتا ہے … ع
دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں​
موصوف نے یہ فرض کر لیا ہے کہ راقم الحروف ان تمام جرائم کی طویل فہرست میں اعانت کا مرتکب ہے او ر ظلم کی یہ تمام صورتیں اس نے خوش دلی سے قبو ل کر لیں ہے۔ البتہ مولانا اکرم صاحب کی انجمن کی تقریب میں شرکت کے جرم کومعاف نہیں کر سکا۔انہیں اس سے غرض نہیں ہے کہ راقم کاان جرائم کے بار ے میں آج تک کیا ردّعمل رہا ہے ،وہ تو مدعی بھی خود ہیں او منصف بھی خودبن بیٹھے ہیں۔ شاید وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جس ملک میں قتل وغارت اور سود کا کاروبار ہورہا ہو وہاں فلمی عورتوں کی مجلس میں جلوہ افروز ہوناکوئی بہت بڑی بات نہیں ہے ۔ لیکن سیدھے بھاؤ یہ بات کرنے کی بجائے انہوں نے مذکورہ جذباتی فرد ِجرم عائد کرنا گوارا کیا ہے ۔ وہ تقاضا کر رہے ہیں کہ ان کی کسی بات پراعتراض وارد کرنے سے پہلے اشد ضروری ہے کہ مذکورہ جرام کے خلاف لکھے گئے مضامین کاانبار پیش کیا جائے ورنہ ان پر تنقید کاحق باقی نہیں رہتا ۔ اس پوری منطق کوکوئی شخص بقائمی ہوش وحواس قبول کر سکتا ہے ؟ اس کا فیصلہ قارئین کرام خود فرمائیں۔
(۴) مولانا اکرم صاحب کے موقف میں پیش کردہ سب سے قابل اعتراض اورفتنہ انگیز بات یہ ہے کہ :
’’آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ انجمن گذشتہ اٹھارہ سال سے ایک شریف آدمی کی بیوی ہے اورایک شریف خاندان کی بہو بھی ہے ۔کاش آپ کی زبان کو بھی یہ سب کچھ کہتے ہوئے خیال ہوتا۔ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ قبولِ اسلام کے وقت مکہ مکرمہ میں عورتیں پیشہ کرتی تھیں۔ کیا اسلام نے انہیں قبول نہیں کیا؟ کیا رحمت ِعالم ﷺ صرف آپ جیسے پارساؤں کے لیے مبعوث ہوئے تھے ؟ کیا گنہگارکے لیے کوئی اوردروازہ ہے ۔‘‘
مناسب ہوتا،مولانا اعوان صاحب ہماری معلومات میں اضافہ کرنے کی بجائے اپنے معیارِ شرافت پر کھل کر ر وشنی ڈالتے ۔ مولانا صاحب آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ ایک شریف آدمی کی بیوی اور ایک شریف خاندان کی بہو کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد انہوں نے فلموں سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی ؟ وہ کیسا شریف خاندان ہے کہ جس کی بہو ’’سیکس سمبل‘‘ قرار پائی ہو او راس کی شرافت پر کوئی حرف نہ آئے ؟ کیا شرافت بھی یہودیت کی طرح کوئی مستقل بالذات چیز ہے جو ہر طرح کے برے اعمال کے ارتکاب کے باوجود پوری شان سے قائم ودائم رہتی ہے ؟ کیا اس خاندان نے انجمن کو محض شر افت کی بنیاد پر اپنی بہو بنایا تھا۔ اورمولانا اعوان صاحب آپ نے اسی شرافت میں استحکام لانے کی غرض سے مذکورہ تقریب میں شرکت فرمائی تھی؟ اگر آپ نے انجمن اور اس کے سسرالی خاندان کے بزعم خویش وکیل صفائی کامنصب اختیار کر لیا ہے توپھر ان سوالات کاجواب دینا آ پ پر قرض ہے ۔ مزید برآں اگر آپ کی اس کی نامعقول منطق کو تسلیم کر لیاجائے تو پھر اس کے مضمرات کیا ہو ں گے ؟ کیا آپ کی اس سند ِشرافت کے بعدفلموںمیں کام کرنے والی تمام بدکار عورتیں بلاامتیاز ’’شریعت زادیاں‘‘ نہیں بن جائیں گی؟کیا وہ گھرانے جو محض اپنی شرافت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے اپنی لڑکیوں کو فلموں میں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے ، ان کے پاس کوئی اخلاقی جواز باقی رہے گا؟ کیا اس سے فلمی صنعت میں جانے کا رجحان فروغ نہیں پائے گا؟ اور پھر اگر فلموںمیں کام کرنے والیاں بھی شریف ہی قرار پائیں گی تو موجود شرفا کا کیا بنے گا؟ شریف اور غیر شریف کے موجود معیارات اور سماجی قدریں کیا اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گی؟ پھر آخری سوال ذرا ذاتی سطح پر ! اگربالفرض مولانا اکرم صاحب کو فلمی پیشے میں کوئی بات قابل اعتراض نظر نہیں آتی تو کیاوہ اس ’’شریفانہ‘‘ پیشے میں علماء اوردینی گھرانوں کی بہو بیٹیوں کو بھی دیکھنا پسند فرمائیں گے؟
(ب) مندرجہ بالا اقتباس کے دوسر ے حصے میں مولانا اکر م صاحب نے اپنے قابل اعتراض عمل کو حضورِ اکر م ﷺ۔ کی سنت ِمبارکہ سے تشبیہ دینے کی جسارت کی ہے ۔ مذکورہ واقعہ سے جو انہوں نے استنباط فرمایا ہے وہ صریحاً غلط اورحد درجہ فتنہ انگیز ہے جس میں صحابیات پر الزام تراشی کا عنصر بھی موجود ہے۔ یہ با ت درست ہے کہ طلوعِ اسلا م کے وقت مکہ میں بعض عورتیں پیشہ کرتی تھیں لیکن وہ تمام کی تما م لونڈیاں تھیں، ان میں سے شریف گھرانے کی ایک بھی عورت نہ تھی ۔ پھر اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ کہ ایک بھی ایسی پیشہ کرنے والی عورت نہ تھی جس نے اسلام قبول کرنے کے بعداس پیشے کو جاری رکھا ہو۔ انہوں نے توبہ کی تھی اورصالح زندگی کاآغاز کیا تھا۔ کہاں و ہ اسلام قبول کرنے کے بعد شریفانہ زندگی بسر کرنے والی مسلمان صحابیات اورکہاں آج کی فلمی عورتیں اور مکروہ طوائف زادیاں جو اس پیشے کو فن سمجھ کر اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ اورآپ انہیںاس فن میں پختہ ترہونے کیلئے ان کی عزت افزائی فرماتے ہیں …
چہ نسبت ایں خاک را بہ عالم پاک​
مدینہ میں قحبہ گری تمام تر لونڈیوں کے ذریعہ سے ہوئی تھی۔ نبی اکر م نے اعلان فرمادیا کہ اسلام میں قحبہ گری کے لیے گنجائش نہیں ہے (ابوداود) دوسرا حکم جو آ پ نے دیا،وہ یہ تھا کہ زنا کے ذریعہ حاصل ہونی والی آمدی حرام ہے ،ناپاک اور قطعی ممنوع ہے ۔ آپ نے زنا کے معاوضے کو خبیث ،ناپاک اور بد ترین آمدنی قرار دیا(ابوداود،ترمذی) قرآن مجید میں ارشاد ہے ’’اور اپنی لونڈیوں کواپنے دنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جب کہ وہ خود پاک دامن رہنا چاہتی ہوں‘‘(النور:۳۳)
مولانا اکرم اعوان صاحب بڑے دھڑلے سے دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ہر حکمران کے سامنے حق بات کہی ،انہوں نے راقم الحروف کو اپنی کیسٹ سننے کی بھی تلقین فرمائی ہے ۔ سوال پید ا ہوتا ہے کہ ان کا حق بات کہنے کاجذبہ محض حکمرانوں تک محدود ہے کیونکہ وہاں سستی شہرت کاامکان پایا جاتا ہے؟فلمی عورتوں کے سامنے اللہ اور اس کے نبی اکرم کے ارشادات کہنے کاان میں حوصلہ کیوں نہیں ہے ۔ وہ انجمن جیسی عورتوں کو فنی پیشہ چھوڑ کر شریفانہ زندگی گذارنے کی تلقین کیوں نہیں فرماتے ؟ فلمی پیشہ بھی تو قحبہ گری کی ایک قسم ہے ۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ فلموں سے وابستہ ۶۰ فیصد عورتوں کاتعلق ’’اُس بازا ر ‘‘ سے ہے ۔ فلمی صفت یا اس بازار میں سے ایک کو ختم کرنے سے دوسرا خود بخود ختم ہو جائے گا۔ فلمی پیشہ فحش پذیر ہے اور فحاشی سے بچنے کے لیے قرآن مجید میں جا بجا احکامات دئیے گئے ہیں۔
(۵) معلوم ہوتا ہے مولانا اکرم اعوان صاحب کو روحانی وظائف اور تزکیہ نفس کی ریاضتوں سے فرصت نہیں ملتی کہ وہ اسلامی فقہ کا مطالعہ کر سکیں ،ورنہ وہ کبھی نہ لکھتے کہ فلمی صنعت لائق مبار ک باد ہے ۔ اگر یہ پیشہ مبارک ہے تو سوال پید ا ہوتا ہے پھر قابل مذمت کون ساپیشہ ہے ۔ فلمی پیشے کے متعلق معمولی سا علم رکھنے والابھی اس بات سے اتفاق کرے گا کہ یہ کسی بھی اعتبار سے پسندیدہ پیشہ نہیں ہے ۔ محض ایک قلیل تعداد کے جواس پیشہ سے وابستہ ہے، باقی اسے غلط سمجھتے ہیں ۔ گذشتہ کئی سالوں سے عاشق چوہدری جیسے صحافی اس پیشہ کو ’معزز‘ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی اپنی اخلاقی حالت یہ ہے کہ وہ فلمی اداکاراؤں کو’محترمہ‘ لکھنے سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن عوامُ الناس نے ہمیشہ اسے قابل نفرت ہی سمجھا ہے ۔
(۶) اپنے مضمون کے آخر میں مولانا اعوان صاحب ذاتیات پراترپر آئے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ویسے میری مخالفت میں آپ کے علاوہ بھی کچھ پارساؤں نے مہم جوئی شروع کی ہے، اس امید پر کہ ایوا نِ اقتدار سے چند ’’جوٹھے‘‘ ٹکڑے حاصل کر سکیں۔‘‘
تصوف نیک خوئی اورخلق کانام ہے (کشف المحجوب) پاکستان کے ایک روحانی سلسلے کے پیر ومرشد کی خوش خلقی اورخو ش گفتاری ملاحظہ فرمائیے۔ اپنی غیر شرعی حرکت کے دفاع میں کوئی متاثر کن بات تو کہنے سے معذور ہیں البتہ اپنے سے اختلاف ِرائے رکھنے والوں کو اقتدار کے ’’جوٹھے‘‘ ٹکڑوں کے طالب بتار ہے ہیں ۔ یہ لب ولہجہ کسی بناوٹی اور جعلی صوفی کاہی ہو سکتا ہے جسے بازاری عورتوں کی محبت میںرہنے سے کوئی عار نہیں ہے ۔ اگر پارساؤں کا کوئی گروہ اعوان صاحب کے خلاف مہم جوئی میں مصروف ہے تو اس کاراقم کو علم نہیں ہے ۔البتہ راقم الحروف کو نہ کسی پارسائی کا دعویٰ ہے اورنہ ہی وہ جھوٹے ٹکڑوں جیسے توہین آمیز طعنہ کا اپنے آپ کو مستحق سمجھتا ہے، ویسے تو اعوان صاحب کو دوسروں کو ’’جھوٹے ٹکڑے‘‘ کا طعنہ دینے کی بجائے اپنے مریدین کے ’’سچے اور پاک‘‘ ٹکڑوں کے متعلق فکر مند ہونے کی زیادہ ضرورت ہے ۔
ہم اپنی معروضات کو سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ کی معروف کتاب کشف المحجوب کے چند منتخب اقتباسات پر ختم کرتے ہیں :

(۱) تصوف نہ تو رسوم ہیں او رنہ ہی علوم …لیکن وہ اخلاق کانام ہے ۔

(۲) ریا زاہدوں کو تکان میں ڈالتاہے اورخواہش نفسانی صوفی کو رقص اور سرودمیں مبتلا کرتا ہے ۔

(۳) طریقت بے شریعت ریا ہے ۔

(۴) جان لو کہ شریعت اورطریقت میں رقص کی کوئی اصل نہیں ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مولانا اکر م اعوان کاموقف …چند معروضات

محمد عطاء اللہ صدیقی
اداکارہ انجمن کے ’اعزاز‘ میں منعقدہ تقریب میں تنظیم الاخوان کے امیر مولانا محمد اکرم اعوان صاحب کی شرکت کے حوالے سے راقم الحروف کی ناقدانہ معروضات اورردّ عمل ۲۴؍ اپریل کے روزنامہ ’’خبریں‘‘ میں شائع ہوا۔ جس کے جواب میں جناب محترم اعوان صاحب کا موقف ’’خبریں‘‘ کی ۳۰ ؍اپریل کی اشاعت میں شائع ہے ۔ اپنے موقف میں راقم کی طرف سے اٹھائے گئے اصولی اعتراضات کے متعلق شرعی رائے کے اظہار کی بجائے انہوں نے خلط ِمبحث ، متناقض تاویلات اور بڑی حدتک جواباً شخصی الزامات اور ’مذمت‘کے پیرائے کو اختیار فرمایا ہے ۔راقم الحروف کسی بحث وجدل اورغیر ضروری مناقشت کو پسند نہیں کرتا لیکن مولانا صاحب کی جارحانہ گرفت پرسکوت اختیار کرنے کا واضح مطلب یہی ہو گا کہ ان کے بے جا الزامات کی صداقت کوتسلیم کر لیا گیا ہے ۔ مزید برآں اگر مسئلہ محض راقم کی کردا رکشی تک محدود ہوتا تواسے در خور ِاعتنا نہ سمجھ کر نظر انداز کیا جاسکتا تھا۔ لیکن یہاں تو صورت یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے بنیادی اصول ،سماجی اقدار ، او رصحافت کا پیشہ بھی مولانا اعوان صاحب کے جلالی الزامات کی زد میں ہیں۔ چونکہ مسئلہ افراد کا نہیں بلکہ اصولوں کا ہے، اسی لیے اس کے متعلق ابہام کو رفع کرنا اشد ضروری ہے …
راقم الحروف نے جو معروضات پیش کی تھیں، اس کے اہم نکات یہ ہیں:
(۱) کیا اسلامی شریعت کی رو سے ایک عالم دین اور روحانی سلسلہ کے پیشوا کا ایک فلمی عورت کی ’’عزت افزائی‘‘ کے لیے منعقدہ تقریب میں شریک ہونا منا سب ہے ؟
(۲) ہمارے ہاں جس طرح سے فلم کو پیسہ کمانے اور عریانی پھیلانے کا ذریعہ بنا دیا گیاہے ، کیایہ پیشہ اپنی نوعیت کے اعتبا ر سے اس قابل ہے کہ اسے قابل مبارک باداور لائق تحسین سمجھا جائے؟
(۳) فلم جیسے ناپسندیدہ اورمکروہ پیشہ سے وابستہ افراد ’معزز‘کہلائے جا سکتے ہیں یاکسی روحانی شخصیت کے ان کی تقاریب میں شریک ہونے سے ان کی عزت میں اضافہ ہو جاتا ہے ؟
(۴) مولانا اکرم اعوان صاحب کتاب وسنت اورعلماء ِکرام وصوفیاء ِعظام کے تعامل کی روشنی میں اپنے مذکورہ طرز عمل کادفاع کرسکتے ہیں اوراگر نہیں تو ان کی اس خود ساختہ شریعت کی حقیقت کیا ہے ؟
مندرجہ بالا کسی ایک نقطہ کی شریعت ِمطہرہ کی روشنی میں وضاحت اوراس کے بارے میں قارئین کی راہنمائی سرانجام دینے کی بجائے انہوں نے محض بے ربط اوربے نقط الزام تراشی پر اکتفا کرنا ہی مناسب سمجھا۔مناسب معلوم ہوتاہے کہ مولانا اکرم اعوان صاحب کے ارشادات کی حقیقت کو واضح کیا جائے …اس کے بعد معاملہ قارئین پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ خود ہی فیصلہ کریں کہ ان کی با ت میں کس قدر وزن ہے؟
(۱) مولانا اعوان صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’آپ نے درست نہیں لکھا ۔ آپ نے محض ایک اخبار میں چھپے ہوئے کو بنیاد بنایا جو اپنے ہی ملک کااخبار ہے اور اپنی مرضی کا مالک ہے …ضروری نہیں کہ درست ہی لکھے‘‘
قارئین کرام! راقم الحروف نے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ جیسے مؤقر روزنامے میں شائع شدہ خبر کے متن کی بنیاد پر اپنی معروضات پیش کی تھیں۔ ۱۳ ؍اپریل کو ان کے متعلق خبر شائع ہوئی تھی اور ۲۴؍اپریل کو خبریں میں راقم کے مضمون کی اشاعت تک مولانا اعوان صاحب کی طرف سے اس اہم خبر کے متعلق کسی قسم کی تردید شائع نہ ہوئی ۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے جس مضمون میں مذکورہ شکوک وشبہات تحریر کرتے ہیں، اسی میں اس خبر کی تائید بھی کرتے ہیں ۔ اپنے موقف کی وضاحت میں انہوں نے نہ تواس بات کی تردید کی کہ وہ انجمن کی تقریب میں شریک نہ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے خبر کے کسی حصہ کی خاص طور پر صحت سے انکار کیا ۔ اس کے باوجود انہیں گلہ ہے کہ ان کے خلاف مضمون’’محض ایک اخبار‘‘ کی خبر کی بنیاد پر شائع کیاگیا ہے ۔ راقم الحروف نے ان کے اس بیان کو کہ فلمی صنعت کی کارکردگی قابل تحسین ہے، تنقید کا نشانہ بنایا تھا ، اب وہ خود ہی لکھ رہے ہیں ’’مفہوم یہی تھا کہ آپ لوگوں نے جن حالات میں غیر ملکی فلم انڈسٹری کامقابلہ کیا ہے ، وہ واقعی مبارک کے لائق ہے ‘‘ انہوں نے اپنے بیان میں پاکستان کے اردو اخبارات کے بارے میں بھی یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ قابل اعتماد نہیں ہیں او ریہ بات فراموش کر گئے کہ ان کے حق میں خبریں بھی انہی اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔
۲۔ مولانا اکرم اعوان صاحب کا دوسرا ارشاد ملاحظہ ہو !
’’آپ کا ارشاد ہے کہ ممکن ہے مولانا اکر م اعوان اپنی اس حرکت کا دفاع کریں؟ ماشاء اللہ کس سے دفاع ؟آپ سے یا آپ جیسے ان سب لوگوں سے جو ہر ظلم میں برابر کے شریک ہیں؟
راقم الحروف کی مولانا سے عقیدت مندی محض غائبانہ تعارف پر مبنی تھی ،ان سے ذاتی شناسائی کا تعلق ہرگز نہیں ہے ۔ بعض اہل دانش وتدبر کی ان کے بارے میں عقیدت سے درحقیقت متاثر ہو کر راقم بھی ان کامعتقد ہو گیاتھا ۔ کسی قسم کی جان پہچان کے بغیر مولانااعوان صاحب راقم الحروف کو ہر طرح کے ظلم میں برابر کاشریک سمجھتے ہیں ۔ اسلامی شریعت میں تو اس سوئے ظن کا کوئی جواز نہیں ہے شاید ان کی خانہ ساز طریقت میں اس کا جواز پایا جاتا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا اکر م اعوان صاحب پندار ذات او رپیرانہ نخوت پسندی کے اس ہمالہ پر متمکن ہیں جہاں انسان اپنے آپ کو ہر تنقید سے متبرا اورہر خطا سے معصوم سمجھنے کی غلطی فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ چونکہ وہ ہزاروں لوگوں کے روحانی پیرومرشد ہیں، لہٰذا ان کے کسی غیر شرعی عمل کی نشاندہی کرنے والا ان کے عتاب کا شکار ہو کر ’’ہر ظلم میں برابر کی شراکت‘‘ کاملزم بھی ٹھرتا ہے ۔
ہم مولانا اکرم صاحب سے نہایت ادب سے گزارش کریں گے کہ اگر وہ پندارِ روحانیت کے اس مصنوعی قول سے لمحہ بھر کے لیے باہر نکلنا گوارا فرمائیں توہم یہ عرض کرنے کی جسارت کریں کہ عوامی راہنما ، سیاستدان ، پیر یا عالم دین کاذاتی کردار بھی ’’پبلک پراپرٹی‘‘ قرار پاتا ہے ۔
جدید جمہوری دور میں مولانا صاحب !آپ محض یہ کہہ کر ’’میں کام اللہ کے لیے کرتا ہوں اورمیرے دفاع کے لیے وہی ذات کافی ہے ’’ اپنی جان نہیں چھڑا سکتے۔ اگر آپ کو اس بدقسمت قوم کی راہنمائی پر اصرار ہے اورآپ فی الواقع یہ سمجھتے ہیں کہ آپ اسلامی انقلاب کے علمبردار ہیں تو پھر آپ کواپنے طرز ِعمل کادفاع قرآن وسنت کی روشنی میں کرنا پڑے گا ۔ ورنہ آپ رضاکارانہ طور پر اس منصب سے دستبردار ہو جائیں اور پھر جو جی میں آئے کریں ، آپ پھر عوامی احتساب کے مکلف نہیں رہیں گے ۔
(۳) راقم ،مولانا کے درج ذیل ارشادات کا سیاق وسباق سمجھے سے قاصر ہے …فرماتے ہیں !
’’آپ کو توصرف میری ذا ت میں کفر نظر آیا ، مگر کسی ظالم کے خلاف کسی مظلوم کے حق میں نہ آپ کی نظر اٹھی اور نہ کوئی نقطہ نظر سامنے آیا ۔سینکڑوں لوگ جل مرے، لاکھوں قتل ہوئے ،ہورہے ہیں ،سینکڑوں نئے شراب خانہ کھل گئے۔ پورا معاشی نظام سو د پر چل رہا ہے۔ آپ بھی نوشِ جان فرمار رہے ہیں ۔ ہوٹلوں میں لڑکیاں سپلائی ہورہی تھی… مگر آپ کے لیے سوچنے کاکوئی نکتہ نہ بن سکا ۔‘‘
مولانا اعوان صاحب جس جذباتی اعصاب زدگی میں الزامات کی یہ بوچھاڑ کر رہے ہیں، اس کے بارے میں بجاطور پر کہا جاسکتا ہے … ع
دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں​
موصوف نے یہ فرض کر لیا ہے کہ راقم الحروف ان تمام جرائم کی طویل فہرست میں اعانت کا مرتکب ہے او ر ظلم کی یہ تمام صورتیں اس نے خوش دلی سے قبو ل کر لیں ہے۔ البتہ مولانا اکرم صاحب کی انجمن کی تقریب میں شرکت کے جرم کومعاف نہیں کر سکا۔انہیں اس سے غرض نہیں ہے کہ راقم کاان جرائم کے بار ے میں آج تک کیا ردّعمل رہا ہے ،وہ تو مدعی بھی خود ہیں او منصف بھی خودبن بیٹھے ہیں۔ شاید وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جس ملک میں قتل وغارت اور سود کا کاروبار ہورہا ہو وہاں فلمی عورتوں کی مجلس میں جلوہ افروز ہوناکوئی بہت بڑی بات نہیں ہے ۔ لیکن سیدھے بھاؤ یہ بات کرنے کی بجائے انہوں نے مذکورہ جذباتی فرد ِجرم عائد کرنا گوارا کیا ہے ۔ وہ تقاضا کر رہے ہیں کہ ان کی کسی بات پراعتراض وارد کرنے سے پہلے اشد ضروری ہے کہ مذکورہ جرام کے خلاف لکھے گئے مضامین کاانبار پیش کیا جائے ورنہ ان پر تنقید کاحق باقی نہیں رہتا ۔ اس پوری منطق کوکوئی شخص بقائمی ہوش وحواس قبول کر سکتا ہے ؟ اس کا فیصلہ قارئین کرام خود فرمائیں۔
