- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
ابتدائیہ
یہ مفصل مضمون قسط وار ہے اور ماہنامہ میثاق، مارچ ٢٠١٢ء کے شمارہ میں اس کی پہلی قسط شائع ہو چکی ہے۔ افادہ عام کے لیے فورم پر شیئر کی جا رہی ہے۔ جزاکم اللہ خیرا
ایک اور جگہ اسی کی وضاحت میں لکھتے ہیں:'' تمام مذاہب میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے خاتمے سے پہلے ایک آنے والا آئے گا اور وہ ایک خصوصی رول ادا کرے گا۔ یہی تعلیم اسلام میں بھی ہے...حدیث کی کتابوں میں جو روایات آئی ہیں، ان میں اس سلسلے میں تین لفظ استعمال کیے گئے ہیں۔ رجل مومن، مہدی، مسیح۔ بظاہر یہ تینوں الفاظ ایک ہی شخصیت کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔'' (ماہنامہ الرسالة: جولائی ٢٠١٠ء، ص١٣)
ایک اور جگہ مولانا لکھتے ہیں:'' ایک حدیث (سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء) کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی اور مسیح، دونوں ایک ہی شخصیت کے علامتی طور پر دو الگ الگ نام ہیں۔ آخری دور میں ظاہر ہونے والی ایک ہی شخصیت ہے، جس کو کسی روایت میں رجل مومن کہا گیا ہے، اور کسی روایت میں مہدی، اور کسی روایت میں مسیح۔ ایک اعتبار سے ، ظاہر ہونے والا شخص، امت محمدی کا ایک فرد ہو گا، اس اعتبار سے اس کو رجل مومن کہا گیا۔ دوسرے اعتبار سے وہ گم راہی کے عمومی اندھیرے میں ہدایت کی روشنی کی روشنی کو مکمل طور پر دریافت کرے گا، اس اعتبار سے اس کو مہدی کہا گیا ہے، یعنی ہدایت پایا ہوا شخص۔ ایک اور اعتبار سے وہ شخص امت محمد کے آخری زمانے میں وہی رول ادا کرے گا، جو امت یہود کے آخری زمانے میں حضرت مسیح نے انجام دیا تھا۔ گویا کہ یہ تینوں الفاظ ایک ہی شخصیت کے تین پہلوؤں کو بتاتے ہیں، نہ کہ الگ الگ تین مختلف شخصیتوں کو۔(ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٤١)
خان صاحب کے نزدیک مسیح سے مراد آسمان سے نازل ہونے والاکوئی نبی نہیں بلکہ امت محمدیہ کا ایک عام فرد ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:'' حدیث کی روایتوں میں قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والے شخص کے لیے تین الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ رجل مومن، مہدی اور مسیح۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ تینوں کا رول ایک ہی بتایا گیا ہے، اور وہ دجال کو قتل کرنا۔ اس میں یہ واضح اشارہ موجود ہے کہ تینوں سے مراد ایک ہی شخصیت ہے، ورنہ حدیث میں تینوں کے لیے الگ الگ رول بیان کئے جاتے۔ ''(ماہنامہ الرسالة، جولائی ٢٠١٠ء، ص١٤)
ایک اور جگہ مسیح کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:'' عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ حضرت مسیح آسمان میں زندہ ہیں اور آخری زمانے میں وہ جسمانی طور پر آسمان سے اتر کر زمین پر آئیں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ یہ تصور اگرچہ لوگوں میں کافی پھیلا ہوا ہے، مگر وہ اپنی موجودہ صورت میں نہ قرآن سے ثابت ہوتا ہے ، اور نہ احادیث سے۔ حدیث کی مختلف کتابوں میں تقریبا دو درجن معتبر روایتیں ہیں جن میںمسیح کے ظہور کا بیان پایا جاتا ہے۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی روایت میں صراحتاً یہ الفاظ موجود نہیں کہ مسیح جسمانی طور پر آسمان سے اتر کر زمین پر آئیں گے۔اس سلسلے میں جو بات ہے ، وہ صرف یہ ہے کہ روایتوں میں نزول اور بعث کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مگر صرف اس لفظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت مسیح آسمان سے اتر کر نیچے زمین پر آئیں گے۔ عربی زبان میں نزول کا لفظ سادہ طور پر آنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، نہ کہ آسمان سے اترنے کے معنی میں۔ اسی اعتبار سے مہمان کو نزیل کہا جاتا ہے، یعنی آنے والا۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٤٦)
'' مسیح، امت مسلمہ کے ایک فرد کے مصلحانہ رول کا نام ہے، نہ کہ جسمانی طور پر آسمان سے نازل ہونے والی کسی پراسرار شخصیت کا نام۔ امت مسلمہ کے ایک فرد کا یہ رول عیسی بن مریم کے رول کے مشابہ ہو گا۔ اس لیے اس کو امت مسلمہ کا مسیح کہا گیا ہے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٥٠)
