• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : اللہ تعالیٰ کا سورہ بقرہ میں یہ فرمانا ” اور وہ بڑا سخت جھگڑالو ہے “

حدیث نمبر : 2457
حدثنا أبو عاصم، عن ابن جريج، عن ابن أبي مليكة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏إن أبغض الرجال إلى الله الألد الخصم‏"‏‏.
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کے یہاں سب سے زیادہ ناپسند وہ آدمی ہے جو سخت جھگڑالو ہو۔

بعض بدبختوں کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ ذرا ذرا سی باتوں میں آپس میں جھگڑا فساد کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ عنداللہ بہت ہی برے ہیں۔ پوری آیت کا ترجمہ یوں ہے، لوگوں میں کوئی ایسا ہے جس کی بات دنیا کی زندگی میں تجھ کو بھلی لگتی ہے اور اپنے دل کی حالت پر اللہ کو گواہ کرتاہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت اخنس بن شریق کے حق میں اتری۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اسلام کا دعوی کرکے میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگا۔ جب کہ دل میں نفاق رکھتا تھا۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : اس شخص کا گناہ، جو جان بوجھ کر جھوٹ کے لیے جھگڑا کرے

حدیث نمبر : 2458
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال حدثني إبراهيم بن سعد، عن صالح، عن ابن شهاب، قال أخبرني عروة بن الزبير، أن زينب بنت أم سلمة، أخبرته أن أمها أم سلمة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرتها عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه سمع خصومة بباب حجرته، فخرج إليهم، فقال ‏"‏إنما أنا بشر وإنه يأتيني الخصم، فلعل بعضكم أن يكون أبلغ من بعض، فأحسب أنه صدق، فأقضي له بذلك، فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار، فليأخذها أو فليتركها‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے اور ان سے ابن شہاب نے کہ مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی، انہیں زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے کے سامنے جھگڑے کی آواز سنی اور جھگڑا کرنے والوں کے پاس تشریف لائے۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ میں بھی ایک انسان ہوں۔ اس لیے جب میرے یہاں کوئی جھگڑا لے کر آتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ ( فریقین میں سے ) ایک فریق کی بحث دوسرے فریق سے عمدہ ہو، میں سمجھتا ہوں کہ وہ سچا ہے۔ اور اس طرح میں اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں، لیکن اگر میں اس کو ( اس کے ظاہری بیان پر بھروسہ کرکے ) کسی مسلمان کا حق دلا دوں تو دوزخ کا ایک ٹکڑا اس کو دلا رہا ہوں، وہ لے لے یا چھوڑ دے۔

تشریح : یعنی جب تک خدا کی طرف سے مجھ پر وحی نہ آئے میں بھی تمہاری طرح غیب کی باتوں سے ناواقف رہتا ہوں کیوں کہ میں بھی آدمی ہوں اور آدمیت کے لوازم سے پاک نہیں ہوں۔ اس حدیث سے ان بے وقوفوں کا رد ہوا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم غیب ثابت کرتے ہیں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر نہیں سمجھتے بلکہ الوہیت کی صفات سے متصف جانتے ہیں۔ قاتلہم اللہ انی یوفکون ( وحیدی )

