• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میرے آنسو

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
میرے آنسو دو قسم کے ہیں، ایک مجلس کے دوسرے تنہائی کے۔ اہم بات یہ ہے کہ عموما دونوں جھوٹے ہوتے ہیں، مجلس والے اہل مجلس کے اعتبار سے اور تنہائی والے میری ذات کے پہلو سے۔

مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے کہ میں مجلس میں سب سے زیادہ دو مرتبہ رویا ہوں، وہ بھی نماز باجماعت میں۔ دونوں دفعہ میرے ساتھ کھڑے نمازیوں کو یہ تاثر ملا کہ شاید میں خشیت الہی سے رو رہا ہوں حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ میرے رونے کا سبب کوئی دنیاوی آزمائش تھی جس میں مجھے صبر نہیں آ رہا تھا۔ اس آزمائش کے سبب دل بھر آیا ہوا تھا، اور آنکھیں نمناک تھیں لہذا جیسے ہی نماز میں داخل ہوا تو زار وقطار رونا شروع کر دیا۔ میری مجلس کے آنسو نہ تو ریاکاری ہیں اور نہ ہی نیکی۔ بعض اوقات یہ بھی ہوا کہ نماز میں کوئی ایسا خیال آ گیا کہ جس سے رونا آ گیا مثلا بچہ بیمار تھا، نماز میں اس کے بچھڑ جانے کا خیال آیا اور اس کے ساتھ ہی آنسو جاری ہو گئے اور یہ آنسو بھی خشیت الہی کے نہیں تھے۔ لیکن میرا ایسے آنسووں پر اختیار نہیں ہے۔ البتہ یہ تکلیف بعض اوقات ہوتی ہے کہ لوگ خواہ مخواہ تجھے نیک سمجھی جا رہے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ آنسو دل کی نرمی کے بعد جاری ہوتے ہیں۔ اور اگر محض دل کی نرمی نیکی ہے تو شاید یہ نیکی کے آنسو کہلائے جا سکیں؟ یہ آنسو میرے لیے تو واضح ہیں لیکن لوگوں کے لیے دھوکہ ہیں۔ واللہ اعلم

دوسری قسم کے آنسو تنہائی کے ہیں۔ مجھے بعض اوقات ان آنسووں میں بھی شبہہ ہو جاتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں اور ان کی آمد شیطان کی طرف سے ہوئی ہے۔ میں نے مرشد سے پوچھا: کیا تنہائی کے احوال وکیفیات بھی جھوٹی ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: اس کی پہچان کیا ہے کہ اگر تنہائی میں مجھے کوئی خشیت حاصل ہو تو میں یہ پہچان سکوں کہ یہ رحمان کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے؟ انہوں نے جواب دیا: اگر تو اس حال سے اپنے نفس میں عاجزی محسوس کرو تو رحمان کی طرف سے ہے اور اگر اپنی بڑائی کا کسی بھی قسم کا احساس پیدا ہو تو یہ شیطان کی طرف سے ہے۔

تنہائی میں جبکہ میرے ساتھ کوئی بھی نہیں ہوتا تو اس وقت ریاکاری تو ممکن نہیں ہے لیکن تکبر ممکن ہے۔ میں تنہائی میں اگر کچھ دیر رونے کے بعد اپنے آپ کو تقوی یا نیکی کے کسی معیار پر سمجھنا شروع کر دوں تو چاہے اس رونے میں میری چیخیں ہی کیوں نہ نکلتی ہوں، تو میرا خیال ہے کہ یہ رونا صد فی صد شیطان کی طرف سے نہ بھی ہو تو کم از کم اس عمل کا نیکی ہونا مشکوک ضرور ہے۔ واللہ اعلم

میں نے محسوس کیا، مجھے آنسو زیادہ آتے ہیں۔ میں نے اس پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی وجہ رقت قلب ہے نہ کہ شدت خشیت۔ پہلے میں اپنے تنہائی کے آنسووں کی کثرت کو خشیت الہی کی شدت سمجھتا رہا حالانکہ وہ دل کی نرمی کا نتیجہ تھا۔ یعنی خشیت تو مجھ پر اوروں جتنی ہی طاری ہوتی ہے لیکن آنسو زیادہ نکلتے ہیں اور ایسا دل کی نرمی کے سبب سے ہے۔ لہذا میں خواہ مخواہ اپنے تقوی کے بارے دھوکے میں مبتلا رہا۔ اب چڑیا کے دل والا زیادہ آنسو نہیں بہائے گا تو اور کیا کرے گا؟
 
Last edited:

