- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
عصر حاضر کے نامور مؤرخ مولانا اسحاق بھٹی صاحب حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’جماعت علماء میں مولانا ثناء اللہ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ صاحب جود و سخا تھے اور بہت سے لوگوں کی ظاہر ی یا خفیہ طور سے مالی مدد کرتے تھے ۔ اس ضمن کے متعدد واقعات ان سے مسلکی اختلافات رکھنے والے حضرات بھی بیان کرتے ہیں ۔ وہ مخالفین بلکہ معاندین کو بھی تکلیف کے وقت مالی امداد فراہم کرتے تھے یہاں اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔
١٩٣٧ء میں ایک شخص قمر بیگ نے مولانا پر قاتلانہ حملہ کیا ملزم گرفتار کرلیا گیا اور اسے چار سال کی سزا ہوئی ۔ اس کے بیوی بچوں کا کوئی ذریعہ معاش نہ تھا ۔ مولانا کو پتا چلا تو سخت افسوس کا اظہار کیا اور اپنے ایک دوست ڈاکٹر کے ذریعے پچاس روپے ماہانہ خفیہ طور سے اس کے گھر پہنچاتے رہے ۔ فرماتے تھے اگر کوئی غلطی کی ہے تو قمر بیگ نے کی ہے ، اس کے بیوی بچوں کا تو کوئی قصور نہیں ، ان کی بہر حال مد د ہونی چاہیے ۔ قمر بیگ رہا ہو کر آیا تو دیکھا کہ گھر کی حالت بالکل ٹھیک ٹھاک ہے بیوی سےپوچھا تو اس نے بتایا کہ فلاں ڈاکٹر صاحب پچاس روپے ماہانہ دیتےرہے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ پچاس روپے مولانا ثناء اللہ صاحب عنایت فرماتےتھے تاکہ اس کے اہل خانہ مالی پریشانی میں مبتلا نہ ہوں ۔ انھوں نے تاکید کی تھی کہ ان کا نام ظاہر نہ کیا جائے ۔
یہ سن کر قمر بیگ مولانا کی خدمت میں حاضرا ہوا اور اپنےفعل پر اظہار ندامت کیا ۔
قیام پاکستان کے بعد وہ امرتسر سےملتان چلا گیا ۔ ملتان ہی میں اس کا انتقال ہوا ۔‘‘
( بزم ارجمنداں ص ١٧٨ )
بھٹی صاحب نے اور بھی واقعات ذکر کیے ہیں جو کتاب میں دیکھےجاسکتے ہیں ۔
’’جماعت علماء میں مولانا ثناء اللہ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ صاحب جود و سخا تھے اور بہت سے لوگوں کی ظاہر ی یا خفیہ طور سے مالی مدد کرتے تھے ۔ اس ضمن کے متعدد واقعات ان سے مسلکی اختلافات رکھنے والے حضرات بھی بیان کرتے ہیں ۔ وہ مخالفین بلکہ معاندین کو بھی تکلیف کے وقت مالی امداد فراہم کرتے تھے یہاں اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔
١٩٣٧ء میں ایک شخص قمر بیگ نے مولانا پر قاتلانہ حملہ کیا ملزم گرفتار کرلیا گیا اور اسے چار سال کی سزا ہوئی ۔ اس کے بیوی بچوں کا کوئی ذریعہ معاش نہ تھا ۔ مولانا کو پتا چلا تو سخت افسوس کا اظہار کیا اور اپنے ایک دوست ڈاکٹر کے ذریعے پچاس روپے ماہانہ خفیہ طور سے اس کے گھر پہنچاتے رہے ۔ فرماتے تھے اگر کوئی غلطی کی ہے تو قمر بیگ نے کی ہے ، اس کے بیوی بچوں کا تو کوئی قصور نہیں ، ان کی بہر حال مد د ہونی چاہیے ۔ قمر بیگ رہا ہو کر آیا تو دیکھا کہ گھر کی حالت بالکل ٹھیک ٹھاک ہے بیوی سےپوچھا تو اس نے بتایا کہ فلاں ڈاکٹر صاحب پچاس روپے ماہانہ دیتےرہے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ پچاس روپے مولانا ثناء اللہ صاحب عنایت فرماتےتھے تاکہ اس کے اہل خانہ مالی پریشانی میں مبتلا نہ ہوں ۔ انھوں نے تاکید کی تھی کہ ان کا نام ظاہر نہ کیا جائے ۔
یہ سن کر قمر بیگ مولانا کی خدمت میں حاضرا ہوا اور اپنےفعل پر اظہار ندامت کیا ۔
قیام پاکستان کے بعد وہ امرتسر سےملتان چلا گیا ۔ ملتان ہی میں اس کا انتقال ہوا ۔‘‘
( بزم ارجمنداں ص ١٧٨ )
بھٹی صاحب نے اور بھی واقعات ذکر کیے ہیں جو کتاب میں دیکھےجاسکتے ہیں ۔