• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نابینا نے بینا کر دیا۔۔۔۔۔ ایک سچی کہانی۔۔

شمولیت
اکتوبر 11، 2011
پیغامات
90
ری ایکشن اسکور
116
پوائنٹ
70
یہ کہانی سعودی عرب کے اخبار اردو نیوز میں 5-6 سال قبل چھپی تھی۔

نابینا نے بینا کر دیا
ابو عکاشہ، ریاض

میری عمر 30 سال کے لگ بھگ ہو گی جب ہمارے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا۔ میں وہ رات کبھی نہیں بھول پایا، میں رات گئے تک حسب معمول اپنے دوستوں کے ہمراہ ایک فارم ہاوس میں گپیں لگاتا رہا۔ ساری رات ہم فضول بکواس کرتے رہے۔ غیبت، چغلی، ٹھٹھا مزاق سے بھر پور رت جگا۔۔۔ اس رات تو میری شرارتیں عروج پر تھیں۔ دراصل مجھے نقلیں اتارنے کا فن آتا تھا۔۔ کسی بھی شخص کی نقل اتارنے میں مجھے لمحے لگتے ہیں۔۔ میرے دوست خوب ہنستے تھے۔ اس رات مجھے نجانے کیا شرارت سوجھی۔ شام کے وقت میں بازار سے گزر رہا تھا۔ ایک نابینا لوگوں سے بھیک مانگ رہا تھا۔میں نے اس کے سامنے اپنی ٹانگ رکھ دی اور وہ ٹکرا کر گر پرا۔۔ اس نے میری جانب رخ کیا اور بڑبڑاتے ہوئے ناجانے کیا کہتے ہوئے چل دیا اور ادھر میں اپنی اس حرکت پر نادم ہونے کی بجائے قہتہے لگا رہا تھا۔ میں رات گئے گھر واپس آیا تھا۔ میری بیوی میرے انتظار میں تھی۔ مجھے دیکھ کر اس نے نہایت کرب سے کہا کہ، "راشد تم کہاں تھے!! " میں نےاس کو طنزاً جواب دیا۔ "مریح پر گیا ہوا تھا اور کہاں تھا !! اپنے دوست و احباب کے ساتھ تھا"۔ "اس نے بمشکل کہا" کے راشد میری طبیعت خراب ہے۔ لگتا ہے کے ولادت کا وقت قریب آ گیا ہے۔ اس کے آنسوں رخساروں پر گر پڑے۔ مجھے احساس ہوا کہ بلاشبہ میری غلطی ہے۔ ان ایام میں اس کی دیکھ بھال کرنا اور خیال رکھنا میری لیے ضروری تھا۔۔ میں اسے لے کر فوراً ہسپتال روانہ ہو گیا۔۔

کچھ دیر بعد ہسپتال سے فون آیا۔۔ مجھے "سالم" کے اس دنیا میں آنے کی خوشحبری دی گی۔ میں فوراً ہسپتال روانہ ہو گیا۔ میں نے اپنی بیوی اور نومولود کے بارے میں جاتے ہی پوچھا۔ ادارے والوں نے کہا کے تم اس لیڈی ڈاکٹر سے مل لو جو اس کیس کی انچارج تھی۔ میں اس ڈاکٹر سے ملا تو اس نے مجھے اندونہاک خبر دی۔ ۔ نومولود کی آنکھوں میں سوزش ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ کبھی دیکھ نا پائے گا۔ وہ نابینا ہے!! ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے سر کو جھکا لیا۔۔ میری آنکھوں کے سامنے رات والا نابینا آ گیا!! میرا رخ اپنی بیوی کے کمرے کی طرف تھا۔ وہ صبر و شکر کا نمونہ بنے بیٹھی تھی۔ اس نے کتنی ہی بار مجھے نصیحت کی تھی کہ میں لوگوں کا مذاق نا اڑایا کروں۔ غیبت اور چغلی نہ کیا کروں!!

ہم آگلے روز ہسپتال سے گھر آگئے۔ سالم بھی آپنی والدہ کے ہمراہ تھا۔ سچ پوچھیں تو مجھے سالم سے کوئی محبت نہیں تھی۔ بس ایسا سمجھ لیں کے وہ گھر میں موجود نہیں۔ ۔ سالم آہستہ آہستہ بڑا ہوتا چلا گیا۔۔ جب اس کہ عمر ایک سال سے زیادہ ہوئی تو اس نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا ۔۔ اس کے چلنے سے صاف پتہ چلتا تھا کے اس میں لنگڑا پن بھی ہے۔ سالم کے بعد دہ اور بیٹے عمر اور خالد پیدا ہوئے۔ سال گزر گئے۔۔ میرے بچے بڑے ہو ئے مگر میرے شب و روز میں کوئی فرق نہیں آیا۔ میں گھر میں بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ ہمیشہ اپنے دوستوں کی محفلوں میں رہتا۔ میں سالم کے علاوہ بیٹوں سے شدید محبت کرتا تھا مگر سالم سے میرا تعلق بلکل واجبی سا تھا بلکہ سچ پوچھیں تو نہ ہونے کے برابر۔۔

