• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مومن کی حرمت کعبہ سے زیادہ عظیم ہے

شمولیت
جنوری 13، 2013
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
64
مومن کی حرمت کعبہ سے زیادہ عظیم ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: الطاف الرحمن ابوالکلام سلفی

اسلام انسان كے ہر پوشیدہ اعمال کو راز میں رکھنے کی تلقین کرتا ہے، راز کی باتوں کو افشا کرنے اور پھیلانے کی سخت مذمت وارد ہوئی ہے، جو دوسروں کے راز کی حفاظت کرتا ہے اس کے لئے بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "[صحیح مسلم: 2699] اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کے عیب چھپائے گا۔
یعنی جو شخص دوسروں کی برائیاں بیان کرنے کے بجائے اپنے دل میں ہی دفن کرجاتا ہے، اللہ روز قیامت اس کے عیوب اور گناہوں پر پردہ ڈالے گا ، لوگوں کے سامنے اس کے گناہوں کا تذکرہ نہیں کرے گا، بلکہ اسے در گزر فرمادے گا۔
صحابہ کرام راز کی باتوں کو کس طرح راز ہی میں رہنے دیتے تھے اس کی ایک مثال پیش ہے: انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سلام کیا پھر مجھے کسی کام کے لئے بھیجا ، میں اپنی والدہ کے پاس دیر سے گیا جب میں ان کے پاس پہنچا تو اس نے کہا تم نے آنے میں تاخیر کیوں کی؟ میں نے کہا مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کسی کام کے لئے بھیج دیا تھا انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا کام تھا میں نے کہا وہ راز کی بات ہے ، سو ان کی ماں نے کہا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو کسی سے بھی بیان نہ کرنا، انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم اگر میں وہ بات کسی سے بیان کرتا تو اے ثابت! تجھ سے بیان کر دیتا۔ [صحیح مسلم:2482]
شریعت نے ہر ایسی چیز کو حرام قرار دے دیا جو مسلمان کے ذاتی راز کو افشا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ یعنی ایک مسلمان کا کسی مسلمان کی پرسنل باتوں یا اعمال کو برے ارداہ سے جاننے کے لئے جاسوسی کرنا ، چھپ کر اس کے عیوب تلاش کرنا ، ٹوہ میں پڑے رہنا وغیرہ سب حرام ہیں۔
رب العزت کا فرمان ہے: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ} [الحجرات: 12] اے ایمان والو ! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں، اور بھید نہ ٹٹولا کرو، اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے ، کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ تم کو اس سے گھن آئے گی ، اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " مَنْ اِطَّلَعَ فِي بَيْت قَوْم بِغَيْرِ إِذْنهمْ فَقَدْ حَلَّ لَهُمْ أَنْ يَفْقَئُوا عَيْنه " [صحیح مسلم: 2158] جو کسی کے گھر کی طرف بغیر ان کی اجازت کے جھانکے تو ان کے لئے اس کی آنکھیں پھوڑ دینا جائز ہے۔
ایک دوسری روایت میں ذرا صراحت کے ساتھ ذکر ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " مَنْ اِطَّلَعَ فِي بَيْت قَوْم بِغَيْرِ إِذْنهمْ فَفَقَئُوا عَيْنه فَلا دِيَة وَلا قِصَاص " [ صحیح نسائی :4875 البانی نے صحیح قرار دیا ہے] جو بغیر اجازت کسی گھر کی طرف جھانکے اور گھر والے اس کی آنکھیں پھوڑ دیں تو ان پر نہ تو کوئی دیت ہے اور نا ہی کوئی قصاص (بدلہ)۔
اسی طرح گھر سے باہر جو کسی کی آپسی باتوں کو سننے کی کوشش کرتا ہے اس کے لئے بڑی سخت وعید وارد ہوئی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ۔۔۔۔ وَمَنْ اسْتَمَعَ إِلَى حَدِيثِ قَوْمٍ وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ أَوْ يَفِرُّونَ مِنْهُ صُبَّ فِي أُذُنِهِ الآنُكُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " [صحیح بخاری: 7042] اور جس نے كسى قوم كى بات چيت سنى اور وہ اسے ناپسند كرتے ہوں يا اس سے بھاگتے ہوں تو روز قيامت اس كے كانوں ميں پگھلايا ہوا سكہ ڈالا جائے گا.
ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے چاہے وہ مرد یا عورت کہ جب اس کا ساتھی اسے اپنا محسن اور رازداں سمجھ کر کوئی بات بیان کردے تو اسے اس کی حفاظت کرنی چاہئے ، یہ بہت بڑی امانت ہے ، چاہے بیان کرنے والا یہ کہے یا نا کہے کہ یہ راز کی بات ہے کسی کو بتانا نہیں !!، کیونکہ انسان کو اللہ نے عقل دی ہے وہ اپنے ساتھی کی بات کس نوعیت کی ہے سمجھ سکتا ہے، بالخصوص جب وہ کوئی بات چوکنا ہوکر بولے کہ کہیں کوئی دوسرا نہ سن لے۔ اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " إِذَا حَدَّثَ الرَّجُلُ الْحَدِيثَ ثُمَّ الْتَفَتَ فَهِيَ أَمَانَةٌ " [ صحيح الترمذي : 1959 البانی نے حسن قرار دیا ہے ] ”جب کوئی آدمی تم سے کوئی بات بیان کرے پھر (اسے راز میں رکھنے کے لیے) دائیں بائیں مڑ کر دیکھے (کہ کوئی سن تو نہیں رہا) تو وہ بات تمہارے پاس امانت ہے۔
اور امانت کی حفاظت مسلمان کی واجبی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ} [ الأنفال:27] اے ایمان والو ! تم اللہ اور رسول (کے حقوق) میں جانتے ہوئے خیانت مت کرو ، اور اپنی قابل حفاظت چیزوں میں بھی خیانت مت کرو۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِذَا ضُيِّعَتِ الأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ» [صحیح بخاری:6496] جب امانت ضائع کرنے کا رواج عام ہوجائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔
⚫ عزیز قارئین! یاد رہے اپنے مسلمان بھائی کا کوئی راز یا عیب دوسروں کو بیان کرنا غیبت شمار ہوتا یے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کرنے والوں کا انجام بتاتے ہوئے فرمایا: «لَا يَدْخُلُ الجَنَّةَ قَتَّاتٌ» [صحیح بخاری: 6056] جنت میں چغل خور نہیں جائے گا ۔
واضح رہے کہ ہر وہ بات غیبت ہے جس کا ذکر آپ کا بھائی نا پسند کرے اور وہ بات آپ نے بغیر شرعی مصلحت کے ذکر کی ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ذكرُكَ أخاكَ بما يكرهُ " [ صحيح مسلم: 2589] اپنے بھائی کے بارے میں ایسی بات بیان کرنا غیبت ہے جسے وہ نا پسند کرتا ہو ۔
یہ سارے احکام اس لئے ہیں کیونکہ شریعت میں مسلمان کی عزت و ناموس بہت قیمتی چیز ہے۔
عزت و ناموس کی حفاظت ان پانچ ضروری امور میں سے ہے جس کے حفاظت کی اسلام نے مسلمانوں سے ضمانت لی ہے، اور یہ اسلام کے طرہ امتیاز میں سے ہے ، وہ پانچ ضروری امور یہ ہیں: 1۔ دین کی حفاظت۔ 2۔ نفس وجان کی حفاظت۔ 3۔ نسل کی حفاظت ۔ 4۔ عزت و آبرو کی حفاظت ۔ 5۔ عقل کی حفاظت ۔
عزت و آبرو کی حفاظت کی ایک مثال یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کسی پاک دامن عورت پر تہمت لگانے والوں سے چار گواہ طلب کی ہے ، جبکہ دوسرے امور میں دو گواہوں کی طلب ہے مگر چونکہ یہ مسئلہ عزت و آبرو کی حفاظت کا ہے اس لئے اسلام نے اس کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے پوری حفاظتی سیکورٹی دی ہے اور تہمت لگانے والوں سے چار گواہ طلب فرمایا ہے ، پیش نہ کر پانے کی صورت میں 80 کوڑے مارنے کا حکم ہے،( جبکہ دوسرے امور میں گواہ حاضر نا کر پانے کی صورت میں کوئی سزا مقرر نہیں ہے) ۔ اللہ تعالی نے فرمایا: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاء فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ} [ النور : 4ـ5] جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاو اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو یہ لوگ فاسق ہیں۔
ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مَنْ قَذَفَ مَمْلُوكَهُ بِالزِّنَا، يُقَامُ عَلَيْهِ الْحَدُّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ كَمَا قَالَ [صحیح مسلم: 1660] "جس نے اپنے غلام پر زنا کی تہمت لگائی اسے قیامت کے دن حد لگائی جائے گی، الا یہ کہ وہ (غلام) ویسا ہی ہو جیسا اس نے کہا ہے۔
کسی شخص کا اسلام میں داخل ہوجانے کے بعد مسلمان پر اس کا خون ، مال اور عزت و آبرو سب حرام ہوجاتا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ»[مسلم: 2564] "کسی آدمی کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے، ہر مسلمان پر (دوسرے) مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہیں۔"
یہ سب کے سب کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔
حتی کہ علماء نے دلائل کی روشنی میں یہاں تک کہا یے کہ : "شرک" اور "قتل" کے بعد سب سے بڑا گناہ یہی ہے کہ کسی مسلمان کی عزت و آبرو کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " الربا اثنان وسبعون باباً، أدناه مثل إتيان الرجل أمه، وإن أربى الربا استطالة الرجل في عرض أخيه " [ السلسلة الصحيحة : 1871 البانی نے کہا ہے: تمام طرق کو جمع کرنے بعد یہ حدیث صحیح ہوجاتی ہے ] سود خوری کا گناہ ستر درجہ ہے ، اس کا معمولی درجہ کا گناہ اپنے ماں کے ساتھ زنا کرنے جیسا ہے ۔ اور سب سے بڑا سود اپنے مسلمان بھائی کی عزت و ناموس سے کھلواڑ کرنا ہے ۔

معلوم ہوا کسی مسلمان کو گالی دینا ، اس کی غیبت کرنا ، اور تہمت لگانا وغیرہ جس سے اس کی عزت و آبرو پر آنچ آتی ہو زنا سے بڑھ کر گناہ ہے، بلکہ ماں سے یا اپنے محارم سے کئے گئے زنا سے بھی بڑا گناہ ہے۔
ہرچند اسلام میں جب مسلمان کے راز کو افشاء کرنے ِ غیبت کرنے اور اس کے عزت و ناموس کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی اتنی دردناک سزا ہے ، تو آخر تہمت زنی کا انجام کتنا درد ناک ہوگا۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:َ " مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُهُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ, فَقَدْ ضَادَّ اللَّهَ، وَمَنْ خَاصَمَ فِي بَاطِلٍ وَهُوَ يَعْلَمُهُ, لَمْ يَزَلْ فِي سَخَطِ اللَّهِ حَتَّى يَنْزِعَ عَنْهُ، وَمَنْ قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ, أَسْكَنَهُ اللَّهُ رَدْغَةَ الْخَبَالِ، حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ [صحیح ابو داود: 3579 البانی نے صحیح قرار دیا ہے] ” جس شخص کی سفارش اللہ کی کسی حد کی تنفیذ میں آڑے آئی ، اس نے اﷲ کی مخالفت کی اور جس نے جانتے بوجھتے باطل ( کی حمایت ) میں جھگڑا کیا تو وہ اﷲ کی ناراضی میں رہے گا حتیٰ کہ اس سے باز آ جائے اور جس نے کسی مومن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جو اس میں نہیں تھی تو اﷲ اسے جہنمیوں سے نکلے ہوئے خون اور پیپ میں ڈالے گا ( وہ اسی کا مستحق رہے گا ) حتیٰ کہ اپنی بات سے باز آ جائے ۔

