- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
میرے آنسو دو قسم کے ہیں، ایک مجلس کے دوسرے تنہائی کے۔ اہم بات یہ ہے کہ عموما دونوں جھوٹے ہوتے ہیں، مجلس والے اہل مجلس کے اعتبار سے اور تنہائی والے میری ذات کے پہلو سے۔
مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے کہ میں مجلس میں سب سے زیادہ دو مرتبہ رویا ہوں، وہ بھی نماز باجماعت میں۔ دونوں دفعہ میرے ساتھ کھڑے نمازیوں کو یہ تاثر ملا کہ شاید میں خشیت الہی سے رو رہا ہوں حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ میرے رونے کا سبب کوئی دنیاوی آزمائش تھی جس میں مجھے صبر نہیں آ رہا تھا۔ اس آزمائش کے سبب دل بھر آیا ہوا تھا، اور آنکھیں نمناک تھیں لہذا جیسے ہی نماز میں داخل ہوا تو زار وقطار رونا شروع کر دیا۔ میری مجلس کے آنسو نہ تو ریاکاری ہیں اور نہ ہی نیکی۔ بعض اوقات یہ بھی ہوا کہ نماز میں کوئی ایسا خیال آ گیا کہ جس سے رونا آ گیا مثلا بچہ بیمار تھا، نماز میں اس کے بچھڑ جانے کا خیال آیا اور اس کے ساتھ ہی آنسو جاری ہو گئے اور یہ آنسو بھی خشیت الہی کے نہیں تھے۔ لیکن میرا ایسے آنسووں پر اختیار نہیں ہے۔ البتہ یہ تکلیف بعض اوقات ہوتی ہے کہ لوگ خواہ مخواہ تجھے نیک سمجھی جا رہے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ آنسو دل کی نرمی کے بعد جاری ہوتے ہیں۔ اور اگر محض دل کی نرمی نیکی ہے تو شاید یہ نیکی کے آنسو کہلائے جا سکیں؟ یہ آنسو میرے لیے تو واضح ہیں لیکن لوگوں کے لیے دھوکہ ہیں۔ واللہ اعلم
دوسری قسم کے آنسو تنہائی کے ہیں۔ مجھے بعض اوقات ان آنسووں میں بھی شبہہ ہو جاتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں اور ان کی آمد شیطان کی طرف سے ہوئی ہے۔ میں نے مرشد سے پوچھا: کیا تنہائی کے احوال وکیفیات بھی جھوٹی ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: اس کی پہچان کیا ہے کہ اگر تنہائی میں مجھے کوئی خشیت حاصل ہو تو میں یہ پہچان سکوں کہ یہ رحمان کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے؟ انہوں نے جواب دیا: اگر تو اس حال سے اپنے نفس میں عاجزی محسوس کرو تو رحمان کی طرف سے ہے اور اگر اپنی بڑائی کا کسی بھی قسم کا احساس پیدا ہو تو یہ شیطان کی طرف سے ہے۔
تنہائی میں جبکہ میرے ساتھ کوئی بھی نہیں ہوتا تو اس وقت ریاکاری تو ممکن نہیں ہے لیکن تکبر ممکن ہے۔ میں تنہائی میں اگر کچھ دیر رونے کے بعد اپنے آپ کو تقوی یا نیکی کے کسی معیار پر سمجھنا شروع کر دوں تو چاہے اس رونے میں میری چیخیں ہی کیوں نہ نکلتی ہوں، تو میرا خیال ہے کہ یہ رونا صد فی صد شیطان کی طرف سے نہ بھی ہو تو کم از کم اس عمل کا نیکی ہونا مشکوک ضرور ہے۔ واللہ اعلم
میں نے محسوس کیا، مجھے آنسو زیادہ آتے ہیں۔ میں نے اس پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی وجہ رقت قلب ہے نہ کہ شدت خشیت۔ پہلے میں اپنے تنہائی کے آنسووں کی کثرت کو خشیت الہی کی شدت سمجھتا رہا حالانکہ وہ دل کی نرمی کا نتیجہ تھا۔ یعنی خشیت تو مجھ پر اوروں جتنی ہی طاری ہوتی ہے لیکن آنسو زیادہ نکلتے ہیں اور ایسا دل کی نرمی کے سبب سے ہے۔ لہذا میں خواہ مخواہ اپنے تقوی کے بارے دھوکے میں مبتلا رہا۔ اب چڑیا کے دل والا زیادہ آنسو نہیں بہائے گا تو اور کیا کرے گا؟
مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے کہ میں مجلس میں سب سے زیادہ دو مرتبہ رویا ہوں، وہ بھی نماز باجماعت میں۔ دونوں دفعہ میرے ساتھ کھڑے نمازیوں کو یہ تاثر ملا کہ شاید میں خشیت الہی سے رو رہا ہوں حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ میرے رونے کا سبب کوئی دنیاوی آزمائش تھی جس میں مجھے صبر نہیں آ رہا تھا۔ اس آزمائش کے سبب دل بھر آیا ہوا تھا، اور آنکھیں نمناک تھیں لہذا جیسے ہی نماز میں داخل ہوا تو زار وقطار رونا شروع کر دیا۔ میری مجلس کے آنسو نہ تو ریاکاری ہیں اور نہ ہی نیکی۔ بعض اوقات یہ بھی ہوا کہ نماز میں کوئی ایسا خیال آ گیا کہ جس سے رونا آ گیا مثلا بچہ بیمار تھا، نماز میں اس کے بچھڑ جانے کا خیال آیا اور اس کے ساتھ ہی آنسو جاری ہو گئے اور یہ آنسو بھی خشیت الہی کے نہیں تھے۔ لیکن میرا ایسے آنسووں پر اختیار نہیں ہے۔ البتہ یہ تکلیف بعض اوقات ہوتی ہے کہ لوگ خواہ مخواہ تجھے نیک سمجھی جا رہے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ آنسو دل کی نرمی کے بعد جاری ہوتے ہیں۔ اور اگر محض دل کی نرمی نیکی ہے تو شاید یہ نیکی کے آنسو کہلائے جا سکیں؟ یہ آنسو میرے لیے تو واضح ہیں لیکن لوگوں کے لیے دھوکہ ہیں۔ واللہ اعلم
دوسری قسم کے آنسو تنہائی کے ہیں۔ مجھے بعض اوقات ان آنسووں میں بھی شبہہ ہو جاتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں اور ان کی آمد شیطان کی طرف سے ہوئی ہے۔ میں نے مرشد سے پوچھا: کیا تنہائی کے احوال وکیفیات بھی جھوٹی ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: اس کی پہچان کیا ہے کہ اگر تنہائی میں مجھے کوئی خشیت حاصل ہو تو میں یہ پہچان سکوں کہ یہ رحمان کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے؟ انہوں نے جواب دیا: اگر تو اس حال سے اپنے نفس میں عاجزی محسوس کرو تو رحمان کی طرف سے ہے اور اگر اپنی بڑائی کا کسی بھی قسم کا احساس پیدا ہو تو یہ شیطان کی طرف سے ہے۔
تنہائی میں جبکہ میرے ساتھ کوئی بھی نہیں ہوتا تو اس وقت ریاکاری تو ممکن نہیں ہے لیکن تکبر ممکن ہے۔ میں تنہائی میں اگر کچھ دیر رونے کے بعد اپنے آپ کو تقوی یا نیکی کے کسی معیار پر سمجھنا شروع کر دوں تو چاہے اس رونے میں میری چیخیں ہی کیوں نہ نکلتی ہوں، تو میرا خیال ہے کہ یہ رونا صد فی صد شیطان کی طرف سے نہ بھی ہو تو کم از کم اس عمل کا نیکی ہونا مشکوک ضرور ہے۔ واللہ اعلم
میں نے محسوس کیا، مجھے آنسو زیادہ آتے ہیں۔ میں نے اس پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی وجہ رقت قلب ہے نہ کہ شدت خشیت۔ پہلے میں اپنے تنہائی کے آنسووں کی کثرت کو خشیت الہی کی شدت سمجھتا رہا حالانکہ وہ دل کی نرمی کا نتیجہ تھا۔ یعنی خشیت تو مجھ پر اوروں جتنی ہی طاری ہوتی ہے لیکن آنسو زیادہ نکلتے ہیں اور ایسا دل کی نرمی کے سبب سے ہے۔ لہذا میں خواہ مخواہ اپنے تقوی کے بارے دھوکے میں مبتلا رہا۔ اب چڑیا کے دل والا زیادہ آنسو نہیں بہائے گا تو اور کیا کرے گا؟
Last edited: