• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ناخن کترانے کی حدیث کو ضعیف ماننے پر بعض علماء برص میں مبتلاء ہوگئے

شمولیت
نومبر 07، 2013
پیغامات
76
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
47
شیخ @اسحاق سلفی کیا یہ روایت صحیح ہے؟

علامہ شہاب الدین خفاجی مصری الحنفی (رح) اپنی کتاب نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض میں فرماتے ہیں!

ایک حدیث ضعیف میں بدھ کے دن ناخن کتروانے کے بارے میں آیا ہے کہ یہ مورث برص ہوتا ہے، بعض علماء نے کتروائے کسی نے بربنائے حدیث منع کیا، فرمایا حدیث صحیح نہیں، چنانچہ فوراً برص میں مبتلا ہوگئے، خواب میں حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسم کی زیارت سے مشرف ہوئے، نبی کریم علیہ السلام سے اپنے حال کی شکایت عرض کی، نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا! تم نے سنا نہ تھا کہ ہم نے اس سے نفی فرمائی ہے۔ عرض کی حدیث میرے نزدیک صحت کو نہ پہنچی تھی، ارشاد ہوا : تمہیں اتنا کافی تھا کہ حدیث ہمارے نام پاک سے تمہارے کان تک پہنچی، یہ فرما کر حضور علیہ السلام نے اپنا دست مبارک ان کے بدن پر لگا دیا، فوراً اچھے ہوگئے اور اسی وقت توبہ کی کہ اب کبھی حدیث سن کر مخالفت نہ کروں گا۔
(نسیم الریاض، ج 1 پیروت، دارالفکر ص 344)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
کیا یہ روایت صحیح ہے؟

علامہ شہاب الدین خفاجی مصری الحنفی (رح) اپنی کتاب نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض میں فرماتے ہیں!
ایک حدیث ضعیف میں
بدھ کے دن ناخن کتروانے کے بارے میں آیا ہے کہ یہ مورث برص ہوتا ہے،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ناخن کاٹنے کے حوالے سے ، نہ تو کسی خاص دن کا حکم دیا گیا ہے ، اور نہ ہی کسی خاص دن میں ناخن کاٹنے سے منع کیا گیا ہے ۔
کسی بھی دن ناخن کاٹے جاسکتے ہیں ۔
حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
" لم يثبت في كيفيته ولا في تعيين يوم له عن النبي صلى الله عليه وسلم شيء " انتهى .
"المقاصد الحسنة"

(ص / 422) .
ناخن کاٹنے کی مخصوص کیفیت ، یا اس کے لیے کسی دن کی تعیین کے متعلق کوئی بھی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔
اور نسیم الریاض شرح شفا سے جس عبارت کا ترجمہ آپ نے نقل کیا وہ عبارت تو مجھے نہ مل سکی
تاہم یہی بات نسیم الریاض کے مصنف علامہ خفاجی کے ہم عصر اور ہم وطن علامہ عبدالرؤف مناوی نے
فيض القدير شرح الجامع الصغير میں لکھی ہے ،

وفي بعض الآثار النهي عن قص الأظافر يوم الأربعاء وأنه يورث البرص قال في المطامح: وأخبر ثقة من أصحابنا عن ابن الحاج وكان من العلماء المتقين أنه هم بقص أظافره يوم الأربعاء فتذاكر الحديث الوارد في كراهته فتركه ثم رأى أنها سنة حاضرة فقصها فلحقه برص فرأى النبي صلى الله عليه وسلم في نومه فقال له: ألم تسمع نهيي عن ذلك: فقال: يا رسول الله لم يصح عندي الحديث عنك. قال: يكفيك أن تسمع ثم مسح بيده على بدنه فزال البرص جميعا.
ترجمہ : ۔بعض
ضعیف آثار میں بدھ کے دن ناخن کتروانے کے بارے میں آیا ہے کہ یہ مورث برص ہوتا ہے، المطامح میں ہے کہ ایک ثقہ نے ابن حاج جو متقی علماء میں سے تھے ان سے نقل کیا ہے انہوں نے بدھ کے دن ناخن کتروائے کسی نے بربنائے حدیث منع کیا، تو ناخن نہ کاٹے، لیکن بعد میں عام چلن کو دیکھ کر کاٹ دیئے ،چنانچہ فوراً برص میں مبتلا ہوگئے، خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسم کی زیارت سے مشرف ہوئے، نبی کریم علیہ الصلاۃ و السلام سے اپنے حال کی شکایت عرض کی، نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا! تم نے سنا نہ تھا کہ ہم نے اس سے نفی فرمائی ہے۔ عرض کی حدیث میرے نزدیک صحت کو نہ پہنچی تھی، ارشاد ہوا : تمہیں اتنا کافی تھا کہ حدیث ہمارے نام پاک سے تمہارے کان تک پہنچی، یہ فرما کر حضور علیہ السلام نے اپنا دست مبارک ان کے بدن پر لگا دیا، فوراً اچھے ہوگئے اور اسی وقت توبہ کی کہ اب کبھی حدیث سن کر مخالفت نہ کروں گا۔ "))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس عبارت کی دو شقیں ہیں :
ایک تو یہ کہ بدھ کے دن ناخن کاٹنے سے منع والی روایت ضعیف ہے ،
(اور یہ ضعیف روایت کہاں ہے یعنی اس کا مخرج و مصدر کیا ہے وہ بھی ہمیں پتا نہیں )
اور نہ ہی یہ بات معلوم ہے کہ یہ کس درجہ ضعیف ہے ،
تو شرعی حکم کیلئے اس کی اسناد کی صحیح حالت معلوم ہونا ضروری ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری شق یہ ہے کہ :
یہ ایک خواب ہے ، اور خواب سے اللہ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کی کوئی بات ثابت نہیں ہوسکتی ،
ایسا خواب اگر سچا بھی ہو تو اس کا تعلق صرف دیکھنے والے سے ہوسکتا ہے ، تاہم کوئی شرعی حکم کسی کیلئے خواب سے ثابت نہ ہوگا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
عرض کی حدیث میرے نزدیک صحت کو نہ پہنچی تھی، ارشاد ہوا : تمہیں اتنا کافی تھا کہ حدیث ہمارے نام پاک سے تمہارے کان تک پہنچی،
یہ بہت خطرناک بات ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ کے نام سے جو بات کسی تک پہنچے ، وہ اسے بلا تحقیق فوراً تسلیم کرلے ۔
حالانکہ خود نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے :
( عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع» (صحیح مسلم ،مقدمہ )
ترجمہ :
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کافی ہے آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہ کہ جو سنے اس کو بیان کرے“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ غلط رویہ آج کل خطباء و مقررین میں عام پایا جاتا ہے ،
ان کا تکیہ کلام ہی یہ ہے کہ(( ایک حدیث میں آتا ہے ،))
وہ حدیث کہاں ہے اس کی خبر خطیب کے بڑوں کو بھی نہیں ہوتی ، جیسا کہ ہمارے ملک کا ایک گروہ اکثر یہ کہہ کر کام چلاتے ہیں کہ
" ایک حدیث کا مفہوم ہے "
حدیث کہاں ہے ؟ اور یہ مفہوم کس نے اخذ کیا اس کا انہیں بالکل علم نہیں ہوتا ۔
 
Top