محمد ثاقب صدیقی
رکن
- شمولیت
- مئی 20، 2011
- پیغامات
- 182
- ری ایکشن اسکور
- 522
- پوائنٹ
- 90
مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم آروی
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی کی غیر مطبوعہ کتاب ’’ تذکرہ علمائے بہار ‘‘ سے ماخوذ
مولانا ابراہیم کی ولادت ١٢٦٤ھ میں آرہ کے محلہ ملکی میں ہوئی،نسباً صدیقی تھے ۔ ابتدائی کتابیں مولانا حکیم ناصر علی غیاث پوری،قاضی محمد کریم آروی، مولوی نور الحسن آروی اور مولاناالہٰی بخش خاں بہاری سے پڑھیں۔اس کے بعد حفظِ قرآن مجید کی طرف متوجہ ہوئے تکمیل حفظ کے بعد بنارس میں مولوی حافظ رضا علی بنارسی،مولانا حکیم بدر الدین بنارسی اور مولانا محمد اسماعیل بنارسی سے استفادہ کیاپھر دیوبند تشریف لے گئے مولانا محمد یعقوب دیوبندی اور مولانا محمود دیوبندی سے کسبِ علم کیا۔اس کے بعد علی گڑھ میں مولانا مفتی لطف اﷲ علی گڑھی اور چند دیگر علماء سے کتبِ متوسطات اور اکثر مطوّلات پڑھیں۔ پھر آرہ تشریف لائے جہاں''مدرسہ عربیہ'' میں مولانا سعادت حسین بہاری سے کتبِ درسیہ کی تکمیل کی ۔ تکمیل کتبِ درسیہ کے بعد سہارن پور کے لیے رختِ سفر تیار کیاجہاں مولانا احمد علی محدث سہارن پوری محشی ''صحیح بخاری'' سے کتبِ حدیث پڑھیں۔
مولانا سہارن پوری سے مستفید ہونے کے بعد عازم حرمین شریفین ہوئے ۔قیام اثنائے حجاز میں ادائیگی حج بیت اﷲ کے علاوہ متعدد علماء و محدثین سے اسنادِ حدیث حاصل کیں۔جن میں شیخ محمد بن عبد الرحمان سہارن پوری ثم مکی،شیخ احمد بن ذینی دحلان شافعی مکی، شیخ احمد بن اسعد الدھان مکی،شیخ محمد بن عبد اﷲ بن حمید مفتی حنابلہ مکہ مکرمہ،شیخ عبد الغنی محدث دہلوی ثم مدنی اور شیخ عبد الجبار انصاری ناگ پوری شامل ہیں۔
فریضۂ حج بیت اﷲ کی ادائیگی کے بعد مراجعت فرمائے ہند ہوئے۔دہلی میں سید نذیر حسین محدث بہاری ثم دہلوی کے بابِ علم پر دستک دی اور ان سے حدیث و تفسیر میں خصوصی استفادہ کیا۔ پھر بھوپال تشریف لے گئے جہاں شیخ حسین بن محسن یمانی انصاری سے سندِ حدیث حاصل کی۔
مولانا کی طبیعت میں تقویٰ و تدین اور للّٰہیت و صالحیت شامل تھی،تسکینِ قلب اور حصول محبتِ الہٰی کی خاطر صلحاء اتقیاء کی صحبت کے متمنی رہا کرتے تھے ۔چنانچہ تکمیلِ علم کے بعد سید عبد اﷲ غزنوی کی امرتسر شدّ رحال کیا اور ایک مدت تک ان سے مستفیض ہوئے ۔اس کے علاوہ رائے بریلی میں مولانا شاہ ضیاء النبی رائے بریلوی کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے اور فیوض روحانی حاصل کیا۔
مولانا ابراہیم ابتدا میں حنفی المسلک تھے ،تاہم اثنائے کسبِ علم ہی میں مولانا کا رجحانِ فکر عدم تقلید کی طرف مائل ہوا اور بالآخر انہوں نے مسلک اہلِ حدیث کا شعار اختیار فرمالیا۔
مولانا کا دل قوم کے درد سے معمور اور جذبۂ اصلاحِ امت سے سرشار تھا۔شعائرِ دینی کی ترویج و اشاعت اور بدعات ومحدثات کی تردید وتوبیخ میں بہت زیادہ ساعی تھے۔مولانا کے وعظ سے ایک خلقِ کثیر نے استفادہ کیا۔ان کا وعظ عوام وخواص میں یکساں مقبول تھا ۔مولانا فضل حسین بہاری لکھتے ہیں:'' ان کی نماز اور ان کا وعظ ایسا پُر اثر تھا کہ اب ان کو نہ صرف آنکھیں بلکہ دل ڈھونڈتا ہے۔'' ]الحیاة بعد المماة:٣٤٢[
علامہ سید سلیمان ندوی رقمطراز ہیں:وہ نہایت خوشگوار اور پُردرد واعظ تھے۔وعظ کہتے تو خود روتے اور دوسروں کو رُلاتے۔'']حیاتِ شبلی:٣٨٢[
''ندوة العلمائ''کا پہلا اجلاس ١٥ تا ١٧ شوال ١٣١١ھ/٢٢تا ٢٤ اپریل ١٨٩٤ء کو کان پور میں بڑی شان سے منعقد ہوا۔مولانا بھی شریکِ اجلاس تھے ۔صبح کے جلسے میں مولانا نے واقعۂ معراج اور پلِ صراط وغیرہ مباحث پر تقریر کی ،سامعین میں متعدد ہندو وکلاء بھی تھے ۔ختمِ اجلاس پر پنڈت پرتھی ناتھ کشمیری وکیل نے جناب صدر کو مخاطب کرکے فرمایا:''مولانا ابراہیم جیسے چند علماء اگر ہندوستان میں اشاعتِ اسلام کے لیے دورہ کریں تو پھر ہندوستان میں ایک ہندو بھی باقی نہ رہے گا اور سب مشرف بہ اسلام ہوجائیں گے۔'']یادِ ایّام:٧١[
مولانانے جن مٹتے ہوئے شعائرِ اسلامی کا احیاء کیا ان میں سب سے اہم عقدِ بیوگان کی ترویج تھا اور مولانا نے اس کی عملی نظیر پیش کی بقول مولانا عبد المالک آروی:''اگر مولانا مرحوم اپنی زندگی میں صرف یہی ایک کام کرجاتے توبھی آپ کانام ہماری تاریخ میں غیر فانی ہوجاتا۔'' ]ماہنامہ ''جامعہ''دہلی:اکتوبر ١٩٣٤ء[
مولانا نے قدیم نظام تعلیم کے اصلاح کی طرف بھی توجہ مبذول کی،طلابِ علم کی تکالیف اور ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے لیے دینی مدارس میں ''دارالاقامہ''کے قیام کی تجویز سب سے پہلے مولانا ہی نے پیش کی تھی اور ان تمام تر اصلاحات کے نفاذ کے لیے عملی اقدام بھی کیا۔جس کا نتیجہ ''مدرسہ احمدیہ''(آرہ)کی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔علّامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں: ''(آپ) نئی باتوں میں اچھی باتوں کو پہلے قبول کرتے۔چنانچہ نئے طرز پر انجمن علماء اور عربی مدرسہ اور اس میں دارالاقامہ کی بنیاد کا خیال ان ہی کے دل میں آیا۔'' ]حیات شبلی :[ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:''مولانا ابراہیم صاحب آروی ........نے سب سے پہلے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال قائم کیا اور مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی۔'']مقدمہ ''تراجم علمائے حدیث ہند'' :١/٣٦[
مولانا ابراہیم نے ١٢٩٧ھ/١٨٩٠ء کو عصری تقاضوں کے پیشِ نظر ''مدرسہ احمدیہ' ' (آرہ) کی بنیاد ڈالی،مولانا کے جذبۂ اخلاص کا اثر تھا کہ نہایت کم عرصے میں اس مدرسے کو غیر معمولی شہرت اور کامیابی ملی۔تمام حصص ملک کے طلاب علم یہاں کسبِ علم کے لیے حاضر ہوئے اور برصغیر کے نامی علمائے ذِی اکرام نے یہاں فرائضِ تدریس انجام دیں جن میں مولاناحافظ عبد اللہ غازی پوری،مولانا محمد سعید بنارسی، شاہ عین الحق پھلواروی،مولانا عبد الرحمان مبارک پوری،مولانا عبد السلام مبارکپوری وغیرہم شامل ہیں۔
مدرسے میں انگریزی تعلیم بھی دی جاتی تھی،مدرسے کا اپنا ایک دارالمطالعہ تھا،جس میں مولانا نے اپنی تمام کتابیں عطیہ کردی تھیں۔مدرسے کی تعمیر وترقی کے لیے علّامہ عبد العزیز رحیم آبادی اور علّامہ شمس الحق محدث ڈیانوی جیسے علماء کبار مولانا کے شریکِ کار تھے۔١٣١٨ھ میں جب مولانا نے ہمیشہ کے لیے حجازِ مقدس ہجرت فرمایا تو مدرسے کی جملہ ذمہ داریاں علّامہ عبد العزیز رحیم آبادی کو تفویض کرگئے، مولانا رحیم آبادی نے عرصہ تک یہ ذمہ داریاں بحسن وخوبی نبھائیںمگر پھر بعض مشکلات کی وجہ سے مجبوراً مدرسے کو دربھنگہ میں منتقل فرمایااور نسبتِ قادیانیت سے گریز کی خاطر مدرسے کانام ''مدرسہ احمدیہ سلفیہ'' رکھا۔
مولانا نے دینی کتب کی اشاعت کی غرض سے ''مطبع خلیلی''قائم کیا۔اس مطبع سے امام شافعی کی ''المسند'' پہلی مرتبہ طبع ہوئی اور امام بخاری کی ''الادب المفرد''کی دوسری طباعت نہایت اہم ہیں۔
