- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
مورخ اہل حدیث کے سوانح نگار بھی چل بسے !
چترال سے روانہ ہو کر راولپنڈی ایئرپورٹ کیطرف گامزن پی آئی اے کے جہاز فلائٹ نمبر661 کی تباہی کی ہولناک خبریں ابھی گردش میں تھیں کہ ساتھ ہی واٹس ایپ پر ایک اور حادثہ کی خبر کانوں پر ہی نہیں بلکہ دل و دماغ پر صاعقہ بن کر گری ۔
سینکڑوں شخصیات کے حالات زندگی پر درجنوں کتابیں مرتب کرنے والے مولانا اسحاق بھٹی نے اپنی زندگی کی سرگزشت ’ گزر گئی گزران ‘ کے عنوان سے خود بھی مرتب فرمائی ، لیکن ان سے بھی پہلے ان کی خدمات کا اعتراف اوراپنے ’ مرشد عالی قدر ‘ کی قدر دانی کا اعلی ثبوت دیتے ہوئے ایک اور مصنف نے ان کی حیات و خدمات مرتب فرمائیں ، یہ مولانا رمضان یوسف سلفی صاحب تھے ، جنہوں نے ’ مؤرخ اہل حدیث مولانا اسحاق بھٹی ، حیات و خدمات ‘ کے عنوان سے تقریبا اڑھائی سو صفحات تصنیف کیے ۔ جس پر بھٹی صاحب نے ان کا شکریہ اور حوصلہ افزائی ہی نہیں بلکہ کتاب کی خود نظر ثانی کی ، معتقدین بھٹی نے بھی اس کام کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا ، اور اس گرانقدر تحفے کا ہاتھوں ہاتھ خیر مقدم کیا۔
اللہ کافیصلہ تھا کہ ابھی لوگ بھٹی صاحب کی رحلت (22 دسمبر 2015ء ) کے غم سے سنبھل نہ پائے تھے کہ بروزبدھ 7 دسمبر 2016 بمطابق 8 ربیع الاول 1438ھ کو مولانا رمضان یوسف سلفی بھی چل بسے ۔
مولانا محمد رمضان بن محمد یوسف بن منشی 4 دسمبر 1967 بمطابق 2 رمضان المبارک 1387 ، پنجاب کے معروف صنعتی شہر فیصل آباد کے ایک گاؤں پکی پنڈوری میں پیدا ہوئے ۔ بعد ازاں محمد یوسف صاحب اہل خانہ سمیت فیصل آباد شہر منتقل ہوگئے ، محمد رمضان ابھی پانچویں جماعت میں تھے کہ 79ء میں والد ماجد کا انتقال ہوگیا ، غم روزگار کے لیے محنت مزدوی شروع کردی ، اور ساتھ ساتھ اہل علم سے اٹھتے بیٹھتے علم حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے رہے ، کسی سے صحیح بخاری پڑھی ، کہیں مشکوۃ المصابیح کا ترجمہ پڑھا ،ناظرہ قرآن کا امتحان ہوا تو نمایاں پوزیشن حاصل کرکے نامور اہل حدیث عالم دین مولانا صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ کی شاندار کتاب ’ صلوۃ الرسول ’ بطور انعام حاصل کی ، یوں حوصلہ افزائی ہوئی تو جذبہ مزید بڑھا ، مطالعہ وسیع کیا ، جماعتی رسائل پڑھنا شروع کیے ، محققین کی ’ دانش گاہوں ‘ میں آنا جانا شروع ہوگیا ، 13 مئی 1990ء میں اہل حدیث یوتھ فورس کے تحت سیرت رسول پر مضمون نگاری کا ایک مسابقہ منعقد ہوا ، جس میں ہمارے ممدوح نے حصہ لیا ، اور نمایاں پوزیشن رہی ، انعام و اکرام کی شکل میں کتب وصول پائیں تو ہمت پاکر باقاعدہ مضمون نگاری کا سلسلہ شروع کردیا ، اور جماعت کے معروف رسائل و جرائد اور بعض قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تحریریں بھیجنے لگے ، اور بزبان شاعر :
لگا رہا ہوں مضامین نو کے انبار
خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
یہ مبارک سلسلہ تادم واپسیں جاری رہا ۔خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
اس کے علاوہ علماء کی حالات زندگی پر متعدد کتابیں تصنیف فرمائیں ، اسحاق بھٹی رحمہ اللہ پر کتاب کے ماسوا ’ چار اللہ کے ولی ‘ ، مولانا عبد الوہاب دہلوی اور ان کا خاندان ’ ، عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ میں علمائے اہل حدیث کی مثالی خدمات ‘ منشی رام سے عبد الواحد تک ‘ جیسی بیش قیمت کتب ان کے لیے صدقہ جاریہ رہیں گی۔ إن شاءاللہ ۔
