• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم آروی رحمۃ اللہ علیہ

شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
182
ری ایکشن اسکور
522
پوائنٹ
90
مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم آروی

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی کی غیر مطبوعہ کتاب ’’ تذکرہ علمائے بہار ‘‘ سے ماخوذ
مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم بن عبد العلی بن رحیم بخش آروی کا شمار دیارِ ہند کے مشاہیر و اکابر علمائے ذی اکرام میں ہوتا ہے۔مولانا موصوف نے جس زمانہ میں دنیائے شعور میں قدم رکھا وہ زمانہ مسلمانانِ ہند کی دینی،علمی،اخلاقی،سیاسی اور معاشرتی پستی کا زمانہ تھا جسے ملاحظہ کرکے مولانا کی روحِ حجازی تڑپ اٹھی اور انہوں نے مسلمانانِ ہند کو ترقی کے بامِ عروج پر پہنچانے کا عزم کیا۔وہ بلندپایہ زعیم، جید عالم دین اور مفسر و محدث تھے اور ان سب پر مستزاد یہ کہ ان کی زبان سے نکلنے والا ہر جملہ دل کی گہرائیوں سے نکلتا تھا کہ جس سے قلوب اثر پذیر ہوتے۔
مولانا ابراہیم کی ولادت ١٢٦٤ھ میں آرہ کے محلہ ملکی میں ہوئی،نسباً صدیقی تھے ۔ ابتدائی کتابیں مولانا حکیم ناصر علی غیاث پوری،قاضی محمد کریم آروی، مولوی نور الحسن آروی اور مولاناالہٰی بخش خاں بہاری سے پڑھیں۔اس کے بعد حفظِ قرآن مجید کی طرف متوجہ ہوئے تکمیل حفظ کے بعد بنارس میں مولوی حافظ رضا علی بنارسی،مولانا حکیم بدر الدین بنارسی اور مولانا محمد اسماعیل بنارسی سے استفادہ کیاپھر دیوبند تشریف لے گئے مولانا محمد یعقوب دیوبندی اور مولانا محمود دیوبندی سے کسبِ علم کیا۔اس کے بعد علی گڑھ میں مولانا مفتی لطف اﷲ علی گڑھی اور چند دیگر علماء سے کتبِ متوسطات اور اکثر مطوّلات پڑھیں۔ پھر آرہ تشریف لائے جہاں''مدرسہ عربیہ'' میں مولانا سعادت حسین بہاری سے کتبِ درسیہ کی تکمیل کی ۔ تکمیل کتبِ درسیہ کے بعد سہارن پور کے لیے رختِ سفر تیار کیاجہاں مولانا احمد علی محدث سہارن پوری محشی ''صحیح بخاری'' سے کتبِ حدیث پڑھیں۔
مولانا سہارن پوری سے مستفید ہونے کے بعد عازم حرمین شریفین ہوئے ۔قیام اثنائے حجاز میں ادائیگی حج بیت اﷲ کے علاوہ متعدد علماء و محدثین سے اسنادِ حدیث حاصل کیں۔جن میں شیخ محمد بن عبد الرحمان سہارن پوری ثم مکی،شیخ احمد بن ذینی دحلان شافعی مکی، شیخ احمد بن اسعد الدھان مکی،شیخ محمد بن عبد اﷲ بن حمید مفتی حنابلہ مکہ مکرمہ،شیخ عبد الغنی محدث دہلوی ثم مدنی اور شیخ عبد الجبار انصاری ناگ پوری شامل ہیں۔
فریضۂ حج بیت اﷲ کی ادائیگی کے بعد مراجعت فرمائے ہند ہوئے۔دہلی میں سید نذیر حسین محدث بہاری ثم دہلوی کے بابِ علم پر دستک دی اور ان سے حدیث و تفسیر میں خصوصی استفادہ کیا۔ پھر بھوپال تشریف لے گئے جہاں شیخ حسین بن محسن یمانی انصاری سے سندِ حدیث حاصل کی۔
