• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میرا سائنسی حق

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
سوشل میڈیا پر بعض حضرات کا مطالبہ ہے کہ ان کا دینی حق تسلیم کیا جائے اور وہ دینی حق یہ ہے کہ ائمہ دین چونکہ معصوم نہیں ہیں لہذا انہیں ان ائمہ پر تنقید کا حق حاصل ہے۔ ان لوگوں کو شکایت یہ ہے کہ ان کی تنقید کو فیس بکی عالم کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔

مجھے اس حق سے اپنا سائنسی حق یاد آ گیا جو آج تک میں استمعال نہیں کر سکا۔ وہ یہ کہ چونکہ میں سائنسی دور کی پیدائش ہوں لہذا یہ میرا سائنسی حق ہے کہ میں ائمہ سائنس آئن سٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ پر تنقید کروں۔ زیادہ سے زیادہ لوگ فیس بکی سائنسدان ہی کہہ دیں گے؟

یہ بات کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہر ڈسپلن میں، چاہے وہ مذہب ہو یا سائنس، سوشل سائنسز ہوں یا مینیجمنٹ سائنسز، اگر اہل لوگ بحث کریں گے تو فائدہ ہو گا، ورنہ ایسے ہی طعنے سننے کو ملیں گے۔ ہمارے ہاں ہر ڈسپلن فزکس، میڈیکل سائنس، میتھس، انجنیئرنگ وغیرہ میں علمی تنقید کرنے کے لیے ایک معیار مقرر ہے لیکن مذہب میں تو ہر شخص، چاہے اس کا کوئی معیار ہو یا نہ ہو، تنقید کرنا اپنا دینی حق سمجھتا ہے۔ اگر ائمہ دین پر تنقید کا دینی حق ایک یونیورسٹی گریجویٹ کو حاصل ہونا چاہیے تو ایک مدرسہ فارغ التحصیل کو بھی ائمہ سائنس پر تنقید کا برابر حق دینا چاہیے۔ باقی اب اگر اہل مدرسہ مذہب کی روشنی میں سائنس پر نقد کرتے ہیں تو اس پر اعتراض کی ضرورت ہی کیا ہے جبکہ اہل سائنس بھی تو سائنس کے اصولوں کی روشنی میں مذہب کو پرکھ رہے ہوتے ہیں۔

فقہ کی کتاب سے فزکس کے کسی نظریہ پر تنقید کرنا اتنا ہی بامعنی ہے جتنا کہ مذہب کو سائنسی اصول کی روشنی میں پرکھنا۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
ابو الحسن بھائی ۔

آپکی بات بالکل درست ھے ۔نقد و نظر کا حق انکا ھوتا ھے جو ان علوم پر دسترس رکھتے ھوں

مگر دینی معاملات میں اکثر لوگ چاھے وہ بکی ہوں یا فیس بکی وہ اپنے آپکو مفتی دوراں اور مجتہد العصر

سمجھتے ھیں اور تنقید کو فرائض منصبی سمجھتے ھیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
آج کل فیس بک مفتی بننا بہت آسان ہے

اس کے لئے چند چیزیں درکار ہے

1- کیمرہ
2- مائک
3- جبہ
4- داڑھی
5- انٹر نیٹ کنیکشن

ویڈیو بنائے کسی بھی موضوع پر اور اپلوڈ کر دے بس بن گئے فیس بک مفتی

اللہ سبحان و تعالیٰ ایسے لوگوں سے سب کو بچائے - آمین یا رب العالمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یہاں تو مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی نااہل، اہل لوگوں کی تنقید ہی نقل کردے تو مجرم ہوجاتا ہے۔ جیسے ابوحنیفہ پر ان سے بڑے علماء نے سخت تنقید کی ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ابوحنیفہ کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے تھے بلکہ اصحاب ابی حنفیہ سے بغض پر ثواب کے قائل تھے۔ امام شافعی رحمہ اللہ ابوحنیفہ کو کذاب کہتے تھے۔ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ابوحنیفہ کو منحوس کہتے تھے۔ بعض محدثین ابوحنیفہ کو شیطان، بعض کافر کہتے تھے۔ اب اگر کوئی شخص ان محدثین کی گواہیوں پر اعتماد کرتے ہوئے ابوحنیفہ کو برا بھلا کہتا ہے یا سلف صالحین کی ابوحنیفہ کے خلاف گواہیاں نقل کرتا ہے تو وہ قابل ملامت کیوں ہے؟؟؟ ٹھیک ہے وہ ابوحنیفہ پر تنقید کرنے کا حق نہیں رکھتا لیکن جو ابوحنیفہ پر تنقید کرنے کے اہل تھے ان کے اقوال تو نقل کرسکتا ہے اور ان اقوال کی بنیاد پر اپنی رائے بھی پیش کرسکتا ہے جو بالکل غلط نہیں ہوگی۔

