Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : اگر کسی نے کسی کی دیوار گرا دی تو اسے وہ ویسی ہی بنوانی ہوگی
اس مسئلہ میں مالکیہ کا اختلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ دیوار کی قیمت دینی چاہئے۔ مگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جس روایت سے دلیل لی وہ اس پر مبنی ہے کہ اگلی شریعتیں ہمارے لیے حجت ہیں جب ہماری شریعت میں ان کے خلاف کوئی حکم نہ ہو۔ اور اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔
حدیث نمبر : 2482
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا جرير بن حازم، عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "كان رجل في بني إسرائيل، يقال له جريج، يصلي، فجاءته أمه فدعته، فأبى أن يجيبها، فقال أجيبها أو أصلي ثم أتته، فقالت اللهم لا تمته حتى تريه المومسات. وكان جريج في صومعته، فقالت امرأة لأفتنن جريجا. فتعرضت له فكلمته فأبى، فأتت راعيا، فأمكنته من نفسها فولدت غلاما، فقالت هو من جريج. فأتوه، وكسروا صومعته فأنزلوه وسبوه، فتوضأ وصلى ثم أتى الغلام، فقال من أبوك يا غلام قال الراعي. قالوا نبني صومعتك من ذهب. قال لا إلا من طين".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بنی اسرائیل میں ایک صاحب تھے، جن کا نام جریج تھا۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی والدہ آئیں اور انہیں پکارا۔ انہوں نے جواب نہیں دیا۔ سوچتے رہے کہ جواب دوں یا نماز پڑھوں۔ پھر وہ دوبارہ آئیں اور ( غصے میں ) بد دعا کر گئیں، اے اللہ ! اسے موت نہ آئے جب تک کسی بدکار عورت کا منہ نہ دیکھ لے۔ جریج اپنے عبادت خانے میں رہتے تھے۔ ایک عورت نے ( جو جریج کے عبادت خانے کے پا س اپنی مویشی چرایا کرتی تھی اور فاحشہ تھی ) کہا کہ جریج کو فتنہ میں ڈالے بغیر نہ رہوں گی۔ چنانچہ وہ ان کے سامنے آئی اور گفتگو کرنی چاہی، لیکن انہوں نے منہ پھیر لیا۔ پھر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی اور اپنے جسم کو اس کے قابو میں دے دیا۔ آخر لڑکا پیدا ہوا۔ اور اس عورت نے الزام لگایا کہ یہ جریج کا لڑکا ہے۔ قوم کے لوگ جریج کے یہاں آئے اور ا ن کا عبادت خانہ توڑ دیا۔ انہیں باہر نکالا اور گالیاں دیں۔ لیکن جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر اس لڑکے کے پاس آئے۔ انہوں نے اس سے پوچھا بچے ! تمہار باپ کون ہے؟ بچہ ( خدا کے حکم سے ) بول پڑا کہ چرواہا ! ( قوم خوش ہو گئی اور ) کہا کہ ہم آپ کے لیے سونے کا عبادت خانہ بنوا دیں۔ جریج نے کہا کہ میرا گھرتو مٹی ہی سے بنے گا۔
تشریح : حدیث جریج حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کئی جگہ لائے ہیں۔ اور اس سے مختلف مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔ یہاں آپ یہ ثابت فرمانے کے لیے یہ حدیث لائے کہ جب کوئی شخص یا اشخاص کسی کی دیوار ناحق گراد یں تو ان کو وہ دیوار پہلی ہی دیوار کے مثل بنانی لازم ہوگی۔