مولانا کی طبیعت میں تقویٰ و تدین اور للّٰہیت و صالحیت شامل تھی،تسکینِ قلب اور حصول محبتِ الہٰی کی خاطر صلحاء اتقیاء کی صحبت کے متمنی رہا کرتے تھے ۔چنانچہ تکمیلِ علم کے بعد سید عبد اﷲ غزنوی کی امرتسر شدّ رحال کیا اور ایک مدت تک ان سے مستفیض ہوئے ۔اس کے علاوہ رائے بریلی میں مولانا شاہ ضیاء النبی رائے بریلوی کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے اور فیوض روحانی حاصل کیا۔
مولانا ابراہیم ابتدا میں حنفی المسلک تھے ،تاہم اثنائے کسبِ علم ہی میں مولانا کا رجحانِ فکر عدم تقلید کی طرف مائل ہوا اور بالآخر انہوں نے مسلک اہلِ حدیث کا شعار اختیار فرمالیا۔
مولانا کا دل قوم کے درد سے معمور اور جذبۂ اصلاحِ امت سے سرشار تھا۔شعائرِ دینی کی ترویج و اشاعت اور بدعات ومحدثات کی تردید وتوبیخ میں بہت زیادہ ساعی تھے۔مولانا کے وعظ سے ایک خلقِ کثیر نے استفادہ کیا۔ان کا وعظ عوام وخواص میں یکساں مقبول تھا ۔مولانا فضل حسین بہاری لکھتے ہیں:'' ان کی نماز اور ان کا وعظ ایسا پُر اثر تھا کہ اب ان کو نہ صرف آنکھیں بلکہ دل ڈھونڈتا ہے۔'' ]الحیاة بعد المماة:٣٤٢[
علامہ سید سلیمان ندوی رقمطراز ہیں:وہ نہایت خوشگوار اور پُردرد واعظ تھے۔وعظ کہتے تو خود روتے اور دوسروں کو رُلاتے۔'']حیاتِ شبلی:٣٨٢[
''ندوة العلمائ''کا پہلا اجلاس ١٥ تا ١٧ شوال ١٣١١ھ/٢٢تا ٢٤ اپریل ١٨٩٤ء کو کان پور میں بڑی شان سے منعقد ہوا۔مولانا بھی شریکِ اجلاس تھے ۔صبح کے جلسے میں مولانا نے واقعۂ معراج اور پلِ صراط وغیرہ مباحث پر تقریر کی ،سامعین میں متعدد ہندو وکلاء بھی تھے ۔ختمِ اجلاس پر پنڈت پرتھی ناتھ کشمیری وکیل نے جناب صدر کو مخاطب کرکے فرمایا:''مولانا ابراہیم جیسے چند علماء اگر ہندوستان میں اشاعتِ اسلام کے لیے دورہ کریں تو پھر ہندوستان میں ایک ہندو بھی باقی نہ رہے گا اور سب مشرف بہ اسلام ہوجائیں گے۔'']یادِ ایّام:٧١[
مولانانے جن مٹتے ہوئے شعائرِ اسلامی کا احیاء کیا ان میں سب سے اہم عقدِ بیوگان کی ترویج تھا اور مولانا نے اس کی عملی نظیر پیش کی بقول مولانا عبد المالک آروی:''اگر مولانا مرحوم اپنی زندگی میں صرف یہی ایک کام کرجاتے توبھی آپ کانام ہماری تاریخ میں غیر فانی ہوجاتا۔'' ]ماہنامہ ''جامعہ''دہلی:اکتوبر ١٩٣٤ء[
مولانا نے قدیم نظام تعلیم کے اصلاح کی طرف بھی توجہ مبذول کی،طلابِ علم کی تکالیف اور ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے لیے دینی مدارس میں ''دارالاقامہ''کے قیام کی تجویز سب سے پہلے مولانا ہی نے پیش کی تھی اور ان تمام تر اصلاحات کے نفاذ کے لیے عملی اقدام بھی کیا۔جس کا نتیجہ ''مدرسہ احمدیہ''(آرہ)کی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔علّامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں: ''(آپ) نئی باتوں میں اچھی باتوں کو پہلے قبول کرتے۔