ابوالوفا محمد حماد اثری
مبتدی
- شمولیت
- جون 01، 2017
- پیغامات
- 61
- ری ایکشن اسکور
- 9
- پوائنٹ
- 20
مینڈکی کا زکام اور جادو کی حقیقت
تحریر : ابوالوفا محمدحماد اثری
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرجادو کی روایت بخاری سمیت ساری حدیث کی کتابوں میں آئی ہے اور راوی سارے ثقہ ہیں ،روایت و درایت دونوں لحاظ سے اس پر کوئی قدغن نہیں،مگرکچھ لوگ اس پر بے تکی سی تک بندیاں کر کے'' سپر مین''بننے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ایک تھے ہشام بن عروہ بن زبیر رحمہ اللہ جو عروہ بن زبیر تابعی رحمہ اللہ کے بیٹے تھے،وہ اس حدیث کے راوی اورثقہ و متقن امام تھے،جن کوبہت سارے ائمہ حدیث مثلا ابو حاتم رازی1(م:٢٧٧ھ)، احمد بن صالح عجلی2(م:٢٦١ھ)،محمد بن سعد3(م:٢٣٠)،یعقوب بن شیبہ4(م:٢٦٢ھ) وغیرہ نے امام ،ثقۃ، حجۃ، اور ثبت قرار دے رکھا تھااور ثقاہت کی یہ اتھارٹی آخر عمر تک ان کے پاس رہی ۔چھٹی صدی ہجری تک کسی کو ان کی بیان کردہ کسی روایت میں کوئی شک نہ گزرا۔
حافظے کی خرابی کی بحث:
پھر یوں ہوا کہ ساتویں صدی میں امام ابوالحسن قطان (م:٦٢٨ھ) کی کتاب میں غلطی سے لکھ دیا گیا کہ ان کا حافظہ خراب ہو گیا تھا 5۔مگرحافظ ذھبی(٦٧٣۔٧٤٨ھ)جیسے ناقد رجال اور مؤرخِ اسلام نے صاف لفظوں میں بتایاکہ' 'ولا عبرۃ'' 6 ابن قطان کو غلطی لگی ہے،لہٰذا ان کی اس بات کا کوئی اعتبار نہیں،نیز فیصلہ کن بات یوں فرمائی کہ''وھشام لم یختلط قط، فھذا امر مقطوع بہ''7ہشام کا حافظہ کبھی خراب نہیں ہوا اور یہ قطعی وحتمی بات ہے۔ خاتمۃ المحدثین،حافظ ابن حجر نے لکھا لم نر لہ فی ذلک سلفا8ابن قطان سے پہلے یہ بات کسی نے نہیں کی۔
یعنی ہشام بن عروہ کی وفات (١٤٥ھ)سے لے کر ساتویں صدی ہجری تک کسی کو ہشام بن عروہ کے حافظے پر کوئی اعتراض نہ ہوا۔نہ ان کے کسی ہم عصر نے ان کے متعلق کوئی ایسی بات کہی،نہ ساتویں صدی تک کے ماہرین رجال محدثین ومؤرخین میں سے کسی نے کوئی ایسا اشارہ کیا۔واضح بات ہے کہ ابن قطان کو اس بارے میں غلطی لگ گئی۔
امام عقیلی کی طرف جھوٹی نسبت:
قاری صاحب نے حافظ عقیلی کی طرف منسوب کیا ہے کہ انہوں نے کہا ١٣٢ھ میں ہشام سٹھیا گئے تھے،یہ وہ قول ہے جس پر اعتراض کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ہمیں یہ قول بھی کہیں نہیں ملاقاری صاحب پہ لازم ہے کہ اس کا حوالہ پیش کریں ورنہ اللہ کی عدالت میں جواب دہی کے لئے تیار ہو ں۔
حافظے کی خرابی اور صحیح بخاری ومسلم:
اگر بالفرض تھوڑی دیر کے لیے ہشام کے حافظے کی خرابی کو مان بھی لیا جائے،تب بھی امام بخاری و مسلم نے یہ اعزاز پایا ہے کہ جن راویوں کا حافظہ آخری عمر میں خراب ہو گیا تھا،اگر ان سے کوئی روایت صحیح بخاری ومسلم میں آئی ہے، تو فن حدیث کے ائمہ کے نزدیک وہ ان کے حافظے کی خرابی سے پہلے کی ہے۔
یعنی اول تو یہ بات ثابت ہی نہیں اور اگر ثابت ہو بھی جائے تو صحیح بخاری مسلم کی بیان کردہ احادیث میں مضر نہیں ،تو ایسے میں ایک حقیقت پسند طبیعت کو مجال انکار کس طرح ہو سکتا ہے؟مگر برا ہو خود ساختہ ''علاموں'' اور'' محققین'' کا جو ایک غلطی پر مبنی قول کو لے اڑے اوراس کے ساتھ امام مالک سے منسوب ایک غیر ثابت قول 9کو ملا کر بات کا بتنگڑبنا کر انکار حدیث کی پھکی بیچنے لگے۔ایک فیس بکی لکھاری،قاری حنیف ڈار صاحب نے بھی وہ پھکی خریدی اور آگے بیچنے لگے۔
مدینہ وکوفہ کا معمہ :
ان ''محققین'' کے خوشہ چیں قاری حنیف ڈارنے یہ شور بھی اٹھایاکہ یہ حدیث ہشام نے اپنے مدنی شاگردوں کو بیان نہیں کی،بل کہ کوفہ جا کر روایت کی جب وہ حافظے کی خرابی کا شکار ہو چکے تھے ،لہٰذا یہ حدیث سندا صحیح نہ رہی۔ہم ڈار صاحب کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ حضور! صرف صحیح بخاری ہی آنکھوں سے تعصب کی پٹی ہٹا کر پڑھ لیتے تو معلوم ہو جاتاکہ یہ روایت مدنی شاگروں نے بھی ہشام بن عروہ سے روایت کر رکھی ہے۔
انس بن عیاض (بخاری:٦٣٩١)اورعبدالرحمن بن ابی الزناد(بخاری:٥٧٦٣)دونوں مدنی ہیں اور اس روایت کو ہشام بن عروہ سے بیان کرتے ہیں۔اس سے معلوم ہو گیا کہ ڈار صاحب کے قاعدہ سے بھی یہ حدیث صحیح ہو چکی ہے،کیوں کہ انہیں ہشام کے حافظے پر اعتراض کوفہ جانے کے بعد ہے، پہلے نہیں۔کاش کہ منکرین حدیث کو حدیث پڑھنے کی بھی توفیق ہوتی!
ہشام کا تفرد:
ایک اعتراض یہ بھی داغا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو والی حدیث بیان کرنے میں ہشام بن عروہ متفرد ہیں،یعنی دنیا میں صرف اور صرف ہشام بن عروہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔
یاد رہے کہ ثقہ کا تفرد ائمہ محدثین کے ہاں مضر نہیں،پھر ڈار صاحب کا تفرد کو ٹھکرانے کا بہانہ ہشام کے حافظے کی خرابی تھا،جو کہ سراسر غلط ثابت ہو چکا ہے۔
قارئین کرام حیران ہوں گے کہ اس روایت کو بیان کرنے میں سرے سے ہشام منفرد ہے ہی نہیں۔ عبدالملک بن جریج جو ہشام بن عروہ اورعبداللہ بن عروہ دونوں کے شاگرد ہیں وہ فرماتے ہیں : ''حدثنی آل عروہ'' مجھے عروہ کی اولاد نے بیان کیا، یعنی ہشام بن عروہ اور عبداللہ بن عروہ دونوں اس حدیث کو بیان کر رہے ہیں۔دیکھئے(بخاری:٥٧٦٥)۔ اب ڈار صاحب بتائیں کہ ان کے پاس کیا بہانہ بچا ہے؟
امام مالک پر بہتان!
قاری صاحب نے لکھا ہے کہ ''امام مالک نے کہا ہشام کی عراقی روایات سے بو آتی ہے''یہ بات اسماء الرجال کی تمام متداول کتب دیکھنے کے باوجود ہمیں نہیں ملی،قاری صاحب پہ لازم ہے کہ اس کا حوالہ پیش کریں ورنہ کذابین کی فہرست میں شامل ہونے کو تیار ہو جائیں۔دوسری بات یہ ہے کہ ہم اس روایت کو مدنی ثابت کر چکے ہیں تو امام مالک کا یہ قول ثابت ہو بھی جائے تو قاری صاحب کے فائدے کا نہیں۔
عقل دشمنی کے چند نمونے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہونے والی صحیح حدیث پر فنی اعتراضات کا جواب ہم محدثین کرام کے اصولوں کی روشنی میں دے چکے ہیں۔یہ اعتراضات پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔خود منکرین حدیث کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تئیں علمی اعتراضات کر کے زیادہ دیر عوام کو بے وقوف نہیں بنا سکتے،کیوں کہ کسی دن حدیث کے کسی طالب علم کی نظر پڑے گی تو یہ تار تار ہو جائیں گے،اس لیے وہ جھوٹے موٹے فنی اعتراضات کے ساتھ ساتھ کچھ ''عقلی''گل فشانیاں بھی کرتے ہیں۔یاد رہے کہ وحی کو عقل سقیم پر نہیں پرکھا جا سکتا۔اگر یہی معیار بنا لیا جائے تو پھر بے عقلوں کو نہ آپ قرآن منوا سکتے ہیں،نہ کوئی بھی حدیث۔اس لیے محدثین کے قائم کردہ اصولوں کے مطابق سند صحیح ہو جانے کے بعد حدیث کا کسی بے عقل کی عقل میں نہ آنا معیار نہیں بن سکتا۔
ویسے تو اس حدیث پر کیے جانے والے عقلی اعتراضات بھی معتزلہ کا چبایا ہوا نوالہ اور محدثین کے پاؤں تلے روندا ہوا کچرا ہیں،مگر پھر بھی ان کے جواب اس لئے دیئے جا رہے ہیں کہ کوئی معاند خوش فہمی میں نہ رہے کہ ہماری باتوں کا جواب نہیں دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ عوام الناس فتنہ انکار حدیث کی حقیقت سے آگاہ ہو جائیں۔
اعتراض1:
'' نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرجادو ہوا چھ ماہ رہا بعض روایات میں ایک سال رہا اور کیفیت یہ بیان کی گئی ہے کہ کان یدور ویدور ولایدری ما اصابہ ومابہ آپ چکر پر چکر کاٹتے مگر آپ کو سمجھ نہ لگتی کہ آپ کو کیا ہوا آپ بیوی کے پاس گئے نہیں ہوتے تو لگتا کہ گئے ہیں' اگر ایسا ہی تھا توسب بیویاں یہ حدیث بیان کرتیں صرف سیدہ نے کیوں کیا؟ یہ بات تمام صحابہ میں مشہور ہو جانا چاہئے تھی حضرت عائشہ نے ذکر بھی کیا تو صرف ایک بندے سے وہ بھی ستر سال تک اپنے سینے سے لگائے رکھے پھر بیان کرے۔
جواب:
ڈار صاحب نے جھوٹ بولنے کی خصوصی تربیت لے رکھی ہے۔یہ قول ''کیفیت یہ بیان کی گئی ہے کہ کان یدور ویدور ولایدری ما اصابہ ومابہ آپ چکر پر چکر کاٹتے مگر آپ کو سمجھ نہ لگتی کہ آپ کو کیا ہوا۔''کس کتاب سے لیا ہے،ہمیں بھی بتایا جائے یا آپ کو علم لدنی سے کچھ حصہ ملا ہے؟ یہ کیفیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہ طاری نہیں ہوئی،بل کہ آپ زبردستی طاری کرنے پہ تلے بیٹھے ہیں۔جادو کے ایام میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی جو کیفیت احادیث صحیحہ کا دراسہ کرنے سے معلوم ہوتی ہے ،وہ یوں ہے:
1
نبی صلی الہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر کچھ دنوں کے لیے صرف اتنا ہوا تھا کہ آپ کی طبیعت میں پریشانی سی تھی جسے کسی اور پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔اس دوران یہ خیال سا گزرتا تھا کہ جانے فلاں کام کر لیا یا نہیں؟۔یخیل الیہ انہ صنع شیأا،. 11
2
سنن کبری بیہقی کے الفاظ پہ غور کریں۔
پیغمبر پہلے دعا مانگتے ہیں پھر سیدہ سے کہتے ہیں یا عائشہ! مجھے اللہ نے میرے مسئلے کا حل بتا دیا ہے ،تو اماں عرض کرتی ہیں وما ذاک ؟ آقا وہ مسئلہ کیا تھا۔''12
اسی طرح بخاری میں ہے:
اماں فرماتی ہیں کہ آقا میرے پاس موجود تھے اور دعا پہ دعا کئے جاتے تھے ولکنہ دعا ودعا۔۔۔ پھر فرمانے لگے کہ عائشہ جانتی ہو؟اللہ نے میرے مسئلے کا حل بتا دیا ہے
یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے پہلے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو بھی نہیں معلوم تھاکہ آپ کو مسئلہ کیا پیش آیا ہے۔بل کہ اس وقت معلوم ہوا جب آپ نے بتایا ۔یعنی اتنا زیادہ عرصہ یہ مسئلہ لاحق نہیں رہا۔
چھ ماہ یا سال تک جادو کا رہنا بسند صحیح ثابت نہیں ہو سکا،مسند احمد(٢٤٣٤٧)معمر عن ہشام بن عروہ کے طریق سے مروی ہے اور معمر کی روایت ہشام سے ضعیف ہوتی ہے،جیسا کہ حافظ ذھبی و ابن حجرنے بواسطہ ابن ابی خیثمہ یحییٰ بن معین سے نقل کیا ہے۔
تو صرف اتنی سی بات کہ آقاکو کچھ پریشان کن خیالات آئے،لوگوں میں مشہور کر دی جاتی؟آقا باہر آکر اعلان کرتے کہ لوگو!مجھے ایسے خیالات آ رہےہیں؟ جو نبی مصیبتوں میں مسکرانے کا عادی ہو ،جو گالیاں سن کر دعائیں دینے کا ہنر جانتا ہو،جو حریص جان کا چارہ گر ہو ،جو قاتل کو معاف کرنے کا ظرف رکھتا ہو، ایسے چھوٹے سے معاملے پر شور اٹھادے گا ،جزع فزع کرے گا؟
ڈار صاحب!آپ کا قصور نہیں۔ آپ نے ماحول ایسا پایا ہے ،آپ کی زندگی فیس بک پہ گزری ہے،آپ کا پالا ان لوگوں سے پڑا ہے جو کپڑے چینج کرتے ہیں تو سیلفی اپ لوڈ کرتے ہیں،جن کا ذرا سا درد قوم کے لئے درد سر بن جاتا ہے،مگر معاف کیجئے میرا نبی ایسا نہیں تھا۔
تسلیم شد! کہ تاڑنے والے قیامت کی نگاہ رکھتے ہیں، اماں رضی اللہ عنھا نے آقا کی تکلیف کو محسوس کر لیا ہو گا،مگر کیا عائشہ رضی اللہ عنھا اسی وقت یہ بات باتونی عورتوں کی طرح پورے مدینے میں گھما دیتیں؟
اعتراض2:
''صاحب احکام القرآن ابوبکر جصاص اور امام ابو حنیفہ نے اس کو مسترد کیا ہے۔''
جواب :
جہاں تک تعلق ہے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اس کو رد کرنے کاتو اس پر حوالہ درکار ہے،جو آپ تا قیامت پیش نہیں کرسکتے۔صحیح سند والی اور فن حدیث پر ہر طرح سے پوری اترنے والی احادیث کو تو کسی راوی کے حافظے کی خرابی کے بہانے رد کرتے ہیں،لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے بارے میں یہ بھی سوچتے کہ اس کا کوئی راوی دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوا؟
رہے جصاص صاحب تو وہ ایک معتزلی ہیں جن کا مسلک ہی انکار حدیث پر قائم ہے۔یہ حدیثیں محدثین کی ہیں وہ ان کو قبول کرتے ہیں،معاندین اور دشمنان حدیث محدثین اور ان کی حدیثوں پر وار کرتے ہیںکبھی تو ان حدیثوں کو قرآن کے خلاف گردانتے ہیںکبھی اپنی عقل نارسا سے ان کا رد کر دیتے ہیں کبھی اہل سنت کے خلاف عصمت انبیاء کا معیار وضع کر لیتے ہیں،یوں احادیث کو اپنے باطل اصول و عقائد پر قربان کر دیتے ہیں، ہر دور میں یہ لوگ جھوٹے سہاروں سے احادیث میں تشکیک پیدا کر کے عوام الناس کو ورغلانے کی جدوجہد کرتے رہے ہیں مگر اس مذموم کوشش میںہمیشہ ناکام ونامراد رہے ہیںاور آئندہ بھی رہیں گے ان شاء اللہ ۔اب ایک معتزلی کا سہارا لے کر حدیث سحر کو جھٹلانے اور احناف کو اپنا ہم خیال باور کروا کے ان کی ہمدردیاں وصول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ،حالاں کہ محققین احناف اس معاملہ میں عام اہل سنت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
مشہور شارحِ حدیث،ملا علی قاری حنفی(م:١٠١٤)حافظ نووی سے نقل کرتے ہیں:
قد أنکر بعض المبتدعۃ ہذا الحدیث '' بعض بدعتیوں نے اس حدیث کا انکار کیا ہے''(14)
مشہور حنفی محقق،علامہ،عینی حنفی کی سنئے اس بارہ میں کیا فرماتے ہیں:
قد اعْترض بعض الْمُلْحِدِینَ علی حَدِیث عَائِشَۃ، وَقَالُوا :کَیفَ یجوز السحر علی رَسُول اللہ، صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم، وَالسحر کفر وَعمل من أَعمال الشَّیَاطِین، فَکیف یصل ضَرَرہ إِلَی النَّبِی صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم مَعَ حیاطۃ اللہ لَہُ وتسدیدہ إِیَّاہ بملائکتہ، وصون الْوَحْی عَن الشَّیَاطِین؟ وَأجِیب بِأَن ہَذَا اعْتِرَاض فَاسد وعناد لِلْقُرْآنِ، لِأَن اللہ تَعَالَی قَالَ لرَسُولہ (قل أعوذ بِرَبّ الفلق)(الفلق إِلَی قَوْلہ فِی العقد، والنفاثات السواحر فِی العقد، کَمَا ینفث الراقی فِی الرّقیۃ حِین سحر، وَلَیْسَ فِی جَوَاز ذَلِک عَلَیْہِ مَا یدل علی أَن ذَلِک یلْزمہ أبدا أَو یدْخل عَلَیْہِ دَاخِلَۃ فِی شَیْء من ذَاتہ أَو شَرِیعَتہ، وَإِنَّمَا کَانَ لَہُ من ضَرَر السحر مَا ینَال الْمَرِیض من ضَرَر الْحمی والبرسام من ضعف الْکَلَام وَسُوء التخیل، ثمَّ زَالَ ذَلِک عَنہُ وأبطل اللہ کید السحر، وَقد قَامَ الْإِجْمَاع علی عصمتہ فِی الرسَالَۃ
''بعض بے دین لوگوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی جادو والی حدیث کا انکار کیا ہے،وہ کہتے ہیں جادو کس طرح جائز ہو سکتا ہے ،جادو کفر اور شیطانی عمل ہے تو ایک شیطانی عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان کیسے دے سکتا ہے؟حالاں کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پناہ میں لے رکھا ہے،فرشتے آپ کی نگرانی پر معمور رہتے ہیں اور وحی کا شیطان سے محفوظ رہنا بھی ضروری ہے؟
تو جوابا گزارش ہے کہ یہ فاسد اعتراض قرآن دشمنی پر مبنی ہے،کیوں کہ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ'' آپ کہہ دیجئے میں مخلوق کے رب کی پناہ پکڑتا ہوں اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے،''یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی جادو گر پھونکتا ہے،اور ہاں جادو کے اثبات سے یہ بات ہر گز ثابت نہیں ہوتی کہ جادوآپ سے ہمیشہ چمٹا رہے یا آپ کی ذات و شریعت پر اثر انداز ہو بل کہ اس کی کیفیت ایک بخار جیسے مرض کی سی ہے،جیسے کلام میں کمزوری اور قوت تخیل کا ذرا کمزور ہوجانا ،رہی رسالت تو اس کے محفوظ رہنے پر اجماع ہو چکا ہے۔'' 15
ڈار صاحب!کیسا لگا آپ کو؟ اس دنیا میں کوئی ایک اہل سنت ایسا نہیں جو اس حدیث کا انکار کرتا ہو ،رہے معتزلہ منکرین حدیث تو ان کی کوئی حیثیت نہیں۔
اعتراض:
''وہ جو سورہ جن میں فرماتا ہے رسول کے آگے پیچھے نگران ہوتے ہیں، جو اس کی حفاظت کرتے ہیں''پتہ نہیں وہ نگران جادو کے وقت پر لنچ بریک پر گئے ہوئے تھے۔''
جواب:
جہالت کا مظاہرہ کوئی آپ سے سیکھے۔
ارے صاحب!جادو نے آپ کے ایمان پر ڈاکہ ڈال لیا تھا؟یا آپ جادو کی وجہ سے خلاف شریعت کام کرنے لگے تھے؟ایسا بالکل نہیں تھا،صرف ظاہری تکلیف تھی ظاہری تکلیف کہاں نہیں پہنچی آپ کو، بل کہ آپ کی زندگی ہی تکلیفوں اور پریشانیوں سے عبارت ہے،طائف کا میدان ،بدر کا میدان زہر دیا جانا تو کیا اس وقت نگران لنچ پر گئے تھے،نہیں بل کہ تحریرلکھتے وقت آپ کی عقل فیس بک کے لائک لینے پہنچی ہوئی تھی۔
اعتراض ـ:
''روایت کے متن میں اتنا اضطراب ہے کہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ صحیح الدماغ آدمی کا کام ہے جتنے آدمی ان سے ملتے ہیں ،ہر ایک کو ایک نیا ایٹم پکڑا دیتے ہیں۔کسی میں تعویذ نکالا جاتا ہے اور گرہیں کھولی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
کبھی کہا جاتا ہے کہ نبی نے نکلوایا ہی نہیں تھا ،جب نکلوایا ہی نہیں تھا تو گرہوں والی کہانی خود بخود ختم ہو گئی۔''
جواب:
عرض ہے کہ بڑھئی کاکام بندر کرے تو الجھ جاتا ہے،شیر کی ڈیوٹی گدھے کے بس میں نہیں،جج کا منصب مراثی کی پہنچ سے دور ہے ،اسی طرح حدیث اہل حدیث کا میدان ہے، اسے ان کے پاس رہنے دیں اور کسی اہل حدیث کے سامنے زانوئے تلمذ طے کریں تا کہ آپ کو حدیث سمجھ آ سکے اجمال وتفصیل کو آپ اضطراب کا نام دیتے ہیں،کمال کرتے ہیں ۔
تفصیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خبر ہوئی کہ ذروان کے کنویں میں جادو کردہ کنگھی اور بال موجود ہیں،پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ کو ساتھ لیا اور کنویں پہ چلے گئے،وہاں جا کر جادو کو نکالا گیا کنویں کو بند کر دیا گیا۔پیغمبر واپس آئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے کنویں کا وصف بیان کیا تو ماں جی نے پوچھ لیا کہ آپ نے لوگوں میں اس تعویذ کو نشر کیوں نہیں کیا ، آپ نے فرمایا کہ میں اس شر کو لوگوں میں پھیلانا نہیں چاہتا تھا،اب بعض روایات میں صرف جادو نکالنے کا ذکر آیا اور وہاں لفظ استخراج (نکالنا)استعمال کیا گیااور بعض روایات میں واپسی پر سیدہ کے سوال کا ذکر آیا کہ آپ نے لوگوں میں پھیلایا کیوں نہیں؟وہاں بھی لفظ استخراج (پھیلانا)استعمال ہوا۔
اس سے عقل کے اندھوں نے سمجھا کہ شاید دونوں جگہ جادو نکالنے کا ذکر ہے ایک جگہ انکار ہے دوسری جگہ اقرار،حالاں کہ صحیح بخاری(٥٧٦٥،٦٠٦٣)میں صاف صراحت موجود ہے۔
''فَأَمَرَ بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأُخْرِجَ، قَالَتْ عَائِشَۃُ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ فَہَلَّا، تَعْنِی تَنَشَّرْتَ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَّا اللَّہُ فَقَدْ شَفَانِی، وَأَمَّا أَنَا فَأَکْرَہُ أَنْ أُثِیرَ عَلَی النَّاسِ شَرًّا''
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے نکالا گیا ،عائشہ کہتی ہیں میں نے عرض کیا کہ آپ نے اسے لوگوں میں پھیلایا کیوں نہیں ،تو فرمایا کہ مجھے تو اللہ نے شفا عطا کر دی تھی تو میں نے لوگوں میں اس شر کوپھیلانا مکروہ جانا۔''
سوال وجواب یہ صاف بتا رہا ہے کہ کنویں سے تو اسے نکالا گیا مگر شہر میں نہیں پھیلایا گیا،بلکہ عائشہ rکا مقولہ مسند احمد (٢٤٦٥٠)میں ان الفاظ سے مروی ہے،اخرجتہ للناس؟''لوگوں کے لئے نکالا اسے ؟ آگے پھر وہی لفظ ہیں اما انا فقد۔۔۔۔۔۔الخ
تو ثابت ہوا کہ جہاں انکار ہے اس سے مراد لوگوں میں پھیلانے کا انکار ہے نہ کہ کنویں سے نکالنے کا۔۔۔فافھم
معوذتین اور جادو:
ڈار صاحب نے اس عنوان کے تحت اعتراض کیا ہے کہ مکی سورتیں ہیں اور ان کو پڑھنے کا معمول نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنا رکھا تھا،اب اگر یہ ١٥ سال پڑھنے کے باوجود جادو سے نہیں بچا سکیں تو اب کیسے بچائیں گی؟
جواب:
اولا توان سورتوں کا مکی ہونا ہی محل نظر ہے کیوں کہ اس بارہ میں مفسرین کا اختلاف ہے،بعض ان کو مدنی کہتے ہیں ،بعض مکی ہمارے نزدیک مدنی والی بات راجح ہے لیکن اگر یہ بات تسلیم کر بھی لی تب بھی آپ کا اعتراض نہیں بنتا۔
ڈار صاحب قرآن کی کس آیت میں یہ ذکر ہے کہ معوذتین پڑھنے والے پر سرے سے جادو کا اثر ہی نہیں ہو سکتا یا کسی حدیث میںایسی کوئی بات ہو،ویسے موسی علیہ السلام نے آپ کے خیال میں کبھی تعوذ نہیں کیا ہو گا؟جو ان پر جادو کا اثر ہو گیا؟اگر آپ کہیں کہ وہ وقتی تھا اور یہاں چھ ماہ یا سال کی بات ہے تو اوپر ہم ثابت کر آئے ہیں کہ چھ ماہ یا سال والی بات اصول حدیث کی رو سے ثابت نہیں ہو سکی،جب مدت کا تعین ہی نہیں تو اس پر کھڑی کی گئی اعتراض کی عمارت خودبخود دھڑم سے نیچے آ جائے گی،پھر اس نقطہ پر بھی توجہ کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ کی بنیاد پر یہ دعا پڑھتے ہیں بسم اللہ الذی لایضر مع اسمہ شئی فی الارض ولا فی السماء تو آپ کے اصول کے مطابق سرے سے کوئی تکلیف پہنچنی ہی نہیں چاہئے کوئی بیماری آنی ہی نہیں چاہئے حالاں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیمار ہونا آپ کو بھی تسلیم ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے ہیں اللھم اھد قومی اللہ میری قوم کو ہدایت عطا فرما،اس کے باوجود ابو جہل وابولہب ایمان کی دولت سے محروم رہتے ہیں۔تو اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا جائے؟ ارے جناب معوذتین دعا ہیں اور دعا کبھی قبول کر لی جاتی ہے کبھی آخرت کے لئے ذخیرہ کر دی جاتی ہے۔اس چیزکو سمجھنے کے بعد بھی اگر آپ یہ اعتراض کریں تو آپ کا اللہ حافظ
اپنے دام میں صیاد:
قاری صاحب نے جادو کے انکار پر لمبی چوڑی عبارت آرائی کی ہے اور آخر میں تسلیم کر لیا کہ ''موسی علیہ السلام پر جادو ہونا ضروری تھا ۔۔۔۔۔۔الخ اور لکھا کہ
''اب بتائیے کہ موسی علیہ السلام اور اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو میں کیا مماثلت ہے؟وہاں تو مقابلہ ہو رہا تھا جادو گروں سے اور اللہ کا نبی جاد گروں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا تھا،پوری قوم کھڑی تھی ،رب کائنات قدم قدم اور لمحہ بلمحہ ہدایات دے رہا ہے جب کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کیس میں جو گزرتا ہے اکیلی جان پر گزرتا ہے ،بیوی گلہ کرتی ہے تشریف نہیں لائے فرماتے ہو کر گیا ہوں۔۔۔۔۔۔''
جواب:
جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے ،تنبیہاَعرض ہے کہ قاری صاحب نے حسب معمول ایک اور جھوٹ جڑ دیا'' بیوی گلہ کرتی ہے تشریف نہیں لائے، فرماتے ہو کر گیا ہوں''یہ بات پورے ذخیرہ حدیث میں کہیں دکھا دیں،جو شخص چھوٹی سی تحریر میں اتنے جھوٹ بولے عام گفتگو میں کیا کرتا ہو گا؟
بہر آئینہ موصوف نے ہمارا مقدمہ خود پیش کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا ہے کہ موسی علیہ السلام پر جادو ہو گیا تھا ،مگر اس جادو اور نبی پر ہونے والے جادو میں مماثلت نہیں،کیوں کہ موسی علیہ السلام جادو کے مقابلے کے لئے تیار کھڑے تھے،واہ صاحب !کتنے مزے کی بات کہی جب مقابلے کے لئے تیار نبی پر جادو اثر انداز ہو سکتا ہے تو جادو سے بے خبر نبی پر کیوں نہیں؟سنا ہے بے خبری کا وار اوچھا پڑتا ہے،بے خبری میں تو انسان بچاؤ کا سامان بھی نہیں کر سکتااور اگر خبر ہو جائے تو انسان بچاؤ کر سکتا ہے،تو جب نبی موسیٰ علیہ السلام خبر کے باوجود جادو کا شکار ہو جاتے ہیں،بل کہ خوف محسوس کرتے ہیں تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جن کو جادو کی خبر تک نہیں ان پر جادو ہونا کیوں کر بعید رہا؟ اس پر بھی غور کیجئے کہ موسی علیہ السلام پر جادو کی جو کیفیت قرآن میں بیان کی گئی یخیل الیہ من سحرھم انھا تسعیٰ،''ان کو خیال گزرا کہ یہ دوڑ رہی ہیں'' وہی کیفیت حدیث میں بیان ہوئی یخیل الیہ انہ صنع شیأا''خیال گزرتا کہ یہ کام کیا ''اب خیال گزرنا مشترک ہے تودونوں جگہ مان لینا چاہئے تھا، مگر آپ نے قرآن میں خیال گزرنے کا ذکر تسلیم کر لیا جب کہ حدیث میں خیال گزرنے کے ذکر کو قرآن ہی کے خلاف کہہ کر رد کرنے بیٹھ گئے ؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
باقی رہا آپ کایہ فرمانا کہ جادو کی وجہ سے اسلام داؤ پر لگ گیا تھا تو یہ وضاحت ہو چکی ہے کہ کسی شرعی مسئلے یا وحی پر اس کا بالکل اثر نہیں ہوا۔اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھولنے کو ہی دین اسلام پر قدغن قرار دیا جائے تو پھر آپ کی عقل کو سلام ہے۔
جادو کی وجہ سے بھول جانا اگر دین اسلام کا داؤ پر لگنا ہے تو یہ آپ کی خام خیالی ہے۔
ع پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
.............................................................................................
1 الجرح والتعدیل٩/٦٤وسندہ صحیح، 2تاریخ الثقات١٧٤٠،تاریخ بغداد١٤/٤١وسندہ صحیح،3الطبقات الکبری٧/٣٢١،4تاریخ بغداد١٤٤٠وسندہ صحیح،
5بیان الوھم والایہام الواقعین فی کتاب الاحکام٥/٥٠٤ح٢٧٢٦،6 6میزان الاعتدال٤/٣٠١،7س 7سیر اعلام النبلائ٦/٣٦،8 8تہذیب التہذیب١١/٥١
9 یہ قول تاریخ بغداد١٦/٥٦نص٧٣٣٥میں ان الفاظ سے مروی ہے''کان مالک لا یرضاہ،مالک اس سے راضی نہیں تھے،اسی طرح ان مالکا نقم علیہ حدیثہ لاھل العراق،مالک نے اہل عراق سے اس کی حدیث کو ناپسند کیا مگر اس کا راوی ابن خراش خود رافضی ضعیف ہے،دیکھئے (الکامل لابن عدی٤/١٦٤٩وسندہ صحیح وسوالات حمزہ السہمی للحاکم/٣٤١سندہ صحیح)10تہذیب الکمال ١٥/٢٩٧، 11صحیح بخاری ٦٣٩١، 12سنن کبری بیہقی :١٦٤٩٤سندہ صحیح13بخاری:٥٧٦٣
14مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ٩/٣٧٩٤ 15عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ١٥/٩٨،
تحریر : ابوالوفا محمدحماد اثری
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرجادو کی روایت بخاری سمیت ساری حدیث کی کتابوں میں آئی ہے اور راوی سارے ثقہ ہیں ،روایت و درایت دونوں لحاظ سے اس پر کوئی قدغن نہیں،مگرکچھ لوگ اس پر بے تکی سی تک بندیاں کر کے'' سپر مین''بننے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ایک تھے ہشام بن عروہ بن زبیر رحمہ اللہ جو عروہ بن زبیر تابعی رحمہ اللہ کے بیٹے تھے،وہ اس حدیث کے راوی اورثقہ و متقن امام تھے،جن کوبہت سارے ائمہ حدیث مثلا ابو حاتم رازی1(م:٢٧٧ھ)، احمد بن صالح عجلی2(م:٢٦١ھ)،محمد بن سعد3(م:٢٣٠)،یعقوب بن شیبہ4(م:٢٦٢ھ) وغیرہ نے امام ،ثقۃ، حجۃ، اور ثبت قرار دے رکھا تھااور ثقاہت کی یہ اتھارٹی آخر عمر تک ان کے پاس رہی ۔چھٹی صدی ہجری تک کسی کو ان کی بیان کردہ کسی روایت میں کوئی شک نہ گزرا۔
حافظے کی خرابی کی بحث:
پھر یوں ہوا کہ ساتویں صدی میں امام ابوالحسن قطان (م:٦٢٨ھ) کی کتاب میں غلطی سے لکھ دیا گیا کہ ان کا حافظہ خراب ہو گیا تھا 5۔مگرحافظ ذھبی(٦٧٣۔٧٤٨ھ)جیسے ناقد رجال اور مؤرخِ اسلام نے صاف لفظوں میں بتایاکہ' 'ولا عبرۃ'' 6 ابن قطان کو غلطی لگی ہے،لہٰذا ان کی اس بات کا کوئی اعتبار نہیں،نیز فیصلہ کن بات یوں فرمائی کہ''وھشام لم یختلط قط، فھذا امر مقطوع بہ''7ہشام کا حافظہ کبھی خراب نہیں ہوا اور یہ قطعی وحتمی بات ہے۔ خاتمۃ المحدثین،حافظ ابن حجر نے لکھا لم نر لہ فی ذلک سلفا8ابن قطان سے پہلے یہ بات کسی نے نہیں کی۔
یعنی ہشام بن عروہ کی وفات (١٤٥ھ)سے لے کر ساتویں صدی ہجری تک کسی کو ہشام بن عروہ کے حافظے پر کوئی اعتراض نہ ہوا۔نہ ان کے کسی ہم عصر نے ان کے متعلق کوئی ایسی بات کہی،نہ ساتویں صدی تک کے ماہرین رجال محدثین ومؤرخین میں سے کسی نے کوئی ایسا اشارہ کیا۔واضح بات ہے کہ ابن قطان کو اس بارے میں غلطی لگ گئی۔
امام عقیلی کی طرف جھوٹی نسبت:
قاری صاحب نے حافظ عقیلی کی طرف منسوب کیا ہے کہ انہوں نے کہا ١٣٢ھ میں ہشام سٹھیا گئے تھے،یہ وہ قول ہے جس پر اعتراض کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ہمیں یہ قول بھی کہیں نہیں ملاقاری صاحب پہ لازم ہے کہ اس کا حوالہ پیش کریں ورنہ اللہ کی عدالت میں جواب دہی کے لئے تیار ہو ں۔
حافظے کی خرابی اور صحیح بخاری ومسلم:
اگر بالفرض تھوڑی دیر کے لیے ہشام کے حافظے کی خرابی کو مان بھی لیا جائے،تب بھی امام بخاری و مسلم نے یہ اعزاز پایا ہے کہ جن راویوں کا حافظہ آخری عمر میں خراب ہو گیا تھا،اگر ان سے کوئی روایت صحیح بخاری ومسلم میں آئی ہے، تو فن حدیث کے ائمہ کے نزدیک وہ ان کے حافظے کی خرابی سے پہلے کی ہے۔
یعنی اول تو یہ بات ثابت ہی نہیں اور اگر ثابت ہو بھی جائے تو صحیح بخاری مسلم کی بیان کردہ احادیث میں مضر نہیں ،تو ایسے میں ایک حقیقت پسند طبیعت کو مجال انکار کس طرح ہو سکتا ہے؟مگر برا ہو خود ساختہ ''علاموں'' اور'' محققین'' کا جو ایک غلطی پر مبنی قول کو لے اڑے اوراس کے ساتھ امام مالک سے منسوب ایک غیر ثابت قول 9کو ملا کر بات کا بتنگڑبنا کر انکار حدیث کی پھکی بیچنے لگے۔ایک فیس بکی لکھاری،قاری حنیف ڈار صاحب نے بھی وہ پھکی خریدی اور آگے بیچنے لگے۔
مدینہ وکوفہ کا معمہ :
ان ''محققین'' کے خوشہ چیں قاری حنیف ڈارنے یہ شور بھی اٹھایاکہ یہ حدیث ہشام نے اپنے مدنی شاگردوں کو بیان نہیں کی،بل کہ کوفہ جا کر روایت کی جب وہ حافظے کی خرابی کا شکار ہو چکے تھے ،لہٰذا یہ حدیث سندا صحیح نہ رہی۔ہم ڈار صاحب کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ حضور! صرف صحیح بخاری ہی آنکھوں سے تعصب کی پٹی ہٹا کر پڑھ لیتے تو معلوم ہو جاتاکہ یہ روایت مدنی شاگروں نے بھی ہشام بن عروہ سے روایت کر رکھی ہے۔
انس بن عیاض (بخاری:٦٣٩١)اورعبدالرحمن بن ابی الزناد(بخاری:٥٧٦٣)دونوں مدنی ہیں اور اس روایت کو ہشام بن عروہ سے بیان کرتے ہیں۔اس سے معلوم ہو گیا کہ ڈار صاحب کے قاعدہ سے بھی یہ حدیث صحیح ہو چکی ہے،کیوں کہ انہیں ہشام کے حافظے پر اعتراض کوفہ جانے کے بعد ہے، پہلے نہیں۔کاش کہ منکرین حدیث کو حدیث پڑھنے کی بھی توفیق ہوتی!
ہشام کا تفرد:
ایک اعتراض یہ بھی داغا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو والی حدیث بیان کرنے میں ہشام بن عروہ متفرد ہیں،یعنی دنیا میں صرف اور صرف ہشام بن عروہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔
یاد رہے کہ ثقہ کا تفرد ائمہ محدثین کے ہاں مضر نہیں،پھر ڈار صاحب کا تفرد کو ٹھکرانے کا بہانہ ہشام کے حافظے کی خرابی تھا،جو کہ سراسر غلط ثابت ہو چکا ہے۔
قارئین کرام حیران ہوں گے کہ اس روایت کو بیان کرنے میں سرے سے ہشام منفرد ہے ہی نہیں۔ عبدالملک بن جریج جو ہشام بن عروہ اورعبداللہ بن عروہ دونوں کے شاگرد ہیں وہ فرماتے ہیں : ''حدثنی آل عروہ'' مجھے عروہ کی اولاد نے بیان کیا، یعنی ہشام بن عروہ اور عبداللہ بن عروہ دونوں اس حدیث کو بیان کر رہے ہیں۔دیکھئے(بخاری:٥٧٦٥)۔ اب ڈار صاحب بتائیں کہ ان کے پاس کیا بہانہ بچا ہے؟
امام مالک پر بہتان!
قاری صاحب نے لکھا ہے کہ ''امام مالک نے کہا ہشام کی عراقی روایات سے بو آتی ہے''یہ بات اسماء الرجال کی تمام متداول کتب دیکھنے کے باوجود ہمیں نہیں ملی،قاری صاحب پہ لازم ہے کہ اس کا حوالہ پیش کریں ورنہ کذابین کی فہرست میں شامل ہونے کو تیار ہو جائیں۔دوسری بات یہ ہے کہ ہم اس روایت کو مدنی ثابت کر چکے ہیں تو امام مالک کا یہ قول ثابت ہو بھی جائے تو قاری صاحب کے فائدے کا نہیں۔
عقل دشمنی کے چند نمونے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہونے والی صحیح حدیث پر فنی اعتراضات کا جواب ہم محدثین کرام کے اصولوں کی روشنی میں دے چکے ہیں۔یہ اعتراضات پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔خود منکرین حدیث کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تئیں علمی اعتراضات کر کے زیادہ دیر عوام کو بے وقوف نہیں بنا سکتے،کیوں کہ کسی دن حدیث کے کسی طالب علم کی نظر پڑے گی تو یہ تار تار ہو جائیں گے،اس لیے وہ جھوٹے موٹے فنی اعتراضات کے ساتھ ساتھ کچھ ''عقلی''گل فشانیاں بھی کرتے ہیں۔یاد رہے کہ وحی کو عقل سقیم پر نہیں پرکھا جا سکتا۔اگر یہی معیار بنا لیا جائے تو پھر بے عقلوں کو نہ آپ قرآن منوا سکتے ہیں،نہ کوئی بھی حدیث۔اس لیے محدثین کے قائم کردہ اصولوں کے مطابق سند صحیح ہو جانے کے بعد حدیث کا کسی بے عقل کی عقل میں نہ آنا معیار نہیں بن سکتا۔
ویسے تو اس حدیث پر کیے جانے والے عقلی اعتراضات بھی معتزلہ کا چبایا ہوا نوالہ اور محدثین کے پاؤں تلے روندا ہوا کچرا ہیں،مگر پھر بھی ان کے جواب اس لئے دیئے جا رہے ہیں کہ کوئی معاند خوش فہمی میں نہ رہے کہ ہماری باتوں کا جواب نہیں دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ عوام الناس فتنہ انکار حدیث کی حقیقت سے آگاہ ہو جائیں۔
اعتراض1:
'' نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرجادو ہوا چھ ماہ رہا بعض روایات میں ایک سال رہا اور کیفیت یہ بیان کی گئی ہے کہ کان یدور ویدور ولایدری ما اصابہ ومابہ آپ چکر پر چکر کاٹتے مگر آپ کو سمجھ نہ لگتی کہ آپ کو کیا ہوا آپ بیوی کے پاس گئے نہیں ہوتے تو لگتا کہ گئے ہیں' اگر ایسا ہی تھا توسب بیویاں یہ حدیث بیان کرتیں صرف سیدہ نے کیوں کیا؟ یہ بات تمام صحابہ میں مشہور ہو جانا چاہئے تھی حضرت عائشہ نے ذکر بھی کیا تو صرف ایک بندے سے وہ بھی ستر سال تک اپنے سینے سے لگائے رکھے پھر بیان کرے۔
جواب:
ڈار صاحب نے جھوٹ بولنے کی خصوصی تربیت لے رکھی ہے۔یہ قول ''کیفیت یہ بیان کی گئی ہے کہ کان یدور ویدور ولایدری ما اصابہ ومابہ آپ چکر پر چکر کاٹتے مگر آپ کو سمجھ نہ لگتی کہ آپ کو کیا ہوا۔''کس کتاب سے لیا ہے،ہمیں بھی بتایا جائے یا آپ کو علم لدنی سے کچھ حصہ ملا ہے؟ یہ کیفیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہ طاری نہیں ہوئی،بل کہ آپ زبردستی طاری کرنے پہ تلے بیٹھے ہیں۔جادو کے ایام میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی جو کیفیت احادیث صحیحہ کا دراسہ کرنے سے معلوم ہوتی ہے ،وہ یوں ہے:
1
نبی صلی الہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر کچھ دنوں کے لیے صرف اتنا ہوا تھا کہ آپ کی طبیعت میں پریشانی سی تھی جسے کسی اور پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔اس دوران یہ خیال سا گزرتا تھا کہ جانے فلاں کام کر لیا یا نہیں؟۔یخیل الیہ انہ صنع شیأا،. 11
2
سنن کبری بیہقی کے الفاظ پہ غور کریں۔
پیغمبر پہلے دعا مانگتے ہیں پھر سیدہ سے کہتے ہیں یا عائشہ! مجھے اللہ نے میرے مسئلے کا حل بتا دیا ہے ،تو اماں عرض کرتی ہیں وما ذاک ؟ آقا وہ مسئلہ کیا تھا۔''12
اسی طرح بخاری میں ہے:
اماں فرماتی ہیں کہ آقا میرے پاس موجود تھے اور دعا پہ دعا کئے جاتے تھے ولکنہ دعا ودعا۔۔۔ پھر فرمانے لگے کہ عائشہ جانتی ہو؟اللہ نے میرے مسئلے کا حل بتا دیا ہے
یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے پہلے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو بھی نہیں معلوم تھاکہ آپ کو مسئلہ کیا پیش آیا ہے۔بل کہ اس وقت معلوم ہوا جب آپ نے بتایا ۔یعنی اتنا زیادہ عرصہ یہ مسئلہ لاحق نہیں رہا۔
چھ ماہ یا سال تک جادو کا رہنا بسند صحیح ثابت نہیں ہو سکا،مسند احمد(٢٤٣٤٧)معمر عن ہشام بن عروہ کے طریق سے مروی ہے اور معمر کی روایت ہشام سے ضعیف ہوتی ہے،جیسا کہ حافظ ذھبی و ابن حجرنے بواسطہ ابن ابی خیثمہ یحییٰ بن معین سے نقل کیا ہے۔
تو صرف اتنی سی بات کہ آقاکو کچھ پریشان کن خیالات آئے،لوگوں میں مشہور کر دی جاتی؟آقا باہر آکر اعلان کرتے کہ لوگو!مجھے ایسے خیالات آ رہےہیں؟ جو نبی مصیبتوں میں مسکرانے کا عادی ہو ،جو گالیاں سن کر دعائیں دینے کا ہنر جانتا ہو،جو حریص جان کا چارہ گر ہو ،جو قاتل کو معاف کرنے کا ظرف رکھتا ہو، ایسے چھوٹے سے معاملے پر شور اٹھادے گا ،جزع فزع کرے گا؟
ڈار صاحب!آپ کا قصور نہیں۔ آپ نے ماحول ایسا پایا ہے ،آپ کی زندگی فیس بک پہ گزری ہے،آپ کا پالا ان لوگوں سے پڑا ہے جو کپڑے چینج کرتے ہیں تو سیلفی اپ لوڈ کرتے ہیں،جن کا ذرا سا درد قوم کے لئے درد سر بن جاتا ہے،مگر معاف کیجئے میرا نبی ایسا نہیں تھا۔
تسلیم شد! کہ تاڑنے والے قیامت کی نگاہ رکھتے ہیں، اماں رضی اللہ عنھا نے آقا کی تکلیف کو محسوس کر لیا ہو گا،مگر کیا عائشہ رضی اللہ عنھا اسی وقت یہ بات باتونی عورتوں کی طرح پورے مدینے میں گھما دیتیں؟
اعتراض2:
''صاحب احکام القرآن ابوبکر جصاص اور امام ابو حنیفہ نے اس کو مسترد کیا ہے۔''
جواب :
جہاں تک تعلق ہے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اس کو رد کرنے کاتو اس پر حوالہ درکار ہے،جو آپ تا قیامت پیش نہیں کرسکتے۔صحیح سند والی اور فن حدیث پر ہر طرح سے پوری اترنے والی احادیث کو تو کسی راوی کے حافظے کی خرابی کے بہانے رد کرتے ہیں،لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے بارے میں یہ بھی سوچتے کہ اس کا کوئی راوی دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوا؟
رہے جصاص صاحب تو وہ ایک معتزلی ہیں جن کا مسلک ہی انکار حدیث پر قائم ہے۔یہ حدیثیں محدثین کی ہیں وہ ان کو قبول کرتے ہیں،معاندین اور دشمنان حدیث محدثین اور ان کی حدیثوں پر وار کرتے ہیںکبھی تو ان حدیثوں کو قرآن کے خلاف گردانتے ہیںکبھی اپنی عقل نارسا سے ان کا رد کر دیتے ہیں کبھی اہل سنت کے خلاف عصمت انبیاء کا معیار وضع کر لیتے ہیں،یوں احادیث کو اپنے باطل اصول و عقائد پر قربان کر دیتے ہیں، ہر دور میں یہ لوگ جھوٹے سہاروں سے احادیث میں تشکیک پیدا کر کے عوام الناس کو ورغلانے کی جدوجہد کرتے رہے ہیں مگر اس مذموم کوشش میںہمیشہ ناکام ونامراد رہے ہیںاور آئندہ بھی رہیں گے ان شاء اللہ ۔اب ایک معتزلی کا سہارا لے کر حدیث سحر کو جھٹلانے اور احناف کو اپنا ہم خیال باور کروا کے ان کی ہمدردیاں وصول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ،حالاں کہ محققین احناف اس معاملہ میں عام اہل سنت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
مشہور شارحِ حدیث،ملا علی قاری حنفی(م:١٠١٤)حافظ نووی سے نقل کرتے ہیں:
قد أنکر بعض المبتدعۃ ہذا الحدیث '' بعض بدعتیوں نے اس حدیث کا انکار کیا ہے''(14)
مشہور حنفی محقق،علامہ،عینی حنفی کی سنئے اس بارہ میں کیا فرماتے ہیں:
قد اعْترض بعض الْمُلْحِدِینَ علی حَدِیث عَائِشَۃ، وَقَالُوا :کَیفَ یجوز السحر علی رَسُول اللہ، صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم، وَالسحر کفر وَعمل من أَعمال الشَّیَاطِین، فَکیف یصل ضَرَرہ إِلَی النَّبِی صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم مَعَ حیاطۃ اللہ لَہُ وتسدیدہ إِیَّاہ بملائکتہ، وصون الْوَحْی عَن الشَّیَاطِین؟ وَأجِیب بِأَن ہَذَا اعْتِرَاض فَاسد وعناد لِلْقُرْآنِ، لِأَن اللہ تَعَالَی قَالَ لرَسُولہ (قل أعوذ بِرَبّ الفلق)(الفلق إِلَی قَوْلہ فِی العقد، والنفاثات السواحر فِی العقد، کَمَا ینفث الراقی فِی الرّقیۃ حِین سحر، وَلَیْسَ فِی جَوَاز ذَلِک عَلَیْہِ مَا یدل علی أَن ذَلِک یلْزمہ أبدا أَو یدْخل عَلَیْہِ دَاخِلَۃ فِی شَیْء من ذَاتہ أَو شَرِیعَتہ، وَإِنَّمَا کَانَ لَہُ من ضَرَر السحر مَا ینَال الْمَرِیض من ضَرَر الْحمی والبرسام من ضعف الْکَلَام وَسُوء التخیل، ثمَّ زَالَ ذَلِک عَنہُ وأبطل اللہ کید السحر، وَقد قَامَ الْإِجْمَاع علی عصمتہ فِی الرسَالَۃ
''بعض بے دین لوگوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی جادو والی حدیث کا انکار کیا ہے،وہ کہتے ہیں جادو کس طرح جائز ہو سکتا ہے ،جادو کفر اور شیطانی عمل ہے تو ایک شیطانی عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان کیسے دے سکتا ہے؟حالاں کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پناہ میں لے رکھا ہے،فرشتے آپ کی نگرانی پر معمور رہتے ہیں اور وحی کا شیطان سے محفوظ رہنا بھی ضروری ہے؟
تو جوابا گزارش ہے کہ یہ فاسد اعتراض قرآن دشمنی پر مبنی ہے،کیوں کہ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ'' آپ کہہ دیجئے میں مخلوق کے رب کی پناہ پکڑتا ہوں اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے،''یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی جادو گر پھونکتا ہے،اور ہاں جادو کے اثبات سے یہ بات ہر گز ثابت نہیں ہوتی کہ جادوآپ سے ہمیشہ چمٹا رہے یا آپ کی ذات و شریعت پر اثر انداز ہو بل کہ اس کی کیفیت ایک بخار جیسے مرض کی سی ہے،جیسے کلام میں کمزوری اور قوت تخیل کا ذرا کمزور ہوجانا ،رہی رسالت تو اس کے محفوظ رہنے پر اجماع ہو چکا ہے۔'' 15
ڈار صاحب!کیسا لگا آپ کو؟ اس دنیا میں کوئی ایک اہل سنت ایسا نہیں جو اس حدیث کا انکار کرتا ہو ،رہے معتزلہ منکرین حدیث تو ان کی کوئی حیثیت نہیں۔
اعتراض:
''وہ جو سورہ جن میں فرماتا ہے رسول کے آگے پیچھے نگران ہوتے ہیں، جو اس کی حفاظت کرتے ہیں''پتہ نہیں وہ نگران جادو کے وقت پر لنچ بریک پر گئے ہوئے تھے۔''
جواب:
جہالت کا مظاہرہ کوئی آپ سے سیکھے۔
ارے صاحب!جادو نے آپ کے ایمان پر ڈاکہ ڈال لیا تھا؟یا آپ جادو کی وجہ سے خلاف شریعت کام کرنے لگے تھے؟ایسا بالکل نہیں تھا،صرف ظاہری تکلیف تھی ظاہری تکلیف کہاں نہیں پہنچی آپ کو، بل کہ آپ کی زندگی ہی تکلیفوں اور پریشانیوں سے عبارت ہے،طائف کا میدان ،بدر کا میدان زہر دیا جانا تو کیا اس وقت نگران لنچ پر گئے تھے،نہیں بل کہ تحریرلکھتے وقت آپ کی عقل فیس بک کے لائک لینے پہنچی ہوئی تھی۔
اعتراض ـ:
''روایت کے متن میں اتنا اضطراب ہے کہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ صحیح الدماغ آدمی کا کام ہے جتنے آدمی ان سے ملتے ہیں ،ہر ایک کو ایک نیا ایٹم پکڑا دیتے ہیں۔کسی میں تعویذ نکالا جاتا ہے اور گرہیں کھولی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
کبھی کہا جاتا ہے کہ نبی نے نکلوایا ہی نہیں تھا ،جب نکلوایا ہی نہیں تھا تو گرہوں والی کہانی خود بخود ختم ہو گئی۔''
جواب:
عرض ہے کہ بڑھئی کاکام بندر کرے تو الجھ جاتا ہے،شیر کی ڈیوٹی گدھے کے بس میں نہیں،جج کا منصب مراثی کی پہنچ سے دور ہے ،اسی طرح حدیث اہل حدیث کا میدان ہے، اسے ان کے پاس رہنے دیں اور کسی اہل حدیث کے سامنے زانوئے تلمذ طے کریں تا کہ آپ کو حدیث سمجھ آ سکے اجمال وتفصیل کو آپ اضطراب کا نام دیتے ہیں،کمال کرتے ہیں ۔
تفصیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خبر ہوئی کہ ذروان کے کنویں میں جادو کردہ کنگھی اور بال موجود ہیں،پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ کو ساتھ لیا اور کنویں پہ چلے گئے،وہاں جا کر جادو کو نکالا گیا کنویں کو بند کر دیا گیا۔پیغمبر واپس آئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے کنویں کا وصف بیان کیا تو ماں جی نے پوچھ لیا کہ آپ نے لوگوں میں اس تعویذ کو نشر کیوں نہیں کیا ، آپ نے فرمایا کہ میں اس شر کو لوگوں میں پھیلانا نہیں چاہتا تھا،اب بعض روایات میں صرف جادو نکالنے کا ذکر آیا اور وہاں لفظ استخراج (نکالنا)استعمال کیا گیااور بعض روایات میں واپسی پر سیدہ کے سوال کا ذکر آیا کہ آپ نے لوگوں میں پھیلایا کیوں نہیں؟وہاں بھی لفظ استخراج (پھیلانا)استعمال ہوا۔
اس سے عقل کے اندھوں نے سمجھا کہ شاید دونوں جگہ جادو نکالنے کا ذکر ہے ایک جگہ انکار ہے دوسری جگہ اقرار،حالاں کہ صحیح بخاری(٥٧٦٥،٦٠٦٣)میں صاف صراحت موجود ہے۔
''فَأَمَرَ بِہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأُخْرِجَ، قَالَتْ عَائِشَۃُ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ فَہَلَّا، تَعْنِی تَنَشَّرْتَ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَّا اللَّہُ فَقَدْ شَفَانِی، وَأَمَّا أَنَا فَأَکْرَہُ أَنْ أُثِیرَ عَلَی النَّاسِ شَرًّا''
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے نکالا گیا ،عائشہ کہتی ہیں میں نے عرض کیا کہ آپ نے اسے لوگوں میں پھیلایا کیوں نہیں ،تو فرمایا کہ مجھے تو اللہ نے شفا عطا کر دی تھی تو میں نے لوگوں میں اس شر کوپھیلانا مکروہ جانا۔''
سوال وجواب یہ صاف بتا رہا ہے کہ کنویں سے تو اسے نکالا گیا مگر شہر میں نہیں پھیلایا گیا،بلکہ عائشہ rکا مقولہ مسند احمد (٢٤٦٥٠)میں ان الفاظ سے مروی ہے،اخرجتہ للناس؟''لوگوں کے لئے نکالا اسے ؟ آگے پھر وہی لفظ ہیں اما انا فقد۔۔۔۔۔۔الخ
تو ثابت ہوا کہ جہاں انکار ہے اس سے مراد لوگوں میں پھیلانے کا انکار ہے نہ کہ کنویں سے نکالنے کا۔۔۔فافھم
معوذتین اور جادو:
ڈار صاحب نے اس عنوان کے تحت اعتراض کیا ہے کہ مکی سورتیں ہیں اور ان کو پڑھنے کا معمول نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنا رکھا تھا،اب اگر یہ ١٥ سال پڑھنے کے باوجود جادو سے نہیں بچا سکیں تو اب کیسے بچائیں گی؟
جواب:
اولا توان سورتوں کا مکی ہونا ہی محل نظر ہے کیوں کہ اس بارہ میں مفسرین کا اختلاف ہے،بعض ان کو مدنی کہتے ہیں ،بعض مکی ہمارے نزدیک مدنی والی بات راجح ہے لیکن اگر یہ بات تسلیم کر بھی لی تب بھی آپ کا اعتراض نہیں بنتا۔
ڈار صاحب قرآن کی کس آیت میں یہ ذکر ہے کہ معوذتین پڑھنے والے پر سرے سے جادو کا اثر ہی نہیں ہو سکتا یا کسی حدیث میںایسی کوئی بات ہو،ویسے موسی علیہ السلام نے آپ کے خیال میں کبھی تعوذ نہیں کیا ہو گا؟جو ان پر جادو کا اثر ہو گیا؟اگر آپ کہیں کہ وہ وقتی تھا اور یہاں چھ ماہ یا سال کی بات ہے تو اوپر ہم ثابت کر آئے ہیں کہ چھ ماہ یا سال والی بات اصول حدیث کی رو سے ثابت نہیں ہو سکی،جب مدت کا تعین ہی نہیں تو اس پر کھڑی کی گئی اعتراض کی عمارت خودبخود دھڑم سے نیچے آ جائے گی،پھر اس نقطہ پر بھی توجہ کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ کی بنیاد پر یہ دعا پڑھتے ہیں بسم اللہ الذی لایضر مع اسمہ شئی فی الارض ولا فی السماء تو آپ کے اصول کے مطابق سرے سے کوئی تکلیف پہنچنی ہی نہیں چاہئے کوئی بیماری آنی ہی نہیں چاہئے حالاں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیمار ہونا آپ کو بھی تسلیم ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے ہیں اللھم اھد قومی اللہ میری قوم کو ہدایت عطا فرما،اس کے باوجود ابو جہل وابولہب ایمان کی دولت سے محروم رہتے ہیں۔تو اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا جائے؟ ارے جناب معوذتین دعا ہیں اور دعا کبھی قبول کر لی جاتی ہے کبھی آخرت کے لئے ذخیرہ کر دی جاتی ہے۔اس چیزکو سمجھنے کے بعد بھی اگر آپ یہ اعتراض کریں تو آپ کا اللہ حافظ
اپنے دام میں صیاد:
قاری صاحب نے جادو کے انکار پر لمبی چوڑی عبارت آرائی کی ہے اور آخر میں تسلیم کر لیا کہ ''موسی علیہ السلام پر جادو ہونا ضروری تھا ۔۔۔۔۔۔الخ اور لکھا کہ
''اب بتائیے کہ موسی علیہ السلام اور اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو میں کیا مماثلت ہے؟وہاں تو مقابلہ ہو رہا تھا جادو گروں سے اور اللہ کا نبی جاد گروں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا تھا،پوری قوم کھڑی تھی ،رب کائنات قدم قدم اور لمحہ بلمحہ ہدایات دے رہا ہے جب کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کیس میں جو گزرتا ہے اکیلی جان پر گزرتا ہے ،بیوی گلہ کرتی ہے تشریف نہیں لائے فرماتے ہو کر گیا ہوں۔۔۔۔۔۔''
جواب:
جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے ،تنبیہاَعرض ہے کہ قاری صاحب نے حسب معمول ایک اور جھوٹ جڑ دیا'' بیوی گلہ کرتی ہے تشریف نہیں لائے، فرماتے ہو کر گیا ہوں''یہ بات پورے ذخیرہ حدیث میں کہیں دکھا دیں،جو شخص چھوٹی سی تحریر میں اتنے جھوٹ بولے عام گفتگو میں کیا کرتا ہو گا؟
بہر آئینہ موصوف نے ہمارا مقدمہ خود پیش کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا ہے کہ موسی علیہ السلام پر جادو ہو گیا تھا ،مگر اس جادو اور نبی پر ہونے والے جادو میں مماثلت نہیں،کیوں کہ موسی علیہ السلام جادو کے مقابلے کے لئے تیار کھڑے تھے،واہ صاحب !کتنے مزے کی بات کہی جب مقابلے کے لئے تیار نبی پر جادو اثر انداز ہو سکتا ہے تو جادو سے بے خبر نبی پر کیوں نہیں؟سنا ہے بے خبری کا وار اوچھا پڑتا ہے،بے خبری میں تو انسان بچاؤ کا سامان بھی نہیں کر سکتااور اگر خبر ہو جائے تو انسان بچاؤ کر سکتا ہے،تو جب نبی موسیٰ علیہ السلام خبر کے باوجود جادو کا شکار ہو جاتے ہیں،بل کہ خوف محسوس کرتے ہیں تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جن کو جادو کی خبر تک نہیں ان پر جادو ہونا کیوں کر بعید رہا؟ اس پر بھی غور کیجئے کہ موسی علیہ السلام پر جادو کی جو کیفیت قرآن میں بیان کی گئی یخیل الیہ من سحرھم انھا تسعیٰ،''ان کو خیال گزرا کہ یہ دوڑ رہی ہیں'' وہی کیفیت حدیث میں بیان ہوئی یخیل الیہ انہ صنع شیأا''خیال گزرتا کہ یہ کام کیا ''اب خیال گزرنا مشترک ہے تودونوں جگہ مان لینا چاہئے تھا، مگر آپ نے قرآن میں خیال گزرنے کا ذکر تسلیم کر لیا جب کہ حدیث میں خیال گزرنے کے ذکر کو قرآن ہی کے خلاف کہہ کر رد کرنے بیٹھ گئے ؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
باقی رہا آپ کایہ فرمانا کہ جادو کی وجہ سے اسلام داؤ پر لگ گیا تھا تو یہ وضاحت ہو چکی ہے کہ کسی شرعی مسئلے یا وحی پر اس کا بالکل اثر نہیں ہوا۔اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھولنے کو ہی دین اسلام پر قدغن قرار دیا جائے تو پھر آپ کی عقل کو سلام ہے۔
جادو کی وجہ سے بھول جانا اگر دین اسلام کا داؤ پر لگنا ہے تو یہ آپ کی خام خیالی ہے۔
ع پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
.............................................................................................
1 الجرح والتعدیل٩/٦٤وسندہ صحیح، 2تاریخ الثقات١٧٤٠،تاریخ بغداد١٤/٤١وسندہ صحیح،3الطبقات الکبری٧/٣٢١،4تاریخ بغداد١٤٤٠وسندہ صحیح،
5بیان الوھم والایہام الواقعین فی کتاب الاحکام٥/٥٠٤ح٢٧٢٦،6 6میزان الاعتدال٤/٣٠١،7س 7سیر اعلام النبلائ٦/٣٦،8 8تہذیب التہذیب١١/٥١
9 یہ قول تاریخ بغداد١٦/٥٦نص٧٣٣٥میں ان الفاظ سے مروی ہے''کان مالک لا یرضاہ،مالک اس سے راضی نہیں تھے،اسی طرح ان مالکا نقم علیہ حدیثہ لاھل العراق،مالک نے اہل عراق سے اس کی حدیث کو ناپسند کیا مگر اس کا راوی ابن خراش خود رافضی ضعیف ہے،دیکھئے (الکامل لابن عدی٤/١٦٤٩وسندہ صحیح وسوالات حمزہ السہمی للحاکم/٣٤١سندہ صحیح)10تہذیب الکمال ١٥/٢٩٧، 11صحیح بخاری ٦٣٩١، 12سنن کبری بیہقی :١٦٤٩٤سندہ صحیح13بخاری:٥٧٦٣
14مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ٩/٣٧٩٤ 15عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ١٥/٩٨،