- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
براڈ کاسٹ میڈیا
ٹی وی چینلز پر جو کچھ دکھایا جارہا ہے ، اس کو دو حصوں میں تقسیم کر لیں :
1۔ ابلاغیات ، خبریں ، بریکنگ نیوز ، اور اہم احداث و واقعات کے متعلق معلومات ۔
2۔ ثقافیات ، جیسا کہ مارننگ شوز ، کامیڈی شوز ، ڈرامے ، فلمیں ، رمضان ٹرانسمیشن ، دینی رہنمائی وغیرہ وغیرہ ۔
پہلی قسم کی سے تعلق رکھنے والی جو چیزیں ہیں ، ان میں میڈیا کی حیثیت مسلم ہے ، اگر آپ میڈیا کو اس میدان میں استعمال نہیں کریں گے ، تو دنیا کے منظر نامے سے غائب ۔ جو لوگ اس میدان میں آئیں گے ، وہ اپنے مفادات کی جنگ میں آپ سے جیت جائیں گے ۔
دوسری قسم سے متعلق جتنا بھی مواد ، اور کلچر معروف ٹی وی چینلز پر دکھایا جارہا ہے ، سب ’ کچرہ ’ اور ’ فضولیات ’ ہیں ، جہاں کہیں سچ اور حقیقت بھی دکھایا جاتا ہے ، اس کے آگے پیچھے ، دائیں بائیں ، اسی قسم کے رذائل اور خباثتیں جڑی ہوئی ہوتی ہیں ، کوئی گارنٹی نہیں کہ شو میں بیٹھے مولوی صاحب کی بات پر لوگ توجہ کر رہے ہیں یا پھر سکرین پر نظر آنے والی محرمات و مکروہات سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔
اچھا اس میں یہ بات نہیں کہ یہ کام بے دین لوگوں نے سنبھالا ہوا ہے ، تو اس لیے اس میں یہ قباحتیں ہیں ، اگر دیندار اس کا ذمہ لے لیں ، تو یہ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔
میں سمجھتا ہوں ، ٹی وی سکرین کے جو تقاضے ہیں ، ناظرین کو اٹریکٹ کرنے کے لیے جو لوازمات ہیں ، وہ ( کم از کم) اسلامی مزاج سے مطابقت ہی نہیں رکھتے ۔
وہی مقرر ، یا خطیب یا سکالر صاحب جسے لوگ ایک جلسہ یا اجتماع گأہ میں شوق سے سنتے ہیں ، اگر آپ ان کو اسی حالت میں ، اسی پس منظر اور بیک راؤنڈ کے ساتھ ٹی وی پر لانا چأہیں تو نہیں لا سکتے ۔
تقریر کرتے ہوئے ، کلاس میں طالبعلموں کے سامنے گفتگو کرتے ہوئے ، یا جلس عام سے خطاب کرتے ہوئے ، یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ آپ کے کپڑوں میں سلوٹیں نہ ہوں ، سر پر ٹوپی ٹیڑی ہو یا سیدھی ہو ، کھأنسنے کی اجازت ہے یا نہیں ، بات کرتے ہوئے ، آپ نے کیمرے کی طرف دیکھنا ہے یا جو آپ کا مخاطب ہے اس کی طرف دیکھنا ہے ۔
عام مجالس و مساجد میں بات کرتے ہوئے ، آپ کو یہ ضرورت محسوس نہیں ہو گی کہ آپ کے کام مین ایک ہیڈ فون لگا ہوا ہو ، اور پیچھے سے کوئی آپ کو ڈرائیو کر رہا ہو ۔
ٹی وی سے ہٹ کر آپ اپنی سہولت کے مطابق اٹھنے بیٹھنے کا انداز اختیار کرسکتے ہیں ، لیکن ٹی وی پر بیٹھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی گردن کسی طرف جھکی ہوئی نہ ہو ، ہاتھ ایک حد سے زیادہ حرکت نہ کریں ۔