چنانچہ نئے طرز پر انجمن علماء اور عربی مدرسہ اور اس میں دارالاقامہ کی بنیاد کا خیال ان ہی کے دل میں آیا۔'' ]حیات شبلی :[ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:''مولانا ابراہیم صاحب آروی ........نے سب سے پہلے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال قائم کیا اور مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی۔'']مقدمہ ''تراجم علمائے حدیث ہند'' :١/٣٦[
مولانا ابراہیم نے ١٢٩٧ھ/١٨٩٠ء کو عصری تقاضوں کے پیشِ نظر ''مدرسہ احمدیہ' ' (آرہ) کی بنیاد ڈالی،مولانا کے جذبۂ اخلاص کا اثر تھا کہ نہایت کم عرصے میں اس مدرسے کو غیر معمولی شہرت اور کامیابی ملی۔تمام حصص ملک کے طلاب علم یہاں کسبِ علم کے لیے حاضر ہوئے اور برصغیر کے نامی علمائے ذِی اکرام نے یہاں فرائضِ تدریس انجام دیں جن میں مولاناحافظ عبد اللہ غازی پوری،مولانا محمد سعید بنارسی، شاہ عین الحق پھلواروی،مولانا عبد الرحمان مبارک پوری،مولانا عبد السلام مبارکپوری وغیرہم شامل ہیں۔
مدرسے میں انگریزی تعلیم بھی دی جاتی تھی،مدرسے کا اپنا ایک دارالمطالعہ تھا،جس میں مولانا نے اپنی تمام کتابیں عطیہ کردی تھیں۔مدرسے کی تعمیر وترقی کے لیے علّامہ عبد العزیز رحیم آبادی اور علّامہ شمس الحق محدث ڈیانوی جیسے علماء کبار مولانا کے شریکِ کار تھے۔١٣١٨ھ میں جب مولانا نے ہمیشہ کے لیے حجازِ مقدس ہجرت فرمایا تو مدرسے کی جملہ ذمہ داریاں علّامہ عبد العزیز رحیم آبادی کو تفویض کرگئے، مولانا رحیم آبادی نے عرصہ تک یہ ذمہ داریاں بحسن وخوبی نبھائیںمگر پھر بعض مشکلات کی وجہ سے مجبوراً مدرسے کو دربھنگہ میں منتقل فرمایااور نسبتِ قادیانیت سے گریز کی خاطر مدرسے کانام ''مدرسہ احمدیہ سلفیہ'' رکھا۔
مولانا نے دینی کتب کی اشاعت کی غرض سے ''مطبع خلیلی''قائم کیا۔اس مطبع سے امام شافعی کی ''المسند'' پہلی مرتبہ طبع ہوئی اور امام بخاری کی ''الادب المفرد''کی دوسری طباعت نہایت اہم ہیں۔
مولانا نے قدیم وجدید اور نیز مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کو باہم یکجا کرنے کی غرض سے ''مذاکرہ علمیہ''کی بِنا ڈالی۔جس کے تحت ہر سال وسیع پیمانے پر جلسہ منعقد کیاجاتا تھا۔یہ اسی جلسے کا فیض تھا کہ سیّد نذیر حسین دہلوی،شیخ حسین بن محسن یمانی،نواب محسن الملک،ڈپٹی نذیر احمد دہلوی، علّامہ شبلی نعمانی،منشی ذکاء اللہ دہلوی،مولانا عبد الجبار غزنوی، مولانا محمد حسین بٹالوی جیسے علمائے اعیان کے قدوم میمنت لزوم سے ارضِ آرہ مشرف ہوا۔
مولانا '' ندوة العلماء '' لکھنؤ کے بانیوں سے تھے اور ''نظارة المعارف''بھوپال اور ''مدرسہ اصلاح المسلمین''پٹنہ کے ایک اہم رکن تھے۔
مولانا اندرونِ ہند تحریک مجاہدین کے نہایت اہم اور سرگرم رکن تھے۔علمائے صادقپور کے دوش بدوش گراں قدر جہادی خدمات انجام دیں،خفیہ سرکاری دستاویزات سے بھی ان کی مجاہدانہ سرگرمیوں کا سراغ ملتا ہے،وہ سرزمینِ ہند میں انگریزی استعمار کو شکست دینے کے خواہاں تھے تاہم ناکامی پر انہوں نے حجاز کی راہ لی۔
مولانا عربی،فارسی اور اردو پر قدرت رکھتے تھے، انگریزی سے بھی بقدر ضرورت آگاہ تھے۔ انہوں نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود تصنیفی خدمات بھی انجام دیں۔ان کی تحریر کردہ و مترجمہ کتابوں میں سے درج ذیل ہمارے احاطۂ علم میں آسکیں:
٭تفسیر خلیلی (٢ جلد):پہلی جلد الم، تبارک الذی و عمّ پر مشتمل ہے۔جبکہ دوسری جلد پارہ سیقول پر مشتمل ہے۔(ط الپنچ پریس بانکی پور پٹنہ ١٣١٧ھ)
٭طریق النجاة فی ترجمة الصحاح من المشکوةٰ (٤ جلد): ''مشکوةٰ المصابیح'' کی پہلی فصل کی احادیث کا اردو ترجمہ ،چار مختصر جلدوں میں۔(ط مطبع خلیلی آرہ ١٣٠٥ھ)
٭ترجمہ تفسیر ابنِ کثیر : مولانا پہلے عالم دین ہیں جنہوں نے ''تفسیر ابن کثیر''کو اردو میں منتقل کرنا شروع کیا ۔تاہم یہ ترجمہ مرحلۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔صرف پہلا پارہ ہی مطبوع ہوا۔
''فقہ محمدی ترجمہ و شرح الدرر البہیہ''(امام شوکانی کی کتاب کا اردو ترجمہ و شرح)، ''ارشاد الطلب الیٰ علم الادب''،''ارشاد الطلاب الیٰ علم الاعراب''،'' تلقین التشریف بعلم التصریف''،'' تہذیب التصریف''،'' صلاة النبی ۖ''،''سلالة الصرف''،'' سلالة النحو''،''ارکان الاسلام''،'' القول المزید فی احکام التقلید''،'' تلخیص الصرف''،'' تلخیص النحو''،'' الدر الفرید''، ''فارسی کی پہلی کتاب''،''فارسی کی دوسری کتاب''، '' غنچۂ مراد''، '' خیر الوظائف''،'' تسہیل التعلیم''،''قول میسور''،'' صلاح و تقویٰ''، '' لیلة القدر''،'' اتفاق''،'' طرزِ معاشرت''،'' یتامیٰ''،'' بادشاہِ مجازی و حقیقی''،''سلیمان بلقیس''(ط اسٹار آف انڈیا پریس آرہ ص ٢٠)۔
١٣١٨ھ میں مولانا نے حجاز ہجرت کی، جوارِ نبوی میں مقیم ہوئے۔ وہاں دعوت و ارشاد کی طرف توجہ منعطف رکھی ۔ دیارِ عرب کے مشہورعالم شیخ محمد نصیف (م ١٣٩١ھ) نے بھی ان سے استفادہ کیا ۔قریب تھا کہ مولانا اشاعتِ اسلام کی غرض سے غیر اسلامی ممالک کا تبلیغی دورہ کرتے کہ چند ماہ علیل رہ کر٦ ذی الحجہ ١٣١٩ھ /١٩٠١ء کو مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔

ایک گزارش
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی کا یہ مضمون ان کی غیر مطبوعہ کتاب سے ماخوذ ہے تاہم سرقہ نویسوں کو یہ سن کر افسوس ہوگا کہ یہ مضمون قبل ازیں ماہنامہ '' اسوہ حسنہ '' کراچی میں شائع ہوچکا ہے ۔
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
235
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
جزاک اللہ بھائی جان۔۔۔۔۔۔۔امید ہے کہ آپ محترم تنزیل بھائی جان کے دیگر اہم مضامین بھی شیئر کرتے رہیں گے۔۔!
میرے مضمون علماء اہلحدیث اور تصوف میں کیا بریائی تھی کہ جزاک اللہ بھی کہنا گوارہ نہ کیا۔
اور یہ پھر صوفیا ء کا تذکرہ کہاں سے آ جاتا ہے
مولانا کی طبیعت میں تقویٰ و تدین اور للّٰہیت و صالحیت شامل تھی،تسکینِ قلب اور حصول محبتِ الہٰی کی خاطر صلحاء اتقیاء کی صحبت کے متمنی رہا کرتے تھے ۔چنانچہ تکمیلِ علم کے بعد سید عبد اﷲ غزنوی کی امرتسر شدّ رحال کیا اور ایک مدت تک ان سے مستفیض ہوئے ۔اس کے علاوہ رائے بریلی میں مولانا شاہ ضیاء النبی رائے بریلوی کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے اور فیوض روحانی حاصل کیا۔
یہ روحانی فیض کا ذکر ہم کریں تو جرم اور ادھر مزید شیئر کرنے کا مطالبہ۔۔۔۔۔۔۔۔آخر ہم سے کیا خطا ہوئی ہے؟
ویسے آپ اور آپکے رفقہا ء کے نزدیک تصوف تو بری بلا ہے مگر یہ ایک اہل حدیث عالم کا ٹسوف سیکھنا ۔۔۔۔۔۔آہ کیا کیا جائے۔۔۔۔یہ سچایئاں کہاں سے نکل آتی ہیں؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا تصوف کا بارے نقطہ نظر بہت ہی معتدل ہے۔ تصوف کے بارے ذہن میں رکھیں کہ یہ چار ادوار سے گزرا ہے۔ اس کا پہلا دور وہ ہے جس کی ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ حمایت کرتے ہیں یعنی اپنی طبیعت ومزاج میں خشوع وخضوع، تقوی، للہیت، انابت، رجوع الی اللہ، عاجزی، انکساری، تقرب الی اللہ یعنی جملہ اوصاف حسنہ سے اپنے نفس کو مزین کرنا اور جملہ رذائل یا باطنی امراض سے اپنے آپ کو پاک کرنے کی محنت اور کوشش کرنا۔ اسی معنی میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ، جنید بغدادی وغیرہ کو متصوفین میں بعض لوگ شمار کرتے ہیں۔ یہ تصوف کا وہ دور ہے کہ جس میں تصوف کی باقاعدہ اصطلاح وضع نہیں ہوئی تھی بلکہ آسان الفاظ میں کہا جا سکتا ہے نیکی اور نیک بننے کا حد درجہ شوق کرنے والے کچھ لوگ تھے جو زہاد اور صلحاء کہلاتے تھے۔ عصر حاضر میں بعض اہل حدیث اہل علم جو تصوف کی حمایت میں کچھ لکھتے یا نقل کرتے ہیں تو ان کی مراد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ ، حسن بصری، سعید بن مسیب، جنید بغدای رحمہم اللہ جیسے سلف صالحین اور ان کا زہد وتقوی ہوتا ہے نہ کہ آج کل کے مداری۔

دوسرا دور تصوف کا وہ ہے کہ جس میں زہد و تقوی کے نام پر تصوف کے ادارے میں کچھ بدعتی اعمال وافعال اور نظریات کی آمیزش شروع ہو گئی جیسا کہ امام غزالی رحمہ اللہ کی کتاب منہاج العابدین اور احیاء العلوم میں اگرچہ بہت ہی خوبصورت نکات، اصلاح نفس کے بہترین طریقوں کی طرف رہنمائی موجود ہے لیکن ساتھ ہی ضعیف وموضوع روایات سے استدلال کی وجہ سے دین کا تصور تزکیہ نفس معتدل نہ رہ سکا۔ مثلا امام غزالی رحمہ اللہ نے اصلاح نفس کے لیے سالک کو جمعہ کی نماز ترک کرنے کی بھی اجازت دے دی۔

تصوف کا تیسرا دور وہ ہے کہ جس میں بدعت سے بھی آگے بڑھتے ہوئے شرکیہ نظریات اور اعمال و افعال کو یونانی فلسفہ و کلچر سے کشید کر کے اسلامی عقیدہ و کلچر کے طور متعارف کروانے کی ناکام کوششیں کی گئیں۔ ان لوگوں میں شیخ ابن عربی کا نام معروف ہے جو وحدت الوجود کا واضع سمجھا جاتا ہے۔ رومی، شیرازی اور سعدی میں کسی درجہ میں انہی لوگوں میں سے ہیں۔ اس دور میں تصوف عمل سے زیادہ ایک نظریہ بن گیا اور صوفی کے ہاں اصلاح نفس سے زیادہ اپنے نفس کا مقام متعین کرنا اہم مسئلہ ٹھہرا۔ شیخ ابن عربی سے لے کر شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ تک ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ وہ اپنا روحانی مقام متعین کرنے اور اس کی لوگوں کو پہچان کروانے میں میں بہت حساس ہیں۔ یہ دور وحدت الوجودم وحدت الشہود کی گتھیاں سلجھانے کا دور ہے۔ اور اسی دور میں وحدت الوجود کے فلسفہ کے زیر اثر شرکیہ اعمال و افعال کو تصوف میں داخل کیا گیا۔