صورتحال تو یہ ہے ابوحنیفہ پر محدثین کی تنقید کے ناقل کو لوگ جاہل مفتی وغیرہ کے القابات سے نواز کر کوئی توجہ نہیں دیتے اور یہ نہیں سوچتے کہ ایسے لوگ خود جاہل ہیں جو کبار محدثین و فقہاء کی گواہیوں کو ٹھکرا کر یا ان سے اختلاف کرکے خود اپنے جاہل اور نااہل ہونے کا ثبوت پیش کررہے ہوتے ہیں۔ کیا ان جدید مولویوں کی ابوحنیفہ کے بارے میں رائے، محدثین کی ابوحنیفہ کے بارے میں رائے کے مقابلے میں کوئی حیثیت رکھتی ہے؟؟؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

بھائی کیا ھماری اس طرح کی تنقید دعوت میں اثر ڈال سکتی ہے ؟؟؟؟

10351067_753880601344025_7467858878449269985_n.jpg
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

بھائی کیا ھماری اس طرح کی تنقید دعوت میں اثر ڈال سکتی ہے ؟؟؟؟

9928 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
میرے بھائی یہ تنقید نہیں بلکہ اسماء الرجال کا علم ہے جو احادیث کی تحقیق کے لئے لازم ہے۔ کیا آپ محدثین کو بے وقوف، جاہل، حاسد اور ابوحنیفہ کا دشمن سمجھتے ہیں؟؟؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
میرے بھائی یہ تنقید نہیں بلکہ اسماء الرجال کا علم ہے جو احادیث کی تحقیق کے لئے لازم ہے۔ کیا آپ محدثین کو بے وقوف، جاہل، حاسد اور ابوحنیفہ کا دشمن سمجھتے ہیں؟؟؟
میرے بھائی میں تو ایک عدنہ سا طالب علم ہو ہاں یہاں پر اہل علم کا ایک فتویٰ شئیر کرتا ہو

امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کا عقیدہ

کیا کسی نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدہ کے بارے میں گفتگو کی ہے؟ میں نے چند لوگوں کو آپکے عقیدہ پر نکتہ چینی کرتے سنا ہے، برائی مہربانی وضاحت کردیں۔


الحمد للہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں۔

امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی بغیر کسی اختلاف کے ائمہ میں شمار کئے جاتے ہیں، تمام اہل علم کا آپکی جلالتِ قدر، اور امامت پر اتفاق ہے۔

علی بن عاصم کہتے ہیں: "اگر ابو حنیفہ کے علم کا انکے زمانے کے لوگوں کے علم سےوزن کیا جائے تو ان پر بھاری ہو جائے گا"

ابن مبارک کہتے ہیں: "ابو حنیفہ سب سے بڑے فقیہ تھے"

شافعی کہتے ہیں: "تمام لوگ فقہ کیلئے ابو حنیفہ کے محتاج ہیں"

خریبی کہتے ہیں: "ابو حنیفہ کے بارے میں حاسد یا جاہل ہی زبان درازی کرتا ہے"

ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "فقہ اور دقیق فقہی مسائل میں امامت کا درجہ آپکے پاس ہے،اور اس بات میں کوئی شک بھی نہیں، اگرکسی کے نزدیک دوپہر ثابت کرنے میں بھی دلیل کی ضرورت ہوتو کوئی چیز بھی اسکے ہاں درست نہیں ہوسکتی، آپکی سیرت کو جمع کیا جائے تو دو جلدوں کی ضخیم کتاب بن سکتی ہے، اللہ ان سے راضی ہو، اور ان پر رحم فرمائے، آپ 150 ہجری میں پیٹ کی بیماری سے شہید ہوئے" انتہی، مزید کیلئے "سیر اعلام النبلاء"(6/390-403) دیکھیں

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ ، توحید، اثباتِ صفات ، تردیدِ جہمیہ ، تقدیر، مقامِ صحابہ ، اور اسکے علاوہ دیگر بڑے بڑے ایمانی مسائل میں منہج السلف کے بالکل موافق اور ائمہ مذاہب کے طریقہ پر تھا،چند ایک مسائل میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منہج السلف کی مخالفت نقل کی گئی ہے، مثلا: انہوں نے کہا کہ ایمان میں کمی زیادتی نہیں ہوتی،اور انکے نزدیک ایمان صرف دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے ، اور یہ کہ عمل ایمان کی حقیقت میں شامل نہیں ۔

ابن عبد البر اور ابن ابو العز کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے ان نظریات سے رجوع کرلیا تھا۔ دیکھیں: "التمہید"(9/247)، "شرح عقیدہ طحاویہ"صفحہ (395)

ایسےہی ڈاکٹر محمد بن عبد الرحمن الخمیس کی کتاب "اعتقاد الائمہ الاربعہ" صفحہ (3-8)کا مطالعہ بھی مفید ہوگا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "تمام مشہور ائمہ کرام اللہ تعالی کی صفات کو ثابت کرتے ہیں، اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں، اور یہ کہ اللہ تعالی کو قیامت کے دن دیکھا جاسکے گا، یہی تمام صحابہ کرام، اہل بیت ، اور انکے نقشِ قدم پر چلنے والوں کا عقیدہ ہے، یہی ان ائمہ کا مذہب ہے جن کے پیروکار موجود ہیں، مثلا: مالک بن انس، ثوری، لیث بن سعد، الاوزاعی، ابو حنیفہ ، شافعی، احمد بن حنبل، اسحاق۔۔۔"انتہی، "منہاج السنۃ النبویۃ" (2/54)

ایسے ہی عقیدہ طحاویہ جسکے مؤلف ابو جعفر الطحاوی حنفی ہیں کو چند مسائل کے علاوہ منہج اہل سنت و الجماعت کے مطابق سمجھا جاتا ہے، اسی لئے علمائے اسلام کے ہاں یہ کتاب بہت نشر ہوئی، حتی کہ بہت سی مساجد، اداروں اور یونیورسٹیز میں باقاعدہ پڑھائی جانے لگی۔

امام طحاوی کتاب کے مقدمہ صفحہ (1)میں کہتے ہیں:

"اس کتاب میں اہل سنت والجماعت کے عقیدہ کا تذکرہ فقہائے کرام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی ، ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاری ، اور ابو عبد اللہ محمد بن حسن الشیبانی، -اللہ ان سے راضی ہو-کے نظریہ اور اصولِ دین کے بارے میں انکے اعتقادکے مطابق ہے جس کے ذریعے وہ اللہ رب العالمین کو مانا کرتے تھے" انتہی

ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بہت سے پیروکار عقائد میں اشعری اور ماتریدی مذہب سے تعلق رکھتے تھے ، جسکی وجہ سے حنفی مذہب میں سلف صالحین کے عقیدہ کی مخالفت آگئی ، بلکہ خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ انکے مخالف ہے، اسی لئے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی جانب منسوب بہت سی باتیں ثابت نہیں ہوتیں، بلکہ یہ انکے ماننے والوں کی بات ہوتی ہے جو اپنے تیئں انکے مذہب کی جانب نسبت رکھتے ہیں۔

ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"واضح ہے کہ یہ مخالفات ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت نہیں ہیں، بلکہ یہ انکے شاگردوں کی جانب سے ہے، کیونکہ ان میں اکثر قابل اعتبار درجہ سے گری ہوئی ہیں جنہیں ابو حنیفہ رحمہ اللہ نہیں پسند کرتے" شرح عقیدہ طحاویہ"صفحہ (226)

شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے لکھا جانے والا رسالہ ہو سکتا ہے اسکا کچھ حصہ انہوں نے خود لکھوایا ہو، اور پھر اسے انکے کسی شاگرد نے لے لیا ہو، جسکا نام (الفقہ الاکبر)ہے اس رسالے میں سےکچھ عبارتیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حمویہ میں نقل کر چکے ہیں، ایسے ہی ابن ابی العز طحاویہ کی شرح میں۔ لیکن لگتا ہے کہ صحیح عقیدہ سے منحرف کچھ متاخرین کی جانب سے اس میں تبدیلی کی گئی ہے، اور بہت سی تاویلیں اس میں شامل کردی گئیں، کچھ نے اسکی شرح اشعری مذہب کے مطابق بھی کی ہے، اور کچھ نے منکرینِ صفات کے مذہب پر اسکی شرح کرتے ہوئے سلف کے عقیدہ کا انکار کردیا،اس میں کوئی شک نہیں کہ اسکی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایسے اساتذہ سے علم حاصل کیا جو تاویل ، تحریف ِ صفات وغیرہ کے قائل تھے" انتہی "فتاوی الشیخ ابن جبرین"(63/14)

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ابو حنیفہ اور ائمہ اربعہ تمام سلفی منہج پر تھے، ہاں کسی نہ کسی سے غلطی ہونا ایک فطری بات ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ انکے ماننے والے ایک طرف ہیں جبکہ انکے ائمہ کرام دوسری جانب ہیں"انتہی

اس لئے متفقہ ائمہ کرام جنکی جلالت قدر، عدل پسندی، اور امامت پر سب لوگوں کا اتفاق ہوچکا ہےانکے بارے میں زبان درازی سے گریز کرنا واجب ہے، کیونکہ علمائے کرام کی ہونیوالی چغلیاں رائیگاں نہیں جاتیں، اور حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر کسی کی بات لی بھی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے، اس لئے مسلمان کیلئے کسی کو اپنا راہنما بنانے کیلئے اسکا درست عقیدہ کافی ہے ، پھر اسکی جو بات صحیح عقیدہ کے مخالف ہو اسے ترک کردے، اور علماء، صلحاء، و فضلائے امت کی عزت آبرو میں نکتہ چینی کرنےکی کوشش مت کرے۔

