کتاب الایمان
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی تشریح سے متعلق ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے
وهو قول وفعل، ويزيد وينقص. قال الله تعالى {ليزدادوا إيمانا مع إيمانهم}. {وزدناهم هدى} {ويزيد الله الذين اهتدوا هدى} {والذين اهتدوا زادهم هدى وآتاهم تقواهم} {ويزداد الذين آمنوا إيمانا} وقوله {أيكم زادته هذه إيمانا فأما الذين آمنوا فزادتهم إيمانا}. وقوله جل ذكره {فاخشوهم فزادهم إيمانا}. وقوله تعالى {وما زادهم إلا إيمانا وتسليما}. والحب في الله والبغض في الله من الإيمان. وكتب عمر بن عبد العزيز إلى عدي بن عدي إن للإيمان فرائض وشرائع وحدودا وسننا، فمن استكملها استكمل الإيمان، ومن لم يستكملها لم يستكمل الإيمان، فإن أعش فسأبينها لكم حتى تعملوا بها، وإن أمت فما أنا على صحبتكم بحريص.
اور ایمان کا تعلق قول اور فعل ہر دو سے ہے اور وہ بڑھتا ہے اور گھٹتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
“ تاکہ ان کے پہلے ایمان کے ساتھ ایمان میں اور زیادتی ہو۔ ” ( سورہ فتح : 4 ) اور فرمایا کہ
ہم نے ان کو ہدایت میں اور زیادہ بڑھا دیا ( سورہ کہف : 13 ) اور فرمایا کہ
جو لوگ سیدھی راہ پر ہیں ان کو اللہ اور ہدایت دیتا ہے ( سورہ مریم : 76 ) اور فرمایا کہ
جو لوگ ہدایت پر ہیں اللہ نے اور زیادہ ہدایت دی اور ان کو پرہیزگاری عطا فرمائی ( سورہ محمد :17 ) اور فرمایا کہ
جو لوگ ایماندار ہیں ان کا ایمان اور زیادہ ہوا ( سورہ مدثر : 31 ) اور فرمایا کہ
اس سورہ نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا دیا؟ فی الواقع جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا ایمان اور زیادہ ہو گیا ( سورہ توبہ : 124 ) اور فرمایا کہ
منافقوں نے مومنوں سے کہا کہ تمہاری بربادی کے لیے لوگ بکثرت جمع ہو رہے ہیں، ان کا خوف کرو۔ پس یہ بات سن کر ایمان والوں کا ایمان اور بڑھ گیا اور ان کے منہ سے یہی نکلا حسبنا اللہ ونعم الوکیل ( سورہ آل عمران :173 ) اور فرمایا کہ
ان کا اور کچھ نہیں بڑھا، ہاں ایمان اور اطاعت کا شیوہ ضرور بڑھ گیا۔ ( سورہ احزاب : 22 ) اور حدیث میں وارد ہوا کہ اللہ کی راہ میں محبت رکھنا اور اللہ ہی کے لیے کسی سے دشمنی کرنا ایمان میں داخل ہے ( رواہ ابوداود عن ابی امامہ ) اور خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عدی بن عدی کو لکھا تھا کہ ایمان کے اندر کتنے ہی فرائض اور عقائد ہیں۔
حضرت عمربن عبدالعزیز بن مروان اموی قرشی خلفائے راشدین میں خلیفہ خامس ہیں جن کو مطابق حدیث مجدد اسلام میں پہلا مجدد تسلیم کیا گیا ہے۔ آپ 99ھ میں مسندخلافت پر اس وقت متمکن ہوئے کہ بنوامیہ کے دورخلافت نے ہرچہار اطراف میں مظالم و مفاسد کا دروازہ کھول رکھا تھا۔ آپ نے گدی نشین ہوتے ہی جملہ مظالم کا خاتمہ کرکے شیروبکری کو ایک گھاٹ پر جمع فرمادیا۔ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ایک دن چروا ہے نے شور کیا۔ اس سے وجہ دریافت کی گئی تو اس نے آہ بھر کر کہا کہ خلیفہ وقت حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا آج انتقال ہو گیا ہے اسی لیے میں دیکھ رہا ہوں کہ بھیڑیے نے میری بکری پر حملہ کردیا۔ تحقیق کی گئی تو جو وقت بھیڑیے کے بکری پر حملہ کرنے کا تھا وہی وقت حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ خامس راشد کے انتقال کا تھا۔
آپ کا سن وفات101ھ ہے۔ آپ نے اپنی خلافت کے قلیل عرصہ میں اسلام اور ملت کی وہ تعمیری خدمات انجام دی ہیں جو رہتی دنیا تک یادگار رہیں گی۔ احادیث نبوی ( فداہ روحی ) کی جمع وترتیب کے لیے آپ نے ایک منظم اقدام فرمایا۔ بعد میں جو کچھ اس فن شریف میں ترقیاں ہوئیں وہ سب آپ ہی کی مساعی جمیلہ کے نتائج ہیں۔ آپ نے اپنے دورحکومت میں بنوامیہ کی وہ جائیدادیں بحق بیت المال ضبط کرلیں جوانھوں نے ناجائز طریقوں سے حاصل کی تھیں اور وہ جملہ اعلیٰ سامان بھی بیت المال میں داخل کردئیے جو لوگوں نے ظلم وجور کی بنا پر جمع کئے تھے۔ حتیٰ کہ ایک دن اپنی اہلیہ محترمہ کے گلے میں ایک قیمتی ہاردیکھ کر فرمایاکہ تم بھی اسے بیت المال کے حوالہ کردو۔وہ کہنے لگیں کہ یہ تو مجھ کو میرے باپ عبدالملک بن مروان نے دیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میرا فیصلہ اٹل ہے اگر میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو۔ چنانچہ اطاعت شعارنیک خاتون نے خود ہی اپنا وہ ہار بھی بیت المال میں داخل کردیا۔
ایک دفعہ ایک خواب دیکھنے والے نے آپ کو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے حد قریب د یکھا حتیٰ کہ سیدنا ابوبکر صدیق حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ قریب دیکھا دریافت کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدیق رضی اللہ عنہ وفاروق رضی اللہ عنہ نے ایسے وقتوں میں انصاف سے حکومت کی جب کہ وہ انصاف ہی کا دور تھا اور عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ایسے وقت میں انصاف کو پھیلایا جب کہ انصاف کا دور دورہ بالکل ختم ہوچکا تھا۔ حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ اپنے دور خلافت میں ہررات سجدہ ریزرہتے اور رو رو کر دعا کرتے کہ خداوند قدوس! اے قادر قیوم مولا! جو ذمہ داری تونے مجھ پر ڈالی ہے اس کو پورا کرنے کی بھی توفیق فرما کہتے ہیں کہ بنوامیہ میں سے کسی ظالم نے آپ کو زہرکھلا دیا تھا، یہی آپ کی وفات کا سبب ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
وقال إبراهيم {ولكن ليطمئن قلبي}. وقال معاذ اجلس بنا نؤمن ساعة. وقال ابن مسعود اليقين الإيمان كله. وقال ابن عمر لا يبلغ العبد حقيقة التقوى حتى يدع ما حاك في الصدر. وقال مجاهد {شرع لكم} أوصيناك يا محمد وإياه دينا واحدا. وقال ابن عباس {شرعة ومنهاجا} سبيلا وسنة.
