• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میڈیا کا اصلی چہرہ

tashfin28

رکن
شمولیت
جون 05، 2012
پیغامات
151
ری ایکشن اسکور
20
پوائنٹ
52
میڈیا کی آزادی اور امریکی پاليسی

میڈیا کی آزادی اور امریکی پاليسی

محترم محمد ارسلان
السلام عليکم

ميں امريکی اور بين الاقوامی ميڈيا کی طرف سے نہيں بول رہا ليکن اس سلسلے ميں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ جہاں تک امريکہ ميں ميڈیا کے آزادی کا تعلق ہے، ميں بتاتا چلوں کہ امريکہ ميں ميڈیا مکمل آزاد ہے اور ان کے حقوق "امریکی آئين کے پہلے ترميم" کے تحت محفوظ ہيں ، جو "حقوق کے بل" کا حصہ ہے ۔ آئين کی يہ ترميم ميڈيا کی آزادی اور ان کے خلا‌ف کسی بھی قانون سازی سے منع کرتی ہے ۔ امريکی انتضاميہ میڈیا اور ان کی رپورٹنگ پر کوئی بھی کنٹرول نہيں رکھتی - ان کی کہانیاں، آراء، اور اداریاتی لائنز مکمل طور پر ان کے اپنے فیصلوں اور دنیا بھر ميں ان کے صحافیوں سے آنے والی خبروں کی بنیاد پر مبنی ہوتی ہيں ۔ امريکی میڈیا ميں پاکستان کے متعلق آرا اور خبريں مختلف نوعيت کی ہوتی ہيں اور آپ کی يہ سوچ کے تمام امريکی میڈيا يک آواز ہو کر پاکستان کے خلاف ہيں، بالکل غلط ہے ۔


اس کے علاوہ پاکستانی مختلف ذرائع سے يہ تاثر ملتا ہے کہ امریکہ میں میڈیا ہر دن اور ہر لمحے اپنی توجہ پاکستان پر مرکوز کی ہوئی ہے – يہ تاثر حقيقت سے بہت دور ہے ۔ اصل میں امریکی میڈیا ایک بہت بڑی تعداد میں مختلف موضوعات اور ايشوز پر بحث کرتيں ہيں جن ميں پاکستان صرف ایک موضع کی طور پے زیر بحث آتا ہے ۔


تاشفين – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov
U.S. Department of State
https://twitter.com/#!/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
میڈیا کی آزادی اور امریکی پاليسی

محترم محمد ارسلان
السلام عليکم

ميں امريکی اور بين الاقوامی ميڈيا کی طرف سے نہيں بول رہا ليکن اس سلسلے ميں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ جہاں تک امريکہ ميں ميڈیا کے آزادی کا تعلق ہے، ميں بتاتا چلوں کہ امريکہ ميں ميڈیا مکمل آزاد ہے اور ان کے حقوق "امریکی آئين کے پہلے ترميم" کے تحت محفوظ ہيں ، جو "حقوق کے بل" کا حصہ ہے ۔ آئين کی يہ ترميم ميڈيا کی آزادی اور ان کے خلا‌ف کسی بھی قانون سازی سے منع کرتی ہے ۔ امريکی انتضاميہ میڈیا اور ان کی رپورٹنگ پر کوئی بھی کنٹرول نہيں رکھتی - ان کی کہانیاں، آراء، اور اداریاتی لائنز مکمل طور پر ان کے اپنے فیصلوں اور دنیا بھر ميں ان کے صحافیوں سے آنے والی خبروں کی بنیاد پر مبنی ہوتی ہيں ۔ امريکی میڈیا ميں پاکستان کے متعلق آرا اور خبريں مختلف نوعيت کی ہوتی ہيں اور آپ کی يہ سوچ کے تمام امريکی میڈيا يک آواز ہو کر پاکستان کے خلاف ہيں، بالکل غلط ہے ۔


اس کے علاوہ پاکستانی مختلف ذرائع سے يہ تاثر ملتا ہے کہ امریکہ میں میڈیا ہر دن اور ہر لمحے اپنی توجہ پاکستان پر مرکوز کی ہوئی ہے – يہ تاثر حقيقت سے بہت دور ہے ۔ اصل میں امریکی میڈیا ایک بہت بڑی تعداد میں مختلف موضوعات اور ايشوز پر بحث کرتيں ہيں جن ميں پاکستان صرف ایک موضع کی طور پے زیر بحث آتا ہے ۔


تاشفين – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov
U.S. Department of State
https://twitter.com/#!/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
امریکی میڈیا اور پاکستانی میڈیا جو ڈالر لے کر پاکستان کے خلاف نہیں اسلام کے خلاف بولتے ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں۔
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
میڈیا کی آزادی کا حال تو یہ ہے کہ پچھلت دنوں اسلام آباد ڈی چوک پر مدارس دینیہ کے ہزاروں طلباء و اساتذہ نے علما؟ء کرام کی مسلسل ٹارگٹ کلنگ پر پرامن طور پر دھرنا دیا اور کتنے گھنٹے زمین پر دریاں بچھا کر تلاوت اور تعلیم میں مشغول رہے۔

لیکن اسی مقام پر این جی اور کے ایک بینر اور ١٥ سے 2٠ لوگوں کو تو میڈیا پر لائیو کوریج مل سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔البتہ یہ بوریہ نشین کسی خبت و نظر کے التفات سے محروم ہی رہے۔

یہ ہے آزاد میڈیا کا ایک اور روشن پہلو!