جریج کا واقعہ مشہور ہے۔ ان کے دین میں ماں کی بات کا جواب دینا بحالت نماز بھی ضروری تھا۔ مگر حضرت جریج نماز میں مشغول رہے، حتی کہ ان کی والدہ نے خفا ہو کر ان کے حق میں بددعا کر دی، آخر ان کی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے اللہ پاک نے اسی ولد الزنا بچے کو گویائی دے۔ حالانکہ اس کے بولنے کی عمر نہ تھی۔ مگر اللہ نے حضرت جریج کی دعا قبول کی اور اس بچے کو بولنے کی طاقت بخشی۔ قسطلانی نے کہا کہ اللہ نے چھ بچوں کو کم سنی میں بولنے کی قوت عطا فرمائی۔ ان میں حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی گواہی دینے والا بچہ اور فرعون کی بیٹی کی مغلانی کا لڑکا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صاحب جریج اور صاحب اخدود اور بنی اسرائیل کی ایک عورت کا بیٹا جس کو وہ دوھ پلا رہی تھی۔ اچانک ایک شخص جاہ وحشم کے ساتھ گزرا اور عور ت نے بچے کے لیے دعا کی کہ اللہ میرے بچے کو بھی ایسی قسمت والا بنائیو۔ اس شیر خوار بچے نے فوراً کہا کہ الٰہی ! مجھے ایسا نہ بناؤ۔ کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے بھی کم سنی میں باتیں کی ہیں۔ تو کل سات بچے ہوں گے۔
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ حضرت جریج نے اپنا گھر مٹی ہی کی پہلی حالت کے مطابق بنوانے کا حکم دیا۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ ماں کی دعا اپنی اولاد کے لیے ضرور قبول ہوتی ہے۔ ماں کا حق باپ سے تین حصے زیادہ ہے۔ جو لڑکے لڑکی ماں کو راضی رکھتے ہیں وہ دنیا میں بھی خوب پھلتے پھولتے ہیں اور آخرت میں بھی نجات پاتے ہیں اور ماں کو ناراض کرنے والے ہمیشہ دکھ اٹھاتے ہیں۔ تجربہ اور مشاہدہ سے اس کا بہت کچھ ثبوت موجود ہے۔ جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ماں کے بعد باپ کا درجہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں عبادت الٰہی کے لیے حکم صادر فرمانے کے بعد و بالوالدین احسانا ( البقرۃ : 83 ) کے لفظ استعمال کئے گئے ہیں۔ کہ اللہ کی عبادت کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو، یہاں تک کہ فلاں تقل لہما اف و لا تنہر ہما و قل لہما قولا کریما و اخفض لہما جناح الذل من الرحمۃ و قل رب ارحمہما کما ربیانی صغیرا ( بنی اسرائیل : 24 ) یعنی ماں باپ زندہ موجود ہوں تو ان کے سامنے اف بھی نہ کرو اور نہ انہیں ڈانٹو ڈپٹو بلکہ ان سے نرم نرم میٹھی میٹھی باتیں جو رحم و کرم سے بھر پور ہوں کیا کرو اور ان کے لیے رحم و کرم والے بازو بچھا دیا کرو وہ بازو جو ان کے احترام کے لیے عاجزی انکساری کے لیے ہوئے ہوں اوران کے حق میں یوں دعا کیا کرو کہ پروردگار ! ان پر اسی طرح رحم فرمائیو جیسا کہ بچپن میں انہوں نے مجھ کو اپنے رحم و کرم سے پروان چڑھایا۔
ماں باپ کی خدمت، اطاعت، فرمانبردرای کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں جن کا نقل کرنا طوالت ہے۔ خلاصہ یہی ہے کہ اولاد کا فرض ہے کہ والدین کی نیک دعائیں ہمیشہ حاصل کرے۔
حضرت جریج کے واقعہ میں اور بھی بہت سی عبرتیں ہیں۔ سمجھنے کے لیے نور بصیرت درکار ہے، اللہ والے دنیا کے جھمیلوں سے دور رہ کر شب و روز عبادت الٰہی میں مشغول رہنے والے بھی ہوتے ہیں اور وہ دنیا کے جھمیلوں میں رہ کربھی یاد خدا سے غافل نہیںہوتے۔ نیز جب بھی کوئی حادثہ سامنے آئے صبر و استقلال کے ساتھ اسے برداشت کرتے اور اس کا نتیجہ اللہ کے حوالے کرتے ہیں۔ ہماری شریعت کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر کوئی شخص نفل نماز کی نیت باندھے ہوئے ہو اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے پکار دیں تو وہ نماز توڑ کر خدمت میں حاضری دے۔ آج کل اولاد کے لیے یہی حکم ہے نیز بیوی کے لیے بھی کہ وہ خاوند کی اطاعت کو نفل نمازوں پر مقدم جانے۔ و باللہ التوفیق
