عمران اسلم
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 333
- ری ایکشن اسکور
- 1,609
- پوائنٹ
- 204
میں بنیادی طور پر کیلی گرافر ہوں جسے اُردو میں خطاط کہا جاتا ہے۔ کیلی گرافر کی خوش بختی یہ ہوتی ہے کہ اس کا قلم جب بھی لفظ لکھتا اور اٹھاتا ہے تو قرآن مبین کا ہوتا ہے۔ میری زندگی کی ساری خوشیاں اور کامیابیاں اسی عظیم کتاب سے جڑی ہوئی ہیں۔بطور کاتب جو پہلا سبق میں نے سیکھا وہ تھا
گر تومی خواہی کہ باشی خوش نویس
می نویس و می نویس و می نویس
(اگر تو چاہتا ہے تو خوش خط ہو جائے)
(پھر لکھتے رہو، لکھتے رہو)
جب سے دارالسلام میری زندگی کی پہلی ترجیح بنا تو یہ سبق یوں بدل گیا کہ اگر تو کامیابی چاہتا ہے تو خلوصِ نیت اور مستقل مزاجی کے ساتھ کرتے رہو۔ کرتے رہو۔
میں نے ۳۲ سال پہلے پاکستان سے سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا اور وہاں کئی سال وزارتِ دفاع میں ملازم رہا۔کام اور تعلقات دونوں کو سنبھالنے میں، میں نے کبھی کوتاہی نہیں کی۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ جب نوکری چھوڑ کر میں نے طباعت ،نشر و اشاعت میں آنے کا فیصلہ کیا تو ہمارے افسر اعلیٰ نے صاف انکار کر دیا۔ مجھے تب تک انتظار کرنا پڑا جب تک ان کی ٹرانسفر نہیں ہو گئی۔ نئے افسر سے گزارش کی تب جا کر مجھے اجازت ملی۔
’’دارالسلام‘‘ میرا خواب تھا۔ ریاض میں اس کی تعبیر سامنے آئی۔ کتاب و سنت کی ترویج و اشاعت کے لیے دنیا کی سب سے بہترین طباعت و اشاعت کا ادارہ ، اللہ رب العزت نے اسباب ہی فراہم نہیں کیے عمدہ اور اعلیٰ درجے کی ٹیم بھی فراہم کر دی۔ آج دارالسلام عالم اسلام کا سب سے نمایاں ادارہ قرار دیا جا رہا ہے، ہم ۱۴۰۰ سے زائد ٹائٹل چھاپ چکے ہیں۔ ۵۵۰ انگلش میں اور ۳۳۰ اُردو میں۔ باقی عربی میں۔
۳۰ ممالک میں ہماری فرنچائز کام کر رہی ہیں۔ ۱۰۰ نئی کتابیں آنے والی ہیں۔ ہماری ہر کتاب کا ایڈیشن ۳ہزار کا ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک نئی روایت ہے کہ ہر کتاب کے کئی کئی ایڈیشن آ چکے ہیں۔
لوگ پوچھتے ہیں آپ کی کامیابی کی وجہ کیا ہے؟ اللہ کی رحمت اور کرم کے بعد میری والدہ، ان کی دعائیں، صدقہ خیرات بھی بہت کرتی تھیں۔ میری اہلیہ میرے کئی کاموںمیں مشاورت میں شامل ہوتی ہیں۔ میرے بچے جو ہر حال میں میرے قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ میرا سٹاف ، آپ کو حیرت ہو گی ان میں اکثر وہ لوگ ہیں جو سفر کے آغاز سے میرے ساتھ ہیں۔ میں نے ان کی خبر گیری میں کوتاہی نہیں کی۔ ان کی عزت، مرتبے، سہولت اور تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کے علم میں اضافے کی پوری طرح سعی کرتا ہوں۔ اپنے سٹاف کو تنخواہ ہم ڈالر میں دیتے ہیں تا کہ مہنگائی کا بہت زیادہ اثر ان پر نہ ہو۔
اچھے لوگوں اور اچھی ٹیم پر میرا یقین اور جستجو میرا ہمیشہ فوکس رہا ہے۔ آج پرائیویٹ سطح پر آپ کو اتنے عالم کسی ایک ادارے میں اکٹھے کام کرتے کم ہی نظر آئیں گے۔
جو ایک بار دارلسلام آ جاتا ہے واپس نہیں جاتا۔ مشن سمجھ کر وابستہ ہو یا نوکری جان کر آئے۔ اسے جلدی ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ ’’دین بھی ہے اور دنیا بھی‘‘۔ پھر جہاں عزتِ نفس کے ساتھ کام کی آزادی ہو وہاں کوئی کیوں نہیں کام کرنا چاہے گا؟