دوسری طرف آ جائیں ، طالبان کے ڈر سے یہ لوگ حکیم اللہ محسود کے بیان بھی نشر کریں گے اور آرمی کے ڈر سے پوری پوری آئی ایس پی آر کی پریس ریلیزیں بھی چلائیں گے ۔ لیکن افغان طالبان نے انہیں چونکہ کبھی کوئی دھمکی نہیں لگائی یا دم پر پاؤں رکھنے کا عندیہ نہیں دیا تو صرف اور صرف امریکیوں کا موقف ہی دکھایاا ور بتایا جاتاہے جتنا ممکن ہو مجاہدین کے موقف سے کان اور آنکھیں بند ہی رکھے جاتے ہیں۔

الطافو قاتل کی ڈیڑھ دیڑھ گھنٹے کی تقریر جس میں گالیان بھی شامل تھیں ، سب چینلز لائیو چلا چکے ہیں ۔ وجہ کا سب کو علم ہے !! اور یہ بھی کہ لوگ کیسے متحد کیے جاتے ہیں متحدہ کے جلسوں کے لیے ، پ کبھی کوئی میڈیا پرسن بولا ہے ؟؟

گویا نتیجہ یہ نکلا کہ ملکی معاملات میں جو میڈیا کو بزور آگے لگائے رکھنے کی کچھ سکت رکھتا ہو ، اس کی پھر بھی بات کر دیں گا ہمارا میڈیا ۔۔۔۔۔۔۔ازاد میڈیا ۔

البتہ

اگر اسے چھیڑا نا جائے اور "میرٹ" پر فیصلہ کرنے دیا جائے تو ملکی یا بین الاقوامی دونوں معامالت میں یہ طاغوت کا موقف ہی حق بنا کر پیش اور بیان کریں گے۔

ازاد میڈیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ریاست کا چوتھا ستون !!!!!
 

tashfin28

رکن
شمولیت
جون 05، 2012
پیغامات
151
ری ایکشن اسکور
20
پوائنٹ
52
پاکستان ميں ميڈيا کی آزادی اور امریکی موقف

پاکستان ميں ميڈيا کی آزادی اور امریکی موقف

محترم بار بروسا
السلام عليکم

میڈیا کو کنٹرول کرنے کی آپ کے بے بنیاد الزامات کے حوالے سے، حقیقت یہ ہے کہ امریکی حکومت قومی ميڈیا سميت بین الاقوامی میڈیا پر اثر انداز ہونے کيلۓ کسی قسم کا کنٹرول نہيں رکھتی۔ امريکی آئين کے تحت امريکہ ميں ميڈیا مکمل آزاد ہے اور ان کے حقوق "امریکی آئين کے پہلے ترميم" کے تحت محفوظ ہيں ، جو "حقوق کے بل" کا حصہ ہے ۔ آئين کی يہ ترميم ميڈيا کی آزادی اور ان کے خلا‌ف کسی بھی قانون سازی سے منع کرتی ہے ۔ امريکی قانون کے مطابق امريکی حکومت کو کسی بھی قسم کے ميڈيا کے ادارتی کنٹرول میں مداخت کرنے کا حق نہیں ہے جبتک وہ تشدد کو فروغ نہ ديں۔

میں آپ سے ايک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ اگر ہم امریکی ميڈيا اور اس کی رپورٹنگ پر کسی بھی قسم کا کنٹرول نہيں رکھتے تو ہم پاکستانی میڈیا اور ان کی رپورٹنگ پر کس طرح کنٹرول قائم رکھ سکتےہیں؟

اگر آپ کو پاکستانی میڈیا اور ان کی رپورٹنگ کے ساتھ کسی بھی قسم کے تحفظات ہیں تو آپ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے کيوں رجوع نہيں کرتے جو آپ کے خدشات سے نمٹنے کے لئے آئينی مینڈیٹ رکھتی ہے؟


تاشفين – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov
U.S. Department of State
https://twitter.com/#!/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
یار تاشفین آپ سے نہیں مخاطب تھا اس میڈیا سے مخاطب تھا ۔۔۔۔۔۔ جس پر یو ایس ایڈ کے اشتہارات باقاعدہ گواہی دیتے ہیں کہ وہ پیڈ ہے !!!

اور ہیلری کلنٹن ملعونہ کا وہ بیان پڑھ لینا کہ ہم نے اس سیکٹر میں اتنی اتنی سرمایہ کاری کی ہے ۔

ذرا سوچیے نامی سارا ڈرامہ جس کے نتیجے میں حدود آرڈیننس میں ترمیم کر کے غیر اسلامی شق داخل کی گئی نیز زنا بالرضا کو جواز فراہم کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی بے خبر ہو تو ہو ۔۔۔۔ میں بذات خود میڈیا پرسنز سے اس "ذرا سوچیے" کمپین کے پیچھے یو ایس ایڈ کی مکمل سپانسر شپ کی شہادت لے چکا ہوں۔

اور یہ جو شہزاد رائے آج کل اچجل کود رہا ہے نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ""چل پڑھا" کے نام سے ، یہ بھی تو لانچڈ ہے آپ کا !!

اگر علم ہے ، جو کہ ہو گا ضرور۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر مان جائیے اور اگر نہیں تو ایک بار پھر سے اپ ڈیٹ ہو لیں۔

بات کرتے ہیں میڈیا کی آزادی کی وہ لوگ جو فاکس نیوز پر ایک خبر بھی یہودیوں کی مرضی کے خلاف نہیں چلا سکتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
پراڈکٹ

اوریا مقبول جان
23 جون ، 2016ء
ایکسپریس نیوز

اسکرپٹ میں کس طرح کردار تخلیق کیے جاتے ہیں، ان کے منہ میں کیسے اپنی مرضی کے فقرے ڈالے جاتے ہیں، کیسے خاندان، اقدار اور روایت سے بغاوت کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے ایک ’’ڈرامائی سیچویشن‘‘ تخلیق کی جاتی ہے، کس طرح معاشرے میں ایک منفی کردار کو کامیابی کے زینے پر چڑھا کر اسے ہیرو بنایا جاتا ہے، مجھے ان تمام تکنیکوں کا بخوبی علم ہے۔
اس لیے کہ میں نے زندگی کے بیس سال پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامہ لکھا ہے۔ پانچ سیریل اور لاتعداد ڈرامے۔ مجھے ان تمام بحثوں سے بھی آشنائی حاصل ہے جو پروڈیوسر اور رائٹر کے درمیان اسکرپٹ پر ہوتی ہے۔ اگر پروڈیوسر ذرا روشن خیال ہو تو مطالبہ ضرور کرے گا کہ ہیروئن کو باپ سے ایسے طریقے سے لڑاؤ کہ باپ بالاخر غلط ثابت ہو جائے، یا اگر وہ کہیں ایک معاملے میں جھگڑ رہا ہے تو اس کے لیے ڈائیلاگ کمزور دلیل والے تحریر کیے جائیں۔ اسے غصے میں پاگل پن کی حد تک دکھایا جائے تا کہ لوگوں کی ہمدردریاں بیٹی کے ساتھ ہو جائیں۔
وہ جس نے کل کو پسند کی شادی کرنا ہے۔ کھیل کے میدان کی شہسوار بننا ہے یا پھر اپنے کیریئر میں اس قدر کامیاب ہو جانا ہے کہ ساری دنیا اسے رشک سے دیکھے اور ڈرامہ دیکھنے والے اس باپ سے نفرت کریں جو اس کے راستے کی دیوار بن رہا تھا۔ یہ سب کچھ اس لیے نہیں کیا جاتا کہ ڈرامہ نگار یا ہدایت کار دونوں روشن خیال ہیں اور وہ لوگوں کے سامنے یہ دلیل دے رہے ہیں کہ ہم دراصل معاشرے کی جیتی جاگتی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ یا پھر ہم تو حقیقت دکھا رہے ہیں۔ انھیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ خاندانی زندگی میں بغاوت کا بیج بو رہے ہوتے ہیں۔
اس لڑکی کے کردار کو پرکشش، یعنی شوبز کی زبان میں گلیمرایز Glamourise کر رہے ہیں جو باپ یا ماں سے بغاوت کر کے شادی کرے، کیریئر اختیار کرے، کھیل کے میدان میں کودے، یا ان کی مرضی کے خلاف برے دوستوں کی صحبت اختیار کرے۔ یہ رائٹر اور پروڈیوسر دونوں اس قدر ظالم بن جاتے ہیں کہ اکثر اس باپ یا ماں کو زندگی کے ایک مرحلے میں محتاج دکھائیں گے، ان کی مدد کو کوئی نہیں آئے گا، پھر یا تو اس باغی اولاد کے وہ دوست ہی مدد کریں گے جو آوارہ قسم کے تھے جن سے ماں باپ دوستی کرنے کو روکتے تھے یا پھر جو اولاد باغی ہو کر گھر چھوڑ دیتی ہے وہ ان کی دیکھ بھال کو آئے گی اور جس اولاد کو انھوں نے سینے سے لگا کر پالا ہوگا وہ ساتھ چھوڑ جائے گی۔ یہ تو خیر بھلے زمانوں کی بات تھی۔
اب تو جو ٹیلی ویژن ڈراموں میں طوفان بدتمیزی برپا ہے اس کی جانب ایک اچٹتی نظر ڈالی جائے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہر شادی شدہ عورت ایک مزید عشق لڑا رہی ہوتی ہے اور ہر شادی شدہ مرد بے شمار لڑکیاں پھانس رہا ہوتا ہے۔ دماغوں کے گوشوں میں چھپی اس معاشرتی اقدار سے دشمنی ان ڈرامہ نگاروں سے ایسے افسانوی کردار تخلیق کرواتی ہے کہ جن کا اول تو وجود نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو وہ اتنے کامیاب کبھی نہیں ہوتے کہ مثال بنا دیے جائیں۔ یہ افسانوی کرداروں کی تخلیق ہی تو تھی کہ ہماری فلموں کے ہیرو موٹر مکینک ہو کر سیٹھ کی بیٹی سے عشق لڑا رہے ہوتے تھے اور سیٹھ کا بیٹا سیر پر جاتا ہے تو ریسٹ ہاؤس کے چوکیدار کی بیٹی کو دل دے بیٹھتا ہے۔
میں اکثر ان سے سوال کرتا تھا کہ اگر تمہاری بیٹی جسے تم اتنے ناز و نعم سے پالتے ہو ‘وہ اگر کسی موٹر مکینک کے پاس گاڑی ٹھیک کروانے جائے اور اس کے عشق میں گرفتار ہو جائے، تمہیں گھر چھوڑنے کی دھمکی دے تو کیا پھر بھی تم اسے ایک ایسی ہیروئن کا مقام دو گے جیسا تم اس لڑکی کو دے رہے ہوتے ہو جس کے منہ میں تم نے بغاوت کے ڈائیلاگ ڈالے ہوتے ہیں۔ لڑکی تو دور کی بات ہے میں پاکستان کی حقوق نسواں کی ایک علمبردار کو جانتا ہوں جس کے بیٹے نے پسند کی شادی کر لی تھی تو وہ دوستوں میں کہتی پھرتی تھیں کہ میں بھی چین سے نہیں بیٹھوں گی جب تک اس ’’لاڈلی‘‘ کو طلاق نہ دلوا دوں اور پھر اس نے طلاق دلوا دی۔ لیکن آپ اس خاتون کی تحریریں پڑھ لیں، تقریریں سن لیں آپ کو کیا جذباتی بغاوت کے نغمے سنائی دیں گے۔ یہ کردار جان بوجھ کر تخلیق کیے جاتے ہیں اور انھیں عظیم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
دوسری بات اکثر کیمرہ مینوں کی بدمعاش نظریں ہیں جو سین کو ایک خاص ضرورت کے ساتھ فحش کیسے بناتی ہیں۔ اس کے لیے کیسے ایک ہیروئن کو مخصوص انداز میں بٹھایا، چلایا، دوڑایا یا بستر پر لٹایا جاتا ہے۔ اس کے لیے ’’لائٹ اینڈ شیڈ‘‘ کا خصوصی استعمال کیا جاتا ہے۔ گفتگو کرتے کرتے اس کے دوپٹے کو ڈھلکایا جاتا ہے۔ پھر ایک خاص طریقے سے ڈوپٹے کو ایسے سیدھا کروایا جاتا ہے تا کہ اس دوران کیمرہ مین جسم کے جن حصوں کو نمایاں طور پر دکھانا چاہتا ہے دکھا لے۔ فیض احمد فیض کی بیٹی منیزہ ہاشمی جب لاہور میں پاکستان ٹیلی ویژن سینٹر کی جنرل منیجر تھیں تو انھوں نے کیمرہ مینوں پر خواتین کے چلتے ہوئے پیچھے سے کیمرے میں دکھانے سے پابندی لگائی تھی۔ وہ کہتی تھیں کہ میں اکثر کیمرہ مینوں اور پروڈیوسروں کی ذہنیتوں کو جانتی ہوں، یہ جو کچھ دکھانا چاہتے ہیں وہ سین کی مجبوری نہیں، عورت کے جسم کے ساتھ کیمروں سے کھیلنا ہے۔
اپنے ڈرامہ نویسی کے کیرئیر کے دوران مدتوں میں نے ان کیمرہ مینوں، پروڈیوسروں اور ایڈیٹنگ ٹیبل پر بیٹھ کر سین ایڈیٹ کرنے والوں کے منہ سے نکلنے والے فقرے سنے ہیں اور پھر ساتھ یہ بھی کہ اس طرح کیمرہ گھماؤ تو زیادہ سیکسی لگے گی، تھوڑا سلو موشن کر دو، سائیڈ سے کیمرہ پروفائل لو، پتہ تو چلے اس کا جسم کیسا ہے۔ ان کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے مصنف ایسے سین بھی تحریر کرتے ہیں تا کہ ان کے ذہن میں چھپی فحاشی اور غلاظت کُھل کر سامنے آئے۔
خود خواتین جو آسان راستے سے مقبولیت حاصل کرنا چاہتی ہیں، اپنی نشست و برخاست، لباس کی تراش خراش اور بعض اوقات مخصوص انداز سے چلنے کے بارے میں باقاعدہ کیمرہ مینوں سے مشورہ کرتی ہیں اور وہ ان کو جسمانی نمائش کے تمام فحش گر سکھاتے ہیں۔ ان میں بعض اس قدر کریہہ ذہن کے مالک ہوتے ہیں کہ بچے کی موت پر روتی ہوئی ماں کے جسمانی خطوط دکھانے سے بھی نہیں چوکتے۔ ایک دفعہ تو ایسا ہوا کہ ایک ماں اپنے بچے کی لاش پر بین کرتی ہوئی گرتی ہے، کیمرہ مین نے اس اداکارہ کو تین مرتبہ گرا دیا ‘کیونکہ اس کے مطلب کی جسمانی نمائش کیمرے میں نہیں آ رہی تھی۔
اسطرح کے دونوں اسکرپٹ رائٹر اور کیمرہ مینوں کا گٹھ جوڑ آج کل ٹیلی ویژن پر چلائے جانے والے ایک اشتہار میں نظر آ رہا ہے۔ ایک لڑکی باپ کو ناراض کر کے کرکٹ کھیلنے جاتی ہے، ماں اپنے شوہر کی مرضی کے بغیر اسے اجازت دیتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس لڑکی کو ایک کامیاب ترین کھلاڑی بنایا جانا ہے جو کپتان بن جاتی ہے۔ اس وقت کسی رائٹر کو کرکٹ کی سلیکشن میں سفارش، رشوت، اقربا پروری وغیرہ یاد نہیں آتی۔ چونکہ باپ کی نافرمان اولاد کو کامیاب دکھانا ہے تو ایسا کیا گیا۔ اب معاملہ کیمرہ مین کے ہاتھ میں آ جاتا ہے اور اسکرپٹ والا اس کی مرضی کے سین لکھتا جا رہا ہے۔
اسے سامنے دوڑاتے ہوئے باؤلنگ کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے تا کہ اس کے جسم کے تمام خدوخال نمایاں کیے جائیں۔ کیمرہ مین کی بدمعاشی یہاں رکتی نہیں‘ بلکہ وہ اسے پانچ مرتبہ مختلف انداز سے نمایاں کرتا ہے۔ کبھی خوشی میں زور زور سے اچھلنے کا کہہ کر، کبھی ساتھی کھلاڑیوں کے کندھوں پر گھماتے ہوئے۔ آخر میں باپ کے سارے اصولوں کو اس نافرمان لڑکی کی کامیابی کے سامنے ریزہ ریزہ ہوتے دکھایا جاتا ہے۔ گویا کامیابی اصول پر غالب آ جاتی ہے۔ ان اسکرپٹ لکھنے والوں کو وہ ہزاروں بچیاں کیوں یاد نہیں آتیں جو باپ کو ناراض کر کے ناکامیوں کی دلدل میں غرق ہو جاتی ہیں۔
یہ کارپوریٹ کلچر اور اس پر پلنے والا میڈیا ہے۔ اگر عورت کو بازار میں لا کر نہ کھڑا کرے تو اس کا مال نہیں بکتا۔ ان کے نزدیک عورت ایک جنس بازاری ہے۔ جسے بیس سال تک یہ کہا جاتا ہے کہ تم سائز زیرو رکھو تو خوبصورت لگو گی اور عالمی ملکہ حسن بنو گی اور اگلے بیس سال اسے مناسب گوشت بدن پر لانے کو کہا جاتا ہے‘اس لیے کہ اب ان کی غلیظ نظروں میں حسن کا معیار بدل گیا ہے۔
پاؤں کے ناخن سے لے کر سر کے بالوں تک عورت ایک ’’پراڈکٹ‘‘ ہے جس سے ڈیڑھ سو بلین ڈالر کا صرف فیشن کا کاروبار چلتا ہے۔ جو لوگ ٹینس کی کھلاڑیوں کے جسمانی زاویوں کو کیمرہ آرٹ بناتے ہوں اور اس سے اپنی مصنوعات بیچنے کا اہتمام کرتے ہوں، ان کے ہاں اخلاقیات کیا ہوگی۔ ان کا مال بکنا چاہیے خواہ اس کے لیے عورت کو اپنے جسم کی برہنگی کی قیمت چکانا پڑے۔کیا دنیا کے کسی بھی گھر میں کوئی لڑکی باتھ روم سے نکل کر اپنے بہن بھائیوں کے سامنے تولیے میں سے ٹانگیں نکال کر بتاتی ہے کہ فلاں کریم سے میری ٹانگیں کس قدر نرم اور ملائم ہوگئیں۔ لیکن ٹیلی ویژن اشتہار دکھاتا ہے اور ماں باپ بھائی بہن سب مل کر دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اگر کوئی اعتراض کرے تو سارے لبرل سیکولر اچھل پڑتے ہیں کہ دیکھو ان کے دماغ میں فحاشی ہے۔ لیکن کوئی ان کیمرہ مینوں اور اسکرپٹ رائٹروں کی آپس کی گفتگو سرعام لے آئے تو انسانیت کا سر شرم سے جھکا جائے۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اسطرح کے دونوں اسکرپٹ رائٹر اور کیمرہ مینوں کا گٹھ جوڑ آج کل ٹیلی ویژن پر چلائے جانے والے ایک اشتہار میں نظر آ رہا ہے۔ ایک لڑکی باپ کو ناراض کر کے کرکٹ کھیلنے جاتی ہے، ماں اپنے شوہر کی مرضی کے بغیر اسے اجازت دیتی ہے۔
اوریا صاحب نے جس اشتہار کا مختصرا ذکر کیا ہے ، فیس بک کے ایک معروف لکھاری ، عابی مکھنوی صاحب نے اسے مکمل تحریر کیا ہے ، ملاحظہ فرمائیے :
اشتہار کا لفظ بہ لفظ اسکرپٹ