'' المہدی کو ئی انوکھی چیز نہیں ہو گا، وہ عام مصلحین کی طرح ایک مصلح ہو گا۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ عام مصلحین اور مجددین عالمی کمیونکیشن سے پہلے پیدا ہوئے، جب کہ المہدی کی امتیازی صفت یہ ہو گی کہ وہ عالمی کمیونکیشن کے زمانے میں پیدا ہو گا۔ اس بناپر اس کی دعوتی اور فکری جدوجہد کا دائرہ عالمی بن جائے گا، جب کہ اس سے پہلے مصلحین اور مجددین کا دائرہ صرف محلی اور مقامی ہوا کرتا تھا۔ '' (ماہنامہ الرسالة: جنوری ٢٠١١ء، ص ٤٢)
غلط نظریے کے ابطال سے مراد فتنہ دہیماء کے بعد پیدا ہونے والے فکری کنفیوژن کو دور کرناہے۔ ایک جگہ خان صاحب لکھتے ہیں:'' روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دور آخر میں امت محمدی کے اندر ایک شخص اٹھے گا۔ حدیث میں اس کو المہدی کہا گیا ہے۔ ابو داؤد کی ایک روایت میں المہدی کا رول ان الفاظ میں بتایا گیا ہے : یملأ الأرض قسطا وعدلا کما ملئت جورا وظلما (کتاب المھدی، رقم الحدیث : ٢٤٨٥)یعنی مہدی زمین کو قسط اور عدل سے بھر دے گا، جیسا کہ اس سے پہلے وہ جوروظلم سے بھر دی گئی تھی۔ اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ سیاسی اقتدار کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ نظریاتی توسیع کے معنی میں ہے...اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ مہدی سے پہلے دنیا میں غلط نظریے کی عمومی اشاعت ہو جائے گی۔ مہدی اس کے بجائے یہ کرے گا کہ وہ دنیا میں صحیح نظریے کی عمومی اشاعت کرنے میں کامیاب ہو گا۔(ماہنامہ الرسالة : جنوری ٢٠١١ء، ص ٤٢)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :'' قیامت سے پہلے آخری زمانے میں ایک دور آئے گا جس کو حدیث میں فتنہ دہیماء کہا گیا ہے۔ فتنہ دہیماء سے مراد : الفتنة السوداء المظلمة ہے، یعنی مکمل تاریکی کا فتنہ۔ دوسرے لفظوں میں اس کو فکری تاریکی (intellectual darkness) کہا جا سکتا ہے۔ فتنہ دہیماء سے مراد قیامت سے پہلے کا وہ زمانہ ہے جب کہ اشاعتی ذرائع کی کثرت کے نتیجے میں مختلف قسم سے افکار کا جنگل اتنا زیادہ بڑھ جائے گا کہ لوگ فکری کنفیوژن میں جینے لگیں گے۔ اس نازک دور میں اللہ کی سنت کے مطابق، کسی بندہ خدا کے ذریعے کامل سچائی ظاہر ہو گی۔(ماہنامہ الرسالة: جون ٢٠١٠ء، ص١٠)
'' روایت کے مطابق، مسیح کی ایک پہچان یہ ہو گی کہ ان کے زمانے میں خدا اسلام کے سوا تمام ملتوں کا ہلاک کر دے گا : (یھلک اللہ فی زمانہ الملل کلھا الا الاسلام۔ سنن ابی دوؤد، کتاب الملاحم، باب خروج الدجال) اس سے مراد بقیہ ملتوں کی جسمانی ہلاکت نہیں ہے، بلکہ ان کی استدلالی ہلاکت ہے...حدیث کے مطابق، استثنائی طور پر یہ کام مسیح انجام دیں گے، جب کہ دوسرے لوگ ایسا کرنے میں اپنے آپ کو پوری طرح عاجز پا رہے ہوں گے۔ یہ واقعہ مسیح کی شخصیت کی ایک پہچان ہو گا۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٥١۔٥٢)
ایک اور جگہ خان صاحب اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ مہدی اور مسیح استدلال کے ذریعے دجال کے فتنے کو ختم کریں گے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:'' حدیثوں کے مطالعے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دجال یا دجالیت دراصل سائنسی دور کا فتنہ ہے۔ سائنسی دور میں پہلی بار یہ ہو گاکہ کچھ لوگ دلائل کے نام پر حق کا ابطال کریں گے۔ وہ یہ تاثر دیں گے کہ حق، علمی ترقی کے مقابلے میں ٹھیر نہیں سکتا۔پھر خدا کی توفیق سے ایک شخص اٹھے گا جو خود سائنسی دلائل کے ذریعے اس دجالی فتنے کا خاتمہ کر دے گا۔ وہ دجالی دلائل کو زیادہ برتر دلائل کے ساتھ بے بنیاد ثابت کر دے گا۔ یہ واقعہ، اپنی نوعیت کے اعتبار سے، تاریخ بشری کا پہلا واقعہ ہو گا۔ وہ دعوت حق کی عظیم ترین مثال کے ہم معنی ہو گا۔ اسی لیے اس کی بابت صحیح مسلم میں یہ الفاظ آئے ہیں : ھذا أعظم الناس شھادة عند رب العالمین۔ یہ عظیم دعوتی واقعہ قیامت سے پہلے پیش آئے گا۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص ١٨۔١٩)
