Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
باب : ایمان والوں کا عمل میں ایک دوسرے سے بڑھ جانا ( عین ممکن ہے )
حدیث نمبر : 22
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن عمرو بن يحيى المازني، عن أبيه، عن أبي سعيد الخدري، رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " يدخل أهل الجنة الجنة، وأهل النار النار، ثم يقول الله تعالى أخرجوا من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان. فيخرجون منها قد اسودوا فيلقون في نهر الحيا ـ أو الحياة، شك مالك ـ فينبتون كما تنبت الحبة في جانب السيل، ألم تر أنها تخرج صفراء ملتوية". قال وهيب حدثنا عمرو " الحياة". وقال " خردل من خير".
ہم سے اسماعیل نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں ان سے مالک نے، وہ عمرو بن یحییٰ المازنی سے نقل کرتے ہیں، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور وہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو جائیں گے۔ اللہ پاک فرمائے گا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ( بھی ) ایمان ہو، اس کو بھی دوزخ سے نکال لو۔ تب ( ایسے لوگ ) دوزخ سے نکال لیے جائیں گے اور وہ جل کر کوئلے کی طرح سیاہ ہو چکے ہوں گے۔ پھر زندگی کی نہر میں یا بارش کے پانی میں ڈالے جائیں گے۔ ( یہاں راوی کو شک ہو گیا ہے کہ اوپر کے راوی نے کون سا لفظ استعمال کیا ) اس وقت وہ دانے کی طرح اگ آئیں گے جس طرح ندی کے کنارے دانے اگ آتے ہیں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ دانہ زردی مائل پیچ در پیچ نکلتا ہے۔ وہیب نے کہا کہ ہم سے عمرو نے ( حیا کی بجائے ) حیاۃ، اور ( خردل من ایمان ) کی بجائے ( خردل من خیر ) کا لفظ بیان کیا۔
تشریح : اس حدیث سے صاف ظاہر ہوا کہ جس کسی کے دل میں ایمان کم سے کم ہوگا۔ کسی نہ کسی دن وہ مشیت ایزدی کے تحت اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان پر نجات کا مدار تو ہے۔ مگر اللہ کے یہاں درجات اعمال ہی سے ملیں گے۔ جس قدر اعمال عمدہ اور نیک ہوں گے اس قدر اس کی عزت ہوگی۔
اس سے ظاہر ہوا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اور یہ کہ کچھ لوگ ایمان میں ترقی یافتہ ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کا ایمان کمزور ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض کے قلوب میں ایمان محض ایک رائی کے دانہ برابر ہوتا ہے۔ حدیث نبوی میں اس قدر وضاحت کے بعد بھی جو لوگ جملہ ایمان داروں کا ایمان یکساں مانتے ہیں اور کمی بیشی کے قائل نہیں ان کے اس قول کا خود اندازہ کرلینا چاہئیے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ووجہ مطابقۃ ہذاالحدیث للترجمۃ ظاہر وارادبایرادہ الرد علی المرجئۃ لما فیہ من ضرر المعاصی مع الایمان وعلی المعتزلۃ فی ان المعاصی موجبۃ للخلود یعنی اس حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے اور حضرت مصنف رحمہ اللہ کا یہاں اس حدیث کے لانے سے مقصد مرجیہ کی تردید کرنا ہے۔ اس لیے کہ اس میں ایمان کے باوجود معاصی کا ضرر ونقصان بتلایا گیا ہے اور معتزلہ پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ گنہ گار لوگ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔
حدیث نمبر : 23
حدثنا محمد بن عبيد الله، قال حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح، عن ابن شهاب، عن أبي أمامة بن سهل، أنه سمع أبا سعيد الخدري، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " بينا أنا نائم رأيت الناس يعرضون على، وعليهم قمص منها ما يبلغ الثدي، ومنها ما دون ذلك، وعرض على عمر بن الخطاب وعليه قميص يجره". قالوا فما أولت ذلك يا رسول الله قال " الدين".
