بعض سوالات واشکالات ان کی علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی، اچھی طرح معلوم ہے کہ اس قسم کے بحث و مباحثہ میں صبر کرنا مشکل ہوجاتا ہے، لیکن یہ سوچ کر جواب دے دینا چاہیے کہ اس قسم کے لاعلمی اور جہل اور پتہ نہیں کتنے لوگوں کے ذہن میں پنپ رہا ہوگا۔
تدلیس کا مطلب ہوتا ہے کہ راوی اپنے ایسے شیخ سے جس سے اس نے احادیث سنی ہوئی ہوں، ایسی احادیث بھی بیان کردے جو اس نے نہیں سنی ہوئی۔ لہذا جن راویوں کے بارے میں یہ الزام ہے، ان کا اپنے شیخ سے ہر ہر حدیث میں سماعت کی تصریح کا ہونا ضروری ہے۔
البتہ صحیحین کو اس قاعدے سے استثنا دیا گیا ہے، اس وجہ سے کہ بخاری ومسلم اس قسم کی روایات میں سے وہی رواتیں اپنی کتاب میں لیتے تھے، جن کی تصریح بالسماع ان کے علم میں ہوتی تھی، گو وہ ہمیں معلوم نہ ہوسکی۔
دیگر کتابوں کا یہ معاملہ نہیں ہے۔
اور یہ باتیں ایسی ہیں کہ اصول حدیث کا علم رکھنے والے تمام لوگوں کو ہی معلوم ہیں، چاہے وہ کسی مسلک و مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔
جب مدلس راوی کا سماع اپنے استاد راوی سے ثابت ہو گیا تو اب صحیحین کی تحدید کس دلیل سے رہی؟
وہی مدلس راوی اپنے اسی استاد راوی سے روایت کرے تو دوسری کتب میں وہ سماع پر محمول کس دلیل سے نا ہوگی؟
تدلیس والی جس حدیث کو آپ صحیح کہنا چاہتے ہیں، وہ صحیحین سے ثابت کردیں تو پھر تو تدلیس والی بات ختم ہوجائے گی۔
لیکن اگر وہ روایت صحیحین میں نہ ہو، صرف کسی اور روایت کی سند دیکھ کر اس قسم کی جاہلانہ باتیں اور پھر ان پر اصرار مناسب نہیں۔