آپ کو چاہے ایک لفظ بھی نہ آتا ہو ، لیکن آپ نے وہاں اس طرح ظاہر کرنا ہے کہ میں ہر چیز کا حافظ ہوں ، چاہے کیمرے کے ساتھ ایک الگ سکرین پر سب کچھ چلوانا ہی کیوں نہ پڑے ، کیمرے کے پیچھے دیوار پر کسی کو نوٹ پیڈ دے کر ہی کھڑا کرنا پڑے ۔
یہ باتیں صرف وہ ہیں ، جو عام دینی رہنمائی کے پروگراموں میں بھی چلتی ہیں ، اس کے باوجود کوئی گارنٹی نہیں کہ ہزاروں لاکھوں کا خرچہ کرکے آپ کے پروگرام کو پچاس یا سو بندے بھی غور سے اور مکمل سنیں گے ۔
اور پھر سننے والوں میں بھی شاید کوئی ہوں گے ، جن پر آپ کے پیغام کا اثر ہوا ہوگا ۔
کہاں مسجد میں بیٹھ کر خطیب کی طرف متوجہ ہونا ، یا کلاس میں سٹوڈنٹ کا استاد کی طرف ہمہ تن گوش ہونا ، اور کہاں ٹی وی کا بٹن دبا کر ساتھ دیگر ملذات و مہلیات میں مشغول ہونا ، دونوں طرف کے مناظر پر ذرا غور کریں گے ، فرق بالکل واضح نظر آئے گا ۔
رہی میڈیا کی یہ ڈیمانڈ کہ کچھ نیا ، کچھ انوکھا ، ذرا ہٹ کے ، جس دوڑ میں مارننگ شوز ، کامیڈی شوز وغیرہ نظر آتے ہیں ، یہ ایک ایسی ہوس ہے ، جو دیندار ہوگا ، وہ اسے پورا نہیں کرسکے گا ، جو اس میں کامیاب ہوگیا ، وہ دیندار نہیں رہے گأ ۔
سننے میں آیا ہے کہ ٹی وی چینلز پر سب سے زیادہ حسب حال ، خبرناک ، خبردار ، مذاق رات جیسے پروگرام دیکھے جاتے ہیں ، جن میں نہ کوئی دین کا پاس ، نہ مذہب کی کوئی لاج ، نہ کسی شخصیت کا احترام ، جھوٹ کے پلندے ہر روز ایک سے ایک بڑھ کر ، اس سب کے باوجود ان لوگوں کو تالیاں ، مسکراہٹیں ، قہقہے ، اور حاضرین کا جوش و خروش اپنی طرف سے اضافی ایٹمز شامل کرنا پڑتے ہیں ۔ اور یہیں پر بس نہیں بلکہ ان کی مجبوری ہے کہ ایک محدود مدت کے بعد سیٹ تبدیل کریں ، کوئی نیا سیگمنٹ شامل کریں ، کوئی نئی چول ماریں ، فیک کالز شامل کریں ، جھوٹی سٹوریاں بریک کریں ، اگر نہیں کریں گے ، تو ریٹنگ کا کوہ گران زمین بوس ہو جائے گأ ۔
ان میں شامل لوگوں کی حرکتوں سے اندازہ لگائیں ، کبھی کوئی جانور بنا ہوتا ہے ، کبھی کوئی ہیچڑا بنا ہوتا ہے ، کبھی کوئی مٹک مٹک کا ناچ رہا ہوتا ہے ، انہوں نے اس دوڑ میں شامل ہونے کے لیے کس طرح اپنی اخلاقیات و نفسیات کا سودا کیا ہوتا ہے ، محسوس نہیں ہوتا کہ یہ حقیقی دنیا میں جینے والے انسان ہیں ، یا کسی کمپنی سے تیار کروائے ہوئے روبوٹس ، جو بٹن کے اشارے پر سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں ، اور ان کی اپنی نہ کوئی سوچ ہے نہ فکر ۔
بتائیں ، ایکٹروں ، جغت بازوں کے اس ’ اکھاڑے ’ میں جو سراسر ، بناوٹ ، تصنع ، ریا کاری اور دھوکا اور فریب کے کچھ نہیں ، وہاں ایک شریف النفس انسان جو اسلامی تعلیمات کی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے ، کیونکر کامیاب ہوسکتا ہے ؟