مولانا نے قدیم وجدید اور نیز مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کو باہم یکجا کرنے کی غرض سے ''مذاکرہ علمیہ''کی بِنا ڈالی۔جس کے تحت ہر سال وسیع پیمانے پر جلسہ منعقد کیاجاتا تھا۔یہ اسی جلسے کا فیض تھا کہ سیّد نذیر حسین دہلوی،شیخ حسین بن محسن یمانی،نواب محسن الملک،ڈپٹی نذیر احمد دہلوی، علّامہ شبلی نعمانی،منشی ذکاء اللہ دہلوی،مولانا عبد الجبار غزنوی، مولانا محمد حسین بٹالوی جیسے علمائے اعیان کے قدوم میمنت لزوم سے ارضِ آرہ مشرف ہوا۔
مولانا '' ندوة العلماء '' لکھنؤ کے بانیوں سے تھے اور ''نظارة المعارف''بھوپال اور ''مدرسہ اصلاح المسلمین''پٹنہ کے ایک اہم رکن تھے۔
مولانا اندرونِ ہند تحریک مجاہدین کے نہایت اہم اور سرگرم رکن تھے۔علمائے صادقپور کے دوش بدوش گراں قدر جہادی خدمات انجام دیں،خفیہ سرکاری دستاویزات سے بھی ان کی مجاہدانہ سرگرمیوں کا سراغ ملتا ہے،وہ سرزمینِ ہند میں انگریزی استعمار کو شکست دینے کے خواہاں تھے تاہم ناکامی پر انہوں نے حجاز کی راہ لی۔
مولانا عربی،فارسی اور اردو پر قدرت رکھتے تھے، انگریزی سے بھی بقدر ضرورت آگاہ تھے۔ انہوں نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود تصنیفی خدمات بھی انجام دیں۔ان کی تحریر کردہ و مترجمہ کتابوں میں سے درج ذیل ہمارے احاطۂ علم میں آسکیں:
٭تفسیر خلیلی (٢ جلد):پہلی جلد الم، تبارک الذی و عمّ پر مشتمل ہے۔جبکہ دوسری جلد پارہ سیقول پر مشتمل ہے۔(ط الپنچ پریس بانکی پور پٹنہ ١٣١٧ھ)
٭طریق النجاة فی ترجمة الصحاح من المشکوةٰ (٤ جلد): ''مشکوةٰ المصابیح'' کی پہلی فصل کی احادیث کا اردو ترجمہ ،چار مختصر جلدوں میں۔(ط مطبع خلیلی آرہ ١٣٠٥ھ)
٭ترجمہ تفسیر ابنِ کثیر : مولانا پہلے عالم دین ہیں جنہوں نے ''تفسیر ابن کثیر''کو اردو میں منتقل کرنا شروع کیا ۔تاہم یہ ترجمہ مرحلۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔صرف پہلا پارہ ہی مطبوع ہوا۔
''فقہ محمدی ترجمہ و شرح الدرر البہیہ''(امام شوکانی کی کتاب کا اردو ترجمہ و شرح)، ''ارشاد الطلب الیٰ علم الادب''،''ارشاد الطلاب الیٰ علم الاعراب''،'' تلقین التشریف بعلم التصریف''،'' تہذیب التصریف''،'' صلاة النبی ۖ''،''سلالة الصرف''،'' سلالة النحو''،''ارکان الاسلام''،'' القول المزید فی احکام التقلید''،'' تلخیص الصرف''،'' تلخیص النحو''،'' الدر الفرید''، ''فارسی کی پہلی کتاب''،''فارسی کی دوسری کتاب''، '' غنچۂ مراد''، '' خیر الوظائف''،'' تسہیل التعلیم''،''قول میسور''،'' صلاح و تقویٰ''، '' لیلة القدر''،'' اتفاق''،'' طرزِ معاشرت''،'' یتامیٰ''،'' بادشاہِ مجازی و حقیقی''،''سلیمان بلقیس''(ط اسٹار آف انڈیا پریس آرہ ص ٢٠)۔
١٣١٨ھ میں مولانا نے حجاز ہجرت کی، جوارِ نبوی میں مقیم ہوئے۔ وہاں دعوت و ارشاد کی طرف توجہ منعطف رکھی ۔ دیارِ عرب کے مشہورعالم شیخ محمد نصیف (م ١٣٩١ھ) نے بھی ان سے استفادہ کیا ۔قریب تھا کہ مولانا اشاعتِ اسلام کی غرض سے غیر اسلامی ممالک کا تبلیغی دورہ کرتے کہ چند ماہ علیل رہ کر٦ ذی الحجہ ١٣١٩ھ /١٩٠١ء کو مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔
ایک گزارش
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی کا یہ مضمون ان کی غیر مطبوعہ کتاب سے ماخوذ ہے تاہم سرقہ نویسوں کو یہ سن کر افسوس ہوگا کہ یہ مضمون قبل ازیں ماہنامہ '' اسوہ حسنہ '' کراچی میں شائع ہوچکا ہے ۔