سچ تو یہ ہے کہ یہ اب ایک افراد ساز ادارے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ عالم یہاں آ کر ریسرچ سکالر بن رہے ہیں۔ تحقیق و جستجو کے جدید اور قدیم اصولوں کوسیکھتے ہیں اور پھر ہر کتاب کو، تحریر کو ان اصولوں کی بنیاد پر پرکھتے ہیں، جانچتے ہیں۔
عالم کی خوبی صرف اس کی ذات تک ہوتی ہے۔ ہم نے علماء کو سکالر بننے اور اپنانے کا پلیٹ فارم بنا دیا ہے۔ کتاب کے مواد کی پیش کش تو خوبصورت اور پُر کشش ہونا ہی چاہیے ہم نے مواد کو مستند ترین حوالوں سے پرکھنے کی طرح ڈالی ہے۔علماء کو اُردو ادب پڑھنے کی تربیت دی ہے زبان و بیان کے رموز سکھائے ہیں۔ اس وقت ۵۰ ہمہ وقتی علماء ہمارے ساتھ لاہور آفس میں وابستہ ہیں۔
ان میں ۹۰ فیصد وہ ہیں جو پہلے دن سے ہماری ٹیم کا حصہ ہیں۔ ہمارے ہاں وزٹ کے لیے آنے والے حیران ہوتے ہیں کہ ایک ہی چھت تلے اتنے علماء جمع ہیں اور اس قدر عمدگی سے کام کرتے ہیں۔
دارالسلام کے آغاز کی ایک وجہ بے شک تجارت بھی ہے مگر ہم سارے ہی اسے عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔
ہمارے ریاض آفس میں مختلف زبانوں کا علم رکھنے والے، مترجم اور ایڈیٹر ہیں۔ ان کی تعداد ۱۰۰ سے زائد ہے۔ سعودی عرب میں ہماری ۱۰ برانچیں ہیں، نیویارک، ہیوسٹن، لندن، شارجہ، آسٹریلیا، ملائیشیاسمیت ۳۰ ممالک میں شاخیں ہیں۔ ساتھ میں اسلامک سپر مارکیٹ کا تصور دے رہے ہیں۔
نوبل قرآن۔ ۳ ملین کاپیاں
ہماری سب سے بڑی سعادت نوبل قرآن کی تیاری اور اشاعت ثابت ہوئی۔ اس کا انگریزی ترجمہ کرنے والی شخصیت ڈاکٹر محمد محسن خان صاحب پنجاب کے شہر قصور سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایم بی بی ایس کر کے دل کے امراض کے ماہر بنے۔ پھر برطانیہ چلے گئے اور وہاں سے سعودی عرب، کنگ عبدالعزیز السعود کی بادشاہت میں وزارتِ صحت سے وابستہ ہوئے۔ ۱۵ سال اسی وزارت میں رہے، زیادہ وقت طائف میں گزارا۔ شاہ خالد کے عہد میں ان کو سعودی عرب کے پہلے چیسٹ ہسپتال کا ایم ایس بنایا گیا۔
اُن کو خواب میں آنحضورﷺکی زیارت ہوئی، خواب میں ہی استعفا دیا اور پھر حضورﷺ کے کہے لفظوں کی حفاظت اور خدمت پر لگ گئے۔ انتہائی وجیہہ، سرخ و سفیدرنگت اور پُر کشش شخصیت کے حامل۔ انھوں نے قرآن پاک کا انگریزی میں بہت عمدہ اور معیاری ترجمہ کیا۔ میں ان سے اجازت لینے گیا۔ ان کی سیرت اور صورت دونوں نے موہ لیا۔ میں نے ترجمے کی رائلٹی کا پوچھا۔ بولے رائلٹی لے لی تو قیامت کے روز آنحضورﷺ کو کیا منہ دکھائوں گا؟ نوبل قرآن کے ترجمہ والا یہ منصوبہ بہت بڑا تھا۔
راہوالی شوگر ملز کے یوسف سیٹھی صاحب کو اللہ نے چن لیا۔ انھوں نے بہت کھلے دل کے ساتھ اس پر رقم خرچ کی۔ ہدف یہ تھا کہ نسخہ صحت کے اعتبار سے بہترین ہو۔ ۱۹۹۳ء میں اس کا پہلا ایڈیشن چھپا۔ الحمد اللہ اب تک ۳ملین (۳۰لاکھ) کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
نوبل قرآن آج دنیا کا سب سے معروف اور مقبول انگریزی ترجمہ مانا جاتا ہے۔ احادیث کی روشنی میں اس میں مختصر حواشی بھی ہیں۔ ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مدینہ یونیورسٹی کے پروفیسر تھے۔ انھوں نے بھی اس پر بہت کام کیا۔ سعودی گورنمنٹ اور علماء کے بورڈ نے منظور کیا تب یہ طبع ہوا۔میرا خواب یہ تھا کہ دنیا میں بائبل سب سے عمدہ ۵۶گرام کاغذپر اورپاکٹ سائز میں چھپتی ہے۔ نوبل قرآن کو ویسی ہی کوالٹی سے چھاپا جائے۔