وہ جمعہ کا دن تھا۔ میں 11 بجے سو کر اٹھا۔ میں آج معمول سے پہلے اٹھ گیا۔ دراصل مجھے دعوت ولیمہ میں شرکت کرنا تھی۔ میں نے اپنا نیا لباس پہنا، عطر لگایا اور گھر سے باہر جانے لگا۔ میں اپنے کمرے سے نکلا تو دیکھا کے سالم زارو قطار رو رہا ہے۔ میں اپنے قدموں پر رک گیا۔ ذندگی میں پہلی بار سالم کو روتے ہوئے دیکھا تھا۔ 10 سال گزر چکے تھے۔ میں نے کبھی اس کی طرف توجہ نہیں کی تھی۔ میں نے پھر بھی اس کی طرف توجہ نہ کی۔ میری خواہش یہی تھی کے میں تیزی سے اس کے پاس سے گزر جاؤں۔۔ وہ اپنی والدہ کو بلا رہا تھا۔ نجانے کون سا جذبہ تھا کہ میں اس کی طرف بڑھا۔ پھر اس کے قریب ہوا اور بولا۔ "سالم! تم کیوں رو رہے ہو!!" جب اس نے میری آواز سنی تو رونا بند کر دیا۔ جب اسے احساس ہوا کے میں اس کے قریب آیا ہوں تو اس نے اپنے ہاتھوں کو ادھر اٰدھر لہرایا کے میں اسے کے قریب تو نہیں۔ جب اسے محسوس ہوا کے میں اس کے قریب ہی کھڑا ہوں تو وہ ایک طرف سمٹنے لگا۔ مجھے احساس ہوا کہ وہ مجھ سے دور ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ گویا مجھے اس بات کا احساس دلا رہا تھا کہ اب تمہیں 10 سال کے بعد میرا خیال آہا ہے۔ میں نے پھر پوچھا۔ "سالم بیٹے، تم کیوں رو رہے ہو؟!!" مگر اس نے رونے کا سبب بتانے سے انکار کر دیا۔ میرے اصرار پر سالم نے رونے کا سبب بیان کرنا شروع کیا۔ میں نے اس کی بات سنی تو حیران و ششد ر رہ گیا۔ آج اس کا بھائی عمر لیٹ ہو گیا تھا۔۔ جو اسے وقت سے پہلے مسجد لے کر جاتا تھا۔ چونکہ یہ جمعہ کا دن تھا۔ اس لیے اسے ڈر تھا کے تاخیر کی وجہ سے کہیں اسے پہلی صف میں جگہ نا ملے۔

میں نے آگے بڑھ کر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے اور پوچھا۔ "سالم! تم صرف اس وجہ سے رو رہے تھے کہ مسجد میں جانے سے تاخیر ہو گئی ہے؟" اس نے جواب دیا ۔ " ہاں" ۔ پھر کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ میری ذندگی میں انقلاب آ جکا تھا۔ ۔۔ اب تو میں اپنے دوستوں کو بھول گیا۔ ۔۔۔ میں نے سالم کو مخاطب کیا اور کہنے لگا۔۔ "سالم، پریشان نہ ہو ، غم نہ کرو۔ ۔۔۔ تمہیں معلوم ہے کہ آج تمہیں مسجد چھوڑنے کون جائے گا؟؟ کہنے لگا یقینا عمر جائے گا! میں نے کہا نہیں ! آج تمہارا بابا تمہیں مسجد چھوڑنے جائے گا!۔۔ سالم حیران رہ گیا۔۔ اٰسے یقین نہیں آیا۔۔ اٰسے گمان ہوا کے میں اٰس سے مذاق کر رہا ہوں۔۔ میں نے اٰس کا بازہ پکڑا اور اٰس کو گاڑی کی طرف لے چلنے لگا۔۔

مجھے یاد نہیں تھا کہ میں آخری بار کب مسجد گیا تھا مگر یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے اتنی مدت کے بعد ندامت اور شرمندگی محسوس ہوئی کہ میرا رب سے تعلق نہ ہونے کے برابر تھا۔۔۔۔۔۔ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ ہم نے خطبہ جمعہ سنا۔ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو سالم میرے پہلو میں کھڑا تھا۔ نماز ختم ہوئی تو سالم نے سورۃ الکہف کی تلاوت شروع کر دی۔ اسے پوری سورت ذبانی یاد ہے۔۔ میں نے نے تعجب سے سر ہلایا۔