اور حدود ہیں اور مستحب و مسنون باتیں ہیں جو سب ایمان میں داخل ہیں۔ پس جو ان سب کو پورا کرے اس نے اپنا ایمان پورا کر لیا اور جو پورے طور پر ان کا لحاظ رکھے نہ ان کو پورا کرے اس نے اپنا ایمان پورا نہیں کیا۔ پس اگر میں زندہ رہا تو ان سب کی تفصیلی معلومات تم کو بتلاؤں گا تاکہ تم ان پر عمل کرو اور اگر میں مر ہی گیا تو مجھ کو تمہاری صحبت میں زندہ رہنے کی خواہش بھی نہیں۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں وارد ہوا ہے کہ لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسلی ہو جائے۔ ” اور معاذ رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ایک صحابی ( اسود بن بلال نامی ) سے کہا تھا کہ ہمارے پاس بیٹھو تاکہ ایک گھڑی ہم ایمان کی باتیں کر لیں۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ یقین پورا ایمان ہے اور صبر آدھا ایمان ہے۔ ( رواہ الطبرانی ) اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ بندہ تقویٰ کی اصل حقیقت یعنی کہنہ کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ جو بات دل میں کھٹکتی ہو اسے بالکل چھوڑ نہ دے۔ اور مجاہد رحمہ اللہ نے آیت کریمہ
شرع لکم من الدین الخ کی تفسیر میں فرمایا کہ ( اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ ٹھہرایا جو حضرت نوح علیہ السلام کے لیے ٹھہرایا تھا ) اس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد! ہم نے تم کو اور نوح کو ایک ہی دین کے لیے وصیت کی ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے آیت کریمہ شرعۃ و منھاجا کے متعلق فرمایا کہ اس سے سبیل سیدھا راستہ اور سنت ( نیک طریقہ ) مراد ہے۔ اور سورہ فرقان کی آیت میں لفظ دعاءکم کے بارے میں فرمایا کہ
ایمانکم اس سے تمہارا ایمان مراد ہے۔
تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح کو وحی اور اس کی تفصیل اور اس کی عظمت وصداقت کے ساتھ شروع فرمایا جس کے بعد ضروری تھا کہ دین وشریعت کی اوّلین بنیاد پر روشنی ڈالی جائے جس کا نام شرعی اصطلاح میں “ ایمان ” ہے۔ جو خدا اور بندے کے درمیان ایک ایسی کڑی ہے کہ اس کو دین کا اوّلین درجہ اور آخری درجہ دیا جا سکتا ہے۔ ایمان ہی دارین میں کامیابی کی کنجی ہے۔ حقیقی عزت ورفعت اس کے ساتھ وابستہ ہے۔
صاحب مشکوٰۃ نے بھی اپنی کتاب کو کتاب الایمان ہی سے شروع فرمایا ہے۔ اس پر حضرت مولاناشیخ الحدیث مبارک پوری مدظلہ فرماتے ہیں:
“ وقدمہ لانہ افضل الامورعلی الاطلاق واشرفہا ولانہ اول واجب علی المکلف ولانہ شرط لصحۃ العبادات المتقدمۃ علی المعاملات۔ یعنی “ ذکر ایمان کو اس لیے مقدم کیا کہ ایمان جملہ امور پر مطلقاً افضلیت کا درجہ رکھتا ہے اور ہرمکلف پر یہ پہلا واجب ہے اور عبادات کی صحت اور قبولیت کے لیے ایمان بمنزلہ شرط اوّل کے ہے۔ ”
اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی باب بدءالوحی کے بعد کتاب الایمان سے اپنی جامع صحیح کا افتتاح کیا ہے۔ فتح الباری میں ہے۔
ولم یستفتح المصنف بدءالوحی بکتاب الایمان لان المقدمۃ لاتستفتح بما یستفتح بہ غیرھا لانھا تنطوی علی مایتعلق بما بعدھا۔
لفظ “ ایمان ” امن سے مشتق ہے۔ جس کے لغوی معنی سکون اور ایمان کے ہیں۔ امن لغوی حیثیت سے اس کو کہا جائے گا کہ لوگ اپنی جانوں اور مالوں اور عزت آبرو کے بارے میں سکون اور اطمینان وامن محسوس کریں جیسا کہ حدیث نبوی ہے
المومن من امنہ الناس علی دماءہم واموالہم مومن وہ ہے کہ جس سے لوگ اپنی جان ومال کے بارے میں امن میں رہیں۔ ایمان کے لغوی معنی تصدیق کے بھی ہیں جیسا کہ سورۃ یوسف میں حضرت یعقوب علیہ السلام بیٹوں کے ذکرمیں وارد ہوا ہے۔
وماانت بمومن لنا ولوکنا صٰدقین ( یوسف: 17 ) یعنی اے اباجان! ہم جو کچھ بھی ( بن یامین ) کے بارے میں عرض کررہے ہیں آپ ( اپنے سابقہ تجربہ کی بنا پر ) ا س کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں اگرچہ ہم کتنے ہی سچے کیوں نہ ہوں۔ یہاں ایمان تصدیق کے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ کسی کی بات پر ایمان لانا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کو اپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کردیتے ہیں اور اس کی امانت ودیانت پر پورااعتماد ثابت کردیتے ہیں۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں:
والایمان لغۃ التصدیق وشرعا تصدیق الرسول بماجاءبہ عن ربہ وہذا المقدر متفق علیہ یعنی ایمان لغت میں تصدیق کا نام ہے اور شریعت میں ایمان کے معنی یہ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول واحکام وارکان لے کر آئے ان سب کی تصدیق کرنا سب کی سچائی دل میں بٹھانا۔ یہاں تک ایمان کے لغوی معنی وشرعی معانی پر سب کا اتفا ق ہے۔ تفصیلات میں جواختلافات پیدا ہوئے ہیں ان کی تفصیل مشہور مؤرخ اسلام محمدابوزہرہ پر وفیسرلاءکالج فوادیونیورسٹی مصر کے لفظوں میں یہ ہے جس کا اردو ترجمہ “ سیرت امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ ” سے درج ذیل ہے :
ایمان کی حقیقت ایسا مسئلہ ہے جو اپنے اندر متعدد اختلافی پہلو رکھتا ہے اور یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ اس نے متعدد فرقے پیدا کردئیے، جہمیہ کا خیال ہے کہ ایمان معرفت کا نام ہے، اگرچہ وہ عمل سے ہم آہنگ نہ ہو۔ انھوں نے یہ تصریح نہیں کی ہے کہ معرفت کے ساتھ اذعان بھی واجب ہے۔ معتزلہ کا یہ خیال ہے کہ اعمال ایمان کا جزو ہیں۔ ان کے نزدیک جو شخص کبائر کا ارتکاب کرتا ہے، وہ مومن نہیں رہتا اگرچہ وحدانیت خداوندی پر عقیدہ رکھتاہو اور محمداکوخدا کا رسول مانتاہو۔ لیکن وہ کافر بھی نہیں ہوتا۔ یعنی نہ پورا مومن نہ پورا کافربلکہ ان دونوں کے بین بین۔ خوارج کا خیال ہے کہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا مومن نہیں رہتا کافر ہو جاتا ہے، اس لیے کہ عمل ایمان کا جزو ہے۔ ضروری تھا کہ محدثین اور فقہاءاپنے اپنے انداز میں اس مسئلہ پر گفتگو کرتے اور ظاہر ہے ان کی روش یہی ہوسکتی تھی کہ وہ عقل مجرد پر اعتماد کرنے کے بجائے کتاب وسنت پر بھروسا کریں، پھر اس بارے میں ان کی آراءباہم ایک دوسرے سے گوزیادہ بعید نہیں ہیں تاہم کسی نہ کسی حد تک مخالف ضرورہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ایمان غیرمتزلزل اعتقاد کا نام ہے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس اعتقاد کی علامت صرف یہ ہے کہ آدمی خدا کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کا اقرار کرے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک عمل ایمان کا حصہ نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک ایمان ایک ایسی مجرد حقیقت کا نام ہے جو بجائے خود کامل ہوتی ہے اور کمی زیادتی قبول نہیں کرتی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان بھی ویسا ہی ہے جیسا تمام مسلمانوں کا۔ حضرت ابوبکر کوجوفضیلت حاصل ہے وہ عمل کی بنا پر ہے ( نہ کہ ایمان کی بنا پر ) اور اس بنا پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو منجملہ دس لوگوں کے جنت کی بشارت دی تھی۔ اب اس کے بعد مسلمانوں کے اقدار کا باہمی تفاوت صرف عمل اور تعمیل حکم الٰہی اور اجتناب نواہی کی بنا پر رہ گیا۔
امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ایمان نام ہے تصدیق واذعان کا لیکن ان کے نزدیک ایمان میں زیادتی ممکن ہے اس لیے کہ قرآن میں بعض مسلمانوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ان کا ایمان بڑھتا ہے۔ جس طرح مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ایمان میں اضافہ ہو سکتا ہے، اسی طرح کبھی وہ اس کی کمی کی صراحت بھی کردیتے ہیں، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کمی کی صراحت سے وہ رک گئے کیوں کہ انھوں نے اس کا اظہارفرمایا ہے کہ ایمان نام ہے قول وعمل کا وہ گھٹ بھی سکتا ہے اور بڑھ بھی سکتا ہے۔ حافظ ابن الجوزی کی کتاب المناقب میں وارد ہوا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے، ایمان نام ہے قول وعمل کا، وہ گھٹ بھی سکتا ہے اور بڑھ بھی سکتا ہے۔ نیکوکاری تمام ترایمان ہی ہے اور معاصی سے ایمان میں کمی ہو جاتی ہے۔ نیز وہ یہ بھی فرمایا کرتے تھے، اہل سنت والجماعت مومن کی صفت یہ ہے کہ اس امر کی شہادت دے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ یکتا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں۔ نیز یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ نیزدوسرے انبیاء ورسل جو کچھ لائے ہیں ان کا اقرار کرے۔ اور جو کچھ اس کی زبان سے ظاہر ہووہ اس کے قلب سے ہم آہنگ ہو۔ پس ایسے آدمی کے ایمان میں کوئی شک نہیں ( حیات امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ، ص: 216,217 )
مسلک محدثین وجمہورائمہ اہل سنت والجماعت:
ایمان کے بارے میں جمہورائمہ اہل سنت وجملہ محدثین کرام سب کا مسلک یہی ہے جسے علامہ نے حضرت امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے نقل فرمایا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایمان مدلل طور پر اسی کو بیان فرمایا ہے۔
امام ابن عبدالبر “ تمہید ” میں فرماتے ہیں:
اجمع اہل الفقہ والحدیث علی ان الایمان قول وعمل ولا عمل الابنیۃ قال والایمان عندھم یزید بالطاعۃ وینقص بالمعصیۃ والطاعات کلہا عندہم ایمان الا ما ذکر عن ابی حنیفۃ واصحابہ فانہم ذہبوا الی ان الطاعات لاتسمی ایمانا قالوا انماالایمان تصدیق والاقرار ومنہم من زادالمعرفۃ وذکر مااحتجوابہ الی ان قال واماسائرالفقہاءمن اکمل الرای والاثار بالحجاز والعراق والشام ومصر منہم مالک بن انس واللہث بن سعد وسفیان الثوری والاوزاعی والشافعی واحمدبن حنبل واسحق بن راہویہ وابوعبیدالقاسم بن سلام وداؤد بن علی ومن سلک سبیلہم قالوا الایمان قول وعمل قول باللسان وہوالاقرار واعتقاد بالقلب وعمل بالجوارح مع الاخلاص بالنیۃ الصادقۃ وقالوا کل مایطاع اللہ بہ من فریضۃ ونافلۃ فہو من الایمان قالو والایمان یزید بالطاعات وینقص باالمعاصی وہذا مذہب الجماعۃ من اہل الحدیث والحمد للہ۔
علامہ ابن عبدالبر کی اس جامع تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل فقہ اور اہل سنت سب کا اجماع ہے کہ ایمان قول اور عمل پر مشتمل ہے اور عمل کا اعتبار نیت پر ہے۔ ایمان نیکیوں سے بڑھتا ہے اور گناہوں سے گھٹتا ہے اور نیکیاں جس قدر بھی ہیں وہ سب ایمان ہیں، ہاں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کا قول یہ ہے کہ طاعات کا نام ایمان نہیں رکھا جاسکتا، ایمان صرف تصدیق اور اقرار کا نام ہے بعض نے معرفت کو بھی زیادہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ جملہ فقہائے اہل الرائے واہل حدیث حجازی، عراقی وشامی ومصری ہیں۔ سب یہی کہتے ہیں، ( جن میں سے کچھ بزرگوں کے اسمائے گرامی علامہ نے یہاں نقل بھی فرمائے ہیں ) کہ ایمان زبان سے اقرار کرنا اور دل میں اعتماد رکھنا اور جوراح سے نیت صادقہ کے ساتھ عمل کرنا ہے اور عبادات وطاعات فرض ہوں یا نفل سب ایمان ہیں۔ اور ایمان نیکیوں سے بڑھتا ہے اور برائیوں سے گھٹتا ہے۔ جماعت اہل حدیث کا بھی یہی مسلک ہے والحمدللہ۔ سلف امت سے اس قسم کی تصریحات اس قدر منقول ہیں کہ ان سب کے لیے ایک مستقل دفتر کی ضرورت ہے۔ یہاں مزید طوالت کی گنجائش نہیں۔
وفیہ کفایۃ لمن لہ درایۃ۔
فرقہ مرجیہ ایمان کے متعلق جملہ محدثین کرام وائمہ ثلاثہ اہل سنت والجماعت سے اگرچہ فرقہ خوارج اور معتزلہ نے کافی اختلافات کئے ہیں۔ مگر سب سے بدترین اختلاف وہ ہے جو فرقہ مرجیہ نے کیا۔
صاحب ایضاح البخاری لکھتے ہیں “ بسیط ماننے والوں کی دوجماعتیں ہیں۔ایک جماعت کہتی ہے کہ ایمان کی حقیقت صرف تصدیق ہے۔ اعمال اور اقرار ایمان کی حقیقت میں داخل نہیں۔ امام اعظم اور فقہاءعلیہم الرحمۃ کہتے ہیں کہ ایمان صرف تصدیق کا نام ہے۔ لیکن اعمال ایمان کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ اور مرجیہ کہتے ہیں کہ اعمال بالکل غیرضروری ہیں۔ ایمان لانے کے بعد نماز ادا کرنا اور کھانا کھانا دونوں برابر ہیں۔ بسیط ماننے والوں میں دوسری جماعت مرجیہ اور کرامیہ کی ہے۔ جو صرف اقرار کو ایمان کی حقیقت بتلاتے ہیں۔ تصدیق اور اعمال اس کا جزو نہیں۔ صرف یہ شرط کہ اقرار لسانی کے ساتھ دل میں انکار نہ ہونا چاہئیے۔ ( ایضاح البخاری، ج 2، ص: 132 )
اس لیے اسلاف امت نے فرقہ مرجیہ کے خلاف بڑے ہی سخت بیانات دئیے ہیں۔ حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں
المرجیۃ اخوف علی ہذہ الامۃ من الخوارج۔ یعنی امت کے لیے مرجیہ کا فتنہ، فتنہ خوارج سے بھی بڑھ کر خطرناک ہے۔
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں
ماابتدع فی الاسلام بدعۃ اضرعلی اہلہ من الارجاءیعنی اسلام میں فتنہ ارجاءسے بڑھ کر نقصان رساں اور کوئی بدعت پیدا نہیں ہوئی۔ یحییٰ ابن ابی کثیر اور قتادہ فرماتے ہیں
لیس شیی من الاہواءاشدعندہم علی الامۃ من الارجاء یعنی مرجیہ سے بڑھ کر خواہش پر ستی کا اور کوئی فتنہ جو انتہائی خطرناک ہو امت میں پیدا نہیں ہوا۔ قاضی شریک نے کہا ہے
المرجیۃ اخبت قوم حسبک بالرافضۃ ولکن المرجیۃ یکذبون علی اللہ یعنی فرقہ مرجیہ بہت ہی گندی قوم ہے جو روافض سے بھی بڑھ گئے ہیں۔ جوخدا پر جھوٹ باندھنے میں ذرا بھی باک نہیں محسوس کرتے۔ امام سفیان ثوری، امام وکیع، امام احمدبن حنبل، امام قتادہ، امام ایوب سختیانی اور بھی بہت سے ائمہ اہل سنت رحمہم اللہ اجمعین نے ایسے ہی خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔
مرجیہ میں جوبہت ہی غالی قسم کے لوگ ہیں ان کا کہنا یہاں تک ہے کہ جس طرح حالت کفر میں کوئی نیکی نفع بخش نہیں اسی طرح حالت ایمان میں کوئی بھی گناہ مضر نہیں اور یہ بدترین قول ہے جواسلام میں کہا گیا ہے۔ ( لوامع انوار البہیہ )
ایمان کے بسیط اور مرکب کی بحث میں علامہ سندھی کا یہ قول آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