'' دجال کے قتل سے کیا مراد ہے۔ اس سلسلے کی روایتوں پر غور کرنے کے بعد سمجھ میں آتا ہے کہ اس قتل سے مراد استدلالی قتل ہے، نہ کہ جسمانی قتل۔ صحیح مسلم میں اس سلسلے میں جو لفظ آیا ہے، وہ حجیج ہے۔ حجیج کا مطلب ہے۔ حجت اور دلیل کے ذریعے غالب آنے والا...دجال کا نظریاتی فتنہ تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ ہو گا۔ اس لیے استدلال کی سطح پر اس کا خاتمہ کرنا بھی تاریخ کا ایک انتہائی عظیم واقعہ ہو گا۔ اسی بات کو صحیح مسلم، کتاب الفتن کی ایک روایت میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : ھذا أعظم شھادة عند رب العلمین۔ اس حدیث میں واضح طور پر شہادت سے مراد جسمانی قربانی نہیں ہے۔ جسمانی قربانی میں عظیم اور غیر عظیم کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہاں شہادت سے مراد گواہی ہے، یعنی دلائل ربانی کے ذریعے دلائل شیطانی کو آخری حد تک باطل ثابت کرنا۔'' (ماہنامہ الرسالة: جولائی ٢٠١٠ء، ص١٤)
'' مہدی دراصل اسی قسم کا ایک صاحب معرفت انسان ہو گا۔ اس کے اندر خدا کی خصوصی توفیق سے یہ صلاحیت ہو گی کہ وہ لفظی مغالطے کو سمجھ سکے۔ وہ خوش نما الفاظ اور حقیقی استدلال کے فرق کو جانے۔ وہ ایک گم راہ کن بیان کا تجزیہ کر کے اس کی گم راہی کھول سکے۔ اس کے اندر تجزیہ کی طاقت (power of analysis)کمال درجے میں موجود ہو، وہ محدد تبیین (precise description) کی صلاحیت کا حامل ہو۔ اپنی اسی معرفت کی بنا پر وہ خود الفاظ کے فتنے سے بچے گا اور دوسروں کے لیے الفاظ کے فتنے سے بچنے کا ذریعہ بنے گا۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص ٣٧)
مہدی اور مسیح کے استثنائی رول کی مزید وضاحت میں خان صاحب لکھتے ہیں کہ مہدی معرفت وہدایت کا حامل اور امن کا نمائندہ ہو گا:'' حقیقت یہ ہے کہ آنے والے کی پہچان صرف ایک ہو گی، اور وہ اس کا استثنائی رول(exceptional role) ہے۔''(ماہنامہ الرسالة : جولائی ٢٠١٠ء، ص١٣)
خان صاحب کے نزدیک مہدی کا استثنائی رول یہ ہو گا کہ وہ سچائی اور معرفت کو پا لے گا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:'' رجل مومن کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اس کی معرفت استثنائی درجے کی معرفت ہو گی۔ مہدی کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ وقت کے تمام سوالات میں وہ استثنائی طور پر درست رہنمائی دینے کی صلاحیت کا حامل ہو گا۔ مسیح کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ وہ رافت اور رحمت بالفاظ دیگر امن (peace)کے اصول کا کامل معنوں میں اظہار کرے گا۔'' (ماہنامہ الرسالة : جولائی ٢٠١٠ء، ص١٥)
'' حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی کا ظہور ، فتنہ دہیماء (تاریک فتنہ) کے زمانے میں ہو گا۔ اس وقت تمام لوگ معرفت حق کے بارے میں اندھیرے میں پڑے ہوئے ہوں گے۔ ایسے تاریک دور میں معرفت حق کی روشنی کسی کو صرف خدا کی خصوصی توفیق سے مل سکتی ہے، یعنی وہبی طور پر، نہ کہ اکتسابی طور پر۔ سیاہ فتنے کے دور میں کوئی شخص نہ بطور خود سچائی کو پاسکے گا اور نہ وہاں دوسرا کوئی شخص موجود ہو گاجو اس کو سچائی کی روشنی دکھائے۔ حقیقت یہ ہے کہ فتنہ دہیماء کے دور میں کسی کو صرف خداوند ذوالجلال کی طرف سے ہدایت مل سکتی ہے۔مہدی کا مہدی ہونا، اپنے آپ بتا رہا ہے کہ مہدی کی پہچان کیا ہے۔ وہ پہچان یہ ہے کہ مہدی اپنے ماحول کے برعکس، استثنائی طور پر ایک ہدایت یاب انسان ہو گا، جب کہ لوگ عمومی طور پر ہدایت حق سے محروم ہو چکے ہوں گے۔ مہدی ایک استثنائی انسان کا نام ہے، اور یہی استثنا وہ چیز ہے جس کے ذریعے پہچاننے والے اس کو پہچانیں گے۔ مہدی نہ خود اپنے مہدی ہونے کا دعوی کرے گا، اور نہ آسمان سے یہ آواز آئے گی کہ فلاں شخص مہدی ہے ، اس کو مانو اور اس کا اتباع کرو۔'' (ماہنامہ الرسالة :مئی ٢٠١٠ء، ص٣٦)
'' بعض لوگوں نے مہدی کو ہادی کے معنی میں لے لیا۔ اس خود ساختہ تصور کے مطابق، انھوں نے کہا کہ مہدی جدید دور کا ایک انقلابی لیڈر ہو گا، جو عالمی سیاسی نظام قائم کرے گا۔ مہدی کی یہ تعریف سر تا سر بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہدی جدید دور کا ایک عارف ہو گا۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص ٣٩)