چوتھا دور یہ گدیوں اور درباروں دور ہے جہاں تصوف کا ادارہ جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی، مذہبی استحصال، شریعت سے دوری، جنت کے ٹکٹ بانٹنے، مریدوں کی تعداد میں اضافے، اذیت نفس، شعبدہ بازیوں وغیرہ کا دوسرا نام بن کر رہ گیا ہے۔ اس موضوع پر تفصیلی بحث ان شاء اللہ اپنے ایک مستقل مضمون میں کروں گا۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ تصوف کی اصطلاح استعمال کرنے میں اگرچہ کوئی ممانعت نہیں تھی کیونکہ لا مشاحۃ فی الاصطلاح لیکن اس کے تاریخی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے ساتھ جو لوازمات ملحق ہو چکے ہیں، ان کی وجہ سے اس کو نہ استعمال کرنا ہی بہتر ہے۔ اور تصوف کا جو مقصود ہے یعنی اصلاح نفس تو اس سے کسی کو انکار نہیں ہے اور اس کے لیے قرآن کی بہترین اصطلاح تزکیہ نفس ہے۔
قد افلح من زکھا۔الشمس
تحقیق اس نے فلاح پائی، جس نے اپنا تزکیہ نفس کیا۔
یہ واضح رہے کہ جب اہل حدیث تصوف کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کا مقصود یہ نہیں ہوتا کہ وہ زہد، تقوی، للہیت، خشیت، اصلاح نفس، اصلاح احوال، اصلاح باطن کے قائل نہیں ہے بلکہ ان کی تردید کا مقصود وہ جملہ بدعی وشرکیہ عقائد اور اعمال وافعال ہوتے ہیں جو تصوف کے ادارے کا بدقسمتی سے ایک جزو لاینفک بن چکے ہیں۔ مثنوی معنوی کو جب قرآن کا مرتبہ دے دیا جائے گا تو رد عمل تو ضرور پیدا ہو گا۔

ہاں متصوفین کو اہل حدیث سے یہ شکایت ضرور ہو سکتی ہے کہ ان کے معاصر اہل علم نے تصوف کے متبادل کے طور پر موجود کتاب و سنت کا تصور تزکیہ نفس اور اصلاح باطن ایک جامع پروگرام کی صورت میں متعارف نہیں کروایا جس وجہ سے متصوفین کو یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ شاید اہلحدیثیت خشکی کا دوسرا نام ہے۔ میرے خیال میں یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کہ کتاب وسنت کے تصور تزکیہ نفس اور اصلاح احوال کے پروگرام کو ایک مکمل نظریہ کی صورت میں پیش کیا جائے تا کہ اہل حدیث کے بارے یہ بدگمانی ختم ہو سکے وہ اپنی طبیعتوں اور مزاج میں زہد و تقوی سے دور ہوتے ہیں۔
 
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
182
ری ایکشن اسکور
522
پوائنٹ
90
اہل حدیث حضرات کی تحریروں میں یا ان کے اکابر کے حالات میں جب کبھی تصوف کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے تو اس سے مراد حدیث شریف میں مذکور احسان و سلوک ہوتا ہے نہ کہ بدعتی اعمال و رسوم ۔
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
235
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
اہل حدیث حضرات کی تحریروں میں یا ان کے اکابر کے حالات میں جب کبھی تصوف کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے تو اس سے مراد حدیث شریف میں مذکور احسان و سلوک ہوتا ہے نہ کہ بدعتی اعمال و رسوم ۔
جی اس طرح تحویل گھڑنےسے کام نہیں چلے گا،میری ہر اس اس شخص سے گزارش ہے جو اہلحدیث کہلاتا ہے ،وہ اس بات کو وضح کریے کہ حدیث شریف میں مذکور احسان و سلوک کونسا ہے؟ اور اہل بدعت کا کون سا ہے ؟ اور اہلحدیث حضرات جو صوفی ہیں انکا امتیاز کیاہے؟
 