مارننگ شوز لے لیں ، جو ان ٹی وی چینلز کا سب سے سیاہ اور مکروہ ترین چہرہ ہے ، جہاں ، حقیقت کے نام پر ، ادا کارائیں پیسے لے کر ٹسوے بہاتی ہیں ، فیک کالز کی جاتی ، اور سنی جاتی ہیں ، اسکرپٹ لکھ کر، لڑکوں ، لڑکیوں کو بٹھا کر لڑایا جاتا ہے ، صلح کروائی جاتی ہے ، زن و شو کے خصوصی تعلقات کو زیر بحث لانے کے لیے زبان و بیان کی چوریاں کی جاتی ہیں ، محارم و غیر محارم مرد و عورتیں تمام دینی و ملی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر ٹی وی سکرین پر ایسی گفتگو کرتے ہیں کہ وہ پروگرام جو ریکارڈ کرکے لائیو ظاہر کیا جارہا ہے ، اس میں اگر کچھ لائیو ہوتا ہے تو شرم و حیا کی نیلامی اور شرافت کی رخصتی ہوتی ہے ۔
جس رنگین ٹی وی سکرین کے یہ تقاضے ہیں ، بتائیں ، وہاں اخلاق کی تعلیم ، اور اذہان کی تربیت جیسا ’ خشک اور سادہ پروگرام ’ اپنے لیے جگہ کیسے بنا سکتا ہے ؟
میڈیا کی دور میں شامل ہونے کےلیے اس بات پر تو تقریبا سب متفق ہوگئے کہ تصویر ویڈیو وغیرہ جائز ہے ، یعنی مجبوری کا نام شکریہ ۔
لیکن مسئلہ یہی نہیں ، میڈیا تو ایک ہوس ہے ، جو تصویر کے بعد ، عورت کی تصویر ، پھر اس کے کپڑے مختصر ہوئے ، ساتھ شرافت کش حرکات کا اضافہ ہوا ، اور اس تنزلی کا اضافہ ہوتا رہے گا ، تآنکہ عورت و مرد سے اس کے کپڑے چھین لیے جائیں ، اوراس سے آگے کچھ نیا پیش کرنے کے لیے یہ لوگ پتہ نہیں کیا کریں گے ۔
اگر تبلیغ اسلام کے لیے آپ نے یہ محاذ چنا ہے تو کیا یہ سب کچھ کی اسلام اجازت دیتا ہے ؟
ابھی کچھ دانشور یہ کہنا شروع ہوگئے ہیں ، بلکہ کہنا کیا ، اسلامی ویڈیوز آنا شروع ہوگئی ہیں ، اسلام دشمن ، ملک دشمن فلموں کے ذریعے پراپیگنڈہ کرتے ہیں ، کچھ عبقری دماغوں کا یہ کہنا ہے کہ ان کے جواب میں اسی طرح فلمسازی ہونی چاہیے ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کی چیزوں میں عورتوں کا استعمال کرکے ، اسلام کی بنیادی اخلاقیات کا جنازہ نکال کر بھلے آپ اسلام کا ہی کوئی پیغام دے رہے ہیں ، لیکن کیا اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کے رستے میں عورت کے خد و خال کی نیلامی جائز ہے ؟!!! کیا تبلیغ دین کے لیے ، اسلام کے خلاف پراپیگنڈے کے جواب کے لیے سب کچھ جائز ہے ؟
یار میں تو کہتا ہوں ، یہ ہمارا میدان ہی نہیں ، اسلام پر اعتراضات ، حملے اسی دور میں تھوڑے شروع ہورہے ہیں ، شروع سے ہی کفر عورت کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے ، نادان مسلمانوں کو بھٹکانے کے لیے شروع سے ہی شراب و کباب کی مدد لی جاتی رہی ہے ، کیا اس وقت کے نابغوں نے جوابا اپنی بہو بیٹیاں میدانوں میں نکال لی تھیں ؟!
میرے بھائی جس طرح وہ لوگ ان بحرانوں سے نکل آئے تھے ، اور اسلام ہم تک مکمل پہنچ گیا ہے ، یقین مانیں اسلام کو اب بھی کچھ نہیں ہوگا۔... لیکن خدارا اس کی صاف شفات تعلیمات کا اپنے ہاتھوں سے جنازہ نہ نکالیں ، دھوکے سے باہر نکل آئیں ۔ اسلام کی بقا کی ذمہ داری اللہ کی ہے ، اور اللہ باطل طریقوں کو پسند نہیں کرتا ۔
1۔ ابلاغیات ، خبریں ، بریکنگ نیوز ، اور اہم احداث و واقعات کے متعلق معلومات ۔
2۔ ثقافیات ، جیسا کہ مارننگ شوز ، کامیڈی شوز ، ڈرامے ، فلمیں ، رمضان ٹرانسمیشن ، دینی رہنمائی وغیرہ وغیرہ ۔
پہلی قسم کی سے تعلق رکھنے والی جو چیزیں ہیں ، ان میں میڈیا کی حیثیت مسلم ہے ، اگر آپ میڈیا کو اس میدان میں استعمال نہیں کریں گے ، تو دنیا کے منظر نامے سے غائب ۔ جو لوگ اس میدان میں آئیں گے ، وہ اپنے مفادات کی جنگ میں آپ سے جیت جائیں گے ۔
دوسری قسم سے متعلق جتنا بھی مواد ، اور کلچر معروف ٹی وی چینلز پر دکھایا جارہا ہے ، سب ’ کچرہ ’ اور ’ فضولیات ’ ہیں ، جہاں کہیں سچ اور حقیقت بھی دکھایا جاتا ہے ، اس کے آگے پیچھے ، دائیں بائیں ، اسی قسم کے رذائل اور خباثتیں جڑی ہوئی ہوتی ہیں ، کوئی گارنٹی نہیں کہ شو میں بیٹھے مولوی صاحب کی بات پر لوگ توجہ کر رہے ہیں یا پھر سکرین پر نظر آنے والی محرمات و مکروہات سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔
اچھا اس میں یہ بات نہیں کہ یہ کام بے دین لوگوں نے سنبھالا ہوا ہے ، تو اس لیے اس میں یہ قباحتیں ہیں ، اگر دیندار اس کا ذمہ لے لیں ، تو یہ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔
میں سمجھتا ہوں ، ٹی وی سکرین کے جو تقاضے ہیں ، ناظرین کو اٹریکٹ کرنے کے لیے جو لوازمات ہیں ، وہ ( کم از کم) اسلامی مزاج سے مطابقت ہی نہیں رکھتے ۔
وہی مقرر ، یا خطیب یا سکالر صاحب جسے لوگ ایک جلسہ یا اجتماع گأہ میں شوق سے سنتے ہیں ، اگر آپ ان کو اسی حالت میں ، اسی پس منظر اور بیک راؤنڈ کے ساتھ ٹی وی پر لانا چأہیں تو نہیں لا سکتے ۔
تقریر کرتے ہوئے ، کلاس میں طالبعلموں کے سامنے گفتگو کرتے ہوئے ، یا جلس عام سے خطاب کرتے ہوئے ، یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ آپ کے کپڑوں میں سلوٹیں نہ ہوں ، سر پر ٹوپی ٹیڑی ہو یا سیدھی ہو ، کھأنسنے کی اجازت ہے یا نہیں ، بات کرتے ہوئے ، آپ نے کیمرے کی طرف دیکھنا ہے یا جو آپ کا مخاطب ہے اس کی طرف دیکھنا ہے ۔
عام مجالس و مساجد میں بات کرتے ہوئے ، آپ کو یہ ضرورت محسوس نہیں ہو گی کہ آپ کے کام مین ایک ہیڈ فون لگا ہوا ہو ، اور پیچھے سے کوئی آپ کو ڈرائیو کر رہا ہو ۔
ٹی وی سے ہٹ کر آپ اپنی سہولت کے مطابق اٹھنے بیٹھنے کا انداز اختیار کرسکتے ہیں ، لیکن ٹی وی پر بیٹھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی گردن کسی طرف جھکی ہوئی نہ ہو ، ہاتھ ایک حد سے زیادہ حرکت نہ کریں ۔
