• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میں اللہ تعالیٰ سے امید اور توقع رکھتا ہوں اور اس کے بعد پھر آپ سے امید رکھتا ہوں ؟

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محترم محمد نعیم بھائی میری یہ پوسٹ یہاں سے ھٹا کر کہیں اور منتقل کردیں ۔ معذرت اور منتقل کرنے کیلئے شکریہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
کیا اس طرح کہنا صحیح ھے!
"راجيا من الله ثم منكم"؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم بھائی !
"راجيا من الله ثم منكم" جس کا اردو میں مفہوم یہ ہے کہ " میں اللہ تعالیٰ سے (مدد اور عطا ) کی امید رکھتا ہوں اور اس کے بعد پھر آپ سے امید ہے "
اور کبھی " درخواست کرنے " کے معنی میں استعمال کرتے ہیں ،
فإنني أعرض على فضيلتكم عدة أسئلة، راجيا من الله ثم منكم الإجابة
میں جناب کی خدمت میں کچھ سوالات بھیج رہا ہوں ،اور "میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں اور اس کے بعد پھر آپ سے جواب کی امید رکھتا ہوں "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
من الشرك قول الإنسان: أرجو من الله ومنكم
یہ کہنا بھی شرک ہےکہ :" مجھے اللہ تعالی سے اور آپ سے امید ہے "
الخميس 10 رجب 1422 - 27-9-2001

رقم الفتوى: 10578

السؤال
حين يقرأ الإمام وقت العشاء الفاتحة وبعدها سورة ماذا أقرأ أنا هل أستمع بعد قراءة الفاتحة أم ماذا أفعل أرجو من الله ومنكم الإجابه با لتفصيل والشرح الوافي والله يحفظكم ويرعاكم.

سوال :نماز عشاء میں جب امام سورۃ فاتحہ اور اس کے بعدکسی سورۃ کی قراءت کر رہا ہوتا ہے تو فاتحہ کے بعد مجھے کیا کرنا چاہیئے ؟ کیا میں امام کی قراءت سنوں یا خود پڑھوں ؟
میں اللہ تعالی سے امید رکھتا ہوں اور آپ سے بھی امید رکھتا ہوں کہ مجھے تفصیل اور وضاحت سے جواب دیں گے ،اللہ آپ کو اپنی حفاظت اور رحمت میں رکھے ؛
الإجابــة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أما بعد:
فقبل الإجابة على سؤال السائل نود أن ننبه إلى شيء يخطئ فيه الكثير ، وهو قول السائل: أرجو من الله ومنكم ، وهذا يعد من الشرك الأصغر ، فقد روى النسائي وصححه عن ابن عباس أن رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم: ما شاء الله وشئت ، فقال:" أجعلتني لله نداً؟" بل ما شاء الله وحده والاقتصار على قولنا:" ما شاء الله وحده" مرتبة الكمال، كما قال صاحب فتح المجيد على شرح كتاب التوحيد ،

جواب : ہم چاہتے ہیں کہ اصل سوال کے جواب سے پہلے ایک غلطی اور خطا پر تنبیہ کردیں جس کا ارتکاب بہت سارے لوگ کرتے ہیں ، اور وہ غلطی یہ قول ہے کہ "ارجو من اللہ وارجو منکم " مجھے اللہ سے امید ہے اور آپ سے بھی امید ہے "
تو واضح رہے کہ یہ کہنا شرک اصغر میں شمار ہوتا ہے " امام نسائیؒ نے (عمل الیوم واللیلۃ ) اور امام احمد بن حنبلؒ نے مسند احمد سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : جوکچھ اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں ،آپ ﷺ نے اسے کہا کہ کیا تو نے مجھے اللہ تعالی کا شریک بنادیا ہے ؟ بلکہ صحیح بات تو یہ ہے جو صرف اللہ اکیلا چاہے (وہی ہوتا ہے ) دیکھئے "الفتح الربانی لترتیب مسند احمدؒ"
اور صرف " ما شاء اللہ وحدہ " کہنا ہی (توحید میں ) کمال ہے ،جیسا امام عبدالوہاب ؒ کی کتاب التوحید کی شرح فتح المجید میں اس کی تفصیل ہے ،
ويجوز أن تقول: ما شاء الله ثم شئت ، وأرجو من الله ثم منكم ، لحديث قتيلة بنت صفي الأنصارية أن يهودياً أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إنكم تشركون!! تقولون: ما شاء الله وشئت ، وتقولون: والكعبة. فأمرهم النبي صلى الله عليه وسلم إذا أرادوا أن يحلفوا أن يقولوا: "ورب الكعبة" ، وأن ويقولوا: "ما شاء الله ثم شئت" رواه النسائي وصححه ، ورواه أحمد في المسند ، وصححه الألباني.
اور " ماشاء اللہ ثم شئت " جو اللہ تعالی چاہے اور پھر جو آپ چاہیں " کہنا بھی جائز ہے ،اسی طرح " ارجو من اللہ ثم ارجو منکم " مجھے اللہ سے امید ہے اور پھر آپ سے امید ہے " کہنا بھی ایک حدیث کی بنا پر جائز ہوگا ،اس حدیث کو جہینہ قبیلے کی ایک عورت حضرت قتیلہؓ سے راویت ہے کہ ایک یہودی شخص نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اور کہا: تم بھی شرک کرتے ہو اور غیراللہ کو معبود بناتے ہو کیونکہ تم کہتے ہو: جو اللہ تعالیٰ چاہے اور آپ چاہیں۔ اور تم کعبہ کی قسم کھاتے ہو۔ تو نبی اکرمﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب وہ قسم کھانے لگیں تو کہیں: رب کعبہ کی قسم! اور کہیں جو اللہ تعالیٰ چاہے‘ پھر آپ چاہیں۔(سنن النسائی 3773 ،مسند احمد27093 ،مسند اسحاق بن راہویہ )علامہ البانیؒ نے اسے صحیح کہا ہے ۔
والفارق أن الواو تقتضي المشاركة بالتساوي ، وثم تقتضي المشاركة بالتبع ، فمشيئة العبد تابعة لمشئية الله ، كما هو معتقد أهل السنة والجماعة ، ودليله قول الله تعالى: (لمن شاء منكم أن يستقيم *وما تشاؤن إلا أن يشاء الله رب العالمين)[التكوير:29]
اور " ما شاء الله وشئت " جو اللہ تعالی چاہے اور جو آپ چاہیں " ۔۔ اور ۔۔" ما شاء الله ثم شئت "میں فرق یہ ہے کہ "( جو اللہ تعالی چاہے اور جو آپ چاہیں ) میں "واؤ " مشیت میں برابر کی شراکت کا معنی دیتی ہے ،اور( جو اللہ تعالی چاہے اور پھر جو آپ چاہیں) کہنے میں " ثم یعنی ( پھر اس کے بعد ) کا کلمہ بتاتا ہے کہ "بندے کی مشیت اللہ کی مشیئت کے تابع ہے "
اور یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے ،اور اس کی دلیل قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ : : (لمن شاء منكم أن يستقيم *وما تشاؤن إلا أن يشاء الله رب العالمين) یہ قرآن تو محض نصیحت ہے اس کے لیے جو تم میں سے چاہے کہ سیدھا چلے ،اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے، جو سب جہانوں کا رب ہے۔(سورۃ التکویر )
أما قراءة المأموم للفاتحة في الصلاة الجهرية ، فقد سبق بيان الخلاف فيها تحت الرقمين:1637 1740
وعلى القول بأن المأموم يقرأ الفاتحة فإنه ينصت بعدها لقراءة إمامه ولا يقرأ شيئا غيرها.
وأما الصلاة السرية فإن المأموم يقرأ الفاتحة وما تيسر من القرآن.
والله أعلم.

http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=10578
 
Top