باب : اگر کسی نے کسی کی دیوار گرا دی تو اسے وہ ویسی ہی بنوانی ہوگی
اس مسئلہ میں مالکیہ کا اختلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ دیوار کی قیمت دینی چاہئے۔ مگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جس روایت سے دلیل لی وہ اس پر مبنی ہے کہ اگلی شریعتیں ہمارے لیے حجت ہیں جب ہماری شریعت میں ان کے خلاف کوئی حکم نہ ہو۔ اور اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔
حدیث نمبر : 2482
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا جرير بن حازم، عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "كان رجل في بني إسرائيل، يقال له جريج، يصلي، فجاءته أمه فدعته، فأبى أن يجيبها، فقال أجيبها أو أصلي ثم أتته، فقالت اللهم لا تمته حتى تريه المومسات. وكان جريج في صومعته، فقالت امرأة لأفتنن جريجا. فتعرضت له فكلمته فأبى، فأتت راعيا، فأمكنته من نفسها فولدت غلاما، فقالت هو من جريج. فأتوه، وكسروا صومعته فأنزلوه وسبوه، فتوضأ وصلى ثم أتى الغلام، فقال من أبوك يا غلام قال الراعي. قالوا نبني صومعتك من ذهب. قال لا إلا من طين".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بنی اسرائیل میں ایک صاحب تھے، جن کا نام جریج تھا۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی والدہ آئیں اور انہیں پکارا۔ انہوں نے جواب نہیں دیا۔ سوچتے رہے کہ جواب دوں یا نماز پڑھوں۔ پھر وہ دوبارہ آئیں اور ( غصے میں ) بد دعا کر گئیں، اے اللہ ! اسے موت نہ آئے جب تک کسی بدکار عورت کا منہ نہ دیکھ لے۔ جریج اپنے عبادت خانے میں رہتے تھے۔ ایک عورت نے ( جو جریج کے عبادت خانے کے پا س اپنی مویشی چرایا کرتی تھی اور فاحشہ تھی ) کہا کہ جریج کو فتنہ میں ڈالے بغیر نہ رہوں گی۔ چنانچہ وہ ان کے سامنے آئی اور گفتگو کرنی چاہی، لیکن انہوں نے منہ پھیر لیا۔ پھر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی اور اپنے جسم کو اس کے قابو میں دے دیا۔ آخر لڑکا پیدا ہوا۔ اور اس عورت نے الزام لگایا کہ یہ جریج کا لڑکا ہے۔ قوم کے لوگ جریج کے یہاں آئے اور ا ن کا عبادت خانہ توڑ دیا۔ انہیں باہر نکالا اور گالیاں دیں۔ لیکن جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر اس لڑکے کے پاس آئے۔ انہوں نے اس سے پوچھا بچے ! تمہار باپ کون ہے؟ بچہ ( خدا کے حکم سے ) بول پڑا کہ چرواہا ! ( قوم خوش ہو گئی اور ) کہا کہ ہم آپ کے لیے سونے کا عبادت خانہ بنوا دیں۔ جریج نے کہا کہ میرا گھرتو مٹی ہی سے بنے گا۔
تشریح : حدیث جریج حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کئی جگہ لائے ہیں۔ اور اس سے مختلف مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔ یہاں آپ یہ ثابت فرمانے کے لیے یہ حدیث لائے کہ جب کوئی شخص یا اشخاص کسی کی دیوار ناحق گراد یں تو ان کو وہ دیوار پہلی ہی دیوار کے مثل بنانی لازم ہوگی۔