حدیث کا آخری ٹکڑا تہدید کے لیے ہے۔ اس حدیث سے صاف یہ نکلتا ہے کہ قاضی کے فیصلے سے وہ چیز حلال نہیں ہوتی اور قاضی کا فیصلہ ظاہرا ً نافذ ہے نہ باطنا۔ یعنی اگر مدعی ناحق پر ہوا اور عدالت اس کو کچھ دلا دے تو اللہ اور اس کے درمیان اس کے لیے حلال نہیں ہوگا۔ جمہو رعلماء اور اہل حدیث کا یہی قول ہے۔ لیکن حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا خلاف کیا ہے۔
لفظ غیب کے لغوی معانی کا تقاضا ہے کہ وہ بغیر کسی کے بتلائے از خود معلوم ہوجانے کا نام ہے اور یہ صرف اللہ پاک ہی کی ایک صفت خاصہ ہے کہ وہ ماضی و حال اور مستقبل کی جملہ غیبی خبریں از خود جانتا ہے۔ اس کے سوا مخلوق میں سے کسی بھی انسان یا فرشتے کے لیے ایسا عقیدہ رکھنا سراسر نادانی ہے خاص طور پر نبیوں رسولوں کی شان عام انسانوں سے بہت بلند و بالاتر ہوتی ہے۔ وہ براہ راست اللہ پاک سے شرف خطاب حاصل کرتے ہیں۔ وحی اور الہام کے ذریعہ سے بہت سی اگلی پچھلی باتیں ان پر واضح ہوجاتی ہیں مگر ان کو غیب سے تعبیر کرنا ان لوگوں کا کام ہے جن کو عقل و فہم کا کوئی ذرہ بھی نصیب نہیں ہوا ہے اور جو محض اندھی عقیدت کے پرستار بن کر اسلام فہمی سے قطعاً کورے ہو چکے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہر دو پہلو روز روشن کی طرح نمایاں نظر آتے ہیں۔ کتنی ہی دفعہ ایسا ہوا کہ ضرورت کے تحت ایک پوشیدہ امر وحی الٰہی سے آپ پر روشن ہو گیا اور کتنی ہی دفعہ یہ بھی ہوا کہ ضرورت تھی بلکہ سخت ضرورت تھی مگر وحی الٰہی اور الہام نہ آنے کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے متعلق کچھ نہ جان سکے اور بہت سے نقصانات سے آپ کو دوچار ہونا پڑا۔ اس لیے قرآن مجید میں آپ کی زبان مبارک سے اور صاف اعلان کرایا گیا۔ لوکنت اعلم الغیب لااستکثرت من الخیر و ما مسنی السوءاگر میں غیب جانتا تو بہت سی خیر ہی خیر جمع کرلیتا اور مجھ کو کبھی بھی کوئی برائی نہ چھو سکتی، اگر آپ کو جنگ احد کا یہ انجام بد معلوم ہوتا تو کبھی بھی اس گھاٹی پر ایسے لوگوں کو مقر رنہ کرتے جن کے وہاں سے ہٹ جانے کی وجہ سے کافروں کو پلٹ کر وار کرنے کا موقع ملا۔

خلاصہ یہ کہ علم غیب خاصہ باری تعالیٰ ہے۔ جو مولوی اس بارے میں مسلمانوں کو لڑاتے اور سر پھٹول کراتے رہتے ہیں وہ یقینا امت کے غدار ہیں۔ اسلام کے نادان دوست ہیں۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت ترین گستاخ ہیں۔ عنداللہ وہ مغضوب اور ضالین ہیں۔ بلکہ یہود و نصاری سے بھی بدتر۔ اللہ ان کے شر سے امت کے سادہ لوح مسلمانوں کو جلد از جلد نجات بخشے اور معاملہ فہمی کی سب کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : اس شخص کا بیان کہ جب اس نے جھگڑا کیا تو بد زبانی پر اتر آیا

حدیث نمبر : 2459
حدثنا بشر بن خالد، أخبرنا محمد، عن شعبة، عن سليمان، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله بن عمرو ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏أربع من كن فيه كان منافقا، أو كانت فيه خصلة من أربعة كانت فيه خصلة من النفاق، حتى يدعها إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا عاهد غدر، وإذا خاصم فجر‏"‏‏. ‏
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا کہا ہم کو محمد نے خبر دی شعبہ سے، انہیں سلیمان نے، انہیں عبداللہ بن مرہ نے، انہیں مسروق نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں بھی وہ ہوں گی، وہ منافق ہوگا۔ یا ان چار میں سے اگر ایک خصلت بھی اس میں ہے تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے۔ یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ جب بولے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے، اور جب جھگڑے تو بدزبانی پر اترآئے۔

جھگڑا بازی کرنا ہی برا ہے۔ پھر اس میں گالی گلوچ کا استعمال اتنا برا ہے کہ اسے نفاق ( بے ایمانی ) کی ایک علامت بتلایا گیا ہے۔ کسی اچھے مسلمان کا کام نہیں کہ وہ جھگڑے کے وقت بے لگام بن جائے اور جو بھی منہ پر آئے بکنے سے ذرا نہ شرمائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : مظلوم کو اگر ظالم کا مال مل جائے تو وہ اپنے مال کے موافق اس میں سے لے سکتا ہے۔

وقال ابن سيرين يقاصه وقرأ ‏{‏وإن عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به‏}‏
اور محمد بن سیرین رحمہ اللہ علیہ نے کہا اپنا حق برابر لے سکتا ہے۔ پھر انہوں نے ( سورۃ نحل کی ) یہ آیت پڑھی، ” اگر تم بدلہ لو تو اتنا ہی جتنا تمہیں ستایا گیا ہو۔ “

حدیث نمبر : 2460
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، حدثني عروة، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت جاءت هند بنت عتبة بن ربيعة، فقالت يا رسول الله إن أبا سفيان رجل مسيك، فهل على حرج أن أطعم من الذي له عيالنا فقال ‏"‏لا حرج عليك أن تطعميهم بالمعروف‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، ان سے عروہ نے بیان کیا، اور ان سے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی ہند رضی اللہ عنہا حاضر خدمت ہوئیں اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! ابوسفیان ( جو ان کے شو ہر ہیں وہ ) بخیل ہیں۔ تو کیا اس میں کوئی حرج ہے اگر میں ان کے مال میں سے لے کر اپنے بال بچوں کو کھلایا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دستور کے مطابق ان کے مال سے لے کر کھلاؤ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حدیث پر فتوی دیا ہے کہ ظالم کا جو مال بھی مل جائے مظلوم اپنے مال کی مقدار میں اسے لے سکتا ہے، متاخرین احناف کا بھی فتوی یہی ہے۔ ( تفہیم البخاری، پ : 9ص : 124 )

حدیث نمبر : 2461
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، قال حدثني يزيد، عن أبي الخير، عن عقبة بن عامر، قال قلنا للنبي صلى الله عليه وسلم إنك تبعثنا فننزل بقوم لا يقرونا فما ترى فيه فقال لنا ‏"‏إن نزلتم بقوم، فأمر لكم بما ينبغي للضيف فاقبلوا، فإن لم يفعلوا فخذوا منهم حق الضيف‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید نے بیان کیا، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاآپ ہمیں مختلف ملک والوں کے پاس بھیجتے ہیں اور ( بعض دفعہ ) ہمیں ایسے لوگوں پر اترنا پڑتا ہے کہ وہ ہماری ضیافت تک نہیں کرتے۔ آپ کی ایسے مواقع پر کیا ہدایت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا، اگر تمہارا قیام کسی قبیلے میں ہو اور تم سے ایسا برتاؤ کیا جائے جو کسی مہمان کے لیے مناسب ہے تو تم اسے قبول کرلو، لیکن اگر وہ نہ کریں تو تم خود مہمانی کا حق ان سے وصول کرلو۔

مہمانی کا حق میزبان کی مرضی کے خلاف وصول کرنے کے لیے جو اس حدیث میں ہدایت ہے اس کے متعلق محدثین نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ یہ حکم مخمصہ کی حالت کا ہے۔ بادیہ اور گاؤں کے دور دراز علاقوں میں اگر کوئی مسافر خصوصاً عرب کے ماحول میں پہنچتا تو اس کے لیے کھانے پینے کا ذریعہ اہل بادیہ کی میزبانی کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ تو مطلب یہ ہوا کہ اگر ایسا موقع ہو اور قبیلہ والے ضیافت سے انکار کردیں، ادھر مجاہد مسافروں کے پاس کوئی سامان نہ ہو تو وہ اپنی جان بچانے کے لیے ان سے اپنا کھانا پینا ان کی مرضی کے خلاف بھی وصول کرسکتے ہیں۔ اس طرح کی رخصتیں اسلام میں مخمصہ کے اوقات میں ہیں۔ دوسری توجیہ یہ کی گئی ہے کہ ضیافت اہل عرب میں ایک عام عرف و عادت کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس لیے اس عرف کی روشنی میں مجاہدین کو آپ نے ہدایت دی تھی۔ ایک توجیہ یہ بھی کی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے بہت سے قبائل سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر مسلمانوں کا لشکر ان کے قبیلہ سے گزرے اور ایک دو دن کے لیے ان کے یہاں قیام کرے تو وہ لشکر کی ضیافت کریں۔ یہ معاہدہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مکاتیب میں موجو دہے جو آپ نے قبائل عرب کے سرداروں کے نام بھیجے تھے۔ اور جن کی تخریج زیلعی نے بھی کی ہے۔ بہرحال مختلف توجیہات اس کی کی گئی ہیں۔
حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے عرف و عادت والے جواب کو پسند کیا ہے۔ یعنی عرب کے یہاں خود یہ بات جانی پہچانی تھی کہ گزرنے والے مسافروں کی ضیافت اہل قبیلہ کو ضرور کرنی چاہئے۔ کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو عرب کے چٹیل اور بے آب و گیاہ میدانوں میں سفر عرب جیسی قوم کے لیے تقریباً ناممکن ہو جاتا اور اسی کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی حکم تھا۔ گویا یہ ایک انتظامی ضرورت بھی تھی۔ اور جب دو ایک مسافر اس کے بغیر دور دراز کے سفر نہیں کرسکتے تھے تو فوجی دستے کس طرح اس کے بغیر سفر کرسکتے۔ ( تفہیم البخاری )
حدیث باب سے نکلتا ہے کہ مہمانی کرنا واجب ہے۔ اگر کچھ لوگ مہمانی نہ کریں تو ان سے جبراً مہمانی کا خرچ وصو ل کیا جائے۔ امام لیث بن سعد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ یہ وجوب دیہات والتوں پر ہے نہ بستی والوں پر، اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علماءکا یہ قول ہے کہ مہمانی کرنا سنت موکدہ ہے اور باب کی حدیث ان لوگوں پر محمول ہے جو مضطر ہوں۔ جن کے پاس راہ خرچ بالکل نہ ہو، ایسے لوگوں کی ضیافت واجب ہے۔
بعض نے کہا یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا۔ جب لوگ محتاج تھے اور مسافروں کی خاطر داری واجب تھی، بعد یہ منسوخ ہو گیا۔ کیوں کہ دوسری حدیث میں ہے کہ جائزہ ضیافت کا ایک دن ورا ت ہے، اور جائزہ تفضل کے طور پر ہوتا ہے نہ وجوب کے طور پر۔ بعض نے کہا یہ حکم خاص ہے ان لوگوں کے واسطے جن کو حاکم اسلام بھیجے۔ ایسے لوگوں کا کھانا اور ٹھکانا ان لوگوں پر واجب ہے جن کی طرف وہ بھیجے گئے ہیں۔ اور ہمارے زمانے میں بھی اس کا قاعدہ ہے حاکم کی طرف سے جو چپڑاسی بھیجے جاتے ہیں ان کی دستک ( بیگار ) گاؤں والوں کو دینی پڑتی ہے۔ ( وحیدی )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : چوپالوں کے بارے میں

وجلس النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه في سقيفة بني ساعدة‏.‏
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ بنو ساعدہ کے چوپالوں میں بیٹھے تھے۔

حدیث نمبر : 2462
حدثنا يحيى بن سليمان، قال حدثني ابن وهب، قال حدثني مالك،‏.‏ وأخبرني يونس، عن ابن شهاب، أخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، أن ابن عباس، أخبره عن عمر ـ رضى الله عنهم ـ قال حين توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم إن الأنصار اجتمعوا في سقيفة بني ساعدة، فقلت لأبي بكر انطلق بنا‏.‏ فجئناهم في سقيفة بني ساعدة‏.‏
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور مجھ کو یونس نے خبر دی کہ ابن شہاب نے کہا، مجھ کو خبردی عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے، انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، جب اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وفات دے دی تو انصار بنو ساعدہ کے سقیفہ ( چوپال ) میں جمع ہوئے۔ میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ہمیں بھی وہیں لے چلئے۔ چنانچہ ہم انصار کے یہاں سقیفہ بنو ساعدہ میں پہنچے۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ بستیوں میں عوام و خواص کی بیٹھک کے لیے چوپال کا عام رواج ہے۔ چنانچہ مدینۃ المنورہ میں بھی قبیلہ بنو ساعدہ میں انصار کی چوپال تھی۔ جہاں بیٹھ کر عوامی امور انجام دیئے جاتے تھے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی امات و خلافت کی بیعت کا مسئلہ بھی اسی جگہ حل ہوا۔

سقیفہ کا ترجمہ مولانا وحید الزماں نے منڈوا سے کیا ہے۔ جو شادی وغیرہ تقریبات میں عارضی طور پر سایہ کے لیے کپڑوں یا پھونس کے چھپروں سے بنایا جاتا ہے۔ مناسب ترجمہ چوپال ہے جو مستقل عوامی آرام گاہ ہوتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر امت کے سامنے سب سے اہم ترین مسئلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کا تھا۔ انصار اور مہاجرین ہر دو خلافت کے امید وار تھے۔ آخر انصار نے کہا کہ ایک امیر انصار میں سے ہو ایک مہاجرین میں سے۔ وہ اسی خیال کے تحت سقیفہ بنو ساعدہ میں پنچایت کر رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حالات کو بھانپ لیا اور اس بنیادی افتراق کو ختم کرنے کے لیے آپ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لے کر وہاں پہنچ گئے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حدیث نبوی الائمۃ من قریش پیش کی جس پر انصار نے سر تسلیم خم کر دیا۔ فوراً حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اعلان کر دیا، اور بلا اختلاف جملہ انصار و مہاجرین نے آپ کے دست حق پر ست پر بیعت کر لی۔ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی بیعت کر لی اور امت کا شیرازہ منتشر ہونے سے بچ گیا۔ یہ سارا واقعہ سقیفہ بنو ساعدہ میں ہوا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی گاڑنے سے نہ روکے

حدیث نمبر : 2463
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن الأعرج، عن أبي هريرة، رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا يمنع جار جاره أن يغرز خشبه في جداره‏"‏‏. ‏ ثم يقول أبو هريرة ما لي أراكم عنها معرضين والله لأرمين بها بين أكتافكم‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے اعرج نے، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے، یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں اس سے منہ پھیرنے والا پاتا ہوں۔ قسم اللہ ! میں تو اس حدیث کا تمہارے سامنے برابر اعلان کرتا ہی رہوں گا۔

تشریح : یا ایک کڑی لگانے سے، کیوں کہ حدیث میں دونوں طرح بصیغہ جمع اور بصیغہ مفرد منقول ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ یہ حکم استحبابا ہے ورنہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہمسایہ کی دیوار پر اس کی اجازت کے بغیر کڑیاں رکھے۔ مالکیہ اور حنفیہ کا بھی یہی قول ہے۔ امام احمد اور اسحق اور اہل حدیث کے نزدیک یہ حکم وجوباً ہے اگر ہمسایہ اس کی دیوار پر کڑیاں لگانا چاہئے تو دیوار کے مالک کو اس کا روکنا جائز نہیں۔ اس لیے کہ اس میں کوئی نقصان نہیں اور دیوار مضبوط ہوتی ہے۔ گو دیوار میں سوراخ کرنا پڑے۔ امام بیہقی نے کہا، شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول قدیم یہی ہے اور حدیث کے خلاف کوئی حکم نہیں دے سکتا اور یہ حدیث صحیح ہے۔ ( وحیدی )

آخر حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ایک خفگی آمیز قول منقول ہے جس کا لفظی ترجمہ یوں ہے کہ قسم اللہ کی میں اس حدیث کو تمہارے مونڈھوں کے درمیان پھینکوں گا۔ یعنی زور زور سے تم کو سناؤں گا۔ اور خوب تم کو شرمندہ کروں گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس قول سے معلوم ہوا کہ جو لوگ حدیث کے خلاف کسی پیر یا امام مجتہد کے قول پر جمے ہوئے ہوں ان کو چھیڑنا اور حدیث نبوی اعلانیہ ان کو بار بار سنانا درست ہے شاید اللہ ان کو ہدایت دے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : راستے میں شراب کا بہا دینا درست ہے

حدیث نمبر : 2464
حدثنا محمد بن عبد الرحيم أبو يحيى، أخبرنا عفان، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا ثابت، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ كنت ساقي القوم في منزل أبي طلحة، وكان خمرهم يومئذ الفضيخ، فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم مناديا ينادي ‏"‏ألا إن الخمر قد حرمت‏"‏‏. ‏ قال فقال لي أبو طلحة اخرج فأهرقها، فخرجت فهرقتها، فجرت في سكك المدينة فقال بعض القوم قد قتل قوم وهى في بطونهم‏.‏ فأنزل الله ‏{‏ليس على الذين آمنوا وعملوا الصالحات جناح فيما طعموا‏}‏ الآية‏.
ہم سے ابویحییٰ محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم کو عفان بن مسلم نے خبر دی، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے بیان کیا، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے مکان میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا۔ ان دنوں کھجور ہی کی شراب پیا کرتے تھے۔ ( پھر جو نہی شراب کی حرمت پر آیت قرآنی اتری ) تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی سے ندا کرائی کہ شراب حرام ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا ( یہ سنتے ہی ) ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ باہر لے جا کر اس شراب کو بہا دے۔ چنانچہ میں نے باہر نکل کر ساری شراب بہادی۔ شراب مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی، تو بعض لوگوں نے کہا، یوں معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اس حالت میں قتل کر دیئے گئے ہیں کہ شراب ان کے پیٹ میں موجود تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ” وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کئے، ان پر ان چیزوں کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ جو پہلے کھا چکے ہیں۔ ( آخر آیت تک )

باب کا مطلب حدیث کے لفظ فجرت فی سکک المدینۃ سے نکل رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ راستے کی زمین سب لوگوں میں مشترک ہے مگر وہاں شراب وغیرہ بہا دینا درست ہے بشرطیکہ چلنے والوں کو اس سے تکلیف نہ ہو۔ علماءنے کہا ہے کہ راستے میں اتنا بہت پانی بہانا کہ چلنے والوں کو تکلیف ہو منع ہے تو نجاست وغیرہ ڈالنا بطریق اولیٰ منع ہوگا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے شراب کو راستے میں بہا دینے کا حکم ا س لیے دیا ہوگا کہ عام لوگوں کو شراب کی حرمت معلوم ہو جائے۔ ( وحیدی )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : گھروں کے صحن کا بیان اور ان میں بیٹھنا اور راستوں میں بیٹھ

وقالت عائشة فابتنى أبو بكر مسجدا بفناء داره، يصلي فيه، ويقرأ القرآن فيتقصف عليه نساء المشركين وأبناؤهم، يعجبون منه، والنبي صلى الله عليه وسلم يومئذ بمكة‏.‏
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنائی، جس میں وہ نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ مشرکوں کی عورتوں اور بچوں کی وہاں بھیڑ لگ جاتی اور سب بہت متعجب ہوتے۔ ان دنوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام مکہ میں تھا۔

حدیث نمبر : 2465
حدثنا معاذ بن فضالة، حدثنا أبو عمر، حفص بن ميسرة عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏إياكم والجلوس على الطرقات‏"‏‏. ‏ فقالوا ما لنا بد، إنما هي مجالسنا نتحدث فيها‏.‏ قال ‏"‏فإذا أبيتم إلا المجالس فأعطوا الطريق حقها ‏"‏قالوا وما حق الطريق قال ‏"‏غض البصر، وكف الأذى، ورد السلام، وأمر بالمعروف، ونهى عن المنكر‏"‏‏. ‏
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعمر حفص بن میسرہ نے بیان کیا، اور ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عطاءبن یسار نے بیان کیا، اور ان سے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم تو وہاں بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ وہی ہمارے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے کہ جہاں ہم باتیں کرتے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر وہاں بیٹھنے کی مجبور ہی ہے تو راستے کا حق بھی ادا کرو۔ صحابہ نے پوچھا اور راستے کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نگاہ نیچی رکھنا، کسی کو ایذاءدینے سے بچنا، سلام کا جواب دینا، اچھی باتوں کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بحر طویل میں آداب الطریق کو یوں نظم فرمایا ہے :
جمعت آداب من رام الجلوس علی الطریق من قول خیر الخلق انسانا
افش السلام و احسن فی الکلام و شمت عاطسا و سلاما رد احسانا
فی الحمل عاون و مظلوما اعن و اغث لہفان و اہد سبیلا و اہد حیرانا
بالعرف مر و انہ من انکر و کف اذی و غض طرفا و اکثر ذکر مولانا
یعنی احادیث نبوی سے میں نے اس شخص کے لیے آداب الطریق جمع کیا ہے جو راستوں میں بیٹھنے کا قصد کرے، سلام کا جواب دو، اچھا کلام کرو، چھینکنے والے کو اس کے الحمد للہ کہنے پر یرحمک اللہ سے دعا دو، احسان کا بدلہ احسان سے ادا کرو، بوجھ والوں کو بوجھ اٹھانے میں مدد کرو، مظلوم کی اعانت کرو، پریشان حال کی فریاد سنو، مسلمانوں، بھولے بھٹکے لوگوں کی رہنمائی کرو، نیک کاموں کا حکم کرو، بری باتوں سے روکو اور کسی کو ایذا دینے سے رک جاؤ اور آنکھیں نیچی کئے رہو اور ہمارے رب تبارک و تعالیٰ کی بکثرت یاد کرتے رہا کرو جو ان حقوق کو ادا کرے اس کے لیے راستوں پر بیٹھنا جائز ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : راستوں میں کنواں بنانا جب کہ ان سے کسی کو تکلیف نہ ہو

حدیث نمبر : 2466
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن سمى، مولى أبي بكر عن أبي صالح السمان، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏بينا رجل بطريق، اشتد عليه العطش فوجد بئرا فنزل فيها فشرب، ثم خرج، فإذا كلب يلهث يأكل الثرى من العطش، فقال الرجل لقد بلغ هذا الكلب من العطش مثل الذي كان بلغ مني، فنزل البئر، فملأ خفه ماء، فسقى الكلب، فشكر الله له، فغفر له‏"‏‏. ‏ قالوا يا رسول الله وإن لنا في البهائم لأجرا فقال ‏"‏في كل ذات كبد رطبة أجر‏"‏‏.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابوبکر کے غلام سمی نے، ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک شخص راستے میں سفر کر رہا تھا کہ اسے پیاس لگی۔ پھر اسے راستے میں ایک کنواں ملا اور وہ اس کے اندر اتر گیا اور پانی پیا۔ جب باہر آیا تو اس کی نظر ایک کتے پر پڑی جو ہانپ رہا تھا اور پیاس کی سختی سے کیچڑ چاٹ رہا تھا۔ اس شخص نے سوچا کہ اس وقت یہ کتا بھی پیاس کی اتنی ہی شدت میں مبتلا ہے جس میں میں تھا۔ چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے جوتے میں پانی بھر کر اس نے کتے کو پلایا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا یہ عمل مقبول ہوا۔ اور اس کی مغفرت کر دی گئی۔ صحابہ نے پوچھا، یا رسول اللہ کیا جانوروں کے سلسلہ میں بھی ہمیں اجر ملتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، ہر جاندار مخلوق کے سلسلے میں اجر ملتا ہے۔

تشریح : مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ مسئلہ نکالا کہ راستے میں کنواں کھود سکتے ہیں۔ تاکہ آنے جانے والے اس میں سے پانی پئیں اور آرام اٹھائیں بشرطیکہ ضرر کا خوف نہ ہو، ورنہ کھودنے والا ضامن ہوگا اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ ہر جاندار کو خواہ وہ انسان ہو یا حیوان، کافر ہو یا مسلمان سب کو پانی پلانا بہت بڑا کار ثواب ہے۔ حتی کہ کتا بھی حق رکھتا ہے کہ وہ پیاسا ہو تو اسے بھی پانی پلایا جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : راستے میں سے تکلفی دینے والی چیز کو ہٹا دینا

وقال همام عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏يميط الأذى عن الطريق صدقة‏"‏‏. ‏
اور ہمام نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے بیان کیا کہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔

عام گزر گاہوں کی حفاظت اور ان کی تعمیر و صفائی اس قدر ضروری ہے کہ وہاں سے ایک تنکے کو دور کر دینا بھی ایک بڑا کار ثواب قرار دیا گیا اور کسی پتھر، کانٹے، کوڑے کو دور کر دینا ایمان کی علامت بتلایا گیا۔ انسانی مفاد عامہ کے لیے ایسا ہونا بے حد ضروری تھا یہ اسلام کی اہم خوبی ہے کہ اس نے ہر مناسب جگہ پر خدمت خلق کو مد نظر رکھا ہے۔
 
Top