(۴) مولانا اکرم صاحب کے موقف میں پیش کردہ سب سے قابل اعتراض اورفتنہ انگیز بات یہ ہے کہ :
’’آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ انجمن گذشتہ اٹھارہ سال سے ایک شریف آدمی کی بیوی ہے اورایک شریف خاندان کی بہو بھی ہے ۔کاش آپ کی زبان کو بھی یہ سب کچھ کہتے ہوئے خیال ہوتا۔ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ قبولِ اسلام کے وقت مکہ مکرمہ میں عورتیں پیشہ کرتی تھیں۔ کیا اسلام نے انہیں قبول نہیں کیا؟ کیا رحمت ِعالم ﷺ صرف آپ جیسے پارساؤں کے لیے مبعوث ہوئے تھے ؟ کیا گنہگارکے لیے کوئی اوردروازہ ہے ۔‘‘
مناسب ہوتا،مولانا اعوان صاحب ہماری معلومات میں اضافہ کرنے کی بجائے اپنے معیارِ شرافت پر کھل کر ر وشنی ڈالتے ۔
مولانا صاحب آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ ایک شریف آدمی کی بیوی اور ایک شریف خاندان کی بہو کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد انہوں نے فلموں سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی ؟ وہ کیسا شریف خاندان ہے کہ جس کی بہو ’’سیکس سمبل‘‘ قرار پائی ہو او راس کی شرافت پر کوئی حرف نہ آئے ؟ کیا شرافت بھی یہودیت کی طرح کوئی مستقل بالذات چیز ہے جو ہر طرح کے برے اعمال کے ارتکاب کے باوجود پوری شان سے قائم ودائم رہتی ہے ؟ کیا اس خاندان نے انجمن کو محض شر افت کی بنیاد پر اپنی بہو بنایا تھا۔ اورمولانا اعوان صاحب آپ نے اسی شرافت میں استحکام لانے کی غرض سے مذکورہ تقریب میں شرکت فرمائی تھی؟
اگر آپ نے انجمن اور اس کے سسرالی خاندان کے بزعم خویش وکیل صفائی کامنصب اختیار کر لیا ہے توپھر ان سوالات کاجواب دینا آ پ پر قرض ہے ۔ مزید برآں اگر آپ کی اس کی نامعقول منطق کو تسلیم کر لیاجائے تو پھر اس کے مضمرات کیا ہو ں گے ؟
کیا آپ کی اس سند ِشرافت کے بعدفلموں میں کام کرنے والی تمام بدکار عورتیں بلاامتیاز ’’شریعت زادیاں‘‘ نہیں بن جائیں گی؟کیا وہ گھرانے جو محض اپنی شرافت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے اپنی لڑکیوں کو فلموں میں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے ، ان کے پاس کوئی اخلاقی جواز باقی رہے گا؟ کیا اس سے فلمی صنعت میں جانے کا رجحان فروغ نہیں پائے گا؟ اور پھر اگر فلموں میں کام کرنے والیاں بھی شریف ہی قرار پائیں گی تو موجود شرفا کا کیا بنے گا؟ شریف اور غیر شریف کے موجود معیارات اور سماجی قدریں کیا اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گی؟ پھر آخری سوال ذرا ذاتی سطح پر ! اگربالفرض مولانا اکرم صاحب کو فلمی پیشے میں کوئی بات قابل اعتراض نظر نہیں آتی تو کیاوہ اس ’’شریفانہ‘‘ پیشے میں علماء اوردینی گھرانوں کی بہو بیٹیوں کو بھی دیکھنا پسند فرمائیں گے؟
(ب) مندرجہ بالا اقتباس کے دوسر ے حصے میں مولانا اکر م صاحب نے اپنے قابل اعتراض عمل کو حضورِ اکر م ﷺـ کی سنت ِمبارکہ سے تشبیہ دینے کی جسارت کی ہے ۔ مذکورہ واقعہ سے جو انہوں نے استنباط فرمایا ہے وہ صریحاً غلط اورحد درجہ فتنہ انگیز ہے جس میں صحابیات پر الزام تراشی کا عنصر بھی موجود ہے۔ یہ با ت درست ہے کہ طلوعِ اسلا م کے وقت مکہ میں بعض عورتیں پیشہ کرتی تھیں لیکن وہ تمام کی تما م لونڈیاں تھیں، ان میں سے شریف گھرانے کی ایک بھی عورت نہ تھی ۔ پھر اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ کہ ایک بھی ایسی پیشہ کرنے والی عورت نہ تھی جس نے اسلام قبول کرنے کے بعداس پیشے کو جاری رکھا ہو۔ انہوں نے توبہ کی تھی اورصالح زندگی کاآغاز کیا تھا۔ کہاں و ہ اسلام قبول کرنے کے بعد شریفانہ زندگی بسر کرنے والی مسلمان صحابیات اورکہاں آج کی فلمی عورتیں اور مکروہ طوائف زادیاں جو اس پیشے کو فن سمجھ کر اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ اورآپ انہیں اس فن میں پختہ ترہونے کے لیے ان کی عزت افزائی فرماتے ہیں …
چہ نسبت ایں خاک را بہ عالم پاک​
مدینہ میں قحبہ گری تمام تر لونڈیوں کے ذریعہ سے ہوئی تھی۔ نبی اکر م نے اعلان فرمادیا کہ اسلام میں قحبہ گری کے لیے گنجائش نہیں ہے (ابوداود) دوسرا حکم جو آ پ نے دیا،وہ یہ تھا کہ زنا کے ذریعہ حاصل ہونی والی آمدی حرام ہے ،ناپاک اور قطعی ممنوع ہے ۔ آپ نے زنا کے معاوضے کو خبیث ،ناپاک اور بد ترین آمدنی قرار دیا(ابوداود،ترمذی) قرآن مجید میں ارشاد ہے ’’اور اپنی لونڈیوں کواپنے دنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جب کہ وہ خود پاک دامن رہنا چاہتی ہوں‘‘(النور:۳۳)
مولانا اکرم اعوان صاحب بڑے دھڑلے سے دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ہر حکمران کے سامنے حق بات کہی ،انہوں نے راقم الحروف کو اپنی کیسٹ سننے کی بھی تلقین فرمائی ہے ۔ سوال پید ا ہوتا ہے کہ ان کا حق بات کہنے کاجذبہ محض حکمرانوں تک محدود ہے کیونکہ وہاں سستی شہرت کاامکان پایا جاتا ہے؟فلمی عورتوں کے سامنے اللہ او راس کے نبی اکرم کے ارشادات کہنے کاان میں حوصلہ کیوں نہیں ہے ۔ وہ انجمن جیسی عورتوں کو فنی پیشہ چھوڑ کر شریفانہ زندگی گذارنے کی تلقین کیوں نہیں فرماتے ؟ فلمی پیشہ بھی تو قحبہ گری کی ایک قسم ہے ۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ فلموں سے وابستہ ۶۰ فیصد عورتوں کاتعلق ’’اُس بازا ر ‘‘ سے ہے ۔ فلمی صفت یا اس بازار میں سے ایک کو ختم کرنے سے دوسرا خود بخود ختم ہو جائے گا۔ فلمی پیشہ فحش پذیر ہے اور فحاشی سے بچنے کے لیے قرآن مجید میں جا بجا احکامات دئیے گئے ہیں۔
(۵) معلوم ہوتا ہے مولانا اکرم اعوان صاحب کو روحانی وظائف اور تزکیہ نفس کی ریاضتوں سے فرصت نہیں ملتی کہ وہ اسلامی فقہ کا مطالعہ کر سکیں ،ورنہ وہ کبھی نہ لکھتے کہ فلمی صنعت لائق مبار ک باد ہے ۔ اگر یہ پیشہ مبارک ہے تو سوال پید ا ہوتا ہے پھر قابل مذمت کون ساپیشہ ہے ۔ فلمی پیشے کے متعلق معمولی سا علم رکھنے والابھی اس بات سے اتفاق کرے گا کہ یہ کسی بھی اعتبار سے پسندیدہ پیشہ نہیں ہے ۔ محض ایک قلیل تعداد کے جواس پیشہ سے وابستہ ہے، باقی اسے غلط سمجھتے ہیں ۔ گذشتہ کئی سالوں سے عاشق چوہدری جیسے صحافی اس پیشہ کو ’معزز‘ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی اپنی اخلاقی حالت یہ ہے کہ وہ فلمی اداکاراؤں کو’محترمہ‘ لکھنے سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن عوامُ الناس نے ہمیشہ اسے قابل نفرت ہی سمجھا ہے ۔
(۶) اپنے مضمون کے آخر میں مولانا اعوان صاحب ذاتیات پراترپر آئے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ویسے میری مخالفت میں آپ کے علاوہ بھی کچھ پارساؤں نے مہم جوئی شروع کی ہے، اس امید پر کہ ایوا نِ اقتدار سے چند ’’جوٹھے‘‘ ٹکڑے حاصل کر سکیں۔‘‘
تصوف نیک خوئی اورخلق کانام ہے (کشف المحجوب) پاکستان کے ایک روحانی سلسلے کے پیر ومرشد کی خوش خلقی اورخو ش گفتاری ملاحظہ فرمائیے۔ اپنی غیر شرعی حرکت کے دفاع میں کوئی متاثر کن بات تو کہنے سے معذور ہیں البتہ اپنے سے اختلاف ِرائے رکھنے والوں کو اقتدار کے ’’جوٹھے‘‘ ٹکڑوں کے طالب بتار ہے ہیں ۔ یہ لب ولہجہ کسی بناوٹی اور جعلی صوفی کاہی ہو سکتا ہے جسے بازاری عورتوں کی محبت میں رہنے سے کوئی عار نہیں ہے ۔ اگر پارساؤں کا کوئی گروہ اعوان صاحب کے خلاف مہم جوئی میں مصروف ہے تو اس کاراقم کو علم نہیں ہے ۔البتہ راقم الحروف کو نہ کسی پارسائی کا دعویٰ ہے اورنہ ہی وہ جھوٹے ٹکڑوں جیسے توہین آمیز طعنہ کا اپنے آپ کو مستحق سمجھتا ہے ،ویسے تو اعوان صاحب کو دوسروں کو ’’جھوٹے ٹکڑے‘‘ کا طعنہ دینے کی بجائے اپنے مریدین کے ’’سچے اور پاک‘‘ ٹکڑوں کے متعلق فکر مند ہونے کی زیادہ ضرورت ہے ۔
ہم اپنی معروضات کو سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ کی معروف کتاب کشف المحجوب کے چند منتخب اقتباسات پر ختم کرتے ہیں :

