• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میت کو دفن کرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا اور قرآن کی تلاوت کا حکم

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم

میت کو دفن کرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا حکم

الحمد للہ:

اصولی طور پر چند جگہوں کے علاوہ دعا کرتے ہوئے ہاتھ اٹھائے جائیں گے، کیونکہ دعا کیلئے ہاتھ اٹھانا شرعی عمل ہے، اور اس مسئلے کا تفصیلی بیان پہلے سوال نمبر: (11543) میں گزر چکا ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانا قبولیت کے اسباب میں شامل ہے، ماسوائے چند جگہوں کے ، کیونکہ ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں کی اس لیے ہم بھی ہاتھ نہیں اٹھاتے، مثلاً: خطبہ جمعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں فرمائی، صرف بارش کی دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے ہیں، اسی طرح دو سجدوں کے درمیان، آخر تشہد میں سلام پھیرنے سے پہلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے ہوئے ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے، چنانچہ ہم بھی ان جگہوں میں ہاتھ نہیں اٹھائیں گے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ نہیں اٹھائے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی کام کرنا اگر حجت ہے، تو اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی کام نہ کرنا بھی حجت ہے، یہی حکم پانچوں فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھانے کا ہے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازوں کے بعد شرعی اذکار پڑھتے ہوئے ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں ہم بھی ہاتھ نہیں اٹھائیں گے۔


البتہ ایسے مقامات جہاں پر دعا کیلئے ہاتھ اٹھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، ایسی جگہوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہوئے ہم بھی ہاتھ اٹھا کر دعا کرینگے، ویسے بھی دعا میں ہاتھ اٹھانا قبولیتِ دعا کا سبب ہے۔

اور اگر کوئی مسلمان کسی وقت دعا کرنا چاہتا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں ہاتھ اٹھانا یا چھوڑنا کچھ بھی بیان نہیں ہوا، تو ایسی صورت میں ہم دعا کیلئے ہاتھ اٹھائیں گے، اور اس کیلئے دلیل ان احادیث کو بنائیں گے جن میں دعا کیلئے ہاتھ اٹھانے کو قبولیت کا سبب قرار دیاگیا ہے، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (26/146)


نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"مسئلہ: نماز سے باہر کسی دعا میں ہاتھ اٹھانا مستحب ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ایسی بہت سے روایات ذکر کی ہیں جو کہ نماز سے باہر رفع الیدین کرنے کے جواز کی دلیل ہیں۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے کہا: اس مسئلے میں اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ہیں، تاہم جتنی احادیث میں نے ذکر کردی ہیں یہ کافی ہیں، اور مقصد یہ ہے : دعا میں ہاتھ اٹھانے کے متعلق تمام مواقع کو یکجا جمع کرنے کا مدعی شخص سنگین غلطی پر ہے[یعنی: مدعی ان مواقع کا مکمل طور پر شمار نہیں کرسکتا]" انتہی
"شرح المهذب" (3/489)


شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:

"کیا میت کی قبر کے پاس دعا ہاتھ اٹھا کر کی جا سکتی ہے ؟"


تو انہوں نے جواب دیا:

"اگر ہاتھ اٹھا لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عائشہ رضی اللہ عنہانقل کرتی ہیں کہ : "آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان گئے، اور وہاں پر مدفون لوگوں کیلئے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی" مسلم۔" انتہی
"مجموع الفتاوى" (13/337)


شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"دفن کرنے کے بعد میت کیلئے دعا کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، چنانچہ ابو داود کی روایت کے مطابق جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میت کو دفن کر کے فارغ ہوئے تو آپ نے کھڑے ہو کر فرمایا:


(اپنے بھائی کیلئے استغفار ، اور ثابت قدمی کی دعا کرو، کیونکہ اس سے اب سوالات کیے جائیں گے) چنانچہ جس شخص نے میت کیلئے استغفار مانگنے کی غرض سے ہاتھ اٹھائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور جس شخص نے ہاتھ اٹھائے بغیر ہی یہ کہہ دیا: "یا اللہ! اس کی بخشش فرما، یا اللہ! اس کی بخشش فرما ، یا اللہ! اس کی بخشش فرما ، یا اللہ! اسے ثابت قدم بنا، یا اللہ! اسے ثابت قدم بنا، یا اللہ! اسے ثابت قدم بنا" اور پھر چلا جائے۔۔۔" انتہی
"لقاء الباب المفتوح" مجلس نمبر:(82)


شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ سے استفسار کیا گیا:

"میت کو دفن کرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا کیا حکم ہے؟"


تو انہوں نے جواب دیا:


"اس بارے میں دونوں طرح گنجائش ہے، کیونکہ ہمیں اس وقت میں ہاتھ اٹھانے کے اثبات یا نفی کی کسی دلیل کا علم نہیں ہے، لہذا دعا کرنیوالا شخص ہاتھ اٹھائے یا نا اٹھائے اسے اختیار ہے، ہاتھ اٹھانے کی تین حالتیں ہیں:


1- ایک حالت یہ ہے کہوہ جگہیں جہاں نصوص میں ہاتھ اٹھانے کے اثبات میں وضاحت موجود ہے، مثلاً: عرفات کے میدان میں دعا، پہلے اور دوسرے جمرے کے پاس دعا، بارش کی دعا کے وقت۔ [ان جگہوں میں ہاتھ اٹھانا سنت سے ثابت ہے]

2- کچھ حالات ایسے ہیں کہ ان میں ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں ہے، مثلاً: خطبہ جمعہ کے دوران دعا کے وقت، چنانچہ خطبہ جمعہ کے دوران دعا میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں، خطیب اور مقتدی کوئی بھی ہاتھ نہ اٹھائے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زیادہ خطبے ارشاد فرمائے، اس کے باوجود آپ نے خطبہ کے دوران ہاتھ نہیں اٹھائے۔۔۔

3- ایسے حالات جہاں ہاتھ اٹھانے یا نہ اٹھانے کی کوئی قید نہیں ہے، تو ایسی صورت حال میں ہاتھ اٹھانا بھی درست ہے، اور نہ اٹھانا بھی جائز ہے" ا نتہی
" شرح سنن ابو داود "


واللہ اعلم.
اسلام سوال و جواب
http://islamqa.info/ur/161736
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
فتاویٰ جات: نماز جنازہ
فتویٰ نمبر : 4393

میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑا ہو کر دعا کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال :
میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑا ہو کر دعا کرنا نبی ﷺ کے قول و عمل سے ثابت ہے یا نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میت کو قبرستان میں دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرنا حدیث مشکوٰۃ وغیرہ میں موجود ہے۔ اس کے الفاظ ہیں:

((وعنہ قال کان النبی ﷺ اذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال استغفروا لاخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فانہ الان یسئال)) (مشکوٰۃ باب اثبات عذاب القبر)
’’یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ دفن میت سے فارغ ہو کر قبر پر کھڑے ہوتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے دعاء بخشش کرو۔ اور اس کے لیے بارگاہ ایزدی میں ثابت قدمی کی درخواست کرو۔ وہ اس وقت سوال کیا جاتا ہے۔‘‘

لیکن عام طور پر لوگ دعا اس کو سمجھتے ہیں جس میں ہاتھ اٹھائے جائیں، حالاں کہ دعا ء ہاتھ اٹھائے اور بغیر ہاتھ اٹھائے دونوں صورتوں میں ہوتی ہے۔ مثلاً نماز کے اندر، سجدہ میں اور بین السجدتین اور بعض دفہ قیام میں بلا ہاتھ اٹھائے دعا ہوتی ہے۔ اس طرح قبر پر اختیار ہے ہاتھ اُٹھا کر دعا ء کرے یا بغیر ہاتھ اُٹھائے، ہاں ہاتھ اٹھانا آداب دعا سے ہے، اس لیے اُٹھانا بہتر ہے، مگر لازم نہ سمجھے، اور اگر کوئی ہاتھ نہ اٹھائے تو اس پر اعتراض بھی نہ کرے۔ جیسے فرضوں کے بعد کی دعا میں کوئی ہاتھ نہ اُٹھائے تو ناواقفط لوگ اعتراض کرتے ہیں۔

(عبد اللہ امر تسری روپڑی) (فتاویٰ اہل حدیث جلد نمبر ۲ ص ۴۶۷)

فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 05 ص 254
محدث فتویٰ
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
قبر پر دعا كرتے وقت قبر كى طرف رخ كرنا

كيا قبر والے كے ليے دعا كرتے وقت قبر كى طرف رخ كرنا جائز ہے ؟

Published Date: 2007-03-13

الحمد للہ:

ہمارے ليے دو متشابہ معاملوں ميں فرق كرنا ضرورى ہے:

پہلا معاملہ يہ ہے كہ: اپنے ليے دعا كرتے وقت بطور تبرك اور دعا كى قبوليت اور قرب كا اعتقاد ركھتے ہوئے قبر كا رخ اور استقبال كرنے كى كوشش كرنا، بلا شك يہ عمل نيا ايجاد كردہ اور بدعت ہے، اور اس غلو ميں شامل ہوتا ہے جس سے شريعت اسلاميہ نے منع كيا ہے، جب قبر والے سے اپنى حاجت پورى كروانے كى درخواست كى جائى اور اس سے مدد مانگى جائے تو يہ شرك كا باعث بنےگا.

ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" قبر كے پاس دعا كرنے اور اسے وسيلہ بنانے يا اس سے سفارش كروانے كى بنا پر قبروں كى زياردت كرنے كى شريعت اسلاميہ ميں اصلا كوئى دليل نہيں ملتى، اسى ليے صحابہ كرام اور مسلمان آئمہ كرام كا طريقہ تھا كہ جب كوئى بندہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابى ابو بكر اور عمر رضى اللہ تعالى عنہم پر سلام پڑھتا تو دعا كرتے وقت قبلہ رخ ہو كر دعا كرتا، نہ كہ حجرہ شريف كى طرف رخ كر كے.

ميرے علم ميں تو يہ بات نہيں كہ آئمہ كرام كا اس ميں كوئى اختلاف ہو كہ دعا كرتے وقت قبلہ رخ ہونا سنت ہے، نہ كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر كى طرف رخ كر كے دعا كرنا " انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 27 / 165 ).

اور ابن تيميہ رحمہ اللہ " افتضاء صراط المستقيم " ميں رقمطراز ہيں:

" آئمہ كرام نے اس سلسلے ميں جو ذكر كيا ہے شائد انہوں نے قبر كى جانب نماز پڑھنے كى كراہت سے اخذ كرتے ہوئے ذكر كيا ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كى نہى ملتى ہے، جيسا كہ بيان كيا جا چكا ہے؛ اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبر كو مسجد اور سجدہ گاہ يا قبلہ بنانے سے منع فرمايا اور حكم ديا ہے، تو علماء نے يہ حكم ديا كہ جس طرح قبر كى طرف رخ كر كے نماز ادا كرنى جائز نہيں، اسى طرح قبر كى جانب رخ كر كے دعا كرنے كى كوشش بھى نہيں كرنى چاہيے.

امام مالك رحمہ اللہ " المبسوط " ميں بيان كرتے ہيں:

ميرے رائے تو يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر كى طرف رخ كر كے دعا كرنى صحيح نہيں، ليكن انسان كو چاہيے كہ وہ سلام كر كے چلا جائے.

اور يہ اصل كام اب تك چل رہا ہے، اس ليے دعا كرنے والے كے ليے اسى طرف رخ كر كے دعا كرنا مستحب ہے جس طرف رخ كر كے نماز ادا كرنے كى اجازت ہے، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ جب مسلمان شخص كو مشرق يا كسى اور جانب رخ كر كے نماز ادا كرنے سے منع كيا گيا ہے تو اسے دعا كرتے وقت بھى اس طرف رخ كرنے كى كوشش كرنے سے منع كيا گيا ہے.

اور اور كچھ لوگ وہ بھى ہيں جو دعا كرتے وقت اس جانب رخ كرنے كى كوشش كرتے ہيں جس طرف اس كا نيك صالح اور بڑا ہو، چاہے وہ مشرق كى طرف ہو يا كسى اور جانب، جو كہ كھلى گمراہى اور واضح شرك ہے " انتہى.

ديكھيں: اقتضاء صراط المستقيم: ( 364 ).

اور جب مسلمان شخص دعا كے ساتھ اپنے اللہ كى عبادت كرتا ہے تو اس كے ليے اس قبلہ كى طرف رخ كرنا مستحب ہے جس كى تعظيم كا اللہ تعالى نے ہميں حكم ديا ہے، نہ كہ بشر و انسانوں كى قبروں كى طرف جو اپنے نفع و نقصان كے بھى مالك نہيں تو وہ كسى كو كيا دينگے؟.

حنبلى كتاب " كشاف القناع " ميں لكھا ہے:

" اور دعا كرنے والا شخص قبلہ رخ ہو كر دعا كرے كيونكہ سب سے بہترين مجلس وہ ہے جس ميں قبلہ رخ ہوا جائے " انتہى.

ديكھيں: كشاف القناع ( 1 / 367 ).

اور شافعى حضرات كى كتاب " تحفۃ المحتاج " كے حاشيہ ميں بھى اسى طرح كى كلام ہے.

ديكھيں: تحفۃ المحتاج ( 2 / 105 ).

اور ابن تيميہ رحمہ اللہ " نقض التاسيس " ميں لكھتے ہيں:

" مسلمان اس پر متفق ہيں كہ دعا كرنے والے كے ليے دعا كرتے وقت جس قبلہ كى طرف رخ كرنا مشروع ہے يہ وہى قبلہ ہے جس طرف رخ كر كے نماز ادا كرنا مشروع ہے " انتہى.

ديكھيں: نقض التاسيس ( 2 / 452 ).

دوم:

اور رہا مسئلہ قبر كى زيارت كرتے وقت ميت كے ليے دعا اور استغفار كرنا، جيسا كہ لوگ اپنے فوت شدگان كى قبروں كى زيارت كرتے وقت كرتے ہيں، تو اس ميں اس وقت دعا ميں قبر كى طرف رخ كرنے والے پر كوئى حرج نہيں، كيونكہ اس سے وہ قبر سے تبرك يا اس كى طرف رخ كر كے تعظيم نہيں كرنا چاہتا، بلكہ وہ تو ميت والى جگہ كے قريب ہو كر اس كے ليے دعا كرنا چاہتا ہے.

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا ميت كے ليے دعا كرتے وقت قبر كى طرف رخ كرنا ممنوع ہے ؟

شيخ رحمہ للہ كا جواب تھا:

" اس سے منع نہيں كيا جائيگا؛ بلكہ ميت كے ليے دعا كى جائيگى چاہے قبلہ رخ ہو يا قبر كى طرف رخ كيا جائے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم دفن كرنے كے بعد قبر كے پاس كھڑے ہوئے اور فرمايا:

" اپنے بھائى كے ليے دعائے استغفار كرو، اور اس كے ليے ثابت قدمى كا سوال كرو، كيونكہ اب اس سے سوال كيا جا رہا ہے "

اسے بخارى نے روايت كيا ہے.

يہاں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبلہ رخ ہونے كا نہيں كہا، تو يہ سب جائز ہے، چاہے قبلہ رخ ہوا جائے يا قبر كى طرف رخ كيا جائے، صحابہ كرام ميت كے ليے قبر كے ارد گرد كھڑے ہو كر دعا كيا كرتے تھے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 13 / 338 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

https://islamqa.info/ur/93858
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
قبروں کی زیارت کے وقت ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا


مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ، فَقَالَتْ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي؟، قُلْنَا: بَلَى. ح وحَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ حَجَّاجًا الْأَعْوَرَ، وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ ، أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنْ أُمِّي؟، قَالَ: فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا عِنْدِي، انْقَلَبَ فَوَضَعَ رِدَاءَهُ، وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَيْهِ، وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ، فَاضْطَجَعَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنْ قَدْ رَقَدْتُ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا وَانْتَعَلَ رُوَيْدًا، وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَيْدًا، فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي وَاخْتَمَرْتُ، وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَى إِثْرِهِ، حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ فَقَامَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ، فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ، فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ فَسَبَقْتُهُ، فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنِ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ، فَقَالَ: مَا لَكِ يَا عَائِشُ حَشْيَا رَابِيَةً؟ " قَالَتْ: قُلْتُ: لَا شَيْءَ، قَالَ: " لَتُخْبِرِينِي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ، قَالَ: فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي، قُلْتُ: نَعَمْ فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي، ثُمَّ قَالَ: أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ "، قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ فَنَادَانِي، فَأَخْفَاهُ مِنْكِ فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ، وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ، وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ، وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ، وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي، فَقَالَ: إِنَّ رَبَّكَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ، قَالَتْ: قُلْتُ: كَيْفَ أَقُولُ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: قُولِي السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَيَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَلَاحِقُونَ "
ترجمہ :
محمدؒ بن قیس نے بیان کیاکہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں تم کو اپنی بیتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیتی سناؤں؟ ہم نے کہا: ضرور۔ فرمایا: ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کروٹ لی اور اپنی چادر لی اور جوتے نکال کر اپنے پاؤں کے آگے رکھے اور چادر کا کنارہ اپنے بچھونے پر بچھایا، لیٹ رہے اور تھوڑی دیر اس خیال سے ٹھہرے رہے کہ گمان کر لیا کہ میں سو گئی۔ پھر آہستہ سے اپنی چادر لی اور آہستہ سے جوتے پہنے اور آہستہ سے دروازہ کھولا اور آہستہ سے نکلے اور پھر آہستہ سے اس کو بند کر دیا۔ اور میں نے بھی اپنی چادر لی اور سر پر اوڑھی اور گھونگٹ مارا تہبند پہنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع پہنچے اور دیر تک کھڑے رہے۔ پھر دونوں ہاتھ اٹھائے تین بار۔ پھر لوٹے اور میں بھی لوٹی اور جلدی چلے اور میں بھی جلدی چلی۔ اور دوڑے اور میں بھی دوڑی۔ اور گھر آ گئے اور میں بھی گھر آ گئی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے آئی اور گھر میں آتے ہی لیٹ رہی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر میں آئے تو فرمایا: ”اے عائشہ! کیا ہوا تم کو کہ سانس پھول رہا ہے اور پیٹ پھولا ہوا ہے؟“ میں نے عرض کیا کچھ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ تم بتا دو، نہیں تو وہ باریک بین خبردار (یعنی اللہ تعالیٰ) مجھ کو خبر کر دے گا۔“ میں نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کالا کالا میرے آگے نظر آتا تھا وہ تم ہی تھیں؟“ میں نے کہا: جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر گھونسا مارا (یہ محبت سے تھا) کہ مجھے درد ہوا اور فرمایا: ”تو نے خیال کیا کہ اللہ اور اس کا رسول تیرا حق دبا لے گا۔ (یعنی تمھاری باری میں اور کسی بی بی کے پاس چلا جاؤں گا) تب میں نے کہا: جب لوگ کوئی چیز چھپاتے تو ہاں اللہ اس کو جانتا ہے (یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے کسی بی بی کے پاس جاتے بھی تو بھی اللہ دیکھتا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے۔ جب تو نے دیکھا انہوں نے مجھے پکارا اور تم سے چھپایا تو میں نے بھی چاہا تم سے چھپاؤں۔ اور وہ تمہارے پاس نہیں آتے تھے کہ تم نے اپنا کپڑا اتار دیا تھا اور میں سمجھا کہ تم سو گئیں۔ تو میں نے برا جانا کہ تم کو جگاؤں اور یہ بھی خوف کیا کہ تم گھبراؤ گی کہ کہاں چلے گئے۔ پھر جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ تمہارا پروردگار حکم فرماتا ہے کہ تم بقیع کو جاؤ اور ان کے لئے مغفرت مانگو۔“ میں نے عرض کیا کہ میں کیو نکر کہوں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو سلام ہے ایماندار گھر والوں پر، اور مسلمانوں پر اللہ رحمت کرے ہم سے آگے جانے والوں پر اور پیچھے جانے والوں پر اور ہم، اللہ نے چاہا تو تم سے ملنے والے ہیں۔“
(صحیح مسلم ،کتاب الجنائز ،حدیث نمبر: 2256 )
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائ کسی نے پوچھا ہے اس بارے میں
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

محترم بھائی !
ایسی کوئی صحیح یا ضعیف مرفوع حدیث موجود نہیں جس میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہو کہ میت کی تدفین کے بعد اس کی قبر پر اونٹ ذبح کرنے جتنا وقت قرآن خوانی کرنا ،
میت کی تدفین کے بعد صحیح اور مسنون طریقہ
قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرنا​
ہے ،جو صحیح حدیث میں موجود ہے کہ :
عن عثمان رضي الله عنه قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال: «استغفروا لأخيكم ثم سلوا له بالتثبيت فإنه الآن يسأل» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
(مشکوٰۃ باب اثبات عذاب القبر)
’’یعنی سیدناعثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ دفن میت سے فارغ ہو کر قبر پر کھڑے ہوتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے دعاء بخشش کرو۔ اور اس کے لیے بارگاہ ایزدی میں ثابت قدمی کی درخواست کرو۔ وہ اس وقت سوال کیا جاتا ہے۔‘‘
البتہ مشہور صحابی جناب سیدنا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی وفات سے پہلے وصیت فرمائی تھی کہ :
فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ، وَلَا نَارٌ، فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا، ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا، حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ، وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي
(صحیح مسلم ،کتاب الایمان)
جب میں مر جاؤں تو کوئی نوحہ کرنےوالی میرے ساتھ نہ جائے ، نہ ہی آگ ساتھ ہو اور جب تم مجھے دفن کر چکو تو مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا ، پھر میری قبر کے گرد اتنی دیر ( دعا کرتے ہوئے) ٹھہرنا ، جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جا سکتا ہے تاکہ میں تمہاری دعاء کی وجہ سے (اپنی نئی منزل کے ساتھ) مانوس ہو جاؤں اور دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرستادوں کو کیا جواب دیتا ہوں ۔"

سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی وصیت کے الفاظ گوکہ مرفوع احادیث میں موجود نہیں ،تاہم اس میں اصلاً وہی بات ہے جو اوپر نبی کریم ﷺ کے فرمان ذی شان میں بیان ہوئی ،

اور میت کے دفن کے بعد قبر پر سورۃ البقرۃ کی اول و آخر آیات پڑھنے کی روایت بھی ثابت نہیں
یہ روایت امام أبو بكر أحمد بن محمد الخَلَّال البغدادي الحنبلي (المتوفى: 311هـ) نے ( القراءة عند القبور ) میں یوں نقل فرمائی :
وأخبرني العباس بن محمد بن أحمد بن عبد الكريم، قال: حدثني أبو شعيب عبد الله بن الحسين بن أحمد بن شعيب الحراني من كتابه قال: حدثني يحيى بن عبد الله الضحاك البابلتي، حدثنا أيوب بن نهيك الحلبي الزهري، مولى آل سعد بن أبي وقاص قال: سمعت عطاء بن أبي رباح المكي، قال:
" سمعت ابن عمر، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا مات أحدكم فلا تجلسوا، وأسرعوا به إلى قبره، وليقرأ عند رأسه بفاتحة البقرة، وعند رجليه بخاتمتها في قبره»

اور امام طبرانی نے " المعجم الکبیر 13613 " میں ۔۔اور امام بیہقی نے " شعب الایمان رقم 8854 " میں نقل فرمائی ہے ،

اس کی سند بالکل ناکارہ ہے :
اس کا ایک راوی یحی بن عبد اللہ البابلتی ہے ،جس کے متعلق علامہ الذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں :

قال البخاري: قال أحمد: أما سماعه فلا يدفع، وضعفه أبو زرعة وغيره.
وقال ابن عدي: له أحاديث صالحة تفرد ببعضها، وأثر الضعف على حديثه بين.
وقال أبو حاتم: لا يعتد به.

یعنی امام ابو زرعہ فرماتے ہیں یہ ضعیف ہے ،اور امام ابن عدی کا کہنا ہے کہ اس کا ضعیف ہونا اس کی حدیث سے عیاں ہے ، امام ابو حاتم فرماتے ہیں : یہ کسی شمار میں نہیں "
اور اس کا شیخ " ایوب بن نہیک " بھی ضعیف ہے ،
میزان الاعتدال میں ہے :

أيوب بن نهيك.عن مجاهد. ضعفه أبو حاتم وغيره.
وقال الأزدي: متروك.

یعنی ضعیف اور متروک راوی ہے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی لئے امام نور الدین الھیثمی ؒ مجمع الزوائد میں اس روایت کو نقل کرکے لکھتے ہیں :
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ، وَفِيهِ يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَابِلُتِّيُّ، وَهُوَ ضَعِيفٌ
کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ،اور اس میں یحی بن عبد اللہ بابلتی واقع ہے جو ضعیف ہے "
اور علامہ الالبانی ؒ " سلسلہ ضعیفہ " میں لکھتے ہیں :
وقال الألباني: الحديث ضعيف جدا. (الضعيفة 4140)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاصہ یہ کہ میت اور قبر پر قرآن پڑھنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں اس کا ہرگز ثبوت نہیں ملتا۔ تیجہ، قُل، جمعرات کا ختم اور چہلم وغیرہ بدعات اورغیر اسلامی رسومات ہیں۔
واضح رہے کہ قرآن و حدیث اور اجماع سے ایصال ثواب کی جو صورتیں ثابت ہیں، مثلا دعا، صدقہ وغیرہ، ہم ان کے قائل و فاعل ہیں۔ قرآن خوانی کے ثبوت پر کوئی دلیل شرعی نہیں، لہٰذا یہ بدعت ہے۔ اہل بدعت نے اسے شکم پروری کا آسان ذریعہ بنا کر اپنے دین کا حصہ بنا لیا ہے۔
 
Last edited:
Top