'' اس وقت اللہ تعالیٰ کی خصوصی تائید رؤیائے صادقہ (سچے خواب) کی شکل میں ظاہر ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق، جن لوگوں کے اندر سچی تلاش کا جذبہ ہو گا، ان کو مہدی کی نسبت تائیدی خواب دکھائے جائیں گے۔ یہ خواب گویا کہ مہدی کے حق کر لیں گے کہ یہی وہ شخص ہے جس کی پشین گوئی حدیث میں مہدی کے لفظ سے کی گئی ہے، اور پھر وہ دل سے اس کے ساتھی بن جائیں گے۔'' (ماہنامہ الرسالة :جون ٢٠١٠ء، ص١١)
'' اب یہ سوال ہے کہ دور آخر کے مجدد کی پہچان کیا ہو گی۔ اس کی پہچان بلاشبہ یہ نہیں ہو گی کہ وہ کچھ بر عجوبہ صفات کا مالک ہو گا۔ اس کی پہچان بنیادی طور پر دو ہو گی۔ یہ دونوں چیزیں واضح طور پر قرآن اور حدیث سے معلوم ہوتی ہیں...دور آخر کے مجدد کی سب سے پہلی علامت یہ ہو گی کہ وہ خدا کی خصوصی توفیق سے، دین حق کو دوبارہ اس کی حقیقی صورت میں دریافت کرے گا۔ وہ ظاہری فارم سے گزر کر، اسلام کی اصل سپرٹ کا فہم حاصل کرے گا۔ وہ قرآن کی مغالطہ آمیز تشریح سے گزر کر قرآن کے اصل پیغام کو سمجھے گا۔ وہ دین اجنبی کو اپنے لیے دوبارہ دین معروف بنائے گا۔دوسرے لفظوں میں وہ خدا کے دین کو دوبارہ اس طرح دریافت کرے گا، جس طرح اصحاب رسول نے اس کو دریافت کیا تھا۔ زمانے کے اعتبار سے ، وہ بعد کا انسان ہو گا، لیکن معرفت کے اعتبار سے وہ اصحاب رسول جیسی معرفت کا حامل ہو گا۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٥٠۔٥١)
'' اس کی دوسری علامت وہ ہوگی جو قرآن میں پیغمبروں کی نسبت سے ان الفاظ میں بتائی گئی ہے : وما أرسلنا من رسول الا بلسان قومہ (ابراھیم : ٤) ...اس آیت میں لسان سے مراد صرف زبان نہیں ہے، اس میں وہ تمام پہلو شامل ہیں جو ایک کامیاب زبان کا ضروری حصہ سمجھے جاتے ہیں مثلا وضوح ، موثر اسلوب، ایسا کلام جو معاصر ذہن کو پوری طرح ایڈریس کرنے والا ہو، وغیرہ۔ اس قسم کا طاقتور اسلوب کبھی اکتسابی نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ وہبی طور پر کسی ایسے شخص کو عطا ہوتا ہے جس سے خدا اپنے دین کی تبیین کا کام لینا چاہتا ہے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٥٠۔٥١)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :'' واضح ہو کہ آنے والے کے بارے میں بہت زیادہ روایات آئی ہیں، لیکن ان روایتوں میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ آنے والا اعلان کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کرے گا، اور نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ اس کے معاصرین اعلان کے ساتھ اس کا اعتراف کریں۔ اس قسم کے اعلان کا ذکر روایتوں میں موجود نہیں۔'' (ماہنامہ الرسالة: جولائی ٢٠١٠ء، ص١٥)
اب سوال یہ پیدا ہوا کہ جب آنے والا یہ دعوی نہیں کرے گا کہ وہ مسیح یا مہدی یا مجدد ہے تویقینی طور کیسے معلوم ہو گا کہ کون مسیح یا مہدی یا مجدد تھا؟ اس کے جواب میں خان صاحب فرماتے ہیں کہ اس کا یقینی علم آخرت میں ہی حاصل ہو گا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:'' اس سلسلے میں غور وفلر کے بعد چند باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اس آنے والے شخص کی پہچان یہ نہیں ہو گی کہ وہ اپنے بارے میں اعلان کرے گا۔'' (ماہنامہ الرسالة : جولائی ٢٠١٠ء، ص١٣)
'' یہاں اس معاملے کی وضاحت ضروری ہے کہ مہدی اور مسیح کے مسئلے کو اصولی طور پر بیان کرنا ایک الگ چیز ہے اور خود اپنے بارے میں مہدی اور مسیح ہونے کا دعوی کرنا بالکل دوسری چیز...کون شخص مہدی تھا یا کس نے مسیح کا رول ادا کیا، اس کا تحقق صرف آخرت میں خدا کے اعلان کے ذریعے ہو گا۔ اس لیے دنیا میں اس قسم کا دعوی کرنا اپنے آپ میں ایک بے بنیاد دعوی کی حیثیت رکھتا ہے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٤٠۔٤١)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:'' قدیم زمانے کے یہود آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر تھے ، مگر ان کا حال یہ ہوا کہ جب پیغمبر آئے تو وہ ان کا انکار کرنے والے بن گئے۔ یقینی طور پر یہی واقعہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا ہے۔ مہدی اور مسیح جب ظاہر ہوں گے تو موجودہ مسلمان یقینی طور پر ان کا انکار کرنے والے بن جائیں گے۔'' (ماہنامہ الرسالة: جنوری ٢٠١١ء، ص ٤٣)
'' اصل یہ ہے کہ مہدی کا زمانہ فتنہ دہیماء کا زمانہ ہو گا۔ اس زمانے میں افکار کی کثرت کے نتیجے میں حقائق مشتبہ ہو جائیں گے۔ تمام لوگ فکری کنفیوژن میں جینے لگیں گے۔ ایسی حالت میں مہدی کے ظہور کے باوجود لوگوں کے لیے مہدی پر یقین کرنا مشکل ہو جائے گا۔ لوگ دیکھیں گے کہ مہدی جو بات کہہ رہا ہے، وہ پوری طرح مبنی برحق ہے۔ لیکن مہدی عام انسان جیسا ایک انسان ہو گا، اس بنا پر لوگوں کے لیے شبہ کا ایک عنصر باقی رہے گا۔'' (ماہنامہ الرسالة :جون ٢٠١٠ء، ص١١)
'' پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمہ طور پر ایک عظیم کارنامہ انجام دیا۔ یہ کارنامہ انجام دینے کے لیے خدا نے آپ کو مضبوط افراد کی ایک ٹیم دی، جس کو اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔ اسی طرح مہدی، یا مسیح جو کارنامہ انجام دیں گے، انھیں بھی خدا کی خصوصی مدد کے ذریعے ایک طاقت ور ٹیم حاصل ہو گی۔ غالبا یہی وہ ٹیم ہے جس کو حدیث میں اخوان رسول کہا گیا ہے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص ٤٣)
'' غالبا یہ کہنا صحیح ہو گا کہ اخوان رسول وہ اہل ایمان ہیں جو سائنسی دور میں پیدا ہوں گے، اور سائنسی دریافتوں سے ذہنی غذا لے کر اعلی معرفت کا درجہ حاصل کریں گے، نیز یہی و ہ لوگ ہوں گے جو مہدی، یا مسیح کا ساتھ دے کر آخری زمانے میں اعلی دعوتی کارنامہ انجام دیں گے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٤٤)
'' سی پی ایس انٹرنیشنل کے نام سے موجودہ دعوت کام جنوری ٢٠٠١ کو دہلی میں شروع ہوا۔ لیکن اس تنظیم کے صدر نے اس دعوتی کام کو اس سے بہت پہلے ١٩٥٠ میں اعظم گڑھ (یو۔پی) میں ادارہ اشاعت اسلام کے نام سے شروع کیا تھا۔ اس کے بعد یہ کام مسلسل بلاانقطاع جاری رہا۔ ١٩٧٠ میں اسی مقصد کے لیے اسلامی مرکز (نئی دہلی) کا قیا م عمل میں آیا۔ ١٩٧٦میں اس نے الرسالہ مشن کی صورت اختیار کی۔ سی پی ایس انٹرنیشنل (٢٠٠١) اسی کام کی تکمیلی صورت ہے۔ لمبی مدت کے بعد اب خدا کے فضل سے ساری دنیا میں یہ آواز پہنچ چکی ہے۔ اور اسی کے ساتھ اس کی ایک طاقت ور ٹیم بن چکی ہے جس کو ہم سی پی ایس ٹیم کہتے ہیں۔ ماضی اور حال کے تمام قرائن تقریباً یقینی طور پر بتاتے ہیں کہ سی پی ایس کی ٹیم ہی وہ ٹیم ہے جس کی پیشین گوئی کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے اس کو اخوان رسول کا لقب دیا تھا۔'' (ماہنامہ الرسالة : ستمبر ٢٠٠٦ء، ص٤٠)
'' اس استثنائی صفت کے باوجود جو لوگ اس کو نہ پہچانیں، وہ اسی قسم کے اندھے پن میں مبتلا ہیں، جس اندھے پن کی بنا پر لوگوں نے پچھلے پیغمبروں کو نہیں پہچانا اور وہ ان کے منکر بنے رہے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص ٥١)
'' لوگوں سے یہ مطلوب ہو گا کہ وہ اعلان کا انتظار نہ کریں، بلکہ وہ رول کو دیکھ کر خود آنے والے کو پہچانیں اور اس کا ساتھ دیں۔ جو لوگ اس بصیرت کا ثبوت نہ دے سکیں، وہ تاریخ کے اس آخری امتحان میں بلاشبہ ناکام قرار پائیں گے۔'' (ماہنامہ الرسالة : جولائی ٢٠١٠ء، ص١٣)
'' حدیث میں، آنے والے کی نسبت سے، یہ الفاظ آئے ہیں : وجب علی کل مؤمن نصرہ واجابتہ (أبوداؤد، کتاب المھدی) یعنی ہر مومن پر یہ واجب ہو گا کہ وہ اس کی آواز پر لبیک کہے اور اس کا ساتھ دے۔'' (ماہنامہ الرسالة، جولائی ٢٠١٠ء، ص١٥)
'' جہاں تک معاصرین کا تعلق ہے، ان کی ذمے داری یہ نہیں ہو گی کہ وہ شخصی تعیین کے ساتھ اپنے اعتراف کا اعلان کریں...البتہ معاصرین کی یہ لازمی ذمے داری ہو گی کہ وہ آنے والے کو پہچانیں، وہ اس کے لیے دعائیں کریں، اور عملی اعتبار سے وہ پوری طرح اس کا ساتھ دیں۔(ماہنامہ الرسالة، جولائی ٢٠١٠ء، ص١٦)
امام ابن قیم اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے اس روایت کی سند کو 'جید' قرار دیا ہے۔(المنار المنیف فی الصحیح والضعیف : ص١١٤؛ السلسلة الصحیحة : ٢٢٣٦)'' پس عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے تو مسلمانوں کے امیر مہدی فرمائیں گے۔آئیں! ہمیں نماز پڑھائیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: نہیں۔(یعنی تم ہی نماز پڑھاؤ کیونکہ) تم میں سے بعض ، بعض کے امیر ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایسا اس امت کی عزت افزائی کے لیے فرمائیں گے۔''