(۱) تصوف نہ تو رسوم ہیں او رنہ ہی علوم …لیکن وہ اخلاق کانام ہے ۔

(۲) ریا زاہدوں کو تکان میں ڈالتاہے اورخواہش نفسانی صوفی کو رقص اور سرودمیں مبتلا کرتا ہے ۔

(۳) طریقت بے شریعت ریا ہے ۔

(۴) جان لو کہ شریعت اورطریقت میں رقص کی کوئی اصل نہیں ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مولانا اکرم اعوان صاحب کے ارادت مندوں سے گزارش

محمد عطاء اللہ صدیقی
مولانا اکرم اعوان صاحب نے ایک فلمی اسٹوڈیو کی تقریب میں شرکت فرما کر ایک اداکارہ کی ’’عزت افزائی‘‘ فرمائی اور فلمی صنعت کی کارکردگی کو ’’لائق تحسین‘‘ قرار دیا۔ ان کے حسن نیت سے علی الرغم ان کے عقیدت مندوں اور اسلام پسندوں کو ان کے اس ظاہری عمل پر سخت افسوس اور تعجب ہوا۔ ان کے بعض عقیدت مندوں کو تو یقین نہ آیا کہ مولانا اعوان صاحب ایس مجالس خبیثہ میںشرکت بھی فرما سکتے ہیں؟ معروف کالم نگار جناب ہارون الرشید نے معاصر روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں 22 ؍مئی کو لکھا:
’’میں ان چند اخبار نویسوں میں سے ایک ہوں جو حضرت سے حسن ظن رکھتے ہیں اور اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ دو ماہ پہلے جس روز یہ خبر چھپی، میں نے جنرل حمیدگل سے فون پر بات کی اور عرض کیا کہ اگرچہ یقین نہیں آتا لیکن جو جملہ آنجناب سے منسوب ہوا، اس کا اسلوب چغلی کھاتا ہے کہ کسی اخبار نویس کی اختراع نہیں ۔وہ ہنسے اور انہوں نے کہا، تم خود ہی تو کہتے ہو کہ صوفیوں کے معاملات عجیب ہوتے ہیں‘‘
جناب ہارون الرشید مزید لکھتے ہیں ’’اگلے روز مجھے اپنے بیٹے محمد بلال کے ساتھ حضرت مولانا کی خدمت میں حاضر ہونا تھا… میں نے ارادہ کیا کہ تمام تر حسن ظن سے قطع نظر اگر حضرت مولانا محمد اکرم اعوان صاحب کوئی دلیل پیش نہ فرما سکے تو میں بلال کو لے کر لوٹ آئوں گا… میں نے سوال کیا تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور پس منظر کی وضاحت کردی لیکن میرا دل ہرگز ہرگز مطمئن نہ ہوا۔ میں نے عرض کیا:اخبارات طوفان اٹھا دیں گے، فرمایا، شوق سے اٹھائیں، پہلے وہ کب عنایت کرتے ہیں۔ ہارون الرشید صاحب نے مولانا اعوان صاحب کی مزید وضاحت اور دلائل سننے کے بعد بالآخر اپنے کالم کو اس طرح ختم کیا: ’’میں نے بلال کا ہاتھ انہیں تھمایا اور لوٹ آیا، ان کے مؤقف سے مجھے اب بھی اتفاق نہیں تھا لیکن میں جنید بغدادیؒ کے جانشین کی نیت پر شبہ کیسے کرسکتا تھا‘‘
قارئین کرام!… مولانا اکرم اعوان صاحب کے جس عمل پران کے عقیدت مند جنرل حمید گل صاحب کو تعجب ہو اور ایک اور عقیدت مند ہارون الرشید صاحب مولانا سے ملاقات کرکے وضاحتیں سننے کے بعد بھی ’’ہرگز ہرگز مطمئن‘‘ نہ ہوں۔ اس پر راقم الحروف یادیگر حضرات محض اسلامی حمیت کے جذبات سے مغلوب ہو کر اپنی ناقدانہ رائے کااظہار کریں تو مولانا اکرم اعوان صاحب اسے ایوانِ اقتدارسے چند ’’جوٹھے‘‘ ٹکڑوں کے حصول کی مہم جوئی قرار دیں (خبریں 30؍اپریل) اور ان کے ایک غالی ارادت مند محمد شفیع اویسی صاحب برافروختہ ہو کر تنقید کرنے والوں کو ’’بدخو‘‘، ’’زشت خو‘‘ ،’’خبث ِباطن میں مبتلا‘‘ جیسے القابات سے نوازیں اور ان کے نقطہ ٔ نظر کو ’’بے باکانہ قلم درازی‘‘ اور ’’بے جا تنقید کا معمول‘‘ کہیں (خبریں 6؍ جون) تو اسے غیر متوازن خود پسندی اور غلو ِعقیدت کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔ ذرا ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے ۔وہی ہارون الرشید صاحب جو آخر باقی تک اپنے ’’شیخ مکرم‘‘ کی مذکورہ تقریب میں شرکت پر عدمِ اطمینان کا شکار ہیں، اعوان صاحب کے ناقدین کے متعلق اس خیال آرائی سے بھی باز نہیں رہ سکے :’’لیکن وہ کہ وزارتوں کے خفیہ فنڈز اور حکمرانوں کی خاموش عنایات نے جن کی زبانیں دراز کردیں ہیں، لیکن اے مالک! تو انہیں بھی معاف کردے‘‘ (جنگ ؍ 22مئی) غالباً قصور ان صاحبان کا بھی نہیں ہے، جہاں معاملہ شخصی ارادت مندی اور غالی پیری مریدی کا ہو وہاں معروضیت یا تعقل پسندی کی توقع رکھنا ہی ایک نامعقول خواہش سے زیادہ نہیں ہے۔
مولانا اکرم اعوان صاحب جیسے قدوقامت کے ایک عالم دین اور پیر طریقت جن کے ہاتھ پر بقول محمدشفیع اویسی صاحب دو لاکھ افراد نے نفاذِ اسلام کے لئے موت کی بیعت کر رکھی ہو، کا ایک فلمی اداکارہ کی تقریب میں شریک ہونا ایک غیر معمولی واقعہ ہے جیسا کہ اداکارہ انجمن کا 23 مئی کے ’’نوائے وقت‘‘ میں انٹرویو شائع کرنے والے صحافی نے لکھا: ’’اس تقریب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں انجمن کے ساتھ معروف عالم دین مولانا اکرم اعوان بھی تشریف فرما تھے‘‘ لیکن مولانا اکرم اعوان صاحب اس واقعہ کو محض ’’ایک بے بات‘‘ (3۔ اپریل، خبریں) قرار دے کر اس کونظر انداز کرنے کا میلان رکھتے ہیں۔ محمد شفیع اویسی صاحب جیسے ان کے غالی مرید بھی من گھڑت حقائق، بے جا الزام تراشی اور سوئے تاویل کے ذریعے اپنے پیرومرشد کا دفاع پیش کر رہے ہیں، وہ اس بات کو اہمیت دینے کو تیار دکھائی نہیں دیتے کہ مذہبی اور دینی حلقوں میں مولانااکرم اعوان صاحب کے مذکورہ عمل کو کسی طرح ناپسندیدہ سمجھا جارہا ہے۔ کثیر الاشاعت ماہنامہ مجلہ الدعوۃ کے مدیر جناب امیر حمزہ نے اس واقعہ پر مفصل مضمون تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’بے شک وہ اچھی باتیں کہہ آئے ہوں، لیکن میں کہتا ہوں کہ اپنا نقصان بھی ڈھیر سارا کروا آئے ہیں۔ وہ اس محفل میں اس فلم انڈسٹری کے ہم نشین تھے کہ جس انڈسٹری کو ہر کوئی برا کہتا ہے۔ اب اچھے برے ہم نشین کی مثال اللہ کے رسولؐ نے عطر فروش اور لوہار کی بھٹی کی دی ہے۔ فرمایا:جو لوہار کے پاس پہنچے گا اس کے کپڑے تو بہرحال آگ کی چنگاریوں سے داغدار ہوں گے اور جو عطر فروش کے پاس بیٹھے گا تو بے شک عطر نہ خریدے مگر خوشبو تو سونگھے گا! اب مولانا اعوان تو خوش ہیں کہ چاہے کوئی ملامت کرے کہ فلم والوں کے پاس گئے تھے مگر میں تو دعوت دینے گیا تھا۔ مگر مولانا! جن کو آپ دعوت دینے گئے ان میں تو ایک بھی نہ سدھرا‘‘ (الدعوۃ، مئی99ء)
محمد شفیع اویسی صاحب نے سوال اٹھایا ہے کہ ’’اگر اہل اللہ کا تبلیغی و اصلاحی نظریہ سے کفار کی صفوں میں جانا ضروری اور مستحسن ہے تو مصلحین کا دینی شعائر کی ترویج و تبلیغ کے لئے گناہ گار مسلمانوں کی مجلسوں میں جانا کیوں قابل اعتراض ٹھہرا؟‘‘ اویسی صاحب کی یہ دلیل محض قیاس مع الفارق کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر جوشِ عقیدت کے غبار سے وہ باہر نکل سکتے تو ان سے یہ دریافت کیا جاسکتا ہے کہ کیا واقعی مولانا اعوان صاحب کے اس تقریب میں شرکت کا مقصد ’’دینی شعائر کی ترویج و تبلیغ‘‘ تھا؟ واقعاتی شہادت تو اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ تو ان ’’گناہ گاروں‘‘ کی اصلاح کے لئے نہیں بلکہ انہیں اس گناہ کی روش میں مزید پختہ تر کرنے گئے تھے۔ کیا انہوں نے فلمی صنعت کی خباثتوں کا شریعت کی روشنی میں محاکمہ کیا؟ کیا انہوں نے اپنی تقریر میں فلمی صنعت میں کام کرنے کو ’’گناہ‘‘ قرار دیا؟ کیا انہوں نے انجمن کو ہدایت کی کہ وہ اس مکروہ پیشہ سے دست کش ہو کر اسلام کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرے؟ اگر یہ سب کچھ انہوں نے ارشاد نہیں فرمایا تو پھر کون سے دینی شعائر کی تبلیغ فرمانے وہ تشریف لے گئے تھے؟ اس تقریب میں مولانا اعوان صاحب کو مدعو کرنے کا مقصد کیا تھا؟ 23مئی کے ’’نوائے وقت‘‘ میں خود انجمن کی زبانی اس سوال کا جواب ملاحظہ کیجئے: ’’ہم نے مولانا اکرم اعوان صاحب سے درخواست کی کہ وہ ہمارے ساتھ اسٹوڈیو میں چلیں۔ انہیں اپنے ساتھ سٹوڈیو میں لے جانے کے دو مقاصد تھے:ایک تو یہ کہ وہ ہماری کامیابی کے لئے دعا کریں اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ فلم انڈسٹری کے بارے میں جو غلط تاثر قائم کیا گیا ہے، اسے ختم کیا جاسکے‘‘ فلموں میں کامیابی کے لئے کسی کے حق میں دعا کرنا اور فلمی صنعت سے وابستہ مکروہ طوائف زادیوں کے بارے میں ’’غلط تاثر‘‘ کو زائل کرنا آخر کس اسلامی اصول کے تحت دینی شعائر کی ترویج کے زمرے میں آتا ہے؟ اویسی صاحب جیسے حضرات ان بنیادی سوالات کا جواب دینے کی بجائے مولانا اکرم اعوان صاحب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے اور ان کے ناقدین کو بے جا تنقید کا نشانہ بنانے میں سارا زورِ قلم صرف کرتے ہیں… مجلہ الدعوۃ کا مزید تبصرہ ملاحظہ فرمائیے:
’’وہ فلم انڈسٹری میں واپس جارہی تھی۔ ہاں اگر وہ وہاں سے نکل رہی ہوتی تو پھر بھی آپ کا جانا کچھ جچتا تھا۔ مگر اب تو بالکل ہی مناسب نہ لگتا تھا کہ وہ فلم انڈسٹری میں جارہی ہیں اور آپ کو ساتھ بٹھا کر واپسی کا اعلان کر رہی ہیں۔ وہ تو اپنے آپ کو اچھا ثابت کرنے کے لئے فائدہ اٹھا رہے تھے… تو جناب والا۔ آپ تو اس تاثر کو زائل کرنے کا باعث بنے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس تاثر کو زائل کرنا کتنی بڑی نیکی ہے؟ کیا جواریوں کی مجلس میں کسی روحانی شخصیت کے جانے سے جواری اچھے ہوجائیں گے ؟ شراب کے کلب میں روحانی شخصیت کے جانے سے شرابی اچھے ہوجائیں گے… اگر یہ معیار ہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے… نہ جناب، بالکل نہیں۔ اس تاثر کو قائم رہنا چاہیئے کہ فلم والے برے ہیں۔ اس لئے برے ہیں کہ برائی پھیلاتے ہیں‘‘ (الدعوۃ؍ مئی99ء)
محمد شفیع اویسی صاحب نے مولانا اکرم اعوان صاحب کے دفاع میں حضرت حسن بصریؒ کا واقعہ درج کیا ہے:
’’ولی ٔکامل حضرت حسن بصریؒ کے دور کا واقعہ ہے کہ ایک کنیز نے بغداد میں فتنہ اٹھا رکھا تھا ۔ ایک شب کے رقص و نغمہ کے لئے ایک لاکھ دینار طلب کرتی تھی اور عشوہ و ادا کا یہ عالم تھا کہ رئیس زادے قدموں پر پڑے رہتے۔ اپنے عہد کے اس نامور صوفی نے بھی ایک لاکھ ادا کئے اور مصلیٰ پر جاکھڑا ہوا۔ رقاصہ سے فرمائش کی کہ وہ قیمت وصول کرچکی ہے۔ لہٰذا غسل کرے اور عبادت کے لئے آمادہ ہوجائے۔ بغداد کے آسمان پر اگلی سحر اس طرح طلوع ہوئی کہ وہ رقاصہ تائب ہوچکی تھی‘‘
معلوم ہوتا ہے شفیع اویسی صاحب نے یہ واقعہ نقل فرماتے ہوئے عقل کو عارضی رخصت پر بھیج دیاتھا۔ ایک تو انہوں نے علمی بددیانتی یہ فرمائی کہ ہارون الرشید صاحب کے کالم ’’شیخ مکرم‘‘ (جنگ ؍22 مئی) سے اس واقعہ کو لفظ بہ لفظ نقل کردیا اور ان کا نام تک نہ لیا۔ دراصل یہ واقعہ بقول جناب ہارون الرشید کے مولانا اعوان صاحب نے انہیں خود اپنے دفاع کی غرض سے سنایا تھا۔
یہ واقعہ درایت کے اصول پر جانچا جائے تو ساقط الاعتبار معلوم ہوتا ہے۔ حضرت حسن بصریؒ کا قیام زیادہ تر بصرہ اور کوفہ میں رہا، یہاں بغداد کی کنیز کا ذکر کیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حسن بصریؒ جیسے فاقہ مست درویش کے متعلق یہ کہنا کہ انہوں نے اپنی جیب سے ایک لاکھ دینا ر ایک کنیز کو محض ایک رات کے لئے ادا کئے تھے، قرین قیاس معلوم نہیں ہوتا۔ اگر بالفرض اس واقعہ کی تاریخی صداقت پر یقین بھی کر لیا جائے، تب بھی یہ واقعہ مولانا اکرم اعوان صاحب کے واقعہ کے دفاع کے لئے بوجوہ قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اولاً یہ کہ حسن بصریؒ نے تو اس کنیز کو مصلے پرکھڑے ہو کر نماز ادا کرنے کا حکم دیا جبکہ مولانا اعوان صاحب نے ادار کارہ انجمن کو فلموں کے گناہ آلود سٹیج پر دوبارہ جلوہ گر ہونے میں حوصلہ افزائی کی۔ ثانیاً بغداد کی کنیز تو حسن بصریؒ کی روحانیت سے متاثر ہو کر اپنے پیشے سے ایک ہی رات میں تائب ہوگئی، جبکہ انجمن پر اعوان صاحب کی روحانیت کا ذرہ برابر اثر نہ ہوا۔ یہاں ایک اور فرق کی نشاندہی بھی مفید معلوم ہوتی ہے۔ حضرت حسن بصریؒ کے زمانہ میں کنیزوں سے متمتع ہونا شرعی اعتبار سے درست تھا۔ اگر وہ کنیز خرید کر اس سے تمتع فرماتے تب بھی اس زمانہ میں شرعی اعتبار سے کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ بغداد کی کنیز کے بارے میں ہارون الرشید صاحب نے لکھا ہے کہ وہ ’’کشمیر ی کنیز‘‘ تھی۔ یہ بیان بھی محل نظر ہے کہ اس زمانے میں کشمیر سے کنیزیں بغداد میں لائی جاتی تھیں۔
بے حد تاسف کا مقام ہے کہ مولانا اعوان صاحب جیسے نام نہاد ’’مفسر قرآن‘‘ کو اپنے عمل کے دفاع میں قرآن و سنت سے تو کوئی دلیل نہ مل سکی، البتہ انہوں نے مذکورہ ضعیف اور عقلی اعتبار سے ایک من گھڑت واقعہ سے دلائل کی ریت کی دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے، جس پر وہ خود بھی کھڑا نہیں رہ سکتے۔ ذرا غور فرمائیے اویسی صاحب کا یہ دعویٰ کس قدر لغو اور کمزور ہے۔ ’’مولانا اکرم اعوان صاحب کے ساتھ روحانی تعلق اور عقیدت نے انجمن کو بھی ایک مثبت اور دین سے تعلق کی راہ پر گامزن کردیا ہے‘‘ کوئی بھی صاحب ِعلم و دانش ایک اداکارہ کی فلمی دنیا میں واپسی کے سفر کے متعلق بقائمی ہوش و حواس اس طرح کا تبصرہ نہیں کرسکتا۔ ایسے حضرات کے تصورِ دین کے متعلق خدا وند ِقدوس سے پناہ مانگنی چاہئے۔
محمد شفیع اویسی صاحب اپنے شیخ مکرم کے دفاع میں ایک اور ’’برہانِ قاطع‘‘ تاریخ کی پٹاری سے نکال کر لائے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’مشرکین عرب اپنے قدیم روایتی میلہ عکاظ میں لعو و لعب کا وہ کون سا انداز ہے جو روا نہ رکھتے تھے، مگر رحمت ِمجسمؐ، نبی مکرمؐ بھی اس میلے میں تشریف لے جاتے تھے‘‘ عربی ثقافت و تمدن او ربالخصوص میلہ عکاظ کے متعلق معمولی سا علم رکھنے والا شخص بھی میلہ عکاظ اور موجودہ فلمی دنیا کی خباثتوں کے فرق کو سمجھ سکتا ہے۔ میلہ عکاظ کو تو رہنے دیجئے آپ ہمارے پنجاب کی ثقافت کے عکاس میلوں اور فلمی دنیا کے فحش پذیر ماحول کا موازانہ کریں تو زمین و آسمان کافرق دکھائی دیتا ہے۔ اویسی صاحب کا اس ضمن میں رسالت مآبؐ کے میلہ عکاظ میں شریک ہونے کو اعوان صاحب کے غیر شرعی عمل کے لئے دلیل کے طور پر پیش کرنا ایک ایسی گستاخانہ جسارت ہے جو صریحاً توہین رسالت پر مبنی ہے۔ کیااویسی صاحب اپنی خانہ زاد تاریخ کا کوئی صفحہ الٹ کر بتا سکتے ہیں کہ رسولِ اکرمؐ نے عکاظ کے کسی میلے میں کسی طوائف یا بدکار عورت سے ملاقات کی او راسے دین کی تبلیغ کی ؟ سیرت نبویؐ سے ایک بھی واقعہ نقل کرنا ممکن نہیں ہے جس سے ظاہر ہو کہ آپؐ کسی طوائف کے گھر یا کسی گلی میں یا کسی میلے ٹھیلے میں کسی بدکار طوائف کواسلام کی تبلیغ دینے تشریف لے گئے تھے۔ بے حد افسوس ہے کہ آج کے اندھے مرید اپنے پیرومرشد کے دفاع میں رسول اکرمؐ سے ایسی بات منسوب کر تے ہیں، جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ کون نہیں جانتا کہ میلہ عکاظ میںزیادہ تر مرد ہی شریک ہوتے تھے جہاں مشاعرے، کھیلیں اور دیگر ثقافتی پروگرام ہوتے تھے۔ وہاں آپؐ مختلف قبائل کے سرداروں کو دعوتِ دین دیتے تھے نہ کہ کسی بدکار شخص کی حوصلہ افزائی (نعوذ باللہ) فرماتے تھے۔ اویسی صاحب نے لکھاہے کہ ’’آپؐ کے وہاں تشریف لے جانے کا مقصد لوگوں کو دین حق کی دعوت دینا تھا‘‘ لیکن وہ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ اعوان صاحب دین حق کی دعوت دینے گئے تھے؟ اعوان صاحب کی ’’دین حق کی دعوت‘‘ کا تو اس تقریب کے شرکاء پر یہ اثر ہوا کہ ان کی تقریر کے فوراً بعد (چشم دید صحافیوں کی رپورٹ کے مطابق) مجرا کا اہتمام کیا گیا جس میں فلمی صنعت سے وابستہ طوائفوں نے اپنے ’’فن‘‘ کا خوب خوب مظاہر ہ کیا۔
محمد شفیع اویسی صاحب نے اپنے مذکورہ مضمون (خبریں، ۶؍ جون) میں بے حد جذباتی انداز میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا مولانا اعوان صاحب کی مخالفت کرکے ’’اسلام دشمن قوتیں متحد ہو کر اسلام اور اہل اسلام کو بدنام کرنے اور زک پہنچانے کے تمام ممکنہ حیلے اور حربے آزما رہی ہیں‘‘ مزید یہ کہ ’’ ان کا مؤثر ہتھیار مسلمانوں میں اختلافات کی آگ بھڑکانا او راس مقصد میں گونا گوں فتنوں او رتحریکوں کو ہوا دینا ہے‘‘ اس جذباتی ہیجان خیزی سے وہ اصل حقائق پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔ جو لوگ مولانااعوان صاحب کے واقعہ پر تنقید کر رہے ہیں ان کی اسلام سے محبت اور احیائے دین کے لئے جدوجہد کا ایک زمانہ معترف ہے۔ لشکر طیبہ کے مجاہدین جو کارگل سیکٹر میں ۲۰ ؍ہزار بھارتی فوجیوں کو شرمناک پسپائی پر مجبور کرکے داد ِشجاعت دے چکے ہیں، ان کے ترجمان مجلہ کے خیالات اوپر نقل کئے جاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ دیو بند مکتبہ ٔ فکر کے جید عالم دین اور صحافی علامہ زاہد الراشدی کے زیر نگرانی نکلنے والے ہفت روزہ ’’الشریعہ‘‘ میں اعوان صاحب کے واقعہ پر ناپسندیدگی کا اظہا رکیا گیا ہے۔ راقم کے ’’خبریں (24؍ اپریل) میں شائع ہونے والے مضمون کو بعض دینی رسائل مثلاً ہفت روزہ ’’اہلحدیث‘‘ میں ہوبہو نقل کرکے اس کے مؤقف کی تائید کا اظہا رکیا گیا ہے۔ دیگر اخبارات و رسائل میں بھی اس موضوع پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ مزید برآں مولانا اکرم اعوان صاحب کا واقعہ اہل اسلام میں تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم دو طلبہ اختر صدیق اور حافظ انس دو ہفتہ قبل واپس پاکستان آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 24؍ اپریل کے ’’خبر یں ‘‘ میں شائع شدہ راقم کا اعوان صاحب کے متعلق مضمون مدینہ یونیورسٹی کے پاکستانی طلبہ نے بے حد توجہ سے پڑھا اور کئی روز تک اس پر ناقدانہ بحث ہوتی رہی۔ یہ سب لوگ نہ تو اسلام دشمن ہیں اور نہ ہی کوئی فتنہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ ان سب کا مقصودِ محض یہ ہے کہ وہ مولانا اعوان صاحب کو ان کے عمل کے ’’غیر شرعی‘‘ اور ’’غیر مناسب‘‘ ہونے پر متنبہ کریں۔ اویسی صاحب کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ ’’اکیلے راقم الحروف نے اعوان صاحب کی فلمی سٹوڈیو کی تقریب میں شرکت کو بہانہ بنا کر ان پر بے جا تنقید کو اپنا معمول بنا لیا ہے‘‘
مولانا اکرم اعوان صاحب اور ان کے مرید اویسی صاحب نے ’’خبریں‘‘ میں اعوان صاحب کے سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک میں تبلیغی دوروں کا تذکرہ کیا ہے او رراقم کو دعوت دی ہے کہ وہ ان کی تقریریں اور تحریریں پڑھے۔ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ان کے مذکورہ تبلیغی مشن کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرنے والے اعوان صاحب بالآخر فلمی سٹوڈیو میں براجمان ہوں تو کیا یہ شرعی اعتبار سے درست ہے؟ ایک شخص سال کی تمام راتوں میں زہد و عبادات میں مشغول رہتا ہے ۔ بالآخر سال کی آخری رات وہ میخانے میں ’’شب بسری‘‘ فرماتا ہے تو کیا اس کی گزشتہ نیکیوں کو مے خانہ میں فروکش ہونے کے لئے جواز بنایا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بالکل یہی معاملہ اعوان صاحب کے واقعہ کا بھی ہے۔
مولانااعوان صاحب اور ان کے غالی عقیدت مند دوسروں کو مرعوب کرنے کے لئے تواتر سے تذکرہ کرتے رہتے ہیں کہ دو لاکھ افراد نے اعوان صاحب کے ہاتھ پر موت کی بیعت کی ہے۔ اس کا اصل مقصد دوسروں کو مرعوب و متاثر کرنا ہے۔ ایک میگزین کے مدیر صاحب نے راقم الحروف کو بتایا کہ آج سے سات آٹھ ماہ قبل ان کے رسالہ میں مولانا اعوان صاحب کے کسی بیان پر مختصر تنقیدی نوٹ شائع ہوا تو اعوان صاحب کے عقیدت مندوں کی طرف سے دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بعض نے تویہاں تک دھمکی دی کہ آپ اس کی تردید چھاپیں ورنہ آپ کا وجود مٹا دیا جائے گا۔ کیا یہی وہ ’’روحانیت‘‘ اور ’’تصوف‘‘ ہے جس کے لئے اعوان صاحب لوگوں کو بیعت کر رہے ہیں؟
اپنی مخالفت میں کوئی بات سن یا پڑھ کر ’’تشدد‘‘ پر آمادہ ہونا کیسا سلسلہ اویسیہ کی تعلیمات کا حصہ ہے؟ اگر دو لاکھ افراد نے ان کے ہاتھ پر موت کی بیعت کی ہے تو پھر عرصہ دراز سے وہ کس بات کا انتظار کر رہے ہیں؟ نفاذ ِشریعت کے لئے تحریک کیوں نہیں چلاتے؟ اپنے مخالفین کو اس طرح کی دھمکیاں دینے میں وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں؟
آخر میں ہم محمد شفیع اویسی صاحب او راعوان صاحب کے دیگر ارادت مندوں سے نہایت ادب سے گزارش کریں گے کہ جب وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ’’انسانوں میں معصوم عن الخطاء صرف انبیاء کرام ہیں‘‘ تو پھر وہ اپنے پیرومرشد مولانا اکرم اعوان صاحب کے ایک غیر شرعی فعل کا جذباتی دفاع پیش کرنے کی بجائے ان سے درخواست کریں کہ یا تو وہ خود قرآن و سنت سے اس کا جواز ثابت کریں یا پھر برملا اعتراف کریں کہ فلمی سٹوڈیو میں ان کا جانا ’’غیرمناسب‘‘ تھا۔ کسی بھی مسلمان کو درست قرار دینے کے لئے واحد معیار قرآن و سنت ہی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یا رب نہ وہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے میر ی بات

