محترم بھائی انتہائی معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ ہمارے لینے کی بجائے پڑھنے والے لوگوں کے سمجھنے کو دیکھنا ہو گا
اسی طرح میرا دیوبندی تلمیذ بھائی سے امداد اللہ مکی کے شرکیہ واقعے پر بحث چل رہی ہے جہاں میں بار بار انکو یہی باور کرانا چاہتا ہوں کہ ہمارے دیکھنے کی بجائے لوگوں کا مطلب اخذ کرنا لیا جائے گا
محترم بھائی جملہ کو اس طرح سمجھنے سے بھی میرے اور آپ کے درمیان محل نزاع ختم نہیں ہو گا کیوں جس چیز کی قید آپ نے لگائی ہے اسکی تو میں بات ہی نہیں کر رہا
دیکھیں محترم بھائی میں کسی بھی مسلمان پر حملے کرنے والے پر حکم لگانے کی صورتیں ترتیب سے لکھتا ہوں نمازیوں پر حملہ تو اسی کے تحت آ جائے گا اس میں مندرجہ ذیل ترتیب سے چلیں گے
1-نمازیوں پر حملہ کرنے کے پیچھے وجوہات دیکھیں گے کہ اس نے نمازیوں پر حملہ کس وجہ سے کیا
2-ان وجوہات کو دیکھ کر نمازیوں پر حملہ کرنے والے پر حکم لگایا جائے گا
3-اگر ٹھوس شرعی دلائل (وجوہات) ہوں گے تو اس حملے پر کوئی حکم نہیں لگے گا جیسے آپ کے نزدیک پاکستان کی فوج جامعہ حفصہ کے نمازیوں پر حملہ میں ٹھوس شرعی دلائل رکھتی تھی پس پاکستان کی فوج پر کوئی حکم نہیں لگے گا
4-اگر ٹھوس شرعی دلائل (وجوہات) تو نہیں ہوں گی مگر اس حملہ کی جائز تاویل ممکن ہو گی تو پھر حکم تو لگے گا مگر اجتہادی غلطی کا لگے گا تکفیر یا گمراہی کا حکم نہیں لگے گا جیسے کچھ صحابہ کی لڑائیاں کیوں کہ ان میں کوئی ایک گروہ اگر ٹھوس دلیل رکھتا تھا تو لازمی دوسرا اجتہادی خطا پر تھا اسی طرح کچھ لوگ آج کے حکمرانوں کو اجتہادی خطا پر سمجھتے ہیں کہ وہ امریکہ کا ساتھ دینے میں اجتہادی خطا پر ہیں یہاں پر میں صرف مثالوں کے لئے لکھ رہا ہوں میرا کسی قسم کا موقف یہاں نہیں لکھا ہوا
5-اگر جائز تاویل بھی نہیں ہو سکے گی تو پھر حکم تکفیر یا گمراہی یا بغاوت کا لگے گا جیسے آپ نے بیان کیا ہوا ہے یعنی خوارج والا حکم
اب آپ بتائیں کہ میں تو ان وجوہات کی قید لگوانا چاہتا تھا جو کسی جگہ بھی مجھے نظر نہیں آرہی
کیا کوئی اور بھائی مجھے اور متلاشی بھائی کو سمجھانے والا ہے
شاکر بھائی
یوسف ثانی بھائی