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔(السلسلة الصحیحة : ٢٢٩٣)'' وہ ہم میں سے ہو گا جس کے پیچھے عیسیٰ بن مریم نماز ادا کریں گے۔''
شیخ احمد شاکر اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ (مسند احمد :١٣٩٦؛ صحیح أبی داؤد : ٤٢٨٢)'' مہدی کا نام میرے نام پرہو گا اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہو گا۔''
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ (السلسلة الصحیحة : ٢١٨٢)۔'' انبیاء آپس میں علاتی (یعنی باب شریک) بھائی ہیں۔ ان کی مائیں (یعنی شریعتیں) جدا ہیں جبکہ دین ایک ہے۔ اور میں(محمد صلی اللہ علیہ وسلم)، عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے سب سے زیادہ قریب ہوں کیوںکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور بے شک وہ نازل ہونے والے ہیں۔ پس جب تم ان کو دیکھو تو ان کو پہچاننے کی کوشش کرو کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو سرخ وسفید رنگ میں درمیانے قد کے ہوں گے اور ان پر دو ہلکے زرد رنگ کے کپڑے ہوں گے۔گویا کہ ان کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں اگرچہ انہیں پانی نہ پہنچا ہو۔''
اس روایت کو شیخ احمد شاکر اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے صحیح کہا ہے۔(مسند احمد : ٥٨٢ ؛ السلسلة الصحیحة : ٢٣٧١)'' مہدی ہم اہل بیت کے خاندان سے ہو گا اور اللہ تعالیٰ ایک رات میں اس کی اصلاح فرمائیں گے۔''
امام ابن تیمیہ ، شیخ احمدشاکر اور علامہ البانی رحمہم اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔(منھاج السنة :٢٥٥٨؛ مسند احمد : ٧٤٦؛ صحیح أبی داؤد : ٤٢٨٢)'' دنیا ختم نہیں ہو گی یہاں تک کہ ملک عرب کا حکمران ایک ایسا شخص بنے کہ جو اہل بیت میں سے ہو اور اس کا نام میرے نام پر ہو۔''
امام ابن تیمیہ اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔(منھاج السنة : ٢٥٥٨ ؛ صحیح أبی داؤد:٤٢٨٥)''مہدی زمین کو عدل وقسط سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم وجور دے بھر دی گئی تھی اور سات سال بادشاہ رہے گا۔''
٤۔ خان صاحب کا دعوی یہ بھی ہے کہ مہدی اور مسیح کا معاصر مسلمان انکار کریں گے۔ خان صاحب کا یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کیونکہ ایک ایسے عادل بادشاہ یا حکمران کا انکار کیسے ممکن ہے کہ جو زمین کو عدل و قسط سے بھر دے ، جس کے ہاتھوں مال و دولت کی منصفانہ تقسیم سے کوئی حاجت مند باقی نہ رہے، اور اس قدر دینداری غالب آ جائے کہ ایک سجدہ دنیا و ما فیہا سے بہتر سمجھا جائے جیسا کہ مذکورہ بالا روایات سے یہ واضح ہوتا ہے۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے مطابق تو مسلمان تو کجا اہل کتاب میں سے بھی کوئی ایسا باقی نہ رہے گا جو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام پر ان کی وفات سے پہلے ایمان نہ لے آئے۔'' عنقریب تمہارے مابین عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ایک عادل حکمران کی صورت میں نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے۔ خنزیر کو قتل کر دیں گے۔ جنگ کو ایک نتیجہ تک پہنچا دیں گے۔ مال کو اس قدر تقسیم کریں گے کہ اسے کوئی قبول کرنے والاباقی نہ رہے گا۔ اور ایک سجدہ اس وقت دنیا و ما فیہا سے بہتر سمجھا جائے گا۔ یہ روایت نقل کرنے کے بعد حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب تم چاہو تو قرآن کی یہ آیت پڑھ لو۔ اور اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور وہ قیامت والے دن ان پر گواہ ہوں گے۔''
حضرت عیسیٰ بن مریم کا فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے دمشق کے مشرق میں سفید منارہ پر اترنا، اس حال میں کہ ان کے کپڑوں کا رنگ اوران کی صفات بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کر دی ہیں، تو اس کے بعد بھی کیا ان کے مسیح ہونے میں کوئی شک باقی رہ جائے گا؟''جب اللہ تعالیٰ، مسیح ابن مریم کو مبعوث فرمائیں گے تو وہ دمشق کے مشرقی جانب سفید منارہ پر دو فرشتوں کے پروں پر اپنی ہتھیلیاں رکھے ہوئے نازل ہوں گے اور ورس و زعفران سے رنگے ہوئے دو کپڑوں میں ملبوس ہوں گے ۔ وہ جب اپنے سر کو نیچے اوپر کریں گے تو اس سے موتیوں کی مانند پانی کے قطرے گریں گے ۔''
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ (السلسلة الصحیحة : ٢١٨٢)'' پس حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام چالیس سال زندہ رہیں گے اور پھر فوت کر دیے جائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ ادا کریں گے۔''
خان صاحب کے بقول، لوگ دجال کی آمد کے منتظر ہیں حالانکہ وہ آ چکا ہے اور اب اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اس کے انتظار کی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:'' دجال کے لفظی معنی بہت دھوکا دینے والا ہے۔ دجال اپنا یہ کام تلوار کے ذریعے نہیں کرے گا۔ دھوکا دینا، دلیل کے ذریعے ہوتا ہے، نہ کہ تلوار کے ذریعے۔ چنانچہ دجال علم اور دلائل کے زور پر لوگوں کو بہکائے گا۔ وہ لوگوں کو ذہنی گمراہی میں مبتلا کرے گا۔دجال کے مقابلے میں جو شخص اس کی کاٹ کے لیے اٹھے گا، اس کے لیے صحیح مسلم میں 'حجیج' کا لفظ آیا ہے۔ لسان العرب میں 'حجیج' کا مفہوم ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: محاجة ومغالبة باظھار الحجة علیہ (٢٢٢٨) یعنی دلائل کے ذریعے غالب آنے والا ...حدیث میں آتا ہے کہ دجال کی پیشانی پر ک،ف،ر (کفر) لکھا ہوا ہو گا۔(صحیح مسلم، کتاب الفتن)۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دجال جس دور میں پیدا ہو گا، وہ خدا سے کفر(انکار) کا دور گا ، یعنی الحاد کا دور۔ ''(ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص ١٨)
احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے صریح ہیں کہ دجال کا کام ذہنی وفکری کنفیوژن پیدا کرنا نہیں بلکہ اپنی انوکھی صفات کے ساتھ ربوبیت کا دعوی کرنا اور قتل وغارت گری برپا کرتے ہوئے اہل ایمان کو آزمائش میں مبتلا کرنا ہے۔ ایک روایت میں دجال کے الفاظ یوں نقل ہوئے ہیں:'' دجال کے بارے میں حدیث کی کتابوں میں بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ ان روایتوں میں دجال کی انوکھی صفات بتائی گئی ہیں۔ لوگ ان صفات کو لفظی معنی میں لے لیتے ہیں۔ اس لیے ابھی تک وہ دجال کی شخصی آمد کے منتظر ہیں، حالاں کہ اس معاملے میں اب انتظار کا وقت نہیں، بلکہ دجال کے مقابلے میں اپنا کردار ادا کرنے کا وقت ہے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص ٢٥)
اگرفتنہ دجال سے مراد اس کا نظریاتی فتنہ ہے تو مکہ اور مدینہ میں اس نظریہ کے داخل ہونے میں کیا ممانعت ہے؟ اور پھر اس نظریے کو مکہ ومدینہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے بھی تلوار سونتے فرشتے مقرر کیے گئے ہیں؟ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ جب دجال کا خروج ہو گا اور ایک بندہ مومن اس سے ملاقات کا قصد کرے گا تو اس کے چیلے اس کو روکیں گے اور سوال کریں گے:'' قریب ہے کہ مجھے خروج کی اجازت مل جائے پس میں نکلوں گا اور زمین میں چلوں پھروں گا۔ پس چالیس راتوں میں، میں کسی بھی بستی سے نہیں گزروں گا لیکن اس کو نیست ونابود کر دوں گا سوائے مکہ اور مدینہ کے۔ پس ان دونوں بستیوں میں داخلہ مجھ پر حرام ہے۔پس جب بھی میں مکہ اور مدینہ میں سے کسی بستی میں داخل ہونا چاہوں گا تو ایک فرشتہ میرے سامنے تلوار سونتے کھڑا ہو گاجو مجھے اس میں داخل ہونے سے روکے گا اور ان دونوں بستیوں میں داخلے کے ہر رستے پر کچھ فرشتے پہریدار مقرر ہوں گے۔''
''' پس دجال کے چیلے اس بندہ مومن سے کہیں گے کہ کہاں کا قصد ہے؟ وہ کہے گا کہ جونکلا ہے، اس کا ارادہ کیا ہے۔ پس وہ کہیں گے کیا تو ہمارے رب (دجال) پر ایمان رکھتا ہے؟ تو بندہ مومن جواب دے گا: میرا رب مجھ پرمخفی نہیں ہے۔ تو وہ کہیں گے کہ اسے قتل کر دو۔ تو ان میں سے ایک دوسرے سے کہے گا : کیا تمہارے رب (دجال) نے تمہیں منع نہیں کیا ہے کہ تم اس کی اجازت کے بغیر کسی کو قتل کرو۔ پس وہ اس شخص کو لے کر دجال کی طرف جائیں گے۔'