مجھے شدید خجالت محسوس ہوئی۔ میں نے قرآن پاک کا نسخہ پکڑا۔ سورۃ الکہف نکالی ۔ میرے اعصاب پر رعشہ طاری ہو گیا۔۔ پھر میں نے قرآن پاک پڑھنا شروع کر دیا۔ میں پڑھتا رہا۔۔ کتنی ہی دیر پڑھتا رہا۔ اپنے رب سے اپنی ہدایت کی دعا مانگتا رہا۔ اور پھر میں اپنے اوپر قابو نا رکھ سکا۔ میں نے رونا شروع کر دیا۔ اپنے کرتوتوں کو یاد کر کے اپنے سابقہ اعمال ، اپنی غلطیاں، اپنے گناہ، میری آنکھوں کے سامنے تھے۔ میں بچوں کی طرح بلکورے لینے لگا۔ میں نے کوشش کی کے اپنی آواز کو آہستہ کر سکوں اور پھر میری آواز آہستہ ہوتی چلی گئٰ۔ اب میں آہیں پھر رہا تھا۔۔ میرے منہ سے ہلکی ہلکی آوازیں نکل رہیں تھیں۔ آچانک ایک ننھا منا ہاتھ میرے چھرے کو صاف کر رہا تھا۔ پھر اس نے میرے آنکھوں سے آنسو صاف کیے۔ یہ میرا بیٹا سالم تھا۔ میں نے اسے گلے لگا لیا ۔ میں نے اس کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھا اور اپنے دل میں کہا کہ "سالم! تم اندھے نہیں ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ دراصل میں ہی اندھا ہوں"۔ پھر میری ذندگی میں انقلاب برپا ہو گیا۔ اس روز سے میری کوئی نماز قضا نہیں ہوئی۔ میں نے بری سوسائٹی کو خیر آباد کہہ دیا۔ ان کی بجائے مسجد کے نمازیوں میں سے بہترین افراد کو دوست اور ساتھی بنا لیا۔۔۔ میں نے ایمان کا زائقہ چکھا۔۔ دین کے حوالے سے کتنی ہی چیزیں ان سے سیکھیں۔ پھر تو میری یہ حالت تھی، حلقہ درس، کوئی دینی پروگرام، میں اس سے علیحدہ نہیں ہوتا تھا۔ قرآن پاک کی تلاوت میرا معمول بن گئی۔ مہینہ میں ایک بار تو ضرور قرآن پاک ختم کرتا۔ میری زبان پر زکرو ازکار رہتا۔ اپنا ماضی یاد آتا تو اور کثرت سے زکر و ازکار کرتا کہ شاید اللہ تعالئ میرے سابقہ گناہ معاف فرما دے۔

ایک دن مجھ سے کچھ ساتھیوں نے کہا کے ہم دعوت دین کے لیے دور کسی ملک میں جانا چاہتے ہیں۔ تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔۔۔۔۔ میں نے استخارہ کیا۔۔ اپنی بیوی سے مشورہ لیا۔۔ میرا خیال تھا کہ وہ تو ضرور انکار کرےگی مگر معاملہ بلعکس تھا۔۔ میں اس کے ردعمل پر بڑا خوش ہوا۔۔ اس نے میری حوصلہ افزائی کی۔۔۔ اور پھر میں تبلیغی دورے پر روانہ ہو گیا۔۔ !!

گھر سے نکلے مجھے تین ماہ سے زائد گزر چکے تھے۔ اس دوران متعدد بار گھر والوں سے فون پر بات چیت کی مگر ناجانے کیوں سالم سے بات نہ ہو سکی۔ جب بھی بات ہوتی تو یا تو وہ سکول گیا ہوتا، یا مسجد میں، یا سو رہا ہوتا۔ پھر وہ وقت بھی آ گیا جب میں گھر واپس آیا۔ میں نے دروازے پر دستک دی۔ میں تصور میں دیکھ رہا تھا کہ سالم سب سے پہلے میرا استقبال کرے گا۔۔ غالباً دروازہ وہ ہی کھولے گا لیکن مجھے بڑا تعجب ہوا سالم کی بجائے میرا چار سالہ بیٹا بابا، بابا کہتا میرے ہاتھوں میں جھول گیا۔۔ گھر میں داخل ہوا۔۔ بیوی استقبال کے لیے آگے بڑھی۔ اس کا چہرہ بدلا ہوا نظر آیا، ہر چند کے چہرے پر مسکراہٹ تھی مگر اس سے تصنع اور بناوٹ نظر آئی۔ میں نے ذرا غور کیا اور پھر پوچھا، "خیر تو ہے۔۔ ؟" تمہیں کیا ہوا؟ ۔۔۔ کہنے لگی ۔۔۔ "کوئی بات نہیں۔۔" اور پھر اچانک مجھے سالم یاد آیا۔ سالم کدھر ہے۔۔۔!!!!!

میری بیوی نے سر جھکا لیا ۔۔ کوئی جواب نہیں دیا۔۔ اس کے چہرے پر موٹے موٹے آنسوؤں کے قطرے نظر آئے۔۔۔۔۔ میں اچانک چیخا۔۔۔۔ سالم۔۔۔۔۔۔ سالم کہاں ہے؟ میرا بیٹا خالد آگے بڑھا۔۔ اپنی توتلی ذبان میں کہنے لگا۔۔ بابا۔۔۔ "سالم جنت میں چلا گیا ہے ۔۔۔ اللہ کے پاس" ۔۔۔ میری بیوی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔۔۔ وہ زور زور سے رونے لگی۔۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ میرے آنے سے دو ہفتہ قبل سالم کو بخار ہوا تھا۔۔ میری بیوی نے اسے ہسپتال داخل کروایا مگر بخار تیز ہوتا گیا اور سالم فوت ہو گیا۔۔۔۔۔
 
Top