محمد عطاء اللہ صدیقی
جب سے راقم الحروف نے مولانا اکرم اعوان صاحب کی فلمی سٹوڈیو میں جا کر اداکارہ انجمن کی ’’عزت افزائی‘‘ او رفلمی صنعت کی ’’حوصلہ افزائی‘‘ کے متعلق اپنی معروضات پیش کی ہیں ، وہ اعوان صاحب اوران کے مریدانِ باصفا کے ’’التفات ِخصوصی ‘‘کے زیر بار ِاحساں ہے۔ مولانا اعوان صاحب کے ایک مرید محمدشفیع اویسی صاحب نے مذکورہ ’’جسارت‘‘ کے بعد جو ’’فردِ جر م‘‘ راقم خاکسار پر عائد کی تھی، اس کی نشاندہی گذشتہ کالم میںکی گئی تھی ۔لیجئے اب ان کے ایک اور مرید وقار مصطفی صاحب نے راقم کے متعلق مزید ’’تشخیص ‘‘ فرماتے ہوئے فتویٰ صادر فرمایا ہے :
’’چند روز قبل ’’خبریں‘‘ میں عطاء اللہ صدیقی صاحب کاکالم بنام مولانا محمد اکرم اعوان پڑھا۔ ان کے سیاق وسباق کا تو علم نہیں ہے ، مضمون پڑھ کر اتنا احساس تو ضرور ہو رہا ہے کہ وہ کافی تنگ نظر سوچ رکھنے والی شخصیت ہیں ، کم علم مولوی کی طرح جو صرف اپنے مفاد کے لیے دین کی غلط تاویلات کر کے علاقہ کے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اپنی بادشاہی قائم کر لیتا ہے ‘‘(خبریں ،۱۱؍جون )
قارئین ! ذرا غور فرمائیے راقم کو ’’تنگ نظری‘‘ کا مرتکب محض اس بنا پر ٹھہرایاگیا ہے کہ وہ اس وسیع المشربی ، وسعت ظرفی اورکشادہ دلی کواسلامی شریعت کی روشنی میں قابل قبول سمجھنے میں تامل کاشکار ہے کہ جو بازاری عورتوں کی محفلوں میں جلوہ افروزی میں کسی قسم کی قباحت محسوس نہ کرتی ہو۔ موصوف کی ’’تنگ نظری ‘‘ کی اس لغو تعریف پر اعتبار کیا جائے تو کوئی بھی شخص اپنے آپ کو وسعت ِظرفی کاحامل نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ وہ کسی بازاری عورت کے ’’عشرت کدے‘‘ یا فلمی سٹوڈیو میں کسی تقریب میں بنفس نفیس شریک نہ ہو ۔ایسی وسیع المشربی جواسلامی اخلاقیات کی دھجیاں اڑا دینے کاباعث ہو ، راقم کے نزدیک پائے حقارت سے ٹھکرا دینے کے قابل ہے مگر ان نام نہاد حاملانِ طریقت کے نزدیک شایدیہ سو چ تنگ نظری پر مبنی ہے ۔وقار مصطفی صاحب نے اپنی اس من چاہی تشخیص کے بعد راقم کو ’’کم علم مولوی‘‘ سمجھتے ہوئے اس پر اس بے بنیاد الزام تراشی کو بھی روا رکھا کہ وہ ’’دین کی غلط تاویلات‘‘ کا مرتکب ہے۔ موصوف نے البتہ یہ نشاندہی نہیں فرمائی کہ آخر دین حق کاوہ کونسا حکم ہے جس کے متعلق راقم نے غلط تاویل پیش کی ہے ۔ ایک فلمی اداکارہ کی تقریب میں شرکت پر اعتراض کواگر وہ ’’دین کی غلط تاویل‘‘ کا نام دے رہے ہیں تو ان کے دینی افلاس پر جس قدر بھی ماتم کیاجائے، کم ہے ۔
راقم الحروف نہ تو درسِ نظامی کا فارغ التحصیل ہے نہ ہی اسے دینی سکالرہونے کا دعویٰ ہے ۔ وہ بقول علامہ اقبال نہ تو ’’ابلۂ مسجد‘‘ ہے نہ ہی ’’تہذیب کا فرزند‘‘ ہے ۔ البتہ وہ قرآن وسنت پر مبنی تعلیمات کاایک طالب علم ضرور ہے ، اس کی نگاہ سے قابل ذکرقدیم وجدید فقہا کرام کی آراء گزاری ہیںاور وہ اسلام کی آفاقی تعلیمات کو عصری تقاضوں کی روشنی میں سمجھنے کی بھر پور کوشش کرتار ہا ہے اور اس کے نزدیک اسلامی علوم کسی مخصوص طبقہ کی میراث نہیں ہیں۔ جس مسئلہ کے متعلق راقم الحروف نے مولانا اکرم اعوان پر اعتراضات وارد کیے ہیں اس کیلئے کسی گہرے غور وفکر اوراستنباط کی بھی ضرورت نہیں ہے ، دین کامعمولی سا فہم رکھنے والا شخص بھی فلمی سٹوڈیوز اور زنان بازاری کی مجالس میں جانے کو غیر شرعی اورمکروہ فعل قرار دے گا۔ راقم نے اس موضوع پر چند ثقہ علمائے دین سے بھی تبادلہ خیال کیا ہے،کسی نے بھی اعوان صاحب کے طرزِ عمل کو شریعت کے مطابق قرار نہیں دیا۔وقار مصطفی صاحب جس روشن خیالی اور وسعت ظرفی کی تبلیغ فرما رہے ہیں ، اس کا منبع ومصدر ان کی یا ان کے پیرو مرشد کی خانہ زاد طریقت تو ہو سکتی ہے ، اسلامی شریعت ہرگز نہیں ہے ۔ انہیں یہ ’’وسعت ِظرفی ‘‘ مبارک ہو ، البتہ دو سروں کووہ اس معاملے میں معاف رکھیں۔ ایسی ’’تنگ نظری‘‘ پر اس روشن خیالی کی ہزاروں صورتیں قربان کی جاسکتی ہیں جس میں شعائر ِاسلامی کی توہین اورمخالفت کاپہلو نکلتا ہو۔
اپنے پیرو مرشد کادفاع کرنے والے وقار مصطفی صاحب نے حضرت معین الدین چشتی اجمیری ؒ ، حضر ت نظام الدین اولیاء اور سائیں توکل شاہؒ جیسے صوفیائے کرام کی خدمات کاذکر کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’’یہ بزرگ تھے ، جنہوں نے ان لوگوں تک رسائی کی جو نہ صرف مسجد سے باہر تھے بلکہ مجسمہ برائی تھے ۔‘‘…مذکورہ صوفیاء کرام اورمولانا اکرم اعوان صاحب کے طرز ِتبلیغ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان عظیم اور مقدس ہستیوں کے حالات میں کہیں مذکور نہیں ہے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کے لئے طوائفوں اور پیشہ وَر رنڈیوں کے بالا خانوں تک گئے تھے او رنہ ہی ’’ان لوگوں‘‘ کی فہرست میں یہ بازاری طبقہ شامل تھا۔ وہ کبھی ان کے پاس چل کر نہ گئے ، ہاں البتہ بعض صوفیاء کے دولت کدوں پر اگر کبھی کوئی طوائف نذر ونیاز دینے آئی تو انہوں نے اسے منع نہیں کیا ۔ جیسا کہ وقار مصطفی صاحب نے بھی لکھا ہے کہ وہ ان لوگوں کو ’’مجسمہ برائی ‘‘ سمجھتے تھے ۔لیکن اکرم اعوان صاحب کامعاملہ مختلف ہے ۔ وہ اگرفلمی اداکاراؤں کو’’مجسمہ ٔ برائی ‘‘سمجھتے توانجمن انہیں اپنی تقریب میں شریک ہونے کی دعوت کبھی نہ دیتی۔ اعوان صاحب تو فلمی صنعت کو ’’مجسمہ ٔ برائی ‘‘ سمجھنے کی بجائے ’’لائق مبارک باد‘‘ سمجھتے ہیں۔ جب اعوان صاحب کے خیالات یہ ہیں تو پھر نجانے ان کے اَن تھک مداح دور ازکار تاویلات پیش کر کے صریحاً غلط استنباط فرماتے اور نتائج کیوں نکالتے ہیں ؟ بقول غالب
یا رب نہ وہ سمجھے ہیں ،نہ سمجھیں گے میری بات دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اَور​
وقار مصطفی صاحب نے راقم الحروف کوایک ایسی ہستی سے ملاقات کرانے کی دعوت دی ہے جو بازار ِحسن میں پیشہ ور رنڈیوں سے دس فیصد وصول کرتی ہے اور بعد میں انہیں اپنے ’’حسن‘‘ کے صدقے کے طور پر دو نفلی نماز پڑھنے کی تلقین کرتی ہے ، وقار صاحب کے بقول یہ ہستی کئی طوائفوں کے نکاح کرا کے انہیں شریفوں کی بستی میں آباد کر چکی ہے۔
راقم الحروف کے نزدیک مذکورہ ہستی کے مقاصد تونیک ہیں لیکن ان مقاصد کے حصول کے لیے جو طریقہ تبلیغ اوراسلوب انہوں نے اپنایا ہے وہ قرآن وسنت اور شریعت ِمطہرہ کی روح کے منافی ہے ۔خداوند قدوس کے نزدیک مقبول ومحبوب صرف وہی عمل ہے جو سنت ِمبارکہ کے مطابق کیا جائے ۔ ایک شخص اگر جوش عبادت میں نماز فجر کے دو فرض کی بجائے تین فرض پڑھ ڈالتا ہے تو اس کی تمام نماز اکارت جائے گی۔ صحابہ کرام اورحق پرست صوفیاء ِکرام کا دعوت دینے کا یہ طریقہ ہرگز نہیں تھا۔ صحابہ کرام اوراولیاء کرام نے ایسے لوگوں کو دین کی دعوت دی تھی، جو کافر تھے اورجن تک دین حق کے پہنچانے کا اتمامِ حجت نہیں ہوا تھا۔ لاہور جیسے بازارِ حسن کی طوائفیں ’’مسلمان‘‘ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان تک اتمامِ حجت بھی پورا کیا جا چکا ہے ۔ ممکن ہے چند ایک باباجی کی تبلیغ سے متاثر ہو کر نیکی کی راہ اختیار کر چکی ہوں لیکن اکثریت ایسی تبلیغ سے متاثر نہیں ہوئی۔ خود اداکارہ انجمن نے حال ہی میں ایک انٹرویو میںمذہب سے اپنی ’’وابستگی‘‘ کاثبوت دینے کے لیے کہا کہ اس نے ایک حج اور چھ عمرے کیے ہوئے ہیں (۲۳ ؍مئی ۔نوائے وقت)مگر ایک حج اور چھ عمرے کرنے کے بعد بھی وہ اداکاری جیسے مکروہ پیشہ سے اب تک وابستہ ہے۔ لہذا وسیع پیمانے پراصلاح احوال کے لیے باباجی کے دو نفل پڑھانے کی حکمت ِعملی زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی۔ اگر اسلامی شریعت اوراس کی حدود کا صحیح معنوں میں نفاذ عمل لا یا جائے تواس سے کئی گنا زیادہ طوائفیں اس دھند ے کو چھوڑ کر نیکی کی راہ اپنائیں گی۔طوائفوں کے بالاخانے اورکوٹھے محض اس بنا پر آباد ہیں کہ ان میں زنا کے مرتکب افراد کو قانون کی گرفت میں نہیں لا یا جاتا، مزید یہ کہ وہاں آنے والی ’’ٹریفک‘‘ کا راستہ مؤثر طریقہ سے بند نہیں کیا گیا ۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست پاکستان میں طوائفوں کو رقص وسرود کی محفلیں جمانے کے لیے لائسنس مہیا کیے جاتے ہیں۔ رقص کی اجازت کو عام طور پر جسم فروشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔
ہمارے ہاں طوائفوں سے ہمدردی کابھی ایک غلط رجحان پایا جاتا ہے ۔ جب بھی ان پر ہاتھ ڈالنے کی بات کی جاتی ہے ، سیاستدانوں ،صحافیوں اور سیکولر افراد پر مبنی ایک طبقہ فورا ً ان کی حمایت میں بیان بازی شروع کر دیتا ہے ۔بااثر اورمتمول طبقہ نے اپنی جنسی ہوسناکی کی تسکین کے لیے قحبہ گری کو تحفظ عطا کر رکھا ہے ۔ اگر حکومت چاہے تو مرحلہ وار یا یک بارگی اس لعنت کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔ روس میں ۱۹۱۷ء میں اشتراکی انقلاب کے بعد قحبہ گری کوغیر قانونی قرار دے کر اس کاخاتمہ کر دیاگیا تھا۔ پاکستان میں ۱۹۵۶ء ،۱۹۶۲ء اور اب ۱۹۷۳ء کے آئین (آرٹیکل ۳۷۔بی)میں جسم فروشی کے انسداد کے لیے اقدامات اٹھانے کی تاکید ملتی ہے ۔ لیکن اس اہم سماجی برائی کے خاتمہ کے لیے آج تک سنجیدہ کو ششیں بروئے کار نہیں لائی گئیں۔ ’’بازار ِحسن‘‘ جیسے علاقے فلمی صنعت کی نرسریاں ہیں ۔ فلموں میںکام کرنے والی اکثر عورتوں کا تعلق بھی ’’اُس بازار ‘‘سے ہے ۔مولانا اکرم اعوان صاحب کو چاہیے کہ وہ قحبہ گری کے خاتمے کے لیے مؤثر تحریک چلائیں ۔ اس ملعون پیشے میںملوث افراد کسی قسم کی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔ یہ اس معاشرے کا ناسور ہیں جس کو سماج کے جسد ِاجتماعی سے کاٹ پھینکنا انتہائی ضروری ہے ۔ ان کی ’’عزت افزائی ‘‘ کی بجائے ان کی بیخ کنی کی جانی چاہیے ۔