گر تومی خواہی کہ باشی خوش نویس
می نویس و می نویس و می نویس
(اگر تو چاہتا ہے تو خوش خط ہو جائے)
(پھر لکھتے رہو، لکھتے رہو)
جب سے دارالسلام میری زندگی کی پہلی ترجیح بنا تو یہ سبق یوں بدل گیا کہ اگر تو کامیابی چاہتا ہے تو خلوصِ نیت اور مستقل مزاجی کے ساتھ کرتے رہو۔ کرتے رہو۔
میں نے ۳۲ سال پہلے پاکستان سے سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا اور وہاں کئی سال وزارتِ دفاع میں ملازم رہا۔کام اور تعلقات دونوں کو سنبھالنے میں، میں نے کبھی کوتاہی نہیں کی۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ جب نوکری چھوڑ کر میں نے طباعت ،نشر و اشاعت میں آنے کا فیصلہ کیا تو ہمارے افسر اعلیٰ نے صاف انکار کر دیا۔ مجھے تب تک انتظار کرنا پڑا جب تک ان کی ٹرانسفر نہیں ہو گئی۔ نئے افسر سے گزارش کی تب جا کر مجھے اجازت ملی۔
’’دارالسلام‘‘ میرا خواب تھا۔ ریاض میں اس کی تعبیر سامنے آئی۔ کتاب و سنت کی ترویج و اشاعت کے لیے دنیا کی سب سے بہترین طباعت و اشاعت کا ادارہ ، اللہ رب العزت نے اسباب ہی فراہم نہیں کیے عمدہ اور اعلیٰ درجے کی ٹیم بھی فراہم کر دی۔ آج دارالسلام عالم اسلام کا سب سے نمایاں ادارہ قرار دیا جا رہا ہے، ہم ۱۴۰۰ سے زائد ٹائٹل چھاپ چکے ہیں۔ ۵۵۰ انگلش میں اور ۳۳۰ اُردو میں۔ باقی عربی میں۔
۳۰ ممالک میں ہماری فرنچائز کام کر رہی ہیں۔ ۱۰۰ نئی کتابیں آنے والی ہیں۔ ہماری ہر کتاب کا ایڈیشن ۳ہزار کا ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک نئی روایت ہے کہ ہر کتاب کے کئی کئی ایڈیشن آ چکے ہیں۔
لوگ پوچھتے ہیں آپ کی کامیابی کی وجہ کیا ہے؟ اللہ کی رحمت اور کرم کے بعد میری والدہ، ان کی دعائیں، صدقہ خیرات بھی بہت کرتی تھیں۔ میری اہلیہ میرے کئی کاموںمیں مشاورت میں شامل ہوتی ہیں۔ میرے بچے جو ہر حال میں میرے قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ میرا سٹاف ، آپ کو حیرت ہو گی ان میں اکثر وہ لوگ ہیں جو سفر کے آغاز سے میرے ساتھ ہیں۔ میں نے ان کی خبر گیری میں کوتاہی نہیں کی۔ ان کی عزت، مرتبے، سہولت اور تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کے علم میں اضافے کی پوری طرح سعی کرتا ہوں۔ اپنے سٹاف کو تنخواہ ہم ڈالر میں دیتے ہیں تا کہ مہنگائی کا بہت زیادہ اثر ان پر نہ ہو۔
اچھے لوگوں اور اچھی ٹیم پر میرا یقین اور جستجو میرا ہمیشہ فوکس رہا ہے۔ آج پرائیویٹ سطح پر آپ کو اتنے عالم کسی ایک ادارے میں اکٹھے کام کرتے کم ہی نظر آئیں گے۔
جو ایک بار دارلسلام آ جاتا ہے واپس نہیں جاتا۔ مشن سمجھ کر وابستہ ہو یا نوکری جان کر آئے۔ اسے جلدی ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ ’’دین بھی ہے اور دنیا بھی‘‘۔ پھر جہاں عزتِ نفس کے ساتھ کام کی آزادی ہو وہاں کوئی کیوں نہیں کام کرنا چاہے گا؟
سچ تو یہ ہے کہ یہ اب ایک افراد ساز ادارے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ عالم یہاں آ کر ریسرچ سکالر بن رہے ہیں۔ تحقیق و جستجو کے جدید اور قدیم اصولوں کوسیکھتے ہیں اور پھر ہر کتاب کو، تحریر کو ان اصولوں کی بنیاد پر پرکھتے ہیں، جانچتے ہیں۔
عالم کی خوبی صرف اس کی ذات تک ہوتی ہے۔ ہم نے علماء کو سکالر بننے اور اپنانے کا پلیٹ فارم بنا دیا ہے۔ کتاب کے مواد کی پیش کش تو خوبصورت اور پُر کشش ہونا ہی چاہیے ہم نے مواد کو مستند ترین حوالوں سے پرکھنے کی طرح ڈالی ہے۔علماء کو اُردو ادب پڑھنے کی تربیت دی ہے زبان و بیان کے رموز سکھائے ہیں۔ اس وقت ۵۰ ہمہ وقتی علماء ہمارے ساتھ لاہور آفس میں وابستہ ہیں۔
ان میں ۹۰ فیصد وہ ہیں جو پہلے دن سے ہماری ٹیم کا حصہ ہیں۔ ہمارے ہاں وزٹ کے لیے آنے والے حیران ہوتے ہیں کہ ایک ہی چھت تلے اتنے علماء جمع ہیں اور اس قدر عمدگی سے کام کرتے ہیں۔
دارالسلام کے آغاز کی ایک وجہ بے شک تجارت بھی ہے مگر ہم سارے ہی اسے عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔
ہمارے ریاض آفس میں مختلف زبانوں کا علم رکھنے والے، مترجم اور ایڈیٹر ہیں۔ ان کی تعداد ۱۰۰ سے زائد ہے۔ سعودی عرب میں ہماری ۱۰ برانچیں ہیں، نیویارک، ہیوسٹن، لندن، شارجہ، آسٹریلیا، ملائیشیاسمیت ۳۰ ممالک میں شاخیں ہیں۔ ساتھ میں اسلامک سپر مارکیٹ کا تصور دے رہے ہیں۔
نوبل قرآن۔ ۳ ملین کاپیاں
ہماری سب سے بڑی سعادت نوبل قرآن کی تیاری اور اشاعت ثابت ہوئی۔ اس کا انگریزی ترجمہ کرنے والی شخصیت ڈاکٹر محمد محسن خان صاحب پنجاب کے شہر قصور سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایم بی بی ایس کر کے دل کے امراض کے ماہر بنے۔ پھر برطانیہ چلے گئے اور وہاں سے سعودی عرب، کنگ عبدالعزیز السعود کی بادشاہت میں وزارتِ صحت سے وابستہ ہوئے۔ ۱۵ سال اسی وزارت میں رہے، زیادہ وقت طائف میں گزارا۔ شاہ خالد کے عہد میں ان کو سعودی عرب کے پہلے چیسٹ ہسپتال کا ایم ایس بنایا گیا۔
اُن کو خواب میں آنحضورﷺکی زیارت ہوئی، خواب میں ہی استعفا دیا اور پھر حضورﷺ کے کہے لفظوں کی حفاظت اور خدمت پر لگ گئے۔ انتہائی وجیہہ، سرخ و سفیدرنگت اور پُر کشش شخصیت کے حامل۔ انھوں نے قرآن پاک کا انگریزی میں بہت عمدہ اور معیاری ترجمہ کیا۔ میں ان سے اجازت لینے گیا۔ ان کی سیرت اور صورت دونوں نے موہ لیا۔ میں نے ترجمے کی رائلٹی کا پوچھا۔ بولے رائلٹی لے لی تو قیامت کے روز آنحضورﷺ کو کیا منہ دکھائوں گا؟ نوبل قرآن کے ترجمہ والا یہ منصوبہ بہت بڑا تھا۔
راہوالی شوگر ملز کے یوسف سیٹھی صاحب کو اللہ نے چن لیا۔ انھوں نے بہت کھلے دل کے ساتھ اس پر رقم خرچ کی۔ ہدف یہ تھا کہ نسخہ صحت کے اعتبار سے بہترین ہو۔ ۱۹۹۳ء میں اس کا پہلا ایڈیشن چھپا۔ الحمد اللہ اب تک ۳ملین (۳۰لاکھ) کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
نوبل قرآن آج دنیا کا سب سے معروف اور مقبول انگریزی ترجمہ مانا جاتا ہے۔ احادیث کی روشنی میں اس میں مختصر حواشی بھی ہیں۔ ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مدینہ یونیورسٹی کے پروفیسر تھے۔ انھوں نے بھی اس پر بہت کام کیا۔ سعودی گورنمنٹ اور علماء کے بورڈ نے منظور کیا تب یہ طبع ہوا۔میرا خواب یہ تھا کہ دنیا میں بائبل سب سے عمدہ ۵۶گرام کاغذپر اورپاکٹ سائز میں چھپتی ہے۔ نوبل قرآن کو ویسی ہی کوالٹی سے چھاپا جائے۔