عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
فکر ونظر
(ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)
مِصر جبر وتشدد اور آزمائش کی راہ پر!
جمہوریت کے ذریعے غلبہ اسلام ؟ قابل غور پہلو اور مستقبل کے ملّی امکانات
سرزمینِ اسلام مِصر میں دو ماه سے آگ وخون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔اسلامی جماعتوں کی واضح اکثریت پر مشتمل جمہوری حکومت جس میں صدارت کے منصب پر اخوان المسلمین کے ڈاکٹر محمد مرسی فائز تھے، کی جبری معزولی وگرفتاری پر قتل وغارت کا یہ سلسلہ شروع ہوا۔ قاہرہ کا 'التحریرسکوائر' سیکولر اور آزادمنش مصریوں نے سنبھال رکھا ہے جبکہ 27 جون سے قاہرہ میں رابعہ عدویہ کی مرکزی مسجدوملحقہ میدان میں اسلامی کارکن ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ اڑتالیس گھنٹے کے نوٹس پر کہ صدر مرسی کو اپنے مخالفین کو مطمئن کرنا چاہئے، تین جولائی 2013ء کومصری وزیر دفاع اور آرمی چیف جنرل عبد الفتاح سیسی نے زمامِ حکومت پر قبضہ جما لیا۔72 فیصد نشستیں رکھنے والی ایک سالہ جمہوری حکومت پر اس کے سوا کوئی الزام نہیں دیا جاسکا کہ مصر میں معاشی ترقی میں کمی آئی ہے اور قوم کو [سیکولر حلقوں کے مطابق]تقسیم کیا جارہا ہے۔دوسری طرف مصری حکومت کی مفاہمانہ پالیسیوں کا یہ عالم ہے کہ اخوانی اور سلفی جماعتوں کی واضح اکثریت کے باوجود 52 فیصد وزارتیں اُنہوں نے اپوزیشن میں تقسیم کیں۔ تاہم شراب نوشی، جسم فروشی،سرعام بوس وکنار اور نائٹ کلبوں پرپابندیاں لگائی گئیں اور سب سے بڑھ کراسرائیل کے ہاتھوں بے موت مارے جانے والے فلسطینی علاقے غزہ کا راستہ اُنہوں نے مصر سے کھول کر یہودی لابی کو اپنے مخالف کرلیا اور مصری معاشرہ کو درجہ بدرجہ اسلام کی سمت بڑھانا شروع کردیا۔ مستقبل میں مرسی حکومت کی پیش قدمی اسلامی طرزِ حکمرانی کی ایک نمایاں مثال پیش کرتی دکھائی دی اورمغربی حکومتوں کو افغانستان کی طرح اپنے مفاد ات پر کاری ضرب لگنے کا قوی اندیشہ لاحق ہوا تو اُنہوں نے پہلے ہی مرحلہ میں فوج کو استعمال کرلیا۔
مصری فوج کی حالیہ تمام تر کاروائی پہلے سے طے شدہ اسرائیلی خفیہ اداروں سے ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔اسرائیل کے معروف تجزیہ کار رونی وائیل کے بقول جنرل سیسی نے فوجی بغاوت کے مراحل پرموساد سمیت اسرائیل کے عسکری اور سٹرٹیجک ماہرین سے مشاورت کی ہے۔ ترک وزیر اعظم رجب طیب اُردگان نے بھی کہا ہے کہ اُن کے پاس اس اَمر کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ مصر میں فوجی بغاوت کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے۔اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی ایک رپورٹ کے مطابق جنرل فتح نے صدر مرسی کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں حماس کے مسلح رد عمل کی صورت میں اسرائیلی وزیر اعظم سے حماس کے خلاف محاذ کھولنے کی ضمانت حاصل کرلی تھی۔ 24 جون 2013ء کو فوج کی طرف سے سال بھر کا پہلا سخت پیغام صدر مرسی کے نام یہ تھا کہ فوج ملک میں جاری بے چینی پر خاموش نہیں رہے گی۔ اس وارننگ کے ٹھیک نو دن کے بعد فوج نے پہلے ہی ہلے میں منتخب صدر مرسی کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا، اُن پر مصری فوج کے خلاف فلسطینی تنظیم حماس سے ساز باز کا الزام لگایا گیا اور اب ایک ایک ماہ کے وقفے سے اُن کی حراست کے دورانیے کو طویل کیا جارہا ہے۔
صدر مرسی نے عدلیہ میں فوجی آمرحُسنی مبارک کے حامی جج سیکولر حضرات کی اکثریت پر قابو پانے کیلئے اپریل کے مہینے میں جج حضرات کی ریٹائرمنٹ کی عمر 70 سے کم کرکے 60برس کردی تھی، عدلیہ تو پہلے ہی مرسی کے لئے مشکل فیصلے صادر کررہی تھی، اس فیصلے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ یاد رہے کہ مصری سپریم کورٹ نے گذشتہ سال صدر مرسی کی صدارت کے دوسرے ہی مہینے اس پارلیمنٹ کو معطّل قرار دے دیا تھا جس میں اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے 44 فیصد اور سلفی النور پارٹی کے منتخب ارکان 24 فیصد تھے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو اُنہی دنوں صدر مرسی نے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کالعدم کر دیا تھا۔
جنرل عبد الفتاح سیسی نے عدلیہ کے گٹھ جوڑسے منتخب جمہوریت پرجو شب خون مارا ہے، اس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ آئین سے قوت پانے اور اس کو تحفظ دینے والی عدلیہ کے سربراہ جسٹس عدلی منصور کو اُس بغاوت کا عبوری صدرچنا گیا ہے جس نے سب سے پہلا قدم آئین کو معطل کرکے اُٹھایا۔3 جولائی کے غاصبانہ تسلط کے بعد مصر کے عوام مُصر ہیں کہ صدر مرسی ہی آئینی صدر ہیں،اور اُنہیں اس کے سوا کوئی اور حکمران قبول نہیں، مرسی نے بھی منصب سے عزل کو ردّ کردیا ہے، اس کے لئے مصری غاصب حکومت ہر طرح کے حیلے بہانے اختیار کررہی ہے۔ملحد آمرحسنی مبارک کا دور واپس آگیا ہے،اُس سے سزاؤں کو ختم کیا جارہا اور اُس کے مخالفین پر راستے بند کئے جارہے ہیں۔