جناب وقار مصطفی صاحب راقم کو مخاطب کرتے ہوئے قلم طراز ہیں ۔’’ آپ نے اگر ترکی میں رفا ہ پارٹی کی حکمت ِعملی اوردعوت و تبلیغ پر نظر دوڑائی ہوتی تو پھر کبھی اعتراض نہ کرتے … اس کے افراد اپنی دعوت وپروگرام لے کر قحبہ خانوں ،شراب خانوں ، اور نائٹ کلبوں میں پہنچ گئے اوران کی اس حکمت ِعملی نے کام دکھایا۔ اگر وہ اس انداز میں کام کرتے رہے تو آئندہ چند سال میں سیکو لرترکی، اسلامی ترکی ہوگا‘‘
حضور ! آپ تو صرف ’’نظر دوڑانے ‘‘کا تقاضا کرتے ہیں ، راقم نے ترکی سمیت اسلامی دنیا میں اسلام کی نشاۃ ِثانیہ کی علمبردار تمام تحریکوں کا بنظر غائر مطالعہ کیا ہے اوران تحریکوں کے حالاتِ حاضرہ بھی اس کی نگاہ سے پو شیدہ نہیں ہیں۔ ۱۹۸۹ء میں جب نجم الدین اربکان لاہورتشریف لائے تھے تو ان کے خیالات سننے اور ان سے بالمشافہ ملاقات کاموقع بھی راقم کو ملاہے ۔گذشتہ چند برسوں میں انگریزی زبان میں ترکی کی سیاسی حرکیات (Political Dynamics)پرچند معیاری کتب بھی اس کی نگارہ سے گزری ہیں۔ اس سے کے باوجود آپ نے رفاہ پارٹی کی کامیابیوں کا جو ’’راز‘‘ واشگاف فرمایا ہے ،اس سے راقم کو قطعا اتفاق نہیں ہے ۔رفاہ پارٹی کی دعوت وتبلیغ کے اسلوب کو پاکستان کی کسی جماعت سے اگر مشابہ قرار دیا جاسکتا ہے ،تو وہ صر ف جماعت اسلامی ہے ۔ قحبہ خانوں ،نائٹ کلبوں سے وابستہ لادین عناصر نے تو رفاہ پارٹی کی زبردست مخالفت کی ہے ، آپ اس کے برعکس نتیجہ نکال رہے ہیں۔ اگر آپ کا تجزیہ درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ …ترکی میں رفاہ پارٹی کی دعوت سے متاثر ہوکر قحبہ خانے ، ناچ گھر ، اورنائٹ کلب بند کیے جاچکے ہیں ۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور پھر یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس غلیظ دھندے میں ملوث طبقہ کا تناسب کیا ہے ؟ زیادہ سے زیادہ دو فیصد، وہ بھی شاید مبالغہ ہو! اتنی قلیل تعداد نے آخر کس طرح ’’کام کر دکھایا ‘‘؟ وقار مصطفی صاحب دلیل پیش فرمانے سے پہلے ذرا عقل عام Common Senceکا استعمال کرتے تو انہیں اپنی اس ’’روشن‘‘ دلیل کی پیشکش پر خود ہی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔
ایک ثقہ بزرگ کی روایت کے مطابق مولانا اکرم اعوان صاحب اپنے آپ کواپنے خطبات میں دور ِحاضر کا ’’قطب‘‘ قرار دے چکے ہیں غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے غیر شرعی عمل کی تائید میں حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ اورحضرت نظام الدین اولیاء ؒکی حیات ِطیبہ سے منتخب واقعات بیان کرتے ہیں ۔اگر فی الواقع اعوان صاحب طویل روحانی ریاضتوں اور گہرے غور وفکر کے بعد اپنے آپ کو ’’قطب ِعالم‘‘ کے درجہ پر فائز سمجھتے ہیں ، تو یہ محض ان کی جانب سے موضوعی خویش پیمائی Self evaluationکہی جاسکتی ہے ۔حقائق شاید وہ نہیں ہیں جو وہ سمجھتے ہیں ۔
درحقیقت مذکورہ بالا اولیائے کرام ؒ اور ان کے احوال وظروف میں بُعد المشرقین ہے ۔مولانا اعوان صاحب کی زندگی کا جنہوں نے قریبی مشاہدہ کیا ہے ، وہ اس بات کی صداقت پر سر تسلیم خم کریں گے کہ اعوان صاحب کا رہن سہن بے حد امیرانہ ہے ۔ وہ نہایت قیمتی گاڑیوں میں سفر فرماتے ہیں اور ان گاڑیوں میں فریج بھی رکھی جاتی ہیں ۔ اعوان صاحب جہاں خطاب کرنے تشریف لے جاتے ہیں ، ان کے سینکڑوں مریدین ’’ہٹو ،بچو‘‘ کی کاروائیوں سے ان کی سیکورٹی کا اہتمام کرتے ہیں ۔ او رجس عمارت کو ان کے مکان ہونے کا ’’شرف ‘‘ حاصل ہے، اسے بلا مبالغہ ایک خوبصورت بنگلہ ہی کہا جاسکتا ہے ۔ہمیں ان کے اس پر تعیش رہن سہن پر اصولی طور پر کوئی اعتراض نہیں ہے، البتہ ہمیں ان کے اس طرز ِحیات کی بنا پر ان کے اور مذکورہ بالا صوفیائے کرام کے طرزِ زندگی میں کسی قسم کی مماثلت کوتسلیم کرنے میں تامل ہے ۔یہ بات نہیں ہے کہ ان حضرات صوفیا کرام کو دنیاوی زندگی کی ان آسائشوں کے حصول میں کسی قسم کی دِقت کا سامنا تھا۔ان کے چشم ابرو کے ایک ہی اشارے پر ان کے ثروت مند مرید دولت وسکوں کی بوریاں ان کے قدموں پر نچھاور کر دیتے ۔ انہیں کئی مرتبہ اہل اقتدار اور سلاطین کی طرف سے لاکھوں دینار کے عطیہ جات بھی پیش کیے گئے مگر ان کے فقر غیو ر نے ان نوازشات سے بھر پور تمتع فرمانے کی بجائے بے حد سادہ او رتکلفات سے عاری طرز ِحیات کو ترجیح دی۔
عجمی تصوف کے عاملین کا یہ اسلوب رہا ہے کہ وہ اپنے ناقدین کو ’’ پارسائی‘‘ کا طعنہ دے کر انہیں ظاہر پسند ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وقار مصطفی صاحب لکھتے ہیں :’’انہی پارسا لوگوں سے ہی وہ بستی (بازار ِحسن) بھی آباد ہے جو اپنی پارسائی پر پردہ ڈال کر وہاں جاتے ہیں، پارسائی کو دفن کرکے واپس آتے ہیں چونکہ پردہ میں ہوتے ہیں اسی لئے منظر عام پر نہیں آتے ۔ وہاں جو بھی بے پردہ جائے گاوہ اسی معاشرے کے پارساؤں کی زد میں ہوگا، محمد اکرم اعوان کی طرح‘‘…تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ وہ بستی ’’پارسائوں ‘‘کی وجہ سے آبادنہیں ہے،اس کے اصل آباد کار شہوت پرست، جنسی باؤلا پن کا شکار اور فحاشی کے دلدادہ افراد ہیں۔ صحیح معنوں میں اگر کوئی پارسا ہے تو وہ وہاں جا ہی نہیں سکتا۔دوسری بات یہ ہے کہ کوئی وہاں ’’پردہ ‘‘ میں جائے یا ’’بے پردہ‘‘ ہوکر ، دونوں اعتبار سے ان کا وہاں جاناقابل مذمت ہے جو ’’پردہ میں ‘‘ جاتے ہیں وہ بھی عالم الغیب کی نگاہ سے بچے ہوئے نہیں ہیں…بقول غالبؔ ع جس کو ہودین ودل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟
مولانا اعوان صاحب اور ان کے مریدین غالبا ًراقم الحروف کو ایک ایسا ’’طفل مکتب ‘‘ سمجھتے ہیں جوصوفیاء کرام کے حالات ِزندگی سے قطعا ًناواقف ہے تو اس سلسلے میں اپنے منہ میاں مٹھو بننے کے نفسیاتی مرض سے پناہ مانگتے ہوئے محض ذاتی وضاحت اور تحدیث ِنعمت کی غر ض سے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ راقم الحروف نے تصوف کی تقریبا تمام معروف کتب مثلاً شیخ کبیر ابن عربی ؒکی ’’فصوص الحکم ‘‘، حضرت علی ہجویری المعروف داتاگنج بخش ؒ کی کشف المحجوب، علامہ قشیری کا رسالہ قشیریہ، حضرت شہاب الدین سہردردیؒ کی ’’قوت القلوب‘‘ وغیرہ کا مطالعہ کیا ہے ۔ اس کے علاوہ برصغیر میں صوفیا کرام کے معروف سلسلوں قادریہ ،چشتیہ ، سہروردیہ اورنقشبندیہ کے نظریات اوران کی سرگرمیاں بھی اس کی نگاہ سے گزری ہیں ، اس موضوع پر عجم دہند اوریونان ومغرب کی مافوق الطبیعاتی روایات بھی راقم کی ایک خاص دور میں توجہ کامحور ومرکز رہی ہیں۔ اسے راقم الحروف کی بدقسمتی کہیے یا کچھ اور کہ اسے مولانااعوان صاحب کے عمل کی تائید کہیں سے بھی میسر نہیں آئی۔
یہاں یہ وضاحت بھی مفید معلوم ہوتی ہے کہ کسی صوفی کاکوئی غیر شرعی فعل قابل پذیرائی یاقابل تقلید نہیں ہے جس کی تائید قرآن وسنت سے نہ ہوتی ہو ۔ حضرت داتاگنج بخش ؒ نے ’’کشف المحجوب‘‘ میں ایسے درجنوں صوفیاء کے گروہوں کانام لیکر ذکر کیا ہے جوگمراہی کے راستہ پر چل پڑے تھے ۔ انہوں نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ شریعت سے متصادم کسی راہ ِطریقت کی کوئی وقعت نہیں ہے ۔ گذشتہ دنوں روزنامہ ’دن‘ میں انجمن اوراس کے خاوند مبین ملک کاانٹرویو شائع ہوا تھا۔اس میں مبین ملک نے کہا تھا کہ ’’مولانا اکرم اعوان صاحب ان کے گھر آتے جاتے رہتے ہیں، وہ انجمن کو اپنی بیٹی کی عزت دیتے ہیں‘‘…
یاد رہے انجمن اپنے ایک انٹرویو میں اعوان صاحب کو’’فیملی فرینڈ‘‘قراردے چکی ہے۔
انجمن اوراس کے خاوند کی طرف سے یہ انکشاف اسلام پسندوں کیلئے مزید روح فرسا تھا ۔ ایک فلمی اداکارہ کو ’’بیٹی‘‘ بنا کر اس سے ملاقاتوں کا سلسلہ قائم رکھنا آخر اسلامی شریعت کے کس حکم کی رو سے جائز قرار دیاجاسکتا ہے ؟اسلام میں جو پردہ کے احکامات ہیں ، ان کی یہ صریحا ًخلاف ورزی ہے ۔کسی غیر محرم عورت کواس طرح کی جعلی ’’بیٹی‘‘، ’’بہن‘‘ یا ’’بھابھی‘‘ وغیرہ بنانا بھی اسلامی تعلیمات کی روسے درست نہیں ہے ، اس پر واضح احادیث موجود ہیں۔ اپنے ناقدین پر ’’تنگ نظری‘‘ اور ’’کم علم مولوی‘‘ کاالزام لگانے والی ان ’’وسیع الظرف‘‘ اور اسلامی علوم کی ’’بحر ذخار ‘‘شخصیات سے ہم یہ درخواست کرتے ہیںکہ وہ اپنے بحرعلوم سے غواصی فرماتے ہوئے ایک بھی علم کا موتی نکال کے لائیں جو انکے طرز ِعمل کو ’’شرعی ‘‘ یا’’مناسب ‘‘ قرار دینے کیلئے بطور ِجواز کے استعمال میں لایاجاسکے ۔
آخر میں یہ نشان دہی بھی دلچسپی کی حامل ہے کہ وقار مصطفی صاحب اور مولانا اعوان کی تحریر اور اسلوب میں اس قدر مماثلت ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اصل مصنف اعوان صاحب ہی ہیں۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وقار صاحب ’’فنا فی الشیخ‘‘ کی منزل پر پہنچے ہوئے ہیں کہ ان کی تحریر میں بھی شیخ کا عکس اور پرتو ہے۔ ان کے اور اعوان صاحب کے درمیان ’’تو من شدم تو من شدی‘‘ والا معاملہ لگتاہے۔
 

