• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میری زندگی کے فیصلے کون کرتا ہے: میرا دل یا میرا دماغ؟

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
یہ محسوس کیا گیا ہے کہ انسانی طبیعت پر سوچ وبچار کا غلبہ رہتا ہے یعنی انسان ہر وقت کسی نہ کسی سوچ کے عمل سے گزرتا رہتا ہے۔ قرآن مجید نے تفقہ کی نسبت دل کی طرف کی ہے جس پر لوگوں کو یہ سوال پیدا ہوا کہ دل کیسے سوچ وبچار کرتا ہے؟ سوچنے کا کام تو ذہن کا ہے؟ بہر حال یہ سوال اہم تھا لیکن ایک دوسرا سوال شاید بہت اہم ہے کہ میری زندگی کے بارے فیصلہ کون کرتا ہے: میرا دل یا میرا دماغ؟ اس پر یہ بھی سوال ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی کرے ہمیں کیا؟ ہیں تو دونوں ہی میرے۔ لیکن ایک جگہ فرق پڑتا ہے کہ جب میں نے سوچ وبچار کے بعد ایک فیصلہ کیا، دل کی مانی یا دماغ کی مجھے نہیں معلوم، فیصلہ غلط تھا، مجھے افسوس ہوا، اب میں چاہتا ہوں دوبارہ غلطی نہ دہراوں، مجھے اصلاح اسی کی کرنی ہے کہ جس نے غلطی کی، یہ غلطی یا تو دل کی ہے یا دماغ کی، جس نے فیصلہ کیا تھا اس کی غلطی ہے، اگر دل کی غلطی ہے تو اس کی اصلاح اور دماغ کی غلطی ہو تو اس کی اصلاح کی ایپروچ میں کچھ فرق ہو گا۔

بعض اوقات یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ میں جو یہ کہتا ہوں کہ مجھے خیال آیا تو یہ خیال کیا دل میں پیدا ہوتا ہے یا دماغ میں؟ کیونکہ مجھے اگر اپنے خیال کی اصلاح کرنی ہے تو مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کہاں پیدا ہو رہا ہے؟

کتاب وسنت نے اصلاح کا دارومدار دل کو قرار دیا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ میری زندگی کے فیصلے میرا دل کرتا ہے۔ اور مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ خیال پہلی مرتبہ پیدا تو دل میں ہوتا ہے پھر اس کے بعد سوچ وبچار کے عمل میں دل کے ساتھ دماغ بھی شریک ہو جاتا ہے۔ واللہ اعلم
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
دماغ کو خون کہاں سے سپلائی ہوتا ہے؟؟؟ دل سے!

ظاہر ہے کہ خون کے ساتھ ساتھ احکامات بھی جاتے ہیں ۔۔۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کیا قرآن و حدیث میں کہیں ثابت ہے کہ سوچنے کا کام دل بھی کرتا ہے؟؟
ایسی بہت سی حدیث گزری ہیں جہاں لفظ آتا ہے "جو تمہارا دل چاہے" وغیرہ،،،
کیا سوچنے کا کام صرف دماغ کا ہی ہے یا دل کا بھی اس میں رول ہوتا ہے؟ میری اصلاح فرما دیجئے
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
کیا قرآن و حدیث میں کہیں ثابت ہے کہ سوچنے کا کام دل بھی کرتا ہے؟؟
ایسی بہت سی حدیث گزری ہیں جہاں لفظ آتا ہے "جو تمہارا دل چاہے" وغیرہ،،،
کیا سوچنے کا کام صرف دماغ کا ہی ہے یا دل کا بھی اس میں رول ہوتا ہے؟ میری اصلاح فرما دیجئے
سوچنا سمجھنے میں بنیادی کردار دل کا ہے ،کیونکہ بصیرت کا تعلق قلب سے ہے قرآن نے آفئدہ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے،بس لطیفہ قلب میں آفئدہ ہے۔دل جسم میں بادشاہ کی حثیت رکھتا ہے۔اور میڈیکل سائنس بھی اسکی تصدیق کر چکی ہے،آپ تفسیر اسرار التنزیل کا مطالعہ فرمائیں
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
دل بھی میرا ہے اور دماغ بھی میرا ہے۔ اب دل سوچے یا دماغ، یا سوچے جگر و پھیپھڑا ۔۔۔ سوچتا تو ”میں“ ہی ہوں اور ”اپنے“ اس سوچ پر عمل بھی ”میں“ ہی کرتا ہوں۔

میں جو یہ کہتا ہوں کہ مجھے خیال آیا تو یہ خیال کیا دل میں پیدا ہوتا ہے یا دماغ میں؟ کیونکہ مجھے اگر اپنے خیال کی اصلاح کرنی ہے تو مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کہاں پیدا ہو رہا ہے؟
ہمارے دل کا دماغ پر یا دماغ کا دل پر شعوری طور پر اس طرح تو کوئی کنٹرول نہیں ہے، جیسا کہ ہمارے دست و بازو کا بقیہ جسم پر ہے۔ ہم یہ عقدہ حل کرکے بھی اپنے خیال کی اس طرح اصلاح نہیں کرسکیں گے جیسا کہ ہمارا دست و بازو پورے جسم کی صفائی ستھرائی کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ خیال بھی میرا اپنا ہے (خواہ یہ خیال بیرونی اثرات کی وجہ سے پیدا ہوا ہو یا اندرونی طور پر از خود پیدا ہوا ہو) اور اس کی اصلاح بھی مجھے ہی کرنی ہے۔ خواہ دل کے پیدا شدہ فاسد خیال کی دماغ سے اصلاح ہو تی ہو یا معاملہ اس کے برعکس ہو رہا ہو۔ یہ دونوں کام کرتا تو ”میں“ ہی ہوں۔ خیال عموماً لاشعور سے پیدا ہوکر شعور کے آنگن میں پرورش پاتا ہے۔ میں لاشعور کو تو فاسد خیالات پیدا کرنے سے نہیں روک سکتا، لیکن شعور کے آنگن میں نشو و نما پاتے فاسد خیالات کو میں اپنی طاقت اور قوت سے اس وقت تک بآسانی ختم کرسکتا ہوں، جب تک یہ فاسد خیال پرورش پاکر میری عادتِ ثانیہ نہ بن جائے۔
واللہ اعلم
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
تحقیق کے سربراہ پروفیسر ایگور گراسمین نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ دانشمندانہ استدلال تلاش کرنا خصوصی طور پر صرف دماغ اور ذہنی افعال کا نتیجہ نہیں ہے


نصرت شبنم
منقول

مشہور کہاوت ہے کہ فیصلے ہمیشہ دل و دماغ کی رضا مندی کے ساتھ کرنے چاہیئے اور اب سائنس دان بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حکمت دماغ کا اکیلا فعل نہیں ہے بلکہ عقلمندی کے فیصلوں کے لیے دل کی دھڑکنیں اور سوچ کا عمل ایک ساتھ ملکر کام کرتا ہے۔

کیا انسان کےدماغ پر دل کی حکمرانی چلتی ہے اس حوالے سے سائنس دانوں کا اب یہ ماننا ہے کہ دل کی دھڑکنوں کے اتارچڑھاؤ سے ایک شخص کی عقلمندی متاثر ہوتی ہے۔

کینیڈا کی واٹرلو یونیورسٹی کے ماہر نفسیات اور آسٹریلین کیتھولک یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے محققین کی ٹیم نے دانشمندانہ فیصلوں پر دل کی دھڑکنوں کے اثرات کی نشاندھی کرتے ہوئے بتایا کہ دل کی دھڑکن کی رفتار اور سوچنے کےعمل کے درمیان تعلق موجود ہے،جو پیچیدہ مسائل کے بارے میں عقلمندانہ وجوہات تلاش کرنے کے لیے ملکر کام کرتا ہے۔

تحقیق کے سربراہ پروفیسر ایگور گراسمین نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ دانشمندانہ استدلال تلاش کرنا خصوصی طور پر صرف دماغ اور ذہنی افعال کا نتیجہ نہیں ہے۔

ماہر نفسیات پروفیسر گراسمین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا چلا ہے کہ دل کی دھڑکنوں میں زیادہ مختلف حالتوں کے حامل افراد تیسرے شخص کے نقطئہ نظر سےسماجی مسائل کے بارے میں سوچنے کےقابل تھے۔ انھوں نے عقلمند استدلال کے لیے زیادہ سے زیادہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور وہ دل کی کم شرح رکھنے والوں کے مقابلے میں کم جانبدار تھے۔۔

محققین نے دعوی کیا کہ ہماری تحقیق سے اس بات کی نشاندھی ہوئی ہے کہ کم جسمانی سرگرمیوں کے دوران دل کی دھڑکنوں کی رفتار کا کم جانبدار اور عقلمندی کے فیصلوں کےساتھ تعلق ہے ۔

ایک شخص کی دل کی دھڑکنوں میں اکثر تبدیلیاں ہوتی ہیں حتی کہ جب وہ زیادہ فعال نہیں ہوتے ہیں یا آرام کی حالت میں بیٹھے ہوتے ہیں۔

دل کی شرح میں اتار چڑھاؤ دراصل دل کی دھڑکنوں کے درمیان وقفہ ہےجو انسانی اعضاء کو کنٹرول کرنے والے اعصابی نظام سے منسلک ہے ۔

یہ مطالعہ یونیورسٹی ویسٹرن سڈنی سے تعلق رکھنے والے 150 طالب علموں پر مشعمل تھا جن کی عمریں اوسطا 25 سال تھی ۔

جرنل 'فرنٹیئرز ان بی ہیوریل نیوروسائنس میں شائع ہونے والے تحقیق کے دوران شرکاء سے ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے کہا گیا جس میں انھیں سماجی مسائل کے حوالے سے ایک تیسرے شخص کے نقطہ نظر سے فیصلہ کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔

ہر ٹاسک کے اختتام پر محققین نے ای سی جی کا استعمال کرتے ہوئے شرکاء کے دل کی دھڑکنوں کی رفتار کو دیکھا۔

پروفیسر گراسمین نے کہا کہ ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ دل کی دھڑکنوں میں زیادہ اتار چڑھاؤ رکھنے والے افراد دماغ کے اعلی انتظامی افعال کےمالک ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ افراد زیادہ سمجھدار ہیں۔

انھوں نے دلیل پیش کی کہ ان میں سے کچھ لوگ اپنی علمی صلاحیتوں کو غیر دانشمندانہ فیصلوں کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں جبکہ،سمجھدار فیصلہ کرنے کے لیے انھیں اپنے انا پرست نظریات پر قابو پانے کی ضرورت ہوگی۔
 
Top