یہی وجہ ہے کہ ذہبی اور ابن کثیر رحمہما اللہ وغیرہ دیگر مؤرخینِ اسلام نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی سوانح بیان کرتے ہوئےکوئی ایسی بات ذکر نہیں کی جس سے آپ کی شان میں کوئی کمی آئے، حقیقت میں یہی علم و تقوی ہے، اور علمائے کرام کے حقوق کی ادائیگی و احترام کرنے کیلئے کم از کم یہی انکے بارے میں ہم پر واجب ہے۔

کچھ تاریخی کتابوں میں مذکورہ بالا حقوق کے منافی چیزیں بھی ذکر کی گئی ہیں، مثلا خلقِ قرآن کا مسئلہ، تو انکے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ سے خلقِ قرآن کے بارے میں کوئی بات پایا ثبوت تک نہیں پہنچتی، اسکے بعد یہ اس مسئلہ کو بالکل بند کردیا گیا، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عزت و احترام کیا جانے لگا اور دین میں امامت کے درجہ پر فائز رکھا گیا۔

شیخ عبد الرحمن المعلمی رحمہ اللہ اس قسم کے مسائل اچھالنے والوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ: "حکمت کا تقاضا ہے کہ تقریباً سات سو سال پہلے گزر جانے والے علماء کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے اور انکے بارے میں اچھے کلمات کہیں جائیں" انتہی "التنکیل" (1/101)

چنانچہ اس بنا پر: کسی کو صاحب علم و فضل ائمہ کرام جیسے ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں انکے عقیدہ کے بارے میں زبان درازی کی اجازت نہیں ، اور جو کوئی اس جرم کا مرتکب ہو گا وہ سزا کا مستحق ہے تاکہ اسے اس قسم کے قبیح فعل سے روکا جائے۔

مزید تفصیلی گفتگو کیلئے ڈاکٹر الخمیس حفظہ اللہ کی کتاب "أصول الدين عند الإمام أبي حنيفة" کا مطالعہ کریں۔

اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدہ کے بارے میں مزید جاننے کیلئے سوال نمبر (46992) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ تعالی اعلم .

اسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/158755
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
میرے بھائی میں تو ایک عدنہ سا طالب علم ہو ہاں یہاں پر اہل علم کا ایک فتویٰ شئیر کرتا ہو

امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کا عقیدہ

کیا کسی نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدہ کے بارے میں گفتگو کی ہے؟ میں نے چند لوگوں کو آپکے عقیدہ پر نکتہ چینی کرتے سنا ہے، برائی مہربانی وضاحت کردیں۔


الحمد للہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں۔

امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی بغیر کسی اختلاف کے ائمہ میں شمار کئے جاتے ہیں، تمام اہل علم کا آپکی جلالتِ قدر، اور امامت پر اتفاق ہے۔

علی بن عاصم کہتے ہیں: "اگر ابو حنیفہ کے علم کا انکے زمانے کے لوگوں کے علم سےوزن کیا جائے تو ان پر بھاری ہو جائے گا"

ابن مبارک کہتے ہیں: "ابو حنیفہ سب سے بڑے فقیہ تھے"

شافعی کہتے ہیں: "تمام لوگ فقہ کیلئے ابو حنیفہ کے محتاج ہیں"

خریبی کہتے ہیں: "ابو حنیفہ کے بارے میں حاسد یا جاہل ہی زبان درازی کرتا ہے"

ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "فقہ اور دقیق فقہی مسائل میں امامت کا درجہ آپکے پاس ہے،اور اس بات میں کوئی شک بھی نہیں، اگرکسی کے نزدیک دوپہر ثابت کرنے میں بھی دلیل کی ضرورت ہوتو کوئی چیز بھی اسکے ہاں درست نہیں ہوسکتی، آپکی سیرت کو جمع کیا جائے تو دو جلدوں کی ضخیم کتاب بن سکتی ہے، اللہ ان سے راضی ہو، اور ان پر رحم فرمائے، آپ 150 ہجری میں پیٹ کی بیماری سے شہید ہوئے" انتہی، مزید کیلئے "سیر اعلام النبلاء"(6/390-403) دیکھیں

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ ، توحید، اثباتِ صفات ، تردیدِ جہمیہ ، تقدیر، مقامِ صحابہ ، اور اسکے علاوہ دیگر بڑے بڑے ایمانی مسائل میں منہج السلف کے بالکل موافق اور ائمہ مذاہب کے طریقہ پر تھا،چند ایک مسائل میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منہج السلف کی مخالفت نقل کی گئی ہے، مثلا: انہوں نے کہا کہ ایمان میں کمی زیادتی نہیں ہوتی،اور انکے نزدیک ایمان صرف دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے ، اور یہ کہ عمل ایمان کی حقیقت میں شامل نہیں ۔

ابن عبد البر اور ابن ابو العز کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے ان نظریات سے رجوع کرلیا تھا۔ دیکھیں: "التمہید"(9/247)، "شرح عقیدہ طحاویہ"صفحہ (395)

ایسےہی ڈاکٹر محمد بن عبد الرحمن الخمیس کی کتاب "اعتقاد الائمہ الاربعہ" صفحہ (3-8)کا مطالعہ بھی مفید ہوگا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "تمام مشہور ائمہ کرام اللہ تعالی کی صفات کو ثابت کرتے ہیں، اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں، اور یہ کہ اللہ تعالی کو قیامت کے دن دیکھا جاسکے گا، یہی تمام صحابہ کرام، اہل بیت ، اور انکے نقشِ قدم پر چلنے والوں کا عقیدہ ہے، یہی ان ائمہ کا مذہب ہے جن کے پیروکار موجود ہیں، مثلا: مالک بن انس، ثوری، لیث بن سعد، الاوزاعی، ابو حنیفہ ، شافعی، احمد بن حنبل، اسحاق۔۔۔"انتہی، "منہاج السنۃ النبویۃ" (2/54)

ایسے ہی عقیدہ طحاویہ جسکے مؤلف ابو جعفر الطحاوی حنفی ہیں کو چند مسائل کے علاوہ منہج اہل سنت و الجماعت کے مطابق سمجھا جاتا ہے، اسی لئے علمائے اسلام کے ہاں یہ کتاب بہت نشر ہوئی، حتی کہ بہت سی مساجد، اداروں اور یونیورسٹیز میں باقاعدہ پڑھائی جانے لگی۔

امام طحاوی کتاب کے مقدمہ صفحہ (1)میں کہتے ہیں:

"اس کتاب میں اہل سنت والجماعت کے عقیدہ کا تذکرہ فقہائے کرام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی ، ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاری ، اور ابو عبد اللہ محمد بن حسن الشیبانی، -اللہ ان سے راضی ہو-کے نظریہ اور اصولِ دین کے بارے میں انکے اعتقادکے مطابق ہے جس کے ذریعے وہ اللہ رب العالمین کو مانا کرتے تھے" انتہی

ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بہت سے پیروکار عقائد میں اشعری اور ماتریدی مذہب سے تعلق رکھتے تھے ، جسکی وجہ سے حنفی مذہب میں سلف صالحین کے عقیدہ کی مخالفت آگئی ، بلکہ خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ انکے مخالف ہے، اسی لئے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی جانب منسوب بہت سی باتیں ثابت نہیں ہوتیں، بلکہ یہ انکے ماننے والوں کی بات ہوتی ہے جو اپنے تیئں انکے مذہب کی جانب نسبت رکھتے ہیں۔

ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"واضح ہے کہ یہ مخالفات ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت نہیں ہیں، بلکہ یہ انکے شاگردوں کی جانب سے ہے، کیونکہ ان میں اکثر قابل اعتبار درجہ سے گری ہوئی ہیں جنہیں ابو حنیفہ رحمہ اللہ نہیں پسند کرتے" شرح عقیدہ طحاویہ"صفحہ (226)

شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے لکھا جانے والا رسالہ ہو سکتا ہے اسکا کچھ حصہ انہوں نے خود لکھوایا ہو، اور پھر اسے انکے کسی شاگرد نے لے لیا ہو، جسکا نام (الفقہ الاکبر)ہے اس رسالے میں سےکچھ عبارتیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حمویہ میں نقل کر چکے ہیں، ایسے ہی ابن ابی العز طحاویہ کی شرح میں۔ لیکن لگتا ہے کہ صحیح عقیدہ سے منحرف کچھ متاخرین کی جانب سے اس میں تبدیلی کی گئی ہے، اور بہت سی تاویلیں اس میں شامل کردی گئیں، کچھ نے اسکی شرح اشعری مذہب کے مطابق بھی کی ہے، اور کچھ نے منکرینِ صفات کے مذہب پر اسکی شرح کرتے ہوئے سلف کے عقیدہ کا انکار کردیا،اس میں کوئی شک نہیں کہ اسکی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایسے اساتذہ سے علم حاصل کیا جو تاویل ، تحریف ِ صفات وغیرہ کے قائل تھے" انتہی "فتاوی الشیخ ابن جبرین"(63/14)

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ابو حنیفہ اور ائمہ اربعہ تمام سلفی منہج پر تھے، ہاں کسی نہ کسی سے غلطی ہونا ایک فطری بات ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ انکے ماننے والے ایک طرف ہیں جبکہ انکے ائمہ کرام دوسری جانب ہیں"انتہی

اس لئے متفقہ ائمہ کرام جنکی جلالت قدر، عدل پسندی، اور امامت پر سب لوگوں کا اتفاق ہوچکا ہےانکے بارے میں زبان درازی سے گریز کرنا واجب ہے، کیونکہ علمائے کرام کی ہونیوالی چغلیاں رائیگاں نہیں جاتیں، اور حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر کسی کی بات لی بھی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے، اس لئے مسلمان کیلئے کسی کو اپنا راہنما بنانے کیلئے اسکا درست عقیدہ کافی ہے ، پھر اسکی جو بات صحیح عقیدہ کے مخالف ہو اسے ترک کردے، اور علماء، صلحاء، و فضلائے امت کی عزت آبرو میں نکتہ چینی کرنےکی کوشش مت کرے۔

یہی وجہ ہے کہ ذہبی اور ابن کثیر رحمہما اللہ وغیرہ دیگر مؤرخینِ اسلام نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی سوانح بیان کرتے ہوئےکوئی ایسی بات ذکر نہیں کی جس سے آپ کی شان میں کوئی کمی آئے، حقیقت میں یہی علم و تقوی ہے، اور علمائے کرام کے حقوق کی ادائیگی و احترام کرنے کیلئے کم از کم یہی انکے بارے میں ہم پر واجب ہے۔

کچھ تاریخی کتابوں میں مذکورہ بالا حقوق کے منافی چیزیں بھی ذکر کی گئی ہیں، مثلا خلقِ قرآن کا مسئلہ، تو انکے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ سے خلقِ قرآن کے بارے میں کوئی بات پایا ثبوت تک نہیں پہنچتی، اسکے بعد یہ اس مسئلہ کو بالکل بند کردیا گیا، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عزت و احترام کیا جانے لگا اور دین میں امامت کے درجہ پر فائز رکھا گیا۔

شیخ عبد الرحمن المعلمی رحمہ اللہ اس قسم کے مسائل اچھالنے والوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ: "حکمت کا تقاضا ہے کہ تقریباً سات سو سال پہلے گزر جانے والے علماء کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے اور انکے بارے میں اچھے کلمات کہیں جائیں" انتہی "التنکیل" (1/101)

چنانچہ اس بنا پر: کسی کو صاحب علم و فضل ائمہ کرام جیسے ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں انکے عقیدہ کے بارے میں زبان درازی کی اجازت نہیں ، اور جو کوئی اس جرم کا مرتکب ہو گا وہ سزا کا مستحق ہے تاکہ اسے اس قسم کے قبیح فعل سے روکا جائے۔

مزید تفصیلی گفتگو کیلئے ڈاکٹر الخمیس حفظہ اللہ کی کتاب "أصول الدين عند الإمام أبي حنيفة" کا مطالعہ کریں۔

اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدہ کے بارے میں مزید جاننے کیلئے سوال نمبر (46992) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ تعالی اعلم .

اسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/158755
آپ ایک ادنی طالب علم ہیں لیکن آپ کو اللہ نے اتنی عقل تو دی ہے کہ آپ فریقین کے دلائل کا موازنہ کرکے کوئی صحیح رائے قائم کرسکیں۔ آپ نے جو فتویٰ نقل کیا ہے وہ مذاق سے زیادہ کچھ نہیں یا زیادہ سے زیادہ یکطرفہ فتویٰ ہے جو تصویر کا ایک رخ دکھاتا ہے۔ جب تک کوئی عالم ابوحنیفہ کے بارے میں جرح اور توصیف دونوں طرح کے دلائل کا موازنہ کرکے اپنا فیصلہ نہیں سناتا جب تک ابوحنیفہ کے بارے میں بات کرنا فضول ہے۔ چونکہ آپ کے پیش کئے گئے فتوے میں ان محدثین کے سخت اقوال جو انہوں نے ابوحنیفہ کے بارے میں کہے تھے، کا کوئی تذکرہ سرے سے موجودہ نہیں ہے اس لئے اس فتویٰ کو عادلانہ فتویٰ نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی اس فتویٰ پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
میرے بھائی میں تو ایک عدنہ سا طالب علم ہو ہاں یہاں پر اہل علم کا ایک فتویٰ شئیر کرتا ہو
میرے بھائی کوئی فتویٰ شیئر کرنے سے پہلے کم از کم اس پر غور تو کرلیا کریں ضروری نہیں ہے کہ مخصوص ویب سائٹ کا ہر فتویٰ ہی صحیح ہوگا۔

امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی بغیر کسی اختلاف کے ائمہ میں شمار کئے جاتے ہیں، تمام اہل علم کا آپکی جلالتِ قدر، اور امامت پر اتفاق ہے۔
انااللہ وانا الیہ راجعون! اہل علم جانتے ہیں کہ یہ بات سفید جھوٹ ہے کیونکہ ابوحنیفہ کی امامت متنازعہ اور مختلف فیہ ہے۔ جمہور سلف صالحین و محدثین ابوحنیفہ کی مذمت پر متفق ہیں۔

علی بن عاصم کہتے ہیں: "اگر ابو حنیفہ کے علم کا انکے زمانے کے لوگوں کے علم سےوزن کیا جائے تو ان پر بھاری ہو جائے گا"
عبدالرحمنٰ بن مہدی رحمہ اللہ مشہور ثقہ و ثبت حافظ سے پوچھا گیا: مجھے پتا چلا ہے کہ آپ نے کہ آپ نے مالک بن انس کو ابوحنیفہ سے بڑا عالم کہاہے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے یہ بات نہیں کہی بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ وہ ابوحنیفہ کے استاذ یعنی حماد (بن ابی سلیمان) سے بڑے عالم ہیں۔ (الجرح و التعدیل 1-11)

اس ایک صحیح حوالے سے اندازہ لگالیں کہ ابوحنیفہ کا علمی معیار کیا تھا۔ اور اسی سے ثابت ہوا کہ صاحب فتویٰ نے ابوحنیفہ سے متعلق کتنی جھوٹی بات لکھی ہے۔

ابن مبارک کہتے ہیں: "ابو حنیفہ سب سے بڑے فقیہ تھے"
ابوحنیفہ کے فقیہ ہونے کا انکار کیا گیا ہے کیونکہ ابوحنیفہ حدیث سے جاہل تھا۔ پھر ابوحنیفہ کے سب سے بڑے فقیہ ہونے کا دعویٰ تو عبدالرحمنٰ بن مہدی رحمہ اللہ کے سابقے حوالے سے ہی جھوٹا ثابت ہوجاتا ہے۔

شافعی کہتے ہیں: "تمام لوگ فقہ کیلئے ابو حنیفہ کے محتاج ہیں"
فقاہت قرآن و حدیث کی سمجھ کا نام ہے جو ابوحنیفہ کے پاس کبھی نہیں پھٹکی۔ جس کو قرآن و حدیث کی سمجھ ہی نہیں وہ فقیہ کیسے ہوگیا؟ شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول محل نظر ہے اور قوی امکان ہے کہ اسکی سند ہی درست نہ ہو کیونکہ امام شافعی رحمہ اللہ ابوحنیفہ کو کذاب کہتے تھے۔

خریبی کہتے ہیں: "ابو حنیفہ کے بارے میں حاسد یا جاہل ہی زبان درازی کرتا ہے"
اگر خریبی کے اس بیان کو مان لیا جائے تو اسکا مطلب ہے کہ امام احمد بن حنبل، امام شافعی، امام مالک اور امام بخاری، امام ابن ابی شیبہ، امام سفیان ثوری رحم اللہ اجمعین وغیرہ حاسد اور جاہل تھے۔ کیونکہ ان تمام اماموں نے ابوحنیفہ پر شدید جرح کرکے زبان درازی کی ہے۔معاذ اللہ

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ ، توحید، اثباتِ صفات ، تردیدِ جہمیہ ، تقدیر، مقامِ صحابہ ، اور اسکے علاوہ دیگر بڑے بڑے ایمانی مسائل میں منہج السلف کے بالکل موافق اور ائمہ مذاہب کے طریقہ پر تھا،چند ایک مسائل میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منہج السلف کی مخالفت نقل کی گئی ہے، مثلا: انہوں نے کہا کہ ایمان میں کمی زیادتی نہیں ہوتی،اور انکے نزدیک ایمان صرف دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے ، اور یہ کہ عمل ایمان کی حقیقت میں شامل نہیں ۔
اس حوالے کی عبارت ہی اس عبارت کے غلط ہونے کی گواہی دے رہی ہے۔ اس میں صاف اقرار کیا گیا ہے کہ ابوحنیفہ چند مسائل میں سلف صالحین کے عقائد کے مخالف تھے اس کے بعد بھی ابوحنیفہ کے عقائد کو سلف صالحین کے عقائد کے مطابق قرار دینا تو آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔

ابن عبد البر اور ابن ابو العز کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے ان نظریات سے رجوع کرلیا تھا۔ دیکھیں: "التمہید"(9/247)، "شرح عقیدہ طحاویہ"صفحہ (395)
’’ایسا محسوس ہوتا ہے‘‘ کوئی دلیل نہیں محض ہوائی بات ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "تمام مشہور ائمہ کرام اللہ تعالی کی صفات کو ثابت کرتے ہیں، اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں، اور یہ کہ اللہ تعالی کو قیامت کے دن دیکھا جاسکے گا، یہی تمام صحابہ کرام، اہل بیت ، اور انکے نقشِ قدم پر چلنے والوں کا عقیدہ ہے، یہی ان ائمہ کا مذہب ہے جن کے پیروکار موجود ہیں، مثلا: مالک بن انس، ثوری، لیث بن سعد، الاوزاعی، ابو حنیفہ ، شافعی، احمد بن حنبل، اسحاق۔۔۔"انتہی، "منہاج السنۃ النبویۃ" (2/54)
یہ ثابت ہے کہ ابوحنیفہ کلام اللہ کے مخلوق ہونے کے قائل تھے لہٰذا یہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ابوحنیفہ کے بارے میں نرا حسن زن ہے جس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔

امام طحاوی کتاب کے مقدمہ صفحہ (1)میں کہتے ہیں:
"اس کتاب میں اہل سنت والجماعت کے عقیدہ کا تذکرہ فقہائے کرام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی ، ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاری ، اور ابو عبد اللہ محمد بن حسن الشیبانی، -اللہ ان سے راضی ہو-کے نظریہ اور اصولِ دین کے بارے میں انکے اعتقادکے مطابق ہے جس کے ذریعے وہ اللہ رب العالمین کو مانا کرتے تھے" انتہی
امام طحاوی کے اس حوالے کے غلط ہونے کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیجئے کہ انہوں نے محمد بن حسن الشیبانی کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’اللہ ان سے راضی ہو‘‘ جبکہ محمد بن حسن الشیبانی کو محدثین نے دجال، کذاب وغیرہ قرار دیا ہے۔ کیا کسی کذاب اور دجال سے بھی اللہ راضی ہوسکتا ہے؟؟؟

شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے لکھا جانے والا رسالہ ہو سکتا ہے اسکا کچھ حصہ انہوں نے خود لکھوایا ہو، اور پھر اسے انکے کسی شاگرد نے لے لیا ہو، جسکا نام (الفقہ الاکبر)ہے اس رسالے میں سےکچھ عبارتیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حمویہ میں نقل کر چکے ہیں، ایسے ہی ابن ابی العز طحاویہ کی شرح میں۔ لیکن لگتا ہے کہ صحیح عقیدہ سے منحرف کچھ متاخرین کی جانب سے اس میں تبدیلی کی گئی ہے، اور بہت سی تاویلیں اس میں شامل کردی گئیں، کچھ نے اسکی شرح اشعری مذہب کے مطابق بھی کی ہے، اور کچھ نے منکرینِ صفات کے مذہب پر اسکی شرح کرتے ہوئے سلف کے عقیدہ کا انکار کردیا،اس میں کوئی شک نہیں کہ اسکی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایسے اساتذہ سے علم حاصل کیا جو تاویل ، تحریف ِ صفات وغیرہ کے قائل تھے" انتہی "فتاوی الشیخ ابن جبرین"(63/14)
یہ بیان سراسر غلط ہے کیونکہ الفقہ الاکبر ابوحنیفہ سے ثابت ہی نہیں یعنی یہ ابوحنیفہ کی تصنیف نہیں ہے۔

اس لئے متفقہ ائمہ کرام جنکی جلالت قدر، عدل پسندی، اور امامت پر سب لوگوں کا اتفاق ہوچکا ہےانکے بارے میں زبان درازی سے گریز کرنا واجب ہے، کیونکہ علمائے کرام کی ہونیوالی چغلیاں رائیگاں نہیں جاتیں، اور حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر کسی کی بات لی بھی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے، اس لئے مسلمان کیلئے کسی کو اپنا راہنما بنانے کیلئے اسکا درست عقیدہ کافی ہے ، پھر اسکی جو بات صحیح عقیدہ کے مخالف ہو اسے ترک کردے، اور علماء، صلحاء، و فضلائے امت کی عزت آبرو میں نکتہ چینی کرنےکی کوشش مت کرے۔
یہ غیرمتعلق حوالہ ہے کیونکہ اس میں ان ائمہ کی شان میں زبان درازی سے روکا گیا ہے جن کی امامت پر اتفاق ہوچکا ہے۔ جبکہ ابوحنیفہ کی امامت پر اتفاق نہیں بلکہ اختلاف ہے اس لئے ابوحنیفہ متفق ائمہ میں شامل نہیں ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ذہبی اور ابن کثیر رحمہما اللہ وغیرہ دیگر مؤرخینِ اسلام نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی سوانح بیان کرتے ہوئےکوئی ایسی بات ذکر نہیں کی جس سے آپ کی شان میں کوئی کمی آئے، حقیقت میں یہی علم و تقوی ہے، اور علمائے کرام کے حقوق کی ادائیگی و احترام کرنے کیلئے کم از کم یہی انکے بارے میں ہم پر واجب ہے۔
ذہبی اور ابن کثیر سے بڑے اور جمہور محدثین نے ابوحنیفہ کی مذمت کی ہے۔ اس لئے ذہبی اور ابن کثیر کے حوالے ان سے کبار اور جمہور محدثین کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔
 
Top