اگر تو دجال کے پاس انوکھی صفات نہیں ہوں گی اور وہ ان کی بنا پر رب ہونے کا دعوی بھی نہیں کرے گا تواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں کہا کہ اگر تمہیں اس کے رب ہونے کے بارے شبہ ہو جائے تو جان لو کہ تمہارا رب کانا نہیں ہے؟'' بلاشبہ مسیح دجال ایک چھوٹے قدکا شخص ہو گا۔ چوڑی ٹانگوں والا، گھونگھریالے بالوں والا،مٹی ہوئی آنکھ کے ساتھ کانا ہوگا جبکہ اس کی وہ آنکھ نہ تو ابھری ہوئی ہو گی اور نہ ہی گہری ہو گی۔پس اگر تمہیں اس کے بارے شبہ ہو جائے تو جان لو کہ تمہارا رب کانا نہیں ہے۔''
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:'' حقیقت یہ ہے کہ مسیح کی آمد سے مراد مسیح کے رول کی آمد ہے، یعنی دور آخر میں جب کہ دجال ظاہر ہو گا، اس وقت امت محمدی کا کوئی شخص اٹھے گا اور مسیح جیسا رول ادا کرتے ہوئے دجال کے فتنوں کا مقابلہ کرے گا اور اس کو شکست دے گا۔ حدیث میں قتل دجال کا ذکر ہے۔ اس سے مراد دجال کا جسمانی قتل نہیں ہے، بلکہ دجال کے فتنے کو بذریعہ دلائل قتل کرنا ہے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٤٦)
' قتل دجال کے بارے میں ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ابن ماجہ کے الفاظ یہ ہیں : فاذا نظر الیہ الدجال ذاب کما یذوب الملح فی الماء، وینطلق ھاربا، ویقول عیسی ان لی فیک ضربة لن تسبقنی بھا۔(کتاب الفتن، باب ذکر الدجال) یعنی دجال جب مسیح کو دیکھے گا، تو وہ اس طرح گھلنے لگے گا جیسے کہ نمک پانی میں گھلتا ہے، اور وہاں سے بھاگنا شروع کر دے گا۔ مسیح کہیں گے کہ میرے پاس تیرے لیے ایک ایسی ضرب ہے جس سے بچنا ہر گز تیرے لیے ممکن نہیں۔ اس روایت میں جو بات کہی گئی ہے ، وہ تمثیل کی زبان میں ہے۔ اس پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دجال کے مقابلے میں جو واقعہ پیش آئے گا، وہ یہ ہے کہ مسیح اس کے دجل کا علمی تجزیہ کر کے اس کو ایکسپوز کر دیں گے۔ اس طرح وہ دلائل کے ذریعے دجال کو بے نقاب کر دیں گے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص ٥٣)
اس روایت میں دجال کو تلاش کر کے ہلاک کرنے کا ذکر ہے جو شخص دجال کے قتل کی صراحت کرتا ہے۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:'' دجال کا خروج میری امت میں ہو گا اور وہ چالیس تک رہے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ اب میرے علم میں یہ نہیں ہے کہ چالیس سے مراد چالیس دن ہیں یا چالیس ماہ یا چالیس سال۔ پس اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمائیں گے گویا کہ وہ عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ پس وہ دجال کو تلاش کریں گے اور اس کو ہلاک کریں گے۔''
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔(صحیح الترمذی : ٢٢٤٤)''عیسیٰ بن مریم علیہ السلام دجال کو 'باب لُد' (اسرائیل میں ایک مقام کا نام) پر قتل کریں گے۔''
اسی طرح بعض روایات میں مذکور ہے کہ مدینہ میں ایک شخص ابن صیاد کے بارے بعض صفات کی بنا پر یہ تاثر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم میں پھیل گیا کہ وہ دجال ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے قتل کی اجازت چاہی:'' گویا کہ میں دجال کو عبد العزی بن قطن کے ساتھ مشابہت دے رہا ہوں۔''
قابل غور نقطہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کو دجال سمجھ کر قتل کرنے کی اجازت کے حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ نہیں فرمایا کہ قتل دجال کا مطلب کسی شخص کو قتل کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو نظریے کا بذریعہ استدلال، ذہنی قتل ہے۔ بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف اشارہ کیا کہ اگر تو یہ وہی دجال ہے جس کا آخری زمانے میں ظہور ہونا ہے تو اس کو قتل کرنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقدر ہے۔'' حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑا دوں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ ابن صیاد وہی دجال ہے تو تُو ہر گز اس پر قابو نہ پا سکے گا اور اگر یہ دجال نہیں ہے تو اس کے قتل میں تیرے لیے کوئی خیر کا پہلو نہیں ہے۔''