ماں : سارہ جا رہی ہے دیکھیں کرکٹ اُس کی زندگی ہے کھیلنے دیں اُسے !!
باپ : میں نے کہا نا لڑکیاں کرکٹ نہیں کھیلتیں !!
منظر بدلتا ہے
ماں سارہ سے : ساری تیاریاں ہو گئیں بیٹا !!
سارہ : جی امی !!
ماں : جانے سے پہلے ایک بار ابو سے بات کرتے جانا !!
سارہ :ابو سے بات نہیں کی جا سکتی امی صرف سُنی جا سکتی ہے !! آپ خیال رکھیں میں چلتی ہوں خُدا حافظ !!
منظر بدلتا ہے ماں فون پر بیٹی سے
ماں : ہیلووووو
سارہ کھیل کے میدان سے !! جی امی السلام علیکم !!
ماں : وعلیکم السلام !! ٹریننگ کیسی چل رہی ہے سارہ بیٹا !!
سارہ : بہت اچھی چل رہی ہے امی !! آپ کو پتا ہے کل فائنل سیلیکشن ہے !! تھوڑی نروس ہوں پر بہت مزہ آ رہا ہے !! ( سارہ کو اُس کی کوچ آواز لگاتی ہے ) اچھا امی میں چلتی ہوں ۔ میں رات میں آپ کو سارے فوٹوز بھیجتی ہوں !!
ماں : سارہ اپنا خیال رکھنا بیٹا !!
سارہ : چلیے اللہ حافظ !!!
(سارہ اپنی تمام تر نسوانیت کے ہمراہ پریکٹس میں مشغول ہو جاتی ہے !! )
رات ماں کواُس کے موبائل پر سارہ کی پریکٹس کی تصاویر موصول ہوتی ہیں ماں خوشی سے نڈھال ہو جاتی ہے !! بیڈ پر دراز سارہ کے باپ کو خوشی خوشی دکھانے کی کوشش کرتی ہے !! سنگدل باپ بے اعتنائی سے کروٹ بدل کر سو جاتا ہے )
منظر بدلتا ہے !! ماں زیر لب دعاؤں کے ساتھ اپنے موبائل پر ٹیم میں فائنل سیلیکشن پانے والی لڑکیوں کی فہرست دیکھ رہی ہے !! ماں کی نظر سارہ کے نام پر پڑتی ہے !! اور وہ خوشی سے چیخ اُتھتی ہے اور ساتھ ہی سارہ کے ابو کی انٹری بھی ہوتی ہے !!
سارہ کے ابو : کیا ہوا !!!!
سارہ کی ماں طنزیہ نظروں سے سارہ کے ابو کو دیکھتی ہے اور خوشی سے چیختے ہوئے پڑوسیوں کو اطلاع دینے بھاگ پڑتی کہ فلاں فلاں !!! سارہ کا سیلیکشن ہو گیا ہے پاکستان کرکٹ ٹیم میں !!!
پڑوسیوں کے جوابی نعرے گُونجتے ہیں !!!
مُبارک ہو !!! مُبارک ہو !!!
سارہ کے ابو بے چارگی سے سارا منظر دیکھتے ہیں !!
منظر بدلتا ہے !!
سارہ کے ابو گلی سے گزر رہے ہیں !!! ایک بوڑھا اُن کو روک کر اُن سے ہاتھ ملاتا ہے اور دُعا دیتا ہے "" اقبال صاحب (یا جو بھی نام وہ لیتا ہے) !! مُبارک ہو !! اللہ سارہ جیسی بیٹی سب کو دے !!! محلے کا نام روشن کر دیا اُس نے !! ""
منظر بدلتا ہے !! سارہ کی ماں وڈیو چیٹ پر سارہ سے بات کر رہی ہے !!
ماں : افطار کی تیاریاں ہو گئیں بیٹا !!
سارہ : جی امی ہو گئی !! ہم سب نے مِل کے کی ہے !! سارہ اپنی ماں سے اپنی ساتھی کھلاڑیوں کا تعارف کرواتی ہے !! امی یہ سلمہ ہے ، یہ تحریم اور یہ عدیلہ !! سب سارہ کی امی کو سلام کرتی ہیں !!
سارہ کی ماں !! وعلیکم السلام بیٹا جیتے رہو!! خوش رہو !!
سارہ : امی آپ کو پتا ہے کل ہمارا پہلا میچ ہے !!
ماں : جیت تمھاری ہو گی انشاء اللہ !!
سارہ : انشاء اللہ !! اور افطار کا وقت ہو جاتا ہے !!!
منظر بدلتا ہے !!!
پاکستان آسٹریلیا کے خلاف کھیل رہا ہے !! سارہ باؤلر ہے !! آستڑیلیا کو چار رنز درکار ہیں !! سارہ آتی ہے !! پوری قوم دم سادھے دعاؤں میں مشغول ہے !! سارہ بال پھینکتی ہے !! اور مخالف بیٹسمین کو کلین بولڈ کر دیتی ہے !! سارہ کی ماں ٹی وی پر میچ دیکھتے ہوئے خوشی سے چیخ پڑتی ہے !! سارہ جیت گئی !! سارہ جیت گئی !! سارہ کے ابو کی منظر میں انٹری ہوتی ہے !! شرمندہ چہرے کے ساتھ !! سارہ کے ابو چشمہ اُتارتے ہیں !! شرمندگی کے آنسو اپنی آنکھوں سے صاف کرتے ہیں !!
شاعر جوش میں اتا ہے اور جِنگل یعنی اشتہاری گانا شروع ہو جاتا ہے !!!
ننھی سی ایک کلی تھی
میری اُنگلی پکڑ چلی تھی
چھوڑ کے ہاتھ مِرا
مُجھے وہ چلنا سکھا گئی
ننھی سی ہممم ننھی سی چلنا سکھا گئی !! چلنا سکھا گئی !!
گانا پس منظر میں چلا جاتا ہے
سارہ کو اُس کے موبائل پر امی کی کال موصول ہوتی ہے !!
سارہ جوش سے : ہیلو امی ہم جیت گئے !! آپ نے دیکھا !!
فون سارہ کے ابو تھام چُکے ہوتے ہیں "" میں ابو بول رہا ہوں بیٹا !! مبارک ہو !!
اسٹیج سے سارہ کا نام بُلند ہوتا ہے !!سارہ کے ابو فون پر ہی سُنتے ہیں اور پیارے سے کہتے ہیں جاؤ بیٹا !!!
اسٹیج پر کمنٹیٹر سارہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہے !! "" سارہ آپ کا پہلا میچ اور اُس میں پلئیر آف دا میچ !! کانگریچولیشنز !!!!!!! تالیوں کا شور !!
کمنٹیٹر : تو اس بار عید پر کیا کر رہی ہیں آپ ؟؟
سارہ : ( جذبات سے بھرپور لہجے میں ) گھر جا رہی ہوں !!! اپنے ابو کے پاس !! بہت ساری باتیں کرنی ہیں اُن کے ساتھ !!
کمیٹیٹر : بہت بہت مبارک ہو آپ کو !!!
گانے کے بول بُلند ہوتے ہیں !!
ہممم ننھی سی چلنا سکھا گئی !! چلنا سکھا گئی !!
کیو موبائل کے پیغام کے ساتھ اشتہار کا اختتام ہوتا ہے !!!
نیا زمانہ !!!! نئی باتیں !!!!
اس اشتہار پر عابی مکھنوی صاحب کا تبصرہ :

یہ تو ہو گیا ایک اشتہار کا اسکرپٹ !! ماں ، بیٹی باپ اور تماشائی سب اداکار !! لکھنے والے کو بھی پیسے ملے !! اشتہار ٹی وی پر چلانے والوں کو بھی پیسے ملے !! گانا لکھنے والا بھی مالا مال ہو گیا !!! اور جب موبائل دھڑا دھڑ بکیں گے تو کمپنی کی بھی چاندی ہو جائے گی !!!
لیکن اگلا اسکرپٹ مُفت والا اسکرپٹ ہے !! لکھنے والا فری لانسر ہے !! کردار سب حقیقی ہیں !! ہر آنسو سچا !! ہر آہ کھری !! ہر خواب حقیقی !!
یہ تئیس مارچ اُنیس سو ستانوے کو پنجاب کے شہر مُلتان میں پیدا ہونے والی حلیمہ رفیق کی کہانی ہے !! سارہ کے ساتھ سیلیکشن کیمپ میں تین کھلاڑی سہیلیاں ہیں !! حلیمہ کے ساتھ بھی اُسی سیلیکشن کیمپ میں اُس کی چار سہیلیاں تھیں !! سیما ، حنا ، کرن اور صبا !!!!!!!
عجیب اتفاق دیکھیے کہ مصنوعی اور حقیقی دونوں کہانیاں رمضان کے مبارک مہینے میں ہی اپنے انجام کو پہنچتی ہیں !!
لیکن حلیمہ کی کہانی کے اسکرپٹ میں چند اضافی کردار بھی ہیں !! جیسے ایم پی اے مولوی محمد سُلطان عالم انصاری جو مُلتان کرکٹ کلب کے چئیر مین تھے اور اُن کے شانہ بشانہ ٹیم سیلیکٹر محمد جاوید ہیں !! کہانی کا آغاز ہوتا ہے !!!!!
ایک حقیقی اسکرپٹ

حلیمہ کی ماں حلیمہ کے ابو سے : حلیمہ جا رہی ہے دیکھیں کرکٹ اُس کی زندگی ہے کھیلنے دیں اُسے !!
باپ : میں نے کہا نا لڑکیاں کرکٹ نہیں کھیلتیں !! میں تُم دونوں کو سمجھا سمجھا کر تھک گیا ہوں کہ یہ بھیڑیوں کا معاشرہ ہے !! حلیمہ کو دیکھنے والے کسی کرکٹر کو نہیں دیکھیں گے !! سب کو میدان میں اُچھلتی کُؤدتی عورت نظر آئے گی !! تُم دونوں نے مُجھے نفسیاتی مریض بنا دیا ہے !! میں خُود اسی معاشرے کا ایک مرد ہوں !! میں جانتا ہوں یہاں انسان کی کھال اوڑھے بھیڑیے دندنا رہے ہیں !! تُم میری حلیمہ مُجھ سے چھین رہی ہو !!
منظر بدلتا ہے
ماں حلیمہ سے : ساری تیاریاں ہو گئیں بیٹا !!
حلیمہ : جی امی !!
ماں : جانے سے پہلے ایک بار ابو سے بات کرتے جانا !!
حلیمہ:ابو سے بات نہیں کی جا سکتی امی !! صرف سُنی جا سکتی ہے !! آپ خیال رکھیں میں چلتی ہوں خُدا حافظ !!
منظر بدلتا ہے ماں فون پر بیٹی سے
ماں : ہیلووووو
حلیمہ کھیل کے میدان سے !! جی امی السلام علیکم !!
ماں : وعلیکم السلام بیٹا !! ٹریننگ کیسی چل رہی ہے حلیمہ بیٹا !!
حلیمہ : بہت اچھی چل رہی ہے امی !! ( ماں کو حلیمہ کی دبی دبی سسکیاں سُنائی دیتی ہیں )
ماں : کیا ہوا بیٹا !! کیا تُم رو رہی ہو !! ( جواب میں سسکیاں ) حلیمہ تُم ٹھیک تو ہو نا !!
حلیمہ : جی امی میں بالکل ٹھیک ہوں !! بس ذرا نزلہ ہے ہلکا پُھلکا !! اور تھوڑی نروس بھی ہوں ! فائنل سیلیکشن ہے نا !!
( پس منظر میں ٹیم سیلکٹر جاوید صاحب کی آواز گُونجتی ہے !! حلیمہ !! ) جی سر آئی !!!
ماں : حلیمہ مُجھے رات میں اپنی تصویریں ضرور بھیجنا !!
حلیمہ: سسکیوں کے درمیان ۔۔ امی نہیں بھیج سکوں گی !! تصویریں لینے پر پابندی ہے یہاں !!
ماں : اچھا میرا بیٹآ !! اپنا بہت خیال رکھنا !!
حلیمہ: ٹھیک ہے امی اللہ حافظ !!!
(حلیمہ میدان میں کھڑے مُلتان کرکٹ کلب کے صدر مولوی محمد سُلطان عالم انصاری اور ٹیم سیلیکٹر محمد جاوید کی بُھوکی نظروں کے نشانے پر شرماتے لجاتے پریکٹس میں مشغول ہو جاتی ہے !! )
(اُس رات حلیمہ کی ماں اپنی لاڈلی بیٹی کے روشن مستقل کے خواب دیکھتے دیکھتے سو جاتی ہے اور باپ صبح تک بیڈ پر بے چینی سے کروٹیں بدلتا رہتا ہے )
حلیمہ کی ماں پر سارہ کی ماں کی طرح زیر لب دعاؤں کے ساتھ ویب سائٹ پر منتخب ہونے والی لڑکیوں کی فہرست دیکھنے کی نوبت نہیں آتی )
حلیمہ کی ماں کو خوشی سے چیخنا نہیں پڑتا !!
حلیمہ کے محلے میں مبارک مبارک کے نعرے نہیں گُونجتے !!
حلیمہ کے ابو گلی سے گزر رہے ہیں !!! کوئی بوڑھا اُن کو روک کر اُن سے ہاتھ نہیں ملاتا اور نہ ہی یہ دُعا دیتا ہے کہ "" مُبارک ہو !! اللہ حلیمہ جیسی بیٹی سب کو دے !!! محلے کا نام روشن کر دیا اُس نے !! ""
منظر نہیں بدلتا !! حلیمہ کی ماں وڈیو چیٹ پر حلیمہ سے بات نہیں کرتی !!
حلیمہ کی ماں حلیمہ سے نہیں پُوچھتی کہ افطار کی تیاریاں ہو گئیں بیٹا !!
اور نہ ہی حلیمہ کو یہ جواب دینا پڑتا ہے کہ جی امی ہو گئی !! ہم سب نے مِل کے کی ہے !! حلیمہ اپنی سہیلی کھلاڑیوں کا تعارف بھی نہیں کروا پاتی کہ !! امی یہ سیما ہے یہ حنا یہ کرن اور یہ صبا !!!!!!! !!
حلیمہ کی ماں کی جوابی دعا نہیں گُونجتی کہ !! بیٹا جیتے رہو!! خوش رہو !!
حلیمہ کا پہلا میچ نہیں آتا !! کہ ماں کی دعا کی ضرورت پڑتی !!
ہاں حلیمہ پر بھی روزہ افطار کا وقت آ جاتا ہے !! لیکن افطار سے بہت پہلے !!
جی ہاں حلیمہ نے ایک دن مُلتان کرکٹ کلب کے صدر مولوی محمد سُلطان عالم انصاری اور ٹیم سیلکٹر محمد جاوید کی دست درازیوں اور فرمائشوں سے تنگ آ کر اپنا روزہ زہر کی بھری بوتل سے افطار کر لیا تھا !!!
ایک پاگل شاعر اُس دن چشم تصور سے حلیمہ کو دیکھ رہا تھا لیکن وہ اُسے خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کوئی جِنگل یا گانا نہ لکھ سکا !! بس ایک عدد احتجاجی پوسٹ جو اس غلیظ معاشرے کی مکروہ روایت بن چُکی ہے اُس شاعر نے بھی لکھ ماری تھی !!
لیکن حلیمہ کے ابو حلیمہ کے جنازے میں شاید کُچھ یُوں گُنگنا رہے تھے !!
ننھی سی ایک کلی تھی
میری اُنگلی پکڑ چلی تھی
چھوڑ کے ہاتھ مِرا
ننھی سی ہممم ننھی سی چھوڑ کے ہاتھ مِرا !! چھوڑ کے ہاتھ مِرا
اُس دن یہ گانا ادھورا رہ جاتا ہے !!
سُنا ہے کہ ہر عید الفطر پر مُلتان کے ایک قبرستان میں ایک قبر کے سرہانے ایک سنگدل باپ اپنا سر گُھٹنوں میں دبائے روتا رہتا ہے !!!
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
انسان اپنے خواہش کے مطابق اپنے غلط نظریے کے لئے بھی کیسے جواز تراشتا ہے ۔ ایک اسی طرح کی سوچ مسلط کرنے والوں کےاعتراض کے محترم اوریا مقبول جان صاحب نے بخیئے ادھیڑے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کی جزا دے ۔
اس پروگرام کو دیکھنے سے افسوس بھی بہت ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر کتنی بری ہے ۔
اور اس کے دیکھنے والے سے بہت معزرت بھی کہ موضوع میں ایسے موضوع ڈسکس کئے گئے کہ جو شرم و حیا سے متعلق ہیں ۔
میڈیا کاعورت کو استعمال کرنا ۔۔اور خواتین کی کرکٹ وغیرہ۔۔۔
لیکن اس کے سوا چارہ بھی کوئی نہیں ۔ اور سوشل میڈیا پہ پھرنے والے اس سے محفوظ رہ بھی نہیں سکتے ۔اس پروگرام کو ۲۰ دن سے اوپر ہوچکے ۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اسے ضرور دیکھا جائے۔
www.youtube.com/watch?v=VMorITKpYL4
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
میڈیا پر پردہ اس لیے پڑا ہوا ہے کہ ابھی تک ’ عوام ‘ نے اس کا اصل چہرہ دیکھا نہیں ۔ اور جنہوں نے دیکھا ہے ، وہ خود اس فیلڈ کے بندے ہیں ، اس لیے اپنے پیٹ سے کپڑا نہیں اٹھانا چاہتے ۔
ہر کوئی اوریا جیسا نہیں ہے ۔
بہر صورت مجھے تھوڑا بہت اتفاق ہوا ہے ، اللہ پناہ ، بلا کسی مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ ’ ریت پر محل تعمیر ‘ کیے ہوئے ہیں ۔ جن کا دعوی ’ حقیقت ‘ اور ’ اصلی ‘ دکھانے کا ہے ، ان کا سارا کھیل ہی ’ سراب ‘ اور ’نقلی ‘ ہے ۔
 
Top