جریج کا واقعہ مشہور ہے۔ ان کے دین میں ماں کی بات کا جواب دینا بحالت نماز بھی ضروری تھا۔ مگر حضرت جریج نماز میں مشغول رہے، حتی کہ ان کی والدہ نے خفا ہو کر ان کے حق میں بددعا کر دی، آخر ان کی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے اللہ پاک نے اسی ولد الزنا بچے کو گویائی دے۔ حالانکہ اس کے بولنے کی عمر نہ تھی۔ مگر اللہ نے حضرت جریج کی دعا قبول کی اور اس بچے کو بولنے کی طاقت بخشی۔ قسطلانی نے کہا کہ اللہ نے چھ بچوں کو کم سنی میں بولنے کی قوت عطا فرمائی۔ ان میں حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی گواہی دینے والا بچہ اور فرعون کی بیٹی کی مغلانی کا لڑکا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صاحب جریج اور صاحب اخدود اور بنی اسرائیل کی ایک عورت کا بیٹا جس کو وہ دوھ پلا رہی تھی۔ اچانک ایک شخص جاہ وحشم کے ساتھ گزرا اور عور ت نے بچے کے لیے دعا کی کہ اللہ میرے بچے کو بھی ایسی قسمت والا بنائیو۔ اس شیر خوار بچے نے فوراً کہا کہ الٰہی ! مجھے ایسا نہ بناؤ۔ کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے بھی کم سنی میں باتیں کی ہیں۔ تو کل سات بچے ہوں گے۔
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ حضرت جریج نے اپنا گھر مٹی ہی کی پہلی حالت کے مطابق بنوانے کا حکم دیا۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ ماں کی دعا اپنی اولاد کے لیے ضرور قبول ہوتی ہے۔ ماں کا حق باپ سے تین حصے زیادہ ہے۔ جو لڑکے لڑکی ماں کو راضی رکھتے ہیں وہ دنیا میں بھی خوب پھلتے پھولتے ہیں اور آخرت میں بھی نجات پاتے ہیں اور ماں کو ناراض کرنے والے ہمیشہ دکھ اٹھاتے ہیں۔ تجربہ اور مشاہدہ سے اس کا بہت کچھ ثبوت موجود ہے۔ جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ماں کے بعد باپ کا درجہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں عبادت الٰہی کے لیے حکم صادر فرمانے کے بعد و بالوالدین احسانا ( البقرۃ : 83 ) کے لفظ استعمال کئے گئے ہیں۔ کہ اللہ کی عبادت کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو، یہاں تک کہ فلاں تقل لہما اف و لا تنہر ہما و قل لہما قولا کریما و اخفض لہما جناح الذل من الرحمۃ و قل رب ارحمہما کما ربیانی صغیرا ( بنی اسرائیل : 24 ) یعنی ماں باپ زندہ موجود ہوں تو ان کے سامنے اف بھی نہ کرو اور نہ انہیں ڈانٹو ڈپٹو بلکہ ان سے نرم نرم میٹھی میٹھی باتیں جو رحم و کرم سے بھر پور ہوں کیا کرو اور ان کے لیے رحم و کرم والے بازو بچھا دیا کرو وہ بازو جو ان کے احترام کے لیے عاجزی انکساری کے لیے ہوئے ہوں اوران کے حق میں یوں دعا کیا کرو کہ پروردگار ! ان پر اسی طرح رحم فرمائیو جیسا کہ بچپن میں انہوں نے مجھ کو اپنے رحم و کرم سے پروان چڑھایا۔
ماں باپ کی خدمت، اطاعت، فرمانبردرای کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں جن کا نقل کرنا طوالت ہے۔ خلاصہ یہی ہے کہ اولاد کا فرض ہے کہ والدین کی نیک دعائیں ہمیشہ حاصل کرے۔
حضرت جریج کے واقعہ میں اور بھی بہت سی عبرتیں ہیں۔ سمجھنے کے لیے نور بصیرت درکار ہے، اللہ والے دنیا کے جھمیلوں سے دور رہ کر شب و روز عبادت الٰہی میں مشغول رہنے والے بھی ہوتے ہیں اور وہ دنیا کے جھمیلوں میں رہ کربھی یاد خدا سے غافل نہیںہوتے۔ نیز جب بھی کوئی حادثہ سامنے آئے صبر و استقلال کے ساتھ اسے برداشت کرتے اور اس کا نتیجہ اللہ کے حوالے کرتے ہیں۔ ہماری شریعت کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر کوئی شخص نفل نماز کی نیت باندھے ہوئے ہو اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے پکار دیں تو وہ نماز توڑ کر خدمت میں حاضری دے۔ آج کل اولاد کے لیے یہی حکم ہے نیز بیوی کے لیے بھی کہ وہ خاوند کی اطاعت کو نفل نمازوں پر مقدم جانے۔ و باللہ التوفیق