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
برادرم!اصل بات تو یہی ہے کہ ریاکاری نہ ہو؛یہ رقت قلب بھی تو خدا ہی کی طرف سے ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کی گرفت کے تصور پر زور دیا جائے اور اپنے گناہوں پر ندامت کا جذبہ بیدار ہو جائے تو یہی رقت قلب آنسو بہنے کا سبب بنتی ہے ورنہ سخت دلوں سے تو آنسو بہتے ہی نہیں؛اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی خشیت و محبت سے بہرہ مندبنائے؛آمین
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
میرے آنسو دو قسم کے ہیں، ایک مجلس کے دوسرے تنہائی کے۔ اہم بات یہ ہے کہ عموما دونوں جھوٹے ہوتے ہیں، مجلس والے اہل مجلس کے اعتبار سے اور تنہائی والے میری ذات کے پہلو سے۔

مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے کہ میں مجلس میں سب سے زیادہ دو مرتبہ رویا ہوں، وہ بھی نماز باجماعت میں۔ دونوں دفعہ میرے ساتھ کھڑے نمازیوں کو یہ تاثر ملا کہ شاید میں خشیت الہی سے رو رہا ہوں حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ میرے رونے کا سبب کوئی دنیاوی آزمائش تھی جس میں مجھے صبر نہیں آ رہا تھا۔ اس آزمائش کے سبب دل بھر آیا ہوا تھا، اور آنکھیں نمناک تھیں لہذا جیسے ہی نماز میں داخل ہوا تو زار وقطار رونا شروع کر دیا۔ میری مجلس کے آنسو نہ تو ریاکاری ہیں اور نہ ہی نیکی۔ بعض اوقات یہ بھی ہوا کہ نماز میں کوئی ایسا خیال آ گیا کہ جس سے رونا آ گیا مثلا بچہ بیمار تھا، نماز میں اس کے بچھڑ جانے کا خیال آیا اور اس کے ساتھ ہی آنسو جاری ہو گئے اور یہ آنسو بھی خشیت الہی کے نہیں تھے۔ لیکن میرا ایسے آنسووں پر اختیار نہیں ہے۔ البتہ یہ تکلیف بعض اوقات ہوتی ہے کہ لوگ خواہ مخواہ تجھے نیک سمجھی جا رہے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ آنسو دل کی نرمی کے بعد جاری ہوتے ہیں۔ اور اگر محض دل کی نرمی نیکی ہے تو شاید یہ نیکی کے آنسو کہلائے جا سکیں؟ یہ آنسو میرے لیے تو واضح ہیں لیکن لوگوں کے لیے دھوکہ ہیں۔ واللہ اعلم

دوسری قسم کے آنسو تنہائی کے ہیں۔ مجھے بعض اوقات ان آنسووں میں بھی شبہہ ہو جاتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں اور ان کی آمد شیطان کی طرف سے ہوئی ہے۔ میں نے مرشد سے پوچھا: کیا تنہائی کے احوال وکیفیات بھی جھوٹی ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: اس کی پہچان کیا ہے کہ اگر تنہائی میں مجھے کوئی خشیت حاصل ہو تو میں یہ پہچان سکوں کہ یہ رحمان کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے؟ انہوں نے جواب دیا: اگر تو اس حال سے اپنے نفس میں عاجزی محسوس کرو تو رحمان کی طرف سے ہے اور اگر اپنی بڑائی کا کسی بھی قسم کا احساس پیدا ہو تو یہ شیطان کی طرف سے ہے۔

تنہائی میں جبکہ میرے ساتھ کوئی بھی نہیں ہوتا تو اس وقت ریاکاری تو ممکن نہیں ہے لیکن تکبر ممکن ہے۔ میں تنہائی میں اگر کچھ دیر رونے کے بعد اپنے آپ کو تقوی یا نیکی کے کسی معیار پر سمجھنا شروع کر دوں تو چاہے اس رونے میں میری چیخیں ہی کیوں نہ نکلتی ہوں، تو میرا خیال ہے کہ یہ رونا صد فی صد شیطان کی طرف سے نہ بھی ہو تو کم از کم اس عمل کا نیکی ہونا مشکوک ضرور ہے۔ واللہ اعلم

