یہ رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدربھی دراز کر لے
میں تیرگی کا غبار بن کر نہیں جیوں گا
مجھے پتہ ہے کہ ایک جگنو کے جاگنے سے
یہ تیرگی کی دبیز چادر نہیں کٹے گی
مجھے خبر ہے کہ میری بے زور ٹکروں سے
فصیلِ دہشت نہیں ہٹے گی
میں جانتا ہوں کہ میرا شعلہ
چمک کے رزقِ غبار ہو گا
تو بے خبر یہ دیار ہو گا
میں روشنی کی لکیر بن کر
کسی ستارے کی مثل بکھروں گا
بستیوں کو خبر نہ ہو گی
میں جانتا ہوں کہ میری کم تاب
روشنی سے سحر نہ ہو گی
مگرمیں پھر بھی سیاہ شب کا
غبار بن کر نہیں جیوں گا
کرن ہو کتنی نحیف لیکن کرن ہے پھر بھی
وہ ترجماں ہے کہ روشنی کا وجود زندہ ہے
اور جب تک
یہ روشنی کا وجود زندہ ہے رات اپنے
سیاہ پنجوں کو جس قدربھی درازکر لے
کہیں سے سورج نکل پڑے گا