والسلف کانوا یتبعون الوارد ولا یلتفتون الی نحوتلک المباحث ولاکلام الکلامیۃ استخرجہا المتاخرون یعنی سلف صالحین صرف ان آیات واحادیث کی اتباع کو کافی جانتے تھے جوایمان سے متعلق وارد ہوئی ہیں۔ اور وہ ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہیں کرتے تھے جن کومتاخرین نے ایجاد کیا ہے۔
ایمان بہرحال تصدیق قلبی اور اقرار لسانی وعمل بدنی ہرسہ سے مرکب ہے اور یہ تینوں باہمی طور پر اس قدر لازم وملزوم ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی اگر الگ کردیاجائے توایمان حقیقی جس سے عنداللہ نجات ملنے والی ہے وہ باقی نہیں رہ جاتا۔
حضرت العلامہ مولاناشیخ الحدیث صاحب مبارک پوری رحمہہ اللہ:
حضرت العلامہ مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری رحمہ اللہ نے “ ایمان ” سے متعلق ایک بہترین جامع تبصرہ فرمایا ہے، جو جستہ جستہ درج ذیل ہے :
فرماتے ہیں:
وانما عنون بہ مع ذکرہ الاسلام ایضا لانہما بمعنی واحد فی الشرع یعنی کتاب الایمان کے عنوان کے تحت اسلام کا بھی ذکر آیا ہے۔ اس لیے کہ ایمان اور اسلام شریعت میں ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔
اختلفوا فیہ علی اقوال کے تحت حضرت شیخ الحدیث فرماتے ہیں:
فقال الحنفیۃ الایمان ہومجردتصدیق النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیماعلم مجیئہ بہ بالضرورۃ تفصیلا فی الامور التفصیلیۃ واجمالا فی الامور الاجمالیۃ تصدیقا جازما ولوبغیردلیل فالایمان بسیط عندھم غیرمرکب لایقبل الزیادۃ والنقصان من حیث الکمیۃ الخ یعنی حنیفہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق مجرد کا نام ایمان ہے۔ تفصیلی امور میں تفصیلی طور پر اور اجمالی امور میں اجمالی طور پر جو کچھ آپ احکام ضروریہ لے کر تشریف لائے سب کی تہہ دل سے تصدیق کرنا ایمان ہے۔ احناف کے نزدیک ایمان مرکب نہیں بلکہ بسیط ہے اور وہ کمیت کے اعتبار سے زیادتی اور کمی کو قبول نہیں کرتا۔ ہاں فرقہ مرجیہ ضالہ کی زد سے بچنے کے لیے وہ بھی اہل سنت و جملہ محدثین کی طرح اعمال کو تکمیل ایمان کی شرط قرار دیتے اور کمال ایمان کے لیے ضروری اجزا تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے اور دیگراہل سنت کے درمیان اس بارے میں صرف نزاع لفظی ہے۔ ( رسالہ ایمان وعمل مولانا حسین احمدمدنی رحمہ اللہ ص: 23 )
حضرت شیخ الحدیث آگے مرجیہ سے متعلق فرماتے ہیں:
وقال المرجیۃ ہو اعتقاد فقط والاقرار باللسان لیس برکن فیہ ولاشرط فجعلوا العمل خارجا من حقیقۃ الایمان کالحنیفۃ وانکروا اجزئیتہ الاان الحنفیۃ اہتموا بہ وحرضوا علیہ وجعلوہ سببا ساریافی نماءالایمان واماالمرجیۃ فہدروہ وقالوا لاحاجۃ الی العمل ومدار النجاۃ ہوالتصدیق فقط فلایضرالمعصیۃ عندہم مع التصدیق۔
اور فرقہ ضالہ مرجیہ نے کہا کہ ایمان فقط اعتقاد کا نام ہے۔اس کے لیے زبانی اقرار نہ رکن ہے نہ شرط ہے۔ حنفیہ نے بھی عمل کو حقیقت ایمان سے خارج کیا ہے اور اس کی جزئیت کا انکار کیا ہے۔مگر حنفیہ نے عمل کی اہمیت کو مانا ہے اور اس کے لیے رغبت دلائی اور ایمان کے نشوونما میں عمل کو ایک موئثر سبب تسلیم کیا ہے۔ مرجیہ نے عمل کو بالکل باطل قرار دیا اور کہا کہ عمل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نجات کا دارومدار فقط تصدیق پر ہے جس کے بعد کوئی بھی گناہ مضر نہیں ہے۔ ( غالبا حضرت مولانا مدنی صاحب مرحوم کے حوالہ مذکور کا بھی یہی منشا ہے ) آگے کرامیہ کے متعلق حضرت شیخ الحدیث فرماتے ہیں۔
وقال الکرامیۃ ھو نطق فقط فالاقرار باللسان یکفی للنجاۃ عندھم سواءوجد التصدیق ام لا یعنی مرجیہ کے خلاف کرامیہ کہتے ہیں کہ ایمان فقط زبان سے اقرار کر لینے کا نام ہے جو نجات کے لیے کافی ہے۔ تصدیق کی جائے یا نہ۔
آگے حضرت شیخ الحدیث فرماتے ہیں:
وقا ل السلف من الائمۃ الثلاثۃ مالک والشافعی احمد وغیرھم من اصحاب الحدیث ھو اعتقاد بالقلب ونطق باللسان وعمل بالارکان فالایمان عندھم مرکب ذواجزاءوالاعمال داخلۃ فی حقیقۃ الایمان ومن ھھنا نشالھم القول بالزیادۃ والنقصان بحسب الکمیۃالخ۔
یعنی سلف امت ائمہ ثلاثہ مالک وشافعی و احمد بن حنبل اور دیگر اصحاب الحدیث کے نزدیک ایمان دل کے اعتقاد اور زبان کے اقرار اور ارکان کے عمل کا نام ہے۔اس لیے ان کے نزدیک ایمان مرکب ہے جس کے لئے مذکورہ اجزاءضروری ہیں اور اعمال حقیقت ایمان میں داخل ہیں۔اسی بنا پر ان کے نزدیک ایمان میں کمی وبیشی ہوتی ہے۔ اس دعویٰ پر ا ن کے یہاں بہت سی آیات قرآنی واحادیث نبوی دلیل ہیں۔ جن کو امام بخاری نے اپنی جامع میں اور ابن تیمیہ نے کتاب الایمان میں بیان فرمایا ہے اور مذہب حق یہی ہے۔ ( مرعاۃ،جلد اول،ص: 23 ملخصاً )
اس تفصیل کی روشنی میں حضرت علامہ مبارکپوری دامت برکاتہم آگے فرماتے ہیں۔
وقد ظھرمن ھذا ان الاختلاف بین الحنفیۃ واصحاب الحدیث اختلاف معنوی حقیقی لا لفظیۃ کما توھم بعض الحنفیۃ ( مرعاۃ ) یعنی ایمان کے بارے میں حنفیہ اور اہلحدیث کا اختلاف معنوی حقیقی ہے لفظی نہیں ہے جیسا کہ بعض حنفیہ کو وہم ہوا ہے۔
معتزلہ کے نزدیک ایمان عمل اور قول واعتقاد کا مجموعہ ہے۔ ان کے نزدیک کبائر کا مرتکب نہ کافر ہے نہ مومن بلکہ کفر وایمان کے درمیان ایک درجہ قرار دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ کبائر کا مرتکب بلاتوبہ مرے گا تو وہ مخلد فی النار یعنی ہمیشہ کے لئے دوزخی ہوگا۔ ان کے برخلاف خوارج کہتے ہیں کہ کبیرہ وصغیرہ ہر دو گناہوں کا مرتکب کافر ہو جاتا ہے۔کفر اور ایمان کے درمیان اور کوئی درجہ نہیں ہے۔یہ دونوں فرقے گمراہ ہیں۔ان کے برخلاف اہل سنت ایمان کوجہاں اجزائے ثلاثہ سے مرکب اور قابل زیادت ونقصان مانتے ہیں وہاں ان کے نزدیک اعمال کو کمال ایمان کے لیے شرط بھی قرار دیتے ہیں۔لہذا ان کے نزدیک مرتکب کبائر وتارک فرائض کافر مطلق اور محروم الایمان نہ ہوں گے ( فتح الباری وغیرہ )
مناسب ہوگا کہ ا پنے محترم قارئین کرام کی مزید تفہیم کے لئے ہم ایمان سے متعلق ایک مختصر خاکہ اور پیش کردیں:
( 1 ) ایمان بسیط ہے صرف دل سے تصدیق کرنا اور زبان سے اقرارکرنا جس کے بعد کوئی گناہ مضر نہیں اور کوئی نیکی مفید نہیں ہے۔ ( مرجیہ )
( 2 ) ایمان فقط زبان سے اقرار کرلینے کا نام ہے دل کی تصدیق ہو یا نہ ہو۔زبانی اقرار نجات کے لیے کافی ہے ( کرامیۃ )
( 3 ) ایمان بسیط ہے اور وہ صرف تصدیق کا نام ہے۔ اعمال اس میں داخل نہیں ہیں نہ وہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے۔ہاں اعمال ایمان کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ ( حنفیہ ) ( دیکھو ایضاح البخاری،ص132 )
( 4 ) ایمان اعتقاد اور عمل اور قول کا ایسا مجموعہ ہے جس کو علیحدہ علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ہے اس صورت میں گناہ کبیرہ کا مرتکب اگر بلا توبہ مرے گا تو وہ ہمیشہ کے لیے دوزخی ہے۔ گویا اللہ پر مطیع کا ثواب اور عاصی کا عذاب واجب ہے۔ ( معتزلہ )
( 5 ) ایمان اعتقاد وعمل دونوں کا مجموعہ ہے جس کے بعد صرف کفر ہی کا درجہ ہے۔ لہٰذا کبیرہ وصغیرہ ہر دو قسم کے گناہوں کا مرتکب جو توبہ نہ کرے وہ کافر ہے۔ ( خوارج )
( 6 ) ایمان قول وعمل کا ایک مجموعہ ہے جس کے لیے تصدیق قلبی اور اقرارلسانی وعمل بالارکان ضروری ہے اور وہ ان اجزائے ثلاثہ سے مرکب ہے۔ وہ گھٹتا اور بڑھتا ہے۔ گناہ کبیرہ کا مرتکب بشرط صحت ایمان اللہ چاہے تو اسے بخش دے یا دوزخ میں سزا دینے کے بعد جنت میں داخل کردے۔ پس مرتکب کبائر کافر مطلق اور محروم الایمان نہ ہوگا۔ ( اہل سنت والجماعت ) اور یہی مذہب حق اور صائب ہے۔
علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
والسلف قالوا ھو اعتقاد بالقلب ونطق باللسان وعمل بالارکان وارادوابذالک ان الاعمال شرط فی کمالہ ومن ھنا نشالھم القول بالزیادۃ والنقص کما سیاتی والمرجئیۃ قالوا ھو اعتقاد ونطق فقط والکرامیۃ قالوا ھو نطق فقط والمعتزلۃ قالوا ھو العمل والنطق والاعتقاد والفارق بینھم وبین السلف انھم جعلوا الاعمال شرطا فی صحتہ والسلف جعلوھا شرطا فی کمالہ الخ ( فتح الباری ) خلاصہ اس عبارت کا وہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا۔
ایک لطیف مکالمہ:
ہمارے محترم مولانا الفاضل المناظر مولوی عبدالمبین منظر صاحب بستوی نے شیخ ابو الحسن اشعری اور ان کے استاد جبائی معتزلی کاوہ لطیف مکالمہ “ عقائد اسلام ” میں درج فرمایا ہے۔ جسے ایک لطیف مکالمہ ہی کہا جا سکتا ہے ( یہ مکالمہ بہت سی کتب عقائد میں مذکور ہے ) جس کا خلاصہ یہ کہ ایک دن شیخ ابوالحسن اشعری نے جبائی سے پوچھا کہ آپ ان تین بھائیوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں جن میں سے ایک مطیع تابعدار مرا۔ دوسرا عاصی نافرمان اور تیسرا بچپن ہی میں مر گیا۔ جبائی نے جوابا ً کہا کہ پہلا شخص جنت میں دوسرا دوزخ میں اور تیسرا دونوں سے الگ نہ جنت میں نہ دوزخ میں، اس پر ابوالحسن نے پوچھا کہ اگرتیسرا شخص اللہ سے عرض کرے کہ مجھے کیوں نہ زندگی عطا ہوئی کہ بڑا ہوکر نیکی کرتا اور جنت پاتا۔تو اللہ کیا جواب دے گا۔جبائی صاحب نے کہا کہ اللہ فرمایے گا کہ میں جانتا تھا تو بڑا ہوگا تو نافرمانی کرکے جہنم میں داخل ہوگا۔ لہٰذا تیرے لیے بچپن ہی میں مر جانا بہتر تھا۔ ابوالحسن اشعری نے کہا اگر دوسرا عرض کرے کہ میرے رب تو نے مجھ کو کیوں نہ بچپن ہی میں موت دی کہ میں تیری نافرمانیوں سے بچ کر دوزخ سے نجات پاتا۔تو آپ کے مذہب کے مطابق اللہ پاک کی طرف سے اس کو کیاجواب ملے گا؟
اس سوال کے بعد ابو علی جبائی ( معتزلی ) لا جواب ہوگیا اور ابوالحسن اشعری نے اپنے استاد جبائی کا مذہب ترک کرکے معتزلہ کی تردید اور ظاہر سنت کی تائید اور اثبات میں اپنی پوری زندگی صرف کردی۔ کیا خوب کہا گیا ہے
ماتریدی وا شعری ہمہ خوب
لیک طور سلف بود مرغوب
چیست دانی عقائد ایشا ں
انتخاب فوائد ایشاں
پائے برپائے مصطفی رفتن
بسر خویش نے ز پا رفتن
پشت پا برزون بفہم جمیل
بر قیا سات وایں ہمہ تاویل
نسال اللہ النجاۃ یوم المعاد وان یطھر قلوبنا عن قبائح الاعتقاد ونستغفر اللہ لنا ولکافۃ المسلمین من اھل الحدیث والقرآن واصحاب التوحید والایمان۔آمین
چونکہ مذکورہ بالاتفصیلات میں کئی جگہ ایمان کے متعلق “ حنفیہ ” کا ذکر آیا ہے۔اس لیے مناسب ہوگا کہ اس سلسلے کی کچھ تفصیلات ہم موجود اکابر علمائے احناف ہی سے نقل کردیں۔ جس سے ناظرین کو مسلک محدثین کرام اور موجودہ اکابر علمائے احناف کے خیالات کے سمجھنے میں کافی مدد مل سکے گی۔
دیوبند سے بخاری شریف کا ایک ترجمہ معہ شرح ایضاح البخاری کے نام سے بھی شائع ہو رہا ہے۔ جو حضرت مولانا فخرالدین صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند وصدر جمعیت علمائے ہند کے افادات پر مشتمل ہیں ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ مستند بیان اور نہیں ہوسکتا۔ مندرجہ ذیل تفصیلات ہم لفظ بلفظ اسی ایضاح البخاری سے نقل کررہے ہیں:
ایمان میں کمی زیادتی کا بیان:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جس انداز سے مسئلہ شروع فرمایا ہے، اس کے نتیجہ میں یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ ایمان تین چیزوں سے مرکب ہے۔
اعتقاد قلبی، قول لسانی، افعال جوارح۔ کیونکہ جملہ وہوقول وفعل میں قول وفعل دونوں میں تعمیم ہوسکتی ہے۔ یاتوقول کوقول ہی پر بولا جاتا ہے۔ لیکن اس کو بایں معنی قول قلبی پر بھی عام کیا جا سکتا ہے کہ دل میں تصدیق کا پیدا ہوجانا ایمان نہیں ہے بلکہ پیدا کرنا ایمان ہے اور جب قول دل اور زبان دونوں پر عام ہوگیا تو فعل سے مراد فعل جوارح ہو ہی جائے گا، ورنہ اگر قول کو صرف قول لسانی پر محدود کردیا جائے تو لفظ فعل میں تعمیم کردی جائے گی جوفعل قلبی اور فعل جوارح پر عام ہوجائے گا۔
اور بعض حضرات نے کہا کہ تصدیق واعتقاد کا مسئلہ تواہل فن کے نزدیک مسلم تھا۔ اختلاف صرف زبان اور جوارح کے سلسلہ میں تھا۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ادھرہی توجہ مبذول فرمائی اور جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایمان میں تین چیزیں داخل ہیں تو اس کے نتیجہ میں ایمان میں کمی زیادتی ممکن ہوگی۔ یہ کمی وبیشی بظاہر امام بخاری علیہ الرحمہ کی قائم کردہ ترتیب کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اجزا کے اعتبار سے ہے۔ یعنی چونکہ ایمان ایک ذی اجزاءچیز ہے اور تین چیزوں سے مرکب ہے۔ اس لیے ضروری کمی زیادتی کی قابلیت ہونی چاہئیے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دعویٰ کے مطابق سلف کا مذہب بھی یہی ہے۔ کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جملہ اساتذہ سے یزیدولاینقص ہی نقل کیا ہے اور اگر اس سلسلہ میں کچھ اختلاف نظر آتا ہے تووہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے کیونکہ صرف امام ہی کی طرف لایزید ولاینقص کی نسبت کی گئی ہے۔ اور جمہور یزید وینقص کے قائل ہیں گویا امام بساطت ایمان کے قائل ہیں اور جمہور ترکیب کے۔ اس لیے بہ ظاہر تردید امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہی کی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ان قائلین تردید نے اس پر غور نہیں کیا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا لایزیدولاینقص جمہور کے یزیدوینقص سے متعارض بھی ہے یا نہیں۔ اگر یہ حضرات اس حقیقت کو سمجھ لیتے تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو ہدف بنانے کی نوبت نہ آتی۔ لیکن کیا کیاجائے کہ ہوتا ہی ایسا آیا ہے۔
اس لیے اصل تو یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے لایزید ولاینقص کا ثبوت ہی دشوارہے۔ کیونکہ جن تصانیف پر اعتماد کرکے اس قول کی نسبت امام رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کی گئی ہے۔ تحقیق کی روشنی میں امام علیہ الرحمۃ کی جانب غلط ہے۔ مثلاً فقہ اکبر امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب ہے۔ لیکن سچ ہے کہ یہ امام کے تلمیذ ابومطیع البلخی کی تصنیف ہے۔ جو فقہاءکے نظرمیں بلندمرتبت سہی مگر محدثین کی نگاہ میں کمزور ہیں۔اسی طرح العالم والمتعلم،الوصیۃ اور وسطین امام ابوحنیفہ رحمۃ للہ علیہ کی طرف منسوب ہیں۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ امام رحمۃ اللہ علیہ تک ان کی نسبت کی صحت میں کلام ہے۔ اور حضرت علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کا رخ ہی یہ نہیں ہے کہ جس کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سمجھ رہے ہیں۔نیز ابراہیم بن یوسف تلمیذ امام ابویوسف رحمہ اللہ اور احمدبن عمران کا قول طبقات الحنفیہ میں موجود ہے کہ وہ ایمان کی کمی بیشی کے قائل تھے۔ الخ ( ایضاح البخاری،ص: 147وص: 148 )
آگے اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ بالفرض لایزیدولاینقص امام علیہ الرحمۃ ہی کا قول مان لیا جائے توا س کی صحیح توجیہہ کیا ہے۔ اس تفصیل سے چندامور روشنی میں آجاتے ہیں۔
( 1 ) ایمان کی کمی وبیشی کے متعلق یزیدوینقص ہی کا نظریہ جمہورکا نظریہ ہے اور یہی صحیح ہے۔
( 2 ) حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بابت لایزیدولاینقص جن کتابوں میں نقل ہے وہ کتابیں امام صاحب کی تصنیف نہیں ہیں۔ اور ان کو حضرت امام کی طرف منسوب کرنا ہی غلط ہے، جیسا فقہ اکبروغیرہ۔
( 3 ) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی ایمان میں کمی وبیشی کے قائل تھے۔ فنعم الوفاق وحبذا الاتفاق۔
اس تفصیل کے بعد مسلک محدثین کی تغلیط میں اگرکوئی صاحب لب کشائی کرتے ہیں تو یہ خود ان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ جمہور سلف اور خودامام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کے متعلق صحیح موقف یہی ہے جو تفصیل بالا میں پیش کیاگیا۔ اللہ پاک سب مسلمانوں کومسلک حق محدثین کرام پر زندہ رکھے اور اس پر موت نصیب کرے اور اس پر حشر فرمائے تاکہ قیامت کے دن شفاعت نبوی سے حصہ وافر نصیب ہو آمین یارب العالمین۔
مقصدترجمہ
: حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الایمان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بنی الاسلام علی خمس سے شروع فرمایا۔ جس میں اشارہ ہے کہ اگرچہ ایمان تصدیق قلبی کا نام ہے اور اسلام عمل جوارح کا۔ مگر بطور عموم خصوص مطلق حقیقت میں دونوں ایک ہی ہیں اور نجات اخروی کے لیے باہمی طور پر لازم ملزوم ہیں۔اسی لیے آپ نے دوسرا جملہ ایمان کے لیے یہ استعمال فرمایا وھو قول وفعل یعنی وہ قول ( زبان سے اقرار ) اور فعل ( یعنی اعمال صالحہ ) ہے۔ تیسرا جملہ فرمایا ویزیدو ینقص یعنی وہ زیادہ بھی ہوتا ہے اور کم بھی ہو جاتا ہے۔ ان تینوں جملوں میں ہرپہلا جملہ دوسرے کے لیے بہ منزلہ علت یاہردوسرا جملہ پہلے کے لیے بہ منزلہ نتیجہ کے ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان قول وفعل کا نام ہے جسے دوسرے لفظوں میں اسلام کہنا چاہئیے اور اس میں کمی وزیادتی کی صلاحیت ہے۔
کتاب الایمان والاسلام میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الایمان والاسلام احدھما مرتبطۃ بالاخر فہما کشی واحد لاایمان لمن لا اسلام لہ ولااسلام لمن لا ایمان لہ اذلایخلو المسلم من ایمان بہ یصحح اسلامہ ولایخلو المومن من اسلام بہ بحقق ایمانہ یعنی ایمان واسلام آپس میں مربوط ہیں اور وہ ایک ہی چیز کی طرح ہیں۔ کیونکہ جو اسلام کا پابند نہیں اس کا ایمان کا دعویٰ غلط ہے اور جس کے پاس ایمان نہیں اس کا اسلام غلط ہے۔ مسلمان جو حقیقی معنوں میں مسلمان ہوگا وہ کبھی بھی ایمان سے خالی نہیں ہوسکتا اور مومن جو حقیقی مومن ہوگا، اس کو اسلام کے بغیرچارہ نہیں۔ اس لیے کہ اسی سے اس کا ایمان متحقق ہوگا۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے مقاصد کو بایں طور متعین کیا جا سکتا ہے :
( 1 ) ایمان واسلام آپس میں مربوط ہیں۔
( 2 ) ایمان میں قول وفعل داخل ہیں۔
( 3 ) ایمان میں کمی وزیادتی ہوسکتی ہے۔
امام برحق نے جو کچھ فرمایا ہے یہی جملہ سلف امت کا مسلک ہے۔ صحابہ وتابعین وتبع تابعین وجملہ امامانِ اسلام سب ان پر بالاتفاق عقیدہ رکھتے ہیں۔ ہاں مرجیہ وکرامیہ وجہمیہ ومعتزلہ وخوارج وروافض کو ان سے اختلاف ضرورہے اور ان ہی کی تردید حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ہے۔
ضرورت تھی کہ اپنے دعاوی کو پہلے کتاب اللہ ال مجید سے ثابت کیاجائے۔ چنانچہ آپ نے اس مقام پر قرآن شریف سے استدلال کے لیے آیات ذیل کو نقل فرمایا ہے۔ جن میں ایمان کو ہدایت ودعا وغیرہ سے تعبیر کرتے ہوئے اس کے بڑھنے اور زیادہ ہونے کا صراحتاً ذکر موجود ہے۔
( 1 )
ہوالذی انزل السَّکینۃ فی قلوب المؤمنین لیزدادوا ایمانا مع ایمانہم وللہ جنود السموٰت والارض وکان اللہ علیما حکیما ( الفتح: 4 )
وہ اللہ ہی تھا جس نے ایمان والوں کے دلوں میں ( صلح حدیبیہ کے موقع پر ) تسکین نازل فرمائی۔ تاکہ وہ اپنے ایمان میں اور زیادتی حاصل کرلیں۔ اور زمین وآسمانوں کے سارے لشکرخدا ہی کے قبضے میں ہیں اور وہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ ”
اس آیت میں واضح طور پر ایمان کی زیادتی کا ذکر ہے۔
( 2 )
نحن نقص علیک نباہم بالحق انہم فتیۃ آمنوا بربہم وزدنہم ہدی ( الکہف: 13 )
“ اصحاب کہف کی ہم صحیح صحیح خبریں آپ کوسناتے ہیں بلاشک وہ چند نوجوان تھے۔ جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے ہم نے ان کو ہدایت میں زیادتی عطا فرمائی۔ ”
یہ آیت کریمہ بھی صاف بتلارہی ہے کہ ایمان وہدایت میں بفضل اللہ تعالیٰ زیادتی ہواکرتی ہے۔
( 3 )
ویزیداللہ الذین اہتدوا ہدی والبٰقیت الصٰحلت خیرعندربک ثوابا وخیرمردا ( مریم: 76 )
“ جولوگ ہدایت پر ہیں خدا ان کو ہدایت میں اور زیادتی عطا کرتا ہے اور نیک اعمال ( بعدموت ) پیچھے رہنے والے ہیں۔ تمہارے رب کے نزدیک ثواب اور انجام کے لحاظ سے وہی اچھے ہیں۔ ”
یہاں بھی ہدایت میں زیادتی کا ذکر ہے۔ جس سے ایمان کی زیادتی مراد ہے۔
( 4 )
والذین اہتدوا زادہم ہدی وآتاہم تقوٰہم ( محمد: 17 )
اور جو لوگ ہدایت یاب ہیں خدا ان کو ہدایت اور زیادہ دیتا ہے اور ا ن کو تقویٰ پرہیز گاری کی توفیق بخشتا ہے۔
اس آیت شریفہ میں بھی ہدایت ( ایمان ) کی زیادتی کا ذکر ہے۔ اور یہی مقصود ہے کہ ایمان کی زیادتی ہوتی ہے۔
( 5 )
وماجعلنا اصحٰب النار الاملئکۃ وماجعلنا عدتہم الا فتنۃ للذین کفروا لیستیقن الذین اوتوا الکتب ویزداد الذین آمنوا ایمانا۔الایۃ ( المدثر: 31 )
“ ہم نے دوزخ کے محافظ فرشتے ہی بنائے ہیں اور ہم نے ان کی گنتی اتنی مقرر کی ہے کہ وہ کافروں کے لیے فتنہ ہو اور اہل کتاب اس پر یقین کرلیں۔ اور جو ایمان دار مسلمان ہیں وہ اپنے ایمان میں زیادتی اور ترقی کریں۔ ”
اس آیت شریفہ میں بھی ایمان والوں کے ایمان کی زیادتی کا ذکر فرمایا گیا ہے۔
( 6 )
واذا انزلت سورۃ فمنہم من یقول ایکم زادتہ ہذہ ایمانا فامّاالذین آمنوا فزادتہم ایمانا وہم یستبشرون ( التوبہ: 124 )
“ یعنی جب کوئی سورۃ شریفہ قرآن کریم میں نازل ہوتی ہے تومنافق لوگ باہمی طور پر کہتے ہیں کہ اس سورۃ نے تم میں سے کس کا ایمان تازہ کردیا ہے؟ ہاں جولوگ ایمان دار ہیں ان کا ایمان یقینا زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں۔ ”
اس آیت شریفہ میں نہایت ہی صراحت کے ساتھ ایمان کی زیادتی کا ذکر ہے۔
( 7 )
الذین قال لہم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوہم فزادہم ایمانا وقالوا حسبنا اللہ ونعم الوکیل ( آل عمران: 173 )
“ وہ راسخ الایمان لوگ ( انصار ومہاجرین ) جن کولوگوں نے ڈراتے ہوئے کہا کہ لوگ بکثرت تمہارے خلاف جمع ہوگئے ہیں، تم اس سے ڈرو توان کا ایمان بڑھ گیا اور انھوں نے فوراً کہا کہ ہم کو اللہ ہی کافی وافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ ”
اس آیت شریفہ میں بھی ایمان کی زیادتی کا ذکر واضح لفظوں میں موجود ہے۔
( 8 )
ولمارای المومنون الاحزاب قالوا ہذا ماوعدنا اللہ ورسولہ وصدق اللہ ورسولہ وما زادہم الا ایمانا وتسلیما ( احزاب: 22 )
“ ایمان داروں نے ( جنگ خندق میں ) جب کفار کی فوجوں کو دیکھا تو کہا یہ تو وہی واقعہ ہے جس کا وعدہ اللہ اور سول نے ہم سے پہلے ہی کیاہوا ہے اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا اور ا س سے بھی ان کے ایمان وتسلیم میں زیادتی ہی ہوئی۔ ”
اس آیت میں بھی ایمان کی زیادتی کا صاف ذکر موجود ہے۔
قرآن شریف کے بعد سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے استدلال کرنے کے لیے آپ نے مشہور حدیث الحب فی اللہ الخ کو ذکر فرمایا کہ اللہ کے لیے محبت رکھنا اور اللہ ہی کے لیے کسی سے بغض رکھنا یہ بھی داخل ایمان ہے۔ محبت اور دشمنی ہر دو گھٹنے اور بڑھنے والی چیزیں ہیں۔ اس لیے ایمان بھی حسب مراتب گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے۔ خلیفہ خامس حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا فرمان بھی آپ نے استدلالا نقل فرمایا جس سے ظاہر ہے کہ خیرالقرون میں فرائض اور شرائع اور حدود اور سنن سب داخل ایمان سمجھے جاتے تھے اور ایمان کے کامل یا ناقص ہونے کا تصور ان جملہ امور کی ادائیگی وعدم ادائیگی پر موقوف سمجھا جاتا تھا اور مسلمانوں میں عام طور پر ایمان کی کمی وبیشی کی اصطلاحات مروج تھیں۔ حضرت سیدنا خلیل اللہ کا قول لیطمئن قلبی بھی اسی لیے نقل فرمایا کہ ایمان کی کمی وبیشی کا تعلق دل کے ساتھ ہے۔ اوامرالٰہی پر جس قدر بھی اطمینان قلب حاصل ہوگا، ایمان میں ترقی ہوگی۔ علم الیقین عین الیقین کے ساتھ حق الیقین کے لیے آپ نے یہ درخواست کی تھی۔ جیسا کہ شہد کی مٹھاس صرف خبرسننے والا اور دوسرا اس کو آنکھوں سے دیکھنے والا اور تیسرا اسے دیکھنے والا اور پھر چکھنے والا۔ ظاہر ہے کہ ان تینوں میں کافی فرق ہے۔ حق الیقین اسی آخری مقام کا نام ہے۔ حضرت معاذ نے اپنے ساتھی سے جو کچھ فرمایا جسے حضرت امام نے یہاں نقل فرمایا ہے اس سے بھی ایمان کی ترقی مراد ہے۔ بقول حضرت عبداللہ بن مسعور رضی اللہ عنہ یقین کل ( اپنی جملہ قسموں کے ساتھ ) ایمان ہی میں داخل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حقیقت تقویٰ کے بارے میں جوفرمایا اس سے بھی ایمان کی کمی وبیشی پر روشنی پڑتی ہے۔مشہور مفسرقرآن مجید حضرت مجاہد رحمہ اللہ نے آیت شریفہ
شرع لکم من الدین الخ کے بارے میں جو فرمایا۔و ہ وضاحت سے بتلارہا ہے کہ ایمان اور دین کے بارے میں جملہ انبیاءکرام کا اصولاً اتحاد رہا ہے۔
آیت کریمہ
لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنہاجا ( المائدہ: 148 ) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ شرعۃ سے مراد ہدایت ( سنت طریقہ ) اور منہاجا سے ( سبیل ) یعنی دینی راستہ مراد ہے۔ مقصد یہ کہ ایمان ان سب کو شامل ہے۔ اسی طرح آیت کریمہ
قل مایعبؤبکم ربی لولادعاؤکم فقد کذبتم فسوف یکون لزاما ( الفرقان: 77 ) یعن
ی کہہ دیجیے کہ اگرتم خدا کی عبادت نہیں کرتے توخدا کو بھی تمہاری پر واہ نہیں۔ سوتم نے تکذیب پر کمر باندھی ہوئی ہے۔ پس عنقریب وہ ( عذاب الٰہی ) بھی تم کو چمٹ جانے والا ہے۔ یہاں دعاؤکم میں حقیقتاً ایمان باللہ اور ایمان بالرسول ہی مراد ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اہل مکہ اپنے طورطریق پر عبادت بھی کرتے تھے۔ پس ایمان ہی اصل بنیاد نجات ہے اور عبادات اور جملہ اعمال صالحہ اس کے اندر داخل ہیں۔ آیت کریمہ
وماکان اللہ لیضیع ایمانکم ( البقرہ: 143 ) میں اللہ پاک نے خود نماز کو لفظ ایمان سے تعبیر فرمایا ہے۔ ان جملہ نصوص قطعیہ کے بعد بھی اعمال نماز روزہ وغیرہ کو ایمان سے علیحدہ کہنا صریحا غلطی ہے۔ اللہ نیک سمجھ دے۔ آمین
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور جملہ محدثین کرام اور امامان ہدیٰ کا بھی یہی مسلک ہے۔
ونقل علی ذلک الاجماع وقال البخاری لقیت اکثر من الف رجل من العلماءبالامصار فمارایت احدا منہم یختلفہ فی ان الایمان قول وعمل ویزید وینقص ( لوامع الانوار البھیہ،ص: 431 ) یعنی امام شافعی رحمہ اللہ نے اس مسلک پر اجماع نقل کیا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اسلامی ممالک کے مختلف شہروںمیں ایک ہزار سے زائد اہل علم وفضل وکمال سے ملا۔ ان میں سے میں نے کسی کو اس بارے میں مختلف نہیں پایا کہ ایمان قول وعمل کا نام ہے اور وہ بڑھتا بھی ہے اور گھٹتا بھی ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے
ثم اور ثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا فمنہم ظالم لفنسہ ومنہم مقتصد ومنہم سابق بالخیرات باذن اللہ ذلک ہوالفضل الکبیر ( فاطر: 32 ) یعنی ( اہل کتاب کے بعد )
ہم نے اپنی کتاب قرآن پاک کا وارث ان لوگوں کو بنایا جن کو ہم نے اس کے لیے چن لیاتھا۔ پس بعض ان میں سے اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ بعض درمیانی راستہ چلنے والے اور بعض نیکیوں کے لیے سبقت کرنے والے اللہ کے حکم سے اور یہی بڑا فضل ہے۔
اس آیت کریمہ میں نمبراول پر وہ مسلمان مراد ہے جو مسلمان تو ہے مگراس نے ایمانی اور اسلامی فرائض کو کماحقہ ادا نہ کرکے اپنے نفس پر ظلم کیا اور دوسرے نمبر پر وہ ہے جس نے دینی واجبات کو ادا کیا اور محرمات سے بچا وہ مومن مطلق ہے اور تیسرا سابق بالخیرات وہ محسن ہے جس نے اللہ کی عبادت بایں طور کی گویا وہ اس کود یکھ رہا ہے۔ حاصل یہ کہ دین کے یہی تین مدارج ہیں۔ اول اسلام، اوسط ایمان، اعلیٰ احسان، اسلام انقیاد ظاہری اور ایمان تصدیق خدا اور رسول کے ساتھ انقیاد باطن کا نام ہے۔ اس لحاظ سے اسلام و ایمان میں جوفرق ہے وہ بھی ظاہر ہے۔ پھر ایمان مجمل تو یہ کہ اللہ ورسول کی تصدیق کی جائے اور قیامت وتقدیر وجملہ رسل انبیاءکرام وفرشتوں پر ایمان لایا جائے اور ایمان مفصل کی کچھ اوپر ساٹھ یا سترشاخیں ہیں۔ جن میں سے کچھ کے متعلق وہ احادیث ہیں جن کو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کتاب الایمان میں روایت فرما رہے ہیں۔ ہرحدیث کے مطالعہ کے ساتھ اس حقیقت کو سامنے رکھنے سے بہت سے علمی وروحانی فوائد حاصل ہوں گے۔ وباللہ التوفیق۔
حدیث نمبر : 8
حدثنا عبيد الله بن موسى، قال أخبرنا حنظلة بن أبي سفيان، عن عكرمة بن خالد، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " بني الإسلام على خمس شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والحج، وصوم رمضان".
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے یہ حدیث بیان کی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس کی بابت حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی۔ انھوں نے عکرمہ بن خالد سے روایت کی انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مرفوع حدیث کو یہاں اس مقصد کے تحت بیان فرمایا کہ ایمان میں کمی وبیشی ہوتی ہے اور جملہ اعمال صالحہ وارکان اسلام ایمان میں داخل ہیں۔ حضرت امام کے دعاوی بایں طور ثابت ہیں کہ یہاں اسلام میں پانچ ارکان کو بنیاد بتلایاگیا اور یہ پانچوں چیزیں بیک وقت ہرایک مسلمان مردوعورت میں جمع نہیں ہوتی ہیں۔ اسی اعتبار سے مراتب ایمان میں فرق آ جاتا ہے عورتوں کو ناقص العقل والدین اسی لیے فرمایا گیا کہ وہ ایک ماہ میں چندایام بغیرنماز کے گزارتی ہیں۔ رمضان میں چند روزے وقت پر نہیں رکھ پاتیں۔ اسی طرح کتنے مسلمان نمازی بھی ہیں جن کے حق میں
واذا قامواالی الصلوۃ قاموا کسالیٰ ( النساء: 142 ) کہا گیا ہے کہ
وہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں توبہت ہی کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پس ایمان کی کمی وبیشی ثابت ہے۔
اس حدیث میں اسلام کی بنیادی چیزوں کو بتلایا گیا ہے۔ جن میں اوّلین بنیادتوحید ورسالت کی شہادت ہے اور قصراسلام کے لیے یہی اصل ستون ہے جس پر پوری عمارت قائم ہے۔ اس کی حیثیت قطب کی ہے جس پر خیمہ اسلام قائم ہے باقی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ بہ منزلہ اوتاد کے ہیں۔ جن سے خیمے کی رسیاں باندھ کر اس کو مضبوط ومستحکم بنایا جاتا ہے، ان سب کے مجموعہ کا نام خیمہ ہے جس میں درمیانی اصل ستون ودیگر رسیاں واوتاد چھت سب ہی شامل ہیں۔ ہوبہو یہی مثال اسلام کی ہے۔ جس میں کلمہ شہادت قطب ہے۔ باقی اوتاد وارکان ہیں جن کے مجموعہ کا نام اسلام ہے۔
اس حدیث میں ذکر حج کو ذکرصوم رمضان پر مقدم کیا گیا ہے۔ مسلم شریف میں ایک دوسرے طریق سے صوم رمضان حج پر مقدم کیا گیا ہے۔ یہی روایت حضرت سعید بن عبیدہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ذکر کی ہے، اس میں بھی صوم رمضان کا ذکر حج سے پہلے ہے اور انھیں حنظلہ سے امام مسلم نے ذکرصوم کو حج پر مقدم کیا ہے۔ گویا حنظلہ سے دونوں طریق منقول ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طرح سنا ہے۔ کسی موقع پر آپ نے حج کا ذکر پہلے فرمایا اور کسی موقع پر صوم رمضان کا ذکر مقدم کیا۔
اسی طرح مسلم شریف کی روایت کے مطابق وہ بیان بھی صحیح ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمانے جب والحج و صوم رمضان فرمایا تو راوی نے آپ کو ٹوکا اور صوم رمضان والحج کے لفظوں میں آپ کو لقمہ دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ
ہکذا سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم یعنی میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے
“ والحج و صوم رمضان ” سنا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مسلم شریف والے بیان کو اصل قرار دیا ہے اور بخاری شریف کی اس روایت کو بالمعنی قراردیا ہے۔ لیکن خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع تصنیف میں ابواب حج کو ابواب صوم پر مقدم کیا ہے۔ اس ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہی روایت اصل ہے جس میں صوم رمضان سے حج کا ذکر مقدم کیا گیا ہے۔
صیام رمضان کی فرضیت 2ھ میں نازل ہوئی اور حج 6ھ میں فرض قراردیا گیا۔ جوبدنی ومالی ہردوقسم کی عبادات کا مجموعہ ہے۔ اقرار توحید ورسالت کے بعد پہلارکن نماز اور دوسرا رکن زکوۃ قرار پایا جوعلیحدہ علیحدہ بدنی ومالی عبادات ہیں، پھر ان کا مجموعہ حج قرار پایا، ان منازل کے بعد روزہ قرار پایا جس کی شان یہ ہے۔
الصیام لی وانا اجزی بہ ( بخاری کتاب الصوم ) یعنی روزہ خاص میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں ہی دے سکتا ہوں۔ فرشتوں کو تاب نہیں کہ اس کے اجروثواب کو وہ قلم بندکرسکیں۔ اس لحاظ سے روزے کا ذکر آخر میں لایاگیا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے غالباً ایسے ہی پاکیزہ مقاصد کے پیش نظر ابواب صیام کو نماز، حج کے بعد قلم بندفرمایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے ان ارکان خمسہ کو اپنی اپنی جگہ پر ایسا مقام حاصل ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ سب کی تفصیلات اگرقلم کی جائیں توایک دفتر تیارہوجائے۔ یہ سب مراتب باہم ارتباط تام رکھتے ہیں۔ ہاں زکوٰۃ وحج ایسے ارکان ہیں جن سے غیرمستطیع مسلمان مستثنیٰ ہوجاتے ہیں۔ جو لایکلف اللہ نفسا الاوسعہا کے تحت اصول قرآنی کے تحت ہیں۔
حضرت علامہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں ارکان خمسہ میں جہاد کا ذکر اس لیے نہیں آیا کہ وہ فرض کفایہ ہے جو بعض مخصوص احوال کے ساتھ متعین ہے۔ نیز کلمہ شہادت کے ساتھ دیگر انبیاءوملائکہ پر ایمان لانے کا ذکر اس لیے نہیں ہوا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہی ان سب کی تصدیق ہے۔
فیستلزم جمیع ماذکر من المعتقدات اقامت صلوٰۃ سے ٹھہرٹھہر کرنماز ادا کرنا اور مداومت ومحافظت مراد ہے۔ ایتاءزکوٰۃ سے مخصوص طریق پر مال کاایک حصہ نکال دینا مقصود ہے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومن لطائف اسناد ہذا الحدیث جمعہ للتحدیث والاخبار والعنعنۃ وکل رجالہ مکیون الا عبیداللہ فانہ کوفی وہومن الرباعیات واخرج متنہ المولف ایضا فی التفسیر ومسلم فی الایمان خماسی الاسناد۔ یعنی اس حدیث کی سند کے لطائف میں سے یہ ہے کہ اس میں روایت حدیث کے مختلف طریقے تحدیث واخبار و عنعنہ سب جمع ہوگئے ہیں۔ ( جن کی تفصیلات مقدمہ بخاری میں ہم بیان کریں گے ان شاءاللہ ) اور اس کے جملہ راوی سوائے عبیداللہ کے مکی ہیں، یہ کوفی ہیں اور یہ رباعیات میں سے ہے ( اس کے صرف چارراوی ہیں جو امام بخاری اور آنحضرت کے درمیان واقع ہوئے ہیں ) اس روایت کے متن کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التفسیر میں بھی ذکر فرمایا ہے اور امام مسلم رحمہ اللہ نے کتاب الایمان میں اسے ذکرکیا ہے۔ مگروہاں سند میں پانچ راوی ہیں۔