میں نے محسوس کیا، مجھے آنسو زیادہ آتے ہیں۔ میں نے اس پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی وجہ رقت قلب ہے نہ کہ شدت خشیت۔ پہلے میں اپنے تنہائی کے آنسووں کی کثرت کو خشیت الہی کی شدت سمجھتا رہا حالانکہ وہ دل کی نرمی کا نتیجہ تھا۔ یعنی خشیت تو مجھ پر اوروں جتنی ہی طاری ہوتی ہے لیکن آنسو زیادہ نکلتے ہیں اور ایسا دل کی نرمی کے سبب سے ہے۔ لہذا میں خواہ مخواہ اپنے تقوی کے بارے دھوکے میں مبتلا رہا۔ اب چڑیا کے دل والا زیادہ آنسو نہیں بہائے گا تو اور کیا کرے گا؟

مجھے خدشہ ھے کہ کھیں آپ پر صوفی ازم کا لیبل نہ لگا دیا جائے۔(ایسا دونوں طرف

سے ہو سکتا ھے۔)
 

حافظ اختر علی

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
768
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
317
اللہ کے سامنے رونا جب دلوں کو نرم کرتا اور زنگ اتارتا ہے تو یہ رونا کم ہو یا زیادہ باعث ثواب ہی ہے۔تکلیف کی حالت میں اپنے رب کو پکارنا اور تکلیف اور آزمائش کی وجہ سے آنسوؤوں کا آنا بھی عاجزی اور اللہ تعالیٰ کی برتری کی علامت ہے۔بہرحال ایک چیز جو میری سمجھ میں ہے کہ تنہائی میں نکلنے والے آنسوؤں میں نا تو ریا کاری ہوتی ہے اور نا ہی تکبر۔ریاکاری کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی کی موجودگی ضروری ہے اور اگر رونے میں تکبر ہی پیدا کرنا تھا تو پھر رونے کی سمجھ نہیں آتی۔اس لیے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد کافی ہے کہ جس کا مفہوم پیش کیے دیتا ہوں کہ ’’اللہ کے ڈر سے رونا چاہیے اور اگر رونا نہ آئے تو رونے والا منہ بنا لو۔‘‘
اس لیے رونا کسی بھی مومن کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں اور وہ حدیث کہ قیامت والے دن جن سات خوش نصیبوں کو عرش کا سایہ نصیب ہو گا ان میں سے ایک وہ خوش بخت ہے کہ تنہائی میں اپنے رب کو یاد کر کے رویا ہو۔اس لیے تنہائی میں روئے ہوئے آنسوؤں پر شک نہیں کرنا چاہیے بلکہ حسن ظن ہی رکھنا چاہیے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
ریاکاری نہ ہو نا اخلاص و للہیت کو مستلزم نہیں ہے۔
عدم ریاکاری کے بعداخلاص وللہیت کے علاوہ کسی اورسبب سے بھی آنسونکل سکتے ہیں۔اس سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔
جن احادیث میں تنہائی کے آنسؤوں کی فضلیت ہے وہاں عموما اس کی نوعیت کابھی ذکر ہے اوروہ یہ کہ یہ آنسو اللہ کے ذکر اوراللہ کی خشیت کے سبب نکلے ہوں ۔

وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ[صحيح البخاري 1/ 133]

ففي رواية حماد بن زيد عند الجوزقي ففاضت عيناه من خشية الله[فتح الباري لابن حجر 2/ 147]

اب یہ ضروری تو نہیں تنہائی کے ہرآنسوکاسبب اللہ کاذکر اور اللہ کی خشیت ہی ہو۔
لہٰذاعلوی بھائی کی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ تنہائی کے ہرآنسوتقوی کی دلیل نہیں۔واللہ اعلم۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
جزاکم اللہ خیرا کفایت اللہ بھائی۔ اس سے پہلے ایک پوسٹ دعا کے موضوع پر تھی، اس میں بھی آپ نے ایک روایت کا حوالہ دیا، جو میری نظر سے نہیں گزری تھی لیکن وہ اس مضمون کے بالکل مطابق تھی جو میں نے اس پوسٹ میں شیئر کیا تھا۔ اب کی بار دوسری مرتبہ رہنمائی کا شکریہ۔

اہل حدیث یا سلفی نوجوانوں کے لیے اصلاح نفس یا اصلاح معاشرہ کے نام سے ایک تحریر مرتب کر رہا ہوں۔ کچھ تھوڑا بہت اس موضوع پر جو مطالعہ کیا ہے، اور اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ میرا حدیث کا مطالعہ اتنا نہیں ہے جتنا آپ کا ہے، اس لیے آپ کی رہنمائی یا حدیث نقل کرنے کے بعد تو اس موضوع کے بارے جو رائے ظن کی حالت میں ہوتی ہے، یقین میں بدل جاتی ہے۔ اس رہنمائی پر آپ کا دل سے شکر گزار ہوں۔
 
Top