وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُولَٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ۖ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴿٢٢١﴾
تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن غلام مشرک شریف سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے۔
قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 221
فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ
تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں اُن کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔
قرآن، سورت التوبۃ، آیت نمبر 05
وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ
اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں۔
قرآن ، سورت التوبۃ، آیت نمبر 36
مندرجہ بالا آیات سے درج ذیل دو امور کا پتہ چلتا ہے:
1- مشرکین عورتوں و مردوں سے نکاح حرام ہے۔
2- مشرکین سے قتال کا حکم دیا گیا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ طبقہء اہلِ حدیث کی لڑکیاں و لڑکےبریلوی و دیوبندیوں سے نکاح کرتے ہیں اور اس کے بر عکس بھی دیکھنے کو ملتا ہے تو کیا ان سب کا نکاح باطل ہے ؟
کیا ان سے قتال نہ کر کے ہم قرآنی حکم کی خلاف ورزی نہیں کر رہے ؟
اگر ہم ا سے قتال کرنا چاہیں تو کیا صورتِ حال اختیار کرنی پڑے گی ؟
دیوبندی و بریلوی قرآن کی حجیت کےتو قائل ہیں جبکہ مشرکین ِ مکہ قرآن کو نہیں مانتے تھے اب سوال یہ ہے کہ اگر ان حضرات کو بھی مشرکین ِ مکہ پر قیاس کر لیاجائے تو ان کو قرآنی دلائل کیوں دیے جاتے ہیں اسی لیے نا کہ یہ لوگ کم از کم قرآن کو تو مانتے ہیں۔
آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے ؟
پہلی قسم بدعت مکفرہ کے حاملین:
غالی گروہ جو کہ ایک چھوٹا گروہ ہونے کے باوجود انتہائی خطرناک عقائد کا حامل ہے۔
بدعت مکفرہ کے حامل اس گروہ کے عقائد کی تفصیل درج ذیل کتب میں ملاحظہ فرمائیں:
الشیخ ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ کی کتاب ’’ امام صحیح العقیدہ ہونا چاہیے‘‘
استادِ محترم الشیخ پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ کا رسالہ’’ اہل حدیث کی نماز غیر اہل حدیث کے پیچھے‘‘
سید طالب الرحمن حفظہ اللہ کی کتاب ’’الدیوبندیہ‘‘
ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ کی نظر ثانی سے شائع شدہ ڈاکڑ ابو عدنان سہیل حفظہ اللہ کی کتاب ’’اسلام میں بدعت وضلالت کے محرکات۔‘‘
تصوف کی طرف میلان ہونے کی وجہ سے ان میں سے بعض وحدۃ الوجود تک کے قائل ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
1۔: عقیدہ وحدۃ الوجود
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب لکھتے ہیںکہ: ’’ اس مرتبہ میں خداکا خلیفہ ہو کر لوگوں کو اس تک پہنچاتا ہے اور ظاہر میں بندہ اور باطن میں خداہو جاتا ہے اس مقام کو برزخ البرازخ کہتے ہیں۔‘‘(کلیات امدادیہ،ص:۳۶/ضیاء القلو ب، ص ۳۵،۳۶)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:’’بندہ قبل از وجود باطنا خود خدا تھا اور خدا ظاہر بندہ۔ اس پر حدیث قدسی دلالت کرتی ہے’’ کنت کنزًا مخفیا‘‘ خالق کی اس کی مخلوق کے ساتھ مثل گٹھلی کی درخت کے ساتھ کی ہے کیونکہ درخت اپنے پتوں ٹہنیوں اور پھولوں سمیت گٹھلی میں پوشیدہ تھا جب گٹھلی نے اپنا باطن ظاہر کیا تو خود چھپ گئی۔ چنانچہ دیکھنے والا درخت کو دیکھتا ہے، گٹھلی کو نہیں۔‘‘(شمائم امدادیہ ص:۲۸)
مولاناانور شاہ کشمیری نے اپنی کتاب ’’فیض الباری‘‘ شرح بخاری میں جو کچھ لکھا ہے ملاحظہ فرمائیں :
’’حدیث مبارک میں ہے ـحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ فرائض کی پابندی سے جو قرب حاصل کرتا ہے اُس جیسا اور کوئی قرب نہیں،پھر میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرنے میں کوشاں رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو جب میں اسے پسند کرلیتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔
علمائے ظواہر نے اس حدیث کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ بندہ کے اعضاء جوارح اللہ کی رضا کے تابع ہو جاتے ہیں ان سے وہی حرکت ہوتی ہے جو اللہ کو پسند ہو اور اس کے تمام اعضاء کی انتہاء اور غایت ذات باری تعالیٰ ہو تو یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ بندہ سنتا ہے تو خدا کیلئے ،گویا اللہ تعالیٰ اُس بندے کے کان اور آنکھیں بن گیا ہے۔ میں کہتا ہوں یہ معنی لینا حدیث کے الفاظ سے پھر جانا ہے حدیث میں صیغہ متکلم استعمال ہوا ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ جو بندہ نوافل سے قرب الہٰی حاصل کرچکا ہو،جسم اور صورت کے بغیر اس کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی اور اس میں تصرف کرنیوالا رب العالمین ہی ہے یہ وہ مقام ہے جس کو صوفیا ء فنا فی اللہ کہتے ہیں یعنی خواہشات کے دواعی سے وہ شخص نکل جاتا ہے ، اور اس میں صرف اللہ کا تصرف رہ جاتا ہے۔‘‘ (فیض الباری شرح بخاری بحوالہ دلائل السلوک ص۳۳)
’’صوفیاء نے فرمایا کہ قرب فرائض میں بندہ اعضائے خدا تعالیٰ بنتا ہے اور قرب نوافل میں خدا تعالیٰ اعضائے بندہ بن جاتا ہے۔‘‘(فیض الباری ۴:۴۲۷ بحوالہ دلائل السلوک ص۳۶)
2۔غیراللہ سے استمداد ملاحظہ فرمائیں:
حاجی امداد اللہ مکی صاحب اشعار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشکل کشا کہہ کر آپ کو مدد کے لیے پکارتے ہیں :
یا رسولِ کبریاء فریاد ہے‘ یا محمد مصطفیٰ فریاد ہے
آپ کی امداد ہو، میرا یا نبی حال ابتر ہوا ،فریاد ہے
سخت مشکل میں پھنسا ہوں آجکل
اے میرے مشکل کشا فریاد ہے
(کلیات امدادیہ ص۹۰،۹۱)
حاجی امداد اللہ اپنے مرشد شاہ نور محمد کو یوں مخاطب کرتے ہیں کہ :
آسرا دنیا میں ہے از بس تمہاری ذات کا
تم سوا اوروں سے ہرگز کچھ نہیں ہے التجا
بلکہ دن محشر کا ہوگا جس وقت قاضی خدا
آپ کا دامن پکڑ کر یہ کہوں گا برملا
اے شہ نور محمد وقت ہے امداد کا
(شمائم امدادیہ :۸۴، امداد المشتاق ص۱۲۲ )
محمد قاسم نانوتوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ما فوق الاسباب پکارتے ہیں کہ میری مدد کریں:
مدد کر اے کرم احمدی کہ تیرے سوا
نہیں ہے قاسم بے کس کا کوئی حامی کار
جو تو ہی ہم کو نہ پوچھے تو کون پوچھے گا
بنے گا کون ہمارا تیرے سوا غم خوار
(قصائد قاسمی ص۸)
علامہ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ ان اشعار کا حوالہ دینے کے بعد کہتے ہیں کہ اس قسم کا عقیدہ صریحاً شرک ہے ۔العیاذ باللہ ( امام صحیح العقیدہ ہونا چاہیے :22)
3۔مولوی زکریا صاحب فضائل حج میں لکھتے ہیں ـ:
’’ ابدال میں سے ایک شخص نے خضر سے دریافت کیا کہ تم نے اپنے سے زیادہ مرتبہ والا بھی کوئی ولی دیکھا ؟فرمانے لگے ہا ں دیکھا ہے میں ایک مرتبہ مدینہ طیبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں حاضر تھا ۔میں نے امام عبدالرزاق محدث کو دیکھا کہ وہ احادیث سنا رہے ہیں اور مجمع ان کے پاس احادیث سن رہا ہے اور مسجد کے ایک کونے میں ایک جوان گھٹنوں پر سر رکھے علیحدہ بیٹھا ہے ،میں نے اس جوان سے کہا کہ تم دیکھتے نہیں کہ مجمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سن رہا ہے تم ان کے ساتھ شریک نہیں ہوتے ؟ اس جوان نے نہ تو سر اٹھایا اور نہ ہی التفات کیا اور کہنے لگے اس جگہ وہ لوگ ہیں جو رزاق کے عبد (عبدالرزاق) سے حدیثیں سنتے ہیں اور یہاں وہ بھی ہیں جو رزاق (اللہ تعالیٰ) سے سنتے ہیں نہ کہ اس کے عبد سے ۔خضر نے فرمایا اگر تمہارا کہنا حق ہے تو بتائو کہ میں کون ہوں؟اس نے سر اٹھایا اور کہنے لگا کہ اگر فراست صحیح ہے تو آپ خضر ہیں ۔ خضر فرماتے ہیں اس سے میں نے جانا کہ اللہ تعالیٰ کے بعض ولی ایسے بھی ہیں جن کے علو مرتبہ کی وجہ سے میں ان کو نہیں پہچانتا ۔حق تعالیٰ ان سے راضی ہو اور ہم کو بھی ان سے نفع پہنچائے۔ آمین(فضائل حج صفحہ 840)
اس سے ثابت ہوتاہے کہ شریعت کے احکام سے آزاد ہو کر بھی ولی بنا جا سکتا ہے حالانکہ علماء اسلام کے نزدیک ایسا سمجھنا اسلام کے منافی امور میں سے ہے ۔
4۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنے شیخ ابو رضامحمد کے تصرفات اور قلبی خیالات پر مطلع ہونے کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں:
’’آپ کے خدام میں سے ایک شخص برے فعل کا مرتکب تھا ۔حضرت والا نے کئی مجلسوں میں رمزواشارہ سے اسے برے فعل سے منع فرمایا مگر وہ نہ چونکا اور نہ ہی اس فعل سے باز آیا۔ حضرت والا نے اسے خلوت میں طلب فرمایا اور کہا میں نے تجھے کئی مرتبہ اشاروں کنایوں سے سمجھایا لیکن تو نے پرواہ نہ کی۔ تیرا خیال ہے کہ ہم تیرے کرتوتوں سے بے خبر ہیں۔ اگر چیونٹی زمین کے سب سے نچلے طبقے میں ہو اور اس کے دل میں سو خیالات آئیں تو میں ان میں سے ننانوے خطرات کو جانتا ہوں اور حق سبحانہ وتعالیٰ پورے خطرات کا عالم ہے۔ پس اس شخص نے توبہ کی۔‘‘(انفارس العارفین ،ص:۱۵۰)
شاہ اسماعیل دہلوی نے فوت شدہ بزرگوں کی روحوں سے ملاقات اور لوح محفوظ سے کسی بات کی دریافت کا طریقہ لکھا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:’’ آسمانوں کے حالات کے انکشاف، ملاقات ارواح و ملائکہ، بہشت و دوزخ کی سیر، اس مقام کے حقائق کی اطلاع، اس جگہ کے مکانوں کی دریافت اور لوح محفوظ سے کسی امر کے انکشاف کے لیے یا حی یا قیوم کا ذکر کیا جاتا ہے۔‘‘( صراط مسقیم، صفحہ: ۲۲۵۔)
کتنے افسوس کی بات ہے کہ بعض حضرات ایسےشرکیہ نظریات پر مبنی کتابوں کی بھی تعریف کرتے ہیں ۔جیسا کہ تبلیغی جماعت ان کتابوں میں سے بعض کو اپنے نصاب میں شامل کیے ہوئے ہےاوران کے مکتبوں سے ان کی اشاعت ہوتی ہے۔ اسی طرح عبدالمجید سوہدروی ایڈیٹر اخبار اہل حدیث سوہدرہ’’منصب امامت‘‘ اور ’’صراط مستقیم‘‘ کو مواعظ حسنہ میں شمار کرتے ہیں [حقانیت مسلک اہلحدیث ،ج:۱،ص۷۶]مکتبہ سلفیہ اہل حدیث شیش محل روڈ لاہور نے بھی ’’صراط مستقیم‘‘ فارسی زبان میں شائع کی ہے ، لیکن علمائے حق اس شرک سے برأت کا اظہار کرتے ہیں ،الحمدللہ علماء اہل حدیث نے ان کے عقائد کا احسن انداز میں رد کیا جیسا کہ ڈاکٹر لقمان سلفی حفظہ اللہ کی نظرثانی سے شائع شدہ ڈاکٹر ابو عدنان سہیل حفظہ اللہ کی کتاب ’’ اسلام میں بدعت وضلالت کے محرکات‘‘اورمولانا عبدالرحمان کیلانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’روح،عذاب قبر اور سماع موتی‘‘ میں شاہ ولی اللہ اور شاہ اسماعیل کی طرف منسوب کتابوں میں بیان شدہ عقائد کا خوبصورت رد ہے۔
یاد رہے ہمارا مقصودان شخصیات کی تکفیر کرنا نہیں ،ممکن ہے وہ حضرات ان تحریروں سے توبہ کر کے دنیا سے گئے ہوں ،یا کسی اورنے یہ باتیں ان کی کتابوں میں لکھ دی ہوں ‘یا ان میں تحریف کی ہو ،یاوہ ان باتوں کی ایسی عجیب و غریب تاویل کریں کہ بات صریح کفر نہ رہے البتہ ان باتوں کو کفر کہنا ہم پر واجب ہے ۔
ڈاکٹر سید شفیق الرحمن