میرے بھائی میں تو ایک عدنہ سا طالب علم ہو ہاں یہاں پر اہل علم کا ایک فتویٰ شئیر کرتا ہو
میرے بھائی کوئی فتویٰ شیئر کرنے سے پہلے کم از کم اس پر غور تو کرلیا کریں ضروری نہیں ہے کہ مخصوص ویب سائٹ کا ہر فتویٰ ہی صحیح ہوگا۔
امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی بغیر کسی اختلاف کے ائمہ میں شمار کئے جاتے ہیں، تمام اہل علم کا آپکی جلالتِ قدر، اور امامت پر اتفاق ہے۔
انااللہ وانا الیہ راجعون! اہل علم جانتے ہیں کہ یہ بات سفید جھوٹ ہے کیونکہ ابوحنیفہ کی امامت متنازعہ اور مختلف فیہ ہے۔ جمہور سلف صالحین و محدثین ابوحنیفہ کی مذمت پر متفق ہیں۔
علی بن عاصم کہتے ہیں: "اگر ابو حنیفہ کے علم کا انکے زمانے کے لوگوں کے علم سےوزن کیا جائے تو ان پر بھاری ہو جائے گا"
عبدالرحمنٰ بن مہدی رحمہ اللہ مشہور ثقہ و ثبت حافظ سے پوچھا گیا: مجھے پتا چلا ہے کہ آپ نے کہ آپ نے مالک بن انس کو ابوحنیفہ سے بڑا عالم کہاہے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے یہ بات نہیں کہی بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ وہ ابوحنیفہ کے استاذ یعنی حماد (بن ابی سلیمان) سے بڑے عالم ہیں۔ (الجرح و التعدیل 1-11)
اس ایک صحیح حوالے سے اندازہ لگالیں کہ ابوحنیفہ کا علمی معیار کیا تھا۔ اور اسی سے ثابت ہوا کہ صاحب فتویٰ نے ابوحنیفہ سے متعلق کتنی جھوٹی بات لکھی ہے۔
ابن مبارک کہتے ہیں: "ابو حنیفہ سب سے بڑے فقیہ تھے"
ابوحنیفہ کے فقیہ ہونے کا انکار کیا گیا ہے کیونکہ ابوحنیفہ حدیث سے جاہل تھا۔ پھر ابوحنیفہ کے سب سے بڑے فقیہ ہونے کا دعویٰ تو عبدالرحمنٰ بن مہدی رحمہ اللہ کے سابقے حوالے سے ہی جھوٹا ثابت ہوجاتا ہے۔
شافعی کہتے ہیں: "تمام لوگ فقہ کیلئے ابو حنیفہ کے محتاج ہیں"
فقاہت قرآن و حدیث کی سمجھ کا نام ہے جو ابوحنیفہ کے پاس کبھی نہیں پھٹکی۔ جس کو قرآن و حدیث کی سمجھ ہی نہیں وہ فقیہ کیسے ہوگیا؟ شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول محل نظر ہے اور قوی امکان ہے کہ اسکی سند ہی درست نہ ہو کیونکہ امام شافعی رحمہ اللہ ابوحنیفہ کو کذاب کہتے تھے۔
خریبی کہتے ہیں: "ابو حنیفہ کے بارے میں حاسد یا جاہل ہی زبان درازی کرتا ہے"
اگر خریبی کے اس بیان کو مان لیا جائے تو اسکا مطلب ہے کہ امام احمد بن حنبل، امام شافعی، امام مالک اور امام بخاری، امام ابن ابی شیبہ، امام سفیان ثوری رحم اللہ اجمعین وغیرہ حاسد اور جاہل تھے۔ کیونکہ ان تمام اماموں نے ابوحنیفہ پر شدید جرح کرکے زبان درازی کی ہے۔معاذ اللہ
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ ، توحید، اثباتِ صفات ، تردیدِ جہمیہ ، تقدیر، مقامِ صحابہ ، اور اسکے علاوہ دیگر بڑے بڑے ایمانی مسائل میں منہج السلف کے بالکل موافق اور ائمہ مذاہب کے طریقہ پر تھا،چند ایک مسائل میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منہج السلف کی مخالفت نقل کی گئی ہے، مثلا: انہوں نے کہا کہ ایمان میں کمی زیادتی نہیں ہوتی،اور انکے نزدیک ایمان صرف دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے ، اور یہ کہ عمل ایمان کی حقیقت میں شامل نہیں ۔
اس حوالے کی عبارت ہی اس عبارت کے غلط ہونے کی گواہی دے رہی ہے۔ اس میں صاف اقرار کیا گیا ہے کہ ابوحنیفہ چند مسائل میں سلف صالحین کے عقائد کے مخالف تھے اس کے بعد بھی ابوحنیفہ کے عقائد کو سلف صالحین کے عقائد کے مطابق قرار دینا تو آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔
ابن عبد البر اور ابن ابو العز کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے ان نظریات سے رجوع کرلیا تھا۔ دیکھیں: "التمہید"(9/247)، "شرح عقیدہ طحاویہ"صفحہ (395)
’’ایسا محسوس ہوتا ہے‘‘ کوئی دلیل نہیں محض ہوائی بات ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "تمام مشہور ائمہ کرام اللہ تعالی کی صفات کو ثابت کرتے ہیں، اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں، اور یہ کہ اللہ تعالی کو قیامت کے دن دیکھا جاسکے گا، یہی تمام صحابہ کرام، اہل بیت ، اور انکے نقشِ قدم پر چلنے والوں کا عقیدہ ہے، یہی ان ائمہ کا مذہب ہے جن کے پیروکار موجود ہیں، مثلا: مالک بن انس، ثوری، لیث بن سعد، الاوزاعی، ابو حنیفہ ، شافعی، احمد بن حنبل، اسحاق۔۔۔"انتہی، "منہاج السنۃ النبویۃ" (2/54)
یہ ثابت ہے کہ ابوحنیفہ کلام اللہ کے مخلوق ہونے کے قائل تھے لہٰذا یہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ابوحنیفہ کے بارے میں نرا حسن زن ہے جس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔
امام طحاوی کتاب کے مقدمہ صفحہ (1)میں کہتے ہیں:
"اس کتاب میں اہل سنت والجماعت کے عقیدہ کا تذکرہ فقہائے کرام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی ، ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاری ، اور ابو عبد اللہ محمد بن حسن الشیبانی، -اللہ ان سے راضی ہو-کے نظریہ اور اصولِ دین کے بارے میں انکے اعتقادکے مطابق ہے جس کے ذریعے وہ اللہ رب العالمین کو مانا کرتے تھے" انتہی
امام طحاوی کے اس حوالے کے غلط ہونے کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیجئے کہ انہوں نے محمد بن حسن الشیبانی کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’اللہ ان سے راضی ہو‘‘ جبکہ محمد بن حسن الشیبانی کو محدثین نے دجال، کذاب وغیرہ قرار دیا ہے۔ کیا کسی کذاب اور دجال سے بھی اللہ راضی ہوسکتا ہے؟؟؟
شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے لکھا جانے والا رسالہ ہو سکتا ہے اسکا کچھ حصہ انہوں نے خود لکھوایا ہو، اور پھر اسے انکے کسی شاگرد نے لے لیا ہو، جسکا نام (الفقہ الاکبر)ہے اس رسالے میں سےکچھ عبارتیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حمویہ میں نقل کر چکے ہیں، ایسے ہی ابن ابی العز طحاویہ کی شرح میں۔ لیکن لگتا ہے کہ صحیح عقیدہ سے منحرف کچھ متاخرین کی جانب سے اس میں تبدیلی کی گئی ہے، اور بہت سی تاویلیں اس میں شامل کردی گئیں، کچھ نے اسکی شرح اشعری مذہب کے مطابق بھی کی ہے، اور کچھ نے منکرینِ صفات کے مذہب پر اسکی شرح کرتے ہوئے سلف کے عقیدہ کا انکار کردیا،اس میں کوئی شک نہیں کہ اسکی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایسے اساتذہ سے علم حاصل کیا جو تاویل ، تحریف ِ صفات وغیرہ کے قائل تھے" انتہی "فتاوی الشیخ ابن جبرین"(63/14)
یہ بیان سراسر غلط ہے کیونکہ الفقہ الاکبر ابوحنیفہ سے ثابت ہی نہیں یعنی یہ ابوحنیفہ کی تصنیف نہیں ہے۔
اس لئے متفقہ ائمہ کرام جنکی جلالت قدر، عدل پسندی، اور امامت پر سب لوگوں کا اتفاق ہوچکا ہےانکے بارے میں زبان درازی سے گریز کرنا واجب ہے، کیونکہ علمائے کرام کی ہونیوالی چغلیاں رائیگاں نہیں جاتیں، اور حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر کسی کی بات لی بھی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے، اس لئے مسلمان کیلئے کسی کو اپنا راہنما بنانے کیلئے اسکا درست عقیدہ کافی ہے ، پھر اسکی جو بات صحیح عقیدہ کے مخالف ہو اسے ترک کردے، اور علماء، صلحاء، و فضلائے امت کی عزت آبرو میں نکتہ چینی کرنےکی کوشش مت کرے۔
یہ غیرمتعلق حوالہ ہے کیونکہ اس میں ان ائمہ کی شان میں زبان درازی سے روکا گیا ہے جن کی امامت پر اتفاق ہوچکا ہے۔ جبکہ ابوحنیفہ کی امامت پر اتفاق نہیں بلکہ اختلاف ہے اس لئے ابوحنیفہ متفق ائمہ میں شامل نہیں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ذہبی اور ابن کثیر رحمہما اللہ وغیرہ دیگر مؤرخینِ اسلام نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی سوانح بیان کرتے ہوئےکوئی ایسی بات ذکر نہیں کی جس سے آپ کی شان میں کوئی کمی آئے، حقیقت میں یہی علم و تقوی ہے، اور علمائے کرام کے حقوق کی ادائیگی و احترام کرنے کیلئے کم از کم یہی انکے بارے میں ہم پر واجب ہے۔
ذہبی اور ابن کثیر سے بڑے اور جمہور محدثین نے ابوحنیفہ کی مذمت کی ہے۔ اس لئے ذہبی اور ابن کثیر کے حوالے ان سے کبار اور جمہور محدثین کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