bismillah

رکن
شمولیت
اکتوبر 10، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
225
پوائنٹ
58
یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ راقم الحروف نے تصوف کی تقریبا تمام معروف کتب مثلاً شیخ کبیر ابن عربی ؒکی ’’فصوص الحکم
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ابن عربی رھ=حمہ اللہ تھآ ؟
 

minhaaj

مبتدی
شمولیت
مارچ 31، 2017
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
مولانا اکر م اعوان کی نرالی منطق…چند معروضات

محمد عطاء اللہ صدیقی
اداکارہ انجمن کے ’اعزاز‘ میں منعقدہ تقریب میں تنظیم الاخوان کے امیر مولانا محمد اکرم اعوان صاحب کی شرکت کے حوالے سے راقم الحروف کی ناقدانہ معروضات اورردّ عمل ۲۴؍ اپریل کے روزنامہ ’’خبریں‘‘ میں شائع ہوا۔ جس کے جواب میں جناب محترم اعوان صاحب کا موقف ’’خبریں‘‘ کی ۳۰ ؍اپریل کی اشاعت میں شائع ہے ۔ اپنے موقف میں راقم کی طرف سے اٹھائے گئے اصولی اعتراضات کے متعلق شرعی رائے کے اظہار کی بجائے انہوں نے خلط ِمبحث ، متناقض تاویلات اور بڑی حدتک جواباً شخصی الزامات اور ’مذمت‘کے پیرائے کو اختیار فرمایا ہے ۔راقم الحروف کسی بحث وجدل اورغیر ضروری مناقشت کو پسند نہیں کرتا لیکن مولانا صاحب کی جارحانہ گرفت پرسکوت اختیار کرنے کا واضح مطلب یہی ہو گا کہ ان کے بے جا الزامات کی صداقت کوتسلیم کر لیا گیا ہے ۔ مزید برآں اگر مسئلہ محض راقم کی کردا رکشی تک محدود ہوتا تواسے در خور ِاعتنا نہ سمجھ کر نظر انداز کیا جاسکتا تھا۔ لیکن یہاں تو صورت یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے بنیادی اصول ،سماجی اقدار ، او رصحافت کا پیشہ بھی مولانا اعوان صاحب کے جلالی الزامات کی زد میں ہیں۔ چونکہ مسئلہ افراد کا نہیں بلکہ اصولوں کا ہے، اسی لیے اس کے متعلق ابہام کو رفع کرنا اشد ضروری ہے …راقم الحروف نے جو معروضات پیش کی تھیں، اس کے اہم نکات یہ ہیں:
مندرجہ بالا کسی ایک نقطہ کی شریعت ِمطہرہ کی روشنی میں وضاحت اوراس کے بارے میں قارئین کی راہنمائی سرانجام دینے کی بجائے انہوں نے محض بے ربط اوربے نقط الزام تراشی پر اکتفا کرنا ہی مناسب سمجھا۔مناسب معلوم ہوتاہے کہ مولانا اکرم اعوان صاحب کے ارشادات کی حقیقت کو واضح کیا جائے …اس کے بعد معاملہ قارئین پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ خود ہی فیصلہ کریں کہ ان کی با ت میں کس قدر وزن ہے؟
(۱) مولانا اعوان صاحب تحریر فرماتے ہیں: ’’آپ نے درست نہیں لکھا ۔ آپ نے محض ایک اخبار میں چھپے ہوئے کو بنیاد بنایا جو اپنے ہی ملک کااخبار ہے اور اپنی مرضی کا مالک ہے …ضروری نہیں کہ درست ہی لکھے‘‘
قارئین کرام! راقم الحروف نے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ جیسے مؤقر روزنامے میں شائع شدہ خبر کے متن کی بنیاد پر اپنی معروضات پیش کی تھیں۔ ۱۳ ؍اپریل کو ان کے متعلق خبر شائع ہوئی تھی اور ۲۴؍اپریل کو خبریں میں راقم کے مضمون کی اشاعت تک مولانا اعوان صاحب کی طرف سے اس اہم خبر کے متعلق کسی قسم کی تردید شائع نہ ہوئی ۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے جس مضمون میں مذکورہ شکوک وشبہات تحریر کرتے ہیں، اسی میں اس خبر کی تائید بھی کرتے ہیں ۔ اپنے موقف کی وضاحت میں انہوں نے نہ تواس بات کی تردید کی کہ وہ انجمن کی تقریب میں شریک نہ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے خبر کے کسی حصہ کی خاص طور پر صحت سے انکار کیا ۔ اس کے باوجود انہیں گلہ ہے کہ ان کے خلاف مضمون ’’محض ایک اخبار‘‘ کی خبر کی بنیاد پر شائع کیاگیا ہے ۔ راقم الحروف نے ان کے اس بیان کو کہ فلمی صنعت کی کارکردگی قابل تحسین ہے، تنقید کا نشانہ بنایا تھا ، اب وہ خود ہی لکھ رہے ہیں ’’مفہوم یہی تھا کہ آپ لوگوں نے جن حالات میں غیر ملکی فلم انڈسٹری کامقابلہ کیا ہے ، وہ واقعی مبارک کے لائق ہے ‘‘ انہوں نے اپنے بیان میں پاکستان کے اردو اخبارات کے بارے میں بھی یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ قابل اعتماد نہیں ہیں او ریہ بات فراموش کر گئے کہ ان کے حق میں خبریں بھی انہی اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔
۲۔ مولانا اکرم اعوان صاحب کا دوسرا ارشاد ملاحظہ ہو ! ’’آپ کا ارشاد ہے کہ ممکن ہے مولانا اکر م اعوان اپنی اس حرکت کا دفاع کریں؟ ماشاء اللہ کس سے دفاع ؟آپ سے یا آپ جیسے ان سب لوگوں سے جو ہر ظلم میں برابر کے شریک ہیں؟
راقم الحروف کی مولانا سے عقیدت مندی محض غائبانہ تعارف پر مبنی تھی ،ان سے ذاتی شناسائی کا تعلق ہرگز نہیں ہے ۔ بعض اہل دانش وتدبر کی ان کے بارے میں عقیدت سے درحقیقت متاثر ہو کر راقم بھی ان کامعتقد ہو گیاتھا ۔ کسی قسم کی جان پہچان کے بغیر مولانااعوان صاحب راقم الحروف کو ہر طرح کے ظلم میں برابر کاشریک سمجھتے ہیں ۔ اسلامی شریعت میں تو اس سوئے ظن کا کوئی جواز نہیں ہے شاید ان کی خانہ ساز طریقت میں اس کا جواز پایا جاتا ہو۔
(۳) راقم ،مولانا کے درج ذیل ارشادات کا سیاق وسباق سمجھے سے قاصر ہے …فرماتے ہیں !
’’آپ کو توصرف میری ذا ت میں کفر نظر آیا ، مگر کسی ظالم کے خلاف کسی مظلوم کے حق میں نہ آپ کی نظر اٹھی اور نہ کوئی نقطہ نظر سامنے آیا ۔سینکڑوں لوگ جل مرے، لاکھوں قتل ہوئے ،ہورہے ہیں ،سینکڑوں نئے شراب خانہ کھل گئے۔ پورا معاشی نظام سو د پر چل رہا ہے۔ آپ بھی نوشِ جان فرمار رہے ہیں ۔ ہوٹلوں میں لڑکیاں سپلائی ہورہی تھی… مگر آپ کے لیے سوچنے کاکوئی نکتہ نہ بن سکا ۔‘‘
مولانا اعوان صاحب جس جذباتی اعصاب زدگی میں الزامات کی یہ بوچھاڑ کر رہے ہیں، اس کے بارے میں بجاطور پر کہا جاسکتا ہے … ع
دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں​
موصوف نے یہ فرض کر لیا ہے کہ راقم الحروف ان تمام جرائم کی طویل فہرست میں اعانت کا مرتکب ہے او ر ظلم کی یہ تمام صورتیں اس نے خوش دلی سے قبو ل کر لیں ہے۔ البتہ مولانا اکرم صاحب کی انجمن کی تقریب میں شرکت کے جرم کومعاف نہیں کر سکا۔انہیں اس سے غرض نہیں ہے کہ راقم کاان جرائم کے بار ے میں آج تک کیا ردّعمل رہا ہے ،وہ تو مدعی بھی خود ہیں او منصف بھی خودبن بیٹھے ہیں۔ شاید وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جس ملک میں قتل وغارت اور سود کا کاروبار ہورہا ہو وہاں فلمی عورتوں کی مجلس میں جلوہ افروز ہوناکوئی بہت بڑی بات نہیں ہے ۔ لیکن سیدھے بھاؤ یہ بات کرنے کی بجائے انہوں نے مذکورہ جذباتی فرد ِجرم عائد کرنا گوارا کیا ہے ۔ وہ تقاضا کر رہے ہیں کہ ان کی کسی بات پراعتراض وارد کرنے سے پہلے اشد ضروری ہے کہ مذکورہ جرام کے خلاف لکھے گئے مضامین کاانبار پیش کیا جائے ورنہ ان پر تنقید کاحق باقی نہیں رہتا ۔ اس پوری منطق کوکوئی شخص بقائمی ہوش وحواس قبول کر سکتا ہے ؟ اس کا فیصلہ قارئین کرام خود فرمائیں۔
(۴) مولانا اکرم صاحب کے موقف میں پیش کردہ سب سے قابل اعتراض اورفتنہ انگیز بات یہ ہے کہ :
’’آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ انجمن گذشتہ اٹھارہ سال سے ایک شریف آدمی کی بیوی ہے اورایک شریف خاندان کی بہو بھی ہے ۔کاش آپ کی زبان کو بھی یہ سب کچھ کہتے ہوئے خیال ہوتا۔ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ قبولِ اسلام کے وقت مکہ مکرمہ میں عورتیں پیشہ کرتی تھیں۔ کیا اسلام نے انہیں قبول نہیں کیا؟ کیا رحمت ِعالم ﷺ صرف آپ جیسے پارساؤں کے لیے مبعوث ہوئے تھے ؟ کیا گنہگارکے لیے کوئی اوردروازہ ہے ۔‘‘

(ب) مندرجہ بالا اقتباس کے دوسر ے حصے میں مولانا اکر م صاحب نے اپنے قابل اعتراض عمل کو حضورِ اکر م ﷺ۔ کی سنت ِمبارکہ سے تشبیہ دینے کی جسارت کی ہے ۔ مذکورہ واقعہ سے جو انہوں نے استنباط فرمایا ہے وہ صریحاً غلط اورحد درجہ فتنہ انگیز ہے جس میں صحابیات پر الزام تراشی کا عنصر بھی موجود ہے۔ یہ با ت درست ہے کہ طلوعِ اسلا م کے وقت مکہ میں بعض عورتیں پیشہ کرتی تھیں لیکن وہ تمام کی تما م لونڈیاں تھیں، ان میں سے شریف گھرانے کی ایک بھی عورت نہ تھی ۔ پھر اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ کہ ایک بھی ایسی پیشہ کرنے والی عورت نہ تھی جس نے اسلام قبول کرنے کے بعداس پیشے کو جاری رکھا ہو۔ انہوں نے توبہ کی تھی اورصالح زندگی کاآغاز کیا تھا۔ کہاں و ہ اسلام قبول کرنے کے بعد شریفانہ زندگی بسر کرنے والی مسلمان صحابیات اورکہاں آج کی فلمی عورتیں اور مکروہ طوائف زادیاں جو اس پیشے کو فن سمجھ کر اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ اورآپ انہیںاس فن میں پختہ ترہونے کیلئے ان کی عزت افزائی فرماتے ہیں …
چہ نسبت ایں خاک را بہ عالم پاک​
مدینہ میں قحبہ گری تمام تر لونڈیوں کے ذریعہ سے ہوئی تھی۔ نبی اکر م نے اعلان فرمادیا کہ اسلام میں قحبہ گری کے لیے گنجائش نہیں ہے (ابوداود) دوسرا حکم جو آ پ نے دیا،وہ یہ تھا کہ زنا کے ذریعہ حاصل ہونی والی آمدی حرام ہے ،ناپاک اور قطعی ممنوع ہے ۔ آپ نے زنا کے معاوضے کو خبیث ،ناپاک اور بد ترین آمدنی قرار دیا(ابوداود،ترمذی) قرآن مجید میں ارشاد ہے ’’اور اپنی لونڈیوں کواپنے دنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جب کہ وہ خود پاک دامن رہنا چاہتی ہوں‘‘(النور:۳۳)

(۵) معلوم ہوتا ہے مولانا اکرم اعوان صاحب کو روحانی وظائف اور تزکیہ نفس کی ریاضتوں سے فرصت نہیں ملتی کہ وہ اسلامی فقہ کا مطالعہ کر سکیں ،ورنہ وہ کبھی نہ لکھتے کہ فلمی صنعت لائق مبار ک باد ہے ۔ اگر یہ پیشہ مبارک ہے تو سوال پید ا ہوتا ہے پھر قابل مذمت کون ساپیشہ ہے ۔ فلمی پیشے کے متعلق معمولی سا علم رکھنے والابھی اس بات سے اتفاق کرے گا کہ یہ کسی بھی اعتبار سے پسندیدہ پیشہ نہیں ہے ۔ محض ایک قلیل تعداد کے جواس پیشہ سے وابستہ ہے، باقی اسے غلط سمجھتے ہیں ۔ گذشتہ کئی سالوں سے عاشق چوہدری جیسے صحافی اس پیشہ کو ’معزز‘ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی اپنی اخلاقی حالت یہ ہے کہ وہ فلمی اداکاراؤں کو’محترمہ‘ لکھنے سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن عوامُ الناس نے ہمیشہ اسے قابل نفرت ہی سمجھا ہے ۔
(۶) اپنے مضمون کے آخر میں مولانا اعوان صاحب ذاتیات پراترپر آئے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ویسے میری مخالفت میں آپ کے علاوہ بھی کچھ پارساؤں نے مہم جوئی شروع کی ہے، اس امید پر کہ ایوا نِ اقتدار سے چند ’’جوٹھے‘‘ ٹکڑے حاصل کر سکیں۔‘‘
تصوف نیک خوئی اورخلق کانام ہے (کشف المحجوب) پاکستان کے ایک روحانی سلسلے کے پیر ومرشد کی خوش خلقی اورخو ش گفتاری ملاحظہ فرمائیے۔ اپنی غیر شرعی حرکت کے دفاع میں کوئی متاثر کن بات تو کہنے سے معذور ہیں البتہ اپنے سے اختلاف ِرائے رکھنے والوں کو اقتدار کے ’’جوٹھے‘‘ ٹکڑوں کے طالب بتار ہے ہیں ۔ یہ لب ولہجہ کسی بناوٹی اور جعلی صوفی کاہی ہو سکتا ہے جسے بازاری عورتوں کی محبت میںرہنے سے کوئی عار نہیں ہے ۔ اگر پارساؤں کا کوئی گروہ اعوان صاحب کے خلاف مہم جوئی میں مصروف ہے تو اس کاراقم کو علم نہیں ہے ۔البتہ راقم الحروف کو نہ کسی پارسائی کا دعویٰ ہے اورنہ ہی وہ جھوٹے ٹکڑوں جیسے توہین آمیز طعنہ کا اپنے آپ کو مستحق سمجھتا ہے، ویسے تو اعوان صاحب کو دوسروں کو ’’جھوٹے ٹکڑے‘‘ کا طعنہ دینے کی بجائے اپنے مریدین کے ’’سچے اور پاک‘‘ ٹکڑوں کے متعلق فکر مند ہونے کی زیادہ ضرورت ہے ۔
ہم اپنی معروضات کو سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ کی معروف کتاب کشف المحجوب کے چند منتخب اقتباسات پر ختم کرتے ہیں :

(۱) تصوف نہ تو رسوم ہیں او رنہ ہی علوم …لیکن وہ اخلاق کانام ہے ۔

(۲) ریا زاہدوں کو تکان میں ڈالتاہے اورخواہش نفسانی صوفی کو رقص اور سرودمیں مبتلا کرتا ہے ۔

(۳) طریقت بے شریعت ریا ہے ۔

(۴) جان لو کہ شریعت اورطریقت میں رقص کی کوئی اصل نہیں ہے ۔

ویسے طرفین کے بیانات کے بعد اور صوفیا کے واقعات و حالات کے مطالعہ سے تو یہ بات واضع ہے کے آپ انتہای نیچ سوچ کے مالک ہیں۔ نہ کسی بدکار شخص پر اللہ نے توبہ کا دروازہ بند کیا ہے نہ شرعی طور پر کسی شادی میں شرکت منع ہے خصوصا ایک کلمہ گو چاہے فاسق اور بدکار ہی ہو۔ آپ جیسے شہرت کے بھوکے لوگوں سے اس سے زیادہ امید بھی کیسے کی جا سکتی ہے۔ لگے رہیں۔
 
Top