❔افسوس کہ آج لوگ اتنے بڑے گناہ کو عام معمول بنا لئے ہیں ، کسی کہ عزت و آبرو کی دھجیاں اڑانا ہر مجلس کا فاکہۃ (میوہ) بن گیا ہے ، جاہل تو جاہل آج کے علماء نے بھی اسے اپنا شیوہ بنا لیا ہے ، مجلات و مضامین قسط وار کسی
مسلمان عالم ہو یا غیر عالم کی فضیلحت میں شائع ہوتے ہیں۔ مقصد کیا ہے؟ اللہ ہی بہتر جانے ۔ لیکن یہ واضح ہے کہ اس طرح کا اقدام کسی صورت اصلاحی نہیں ہوسکتا۔
کیونکہ افواہیں اڑانا ، مسلمان بھائی کے عیوب تلاشنا، سامنے والے کے غلطیوں کی شرعی اصلاح کے بجائے اس کو سر عام رسوا کرنا، افواہوں اور بے بنیاد باتوں پر بھروسہ کرکے اتہام ولعن طعن کا ایک نیا دستور لکھنا ، وغیرہ سطحی اعمال کم سے کم اصلاحی اقدامات نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ یہ سب منافقانہ اوصاف ہیں ۔ منافق اپنی ساری انرجی اہل اسلام کے عیوب ڈھونڈھنے میں صرف کرتا ہے تاکہ انہیں رسوا کرکے خود عوام میں پارسا بن جائے ، کیونکہ اس کے یہاں کوئی خوبی تو ہوتی نہیں کہ جس سے سماج میں معتبر مانا جائے، سو اسی تنکہ کے سہارے کچھ حاصل کر کے خوش رہتا ہے ۔
کیا اسلام نے ہمیں امر بالمعروف والنھی عن المنکر کا یہی طریقہ سکھایا ہے جسے باعث فخر سمجھ رہے ہیں؟ اور یہ اصول ہم نے کہاں سے اخذ کئے ؟ کس اصول نے ہمیں محض ظن و تخمین اور سنی سنائی باتوں کو حقیقت کا روپ دے کر فضیحت کا بازار گرم کرنے کی تعلیم دی؟
یہ منافقانہ اور جاہلانہ طرز عمل کب سے ہم طالب عالموں اور عالموں نے اپنا لیا؟ کسی مسلمان کی جان بوجھ کر یا انجانے میں کی گئی غلطی کو عوام الناس میں عام کرنے کا جواز ہمیں کس نے فراہم کیا ؟ اور بتائیں تو سہی ہم اس سے کس خوش آئندہ نتیجہ کی امید رکھتے ہیں؟ یہی نا کہ لوگ مزید برائی پر جرات دکھانے لگیں؟ اپنے سابقہ رہنماؤں کی غلطیوں کو برائی میں دلیل بنایا جائے؟ عوام کو یہ سبق پڑھایا جائے کہ جب ہمارے بڑے علماء ایسا کرتے ہیں تو ہم کیوں نا کریں؟ جذباتی عوام کو یہ تصور دیا جائے کہ جیسے ہم افواہوں پر بھروسہ کرکے یا حقیقت پر بھروسہ کرکے علماء کی شرعی اصلاح کے بجائے سر عام ان کی ناقدری کرتے ہیں، ان کی عزت کی دھجیاں اڑاتے ہیں تو تم کیوں پیچھے ہو؟ جیسا کہ اس کا نتیجہ ہم سامنے دیکھ رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ کسی مزید بہتر فائدہ کی امید رکھنا پاگل پن کے سوا کچھ نہیں۔ دین اسلام بھی جمہوری نظام کا حامل ہے کیا؟ کہ ہم نے بھی آپسی باتوں کو لے کر احتجاجات و مظاہرے کرنے شروع کردئے؟ عوامی اور سطحی ذہن کے لوگوں کا یہ عمل آخر کب تک چلے گا ۔
ہمیں کون سی ہوا لگ گئی ہے کہ جس مہم کو دشمنان اسلام نے شروع کیا تھا آج ہم خود اس کے مشرف و مدیر بن گئے۔ اسلامی مدارس و علماء کو کبھی انہوں نے نشانہ بنایا تھا تاکہ دنیا کے سامنے انہیں ذلیل و رسوا بنا کر چھوڑے ، جسے آج ہم پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد کر رہے ہیں۔ کیا ایک سچے مسلمان ، اور عالم کی یہی نشانی ہے ؟
اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ اور فکر سلیم سے نوازے۔ آمین

دین اسلام علی الاعلان گناہ کرنے کو گناہ عظیم قرار دیا ہے،(اور چھپے ہوئے گناہ کو ظاہر کرنا یا اس کا سبب بننا بھی اسی درجہ میں ہے) لیکن جو چھپ کر کیا گیا گناہ ہے اللہ نے اسے اپنے پردہ میں رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔ سو جو کسی مسلمان کی غلطی اور گناہ کو لوگوں کے سامنے عام کرکے اس کی رسوائی کا سامان فراہم کرتا ہے اس کے بارے میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث کافی ہے ، کہ رسول اللہﷺ منبرپر تشریف لائے ، بلندآواز سے پکارا اور فرمایا: " يَا مَعْشَرَ مَنْ أَسْلَمَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يُفْضِ الْإِيمَانُ إِلَى قَلْبِهِ لَا تُؤْذُوا الْمُسْلِمِينَ وَلَا تُعَيِّرُوهُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ فَإِنَّهُ مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِهِ قَالَ وَنَظَرَ ابْنُ عُمَرَ يَوْمًا إِلَى الْبَيْتِ أَوْ إِلَى الْكَعْبَةِ فَقَالَ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَةً عِنْدَ اللَّهِ مِنْكِ [صحیح ترمذی: 2023 البانی نے حسن کہا ہے] اے اسلام لانے والے زبانی لوگوں کی جماعت! جن کے دلوں تک ایمان کما حقہ نہیں پہنچاہے! مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عارمت دلاؤ اوران کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھونڈتا ہے ، اوراللہ تعالیٰ جس کے عیب ڈھونڈتاہے ، اسے رسوا وذلیل کردیتا ہے،اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندرہو' ۔ راوی (نافع)کہتے ہیں: ایک دن ابن عمر رضی اللہ عنہما نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کر کہا:کعبہ! تم کتنی عظمت والے ہو ! اورتمہاری حرمت کتنی عظیم ہے، لیکن اللہ کی نظرمیں مومن (کامل) کی حرمت تجھ سے زیادہ عظیم ہے۔
⭕عزیز قارئین! وقت کی قدر کریں ، اسے نیک اعمال میں صرف کریں ، اللہ نے ہمیں لکھنے یا بولنے کی صلاحیت دی یے تو دین کی صحیح نشرو اشاعت کرکے توشہ آخرت بنا لیں ، یہی ہمارے کام آنے والا ہے ، باقی کف افسوس کے سوا کچھ نہیں۔ یاد رہے کہ دینی علوم کی نشر اشاعت کرنے والے مرنے کے بعد بھی ہمیشہ زندہ رہے ہیں اور رہیں گے، کیونکہ اللہ کا وعدہ برحق ہے: {إن تنصروالله ينصركم ويثبت أقدامكم} اگر تم اللہ کی مدد کرو گے( اس کے دین کی مدد کرکے) تو وہ تمہاری بھی مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم کردے گا۔ لیکن سیاسی یا تفریحی اور دوسرے کی فضیحت اور رسوائی وغیرہ میں لکھے گئے مضامین وقتی طور پر سراہے جاتے ہیں، وہ بھی جاہلوں اور غیر سنجیدہ لوگوں کے یہاں، پھر صاحب مضمون کا وجود بے برکتی کا شکار ہوکر ختم ہوجاتا ہے ۔
 
Top