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
182
ری ایکشن اسکور
522
پوائنٹ
90
اہل حدیث حضرات کے احسان و سلوک کو سمجھنے کے لئے نہ کسی وسیع علم کی ضرورت ہے اور نہ ہی بہت زیادہ عقل کی ۔ یہ سیدھی سی بات ہے جسے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے تزکیہ نفس کا ہر وہ عمل جو کتاب و سنت کی روشنی میں جائز ہو وہی اہل حدیث حضرات کا احسان ، سلوک اور فیض روحانی ہے ۔ اور یہی رویہ اہل حدیث اور اہل بدعت کے درمیان مابہ الامتیاز ہے ۔
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
235
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
اہل حدیث حضرات کے احسان و سلوک کو سمجھنے کے لئے نہ کسی وسیع علم کی ضرورت ہے اور نہ ہی بہت زیادہ عقل کی ۔ یہ سیدھی سی بات ہے جسے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے تزکیہ نفس کا ہر وہ عمل جو کتاب و سنت کی روشنی میں جائز ہو وہی اہل حدیث حضرات کا احسان ، سلوک اور فیض روحانی ہے ۔ اور یہی رویہ اہل حدیث اور اہل بدعت کے درمیان مابہ الامتیاز ہے ۔
جی صدیقی صاحب ذرا اہلحدیث اکابرینؒ یا موجودہ حضرات اہلحدیث میں جو احسان وسلوک رائج ہے ،اسکی تعلیم وتعلم کا کیا طریقہ ہے،اور اس میں موضعوع پر جو اکابرین کی تصنیفات ہیں ان کے نام وغیرہ کیا ہیں بتا دیں تا کہ احباب مستفید ہو سکے ،یہ آپ کا احسان عظیم ہو گا۔
 
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
182
ری ایکشن اسکور
522
پوائنٹ
90
الواقعۃ کے اگلے شمارے میں اس موضوع پر شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کا ایک اہم خط شائع کیا جارہا ہے ۔ اسے ملاحظہ کر لیجئے گا انشائ اللہ اسے کتاب و سنت فورم پر بھی شیئر کردیا جائے گا ۔ آپ نے شاید امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کی تصنیفا ملاحظہ نہیں کیں ورنہ یہ سوال نہ کرتے ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے ابن قیم کی ’ مدارج السالکین ‘ کا شمار تصوف کی اہم کتابوں میں کیا ہے ملاحظہ ہو محاضرات تصوف ۔
برصغیر کے اہل حدیث علما کی کتابوں کے نام جلد ہی شیئر کردوں گا ۔
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
235
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
الواقعۃ کے اگلے شمارے میں اس موضوع پر شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کا ایک اہم خط شائع کیا جارہا ہے ۔ اسے ملاحظہ کر لیجئے گا انشائ اللہ اسے کتاب و سنت فورم پر بھی شیئر کردیا جائے گا ۔ آپ نے شاید امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کی تصنیفا ملاحظہ نہیں کیں ورنہ یہ سوال نہ کرتے ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے ابن قیم کی ’ مدارج السالکین ‘ کا شمار تصوف کی اہم کتابوں میں کیا ہے ملاحظہ ہو محاضرات تصوف ۔
برصغیر کے اہل حدیث علما کی کتابوں کے نام جلد ہی شیئر کردوں گا ۔
میرے بھائی ضرور آپ اس طرح کی چیزیں آپ شئیر کریں ،بندہ آپ کا مشکور ہوگا،محاضرات تصوف کا لنک ہے تو دےدے،یہ خا کسار بھی اکابرین اہلحدیث کا احسان وسلوک لکھ رہا ہے جو نیٹ پر بھی اور مارکیٹ میں بھی ملے گی،بلاشک وشعبہ اکابرین ایلحدیث میں بے شمار علماء صوفی گزرے ہیں ،زیادہ تر کا تعلق نقشبند یہ سلسلہ سے تھا۔ جزاک اللہ
الحمد للہ ابن قیم ؒ اور ابن تیمیہؒ کی تصنیفات بندہ کے مطالعہ میں ہیں وہ جعلی تصوف کے مخالف تھے نہ کہ اسلامی تصوف کے۔
 
Top