آپ بجا فرما رہے ہیں کہ اس وقت ہمارے پاکستانی معاشرےمیں کئی ایک لرزا دینے والے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور ہو چکے ہیں لیکن حسن بھائی ہم ایسے کیوں کرتے ہیں کہ میڈیا یا دیگر ایسے مقامات میں ان برے لوگ کا اکثر ذکر کرتے ہیں جو ہمارے معاشرے کا زیادہ زیادہ بیس فیصد ہیں۔ہم ان کیوں نہیں ذکر کرتے جو کہ معاشرے صالح عنصر ہیں اور اسی فیصد ہیں۔برائی کا ذکر کرنا اسے اچھالنا اسے بیان کرنا میرے خیال میں یہ اسے شہ دینے کے مترادف ہے۔لوگوں کو اس کر طرف متوجہ کرنے کے برابر ہے۔خیر بطور عبرت کبھی کبھا ذکر کرنا پڑے تو انسان کردے لیکن اصل ان لوگوں کا ہی ذکر ہونا چاہیے جو اعلی اسلامی روایات و اقدار کے پاسدار ہیں۔
میں بھی انہی خیالات کا حامل ہوں۔
ویسے میں معاشرتی برائیوں کا ذکر صرف مضامین یا مقالہ جات یا مخصوص موضوع کی کتابوں میں کئے جانے کو ہی بہتر سمجھتا ہوں۔ فیس بک، فورمز اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع پر برائیوں پر تبصرے یا ان کے ذکر اذکار میں ملوث ہونے سے جہاں تک ممکن ہو گریز کرنا چاہیے۔ بلکہ زیادہ سے زیادہ اچھائیوں کا ہی ذکر کرنا آج کے دور میں ضروری ہو گیا ہے۔
آخر غیر بھی تو برائیوں کو چٹخارے لے لے کر بیان کرتے ہیں ، پھر ہم میں اور ان میں فرق ہی کیا رہ گیا؟ کیا صرف یہی کہ وہ مزہ لینے بیان کرتے ہیں اور ہم عبرت دلانے؟ مگر سوال تو یہ ہے کہ آج کے اس تیز رفتار تکنالوجی دور میں کتنے صالح لوگ باقی رہ گئے ہیں جو مزہ نہیں لیتے بلکہ عبرت حاصل کرتے ہیں؟ عبرت حاصل کرنے والا تو بڑا غیرتمند ہوتا ہے اور یہاں تو حال یہ ہے کہ غیرت نام کی چیز کیا ہوتی ہے نوجوان نسل نہیں جانتی!