آپ کو چاہے ایک لفظ بھی نہ آتا ہو ، لیکن آپ نے وہاں اس طرح ظاہر کرنا ہے کہ میں ہر چیز کا حافظ ہوں ، چاہے کیمرے کے ساتھ ایک الگ سکرین پر سب کچھ چلوانا ہی کیوں نہ پڑے ، کیمرے کے پیچھے دیوار پر کسی کو نوٹ پیڈ دے کر ہی کھڑا کرنا پڑے ۔
یہ باتیں صرف وہ ہیں ، جو عام دینی رہنمائی کے پروگراموں میں بھی چلتی ہیں ، اس کے باوجود کوئی گارنٹی نہیں کہ ہزاروں لاکھوں کا خرچہ کرکے آپ کے پروگرام کو پچاس یا سو بندے بھی غور سے اور مکمل سنیں گے ۔
اور پھر سننے والوں میں بھی شاید کوئی ہوں گے ، جن پر آپ کے پیغام کا اثر ہوا ہوگا ۔
کہاں مسجد میں بیٹھ کر خطیب کی طرف متوجہ ہونا ، یا کلاس میں سٹوڈنٹ کا استاد کی طرف ہمہ تن گوش ہونا ، اور کہاں ٹی وی کا بٹن دبا کر ساتھ دیگر ملذات و مہلیات میں مشغول ہونا ، دونوں طرف کے مناظر پر ذرا غور کریں گے ، فرق بالکل واضح نظر آئے گا ۔
رہی میڈیا کی یہ ڈیمانڈ کہ کچھ نیا ، کچھ انوکھا ، ذرا ہٹ کے ، جس دوڑ میں مارننگ شوز ، کامیڈی شوز وغیرہ نظر آتے ہیں ، یہ ایک ایسی ہوس ہے ، جو دیندار ہوگا ، وہ اسے پورا نہیں کرسکے گا ، جو اس میں کامیاب ہوگیا ، وہ دیندار نہیں رہے گأ ۔
سننے میں آیا ہے کہ ٹی وی چینلز پر سب سے زیادہ حسب حال ، خبرناک ، خبردار ، مذاق رات جیسے پروگرام دیکھے جاتے ہیں ، جن میں نہ کوئی دین کا پاس ، نہ مذہب کی کوئی لاج ، نہ کسی شخصیت کا احترام ، جھوٹ کے پلندے ہر روز ایک سے ایک بڑھ کر ، اس سب کے باوجود ان لوگوں کو تالیاں ، مسکراہٹیں ، قہقہے ، اور حاضرین کا جوش و خروش اپنی طرف سے اضافی ایٹمز شامل کرنا پڑتے ہیں ۔ اور یہیں پر بس نہیں بلکہ ان کی مجبوری ہے کہ ایک محدود مدت کے بعد سیٹ تبدیل کریں ، کوئی نیا سیگمنٹ شامل کریں ، کوئی نئی چول ماریں ، فیک کالز شامل کریں ، جھوٹی سٹوریاں بریک کریں ، اگر نہیں کریں گے ، تو ریٹنگ کا کوہ گران زمین بوس ہو جائے گأ ۔
ان میں شامل لوگوں کی حرکتوں سے اندازہ لگائیں ، کبھی کوئی جانور بنا ہوتا ہے ، کبھی کوئی ہیچڑا بنا ہوتا ہے ، کبھی کوئی مٹک مٹک کا ناچ رہا ہوتا ہے ، انہوں نے اس دوڑ میں شامل ہونے کے لیے کس طرح اپنی اخلاقیات و نفسیات کا سودا کیا ہوتا ہے ، محسوس نہیں ہوتا کہ یہ حقیقی دنیا میں جینے والے انسان ہیں ، یا کسی کمپنی سے تیار کروائے ہوئے روبوٹس ، جو بٹن کے اشارے پر سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں ، اور ان کی اپنی نہ کوئی سوچ ہے نہ فکر ۔
بتائیں ، ایکٹروں ، جغت بازوں کے اس ’ اکھاڑے ’ میں جو سراسر ، بناوٹ ، تصنع ، ریا کاری اور دھوکا اور فریب کے کچھ نہیں ، وہاں ایک شریف النفس انسان جو اسلامی تعلیمات کی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے ، کیونکر کامیاب ہوسکتا ہے ؟