ہم سے محمد بن عبیداللہ نے یہ حدیث بیان کی، ان سے ابراہیم بن سعد نے، وہ صالح سے روایت کرتے ہیں، وہ ابن شہاب سے، وہ ابوامامہ بن سہل بن حنیف سے راوی ہیں، وہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک وقت سو رہا تھا، میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں اور وہ کرتے پہنے ہوئے ہیں۔ کسی کا کرتہ سینے تک ہے اور کسی کا اس سے نیچا ہے۔ ( پھر ) میرے سامنے عمر بن الخطاب لائے گئے۔ ان ( کے بدن ) پر ( جو ) کرتا تھا۔ اسے وہ گھسیٹ رہے تھے۔ ( یعنی ان کا کرتہ زمین تک نیچا تھا ) صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اس کی کیا تعبیر ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ( اس سے ) دین مراد ہے۔
تشریح : مطلب یہ ہے کہ دین حضرت عمراکی ذات میں اس طرح جمع ہوگیا کہ کسی اور کو یہ شرف حاصل نہیں ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت اپنی فداکاری وجاں نثاری اور دینی عظمت واہلیت کے لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی بڑھ کرہے اور بزرگی وعظمت میں وہ سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ مگر اسلام کی جو ترقی اور بحیثیت دین کے جو شوکت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذات سے ہوئی وہ بہت بڑھ چڑھ کرہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کا کرتہ سب سے بڑا تھا، اس لیے ان کی دینی فہم بھی اور وں سے بڑھ کر تھی۔ دین کی اسی کمی بیشی میں ان کی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ ایمان کم وبیش نہیں ہوتا۔ اس روایت کے نقل کرنے سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی مقصد ہے۔
ومطابقتہ للترجمۃ ظاہرۃ من جہۃ تاویل القمص بالدین وقد ذکر انہم متفاضلون فی لبسھا فدل علی انہم متفاضلون فی الایمان ( فتح ) یعنی حدیث اور باب کی مطابقت بایں طور پر ظاہر ہے کہ قمیصوں سے دین مراد ہے اور مذکور ہوا کہ لوگ ان کے پہننے میں کمی بیشی کی حالت میں ہیں۔ یہی دلیل ہے کہ وہ ایمان میں بھی کم وبیش ہیں۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وفی ہذا الحدیث التشبیہ البلیغ وہو تشبیہ الدین بالقمیص لانہ لیسترعورۃ الانسان وکذلک الدین یسترہ من النار وفیہ الدلالۃ علی التفاضل فی الایمان کما ہو مفہوم تاویل القمیص الدین مع ماذکرہ من ان اللابسین یتفاضلون فی لبسہ یعنی اس حدیث میں ایک گہری بلیغ تشبیہ ہے جو دین کو قمیص کے ساتھ دی گئی ہے، قمیص انسان کے جسم کو چھپانے والی ہے، اسی طرح دین اسے دوزخ کی آگ سے چھپالے گا، اس میں ایمان کی کمی بیشی پر بھی دلیل ہے جیسا کہ قمیص کے ساتھ دین کی تعبیر کا مفہوم ہے۔ جس طرح قمیص پہننے والے اس کے پہننے میں کم وبیش ہیں اسی طرح دین میں بھی لوگ کم وبیش درجات رکھتے ہیں، پس ایمان کی کمی وبیشی ثابت ہوئی۔ اس حدیث کے جملہ راوی مدنی ہیں حضرت امام المحدثین آگے ان چیزوں کا بیان شروع فرما رہے ہیں، جن کے نہ ہونے سے ایمان میں نقص لازم آتا ہے۔
چنانچہ اگلا باب اس مضمون سے متعلق ہے۔
حدیث نمبر : 22
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن عمرو بن يحيى المازني، عن أبيه، عن أبي سعيد الخدري، رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " يدخل أهل الجنة الجنة، وأهل النار النار، ثم يقول الله تعالى أخرجوا من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان. فيخرجون منها قد اسودوا فيلقون في نهر الحيا ـ أو الحياة، شك مالك ـ فينبتون كما تنبت الحبة في جانب السيل، ألم تر أنها تخرج صفراء ملتوية". قال وهيب حدثنا عمرو " الحياة". وقال " خردل من خير".
ہم سے اسماعیل نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں ان سے مالک نے، وہ عمرو بن یحییٰ المازنی سے نقل کرتے ہیں، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور وہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو جائیں گے۔ اللہ پاک فرمائے گا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ( بھی ) ایمان ہو، اس کو بھی دوزخ سے نکال لو۔ تب ( ایسے لوگ ) دوزخ سے نکال لیے جائیں گے اور وہ جل کر کوئلے کی طرح سیاہ ہو چکے ہوں گے۔ پھر زندگی کی نہر میں یا بارش کے پانی میں ڈالے جائیں گے۔ ( یہاں راوی کو شک ہو گیا ہے کہ اوپر کے راوی نے کون سا لفظ استعمال کیا ) اس وقت وہ دانے کی طرح اگ آئیں گے جس طرح ندی کے کنارے دانے اگ آتے ہیں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ دانہ زردی مائل پیچ در پیچ نکلتا ہے۔ وہیب نے کہا کہ ہم سے عمرو نے ( حیا کی بجائے ) حیاۃ، اور ( خردل من ایمان ) کی بجائے ( خردل من خیر ) کا لفظ بیان کیا۔
تشریح : اس حدیث سے صاف ظاہر ہوا کہ جس کسی کے دل میں ایمان کم سے کم ہوگا۔ کسی نہ کسی دن وہ مشیت ایزدی کے تحت اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان پر نجات کا مدار تو ہے۔ مگر اللہ کے یہاں درجات اعمال ہی سے ملیں گے۔ جس قدر اعمال عمدہ اور نیک ہوں گے اس قدر اس کی عزت ہوگی۔
اس سے ظاہر ہوا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اور یہ کہ کچھ لوگ ایمان میں ترقی یافتہ ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کا ایمان کمزور ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض کے قلوب میں ایمان محض ایک رائی کے دانہ برابر ہوتا ہے۔ حدیث نبوی میں اس قدر وضاحت کے بعد بھی جو لوگ جملہ ایمان داروں کا ایمان یکساں مانتے ہیں اور کمی بیشی کے قائل نہیں ان کے اس قول کا خود اندازہ کرلینا چاہئیے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ووجہ مطابقۃ ہذاالحدیث للترجمۃ ظاہر وارادبایرادہ الرد علی المرجئۃ لما فیہ من ضرر المعاصی مع الایمان وعلی المعتزلۃ فی ان المعاصی موجبۃ للخلود یعنی اس حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے اور حضرت مصنف رحمہ اللہ کا یہاں اس حدیث کے لانے سے مقصد مرجیہ کی تردید کرنا ہے۔ اس لیے کہ اس میں ایمان کے باوجود معاصی کا ضرر ونقصان بتلایا گیا ہے اور معتزلہ پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ گنہ گار لوگ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔
حدیث نمبر : 23
حدثنا محمد بن عبيد الله، قال حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح، عن ابن شهاب، عن أبي أمامة بن سهل، أنه سمع أبا سعيد الخدري، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " بينا أنا نائم رأيت الناس يعرضون على، وعليهم قمص منها ما يبلغ الثدي، ومنها ما دون ذلك، وعرض على عمر بن الخطاب وعليه قميص يجره". قالوا فما أولت ذلك يا رسول الله قال " الدين".
ہم سے محمد بن عبیداللہ نے یہ حدیث بیان کی، ان سے ابراہیم بن سعد نے، وہ صالح سے روایت کرتے ہیں، وہ ابن شہاب سے، وہ ابوامامہ بن سہل بن حنیف سے راوی ہیں، وہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک وقت سو رہا تھا، میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں اور وہ کرتے پہنے ہوئے ہیں۔ کسی کا کرتہ سینے تک ہے اور کسی کا اس سے نیچا ہے۔ ( پھر ) میرے سامنے عمر بن الخطاب لائے گئے۔ ان ( کے بدن ) پر ( جو ) کرتا تھا۔ اسے وہ گھسیٹ رہے تھے۔ ( یعنی ان کا کرتہ زمین تک نیچا تھا ) صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اس کی کیا تعبیر ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ( اس سے ) دین مراد ہے۔
تشریح : مطلب یہ ہے کہ دین حضرت عمراکی ذات میں اس طرح جمع ہوگیا کہ کسی اور کو یہ شرف حاصل نہیں ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت اپنی فداکاری وجاں نثاری اور دینی عظمت واہلیت کے لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی بڑھ کرہے اور بزرگی وعظمت میں وہ سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ مگر اسلام کی جو ترقی اور بحیثیت دین کے جو شوکت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذات سے ہوئی وہ بہت بڑھ چڑھ کرہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کا کرتہ سب سے بڑا تھا، اس لیے ان کی دینی فہم بھی اور وں سے بڑھ کر تھی۔ دین کی اسی کمی بیشی میں ان کی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ ایمان کم وبیش نہیں ہوتا۔ اس روایت کے نقل کرنے سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی مقصد ہے۔
ومطابقتہ للترجمۃ ظاہرۃ من جہۃ تاویل القمص بالدین وقد ذکر انہم متفاضلون فی لبسھا فدل علی انہم متفاضلون فی الایمان ( فتح ) یعنی حدیث اور باب کی مطابقت بایں طور پر ظاہر ہے کہ قمیصوں سے دین مراد ہے اور مذکور ہوا کہ لوگ ان کے پہننے میں کمی بیشی کی حالت میں ہیں۔ یہی دلیل ہے کہ وہ ایمان میں بھی کم وبیش ہیں۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وفی ہذا الحدیث التشبیہ البلیغ وہو تشبیہ الدین بالقمیص لانہ لیسترعورۃ الانسان وکذلک الدین یسترہ من النار وفیہ الدلالۃ علی التفاضل فی الایمان کما ہو مفہوم تاویل القمیص الدین مع ماذکرہ من ان اللابسین یتفاضلون فی لبسہ یعنی اس حدیث میں ایک گہری بلیغ تشبیہ ہے جو دین کو قمیص کے ساتھ دی گئی ہے، قمیص انسان کے جسم کو چھپانے والی ہے، اسی طرح دین اسے دوزخ کی آگ سے چھپالے گا، اس میں ایمان کی کمی بیشی پر بھی دلیل ہے جیسا کہ قمیص کے ساتھ دین کی تعبیر کا مفہوم ہے۔ جس طرح قمیص پہننے والے اس کے پہننے میں کم وبیش ہیں اسی طرح دین میں بھی لوگ کم وبیش درجات رکھتے ہیں، پس ایمان کی کمی وبیشی ثابت ہوئی۔ اس حدیث کے جملہ راوی مدنی ہیں حضرت امام المحدثین آگے ان چیزوں کا بیان شروع فرما رہے ہیں، جن کے نہ ہونے سے ایمان میں نقص لازم آتا ہے۔
چنانچہ اگلا باب اس مضمون سے متعلق ہے۔