یدوم الخط فی القرطاس ، و لکن کاتبہ رمیم فی التراب
سلفی صاحب کے ساتھ نہ میری ملاقات تھی ، نہ کوئی مراسلت ، نہ کوئی راز و نیاز ، ان سے محبت و عقیدت کا رشتہ استوار کرنے کے لیے ایک ہی بہانہ کافی تھا کہ وہ مسلک اہل حدیث کے نمایاں خادمین و محسنین میں شمار ہوتے تھے ، اس نسبت سے مجھے ان کی تحریر کردہ کچھ سوانح عمریاں پڑھنے کا شرف حاصل ہوا تھا ۔
جماعت اہل حدیث کے جلیل القدر مؤرخ عبد الرشید عراقی صاحب ، سلفی صاحب کی ایک کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں : ’ مولانا محمد رمضان یوسف سلفی حفظہ اللہ جماعت اہل حدیث پاکستان کے معروف قلمکار ہیں ، ان کے مضامین و مقالات مختلف موضوعات پر ملک کے مؤقر رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں ، ان مضامین و مقالات کے مطالعہ سے سلفی صاحب کے تبحر علمی ، ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کا اندازہ ہوتا ہے ‘ ( عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ میں علمائے اہل حدیث کی مثالی خدمات ص نمبر 19 )
بھٹی صاحب پر ان کی کتاب کے ناشر مولانا عبد الحنان جانباز صاحب کے الفاظ کو اپنے جذبات کی عکاسی سمجھتے ہوئے نقل کرنا چاہوں گا :
’ مولانا محمد رمضان یوسف سلفی صاحب ہمارے اخبارات ، جرائد اور رسائل بینوں میں معروف اور قابل تعریف شخصیت ہیں ، ایک عرصے سے لکھ رہے ہیں اور خوب لکھ رہے ہیں ، موصوف سے ملاقات سے مجھ سمیت ہر کسی کا یہی خیال ہوتا ہے کہ بڑی بھاری بھر کم جسم و جثہ اور بلند گلہ کی مالک شخصیت ہوں گے ، اگرچہ ہیں تو ایسے ہی ، مگر مطالعہ و قلم کے اعتبار سے ۔۔۔ ان کے قلم کی مہارت کثرت مطالعہ کی غماز ہے ۔ ‘
ان کو جاننے والے کچھ اہل علم نے ان کی وفات کی خبر سنتے ہی ، فوری تاثرات کا اظہار کیا ،جن میں سے استاد محترم ڈاکٹر حسن مدنی (مدیر ماہنامہ محدث لاہور ) کے الفاظ کچھ یوں تھے :
’’ انا للہ وانا الیہ راجعون ، مولانا رمضان یوسف سلفی کی وفات باعث رنج والم ہے، صاحب طرز ادیب اور تاریخ واعلام اہل حدیث کے نامور خادم تھے۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد اس میدان میں اپنی مثال آپ تھے۔اللہ درجات بلند فرمائے اور نیک اعمال کو توشۂ أخرت بنائے۔ ‘‘
اس کے علاوہ کئی ایک اہل علم نے سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں اچھے تاثرات ، اور ان کے ساتھ اپنی بھولی بسری یادوں کو تازہ کیا ، ان کی وفات کے اعلانات میں انہیں ’ تاریخ دان ، مؤرخ اہل حدیث ‘ جیسے القابات سے ذکر کیا گیا ہے ، امید ہے ، متعدد شخصیات کو بصورت تحریر حیات جاودانی بخشنے والے اس قلم کے سپاہی کو دل کھول کر خراج تحسین پیش کیا جائے گا ۔ و هل جزاء الإحسان إلا الإحسان
مولانا کی پیدائش چار دسمبر اور وفات سات دسمبر کو ہوئی ، اس طرح شمسی تقویم کے مطابق ان کی عمر مکمل 49 سال اورکچھ دن ، جبکہ قمری حساب سے 50سال اور چھ مہینے بنتی ہے ۔
ان کے مختصر حالات زندگی انہیں کے قلم سے دیکھنے کے لیے ملاحظہ فرمائیں ( مولانا اسحاق بھٹی ، حیات و خدمات ‘ ص نمبر 10 تا 14 )
اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے ، اور ان کی دینی و علمی خدمات کو ان کے لیے توشہ آخرت بنائے ، ان کے علمی و تحقیقی سلسلے جو تشنہ کام رہ گئے ، بعد والوں کوانہیں مکمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔
حافظ خضر حیات ، مدینہ منورہ ، عزیزیہ ، بروز جمعہ 9 دسمبر 2016ء / 10 ربیع الاول 1438 ھ
Last edited: