ملک کاشف اعوان صاحب !
خوش آمدید بر محدث فورم۔
فورمی دنیاکی رِیت ہے کہ یہاں مختلف ذہن اورمتفرق دلچسپیاں رکھنےوالے افرادہوتےہیں ۔ جو اپنے اپنے پسندیدہ موضوعات میں دلچسپی رکھتے اوراس پر دوسروں کو بھی ابھارتےہیں ۔
آپ نےاس اسلامی فورم کا انتخاب کیا یقینا اچھی نیت سے ہی کیا ہوگا ۔ امید ہےکہ آپ بہت جلد فورم پر ایک بہترین لکھاری اور وسیع الظرف قاری کی حیثیت سےمعروف ہوجائیں گے ۔
اور سرفرازیء دین کی صورت میں اپنے مقصد زندگی کو بہتر طریقہ سےسرانجام دے سکیں گے ۔
آپ کا تعارف پڑھ کربہت اچھا لگا ۔
آپکی ذات کے تناظرمیں اس شعر کی تشریح جاننے کو جی چاہ رہا ہے ۔
لاہورمنتقل ہونے کا سبب ملازمت یا کاروباری مصروفیات ہیں یا پھر علاقے کےبنیادی کام سے متاثر ہوکر اس کو خیر آباد کہنا پڑا ؟ بالفاظ دیگر اس نقل مکانی کا سبب لاہور کی محبت یا ضرورت ہے یا پھر سلوں والی سے بیزاری اور عدم دلچسپی ۔؟
یہ لفظ’’ بھی ‘‘ کا اضافہ کرکے کسی اورشخصیت کی طرف اشارہ مقصود ہے ؟
بصد خلوص شکریہ خضر حیات بھائی، کہ ناچیز ممنون و مشکور ہے آپ کے محبتوں کے آگے۔
میں اُسی کوہ صفت خون کی اک بوند ہوں جو
ریگ زارِ نجف و خاکِ خراساں سے ملا ــــ!
تشریح تو نہیں ہاں تطبیق کے لیے اشارہ کر سکتا ہوں کہ نسب میرا فہر بن مالک کے خانوادے قبیلہ قریش کی ایک ذیلی شاخ بنو ہاشم سے جناب عباس بن علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب کے توسط سے جا ملتا ہے۔ اس شعر میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔
سلوں والی دھرتی سے میں بیزار تو کبھی بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ میرے اندر لہو بن کر دوڑتی ہے، میرا خمیر اٹھا ہے اسی سُرخ مٹی سے۔ ہاں لاہور پہلے پہل تعلیمی تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے آیا تھا اور بعد میں اقوام متحدہ کو خیر باد کہنے کے بعد یہی شہر جائے اماں ٹھہرا۔ کیوں، یہ مجھے بھی معلوم نہیں۔ ہاں چکوال میں آج بھی ہفتے کے دو دن ضرور گزارتا ہوں کہ وہاں ابھی "رفو" کا بہت کام باقی ہے۔
جی یہاں
بھی سے مراد ممتاز مفتی ہیں جنہوں نے پہلے پہل یہی جملہ لاہور کے متعلق کہا تھا اور میں نے یہاں اپنے مقصد کے لیے استعمال کر لیا۔