مارننگ شوز لے لیں ، جو ان ٹی وی چینلز کا سب سے سیاہ اور مکروہ ترین چہرہ ہے ، جہاں ، حقیقت کے نام پر ، ادا کارائیں پیسے لے کر ٹسوے بہاتی ہیں ، فیک کالز کی جاتی ، اور سنی جاتی ہیں ، اسکرپٹ لکھ کر، لڑکوں ، لڑکیوں کو بٹھا کر لڑایا جاتا ہے ، صلح کروائی جاتی ہے ، زن و شو کے خصوصی تعلقات کو زیر بحث لانے کے لیے زبان و بیان کی چوریاں کی جاتی ہیں ، محارم و غیر محارم مرد و عورتیں تمام دینی و ملی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر ٹی وی سکرین پر ایسی گفتگو کرتے ہیں کہ وہ پروگرام جو ریکارڈ کرکے لائیو ظاہر کیا جارہا ہے ، اس میں اگر کچھ لائیو ہوتا ہے تو شرم و حیا کی نیلامی اور شرافت کی رخصتی ہوتی ہے ۔
جس رنگین ٹی وی سکرین کے یہ تقاضے ہیں ، بتائیں ، وہاں اخلاق کی تعلیم ، اور اذہان کی تربیت جیسا ’ خشک اور سادہ پروگرام ’ اپنے لیے جگہ کیسے بنا سکتا ہے ؟
میڈیا کی دور میں شامل ہونے کےلیے اس بات پر تو تقریبا سب متفق ہوگئے کہ تصویر ویڈیو وغیرہ جائز ہے ، یعنی مجبوری کا نام شکریہ ۔
لیکن مسئلہ یہی نہیں ، میڈیا تو ایک ہوس ہے ، جو تصویر کے بعد ، عورت کی تصویر ، پھر اس کے کپڑے مختصر ہوئے ، ساتھ شرافت کش حرکات کا اضافہ ہوا ، اور اس تنزلی کا اضافہ ہوتا رہے گا ، تآنکہ عورت و مرد سے اس کے کپڑے چھین لیے جائیں ، اوراس سے آگے کچھ نیا پیش کرنے کے لیے یہ لوگ پتہ نہیں کیا کریں گے ۔
اگر تبلیغ اسلام کے لیے آپ نے یہ محاذ چنا ہے تو کیا یہ سب کچھ کی اسلام اجازت دیتا ہے ؟
ابھی کچھ دانشور یہ کہنا شروع ہوگئے ہیں ، بلکہ کہنا کیا ، اسلامی ویڈیوز آنا شروع ہوگئی ہیں ، اسلام دشمن ، ملک دشمن فلموں کے ذریعے پراپیگنڈہ کرتے ہیں ، کچھ عبقری دماغوں کا یہ کہنا ہے کہ ان کے جواب میں اسی طرح فلمسازی ہونی چاہیے ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کی چیزوں میں عورتوں کا استعمال کرکے ، اسلام کی بنیادی اخلاقیات کا جنازہ نکال کر بھلے آپ اسلام کا ہی کوئی پیغام دے رہے ہیں ، لیکن کیا اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کے رستے میں عورت کے خد و خال کی نیلامی جائز ہے ؟!!! کیا تبلیغ دین کے لیے ، اسلام کے خلاف پراپیگنڈے کے جواب کے لیے سب کچھ جائز ہے ؟
یار میں تو کہتا ہوں ، یہ ہمارا میدان ہی نہیں ، اسلام پر اعتراضات ، حملے اسی دور میں تھوڑے شروع ہورہے ہیں ، شروع سے ہی کفر عورت کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے ، نادان مسلمانوں کو بھٹکانے کے لیے شروع سے ہی شراب و کباب کی مدد لی جاتی رہی ہے ، کیا اس وقت کے نابغوں نے جوابا اپنی بہو بیٹیاں میدانوں میں نکال لی تھیں ؟!
میرے بھائی جس طرح وہ لوگ ان بحرانوں سے نکل آئے تھے ، اور اسلام ہم تک مکمل پہنچ گیا ہے ، یقین مانیں اسلام کو اب بھی کچھ نہیں ہوگا۔... لیکن خدارا اس کی صاف شفات تعلیمات کا اپنے ہاتھوں سے جنازہ نہ نکالیں ، دھوکے سے باہر نکل آئیں ۔ اسلام کی بقا کی ذمہ داری اللہ کی ہے ، اور اللہ باطل طریقوں کو پسند نہیں کرتا ۔
Last edited: